مضطر بخاری: شاعری اور شخصیت

مختصر تعارف: مضطر بخاری

مضطر بخاری ضلع جالندھر تحصیل نکودر کے گاؤں منڈیالہ میں 1926ء میں پیدا ہوئے۔ بیس برس کی عمر میں اشعار کہنا شروع کیئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد راولپنڈی سکونت اختیار کی، 1950ء میں لاہور منتقل ہو گئے 1951ء میں پاک و ہند مشاعرہ میں شرکت کی۔ طفیل ہوشیار پوری، مظفر وارثی ، روحی کنجاہی ، شوق عرفانی، اختر سدیدی ، قمر لدھیانوی قتیل شفائی، صائم چشتی، حبیب جالب، فیض احمد فیض، بے دل کانپوری اور خصوصاً اپنے ہم لباس و ہم وضع ساغر صدیقی کے ساتھ لاہور میں ایک وقت گزارا۔

1962ء میں مظفر گڑھ آ کر مسکن بنایا جہاں حضرت کشفی الاسدی ( مرحوم ) عبدالمجید راہی ( مرحوم ) ذاکر عثمانی اور دیگر ہمعصر شعراء سے سلسلہ رفاقت رہا، آپ نے بارہ برس تک برہنہ پا و برہنہ جسم ایک لنگوٹی میں مرشد کے حکم پر گزارے۔ 1971ء میں مرشد کے حکم پر رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ ہزاروں عقیدت مند لوگ آپکے دست حق پر بعیت ہوئے اور فیض پایا، آپ حضرت مضطر بخاری ہندی پنجابی اور اردو میں کلام کہتے ہیں۔ زیادہ تر غزل بہت پسند ہے۔ آپکی غزلوں میں زیادہ تر سوز کی کیفیات ملتی ہیں۔ آپکے ہاں نظم،
مسدس، رباعیات اور قطعات بھی ملتے ہیں۔


لفظِ رنجش پہ کوئی بات بھی ہو سکتی ہے
 عین ممکن ہے ملاقات بھی ہو سکتی ہے

 سر پہ اس واسطے سورج کو اٹھا رکھا ہے
 آپ سے ملتے ہوئے رات بھی ہو سکتی ہے

 زندگی پھول ہے خوشبو ہے مگر یاد رہے
 زندگی گردشِ حالات بھی ہو سکتی ہے

 چال چلتے ہوئے شطرنج کی بازی کے اصول
 بھول جاؤ گے تو پھر مات بھی ہو سکتی ہے 

عشق نے اس لیے کشکول سنبھالے رکھا
 حسن کے ہاتھ میں خیرات بھی ہوسکتی ہے

 ہم نے یہ سوچ کے رکھا ہے قدم گلشن میں
 لالہ و گل میں تری ذات بھی ہو سکتی ہے 

ایک تو چھت کے بنا گھر ہے ہمارا مضطر 
اس پہ یہ خوف کہ برسات بھی ہو سکتی ہے

مضطر بخارى

ہم فقیروں کو برائی سے سروکار نہیں
ہم زمانے میں فرشتوں کی طرح رہتے ہیں

لوگ کہتے ہیں برا ہم کو تو حیرت کیا ہے
کہنے والے تو خدا کو بھی برا کہتے ہیں

زمین و آسمان و بحر و بر سے
گزر جانے دو مجھ کو خشک و تر سے

کھلی آب و ہوا سے کھیلنے دو
بڑی مشکل سے میں نکلا ہوں گھر سے

حاکمِ وقت سے کہہ دو کہ مجھے قتل کرے
ورنہ اس شہر ِمحبت میں قیامت ہو گی

اپنے چہرے کی سیاہی کو چھپا لو ورنہ
آئینہ سامنے آیا تو ندامت ہو گی


گم ہے جو تیری آنکھ کا منظر تلاش کر
باہر جو کھو گیا ہے، وہ اندر تلاش کر!!


جو تجھ کو تیری ذات سے باہر نکال دے
دشت جنوں میں ایسا قلندر تلاش کر
مضطر بخاری


بیچ منجدھار میں کشتی کو ڈبونا ہے اگر!
خشک ہوتے ہوئے دریا سے کنارا کر لو


یا تو پر کھول کے اُڑ جاؤ بہت دُور کہیں
یا تڑپتے ہوئے لوگوں میں گزارا کر لو

ظلمت و جبر کا ہر نقش مٹا سکتے ہیں
ہم اگر چاہیں تو سورج کو جلا سکتے ہیں

جوش میں آئیں تو پھر راہ کے ذرے کیا ہیں
ایک ٹھوکر سے پہاڑوں کو اُڑا سکتے ہیں


ہم میں جرأت بھی ہے اور قوتِ پرواز بھی ہے
ہم فلک بوس چٹانوں پہ نظر رکھتے ہیں


اپنا انداز نرالا ہے کہ بیٹھے بیٹھے
سب پرندوں کی اُڑانوں پہ نظر رکھتے ہیں

کیسے اظہار کروں اپنی وفا کا ان سے
میں ابھی سوچ رہا تھا وہ برا مان گئے


لوگ ہر جائی ہوا کرتے ہیں رسماََ ان سے
بس یہی میں نے کہا تھا وہ برامان گئے
مضطر بخاری


عقل کے راستے پر چلو گے اگر
عشق کھو جائے گا ، عشق مر جائے گا
مجھ کو تنہا اگر تم گئے چھوڑ کر
عشق کھو جائے گا ، عشق مر جائے گا

راستے خوبصورت، حسیں منزلیں
ساتھ ہو ہمسفر کوئی تم سا حسیں
ساتھ تم نہ ہوئے گر مرے ہمسفر
عشق کھو جائے گا ، عشق مر جائے گا

پیار مانگو اگر زندگی کے لئے
پیار ملتا ہے بس دو گھڑی کے لئے
پیار دے کر مجھے پھیر لی جو نظر
عشق کھو جائے گا ، عشق مر جائے گا

ساتھ چلتے رہو ‘ بات کرتے رہو
عمر کٹ جائے گی ساتھ چلتے ہوئے
رک گئی زندگی گر کسی گام پر
عشق کھو جائے گا ، عشق مر جائے گا

چاند سورج زمیں دلکشی کے لئے
دلنشیں وادیاں ہیں تمہارے لئے
ہاں اگر کھو گیا تم سے حسنِ نظر
عشق کھو جائے گا ، عشق مر جائے گا

ہم نے مانا کہ ہم بھی خطا کار ہیں
کوئی غلطی اگر ہو گئی پیار سے
اور کر نہ سکے آپ جو در گزر
عشق کھو جائے گا ، عشق مر جائے گا

اے مری جاں کبھی وقت رکتا نہیں
چلتے چلتے اگر تم ٹھہر جاؤ گے
بات سن لو ہماری جو ہے مختصر
عشق کھو جائے گا ، عشق مر جائے گا

یاد رکھنا ہماری ملاقات کو
دوریوں کا ہمیں اب کوئی غم نہیں
زندگی ہو ہی جائے گی اپنی بسر
عشق کھو جائے گا ، عشق مر جائے گا

خوف آنے لگا ہے بڑا عشق سے
لوٹ لے نہ زمانہ کہیں عشق کو
عشق میں ہو گئے ہم اگر در بدر
عشق کھو جائے گا ، عشق مر جائے گا

شوق کے سائے میں چار دن کے لیے
بیٹھنا ہو گا بچ کر کڑی دھوپ سے
سوکھ جائے گا جب حسرتوں کا شجر
عشق کھو جائے گا ، عشق مر جائے گا

زخم کھاتے رہے ہجر میں ہم سدا
خون رستا رہا غم کی آغوش سے
تو نہ آیا اگر اے مرے چارہ گر
عشق کھو جائے گا ، عشق مر جائے گا

لوٹ آؤ گے مضطر تسلی بھی ہے
ہاں اگر آ سکو نہ کبھی لوٹ کر
یہ بتاتے چلیں ہم تمہیں خاص کر
عشق کھو جائے گا ، عشق مر جائے گا
مضطر بخاری

⭐⭐⭐


عشق مرتا نہیں اے مری جانِ جاں
عشق ہے سخت جاں ، عشق مرتا نہیں
عشق لکھتا رہا عشق کی داستاں
عشق ہے سخت جاں ، عشق مرتا نہیں

عشق ہے زندگی ، عشق ہے بندگی
عشق ہے آگہی ، عشق ہے روشنی
عشق شمس و قمر ، عشق ہے آسماں
عشق ہے سخت جاں ، عشق مرتا نہیں

عشق صدق و یقیں ، عشق کرب و بلا
عشق آلِ نبی ، عشق صبر و رضا
عشق پیغمبری، عشق کون و مکاں
عشق ہے سخت جاں ، عشق مرتا نہیں

عشق مظلوم ہے ، عشق صابر بھی ہے
عشق دریا بھی ہے ، عشق ساگر بھی ہے
عشق شام و سحر ، عشق کارِ جہاں
عشق ہے سخت جاں ، عشق مرتا نہیں

عشق ہے بحر و بر ، عشق تحت الثریٰ
عشق بوئے چمن، عشق رنگِ حنا
عشق ہر پھول ہے ، عشق ہے گلستاں
عشق ہے سخت جاں ، عشق مرتا نہیں

عشق دیوار و در ، عشق هجر و شجر
عشق ہے فاصلہ ، عشق محوِ سفر
عشق کے زیرِ پا منزلوں کے نشاں
عشق ہے سخت جاں ، عشق مرتا نہیں

عشق ہابیل ہے ، عشق قابیل ہے
عشق ہے آرزو ، عشق تکمیل ہے
عشق موجِ ظفر ، عشق روحِ رواں
عشق ہے سخت جاں ، عشق مرتا نہیں

عشق ہاروت ہے ، عشق ماروت ہے
عشق حیران ہے ، عشق مبہوت ہے
عشق ہے گلستاں ، عشق ہے بوستاں
عشق ہے سخت جاں ، عشق مرتا نہیں

عشق گلزار ہے، عشق ہی نار ہے
عشق سینہ سپر ، عشق تلوار ہے
عشق تحریرِ حق ، عشق شعلہ بیاں
عشق ہے سخت جاں ، عشق مرتا نہیں

عشق آدم بھی ہے ، عشق نادم بھی ہے
عشق ہے تاجور ، عشق خادم بھی ہے
عشق شہ زور ہے ، عشق ہے ناتواں
عشق ہے سخت جاں ، عشق مرتا نہیں

عشق ہی دین ہے ، عشق ایمان ہے
عشق انجیل ہے ، عشق قرآن ہے
عشق روحِ خدا ، عشق رب کی زباں
عشق ہے سخت جاں ، عشق مرتا نہیں

عشق عزمِ سفر ، عشق حسنِ نظر
عشق چشمِ وفا ، عشق رنگِ سحر
عشق ہے ہر بشر ، عشق جانِ جہاں
عشق ہے سخت جاں ، عشق مرتا نہیں

عشق ہی سنگ ہے ، عشق ہی موم ہے
عشق ہی نور ہے ، عشق ہی رنگ ہے
عشق کے پاس ہے پتھروں کی زباں
عشق ہے سخت جاں ، عشق مرتا نہیں

عشق تختِ سلیماں کی تصویر ہے
عشق مشکل کشائی کی شمشیر ہے
عشق ہے چارہ گر ، عشق ہے امتحاں
عشق ہے سخت جاں ، عشق مرتا نہیں

عشق یعقوب ہے ، عشق ایوب ہے
عشق محبوب ہے ، عشق مطلوب ہے
عشق زیر و زبر ، عشق سود و زیاں
عشق ہے سخت جاں ، عشق مرتا نہیں

عشق گھاؤ بھی ہے ،عشق مرہم بھی ہے
عشق ہے تشنگی ، عشق زم زم “ بھی ہے
عشق تعبیر ہے ، عشق خوابِ گراں
عشق ہے سخت جاں ، عشق مرتا نہیں

عشق تقدیر ہے ، عشق تدبیر ہے
عشق عباس ہے ، عشق شبیر ہے
عشق دار و رسن ، عشق غم کی زباں
عشق ہے سخت جاں ، عشق مرتا نہیں

عشق ہی سوز ہے ، ، عشق ہی ساز ہے
عشق ہے نغمہ گر ، عشق آواز ہے
عشق مضطر محبت کا ہے راز داں
عشق ہے سخت جاں ، عشق مرتا نہیں

مضطر بخاری
⭐⭐⭐

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے