مہاتما گاندھی, جو پہلی مرتبہ ایک وکیل کی حیثیت سے عدالت میں گیا تو اس کی ٹانگیں لڑ کھڑانے لگیں اور بولنے سے پہلے اس کا گلا رندھ گیا۔
مہاتما گاندھی: ایک عظیم شخصیت
نصف صدی قبل ہندوستان میں ایک چھوٹے سے قد کا آدمی تھا جو دھوتی پہنے ہوتا تھا۔ اکثر چار پائی پر لیٹا مرن بھرت کا اعلان کر دیا کرتا۔ ساری دنیا کے اخبارات نمایاں حروف میں یہ خبر شائع کیا کرتے تھے۔ یہ شخص مہاتما گاندھی تھا۔ جو اپنے زمانے کی ایک عظیم شخصیت تھا۔
جہاں تک دولت کا تعلق ہے تو مہاتما گاندھی ایک غریب آدمی تھا۔ اگر وہ اپنی ساری جائداد فروخت کر دیتا تو اسے تین پونڈ سے زائد نہ ملتے۔ اس کے باوجود وہ دنیا کے امیر ترین افراد سے زیادہ بااثر ہے۔ جسمانی طور پر وہ بڑا کمزور تھا۔ تشددکا بالکل حامی نہیں تھا۔ اس کے باوجود اس کی تعلیمات اور روحانی اثرات سینکڑوں جنگی جہازوں سے زیادہ تھے۔
دنیا کا ہر چھٹا آدمی ہندوستان کا باشندہ ہے۔ صدیوں سے ہندوستان کے لوگ سوئے پڑے تھے۔ پھر اس چھوٹے سے آدمی نے کہ جس کا وزن ایک سو پونڈ سے بھی کم تھا۔ اپنے ہم وطنوں کو ان کی بے پناہ قوت کا احساس دلایا اور اس نے ایسی اصلاحات کا اجراء کیا جو تاریخ عالم میں بڑا گہرا اثر رکھتی ہیں۔
گاندھی ایک عجیب انسان
گاندھی ایک عجیب و غریب انسان تھا۔ مثلاً اس کے سارے دانت مصنوعی تھے۔ ان دانتوں کو وہ اپنی دھوتی کے ڈب میں ڈالے رکھتا تھا اور صرف کھانے کے وقت انہیں نکالتا۔ کھانے کے بعد وہ دانتوں کو صاف کر کے دوبارہ ڈب میں رکھ دیتا۔
وہ آئرش انداز کی انگریزی بولا کرتا کیونکہ اس کا ایک استاد آئر لینڈ کارہائشی تھا۔ وہ صرف دھوتی باندھا کرتا تھا۔ جب وہ لندن میں تھا تو سوٹ کے ساتھ سر پر ریشمی فلٹ پہنتا اور ہاتھ میں چھڑی تھامے رکھتا۔ جب وہ پہلی بار ایک مقدمے کے سلسلے میں عدالت میں آیا اور اپنے موکل کے حق میں بولنے لگا تو اس کی ٹانگیں لرزیدہ ہوگئیں اور وہ اس قدر خوفزدہ ہوا کہ گھبرا کر بیٹھ گیا۔ ایک قسم کا احساس شکست اس پر حاوی ہو گیا۔
مہاتما گاندھی اور بائبل
ایک وکیل کی حیثیت سے وہ لندن میں بالکل ناکام رہا تھا۔ کئی سال پہلے جب وہ انگلینڈ میں وارد ہوا اور اس کے آئرش استاد نے اسے بائبل میں سے پہاڑ پر دعا بار بار نقل کرنے کے لئے کہا تا کہ اس کی انگریزی لکھنے کی خوب مشق ہو جائے تو گاندھی کئی گھنٹے تک بیٹھا یہ جملے لکھتا رہتا۔ وہ لوگ مبارک ہیں جو کہ مسکین ہیں۔ کیونکہ وہی زمین کے وارث ہوں گے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو امن پسند ہیں۔ کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیں گے۔ ان الفاظ کا گاندھی پر گہرا اثر ہوا۔
تھوڑے عرصے کے بعد اسے بہت سارے قرضے جمع کرنے کے لئے جنوبی افریقہ میں بھیجا گیا۔ وہاں پر اس نے پہاڑ پر دعا کے فلسفے کو آزمانے کی کوشش کی اور کامیاب رہا۔ عدالت کے باہر موکل پر امن طور پر جمع ہو گئے اور اس طرح سے ان کا پیسہ اور وقت بچ گیا۔ جلد ہی گاندھی کی سالانہ آمدنی تین ہزار پونڈ ہوگئی اور یہ مسکین زمین کا وارث بننے لگا۔ لیکن کیا وہ خوش تھا؟ بالکل بھی نہیں۔ کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اس کے لاکھوں ہم وطن نیم حیوانی زندگی گزار رہے تھے۔ اس نے بھوک کے مارے سینکڑوں آدمیوں کو مرتے دیکھا تھا۔ اسے دنیوی کامیابی بے معنی محسوس ہوئی۔ اس لئے اس نے اپنا سارا سرمایہ لٹادیا اور اپنے دل میں عہد کیا کہ وہ اپنے ملک اور اس کے غریب باشندوں کی حالت سدھارنے کی خاطر اپنی زندگی وقف کر دے گا۔
گاندھی نے یہ معلوم کرنے کے لئے کہ وہ کم از کم کتنی غذا پر گزر اوقات کر سکتا ہے۔ کئی تجربات کئے ، بعد میں وہ بکری کے دودھ ،پھلوں اور زیتون کے تیل پر گزربسر کرنے لگا۔
ڈیوڈ تھوریو کی سول نافرمانی
گاندھی ڈیوڈ تھوریو نام کے ایک امریکی کی تعلیمات سے بڑا متاثر ہوا۔ تھوریو نے قریباً ایک سو بیس سال پہلے ہاورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اس نے چھ پونڈ خرچ کئے اور ریاست میسا چوسٹس میں والڈن پانڈ کے کنارے تنہائی میں ایک چھوٹا سا کمرہ تعمیر کیا اور وہاں ایک تارک الدنیا کی سی زندگی بسر کرنے لگا۔
جب اس سے مختلف قسم کے ٹیکسوں کا مطالبہ کیا گیا تو اس نے دینے سے انکار کر دیا۔ اس جرم کی پاداش میں وہ قید میں ڈالا گیا پھر اس نے سول نافرمانی پر ایک کتاب تحریر کی اور بتایا کہ کسی شخص کو بھی ٹیکس ادا نہیں کرنے چاہئیں۔ لوگوں نے اس وقت تو کتاب پر ذرہ برابر توجہ نہ دی لیکن نوے سال کے بعد جب گاندھی نے ہندوستان میں اس کی کتاب کا مطالعہ کیا تو اس میں درج فارمولوں کو آزمانے کا فیصلہ کر لیا۔
برطانیہ نے اپنے وعدے کے مطابق ابھی تک ہندوستان کو آزاد نہیں کیا تھا۔ اس لئے برطانیہ کو سزا دینے کی خاطر گاندھی نے لوگوں کو اس بات کی ترغیب دی کہ وہ قید خانے کو ٹیکس پر ترجیح دیں۔ اس نے اپنے ماننے والوں سے کہا کہ ہر قسم کے انگریزی مال کا بائیکاٹ کر دیں۔ جب انگریزوں نے نمک پر ٹیکس لگا دیا تو گاندھی اپنے حواریوں کے ساتھ ساحل سمندر پر خود نمک بنانے کے لئے چلا گیا۔
مہاتما گاندھی: دیوتا کا اوتار
ہندوستان میں چھ کروڑ اچھوت رہتے ہیں۔ ہندو انہیں نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور خود پر ان کا سایہ تک نہیں پڑنے دیتے۔ اگر کسی اچھوت کا سایہ کسی ہندو کے کھانے پر پڑ جائے تو وہ کھانا قابل استعمال نہیں سمجھا جاتا۔ ہندوستان میں ان کی حالت قابل رحم ہے۔ لیکن گاندھی نے ان کے حقوق منوانے اور انہیں معاشرے میں ایک باعزت مقام دلانے کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔ اس نے ایک اچھوت بچی کو اپنا رکھا تھا اور حقیقی بچی کی طرح اس کی پرورش کی تھی۔
لاکھوں ہندو مہاتما گاندھی کو ولی سمجھتے تھے۔ بعض کے نزدیک وہ کسی ہندو دیوتا کا اوتار تھا۔ اس خود غرض اور لالچ سے بھری ہوئی دنیا میں اس شخص نے دوسروں کو زندہ رہنے کے حقوق دلانے کے لئے اپنی جان بھی قربان کر دی۔