نینو ٹیکنالوجی ایک ایسا جدید علمی شعبہ ہے جو ہماری معاشی ضرورت بنتا جا رہا ہے۔
پرسٹن انسٹیٹیوٹ آف نینو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد
سے
تحقیق کار "کامران امین” کی خصوصی اور برمحل رپورٹ۔
میں ایک ایسے شعبے کے بارے میں بیان کرنے لگا ہوں جس میں بہت تھوڑا کام ہوا ہے۔ لیکن جس میں بہت بڑی مقدار میں کام کیا جا سکتا ہے۔ میں آپ کو بہت مختصر پیمانے پر چیزوں کو کنٹرول کرنے کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔
"کیوں نہ ہم انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا کی 24 جلدیں سوئی کی نوک پر لکھ دیں ؟”
یه انقلابی الفاظ نوبل انعام یافتہ عظیم سائنسدان، رچرڈ پی فائن مین نے 29 دسمبر 1959ء کے روز امریکن فزیکل سوسائٹی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہے۔ ان ہی الفاظ کو نینو ٹیکنالوجی کے نقطہ آغاز سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
گزشتہ چند سال میں ایک لفظ جس نے دنیا کی توجہ اپنی جانب کھینچ رکھی ہے۔ وہ ہے "نیو!” اس لفظ نے نہ صرف سائنس اور انجینئر نگ کے تمام پہلوؤں کو بدل کر رکھ دیا ہے بلکہ اس کے حیران کن اثرات ہماری روز مرہ کی زندگی ، معاشیات، بین الاقوامی تعلقات اور اخلاقیات کو بھی متاثر کرنے لگے ہیں۔
مگر یہ "نینو” ہے کیا؟
تصور کیجئے… نہایت مختصر جسامت کا۔ انتہائی مختصر، اسکول کی خرد بین سے دیکھی جانے والی کسی چیز سے بھی مختصر جسامت کا …. ایٹموں اور سالموں کا …. اب آپ نینو میٹر تک پہنچ چکے ہیں۔ نینو دراصل کسی بھی چیز کے ایک اربویں حصے کو کہتے ہیں۔
ایک پین کی نوک تقریبا دس لاکھ نینو میٹر موٹائی کی حامل ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک عام وائرس محض 100 نینومیٹر جتنا بڑا، اور پروٹین کا ایک عام سالمہ لگ بھگ 10 نینو میٹر جسامت کا ہوتا ہے۔
ہماری انگلیوں کے ناخن بھی 1 نینو میٹر فی سیکنڈ کی شرح سے بڑھتے ہیں؟ اور ڈی این اے کا دوہرا چکر دار سالمہ بھی محض ایک سے دو نینو میٹر چوڑا ہوتا ہے۔
نینو اسکیل (نینو پیمانے) کی بنیاد ہی نینو میٹر ہے۔ یعنی ایک میٹر کا ارہواں حصہ ! آسان الفاظ میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ”نینو مادوں (nano-materials) میں وہ تمام مادے شامل ہیں جو 1 نینو میٹر سے 100 نینو میٹر تک کی حدود میں آتے ہیں۔
نینو سائنس ای پیمانے پر یعنی ایٹمی اور سالماتی پیمانوں پر، مادے میں رونما ہونے والے مظاہر کے مطالعے اور ان پر تحقیق کا نام ہے۔ اسی طرح نینوٹیکنا لوجی اپنی اصل میں نینو میٹر پیمانے پر آلات کی پیدا وار ، خصوصیات اور جسامت اور ساخت کو کنٹرول کرنے کا نام ہے۔ تاہم، نینو سائنس صرف مختصر اشیاء کا علم نہیں، بلکہ یہ تو ایک مکمل نئی دنیا ہے جسے ہم مجموعی طور پر کوانٹم مکینکس ( کوانٹم میکانیات) کے نام سے جانتے ہیں۔ اس پیمانے پر ماده با لکل مختلف طبیعی مظاہر دکھاتا ہے۔ جو اس کی جسامت پر منحصر ہوتے ہیں، اور بڑی جسامت والے مادوں سے قطعی مختلف بھی۔
انسانی زندگی میں مادے کی اہمیت جتانا گویا سورج کو چراغ دکھانے والی بات ہوگی۔
مختلف ادوار میں قوموں کے عروج و زوال میں مادے ہی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ زمامِ حکومت اور دنیا کی بادشاہی اسی قوم کے حصے میں آئی جو اپنے وقت کی ٹیکنالوجی پر نہ صرف مکمل عبور رکھتی تھی، بلکہ اس سے استفادہ کرتے ہوئے مادے کو اپنی ضروریات اور تقاضوں کے اعتبار سے ڈھالنے کی پوری صلاحیت سے بھی لیس تھی۔
یہ مادوں کو حسب منشاء استعمال کرنے کی قابلیت ہی تھی جس کی بناء پر آج ہم انسانی تاریخ کے مختلف ادوار کو نہ صرف مخصوص ناموں سے پہچانتے ہیں، بلکہ اُن ہی ناموں کے ذریعے اُن ادوار میں مجموعی انسانی ترقی کا تعین بھی کرتے ہیں۔ مثلاً پتھر کا زمانہ، لوہے کا زمانہ، تانبے کا زمانہ، اور بعد ازاں مشینوں کا زمانہ۔
غرض ہر دور کے انسان کی خواہش رہی ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر فائدے تلاش کرے۔ اسی تلاش میں انسان نے انجن بنایا۔ اپنی بھرپور کوشش کے بعد بھی آج تک انسان کے ایجاد کردہ انجنوں کی کارکردگی 35 فیصد سے زیادہ نہیں ہوسکی ہے۔ لیکن، ذرا سوچئے کہ اگر ہمارا جسم بھی مشینی انجن کی طرح ہوتا تو ہمیں موجودہ سے دگنی غذا استعمال کرنا پڑتی اور انسانی نسل کب کی قحط سے ختم ہو چکی ہوتی۔
شمسی سیل
اسی طرح انسان کے بنائے ہوئے شمسی سیلوں کی کارگردگی اب تک 20 فیصد سے زیادہ نہیں ہوسکی ہے مگر قدرت کے تخلیق کردہ درخت اس معاملے میں تقریبا سو فیصد کارگردگی کے حامل ہیں۔ آخر اللہ تعالی نے ان میں ایسا کیا رکھا ہے؟
ایک بڑھئی کو دیکھئے کہ وہ میز کیسے بنائے گا۔ ایک درخت کی لکڑی کو کاٹ چھانٹ کر اپنی مطلوبہ شکل تیار کرے گا۔ یعنی ایک بڑی چیز لے کر اس سے چھوٹے اجسام (ٹکڑے) تیار کرے گا۔ اس کے برعکس اللہ تعالی نے انتہائی چھوٹے چھوٹے اجسام یعنی مادے کے بنیادی اجزاء ( ایٹموں اور سالموں) کو ملا کر بڑے اجسام تیار کئے ہیں۔ تو کیوں نہ ہم بھی قدرت کی نقل کرتے ہوئے اشیاء تیار کریں جو بہتر کارکردگی کی حامل ہوں …. بس یہی نینو ٹیکنالوجی ہے۔
لغوی اعتبار سے دیکھا جائے، تو لفظ "نو” (nano) قدیم یونانی زبان سے آیا ہے، جس کا مطلب بونا ” (dwarf) ہے۔ لیکن آخر اس نینو میں ایسی کیا بات ہے کہ ایک دنیا اس کے سحر میں مبتلا ہے؟
اس سوال کے جواب میں کئی وجوہ بیان کی جاسکتی ہیں۔ سب سے پہلی یہ کہ نینو پیمانے پر مادے کی خصوصیات تبدیل ہو جاتی ہیں۔ جیسا کہ توانائی کی تبدیلی، جسے ہم طبیعی طور پر "کوانٹم اثرات” ( کوانٹم ایفیکٹس) کہتے ہیں۔ مثلاً ایک دھات میں نینو پیمانے پر پائی جانے والی خصوصیات، اسی دھات کی بڑی جسامت میں موجود خصوصیات سے مختلف ہوں گی۔ چاندی ہی کو لے لیجئے،
بڑے سائز میں چاندی کوئی زہریلے اثرات نہیں رکھتی، مگر اسی چاندی کے نینو ذرات، جراثیم کش مادے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
اسی طرح برقی ایصالیت (electrical conductivity)،
رنگ، مضبوطی اور کثافت جیسی خصوصیات بھی نینو پیمانے پر تبدیل ہو جاتی ہیں۔ مزید یہ کہ نینو پیمانے پر ایک بڑی تبدیلی حجم کے مقابلے میں سطح پر زیادہ ایٹوں کی موجودگی ہے۔ اس سے سطح پر منحصر ساری خصوصیات (جیسے کہ ایٹموں کے تعاملات اور عمل انگیزی کی صلاحیت ) بڑھ جاتی ہیں۔
روز ازل سے ہمارے ساتھ
مانا کہ لفظ نینو ٹیکنالوجی قدرے نیا ہے، اور بہت کم لوگ اس بارے میں جانتے ہیں۔ لیکن کیا نینو ٹیکنالوجی واقعتا کوئی نئی چیز ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس کی پروفیسر سلھا کلکرنی نے بتایا:
"نینو سائنس بالکل بھی نئی نہیں۔ یہ تو کائنات کی تخلیق سے موجود ہے۔ نظامِ قدرت میں تو یہ روزِِ اول سے موجود ہے۔“
آئیں! ماضی کا ایک سفر کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں نینو ٹیکنالوجی تاریخ میں کیسے موجود تھی۔ انسانی اور دوسرے حیوانی خلیوں کو نینو فیکٹریاں بھی قرار دیا جاتا ہے۔ دونوں میں ہونے والے تمام کام، نیٹو پیمانے کی سرگرمیاں ہی ہیں۔ جیسے کہ عمل تنفس سانس لینے کا عمل ) وغیرہ۔
اسی طرح کنول کا پتا مکمل ہائیڈرو فوبک ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ وہ پانی سے گیلا نہیں ہوتا۔ پتے کی سطح پر موجود، نینو جسامت کے ابھار، سطح اور پانی کے قطرے میں رابطے کا رقبہ بہت کم کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف پانی کا قطرہ بہہ جاتا ہے بلکہ اپنے ساتھ گرد بھی بہا لے جاتا ہے۔ یوں پتے کی صفائی ہو جاتی ہے۔
اسی طرح چھپکلی کے پاؤں میں موجود نینو سائز کے چپٹے ابھار اتنی وان ڈر والز قوت (van der Waals force) پیدا کرتے ہیں کہ چھپکلی بہ آسانی چھت سے چپکی رہتی ہے۔
یہی قوت عام حالات میں اتنی معمولی ہوتی ہے کہ نظر انداز کی جاسکتی ہے۔
آج سے چار ہزار سال پہلے کے مصری دور میں لوگ بال رنگنے اور حسن افزاء مصنوعات ( کاسمیٹکس) کی تیاری میں نینو ٹیکنالوجی استعمال کرتے تھے۔ بعد ازاں مثلاً چوتھی صدی عیسوی میں بنایا گیا لیکرگس کپ (lycurgus cup)، جو روشنی کے سامنے رکھنے پر اپنا رنگ بدلتا تھا، وہ بھی اپنے زمانے کی نینو ٹیکنا لوجی کا شاہکار تھا۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ اس زمانے کے لوگ نینو ٹیکنالوجی سے اس طرح واقف نہ تھے جیسے آج کا معاملہ ہے۔
مذکورہ لیکرگس کپ کی تیاری میں بہت کم مقدار میں سونے اور چاندی کے نینو ذرات استعمال کئے گئے تھے۔ یہ کپ آج بھی برٹش میوزم میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک اور مثال "دمشقی تلواروں کی ہے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کے زمانے سے ان تلواروں اور "فولادِ دمشق” کو خصوصی شہرت حاصل ہوئی۔ ان کے بارے میں کئی قصے بھی بہت مشہور ہوئے۔
رچرڈ شیر دل ( رچرڈ لائن ہارٹ ) اور صلاح الدین ایوبی میں ملاقات کا ایک واقعہ اس ذیل میں بطور خاص بیان کیا جاتا ہے۔ کسی موقعے پر رچرڈ شیر دل اور سلطان صلاح الدین ایوبی کا آمنا سامنا ہو گیا۔ رچرڈ نے تلوار نکال کر ایک قریبی فولادی ستون پر ماری اور اس کے دو ٹکڑے کر دیئے اور سلطان سے کہا:
"یہ ہے عیسائیت کی طاقت !”
جواب میں سلطان نے مسکرا کر نیام سے تلوار نکالی اور جیب میں سے ریشمی رومال نکال کر ہوا میں اچھال دیا۔ رومال، لہراتا ہوا زمین پر گرنے لگا تو سلطان نے اپنی تلوار کی دھار اس کے سامنے کر دی۔ تلوار کی دھار سے ٹکرانے پر یہ ریشمی رومال بڑی صفائی سے دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر زمین پر گر گیا۔ سلطان نے رومال کے وہ دونوں ٹکڑے اٹھائے اور رچرڈ کو دکھاتے ہوئے جواب دیا۔ "یہ ہے اسلام کی نفاست!” یہی وہ واقعہ ہے جس نے امریکہ کے کچھ ماہرین کو متوجہ کیا اور وہ "فولادِ دمشق” کی اصلیت جاننے کیلئے تحقیق میں مصروف ہو گئے۔
ان پر انکشاف ہوا کہ دمشقی تلواریں، جو دنیا میں بنائی گئی سب سے مضبوط تلواریں بھی سمجھی جاتی تھیں، وہ بھی نینو ٹیکنالوجی کا کرشمہ تھیں۔ تحقیق کاروں نے بتایا کہ تلواروں کی تیاری میں کاربن نینو ٹیوبز استعمال کی گئی تھیں۔ یہ تلواریں اپنی دھار کند کئے بغیر کسی بھی دوسری تلوار کے دو ٹکڑے کر کے رکھ دیتیں۔
ان تمام مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نینو ٹیکنالوجی سے واقف ہوئے بغیر بھی لوگ ماضی میں نینو ٹیکنالوجی استعمال کر رہے تھے۔
گزشتہ چند سال کے دوران نینو ٹیکنالوجی نے انتہائی تیز رفتاری سے ترقی کی ہے۔
صرف 2011 ء میں نینو ٹیکنالوجی کی بدولت تیار ہونے والی 1500 سے زائد مصنوعات مارکیٹ میں آ چکی تھیں۔ نینو ٹیکنالوجی یقینا ہماری زندگیوں اور رہنے کے انداز کو تبدیل کر دے گی۔ اس کے اطلاق کا وسیع شعبہ، زندگی کے ہر گوشے کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ نینو ٹیکنالوجی کی بدولت پہلے سے موجود اشیاء کی کارکردگی میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
اسی طرح زیادہ مضبوطی کے حامل نینو مادے بنائے جارہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ نینو ٹیکنالوجی سے کم خرچ اور پائیدار اشیاء کی تیاری بھی ممکن ہے۔ مختصر یہ کہ نینو ٹیکنالوجی کو بجا طور پر سائنس میں ایک انقلاب سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
نینو: چھوٹی اشیاء کی سائنس
سونے کی 6 سینٹی میٹر لمبی سلاخ کا تصور کیجئے ۔ زرد، چمک دار اور بھاری ہے ناں؟ سلاخ کے 4 برابر حصے کیجئے۔ ہر حصہ پہلے کی طرح زرد اور چمکدار ہوگا۔ اب اس سلاخ کے مزید چھوٹے حصے بنائے. مائیکرو میٹر جسامت کے۔ سونا اب بھی پہلے کی طرح زرد اور چمک دار ہوگا۔ ہر چھوٹا ٹکڑا اس بڑے ٹکڑے جیسی خصوصیات کا حامل ہو گا کہ جس سے اسے کاٹا گیا ہے۔ مگر جونہی آپ مائیکرو میٹر سے نینو میٹر کے پیمانے پر داخل ہوں گے تو سونا بھی بدل جائے گا۔
جی ہاں! نینو جسامت پر سونے کا رنگ، اس کی طبیعی اور کیمیائی خصوصیات یکسر تبدیل ہو جاتی ہیں۔ تو کیا آپ کالا سونا دیکھنا پسند کریں گے؟
اسی لئے نینو سائنس کو ” چھوٹی اشیاء کی سائنس بھی کہا جاتا ہے۔ آئندہ سطور میں ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ آخر نینو پیمانے پر ایسا کیا ہوتا ہے جو اشیاء کو کچھ سے کچھ بنا کر رکھ دیتا ہے۔ آج تک ہم پڑھتے آئے ہیں کہ کسی بھی چیز کی خصوصیات اس کے ایٹموں پر منحصر ہوتی ہیں۔ لیکن کیا سائز پر بھی اشیاء کی خصوصیات انحصار کرتی ہیں؟ جی ہاں…. مگر کیسے؟ آئیے، پڑھتے ہیں۔
عام طور پر سونا زرد اور چمک دار ہوتا ہے۔
مگر جب ہم سائز کم کرتے کرتے نینو میٹر کی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو یہی سونا نیلے، سرخ، بنفشی اور کئی دوسرے رنگوں میں نظر آتا ہے۔ اسی طرح چاندی عام استعمال کا بے ضرر عنصر ہے۔ مگر نینو سائز پر یہی چاندی، جراثیم کش کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔
ایسا اس لئے ہوتا ہے کیونکہ نینو جسامت پر اشیاء، نیوٹن کی طبیعیات (Newtonian Physics) کے قوانین کی تابعداری نہیں کرتیں۔ بلکہ کوانٹم میکانیات (Quantum Mechanics) کے قوانین کے زیر اثر کام کرتی ہیں۔ کوانٹم میکانیات دراصل ایٹم اور اس سے بھی چھوٹے ذرات کی توانائی اور حرکت کا مطالعہ کرنے کیلئے بنایا گیا سائنسی ماڈل ہے۔ چونکہ نینو مادے انتہائی مختصر ہوتے ہیں، اس لئے ان کی کمیت (Mass) بھی انتہائی کم ہوتی ہے۔
اس کی وجہ سے ان پر قوتِ ثقل ( gravitational force) کا اثر بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، ایٹموں اور سالمات کے طرز عمل پر برقی مقناطیسی قوت (electromagnetic force) زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔
بہت ہی مختصر اجسام، جیسے کہ الیکٹرون کیلئے ، ایک ذرے کے بجائے موج (Wave) کی خصوصیات غالب آجاتی ہیں۔
چنانچہ الیکٹرون ایک موج کی طرح برتاؤ کرتا ہے اور اسے ایک موجی تفاعل ( ویو فنکشن) سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ بڑی جسامت میں کسی بھی دھات کے الیکٹرون اپنی حرکت میں آزاد ہوتے ہیں۔ لیکن نینو جسامت میں اسی دھات کے الیکٹرون نسبتا کم جگہ تک محدود ہوتے ہیں۔
الیکٹرون صرف مخصوص توانائی کی حامل جگہوں پر پائے جاسکتے ہیں۔ اس اصطلاح کی زبان میں ” کو انٹائزیشن” (quantization) بھی کہا جاتا ہے۔ "کوانٹم ڈاٹس (quantum dots) وہ نینو مادے ہیں جو توانائی میں اسی کوانٹائزیشن کو ظاہر کرتے ہیں۔ سالمات اپنی حرکی توانائی کی وجہ سے بے ترتیب حرکت کرتے ہیں، جو ہر سطح پر موجود ہوتی ہے۔
بڑے سائز کے مادوں میں یہ حرکت بہت کم ہوتی ہے اور نظر انداز کی جاسکتی ہے۔ لیکن نینو جسامت پر سالموں کی یہ حرکت بہت ہی نمایاں ہو جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال براؤنی حرکت (Brownian motion) ہے۔
ہائیڈروجن بونڈنگ یا وان ڈر والز قوتیں
اکثر نینو مادے کئی سالمات سے مل کر بنتے ہیں۔ وہ قوت جو ان سالمات کو آپس میں جوڑے رکھتی ہے، بند (بونڈ) کہلاتی ہے۔ چنانچہ نینو سائنس کا تعلق، کیمیا کی اس شاخ سے بھی ہے جو سالمات کے آپس میں تعاملات سے تعلق رکھتی ہے۔
اس طرح مختلف سالمات کو ایک دوسرے سے باندھنے والی قوتیں ( Inter-molecular bonding)، جیسے کہ ہائیڈروجن بونڈنگ یا وان ڈر والز قوتیں بھی بہت کمزور سمجھی جاتی ہیں۔ مگر نینو جسامت پر جب صلح کا رقبہ بہت بڑھ جاتا ہے، تو یہی قوتیں انتہائی اہمیت اختیار کر جاتی ہیں۔ اس ضمن میں چھپکلی کی مثال پہلے دی جا چکی ہے کہ چھپکلی کے پاؤں میں نینو جسامت کے ابھار اتنی زیادہ وان ڈر والز قوت پیدا کرتے ہیں جو چھپکلی کو چھت سے گرنے نہیں دیتی اور وہ مزے سے الٹی لٹکی رہتی ہے۔
نیو سائنس اور نینو ٹیکنالوجی میں کچھ بڑے سالمات سے آلات کے طور پر بھی استفادہ کیا جاتا ہے، جو مخصوص حالات اور ماحول میں کسی آئن کو خارج یا تلاش کرنے کا کام کرتے ہیں۔ چنانچہ نینو ٹیکنالوجی میں کوئی سالمہ خود ایک آلہ ہو سکتا ہے، جیسے کہ سالماتی سوئچ (مالیکیولر سوئچ) یا برقی تاریں۔
سطح کی گہری باتیں
اب بڑھتے ہیں "نینو کے انتہائی اہم مظہر کی جانب۔ نینو مادوں کی سطح کا رقبہ ان کے حجم کے مقابلے میں انتہائی اہم ہوتا ہے۔ یہ ڈرامائی عنصر نینو مادوں میں حیرت انگیز جادوئی خصوصیات پیدا کرتا ہے۔ اس حقیقت سے آپ بخوبی واقف ہوں گے۔ کہ تمام مادی اشیاء کی طبیعی اور کیمیائی خصوصیات، اس مادے کی سطح کی خصوصیات پر منحصر ہوتی ہیں۔ سطح کئی طرح کے کام سر انجام دیتی ہے۔ جیسے کسی چیز کو اندر یا باہر جانے دینا۔ دو حالتوں کے نقطہ اتصال (انٹرفیس) پر توانائی اور مادے کے بہاؤ کو کنٹرول کرنا۔ عمل انگیز کی شکل میں کیمیائی تعاملات کو کنٹرول کرنا۔ اور اسی طرح آزادانہ دوسرے مادوں سے تعامل کرنا وغیرہ۔
یہاں تک کہ سطح کی سائنس (Surface Science)کے نام سے سائنس کی ایک مستقل شاخ اپنا وجود رکھتی ہے۔ اگر کسی بڑے سائز کے مادے کو انفرادی نینو جسامتوں والے مادوں میں تقسیم کیا جائے۔ تو مجموعی حجم تو اتنا ہی رہے گا لیکن ان تمام مادوں میں سطح کا اجتماعی رقبہ کئی گنا بڑھ جائے گا۔ اسے ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر ہم ایک مکعب میٹر (cubic meter) کا مکعب میں، تو اس کی سطح کا مجموعی رقبہ 6 مربع میٹر ہو گا۔ اب اگر ہم اس سے ایک ایک نینو میٹر جسامت والے مکعب ( کیوبز ) بنا لیں۔ تو ان سب کا مجموعی حجم تو ایک مکعب میٹر ہی رہے گا۔ لیکن ان کی سطح کا مجموعی رقبہ 6,000 مربع کلو میٹر ہو جائے گا۔
عمل انگیزی (catalysis) اور شناخت کاری (detection)
در حقیقت نینو مادوں میں ایٹموں کی بہت بڑی تعداد سطح پر موجود ہوتی ہے۔ جس سے ان کے نقطہ کھولاؤ، دوسرے مادوں سے تعاملات اور بطور عمل انگیز کام کرنے کی صلاحیت بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ چونکہ سطح کے ایٹم آسانی سے بنائے جاسکتے ہیں۔ اسی لئے بین سالماتی قوتوں (انٹر مالیکیول فورسز) پر قابو پانے کیلئے کم توانائی کی ضرورت ہوگی۔ چنانچہ نینو مادوں کے نقطہ کھولاؤ، بڑے مادوں کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں۔ اسی طرح عمل انگیزی (catalysis) اور شناخت کاری (detection) بھی صطح پر منحصر خصوصیات ہیں۔
نینو ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم مادے کی انتہائی کم مقدار استعمال کرتے ہوئے مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ جو اقتصادی اور ماحولیاتی طور پر بہت فائدہ مند ہوں گے۔ سطح پر زیادہ ایٹموں کی موجودگی صرف چھوٹا ہونے پر ہی منحصر نہیں۔ بلکہ اس کا انحصار مادے کی ساخت پر بھی ہے۔ مثلا بیضوی سطح کے مقابلے میں مکعب (کیوب) کی سطح پر زیادہ ایٹم موجود ہوں گے۔ ساخت کا یہ فرق چند اور خصوصیات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جیسے کہ اپنی ساخت کی وجہ سے کچھ کاربن نینو ٹیوبیں برقی موصل، جبکہ کچھ نیم موصل ہوتی ہیں۔
نینو ٹیکنالوجی دو طرح سے ہماری موجودہ دنیا پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ نینو مادوں کو استعمال کرتے ہوئے پہلے سے موجود مادوں کو بہتر بنایا جائے، جس سے ان کی کارکردگی بڑھ جائے اور قیمت میں کمی ہو، یا پھر نینو مادوں ہی کو نئے آلات کے طور پر استعمال کرتے ہوئے انسانیت کی بھلائی کیلئے کام کیا جائے۔
چیزوں میں بڑے پیمانے پر اتنی خاص قسم کی تبدیلی لانے پر آئیں نینو ٹیکنالوجی کا شکر یہ ادا کریں۔
کیا پاکستان کو نینو ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے؟
بہار 1990ء میں ایک جاپانی پروفیسر، اپنے امریکی مہمان کے ساتھ بارش میں کنکریٹ سے بننے والی ایک نئی عمارت کے ڈھانچے کے قریب سے گزرتے ہوئے بولا۔ "یہ ہمارا نینو ٹیکنالوجی کا مرکز ہے۔ پروفیسر کے امریکی مہمان نے اندر ہی اندر حیران ہوتے ہوئے سوچا ایک امریکی پروفیسر کب یہ بات کہنے کے قابل ہو گا ؟
آج یہی سوال مجھے حیران کر رہا ہے کہ آخر پاکستان کب اس جانب سنجیدگی سے کام کرے گا۔ گزشتہ چند سال سے جس چھوٹے سے لفظ نے اپنے اندر چھپے بیش بہا خزانوں کی بناء پر دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا رکھی ہے، وہ ہے نینو۔
اگر صاحبانِ بصیرت اسے دنیا کو درپیش تمام مسائل کا حل سمجھ رہے ہیں۔ تو خطرات پر نگاہ رکھنے والے اسے ایک نئی کیمیائی اور حیاتیاتی جنگ کا آغاز قرار دے رہے ہیں۔ سائنس سے وابستہ حضرات اسے سائنس کا عجوبہ قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ صنعت و حرفت سے وابستہ افراد کیلئے یہ ایک نئے انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا نینو ٹیکنالوجی میں واقعی کوئی انقلاب بپا کرنے کی صلاحیت ہے؟ نینو سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے اب تک کئی ایک اہم ایجادات کی جا چکی ہیں۔ اور مستقبل میں بھی یہ لا تعداد دریافتوں اور ایجادات کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مگر یہ ساری ایجادات اس وقت تک لاحاصل ہیں جب تک وہ پہلے سے ترقی یافتہ اصول وقواعد اور مصنوعات میں شامل ہو کر انسان کو تجارت اور صنعت و حرفت کی معراج تک نہ پہنچادیں۔
پہیے کے اطلاقات
پہیے کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ سادہ پہیے کو استعمال میں لاتے ہوئے بہت ساری مفید چیزیں بنائی گئی ہیں جیسے کہ گھڑیاں، چرخیاں، پلیاں وغیرہ۔ انہیں پہیئے کے براہ راست یا بلا واسطہ اطلاقات کہا جا سکتا ہے۔ بالواسطہ طور پر پہیے نے کئی دوسری مصنوعات، یہاں تک کہ کئی صنعتوں کو پروان چڑھایا ہے۔ مثلا پہیئے کو چکنا رکھنے (البریلیشن) کی ضرورت ہوتی ہے تو کسی شخص نے لبریکینٹس بنانے کا کام سنبھال لیا۔ کسی دوسرے نے پہیے کی مضبوطی کیلئے نئے مادے بنانے شروع کر دیئے۔
آج کسی بھی ایسی مشین کا تصور کرنا محال ہے جہاں کسی نہ کسی شکل میں پہیے کا استعمال نہ ہوتا ہو۔ بالکل اسی طرح نینو ٹیکنالوجی بھی اپنے اندر ایسے مخفی خزانے رکھتی ہے۔ اسی بنیاد پر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ نینو ٹیکنالوجی سے ایک نئے صنعتی دور کا آغاز ہونے والا ہے۔
کسی بھی چیز کی اہمیت کا اندازہ اس کے اطلاقات، اس پر ہونے والی سرمایہ کاری، تحقیق اور مارکیٹ میں اس کی مصنوعات کی اہمیت سے کیا جاتا ہے۔ زیادہ تفصیل میں جائے بغیر مختصرا ان تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے۔
نینو ٹیکنالوجی کا شعبہ
نینو ٹیکنالوجی کے وسیع تر اطلاقات کا شعبہ سائنس اور انجینیئرنگ کی تمام شاخوں سے لے کر ہماری عام روز مرہ زندگی تک پھیلا ہوا ہے۔ نینو سائنس کو بین الشعبہ جاتی (Inter-disciplinary) مضمون کی حیثیت حاصل ہے۔ اس لحاظ سے نینو ٹیکنالوجی میں سائنس اور انجینئرنگ کی تمام شاخیں آپس میں مربوط ہو کر اسے انتہائی اہمیت کا حامل بنادیتی ہیں۔ یوں اس کے وسیع تر اطلاقات کا میدان طلب سے لے کر انجینئرنگ، زمین سے لے کر خلا اور گھر سے لے کر کاروبار تک، ہر شعبے کا احاطہ کئے ہوئے ہے.. اور آنے والے چند برسوں میں انسانی زندگی کے ہر گوشے کو نینو ٹیکنالوجی اپنی لپیٹ میں لینے والی ہے۔
جہاں تک اس پر ہونے والی سرمایہ کاری کا تعلق ہے۔ تو گزشتہ چند برسوں میں جیسے ایک دوڑ سی لگی ہے۔ کہ ترقی یافتہ ممالک میں سے کون نینو ٹیکنالوجی پر زیادہ سرمایہ لگائے گا۔ 2001ء میں امریکی صدر نے نینو ٹیکنالوجی کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے پچاس کروڑ ( پانچ سوملین ) ڈالر کی لاگت سے نیشنل نینو ٹیکنالوجی انیشی ایٹیو (NNI) کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا۔ جس کا 2011 ء کا بجٹ 1.8 بلین ڈالر تھا۔ 2001ء سے 2011ء کے دوران نینو ٹیکنالوجی میں تحقیق اور آگہی کیلئے 16.5 بلین ڈالرخرچ کئے جاچکے ہیں،
جبکہ 2012ء کے مجوزہ امریکی بجٹ میں نینو ٹیکنالوجی کا حصہ 2.1 بلین ڈالر ہے۔
اسی طرح یورپی یونین نے بھی اس دوڑ میں شامل ہوتے ہوئے 2011ء میں 1.67 بلین ڈالر خرچ کئے جبکہ نینو ٹیکنالوجی فریم ورک پروگرام 7″ کے تحت یورپی یونین نے اس میدان میں تحقیق کیلئے 3.5 بلین پور مختص کئے ہیں۔ روس بھلا کیوں پیچھے رہتا۔ اس نے بھی 2015 تک نینو ٹیکنالوجی پر تحقیق کیلئے 7.7 بلین ڈالر کی رقم مختص کر دی ہے۔
جاپان نے نینو ٹیکنالوجی اور اس کے اقتصادی فوائد کو مد نظر رکھتے ہوئے 25 ٹریلین کا بجٹ رکھا ہے۔ تو دوسری طرف چین نے بھی 2011 ء میں 2.25 بلین ڈالر صرف نینو ٹیکنالوجی میں تحقیق پر صرف کئے۔ ایک چھوٹے سے ملک تائیوان نے پہلے مرحلے میں 557 ملین ڈالر مختص کئے تھے۔ جبکہ دوسرے مرحلے میں 712 ملین ڈالر رکھے ہیں۔
یہ تو ترقی یافتہ ملکوں کی داستان تھی۔ چھوٹے اور ترقی پذیر ممالک بھی اس کی افادیت تسلیم کرتے ہوئے اس کیلئے بڑی رقوم مختص کرنے پر مجبور ہیں۔ ہندوستان کے سابق صدر ڈاکٹر عبدالکلام نے نینو ٹیکنالوجی پروگرام شروع کرتے ہوئے کہا تھا۔ ” 2015, تک جو چیزیں ہندوستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کھڑا کریں گی۔ ان میں سے ایک فیول ٹیکنالوجی اور دوسری نینو ٹیکنالوجی ہے۔
“ آنے والے وقت میں اس کی افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے ہندوستان، برازیل، ایران اور ترکی بھی اپنے بجٹ کا خطیر حصہ نینو سائنس اور ٹیکنالوجی میں تحقیق پر مختص کر رہے ہیں۔
اسی طرح 2011 ء کے آخر تک دنیا کی تمام بڑی جامعات نے نینو ٹیکنالوجی مراکز تعمیر کر لئے تھے۔ اور جامعات میں ہونے والی اچھی خاصی تحقیق بھی نینو کے میدان میں کی جانے لگی تھی۔
یہ تو ملکوں کا حال تھا۔ اب ایک نظر عالمی اقتصادی منڈی پر ڈالتے ہیں۔ 2005ء میں نینو ٹیکنالوجی مصنوعات کی مارکیٹ 4.9 بلین ڈالر تھی جبکہ یہی مالیت 2011ء میں 40.2 بلین ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔ 2015 ء تک نینو ٹیکنالوجی مصنوعات کے کاروبار کا سالانہ حجم 2.14 ٹریلین ڈالر تک پہنچنے کا اندازہ ہے۔ ایک اور اندازے کے مطابق عالمی کساد بازاری اور مندی کے باوجود 2015 ء تک امریکہ میں نینو ٹیکنالوجی کی وجہ سے بیسں لاکھ سے زیادہ لوگوں کو روزگار ملے گا۔ لیکن سوال پھر وہی ہے کہ آخر پاکستان جیسے ملک کیلئے نینو ٹیکنالوجی کی کیا اہمیت ہے؟ کیا یہ ہمارے مسائل بھی حل کر سکتی ہے؟
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے جس کی معیشت کو زراعت، ٹیکسٹائل، کھیلوں کا سامان بنانے کی صنعت ، دفاعی سامان بنانے اور چند دوسری چھوٹی صنعتوں نے سہارا دیا ہوا ہے۔ دنیا کے عالمی قصبہ ( گلوبل ویلج) بن جانے کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانے کیلئے ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔
دوسرے ممالک، ٹیکنالوجی کے استعمال سے اپنی زیادہ قیمت والی (value-added) مصنوعات سامنے لا رہے ہیں۔
مثلاً مکمل واٹر پروف اور اپنی صفائی آپ کرنے والے کپڑے مارکیٹ میں دستیاب ہو چکے ہیں۔ اگر ہمارے صنعت کار بھی ٹیکنالوجی کے استعمال سے اپنی مصنوعات بہتر نہیں بنائیں گے تو مقابلے کی دوڑ سے باہر ہو جائیں گے اور ہم قیمتی زرِ مبادلہ سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
اسی طرح زراعت میں زرعی آلات کو بہتر بنانے اور فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کیلئے نینو ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہم غذا کا بحران ٹال سکتے ہیں۔ زرعی پیداوار میں اضافے سے مہنگائی میں بھی خاطر خواہ کمی ہوگی اور برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔ تھر اور دور دراز کے علاقوں میں، جہاں صاف پانی کی سہولت میسر نہیں۔ نینو ٹیکنالوجی کی مدد سے انتہائی اعلیٰ کارکردگی کے حامل، صاف پانی کے پلانٹ لگائے جاسکتے ہیں۔
( بتاتے چلیں کہ غیر ملکی امداد سے پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی کیلئے جو خاص طرح کے جدید فلٹر مہیا کئے گئے ہیں۔ وہ بھی نینو ٹیکنالوجی ہی کی مدد سے تیار کئے ہیں۔ اگر یہ ٹیکنالوجی ہماری دسترس میں ہوتی ، تو شاید ہمیں اس امداد کی ضرورت نہ پڑتی۔)
توانائی کے جس بحران نے ہماری کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ نینو ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہم بہ آسانی اس سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔
نینو ٹیکنالوجی کی مدد سے کم لاگت والے اور زیادہ کارکردگی کے حامل شمسی سیل بنائے جا رہے ہیں۔ جو ہر طرح کے موسم میں کام کریں گے۔ اسی طرح ترسیل کے دوران ہونے والے بجلی کے ضیاع ( لائن لاسز) پر قابو پانے اور توانائی کی بہتر ترسیل اور ذخیرہ کاری کیلئے بھی نینو مادوں سے مدد لی جا سکتی ہے۔
نینو ٹیکنالوجی کی مدد سے قابل تجدید توانائی کی بڑی مقدار پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس وقت ہمارا ایک بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے۔ نینو ٹیکنالوجی دہشت گردی کی روک تھام میں ہماری معاون بن سکتی ہے۔ نینو مادوں سے ایسے کیمیکل سینسرز ( کیمیائی حساسیئے ) بنائے جاسکتے ہیں جو سات تہوں کے اندر چھپائے گئے کسی بم یا دھماکا خیز مواد کو شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
اسی طرح جاسوسی کے بہت چھوٹے آلات تیار کر کے دہشت گردوں کی سرگرمیوں پر بھی غیر محسوس طریقے سے نظر رکھی جا سکتی ہے۔ غرض کہ اس وقت ہمیں درپیش تمام قابل ذکر مسائل کے حل کیلئے نینو ٹیکنالوجی ہماری بہترین معاون بن سکتی ہے۔
تو پھر اے مہرباں! دیر کیسی؟