ونسٹن چرچل


میں عمر بھر اس حقیقت سے متاثر ہوتا رہا ہوں کہ بعض اوقات معمولی واقعات تاریخ میں کایا پلٹ حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ میں خانہ جنگی سے چار ‏برس پہلے 1857ء کی افراتفری میں لیونارڈو جیرم نامی ایک شخص نے وال سٹریٹ کے سٹہ بازار میں بارہ لاکھ پونڈ کمائے۔ ظاہر ہے لیونارڈو چیرم کے سوا اس واقعہ میں کسے دلچسپی ہو ‏سکتی تھی۔؟

لیکن اب اس واقعہ پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے تاریخ پر بہت اثر کیا ہے۔ یعنی اگر لیونارڈو نے اتنی زیادہ دولت نا کمائی ہوتی تو شاید ونسٹن چرچل پیدا ہی نہ ‏ہوتا۔ دراصل لیونارڈو ونسٹن چرچل کا نانا تھا۔

جب ونسٹن چرچل کے نانا کے پاس بارہ لاکھ پونڈ آئے تو اس نے کچھ رقم سے نیویارک کے ہفت روزہ اخبار "ٹائمز” کے چند حصے خرید لئے۔ دو ریس کورس بنوائے۔ دنیا بھر کی سیر کی ‏اور اپنے یہاں برطانیہ کے بڑے بڑے لوگوں کو مدعو کرنا شروع کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی خوبصورت امریکی لڑکی جینی جیروم کی ملاقات لارڈ اینڈ لف چرچل سے ہوئی اور ‏دونوں نے آپس میں شادی کر لی۔ ان کی شادی کے بعد 30 نومبر 1874ء کو ونسٹن چرچل پیدا ہوا۔

ونسٹن چرچل نصف امریکی ہے اس کے باوجود وہ آج کے دور کا اہم ترین برطانوی ہے۔ اس نے عجیب و غریب زندگی بسر کی ہے۔ میرے خیال میں جس قدر ولولہ انگیز اور معرکہ خیز اس کی زندگی ہے شاید ہی روئے زمین پر کسی دوسرے شخص کی ہوگی۔

برطانیہ میں ‏وہ ایک مسلمہ طاقت اختیار کر چکا ہے۔ 1911ء میں وہ برطانوی بحری فوج کا انچارج تھا۔ تقریباً پون صدی سے وہ حالات اور انسانوں کی باتیں اپنے ہاتھ میں لئے ہے اور بڑا اچھا وقت ‏گزار رہا ہے۔

بچپن میں بھی ونسٹن چرچل کی یہی خواہش تھی کہ وہ ایک سپاہی بنے۔ بعض دفعہ وہ سارا دن کھلونوں کے سپاہیوں کی فوجوں سے کھیلتا رہتا۔ بعد میں اس نے سینڈ ہارٹ کے نامور ‏فوجی کالج سے سند حاصل کی۔ پھر وہ کئی برس برطانوی فوج میں پیشہ ور سپاہی رہا۔ 1900ء میں ونسٹن چرچل اپنی بہادری اور جرات کے سبب مشہور ہو گیا۔ در حقیقت اس کی بے ‏باک جرات نے اسے اس قدر مشہور کر دیا کہ چھپیں برس کی عمر میں اسے پارلیمان کا رکن چن لیا گیا۔

ہوا یوں کہ 1899ء میں وہ کارنگ پوسٹ“ کا جنگی رپورٹر بن کر اڑھائی سو پونڈ ماہانہ تنخواہ پر جنوبی افریقہ جنگ بوائر کی خبریں بھیجنے کے لئے چلا گیا۔ یہ تنخواہ بہت زیادہ تھی لیکن وہ اس کا ‏واقعی مستحق تھا۔ کیونکہ ونسٹن چرچل نے تھوڑے ہی دنون میں خود کو مشہور جنگی نامہ نگار بنا لیا تھا۔

وہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے دشمن کے علاقے میں گھس جاتا۔ وہ فقط ‏خبریں ارسال ہی نہ کرتا تھا بلکہ خود بھی خبروں کی سرخی بن جاتا تھا۔ جب بوائروں نے اسے پکڑ کر قید خانے میں ڈال دیا تو یہ خبر جلی حروف میں شائع ہوئی اور جب وہ جیل سے ‏فرار ہو گیا تو اس خبر کو اور بھی اہمیت دی گئی۔ کیونکہ بوائر جنگ کا اہم ترین قیدی کھو چکے تھے۔ ایک برطانوی لارڈ کا بیٹا۔ بوائروں نے اسے زندہ یا مردہ پکڑنے کا بہت بڑا انعام مقرر کیا۔

فرار ہونے کے بعد چرچل نے سینکڑوں میل دشمن کے علاقے میں سفر کیا۔ ہر ریلوے اسٹیشن اور پل پر بوائر سپاہیوں کے پہرے لگے ہوئے تھے۔ وہ پیدل اور مال ‏گاڑیوں پر سفر کرتا رہا۔ رات کے وقت وہ جنگلوں، کھیتوں اور کوئلے کی کانوں میں سو جاتا۔ اس نے کئی دریا تیر کر عبور کئے۔ افریقی وسیع میدانوں میں بھوکے گدھ اس کے سر پر ‏منڈلاتے اور اس انتظار میں رہتے کہ کب وہ بھوک سے نڈھال ہو کر گرے اور وہ اسے شکار بنائیں۔

اس کے فرار کی داستان ایک بہترین شہکار تھی۔ لیکن، ونسٹن چرچل اسے مزید سنسنی خیز بنانے کا انداز جانتا تھا۔ یہ کہانی اس نے "مارننگ پوسٹ” کے لئے لکھی۔ حیرت اور ڈرامے سے بھر پور کہانی جو 1900ء کی بہترین اخباری کہانی قرار دی گئی۔ یہ کہانی سارے انگلینڈ نے بڑے جوش و خروش ‏سے پڑھی اور چرچل کوقومی ہیرو کی حیثیت سےقبول کیا۔ اسے بڑے تزک و احتشام سے پارلیمان کا رکن چنا گیا۔

زندگی میں چرچل کا یہ نصب العین رہا کہ خطرے سے ہرگزمت ‏بھا گو۔”‏‏ 1921ء میں وہ امریکہ گیا۔ اسے وہاں پینتالیس لیکچر دینے تھے اور ہر لیکچر کے اسے 320 پونڈ ملنے تھے لیکن سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کو معلوم ہو گیا کہ امریکہ میں چرچل کی جان کو ‏خطرہ ہے۔ لیکن اس خطرے کے معلوم ہو جانے کے باوجود چرچل نے اپنا پروگرام تبدیل نہ کیا اور لیکچروں کا سلسلہ جاری رکھا۔

چرچل کا کہنا تھا کہ” انسان کو خطرے سے بھاگنا ‏نہیں چاہئے اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو خطرہ دو گنا ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر آپ دلیری سے خم ٹھونک کر سامنے آ جاتے ہیں تو خطرہ نصف رہ جاتا ہے۔” خطرے سے بھاگنے کے بجائے ‏ونسٹن چرچل اکثر خود اس کی طرف بڑھا کرتا تھا۔

جب وہ برطانوی بحری فوج کا انچارج تھا تو ان دنوں برطانوی نیوی کے پاس تقریباً نصف درجن ہوائی جہاز تھے۔ یہ 1911ء کا ذکر ہے۔ اس وقت ہوائی جہاز ایجاد ہوئے ابھی آٹھ برس ہوئے ‏تھے۔ ان دنوں جہاز چلانا یا اس میں سفر کرنا موت کو دعوت دینے کے برابر تھا۔ اس کے باوجود چرچل خود جہاز چلانے پر اصرار کیا کرتا۔

وہ اپنا ہوائی جہاز خود چلاتا اور ایسا کرتے ‏وقت اسے کئی حادثات پیش آئے۔ وہ بال بال موت کے منہ سے بچا۔ حکومت نے اسے ہوائی جہاز چلانے سے منع کیا مگر وہ باز نہ آیا کیونکہ اسے ہوائی جہاز چلانے میں بے حد مزا ‏آتا تھا۔ اور اس کے لئے وہ بڑے سے بڑا خطرہ مول لینے کو تیار تھا۔ وہ اس نئی ایجاد کے متعلق پورا علم حاصل کرنا چاہتا تھا اور جانتا تھا کہ آئندہ جنگ میں اسے بہت زیادہ اہمیت دی ‏جائے گی۔ برطانوی نیوی کی ایئر فورس کی تشکیل میں ونسٹن چرچل کا بہت بڑا دخل ہے۔

ونسٹن چرچل کی ایک اور نمایاں خصوصیت اس کا مصمم ارادہ ہے۔ اس نے اپنے آپ کو جس ‏طرح تعلیم و تربیت دی ہے وہ اس سلسلے میں ایک اچھی مثال ہے۔ جوانی میں اس کا علم کچھ اتنا وسیع نہ تھا۔ اسے اطالوی یونانی اور فرانسیسی سے نفرت تھی۔ اس بات پر اس کا بڑا یقین تھا ‏کہ کسی غیر ملکی زبان پر وقت صرف کرنے سے پہلے انگریزی پر مہارت رکھنی اشد ضروری ہے۔ اپنے اس خیال میں وہ تھا بھی صحیح۔ چونکہ اسے غیر ملکی زبانوں اور ریاضی سے نفرت تھی۔ اس لئے جماعت میں اس کا شمار نکمے طلبا میں ہوتا تھا۔ لیکن ریاضی سے نفرت کے باوجود وہ چار برس تک وزیر مال رہا۔

سینڈ ہارٹ کے فوجی کالج میں داخل ہونے کے لئے ‏اس نے تین دفعہ امتحان دیا اور تینوں دفعہ فیل ہوا۔ آخر چوتھی دفعہ وہ پاس ہوا۔ سینڈ ہارٹ اور ہارو کے دو بہترین فوجی سکولوں میں تعلیم پانے کے بعد ایک دن اسے احساس ہوا کہ وہ عملی طور پر تو کچھ بھی نہیں جانتا۔ اس وقت اس کی عمر بائیس برس تھی اور وہ ‏ہندوستان میں مقیم برطانوی فوج کا ایک افسر تھا۔ تب اس نے اپنے آپ کو تعلیم دینے کا تہیہ کر لیا۔

اس نے انگلینڈ اپنی والدہ کو لکھا کہ وہ اسے سوانح حیات، تاریخ، فلسفے اور ‏اقتصادیات پر کتابیں ارسال کر دے۔ دوپہر کے وقت جب اس کے دوسرے ساتھی افسر سوئے ہوتے تو وہ مطالعے میں مشغول رہتا اس نے افلاطون سے گبن اور شیکسپئر سب کا ‏مطالعہ کر ڈالا۔ اس نے شگفتہ اور رواں دواں نثر لکھنے میں کئی برس صرف کئے۔ ایک بڑے مقرر سے اس نے خود کو ایک آتش بیاں مقرر میں ڈھال لیا۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران جب ونسٹن چرچل برطانیہ کا وزیر اعظم تھا تو وہ روزانہ چودہ سے سترہ گھنٹے کام کیا کرتا تھا۔ بعض اوقات پورا پورا ہفتہ، اب بھی وہ بڑے جوش و خروش سے کام کرتا ہے اور اپنے کئی سیکرٹریوں کو ہر وقت مصروف رکھتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ کام کرنے کے ‏دوران میں سستا لیتا ہے اور تھکنے سے پہلے آرام کر لیتا ہے۔

وہ صبح ساڑھے دس بجے سے پہلے بستر سے نہیں نکلتا۔ لیکن بستر سے نکلنے سے تین گھنٹے پہلے وہ لیٹا لیٹا ٹیلی فون کرتا اور خط وغیرہ ‏لکھواتا رہتا ہے۔ بستر چھوڑنے کے بعد وہ ایک پرانے استرے سے شیو بناتا ہے۔ ایک بجے کھانا کھاتا ہے۔ ایک گھنٹہ سوتا ہے اور پھر کام میں مصروف ہو جاتا ہے۔ پانچ بجے وہ پھر بستر میں گھس جاتا ہے اور نصف گھنٹہ دوبارہ آرام ‏کرتا ہے۔ رات کے کھانے کے بعد وہ نصف شب تک اکثر کام کرتا ہے۔

جب انگلینڈ کے سیاستدان ہٹلر سے بے خبر دوسرے کاموں میں مصروف تھے۔ چرچل انہیں ہٹلر کے ‏آئندہ ارادوں سے خبردار کرتا اور جنگ کے لئے تیاری کرنے کے لئے کہتا رہا۔ اگر برطانیہ نے اس وقت اس کی آواز پر سنجیدگی سے توجہ دی ہوتی تو دوسری جنگ عظیم ایک دیوانے ‏کے خواب سے زیادہ اہمیت نہ رکھتی۔

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے