اردو ادب کی ترقی پسند تحریک اور سیاسی جد و جہد نے قومی اور ملی احساس، اجتماعی اور سیاسی شعور اور اپنی تہذیب و ثقافت اور علمی و روحانی ورثے کے عرفان کو تحریک دی تھی۔
پاکستانی زبان و ادب
ان عوامل و محرکات سے قطع نظر کہ جن کے نتیجہ کے طور پر عظیم پاک و ہند میں مسلمانوں کی اکثریت کے علاقوں میں طویل جد و جہد کے بعد آخر کار ایک آزاد اسلامی مملکت قائم ہوئی۔ جہاں مسلمانوں کے خیال کے مطابق وہ اپنی تہذیب اور اس کی روایات کا تحفظ کر سکتے ہیں۔ پاکستان بننے کے ساتھ بہرحال بعض عوامل و محرکات کا وہ تسلسل نہ ٹوٹا جو تحریک حصول پاکستان کے دوران موجزن تھا۔
مثلاً زبان اور اردو ادب کے تعلق سے پاکستان کے وجود میں آنے تک اردو کو ایک ایسی زبان تسلیم کیا گیا تھا، جس میں قومی زبان بننے کی تمام صلاحیتیں موجود تھیں۔ اور یہ عقیدہ کہ اردو ہی پاکستان کی قومی زبان ہوگی۔ بعد کے حالات نے, جس میں مشرقی پاکستان میں ابھرنے والی ابتدائی دور کی بنگالی قوم پرستی کی تحریک نے بھی زبان کے مسئلہ کو قدرے الجھا دیا۔ لیکن پھر بھی یہ پاکستان کی قومی زبان تسلیم کی گئی ہے۔ اس ضمن میں اسے دستوری تحفظات حاصل ہوتے رہے ہیں۔
مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد زبان کے مسئلہ میں کسی قسم کی بحث یا رکاوٹ موجود نہیں۔ اب یہ متفقہ طور پر واحد قومی زبان تسلیم کی جاتی ہے۔ لیکن سرکاری سطح پر اس کے استعمال میں تذبذب کی جو صورت حال تھی۔ وہ اب تک ختم نہیں ہو سکی۔ ایسی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ جہاں جہاں ملک میں مصلحتاً اور ضرورتاً انگریزی کو بالا دستی حاصل ہے وہاں بہت جلد اردو اس کی جگہ استعمال ہونے لگے۔ اسی طرح اردو ادب اور اس کی مختلف اصناف بھی اس تسلسل کے تحت رہیں کہ جو آزادی کے وقت تک جاری تھا۔
اردو زبان اور ادبی مراکز
پاکستان کی جغرافیائی حدود میں اردو کی روایت بہت قدیم ہے۔ اردو زبان کو یہاں ہر جگہ عام رابطہ اور بول چال کی زبان کا درجہ حاصل رہا ہے۔ اردو اور یہاں کی علاقائی زبانوں میں ہمیشہ اثر اندازی اور اثر پذیری کا ایک فطری رشتہ قائم رہا ہے۔ گاہے گاہے علاقائی زبانوں کی ادبیات کے اعلی نمونے اردو میں منتقل کرنے کا کام ہوتا رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد مختلف علاقائی ادبیات کی انجمنوں کی تشکیل سے اس مد میں خاصا مفید اور نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
قیام پاکستان سے قبل پاکستانی علاقوں میں، مشرق میں ڈھاکہ اور مغرب میں لاہور کو ادبی مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔ قیام پاکستان کے بعد ان شہروں کو بدستور مرکزیت حاصل رہی۔ پھر بھارت سے ایک بڑی تعداد میں ادبیوں و شاعروں کے ہجرت کر کے پاکستان آنے اور ان کی ایک خاصی تعداد کے کراچی میں بس جانے کے سبب کراچی کو بھی ایک بڑے مرکز کی حیثیت حاصل ہوئی۔ ان بڑے مراکز کے علاوہ سرگودھا، راولپنڈی اور حیدر آباد بھی ثانوی مراکز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دیگر شہروں میں پشاور، ملتان اور بہاولپور کو بھی ادبی اعتبار سے اہمیت حاصل ہے۔
قیام پاکستان کے وقت یہاں کے نمائندہ لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد معروف اور مقبول تھی۔ ان میں سے بعض نے چند سال قبل لکھنا شروع کیا تھا لیکن ان کی انفرادیت بعد میں سامنے آئی۔ ان میں سے اکثر ترقی پسند عالمین کی تحریک کے مقامات کو اختیار کیے ہوئے تھے۔ بعض حلقہ ارباب ذوق کے رجحانات کے حامل تھے۔ اور اس کے تجربات کو بھی اپنانے کی کوشش کر تے تھے۔
اردو کی لسانی ادبی اور فکری تقسیم
تقسیم ہند نے جس طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان جغرافیائی اور نظریاتی لحاظ سے ایک خط فاصل کھینچا تھا۔ اسی طرح اس نے اردو کی لسانی ادبی اور فکری تاریخ کو بھی علیحدہ علیحدہ حصوں میں تقسیم کیا۔ یعنی سوچ کے جو انداز ۱۹۳۷ء اور ۱۹۴۷ء سے پہلے مسلمات کا درجہ حاصل کر چکے تھے۔ اب نئے ماحول میں ان کے بارے میں کہیں انکار اور کہیں تشکیک کی فضا پیدا ہو گئی۔
۱۹۴۶ء کے بعد ادبی بغاوتوں کے جو طوفان بڑی شد و مد کے ساتھ اٹھے تھے۔ ان میں اعتدال اور ٹھہراؤ کی کیفیت پیدا ہوئی۔ چنانچہ اس نئی فضا اور اس کے نئے تقاضوں نے مصالحت اور مفاہمت کا رجحان پیدا کیا۔ جس کا ایک خوش گوار پہلو یہ ہے کہ انتہا پسندی کی جگہ غور و فکر اور ملکی عناصر اور بیزاری کے بجائے ملکی اور قومی مزاج کو سمجھنے اور اس سے ہمدردی پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی۔
بعض اہلِ فکر نے اس تبدیلی کو اردو ادب کے انحطاط اور جمود سے تعبیر کیا ہے۔ مگر یہ ایک نکتہ نظر ہے۔ اس دور کو جمود سے متصف نہیں کیا جا سکتا۔ دراصل یہ اعتدال کی کیفیت تھی۔ ۱۹۴۶ء سے ۱۹۵۲ء تک کا عہد بڑے انتشار و پریشانی اور بحران کا دور رہا۔ اس کا عکس ادب میں بھی نمایاں ہو کر رہا۔ آزادی، تقسیم، فسادات اور ہجرت کے واقعات ۱۹۴۷ء کے آس پاس ایک ساتھ رونما ہوئے۔ برِ عظیم کی تاریخ میں ایسا دور کم ہی نظر آیا جب ایک ساتھ اتنے بڑے سیاسی، معاشرتی اور ذہنی انقلابات واقع ہوۓ ہوں۔
مزید دل چسپ اور معلوماتی تحاریر پڑھیں، دریافت کریں یا دوستوں عزیزوں کے ساتھ شئیر کریں۔
اردو ادب کی ترقی پسند تحریک اور سیاسی جد و جہد
اردو ادب کی ترقی پسند تحریک اور سیاسی جد و جہد نے قومی اور ملی احساس، اجتماعی اور سیاسی شعور اور اپنی تہذیب و ثقافت اور علمی و روحانی ورثے کے عرفان کو تحریک دی تھی۔ ایک طرف آزادی کی منزل قریب آ رہی تھی۔ دوسری طرف سیاسی جماعتوں کے اختلافات بڑھتے جا رہے تھے۔ مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس کی سیاست نے بہت سے نئے لکھنے والوں کو اپنے میں ضم کر لیا۔ جو باقی بچے وہ بھی نظریاتی تصادم کے باعث بہت دور تک ساتھ نہ چل سکے۔
ترقی پسندی نے انتہا پسندی کی راہ اختیار کی۔ آپس میں اختلافات بڑھے اور ادیب کے لیے کمیونسٹ ہونا ضروری سمجھا گیا۔ اب ترقی پسندی اردو ادب کی تحریک کے آغاز کی وسیع تر ترقی پسندی سے بہت مختلف صورت اختیار کر چکی تھی۔ ایک مخصوص سیاسی نظریہ ترقی پسند ادب پر مسلط ہو گیا۔ تحریک کے سیاسی عناصر، جن کی ادبی حیثیت بہت مستحکم نہ تھی۔ سیاست کی گرفت سے ادب کو زوال کی طرف مائل کر رہے تھے۔
زبان و ادب اور تقسیم کے بعد کی صورت حال
تقسیم کے بعد ترقی پسند تحریک کا زوال ایک اور وجہ سے بھی رونما ہوا۔ ترقی پسند مصنفین نوزائیدہ ملک میں نئے مسائل اور نئے تقاضوں کا ساتھ نہ دے سکے۔ ایک تو وہ مذہب کو اجتماعی زندگی کے اہم عوامل اور مظاہر میں شمار نہ کر سکے۔ اپنی قوم سے الگ تھلگ رہے تھے اور دوسرے پاکستان کا قیام انھیں اپنے نظریوں کے مجروح ہونے کی وجہ سے ناگوار گزرا تھا۔ نئے حالات میں یا تو بیش تر ترقی پسند لکھنے والے مایوس ہو کر خاموش ہو گئے یا اپنے آپ کو دہرانے لگے۔
کوئی ادبی تحریک لکھنے والوں کے بغیر نہیں چل سکتی۔ اسے تخلیقی عمل زندہ رکھتا ہے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ اسے پرانے اور بڑے نام بھی زندہ نہ رکھ سکے۔ یہ تحریک اپنا وقتی کردار ادا کر کے قیام پاکستان کے بعد چھ سات سال کے عرصے ہی میں نئے ادبی میلانات کے لیے راہ چھوڑ گئی۔ ترقی پسندی کے خلاف حالات کے مطابق جو فطری اور صحت مند رد عمل ہوا اس نے ایک نئے مزاج کی تکمیل کی۔
آزادی کی جد و جہد کے زمانہ میں ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتیں مختلف الخیال گروہ اور افراد، ایک خاص حد تک ایک مشترکہ اجتماعی مقصد رکھتے تھے جس نے ادب کی ایک خاص سمت کا تعین کر دیا تھا مگر ان حادثات اور واقعات سے مقصد کی یک جہتی بھی مجروح ہوئی۔ پھر آزادی ملنے کے بعد ذہنی دنیا میں ایک طرح کا انتشار پیدا ہوا اور اندورنی اختلافات ابھر کر سامنے آئے۔ دلوں میں خلیجیں حائل ہوئیں، پوری پوری آبادیاں فسادات کا شکار ہوئیں یا ہجرت کے دوران لوٹ لی گئیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد
جو باقی بچے وہ نئی جگہوں پر اجنبی بن کر رہنے کے لیے پہنچے۔ مہاجر ایک نفسیاتی مسئلہ بھی ثابت ہوۓ۔ وہ لوگ جنھوں نے اس ہجرت میں اپنے بچپن اور جوانی کے ماحول کو چھوڑا جب لکھنے بیٹھے تو ان کا روحانی کرب اور قلبی انتشار تحریروں میں بھی جھلکا۔ چنانچہ ادب کی تمام اصناف میں یہ کرب اور المیہ ”فسادات” کے عام موضوع کی صورت میں نظر آتا ہے۔
ان افراد میں نئی نسل سے تعلق رکھنے والوں نے اسی زمانہ میں کالجوں اور جامعات کی فضا میں ادبی ہوش سنبھالا تھا۔ اور وہ ترقی پسندی کے رجحانات سے ذہنی طور پر متاثر بھی ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنے پیشرو ادبیوں اور شاعروں کی شخصیت سے بھی اثرات قبول کیے۔ اب تنگ نظری اور انتہا پسندی کے اس دور میں انھیں اپنا ادبی مقام بنانے میں بھی بڑی مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ انھوں نے ان حالات کے جان دار اور صحت مند عناصر کو نہ صرف قبول کر لیا۔ بلکہ انھیں ذہنی طور پر جذب کر کے اپنے مزاج میں شامل کر لیا۔
جدیدیت
ان میں بہت سے ترقی پسند تحریک کے ساتھ رہے۔ کچھ ذہنی سفر میں حلقہ ارباب ذوق کے ہمراہ چلے۔ کچھ حسن عسکری کی انفرادیت سے متاثر رہے۔ مگر ان سب کے مزاج کی انفرادیت ۱۹۵۰ء سے ۱۹۶۰ء کے درمیانی عرصہ میں تشکیل پائی۔ اس کے بعد کے عرصہ میں ان کا میلان ” جدیدیت” کی صورت میں بڑی شد و مد کے ساتھ نمودار ہوا۔ یہ میلان دراصل اپنی نوعیت کے لحاظ سے پہلا اور تنہا نہیں تھا۔
مغرب کی متعدد ادبی و فکری تحریکوں کے زیر اثر یہاں بھی مختلف میلانات و رجحانات کی گونج سنائی دیتی ہے۔ چنانچہ قیام پاکستان کے بعد کے چند سالوں میں فکری سطح پر جو انتشار کی کیفیت طاری تھی۔ اس میں ادیب مغرب کے زیر اثر کبھی "وجودیت” کبھی "لا شعور ” کبھی شعور کی رو اور کبھی سائنسی نظریہ ادب کو رواج دیتے رہے۔ جدیدیت کا میلان اسی طرز فکر کے نتیجہ میں کچھ مدت کے لیے ایک زیادہ واضح رویہ کی صورت اختیار کر گیا۔ اور ادب میں عصری رجحانات اور جدید تقاضوں کی ضرورت کے جواز میں زیر بحث رہا۔
اسلامی ادب کی تحریک
اسی عہد میں ان تمام اقدار سے انحراف کا بھی ایک مخصوص رجحان سامنے آیا۔ یہ اسلامی ادب کی تحریک تھی۔ بنیادی طور پر اس کا پس منظر نظریاتی تھا۔ قیام پاکستان کے بعد ملک میں دو متصادم رجحانات ایک دوسرے کے متوازی رونما ہوئے تھے۔ ایک رجحان پاکستان کے آئین کو اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے کا تھا اور دوسرا پاکستان کو ایک لادینی (سیکولر) ملکت بنانے کا تھا۔ ادب میں یہ صورت حال اس طور پر ظاہر ہوئی کہ وہ ادیب و شاعر جو ترقی پسند تحریک سے وابستہ یا متاثر تھے۔ پاکستان کو لادینی مملکت دیکھنا چاہتے تھے اور جو افراد آئین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے حق میں تھے ، ان کی ایک تعداد اسلامی ادب کی محرک بنی۔
اس دور کے ادب میں قومی تہذیب کے تعلق سے ادیبوں کے نکتہ نظر میں ایک تبدیلی بھی نظر آتی ہے۔ ۱۹۳۶ء کے بعد کے زمانہ میں روایت شکنی کے جوش میں بہہ کر عام ادیب قومی تہذیب کے بارے میں بے گانگی بلکہ گریز کا رویہ اختیار کرنے لگے تھے۔ وہ تہذیبی و قومی روایات کو رجعت پسندی اور انحطاط پسندی کہہ کر ٹھکرا دیتے تھے۔ اور اس طرز فکر میں ترقی پسند اور غیر ترقی پسند برابر کے شریک تھے۔
اردو ادب میں قومی احساس اور ملی شعور کا مسئلہ
آزادی کے بعد بے گانگی کی وہ روش باقی نہ رہی۔ روایت پسندی کی مخالفت سب سے زیادہ ترقی پسندوں ہی نے کی۔ مگر اب ان میں بھی مخالفت کا وہ انداز موجود نہیں رہا۔ اس رجحان کی زیادہ بدلی ہوئی بلکہ ایک حد تک رد عمل میں ایک صورت دوسرے تصور کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ یہ پاکستانی اردو ادب یا قومی ادب کی تحریک ہے۔ اس کے لیے کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں تخلیق کیا جانے والا ادب ان اقدار کی ترجمانی کرے جو مطالبہ پاکستان کی بنیاد تھیں۔ اسی بحث کے ذیل میں قومیت، تہذیب اور نظریہ کے مسائل بھی ضمنی طور پر گفتگو کا موضوع ہے۔
پاکستانی اردو ادب میں قومی احساس اور ملی شعور کا مسئلہ ایسا ہے جس پر پاکستان کی ابتداء ہی سے سنجیدہ ادیب توجہ دلاتے آۓ ہیں۔ ابتداء میں اس بات پر زور دیا گیا کہ پاکستان کے قیام کے بعد اب اس کے استحکام، ترقی اور تعمیر کا سوال ہے۔ اس نوزائیدہ ملک میں نئے تقاضے اور نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ہمارے لکھنے والے ان کی طرف توجہ دیں۔ قوم کے مزاج کو پہچانیں اور اس کے عزائم کا ساتھ دیں۔
اس سلسلہ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستانی ادب صرف وہی نہیں ہے جو پاکستان کی سر زمین میں تخلیق ہو۔ بلکہ وہ ہے جو یہاں کے نئے تقاضوں، نئے حالات اور نئے ماحول کی عکاسی کرے۔ کیونکہ پاکستان کے قیام سے کوئی نئی قوم تو نہیں بنی۔ قوم تو پہلے ہی موجود تھی۔ پاکستان دراصل قوم کے تہذیبی وجود کے تحفظ کے لیے بنا تھا۔
اسلامی اور غیر اسلامی اردو ادب
پاکستانی تہذیب تیرہ سو سال پرانی ہے اور اردو ادب کی روایت دراصل پاکستانی ادب کی روایت ہے۔ اس سے زیادہ موثر آواز اسلامی ادب کے لیے تھی۔ اس کے ترجمان اسلام کے مخصوص تصورات کے مطابق ایک ایسے ادب کی تخلیق کے داعی تھے۔ جو اسلامی اقدار حیات کی ترجمانی کرے اور ان کی ترویج بھی کرے ۔ یہ بحث کافی عرصہ تک جاری رہی۔
یہ نکتہ نظر دراصل اس غیر مصدقہ نظریے کا رد عمل تھا۔ جو ۱۹۴۷ء سے پہلے دور میں ادب اور مذہب و اخلاق کے مابین ایک فاصلہ رکھنا چاہتا تھا۔ یہ اس کا سبب تھا کہ قیام پاکستان کے بعد ادب کو اسلامی اور غیر اسلامی دو شعبوں میں تقسیم کیا جانے لگا۔ اس کی ایک وجہ اور بھی تھی کہ تقسیم کے بعد بھارت کے ایک گروہ نے اردو اور اسلام کو مرادف قرار دیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں بھی لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوۓ کہ اردو اور اسلام جب مرادف ہو سکتے ہیں تو ادب اور اسلام میں کوئی خاص مغائرت کیوں ہونے گی؟
بین الاقوامیت اور وابستگی
پاکستانی اردو ادب اور اسلامی ادب کی بحث اب بھی گاہے گاہے ہوتی ہے۔ ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء میں بھارت سے جنگوں اور مشرقی پاکستان کے سقوط کے زیر اثر جو ادب تخلیق ہوا۔ اس میں یہ بحث موضوع اور رجحان کی صورت میں نمودار ہوئی۔ لیکن ۱۹۷۷ء میں نفاذ شریعت کی تحریک کے شروع ہونے اور ملک میں اسلامی شریعت کے نفاذ کے مختلف تدریجی مرحلوں کے دوران یہ بحث پھر شروع ہو گئی۔ دیگر مسائل میں جو ان دنوں زیر بحث رہتے ہیں، ”بین الاقوامیت“ اور ”وابستگی زیادہ نمایاں ہیں۔
”بین الاقوامیت” کے حامی سمجھتے ہیں کہ۔ آج دنیا اس قدر وسیع ہے کہ فرد صرف اپنی مخصوص جغرافیائی حدود کے اندر خود کو محصور نہیں کر سکتا۔ اسے بین الاقوامی سطح پر سوچنا چاہیے۔ اسی طرح اولی اثرات اور نظری اثر پذیری بھی بین الاقوامی ہو۔ جب کہ اس نکتہ نظر کے بر عکس ”وابستگی ” کے حامی یہ کہتے ہیں کہ۔ ادیب زندگی اور معاشرے کے حوادث اور نظریات سے غیر متعلق نہیں رہ سکتا۔ اسے کسی نہ کسی نظریہ یا فریق سے وابستگی ضرور رکھنا چاہیے۔