کائنات میں کھرب ہا کھرب ستارے اور سیارے بکھرے ہوئے ہیں مگر زندگی صرف ایک جگہ پر ہی موجود ہے اور وہ جگہ ہے ہمارا کرہ ارض۔
کائنات اور ہم
ہم ایک وسیع ہوتی ہوئی کائنات میں رہتے ہیں جو نا قابلِ ادراک حد تک قدیم ہے۔ اس میں شامل کہکشائیں ایک دوسرے سے دور بھاگ رہی ہیں۔ یہ سب ایک دھماکہء عظیم، بگ بینگ کی باقیات ہیں۔ کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کائنات اپنے جیسی ان بے شمار کائناتوں ہی میں سے ایک ہے جو ختم ہو چکی ہیں۔
اس کے علاوہ ہر لمحے کائناتوں کی پیدائش اور موت کا سلسلہ جاری ہے۔ نیز کچھ ایک تا ابد پھیل رہی ہوں گی۔ کچھ کو سکون حاصل ہو گیا ہوگا۔ ہماری اپنی کائنات تقریباً 15 ارب سال پرانی ہو چکی ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ بگ بینگ کو واقع ہوئے اتنا عرصہ گزر چکا ہے۔
دوسری کائناتوں میں شاید فطرت کے قوانین مختلف ہوں اور ان دیگر کائناتوں میں مادے کی صورتیں مختلف ہوں۔ ان میں سے متعدد میں زندگی ناممکن ہوگی۔ کیونکہ وہاں کوئی سورج اور سیارے حتی کہ ہیلیم اور ہائیڈروجن سے زیادہ پیچیدہ کیمیائی عناصر موجود نہیں ہوں گے۔ کچھ دیگر میں شاید ایسی پیچیدگی، تنوع اور شان ہو کہ ہماری اپنی کائنات ان کے سامنے ہیچ نظر آئے۔
اگر وہ دیگر کائناتیں وجود رکھتی ہیں تو شاید ہم کبھی بھی ان کے راز جاننے کے قابل نہیں ہوسکیں گے۔ ان کی سیر کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ لیکن ابھی اپنی کائنات میں ہی کافی کچھ معلوم کرنا باقی ہے۔
ہم اور ہماری کہکشاں: ملکی وے
ہماری کائنات کوئی 100 بلین کہکشاؤں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ایک کہکشاں کا نام ملکی وے ہے۔ یہ گیس اور گرد، اور تقریبا 400 بلین سورجوں سے مل کر بنی ہے۔ ہمارا سورج بھی ان 400 بلین سورجوں میں شامل ہے۔ 250 ملین سال سے سورج کے ہمراہ چھوٹی دنیاؤں کا ایک گروہ ہے۔ کچھ سیارے، کچھ چاند ، کچھ سیارچے اور کچھ دمدار ستارے۔
ہم انسان اُن 50 بلین انواعِ حیات میں سے ایک ہیں جو سورج سے تیسرے درجے پر ایک چھوٹے سے سیارے پر ارتقاء پذیر ہوئیں۔ ہم اس سیارے کو کرہ ارض کہتے ہیں۔ ہم نے اپنے نظام کی 70 دیگر دنیاؤں کا معائنہ کرنے کے لیے تحقیقاتی خلائی جہاز بھیجے ہیں۔ چار خلائی جہاز چاند، زہرہ، مریخ اور مشتری کے کرۂ فضا کے اندر بھی داخل ہوئے یا ان کی سطح پر اترے۔ ہم نے ایک داستانی کوشش شروع کر دی ہے۔
کائنات کیا ھے؟
جو کچھ بھی موجود ہے وہ کائنات ہے۔ ہمارے قدموں تلے زمین سے لے کر نہایت دور چمکتے ہوئے ستاروں تک، ہر چیز کائنات کا حصہ ہے۔ کائنات اس قدر بڑی اور وسیع ہے کہ اس میں بے شمار ستارے ہیں۔ مگر اس کا زیادہ تر حصہ خالی ہے۔ کائنات میں تقریباً 1,00,000 ملین (ایک کھرب) کہکشائیں ہیں۔ ہر ایک کہکشاں1,00,000 ملین ستاروں پر مشتمل ہے۔ انسان آج تک زیادہ سے زیادہ 1,39,000 ملین ملین ملین کلومیٹر دور واقع ستاروں کا سراغ لگا پایا ہے۔
آسمان کا تصور کرنا
زمین پر کھڑے ہو کر ہم خلا میں دیکھنے اور کائنات کا مطالعہ کرنے کے قابل ہیں۔ جس طرف بھی ہم نگاہ اٹھائیں ستارے ہی ستارے نظر آتے ہیں۔ کائنات میں کسی بھی اور چیز سے زیادہ ستاروں کی تعداد ہے۔ ستاروں کے بڑے بڑے گروہوں یا جھرمٹوں کو کہکشاں کہتے ہیں۔ کم از کم ایک ستارہ ایسا ضرور موجود ہے جس کے گرد سیارے گردش کر رہے ہیں۔ کائنات کی اس وسعت کے باوجود ہم صرف ایک جگہ پر ہی زندگی موجود ہونے کے بارے میں جانتے ہیں اور وہ جگہ ہمارا کرہ ارض ہے۔
خلا میں گھوڑے کا سر
شطرنج کے گھوڑے کی شکل کا Horsehead ٹھنڈ (نیبولا ) تاریک رنگ کی گرد والا ایک بہت بڑا غبار ہے۔ جیسا کہ آپ تصویر میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ہمیں اس لیے دکھائی دیتا ہے کیونکہ گرد کے بادل نیبولا کے پیچھے سے آنے والی روشنی کو روک لیتے ہیں۔ کائنات ایسے بادل نما غباروں سے بھری پڑی ہے جو ہمارے مزید آگے دیکھنے کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
کائنات کا تصور کرنا۔
کائنات کے بارے میں سوچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اسے ایک ایسے گیند کے طور پر تصور کیا جائے جو متواتر پھیل رہا ہے اور اس کے نتیجے میں ہر ایک چیز کا درمیانی فاصلہ بڑھتا جارہا ہے۔ کائنات سے آگے کچھ بھی نہیں۔ کیوں کہ سارا زمان و مکاں اس کے اندر موجود ہے۔ اس سے باہر نہ کوئی جگہ ہے اور نہ زمانہ۔
کائنات کی داستانِ حیات
تقریباً 15,000 ملین ( پندرہ ارب) سال قبل ہونے والے عظیم دھماکے میں تمام مادہ، توانائی، اور زمان و مکاں وجود میں آئے۔ ابتدا میں کائنات بہت چھوٹی اور گرم تھی۔ ایٹمی ذرات کے ملنے سے ہائیڈروجن اور ہیلیم گیسیں بنیں اور کائنات مزید پھیلنے کے باعث ٹھنڈی ہونے لگی۔
لاکھوں سالوں کے دوران ان گیسوں نے کہکشاؤں، ستاروں، سیاروں کو اور ہمیں تخلیق کیا۔
سائنس دان کائنات کی زندگی کا پتہ بگ بینگ کے بعد 43-10 سیکنڈز تک لگا سکے ہیں۔43-10 کا مطلب ہے ایک کے ساتھ 42 صفر۔ اس پیمانے کو پلانک ٹائم کہتے ہیں۔
آگے کیا ہوگا ؟
کائنات کے مستقبل کے حوالے سے دو تھیوریز موجود ہیں۔ یا تو اس کے پھیلنے کا سلسلہ رک جائے گا اور پھر ایک سکڑنے کا عمل شروع ہوگا۔ یا یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پھیلتی ہی رہے گی۔
(کائنات سکڑنے کے نتیجہ میں شاید ایک اور بگ بینگ ہو)
بگ بینگ کے اثرات
سامنے تصویر میں دکھایا گیا نقشہ خلا کے درجہ حرارت میں نہایت معمولی تبدیلیوں پر مبنی ہے۔ سرخ حصے نسبتا گرم جبکہ نیلے حصے ٹھنڈے ہیں۔ یہ معمولی سی تبدیلیاں بگ بینگ دھماکے کی نہایت خفیف نشان دہی کرتی ہیں۔ اس نقشے کے لیے معلومات کاسمک بیک گراؤنڈ ایکسپلورر سیٹلائیٹ سے لی گئیں ہیں۔
پھیلاؤ اور نشو و نما
نئی وجود میں آئی ہوئی کائنات پھیلنے پر اس کا مادہ آپس میں ملنے لگا۔ بگ بینگ سے تقریباً 3,00,000 ملین سال بعد کہکشاؤں کی تشکیل کا عمل شروع ہوا۔ نظام شمسی اس عظیم دھماکے سے تقریباً10,000 ملین سال بعد کی پیداوار ہے۔ کرہ ارض پر زندگی کا ظہور بگ بینگ سے 11,500 ملین سال بعد ہوا۔
ملکی وے کہکشاں کی چکردار بازوؤں والی شکل بگ بینگ سے تقریباً 5,000 ملین سال بعدبنی۔
چند منٹوں میں ہی مادہ وجود میں آیا اور کائنات %75 ہائیڈروجن اور 25 ٪ ہیلیم پر مشتمل تھی۔
کائنات کا ابتدائی درجہ حرارت تقریباً 10.000 ملین ڈگری تھا۔
کیرول اسٹوٹ
کِلنٹ ٹوسٹ ـــــــــــــ مترجم: یاسر جواد