کہکشائیں اور تاریک مادہ

کائناتی ناہمواریت

بے قاعدگی کی مندرجہ بالا دو مثالوں سے ایک نتیجہ بہ آسانی اخذ کیا جا سکتا ہے ۔ یعنی بارش کے قطروں کو ایک دوسرے کی کوئی پرواہ نہیں لیکن پرندے باہم فاصلہ برقرار رکھنا پسند کرتے ہیں۔ بے ضابطگی کی ان دو مثالوں کے تقابل سے واضح ہوتا ہے کہ وقوعی عدم ترتیب کا مطالعہ بھی اہم معلومات فراہم کر سکتا ہے۔ فرض کریں کہ کہکشائیں ریت کے ذرات کی طرح بکھری ہوئی ہیں۔ ہمارا پہلا سوال یہ بنتا ہے کہ آیا ان کے وقوعہ میں بارش کے قطروں کی سی بے ترتیبی ہے۔ یا اس بظاہر بے ترتیبی کے پس پردہ پرندوں کے گھونسلوں کا سا کوئی اصول کار فرما ہے؟

کہکشائیں

کونیاتی تنظیم (Cosmic Organization) پر مندرجہ بالا اور بہت سے دوسرے سوال بیسں کی دہائی ہی میں اٹھائے جانے لگے تھے۔ جب پہلی بار واضح ہوا تھا کہ کہکشائیں ہماری کہکشاں کے باہر پائے جانے والے عظیم اور وسیع ستاروی نظام ہیں۔ فلکیات دانوں نے دیکھا کہ کہکشائیں اکیلی اکیلی موجود نہیں۔ بلکہ یہ مل کر کہکشانی جھرمٹ بنانے کا رجحان رکھتی ہیں۔ پہلے پہل مشاہدے میں آنے والے جھرمٹ (Clusters) ورگو (Virgo) اور کوما (Coma) تھے۔ اس کے بعد ایک اور حقیقت زیر مشاہدہ آئی کہ کہکشاؤں کے جھرمٹ مل کر مزید بڑے جھرمٹ (Super Cluster) بناتے ہیں۔

پچاس کی دہائی میں ڈونالڈ شین (Donald Shane) اور کارل ورسین نے کیلیفورنیا میں ایک ملین سے زیادہ کہکشاؤں کے سروے کا آغاز کیا۔ ان کے تیار کردہ اعداد و شمار کو استعمال کرتے ہوۓ پرنسٹن یونیورسٹی میں کائنات کا دو جہتی نقشہ تیار کیا گیا۔ اس نقشہ کو ایک ملین کہکشائیں“ نامی مقبول عام پوسٹر کی صورت پیش کیا گیا۔ اسے کائنات کا طائرانہ جائزہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

ماہرین کے دوسرے گروہ کے خیال میں کائنات ایک جال (Net) ہے جس کی گرہیں کہکشانی جھرمٹ ہیں۔ ماہرین طبیعیات اور فلکیات متفق ہیں کہ کائنات کے اندر کہکشاؤں کی تقسیم اور ترتیب کی وضاحت محض کہکشاؤں کے درمیان لمبے عرصے تک عمل پیرا رہنے والی قوت تجاذب سے نہیں ہو سکتی۔ تجاذب کے علاوہ بھی کوئی قوت ان کے درمیان موجود ہونی چاہئے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ دو سرا عامل غالبا سیاه ماده (Dark Matter) ہے۔ یہ مادہ کہکشاؤں کے اندر اور ان کے مابین پایا جاتا ہے لیکن یہ مادہ دوربین سے دیکھا نہیں جا سکتا۔

(Dark Matter) کہکشانی جھرمٹ اور سیاہ مادہ

تیس کی دہائی میں کئے جانے والے کہکشانی مطالعے سے نتیجہ اخذ کیا گیا۔ کہ اس مفروضہ غیر مرئی سیاہ مادے کی عدم موجودگی میں کہکشائیں اتنی تیز رفتاری سے حرکت کرتی ہیں کہ معلوم زیر مشاہدہ آنے والے مادہ کی قوت تجاذب انہیں باہم متحد نہیں رکھ سکتی۔ اتنی تیز حرکت کے نتیجے میں ان کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے ہٹ جانا چاہئے۔ اور ان کے جھرمٹ قائم نہیں رہنا چاہئیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ غالب امکان ہے کہ ایسا مادہ خاصی بڑی مقدار میں موجود ہے۔ جو نظر نہیں آتا لیکن اپنے تجاذبی اثر سے کہکشاؤں کو باہم مربوط رکھتا ہے۔

سیاہ مادہ کی ایسی ہی بالواسطہ اور بڑے پیمانے پر شہادت جھرمٹوں کے جھرمٹ (Super Clusters) کے مطالعہ سے بھی دستیاب ہوئی۔ 1982ء میں ہوائی یونیورسٹی کے ڈاکٹر برینٹ ٹلی (Brent Tully) نے ورگو سپر کلسٹر (Virgo Super Cluster) کی دو ہزار دو سو کہکشاؤں کے سرخ ہٹاؤ کا مطالعہ کیا۔ اس سپر کلسٹر کا بیس فیصد مادہ اس کے مرکز میں مجتمع ہے۔ اس مرکز کے عین وسط میں ایک بڑی جسامت کی بیضوی کہکشاں M87 ہے۔ اس کہکشاں کے گرد کہکشاؤں سے بننے والی ایک طشتری واقع ہے۔ جس کا قطر پینتیس ملین نوری سال اور موٹائی کچھ ملین نوری سال ہے۔ اس طشتری کے گرد سگار کی شکل کے بہت بڑے بڑے کہکشانی بادل ہیں۔ اس طرح کا نظام صرف وسطی مادہ کی قوت کشش کے باعث قائم نہیں رہ سکتا۔

مرئی اور غیر مرئی کہکشانی مادہ

کہکشائیں اتنی تیزی سے گردش میں ہیں کہ مرکز میں کہکشانی مادہ انہیں متحد نہیں رکھ سکتا۔ اس مظہر کی توجیہہ کے لئے ایک بار پھر ایسے مادے کی ضرورت ہے۔ جو مرئی (Visible) مقدار سے بہت زیادہ ہو اور کہکشانی جھرمٹ میں موجود ہو۔ تاریک ماده صرف کہکشانی جھرمٹوں ہی میں موجود نہیں۔ کہکشاں کے اندر بھی اس کی موجودگی بعض ایسے سوالوں کا جواب مہیا کرتی ہے۔ جنہیں مرئی مادے کی بنیاد پر حل نہیں کیا جا سکتا۔

اسی اور نوے کی دہائی میں کہکشاؤں کے باہر موجود غیر چارج شده ہائیڈ روجن اور ستاروں کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ جو تیزی سے کہکشاں کے گرد چکراتے رہتے ہیں۔ اگر یہ مان لیا جاۓ کہ تمام تر کہکشانی مادہ مرئی ستاروں میں مرتکز ہے۔ تو پھر کہکشاں کے کناروں پر مادہ کی کثافت صفر ہو جاۓ گی۔ اس صورت میں کہکشاں سے فاصلہ بڑھنے کے ساتھ اس گیس یا سیارے کی گردشی رفتار کو صفر ہو جانا چاہئے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔

اس امر کی ایک ہی وضاحت پیش کی جا سکتی ہے۔ وہ یہ کہ مادہ کی کوئی غیر مرئی قسم کہکشاں کی مرئی حدوں سے باہر تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ مادہ کی غیر مرئی شکل کہکشاں کی کل کمیت کے نوے فیصد تک ہو۔ یعنی کہ کسی کہکشاں کا جو مادہ ہمیں نظر آتا ہے وہ کل مادہ کا صرف دس فیصد ہو۔

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ غیر مرئی مادہ سے مرکب ایک ہالہ کہکشاں کی مرئی سرحدوں سے باہر اتنی دور تک پھیلا ہوا ہے۔ کہ وہ دوسری کہکشاؤں کے ایسے ہی ہالوں کے ساتھ تعامل کی حالت میں ہے۔

تاریک مادہ کیا ہے؟

یہ تاریک مادہ کیا ہے؟ ماہرین فلکیات کے پاس اس کا کوئی سیدھا اور آسان فہم جواب موجود نہیں۔ اس لئے گیس، گرد و غبار، منجمد ہائیڈ روجن اور بلیک ہول کی صورت میں موجودہ غیر مرئی مادہ کے مفروضات یکے بعد دیگرے مختلف وجوہات کی بناء پر مسترد کئے جا چکے ہیں۔

ماہرین کے پیش کردہ بعض نظریات کافی مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق بگ بینگ کے وقت دوسرے ذرات کے ساتھ ساتھ نیوٹرینو (Neutrino) گریویونوز (Gravitionse)، فوٹون (Photons) اور ایگزیونز (Axions) جیسے معتدل (Neutral) ذرات بھی بڑی مقدار میں پیدا ہوۓ تھے۔ غیر مرئی سیاہ مادہ ان ہی سے مل کر بنا ہے۔ یہ نظریہ پہلے پہل کچھ زیادہ مقبولیت حاصل نہ کر سکا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کیونکہ کائنات کی تشکیل کے سلسلے میں کچھ مسائل کے حل میں یہ نظریہ کارگر ہے۔

مختصرا” یہ کہ کائنات کا نوے فیصد ان غیر مرئی کوانٹم ذرات کے سیال پر مشتمل ہے۔ اس صورت میں کہکشائیں کائناتی مادے کے صرف دس فیصد کی ذمہ دار ہیں۔ اگر ایسے کوانٹم ذرات موجود ہیں تو وہ تجاذب کے تحت باہم جڑے ہوۓ ڈھیلوں کی شکل میں موجود ہوں گے۔ ان ڈھیلوں کی جسامت کا انحصار ان کوانٹم ذرات کے خواص پر ہے۔

بگ بینگ کی باقیات

اس نقطہ نظر کو مان لیا جاتا ہے۔ تو مرئی کہکشاؤں کی حیثیت محض ایسے تاباں ذرات کی سی رہ جاتی ہے۔ جو اپنی تقسیم اور ترتیب سے غیر مرئی مادے کے ڈھیلوں اور ڈھیلوں کے جھرمٹوں کی نشاندہی کا کام دیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ تاباں اور مرئی مادے کی حیثیت ثانوی ہو جاتی ہے۔ جس کی مدد سے ہم تاریک مادے کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔

ان سوالات کا تعلق کہکشاؤں کے منابع اور ان کے ارتقاء سے بھی ہے۔ کائنات ،کہکشاؤں کا وجود، ان کی ترتیب اور حرکت سب بگ بینگ کی باقیات ہیں۔ چنانچہ ان کی تنظیم کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس آتشیں گولے پر غور کریں جس کے پھٹنے کے نتیجہ میں کائنات وجود میں آئی۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ وہ گولا نہایت متجانس تھا۔ اس امر کی شہادت پس منظری شعاعوں سے بھی ملتی ہے۔ یہ شعاعیں بگ بینگ کے وقت خارج ہوئی تھیں اور ہمارے زیر مشاہدہ آنے والی قدیم ترین کائناتی شے ہیں۔ تمام سمتوں سے آنے والی پس منظری شعاعوں (Back Ground Radiation) کی شدت تقریبا یکساں ہے۔ دس ہزار میں سے ایک حصہ فرق معلوم کیا جا سکا ہے۔ اگر یہ مان لیا جاۓ کہ ان شعاعوں کی شدت کا فرق اس آتشیں گولے کے انتہائی معمولی طور پر غیر متجانس ہونے سے وجود میں آیا تو پھر یہی معمولی فرق کائنات میں کہکشاؤں کے بننے کا سبب بنا۔

کوانٹم ذرات

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کوانٹم ذرات پر مشتمل آتشیں گولے میں کثافت کے تغیرات خود کوانٹم قوانین کے تحت لازم ہیں۔ یہ کوانٹم تغیرات اتنے مناسب حجم میں کیوں تھے کہ نہ یہ اتنے بڑے ہو گئے کہ کائنات کا بطور کل متجانس ہونا متاثر ہو اور نہ ہی یہ اتنے چھوٹے تھے کہ کہکشائیں پیدا نہ ہو سکیں۔ یہاں پر ماہرین میں اختلاف پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ ابتداء میں کوانٹم ذرات پر مشتمل بادلوں کے ٹکڑے بہت بڑے تھے۔ یہ بعد ازاں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ کر ایک ہی جھرمٹ کے تحت آنے والی کہکشائیں بن گئے۔ لیکن ماہرین کے ایک اور گروہ کے خیال میں ان ٹکڑوں کا حجم اتنا ہی تھا کہ چھوٹی بڑی کہکشائیں بن جائیں۔ یہ کہکشائیں بعد ازاں ایک دوسرے کے قرب میں آئیں اور ان کے جھرمٹ بنے۔ یعنی کہ سوال نے یہ صورت اختیار کر لی ہے کہ پہلے جھرمٹ وجود میں آۓ تھے یا کہکشائیں۔

مندرجہ بالا مسئلہ حل کرنے کے لئے ابھی مزید مشاہداتی اعداد و شمار کی ضرورت ہے۔ خلا میں زیادہ طاقتور دوربینوں کے قیام کے بعدہم کوازار سے زیادہ آگے یعنی کائنات کے ماضی میں زیادہ اندر تک جھانک سکیں گے۔ فلکیات دانوں کو امید ہے کہ اس طرح کے مشاہدات کہکشاؤں کی تشکیل پر زیادہ بہتر انداز میں روشنی ڈال سکیں گے۔

کائنات متجانس نہیں ہے

لیکن ہم کتنی بڑی دور بینیں کیوں نہ بنالیں۔ کائنات کے ماضی میں تین لاکھ سال سے آگے نہیں دیکھ سکتے۔ اس سےپہلے کی کائنات غیر شفاف تھی۔ چنانچہ ہم آتشیں گولے کے وہ تغیرات نہیں دیکھ سکتے جن سے ہماری کہکشاؤں نے جنم لیا تھا۔

بلاشبہ کائنات متجانس نہیں ہے۔ کہکشاؤں، ستاروں اور سیاروں کی موجودگی ثابت کرتی ہے کہ کائنات تودوں پر مشتمل ہے۔ کائنات کے کل حجم کے مقابلے میں اس کا یہ غیر متجانس پن کچھ اتنا زیادہ نہیں۔ لیکن کائنات کی تفہیم کے لئے اس کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ یہ مطالعہ اس لیےبھی مشکل ہے کہ تاریک مادے کے ذرات کی ممکنہ خصوصیات اس طرح کی ہیں۔ کہ عام مادے کےساتھ اس کا تعامل نہایت کمزور ہے۔ اس وجہ سے ان کا براہ راست مشاہدہ تاحال مشکل ہے۔ ان کا محض بالواسطہ مشاہدات اور حسابات سے استخراجی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے