"میں تنگ آ گیا ہوں اس گیارہ ستمبر کے سانحہ سے… دنیا میں اور بھی تو بہت کچھ ہورہا ہے جو اس سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔"
مستنصر حسین تارڑ
"میں خلفشار میں ہوں۔”
میں ہنسنے لگا۔ "یار تمہارا نام خلیفہ خلفشاری ہے تو ظاہر ہے تم خلفشار میں ہی ہو گے۔”
"نام کا شخصیت اور مزاج سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ ایک نابینا کا نام چراغ دین بھی تو ہو سکتا ہے۔ میں انتشار میں تو رہتا ہوں کہ یہ ہمارا قومی مزاج ہے اور میں اپنی قوم سے الگ نہیں، لیکن خلفشار میں نہیں رہتا۔”
"چلو پھر مجھے یہ بتا دو کہ تم خلفشار میں کیوں ہو؟“
” دراصل گیارہ ستمبر کے بعد …”
خدا کے لیے خلیفہ! ” میں چیخ اٹھا اور ہاتھ جوڑ دیئے۔ ” کیا ہم کسی اور موضوع پر بات نہیں کر سکتے ۔ میں تنگ آ گیا ہوں اس گیارہ ستمبر کے سانحہ سے… دنیا میں اور بھی تو بہت کچھ ہورہا ہے جو اس سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔“
” مثلا؟”
” مثلا….. مثلا یہ کہ جاپانی شہزادی کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ دادو میں ایک درویش بڑھیا نے ایک بچے کو کھانے کی کوشش کی ہے۔“
"اوہو تارڑ میاں! میں بھی تو اسی درویش بڑھیا کے بارے میں خلفشار میں ہوں جس نے بچے کو کھانے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ کھا گئی ہے۔ کھا گئی ہے؟ "
"نہیں نہیں، خلیفہ! اس نے صرف ایک بچہ کھانے کی کوشش کی ہے اسے کھایا نہیں۔”
"تم تک پوری خبر نہیں پہنچی۔ میں جس درویش بڑھیا کے بارے میں بات کر رہا ہوں وہ تو سینکڑوں نہیں ہزاروں پاکستانی بچے کھا گئی ہے۔”
"تم کون سی بڑھیا کے بارے میں بات کر رہے ہو خلیفہ؟”
"کابل کے ایک گٹر میں ایک پاکستانی کی مسخ شدہ لاش پڑی ہوئی ہے۔ ایک سو ساٹھ طالبان کو قطار میں کھڑا کر کے انہیں مشین گنوں سے ہلاک کر دیا گیا ہے اور ان میں سے بیشتر پاکستانی ہیں اور…”
"خلیفہ! میں نے ہاتھ جوڑ کر درخواست کی تھی کہ تم گیارہ ستمبر اور افغانستان پر امریکی حملے کے بارے میں کوئی بات نہیں کرو۔”
"میں اس کے بارے میں بات نہیں کر رہا۔ طالبان کے لیے میرے دل میں جو نرم گوشہ ہے وہ ڈاک کے ٹکٹ کے سائز کا بھی نہیں۔ لیکن میں ان پاکستانی بچوں اور نو جوانوں کا تو ماتم کر سکتا ہوں جنہیں بڑھیا نے ہلاک کر ڈالا ۔ میں ان کے نظریات سے تو متفق نہیں ہوں لیکن ان کی ہلاکت سے نا متفق ہوں کہ وہ میرے وطن کے تھے۔”
"دیکھ خلیفہ! امریکہ نے اپنا انتقام لے لیا ہے۔ اس کے پانچ ہزار بندے مارے گئے تھے تو اس نے پچاس ہزار افغانیوں کو ہلاک کر دیا۔ اگر چہ میں نے مشورہ تو دیا تھا کہ چونکہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں صرف تندرست اور توانا لوگ ہلاک ہوئے تھے ۔ان میں بوڑھے اور بچے شامل نہیں تھے۔ اس لیے اگر افغانیوں اور طالبان کو مارنا ہے تو صرف نو جوانوں کو مارا جائے …
لیکن منی ایٹم بم ڈیزی کٹر اور بنکر بسٹ بم میں کوئی ایسا سٹم نہیں ہے جو بچوں اور بوڑھوں میں تخصیص کر سکے۔
اس لیے وہ بھی ہلاک ہو گئے ۔ بہتر یہ تھا کہ امریکی فوج خود بنفس نفیس کا بل اور مزار شریف میں جا کر یہ فریضہ سرانجام دیتی۔ لیکن اس میں ان کی جانوں کو خطرہ تھا اس لیے انہوں نے مناسب جانا کہ صرف مکمل تباہی کے بعد وہاں قدم رنجہ فرمایا جائے۔ اب رہ گئی پاکستانی طالبان کی بات تو انہیں کس بڑھیا نے کھایا ہے؟”
"ایک تو امریکی بڑھیا ہے جس نے کہا تھا کہ غیر ملکی طالبان کو ہلاک کر دینا بہت ضروری ہے۔ انہیں گرفتار کرنا مناسب نہیں اور اسی پالیسی کے تحت مزار شریف کے نزدیک قلعہ جنگی میں تاریخ کا بدنام ترین قتل عام ہوا۔ جس نے ویت نام میں ہونے والے مائی لا قتل عام کی یاد دلادی۔ تم نے گرد سے اٹی مسخ شدہ لاشوں اورسینکڑوں لاشوں کی تصویریں دیکھی ہوں گی جنہیں امریکی بہادروں نے بی باون طیاروں سے میزائکلیں فائر کر کے نابود کر دیا۔”
"خلیفہ! انہوں نے بھی تو ایک امریکی کو ہلاک کر دیا تھا۔ بین الاقوامی سٹاک ایکسچینج میں ایک امریکی برابر ہے ایک ہزار افغانیوں کے تو ابھی حساب برابر نہیں ہوا۔ ابھی انصاف ہونا باقی ہے۔“
"تم کس کی سائیڈ پر ہو؟ "
” میں امریکی ڈالروں کی سائیڈ پر ہوں ۔“
” تم نے یہ بھی دیکھا ہو گا کہ لاشوں کے جبڑوں کو چیر کر ان میں سے سونے کے دانت نکالے جارہے ہیں۔”
"تو اس میں کیا برائی ہے. سونا ضائع تو نہیں کرنا تھا۔ یوں بھی یہ معمول کی بات ہے۔ نازی بھی تو مرے ہوئے یہودیوں کے دانتوں میں سے سونا نکالتے تھے۔ اس لیے قانون میں اس کی گنجائش موجود تھی۔“
"اور جب پوری دنیا اور ایمنسٹی انٹر نیشنل یہ کہہ رہی ہے کہ یہ جنگی جرم ہے تو برطانیہ کے ایک وزیر نے بیان دیا ہے کہ اس کی انکوائری کروانے کی کیا ضرورت ہے۔ جنگ میں اس قسم کی ظالمانہ حرکتیں ہو ہی جاتی ہیں تو پھر نبیورن برگ ٹرائل کیوں ہوا تھا۔ نازیوں سے بھی تو اس قسم کی حرکتیں ہو گئی تھیں۔ میں تو اس تنہا طالبان کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں جو آخری خبریں آنے تک قلعہ جنگی کے ایک تہہ خانے میں راکٹ فائر کرنے کے با وجود زندہ ہے اور ہتھیار نہیں پھینک رہا۔”
"خلیفہ! تم اس بڑھیا کے بارے میں بات کر رہے تھے جو پاکستانی بچے کھا گئی ۔ "
"ہاں…. میں چاہتا ہوں کہ اس بڑھیا کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ دائر کروں۔”
"جنگی جرائم کے مقدمے کسی ملک کی جانب سے تو دائر کئے جاسکتے ہیں۔ کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں ۔”
"چاہے اس فرد کے ہزاروں ہم وطن مارے جائیں … ان کی لاشیں گٹروں میں پھینک دی جائیں۔ ان پر پٹرول چھڑک کر انہیں آگ لگادی جائے۔ لیکن اس قتل عام میں صرف ایک بڑھیا ملوث نہیں۔ ایک اور بڑھیا بھی ہے اور وہ بھی برابر کی قصور وار ہے۔“
” وہ کون سی بڑھیا ہے خلیفہ ؟”
"وہی جو ہزاروں نوجوانوں کو تلواروں اور عام ہتھیاروں سے مسلح کر کے سرحد کے پار لے جاتی ہے اور پھر انہیں موت کے منہ میں دھکیل کر اپنے چند ساتھیوں سمیت پاکستان بھاگ آتی ہے۔ اس بڑھیا پر بھی جنگی جرائم کا مقدمہ چلنا چاہیے۔”
"بھئی یہ بھی نارمل روٹین ہے۔ اس قسم کی بڑھیا کبھی خود شہید نہیں ہوتی۔
یہ اول تو سرحد پار نہیں جاتی ، صرف معصوم نوجوانوں کو اشتعال دلا کر انہیں موت کے منہ میں دھکیل دیتی ہے اور یا پھر جلسوں اور احتجاجی جلوسوں کی قیادت کرتی ہے۔ سیمیناروں میں فلسفے بیان کرتی ہے اور ایک پُر آسائش زندگی بسر کرتی ہے۔ یہ اپنے بچوں کو یا تو امریکہ میں رکھتی ہے یا ڈیزل کی آمدنی سے انہیں متمول کرتی ہے اور یا پھر اسلام آباد پر حملہ آور ہونے کی دھمکیاں دیتی ہے۔”
"ہاں تارڑ! ہمارے ساتھ یہی ہوتا آیا ہے۔ باہر جو بڑھیا ہے وہ ہم پر دھونس جماتی رہتی ہے کہ یا تو تم میرے ساتھ ہو یا پھر میرے خلاف۔ اور جو گھر کی بڑھیا ہے وہ ہمیں بلیک میل کرتی رہتی ہے اور نو جوانوں کو موت کے منہ میں دھکیلتی رہتی ہے۔ میں انہی کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ درج کروانا چاہتا ہوں۔“
جو تم نہیں کر سکتے۔“
"تو پھر کیا کروں؟“
"صبر”
"اور صبر کے علاوہ کیا میں افغانستان میں بیدردی سے مارے جانے والے پاکستانی نوجوانوں کا ماتم کرسکتا ہوں؟“
ہاں! وہ تم کر سکتے ہو کیونکہ جرم ضعیفی کی یہی سزا ہے۔ صبر اور ماتم! "