یقین: ایک روحانی طاقت

یقین کی طاقت ایک ایسی طاقت ہے جو آپ کی کایا پلٹ سکتی ‏ہے۔ یعنی آپ میں ایک زبردست تبدیلی پیدا کر سکتی ہے۔

یقینِ کامل

بہت عرصہ ہوا میں نے کسی کتاب میں ایک حکایت پڑھی تھی۔ ایک پیر صاحب تھے جو اپنے مرید سے کہا کرتے تھے کہ اللہ کا نام لو اور پانی پر قدم رکھ دو۔ تم اللہ کے حکم سے دریا ‏پار کر جاؤ گے۔ مرید کو اپنے پیر پر مکمل یقین تھا۔ وہ اپنے پیر کی کہی ہوئی ہر بات پر کامل ایمان رکھتا تھا۔

ایک دفعہ یوں ہوا کہ پیر اور مرید اکٹھے سفر پر روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک ‏دریا حائل تھا۔ مرید نے جونہی دریا کی لہروں کو دیکھا، اللہ کا نام لیا اور پانی پر قدم رکھ دیا اور دریا پار کر کے دوسرے کنارے پر پہنچ گیا۔ لیکن پیر صاحب دریا کی تند و تیز موجوں کو ‏دیکھ کر ٹھہر گئے اور دریا میں اترنے کی جرات نہ کر سکے۔
‏ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ہر پیر پیر نہیں ہوتا۔ آپ کا یقین ہی آپ کا پیر ہوتا ہے۔

یقین اور بے یقینی

جس ڈاکٹر پر آپ کو یقین ہو اسی سے آپ کو شفاء حاصل ہوتی ہے۔ اور اگر ڈاکٹر پر یقین نہ ہو تو ڈاکٹر ‏کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو، آپ شفاء سے محروم رہتے ہیں۔ آسمانی کتابوں میں ایمان اور یقین کی معجزاتی قوت سے متعلق واقعات کثرت کے ساتھ موجود ہیں۔ اور مسلمان صوفیاء کی زندگی ‏میں تو قدم قدم پر ایسے واقعات کی تفصیل کتابوں میں ملتی ہے۔

‏ ہم ڈاکٹر نارمن کی کتاب کی طرف واپس آتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں۔ جب آپ کسی کام کو کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو حقیقت میں یہ خیال آپ کے دماغ میں پہلے سے موجود ہوتا ہے کہ ‏آپ یہ کام نہیں کر پائیں گے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کے ذہن میں ناکامی کے جو خیالات ہیں وہ آپ کی شخصیت میں ایسی منفی قوتیں پیدا کرتے ہیں جو آپ کو کامیاب ‏نہیں ہونے دیتیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے اندر یقین کی قوت پیدا کریں اور غیر یقینی کو اپنے دماغ میں سے نکال دیں۔

آپ کا اس بات پر کامل یقین ہونا چاہیے کہ آپ ‏دنیا میں کامیابی حاصل کرنے اور ہر میدان میں جیتنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ پختہ یقین سے کامیابی اور غیر یقینی سے نا کامی جنم لیتی ہیں۔ (اپنے عقیدے کے مطابق انشاء اللہ ضرور ‏کہیے۔)

کامل یقین کیا چیز ہے

کامل یقین کیا چیز ہے اور کامل یقین رکھنے والا شخص کیسا ہوتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ خدا پر یقین، اپنی زندگی اور مستقبل پر یقین، اپنے کام اپنے ملک پر یقین، اپنے بیوی بچوں اور اپنی ‏ذات پر یقین ہی سے مل کر کامل یقین وجود میں آتا ہے۔ جو شخص خدا پر یقین رکھتا ہے وہ یہ جانتا ہے کہ خدا نے ہمیں اپنی مخلوق میں سب سے بہتر طور پر بنایا ہے۔ فلسفے اور نفسیات ‏کے مشہور عالم پروفیسر ولیم جیمز کہتے ہیں کہ مضبوط عقیدہ کسی بھی شعبے میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ یقین آپ میں کامیابی کی بے انتہا طاقت پیدا کرتا ہے۔

یقین کیا ہے

یقین دراصل مثبت سوچ کا دوسرا نام ہے۔ جب سوچ مثبت ہو گی تو نتائج بھی مثبت پیدا ہوں گے۔ یقین آپ کے ذہن سے ہر قسم کے خوف اور شک و شے کو ختم کر ‏دے گا۔ یقین ایک ایسی قوت ہے جو اپنے سامنے آنے والی ہر رکاوٹ اور مشکل کو ختم کر دیتی ہے۔ اگر یقین کامل رکھنے والے شخص کے راستے میں کوئی مشکل اور رکاوٹ آئے بھی ‏تو وہ اس پر مکمل فتح حاصل کر لیتا ہے۔ جو لوگ دنیا میں فتح مند ہوئے وہ یقین کی طلسماتی قوت کی مدد سے ہی فتح سے ہمکنار ہوئے۔

1933ء کا موسم خزاں تھا۔ میں نیویارک کی ایک ‏سڑک پر جا رہا تھا کہ مجھے اپنا ایک پرانا جاننے والا فریڈ آتا دکھائی دیا۔ تین سال پہلے فریڈ فاقوں کا شکار تھا۔
یہ امریکہ کی تاریخ میں معاشی تباہی کا بدترین دور تھا۔ فیکٹریاں اور سٹور بند ہو چکے تھے اور ہزاروں لوگ بے روزگار تھے۔ لیکن اس بدحالی کے دور میں بھی فریڈ محفوظ رہا۔ اُس ‏نے مجھے بتایا کہ وہ زیادہ دن بے روزگار نہیں رہا۔ "مجھے یقین تھا کہ نیو یارک جیسے بڑے شہر میں مجھے کوئی نہ کوئی اچھا روزگار ضرور مل جائے گا۔ اس یقین ہی کی مدد سے میں اپنی ‏کوشش میں کامیاب رہا۔”

ایمان و یقین

فریڈ نے کہا کہ جب کسی انسان میں کسی چیز کی شدید خواہش ہوتی ہے تو وہ خواہش ضرور پوری ہوتی ہے۔ جیسا کہ ایک امریکی شاعر نے کہا ہے جس کو میں ‏اپنا بنا لیتا ہوں وہ میرا ہو جاتا ہے۔

‏ کیا یقین کامل والدین سے اولاد کو منتقل ہوتا ہے۔ ایسا قطعی طور پر ممکن ہے۔ مشہور مصنف ڈیل کارنیگی کا کہنا ہے کہ جب میں بچہ تھا تو ہمارے گھر یلو حالات اتنے خراب تھے کہ ‏اکثر ہمیں فاقے کرنے پڑتے تھے۔ غربت نے ہمیں بری طرح جکڑ رکھا تھا۔

ڈیل کارنیگی نے کہا کہ میری والدہ بہت نیک خاتون تھیں۔ اُن کا عقیدہ بہت پختہ تھا۔ بدترین حالات ‏میں بھی وہ کبھی نہیں گھبراتی تھیں اور ہمیشہ خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے حمدیہ گیت گنگناتی تھیں۔ وہ اپنے بچوں اور شوہر سے کہتیں کہ خُدا ضرور ہماری مدد کرے گا۔ اور پھر ایسا ہی ‏ہوتا۔ خدا ہماری مدد کرتا اور کبھی ایسا نہ ہوا کہ ہمیں بھوکا سونا پڑا ہو۔ یہ سب ہماری والدہ کے کامل یقین کی وجہ سے ہوتا۔

ان باتوں کا انکشاف ڈیل کارنیگی نے نیویارک میں اپنی ‏تقریروں میں کیا۔ جب میں نے اُن کی گفتگو سنی تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ خُدا کی طرف سے غربت اس لیے آتی ہے کہ ہم میں حرکت پیدا ہو اور ہم اپنے معاشی حالات کو بہتر ‏بنانے کے لیے جدو جہد اور کوشش کریں۔

فریڈ اور ڈیل کارنیگی کی گفتگو سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمارا عقیدہ ہم میں یقین کامل پیدا کرتا ہے۔ یعنی ہمارا ایمان ہم میں قوت ‏پیدا کرتا ہے۔ یہ قوت ہی معجزے دکھاتی ہے اور اس طاقت کے ذریعے ہم پریشانیوں اور مشکلات سے نجات حاصل کرتے ہیں۔

یقین کی طاقت

یقین کی طاقت آدمی کے اندر مثبت سوچ پیدا کرتی ہے اور مثبت سوچ سے حالات خود بخود بہتر ہونے لگتے ہیں۔ مثبت سوچ ہی سے خوش قسمتی جنم لیتی ہے۔ خوش قسمتی خود کوئی ‏چیز نہیں۔ یہ مثبت سوچ ہی کا دوسرا نام ہے۔ مثبت سوچ ہی آدمی کے اندر بہت بڑی تبدیلی پیدا کرتی ہے۔ مثبت سوچ میں ایک بہت بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ یہ منفی خیالات کو ‏قریب نہیں آنے دیتی۔ اس لئے اپنے یقین اور اعتماد کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنائیں کیونکہ آپ کا یقین ہی آپ کا مستقبل تعمیر کرے گا۔

اب میں آپ کو ایک ایسے شخص کے ‏بارے میں بتاؤں گا جو مختلف کمپنیوں کے لیے سیلز مین تیار کرتا تھا اور انہیں تربیت دیتا تھا۔ اس شخص کا نام میلون تھا۔ میلون سیلز مینوں میں چھپی ہوئی صلاحیتوں کو بیدار کرتا اور ‏اپنے مشوروں کے ذریعے اُن میں خود اعتمادی اور یقین کی طاقت پیدا کرتا۔ وہ لوگوں سے کہتا کہ تم اپنے آپ پر یقین رکھو۔ پھر تم محسوس کرو گے کہ تم میں بے شمار صلاحیتیں ‏ہیں۔

‏ ایک مرتبہ میلون نے تربیت کے لئے ایک ایسے نوجوان کا انتخاب کیا جو ایک فرم میں معمولی سا کلرک تھا۔ اُس کا اخلاق بہت اچھا تھا۔ اپنے کام میں اُس کی کارکردگی بھی اچھی ‏تھی۔ وہ اپنے ساتھیوں کو کام کے سلسلے میں نئے نئے آئیڈیاز بھی دیتا تھا۔ اس نوجوان کا نام جیک تھا۔ جیک میں تمام ضروری خوبیاں تھیں لیکن وہ اپنی ان خوبیوں اور صلاحیتوں سے ‏بے خبر تھا۔

بے یقینی: منفی رویہ

میلون نے جیک سے پوچھا کہ تم اس فرم میں کام کرتے ہوئے کیسا محسوس کرتے ہو؟ جیک نے کہا کہ میں خوش ہوں اور اپنی نوکری کو جاری رکھنا چاہتا ہوں۔ میں اپنے کام سے مطمئن ہوں۔ میلون نے اُس سے کہا کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ تم میں ایک اچھا سیلز مین بننے کی زبردست صلاحیت ہے۔ تم اگر سیلز مین بن جاؤ تو نہ صرف خود ‏بہت ترقی کر سکتے ہو بلکہ اپنی فرم کو بھی بہت آگے لے جا سکتے ہو۔

‏”نہیں نہیں مسٹر میلون! میں اپنے کام سے مطمئن ہوں اور مجھے یہاں کوئی تکلیف نہیں۔ میں اپنے کام کو سمجھتا ہوں اور اسے بہتر طور پر کر سکتا ہوں۔ سیلز مین تو میں کبھی بن ہی ‏نہیں سکتا اور نہ ہی میں کبھی سیلز مین بننے کا سوچوں گا۔”

جیک کے اس منفی رویے نے اُسے اس خوف میں مبتلا کر رکھا تھا کہ وہ اس دفتر سے باہر کوئی کام کر ہی نہیں سکتا۔

اس کے برعکس میلون کا خیال تھا کہ جیک اپنی صلاحیتوں سے ‏واقف نہیں۔ جیک اپنے آپ کو نہیں جانتا۔ میں اُسے جانتا ہوں۔ اُس میں زبردست صلاحیتیں ہیں۔ میلون نے جیک سے کہا ” جیک ! تم بے یقینی کا شکار ہو۔ تمہیں اپنے آپ پر ‏اعتماد اور یقین پیدا کرنا چاہیے۔ تمہیں اپنی صلاحیتوں کو پہچاننا چاہیے۔“

آخر میلون نے جیک کو سیلز مین کی تربیت حاصل کرنے کے لیے آمادہ کر لیا۔ جیک نے خود بھی محسوس کیا کہ ‏سیلز مین کا کام کافی دلچسپ ہے۔ جب جیک نے اپنی تربیت مکمل کر لی تو میلون نے اعلان کیا کہ میں نے ایک زبردست اور کامیاب سیلزمین دریافت کرلیا ہے۔ یہ بات صحیح ثابت ہوئی اور رفتہ رفتہ جیک میں خود اعتمادی بڑھتی چلی گئی اور وہ اپنے کام میں ترقی کرتا چلا گیا۔ ایسا کیونکر ممکن ہوا؟

مثبت سوچ

صرف اس وجہ سے کہ میلون نے جیک کی ‏صلاحیتوں کو نہ صرف دریافت کیا بلکہ ان کی تصدیق بھی کی اور جیک میں وہ قوت پیدا کی جسے مثبت سوچ اور یقین کی قوت کہا جاتا ہے۔ اپنے آپ پر اعتماد کی یہ قوت روز بروز بڑھتی ‏ہی چلی جاتی ہے۔ مثبت سوچ اس طاقت میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ لہذا اس اصول کو یاد رکھیں۔ یعنی اپنے آپ پر یقین پیدا کریں اور کامیابی پر کامیابی حاصل کریں۔ یقین کی ‏طاقت سے بڑی کوئی طاقت نہیں۔

ایک مرتبہ چار خواتین ایک سٹور میں داخل ہوئیں۔ تین خواتین مختلف اشیاء اور کپڑے وغیرہ دیکھنے لگیں۔ ایک خاتون چند کپڑے لے کر ٹرائی روم میں چلی گئی۔ اتنے میں ایک ‏شخص سٹور میں داخل ہوا۔ اُس کے ایک ہاتھ میں خنجر اور دوسرے ہاتھ میں پستول تھا۔ اس نے تینوں عورتوں سے کہا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے

میرے حوالے کر دو۔ تینوں ‏عورتوں نے اپنی تمام اشیاء اس ڈاکو کے حوالے کر دیں۔ وہ بری طرح ڈر گئی تھیں۔ اب ڈاکو نے ٹرائی روم کا دروازہ کھولا۔ جو خاتون ٹرائی روم میں تھی اُس سے کہا کہ جو کچھ ‏تمہارے پاس ہے میرے حوالے کر دو ورنہ میں تمہیں قتل کر دوں گا۔ اس خاتون نے بڑے اعتماد کے ساتھ ڈاکو سے کہا۔ "دفع ہو جاؤ، نکل جاؤ یہاں سے۔ خبردار بدمعاشی کی ‏کوشش نہ کرنا ورنہ میں تمہارا برا حشر کر دوں گی۔“

‏ خاتون نے یہ تمام باتیں اتنے یقین اور اعتماد سے کہیں کہ ڈاکو گھبرا گیا اور اُس نے سٹور سے نکل جانے میں ہی خیریت سمجھی۔

یقین اور اعتماد

یہ کون سی قوت تھی جس نے ڈاکو کو بھاگ جانے پر ‏مجبور کر دیا ؟ یہ اُس عورت کا یقین اور اعتماد تھا جس نے ڈاکو کو گھبراہٹ میں مبتلا کر دیا اور وہ حواس باختہ ہو گیا۔ بعد میں پولیس نے اس ڈاکو کو گرفتار کر لیا۔ تفتیش کے دوران اُس ‏نے پولیس کو بتایا کہ میں نے اُس عورت میں ایسی طاقت دیکھی کہ میں خوف میں مبتلا ہو گیا۔

ہاں یہ بالکل سچ ہے۔ یقین اور اعتماد کی طاقت بڑے بڑے کرشمے دکھا سکتی ہے۔ میں ‏ایسا ہی ایک اور واقعہ آپ کو سناتا ہوں۔ میں تقریروں کے سلسلے میں مختلف شہروں کا دورہ کر رہا تھا۔ چنانچہ ایک شہر کے دورے میں میں نے رات ہوٹل میں قیام کیا۔ صبح جب میں ‏تقریر کے لیے ہوٹل سے باہر نکل رہا تھا تو ہوٹل کی ملازمہ نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ آپ کا یہ دن بہت ہی اچھا گزرے گا۔ اُس وقت باہر موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ اس کے ‏باوجود عورت کے الفاظ میں بہت زیادہ یقین اور اعتماد تھا۔

خدا پر پکا ایمان

میں نے اُس عورت کا حال احوال پوچھا تو معلوم ہوا کہ اُس کے دو بچے کالج اور دو سکول میں پڑھتے ہیں۔ بات چیت کے دوران اُس عورت نے کہا کہ میں خدا پر پکا ایمان رکھتی ہوں ‏اور مجھے یقین ہے کہ وہ ہر مشکل میں میری مدد کرتا ہے۔ اُس عورت نے بتایا کہ برسوں پہلے جب اُس کی شادی ہوئی تو دونوں میاں بیوی انتہائی غریب تھے۔ میرا اپنا خاندان بھی ‏انتہائی غربت کا شکار تھا۔ یہ غربت اتنی شدید تھی کہ ہماری روح تک اس کا اثر اتر گیا تھا۔

میرا خاوند غربت کی وجہ سے بہت پریشان اور مایوس تھا۔ اُس عورت نے بتایا کہ ایک روز ‏میں نے حضرت عیسی کے بارے میں یہ پڑھا کہ انہوں نے اپنے حواریوں سے کہا کہ میں تمہیں تمام شیطانی قوتوں کی تسخیر کی اجازت دیتا ہوں۔ میں نے جب حضرت عیسی کے یہ ‏الفاظ پڑھے تو مجھے اپنے آپ میں بے انتہا اعتماد محسوس ہوا۔ میں نے سوچا کہ میں بھی تو خدا ہی کی مخلوق ہوں اور میں بھی یقیناً شیطانی قوتوں کو شکست دے سکتی ہوں۔ غربت بھی ‏ایک شیطانی قوت اور ایک طرح کی بَلا ہے۔

‏ پھر میں نے اور میرے خاوند دونوں نے مل کر غربت کی شیطانی قوت کو ہلاک کر دیا۔ غربت اور افلاس کو شکست دینے کے بعد اب میرا ایمان ہے کہ اعتماد اور یقین ہمارے سب ‏سے طاقتور ہتھیار ہیں۔ میں نے عورت کی یہ سچی کہانی سنی اور اُس سے کہا کہ تم بالکل ٹھیک کہتی ہو۔ اعتماد اور یقین کی طاقت تمام شیطانی قوتوں کو شکست دے سکتی ہے۔ بے شک ‏یقین اور اعتماد میں وہ کرشمہ ہے جو آپ کی زندگی بدل سکتا ہے۔

ناکامیاں

ایک دن حالات کا ستایا ہوا ایک نوجوان وکیل میرے دفتر میں آیا۔ مایوسی اُس کے چہرے ہی سے دکھائی دے رہی تھی۔ وہ ایک قانونی فرم میں کام کرتا تھا۔ لیکن اُس کی مسلسل ‏ناکامیوں کی وجہ سے اُسے یہ وارننگ دے دی گئی تھی کہ اگر اُس نے اپنی کارکردگی بہتر نہ بنائی تو اُسے نوکری سے نکال دیا جائے گا۔ اُس نوجوان وکیل نے پریشانی کے عالم میں مجھ ‏سے کہا کہ میرا کیریئر تباہ ہو رہا ہے۔ میں کیا کروں؟

میں نے اُس سے کہا کہ وہ گھبرائے نہیں اور پھر اُسے ایک مضمون پڑھ کر سنایا۔ یہ ایک ایسا مضمون تھا جسے خود میں نے جب ‏پہلی بار پڑھا تھا تو میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ اس مضمون سے یہ مایوس وکیل بھی بہت بڑا سبق سیکھے گا۔ جو مضمون میں نے اس وکیل کو پڑھنے کے لیے دیا وہ گریو پیٹرسن کا لکھا ہوا تھا۔

مثبت زندگی گزارنے سے حقیقی مسرت حاصل ہوتی ہے

اُس کا عنوان تھا ” مثبت زندگی گزارنے سے حقیقی مسرت حاصل ہوتی ہے۔” اب آپ اس ‏مضمون کے ایک حصے پر غور کریں۔ مضمون نگار لکھتا ہے کہ ایک نوجوان دریا کے پل کی ریلنگ پر جھکا ہوا دریا کے پانی کو پل کے نیچے سے بہتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ میں ‏نے کئی مرتبہ اس دریا کو دیکھا ہے۔ کبھی تو اس دریا کا پانی تیزی سے بہہ رہا ہوتا ہے اور کبھی اُس کا بہاؤ سست ہوتا ہے لیکن یہ پانی کبھی رکا نہیں۔ یہ ہمیشہ پل کے نیچے سے گزرتا رہتا ‏ہے۔

اس خیال نے نوجوان کو ایک بات سمجھائی اور وہ بات یہ تھی کہ دریا کے پانی کی طرح زندگی کا ہر دن بھی زندگی کے پل کے نیچے سے گزرتا رہتا ہے۔ کبھی تیزی سے اور کبھی آہستگی ‏اور سست روی سے۔ گویا زندگی اور اس کی مشکلات بھی بہتے ہوئے پانی کی طرح ہیں۔ یہ مشکلات جب ایک بار گزر جائیں گی تو پھر دوبارہ نہیں آئیں گی۔

زندگی ایک بہاؤ کا نام ہے

یاد رکھیں کہ زندگی ایک روانی، ایک بہاؤ کا نام ہے۔ مشکلات زندگی کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں لیکن ہمیشہ نہیں رہتیں۔ یہ گزر جاتی ہیں اور جب ایک بار گزر جاتی ہیں تو دوبارہ واپس ‏نہیں آتیں۔ یہ ایک ایسا سبق تھا جس نے نوجوان کی زندگی بدل دی۔ اُس کی زندگی میں جو مشکلات آئیں وہ اُسے شکست نہ دے سکیں اور خود بخود ختم ہو گئیں۔ آج وہ نوجوان ایک ‏بڑے ادارے کا مالک ہے۔

میں جب یہ مضمون نوجوان وکیل کو سنا چکا تو اُس پر معجزانہ اثر ہوا۔ اب وہ ایک بالکل بدلا ہوا اور نیا شخص تھا۔ وہ کرسی سے اُٹھا، میرے ساتھ ہاتھ ملایا ‏اور اعتماد اور یقین سے بھرے ہوئے لہجے میں کہا ”میں سب کچھ سمجھ گیا ہوں۔ میں بھی اب دریا کے پانی کی طرح زندگی کے پل کے نیچے سے یقین اور اعتماد کے ساتھ گزروں گا۔ ‏اور پھر وہ نئے حو صلے اور بھر پور اعتماد کے ساتھ قدم اُٹھاتا ہوا میرے دفتر سے چلا گیا۔

مایوسی

‏ ایک دن مجھے ایک خاتون کا لکھا ہوا خط موصول ہوا۔ حالات کی ستائی ہوئی ایک انتہائی مایوس اور شکست خوردہ عورت کا خط۔ خط کیا تھا مایوسیوں اور ناکامیوں کی داستان تھی۔ اس ‏خاتون نے مجھے لکھا۔

ڈاکٹر نارمن! میں کئی مسئلوں سے دوچار ہوں۔ میرے اندر خود اعتمادی نہیں ۔ میں انتہائی بیوقوف ہوں ۔ میں سوچتی ہوں کہ آخر خدا نے مجھے اس دنیا میں ‏بھیجا ہی کیوں۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے خدا کو بھی میری کوئی پرواہ نہیں۔ میں غلطیوں پہ غلطیاں کرتی چلی جاتی ہوں۔ اب تو یوں ہے کہ مجھے اپنے آپ ہی سے نفرت ہوگئی ‏ہے۔

ڈاکٹر نارمن! میں زندگی ہی سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہوں لیکن پھر مجھے خیال آتا ہے کہ خود کشی اچھی بات نہیں۔ میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ آپ لوگوں کو ‏روحانی عبارت والے جو کارڈ دیتے ہیں۔ ویسا ہی ایک کارڈ مجھے بھی دیں تاکہ میں مایوسیوں کے بھنور سے نکلوں اور مجھ میں مثبت سوچ پیدا ہو۔ کیا آپ مہربانی کر کے میرے لئے ‏ایک کارڈ لکھ کر مجھے روانہ کریں گے۔ میں آپ کی بہت ہی شکر گزار ہوں گی۔

امید اور اعتماد

میں نے اس خاتون کے لئے ایک کارڈ لکھا اور اُسے ہدایت کی کہ وہ اس کارڈ کو ہر وقت اپنے پاس رکھے اور ہر رات سوتے وقت اس کارڈ کو اونچی آواز میں پڑھے۔ یہ خاتون مایوسی کی ‏اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اُس کی زندگی میں امید اور اعتماد کا دیا روشن کرنے کے لئے اس کارڈ پر جو عبادت میں نے لکھی وہ بہت ہی زوردار اور طاقت ور الفاظ پر مشتمل ‏تھی۔ میں نے کارڈ پر لکھا۔

‏” میں اپنے آپ کو پسند کرتی ہوں اور مجھے اپنے آپ پر مکمل یقین ہے۔
‏ خُدا نے مجھے اس دنیا میں بھیجا ہے اور اُس نے کوئی چیز فضول پیدا نہیں کی۔
‏ خُدا کی ہر تخلیق شاندار ہے۔ اس لئے میں بھی شاندار ہوں۔
‏ خدا نے مجھے تخلیق کیا اور خوبصورت انداز میں تخلیق کیا۔
‏ مجھے زندگی سے محبت ہے اور میں خدا کی مخلوق سے بھی محبت کرتی ہوں۔ ‏
‏ مجھ میں ہر طرح کی صلاحیت ہے اور میں اپنے کام ٹھیک طرح سے کرتی ہوں۔
‏ مجھے اپنے آپ پر مکمل یقین ہے اور میں اپنی ذات کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہوں۔
‏ میں خوش ہوں اور خُدا کی بے حد شکر گزار ہوں۔”

اس خاتون نے کارڈ کو میری بتائی ہوئی ہدایت کے مطابق استعمال کیا اور آخر کار وہ مایوسی سے نکل آئی اور خوشگوار زندگی گزارنے لگی۔
اگر کسی شخص کو اپنے آپ پر اعتماد اور یقین نہ رہے تو پھر اُس کی شخصیت اُس کے قابو میں نہیں رہتی اور اُس میں منفی تبدیلیاں آنے لگتی ہیں۔ پھر ہر روز اُس کی مایوسی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ شخصیت میں اس تبدیلی کو روکنا یقینا ممکن ہے۔ اس تبدیلی کو اعتماد اور یقین کی قوت سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ کارڈ پر میں نے جو عبادت لکھی ‏تھی۔ وہ مایوسی میں ڈوبے ہوئے لوگوں میں ایک نیا جذبہ پیدا کر سکتی ہے۔

انسانوں میں پیدا ہونے والی غیر معمولی تبدیلیاں

میرے ایک خالہ زاد بھائی یو ڈینلے ایک بڑے ادارے میں سیلز منیجر ہیں۔ ایک روزہ وہ میرے ساتھ ‏انسانوں میں پیدا ہونے والی غیر معمولی تبدیلیوں کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔ لیو نے کہا کہ جب انسان اپنے آپ کو تبدیل کرنے کا پکا ارادہ کر لیتا ہے تو خُدا بھی اُس کی مدد ‏کرتا ہے اور اُس میں تبدیلی کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اور ایک دن وہ شخص واقعی مکمل طور پر تبدیل ہو جاتا ہے۔ پھر میرے خالہ زاد بھائی نے اپنے ادارے میں کام کرنے والے ایک سیلز مین ٹم میں پیدا ہونے والی تبدیلی کی کہانی سنائی۔

ٹم ہمارے ادارے میں کئی برسوں سے کام کر رہا تھا لیکن ‏اُس کی کارکردگی دوسرے سیلز مینوں کے مقابلے میں بہت ہی کم تھی۔ اُس میں خود اعتمادی نہیں تھی اور ادارے کی انتظامیہ اُسے پسند نہیں کرتی تھی۔ خطرہ تھا کہ ٹم کو کسی بھی ‏وقت ملازمت سے نکال دیا جائے گا۔ پھر ایک معجزہ رونما ہوا جس نے سب کو حیران کر دیا۔ ٹم اچانک ترقی کرنے لگا۔ ایک سال کے اندر اندر وہ ایک تہائی سیلز مینوں سے بہتر ہو گیا ‏اور دوسرے سال کے آخر میں اُس کی کارکردگی ادارے کے تمام سیلز مینوں سے بہتر ہو گئی۔ سب لوگ اس سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے کہ ٹم کی زندگی میں یہ حیرت انگیز انقلاب ‏کیسے آیا؟

‏ ملک بھر سے ادارے کے سیلز مین ہیڈ آفس میں جمع تھے۔

آج ہیڈ آفس میں ہونے والی تقریب میں ٹم کو بہترین سیلز مین کا ایوارڈ دیا جانا تھا۔ ادارے کے صدر نےٹم کو ایوارڈ ‏دینے کے لیے اُسے سٹیج پر بلایا اور اُس کی کارکردگی کی انتہائی پر جوش الفاظ میں تعریف کی۔ پھر کمپنی کے صدر نے ٹم سے پوچھا کہ اُس میں یہ حیرت انگیز تبدیلی کیسے پیدا ہوئی جس ‏نے اُسے زمین سے آسمان پر پہنچا دیا؟

ٹم کوئی مقرر نہیں تھا۔ وہ ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ وہ کیا کہے۔ وہ کسی حد تک پریشان بھی تھا اور اپنی بات کہنے کے لئے الفاظ تلاش کر رہا تھا۔ اُس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا ‏اور اُس پر بے چینی کا اثر نمایاں تھا۔ آخر ٹم نے لوگوں سے یوں خطاب کیا۔

!میرے پیارے ساتھیو

‎‎‏ میں ایک ناکام شخص تھا۔ یہ بات خود مجھے بھی معلوم تھی اور دوسرے لوگ بھی اچھی طرح جانتے تھے۔ ایک رات سونے سے پہلے میں نے اپنے آپ سے ‏کہا کہ اب میں مزید اس طرح زندگی نہیں گزار سکتا۔ میرے کمرے میں کتابوں کی ایک الماری تھی۔ میں نے اس میں سے ایک کتاب نکالی۔ یہ کتاب میری ماں نے مجھے دی ‏تھی۔ کتاب کے پہلے صفحے پر میری ماں کے ہاتھوں سے لکھی ہوئی یہ عبارت میری نظروں کے سامنے تھی۔

یقین کی طاقت آپ کی کایا پلٹ سکتی ‏ہے

لکھا تھا "ٹم کے لئے ڈھیروں محبت کے ساتھ” اس کے بعد لکھا تھا ‏‏”انسان اپنے آپ کو تبدیل کر سکتا ہے۔” اگر وہ چاہے تو اپنے آپ کو بدل کر ایک بالکل مختلف انسان بن سکتا ہے۔” پھر اچانک میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں اپنے آپ کو ضرور بدلوں ‏گا۔ اگلی صبح میں بازار گیا۔ میں نے ایک بہترین قسم کا نیا سوٹ خریدا۔ ساتھ ہی ایک نئی ٹائی، نئی شرٹ، نئے جوتے ، نئی جرابیں اور یہاں تک کہ رومال بھی نیا خریدا۔ یہ جانتے ہوئے ‏بھی کہ صرف کپڑے انسان کو نہیں بدل سکتے۔

میں گھر آکر سیدھا ہاتھ روم میں گیا۔ میں نے خوب رگڑ رگڑ کر شیو کی یہاں تک کہ میری جلد چمکنے لگی۔ میں نے اپنے سر میں شیمپو ‏ڈال کر منفی خیالات کو اپنے سر میں سے نکال باہر کیا۔ پھر میں نے اپنا خریدا ہوا نیا لباس پہنا اور خُدا کا نام لے کر اپنے کام پر نکل گیا۔ اب میں ایک بالکل نیا انسان تھا۔ ایک ایسا نیا ‏انسان جسے کامیابی پہ کامیابی ملتی چلی گئی۔

‏ جب ٹم یہ الفاظ ادا کر رہا تھا۔ اُس وقت ہال میں سات سو سے بھی زیادہ سیلز مین بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ سب خاموش تھے۔ پھر یہ خاموشی ٹوٹی اور اُنہوں نے خوب تالیاں بجا کر ٹم کو ‏خراج تحسین پیش کیا۔ کیونکہ ٹم اب ایک بالکل نیا ٹم تھا۔ اُس نے اپنے اندر اعتماد اور یقین کی طاقت پیدا کر لی تھی۔ یقین کی طاقت ایک ایسی طاقت ہے جو آپ کی کایا پلٹ سکتی ‏ہے۔ یعنی آپ میں ایک زبردست تبدیلی پیدا کر سکتی ہے۔

اہم ترین باتیں

ا-” منفی سوچ کو دماغ سے نکال دیں۔ اپنے ذہن میں یہ پختہ یقین پیدا کریں کہ آپ جو کام کرنا چاہتے ہیں وہ آپ ضرور کر سکتے ہیں۔ یقین میں ایک طلسماتی قوت ہے جو آپ کو فتح ‏سے ہمکنار کرے گی۔” ‏
‏2- راستے کی مشکلات سے کبھی نہ گھبرائیں۔ مشکلات زندگی کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں لیکن ہمیشہ نہیں رہتیں۔ یہ گزر جاتی ہیں اور جب ایک بار گزر جاتی ہیں تو دوبارہ واپس نہیں ‏آتیں۔ ‏
‏3-اپنے آپ کو بے کار اور فضول نہ سمجھیں۔ آپ خُدا کی خوبصورت اور شاندار تخلیق ہیں۔ اُس نے کوئی چیز فضول پیدا نہیں کی۔ آپ میں ہر طرح کی صلاحیت ہے۔ اپنی ذات کو ‏عزت کی نگاہ سے دیکھیں۔ خُدا نے آپ کو ہر کام کرنے کی بھر پور صلاحیت عطا کی ہے۔ ‏
‏4- جب انسان اپنے آپ کو تبدیل کرنے کا پکا ارادہ کر لیتا ہے تو خُدا اُس کی ہر طرح سے مدد کرتا ہے اور وہ واقعی مکمل طور پر بدل جاتا ہے۔ آپ یہ تجربہ خود کر کے دیکھیں۔ آپ ‏اس بات کی سچائی کے قائل ہو جائیں گے۔

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے