قدم قدم ہنگاموں اور حادثوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے عشق کی رودادِ دل گداز
اُس نے نزہت جہاں بیگم کے کوٹھے پر آنکھ کھولی، مسلے مرجھائے گجرے، باسی پھول اور گھنگرو اس کے کھلونے بنے، بدمعاشوں کی دنیا نے اسے مرشد مانا اور پھر…… وہ کسی کا مرید ہو گیا
مرشد
شاہی محلے کا نمازی بدمعاش جس نے سرکار سے عشق کیا اور عشق کی مریدی
Murshid Urdu Novel |
"جدھر مرضی چلے چلو لیکن فی الحال یہاں سے نکلو۔”
"پل کے عین بیچ و بیچ دو ٹرکوں کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔” ٹیپو پریشانی سے بولا۔”راستہ بالکل بند ہے۔ پولیس کی اچھی خاصی نفری کے علاوہ نواب کے بندے بھی گاڑیوں میں جھانکتے پھر رہے ہیں۔ نواب لوگوں کی دو جیپیں تو میں نے خود دیکھی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ ایکسیڈنٹ بھی دانستہ کیا گیا ہے۔ ان بندوں کی زبانی پتا چلا ہے کہ ایک ٹرک نواب گڈز والوں کا ہے اور ایکسیڈنٹ میں سارا قصور بھی اسی ٹرک ڈرائیور کا ہے۔”
بشارت نے ہونٹ بھینچتے ہوئے گیئر تبدیل کیا اور گاڑی کو حرکت میں لے آیا۔ اس نے با احتیاط گاڑی کو پہلے دائیں ہاتھ موڑا اور پھر واپسی کے راستے پر ڈال کر ایکسیلٹر پر پاو�¿ں کا دباو�¿ بڑھاتا چلا گیا۔
"لائٹ جلا دو۔”مرشد کے کہتے ہی بشارت نے عقبی حصے کی لائٹ آن کر دی۔ دونوں سپاہی سہمی ہوئی مرغیوں کی طرح مصری اور تاجل کے برابر بیٹھے تھے۔ان کے سامنے والی سیٹ پر حکم داد کسی گھٹری کی طرح پڑا تھا۔سر کے عقبی حصے سے رسنے والا خون اس کی موٹی گردن پر سنپولیے کی طرح سرسرا رہا تھا۔وہ بے ہوش تو نہیں تھا البتہ اس کے حواس ٹھیک سے کام کرنے کے قابل نہیں بچے تھے۔ مرشد کے ہاتھوں سر پر لگنے والی دو شدید ضربوں نے اسے آدھ موا کر چھوڑا تھا۔ مصری اور تاجل پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔ ان کے عقب میں خاموش بیٹھی حجاب کی آنکھوں میں بھی مرشد کو شدید گھبراہٹ اور ایک طرح کی وحشت ہلکورے لیتی دکھائی دی۔ یقینی طور پر وہ جان چکی تھی کہ دو پولیس والوں کے ساتھ جس تیسرے شخص کو مار پیٹ کر گاڑی میں ڈالا گیا ہے ،وہ چودھری فرزند کا ایک خاص کارندہ ہے۔ٹیپو جو کھڑکی سے سر نکالے مسلسل عقبی طرف دیکھ رہا تھا گردن اندر کرتے ہوئے تیز لہجے میں بولا۔
"لگتا ہے انہیں شک ہو گیا ہے۔ پل کی طرف اچانک ہلچل سی شروع ہوگئی ہے۔”وہ دوبارہ کھڑکی کی طرف پلٹ پڑا۔ مرشد بشارت سے مخاطب ہوا۔
"گاڑی جتنی تیز بھگا سکتے ہو بھگاو�¿۔”بشارت نے الٹا رفتار دھیمی کر دی۔
"ان لوگوں کو اٹھا کر آپ نے ٹھیک نہیں کیا۔ ارباب صاحب شاید اس بات کا برا منائیں ۔”
"وہ بعد کی بات ہے۔ جو ہونا تھا ہو چکا , فی الوقت تو تم نکلنے والی کرو۔ "
بشارت نے کوئی جواب دینے کی بجائے گاڑی کو سڑک سے اتارتے ہوئے بائیں ہاتھ موجود ایک بند نما کچے راستے پر چڑھا دیا۔ٹیپو نے دوبارہ گردن اندر کی۔
"انہیں پتا چل چکا ہے۔ وہ ہمارے پیچھے آرہے ہیں!”اس کی سرسراتی آواز پر مرشد اور خنجر نے بھی کھڑکی سے جھانکا۔ان کے بائیں ہاتھ قریباً ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر دریا کے پل کی طرف انہیں تین چار گاڑیاں حرکت میں آتی دکھائی دیں ۔مختلف گاڑیوں کی روشنی میں انہیں کئی باوردی پولیس والوں کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی دکھائی دئیے۔ ایک کھلبلی سی محسوس ہوئی تھی۔حرکت میں آنے والی گاڑیوں کا رخ اسی سمت تھا۔
"تم لوگوں کے پاس دو رائفلیں ہی ہیں یا اور اسلحہ بھی ہے۔”مرشد کے سوال پر ٹیپو نے رخ پھیر کر اس کی طرف دیکھا۔
"کیوں پوچھ رہے ہو؟”
"پیچھے بارات آنے والی ہے۔ ہوسکتا ہے آتش بازی کرنا پڑے۔”
"پولیس والے ہیں تم پولیس مقابلے کا تو نہیں سوچ رہے؟”
"اس میں سوچنے والی بات کون سی ہے؟سالے پیچھے آئیں گے تو انہیں روکنا تو پڑے گا۔”
"کوئی ڈھنگ کی بات سوچیں۔پہلے ہی دو پولیس والوں کو اٹھا کر ہم نے اچھا نہیں کیا۔”
"تم اگر گرفتاری دینے کا ارادہ رکھتے ہو تو شوق سے ایسا کرو مگر ہم سے ہرگز بھی ایسی کوئی توقع مت رکھنا۔”ٹیپو نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔
وہ سڑک سے کم ازکم بھی آٹھ دس فٹ اونچے راستے پر تھے ۔گاڑی کی ہیڈ لائٹس میں یہ دھول مٹی سے اٹا کچا راستہ، سامنے کے رخ دور تک بچھا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔
گاڑی مناسب رفتار سے آگے بڑھ رہی تھی۔ مرشد نے کھڑکی میں سے دیکھا۔ دریا کے پل کی طرف سے روانہ ہونے والی گاڑیوں کی تعداد پانچ تھی۔ ان میں سے تین گاڑیاں یقینی طور پر پولیس کی تھیں ،پانچوں گاڑیاں آندھی کی رفتار سے دوڑ رہی تھیں۔
"خنجر! اس جنگلی سانڈ کے ہاتھ باندھ دے۔”
"کس چیز سے ؟”مرشد کے فرمان پر خنجر نے متفسرانہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو اس نے اپنے ہاتھوں میں موجود رائفل کا رخ ایک کانسٹیبل کی طرف کر دیا۔
"چل اوئے! اپنی بیلٹ اتار کے دے۔”اس بھلے مانس نے بلا چوں چرا کیے مرشد کے کہے پر عمل کیا اور بیلٹ اتار کر خنجر کے حوالے کردی۔
"نام کیا ہے تیرا ؟”مرشد نے اس سے سوال کیا۔
"اساسحاق۔” اس نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
"اسحاق تو سنا ہوا ہے یہ” اس، اسحاق“ کا کیا مطلب ہوا ؟اور تیرا کیا نام ہے بھئی؟”اس نے اس کے دوسرے ساتھی کو مخاطب کیا۔
"میرا نام بھی اسحاق ہی ہے جی!”
"جڑواں ہو کیا ؟”
"نن …. نہیںتو۔”
"کزن مزن ہو؟”
"نہیں ،بس اتفاق ہے۔”
"اچھی طرح کس کے۔” خنجر کو حکم داد کی کلائیوں کے گرد بیلٹ لپیٹتے دے کر مرشد نے اس سے کہا اور دوبارہ ”اسحاقوں“ کی طرف متوجہ ہوا۔
"یہ اتنا سخت ناکا کس کے لیے لگا رکھا تھا؟” اس سوال پر ان دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ان میں ایک عام تن و توش کا نوجوان آدمی تھا اور دوسرا پختہ عمر بھاری تن و توش کا مالک تھا۔ ایک خوف ان دونوں کی آنکھوں میں جیسے منجمند ہو کر رہ گیا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یقینی طور پر مرشد کا غائبانہ تعارف رہا تھا اور دوسری وہ برق رفتار اور بے جھجک بے رحمی جو اس نے حکم داد کے معاملے میں دکھائی تھی۔
"دو…. دو اشتہاری مجرموں کے لیے۔”بڑے اسحاق نے جھجکتے ہوئے کہا۔
"کون سے اشتہاری مجرم؟”
"حلیے تو آپ لوگوں کے بتائے گئے تھے۔”
"نام بول۔”
"مم…. مرشد!”
مرشد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اتر آئی۔
"چلو تم دونوں تو اپنی ڈیوٹی کر رہے تھے مگر اس حرامی کو کس خوشی میں ساتھ لگا رکھا تھا”
"اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں جناب! افسروں کے کام ہیں۔ اے ایس پی صاحب خود ناکے پر موجود ہیں۔ ہم….ہم تو بس ان کے حکم کے بندے ہیں۔ بال بچوں کی روٹی کے لیے اپنے بڑوں کے اشاروں پر ناچنا پڑتا ہے ہمیں ۔”
"تمہارے ساتھ اور کتنے ملازم تھے اس ڈیوٹی پر؟”
"پچیس اے ایس پی، دو سب انسپکٹر اور دو اے ایس آئی ان کے علاوہ ہیں۔”
"اور اس طرح کے کتنے حرامی ہیں ؟” مرشد کا اشارہ حکم داد کی طرف تھا۔
"جی پندرہ بیس بندے ہوں گے۔” خنجر کے ہونٹ بے اختیار سٹی کے انداز میں سکڑ گئے ۔خود مرشد کی آنکھوں میں تشویش سمٹ آئی ۔اسی وقت ٹیپو کی گھبرائی ہوئی آواز بلند ہوئی۔
"بشارت بھائی! گاڑیاں اسی رستے پہ مڑ آئی ہیں۔ ان کے پیچھے دو تین گاڑیاں اور بھی آرہی ہیں۔”بشارت نے خاموشی سے رفتار میں تھوڑا اضافہ کردیا۔ ہچکولوں میں بھی ساتھ ہی اضافہ ہوگیا۔ گاڑی بری طرح اچھلنے اور لہرانے لگی تھی۔مرشد نے عقبی طرف دیکھا ۔گاڑی تو کوئی دکھائی نہیں دی البتہ گردوغبار کے بادلوں کی سنہری چمک اس بات کی غماز تھی کہ عقب میں فاصلے پر کوئی گاڑی موجود ہے جس کی ہیڈ لائیٹس دھول مٹی کو ایک سنہرے
غبار کی شکل دے رہی ہیں۔تقریبا دس پندرہ منٹ تک یہ سفر یوں ہی جاری رہا،ہاں اس دوران بند کے دائیں بائیں وقفے وقفے سے مرشد کواکا دکا مکان بھی نظر آئے جو مکمل طور پر اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے ،پتا نہیں ان میں کوئی رہتا بھی تھا یا وہ خالی اور ویران تھے۔
دو تین بار ہچکولے کھاتے کھاتے مصری نے کچھ کہا بھی لیکن اس کا کہا کسی کے بھی پلے نہیں پڑا۔ حکم داد کے حواس بھی قدرے سنبھل گئے تھے لیکن اس نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
اچانک گاڑی کو ایک شدید جھٹکا لگا۔ وہ اس بری طرح اچھلی کہ ان سب کے سر چھت سے جا ٹکرائے۔ بشارت نے اسٹیئرنگ سنبھالنے کی کوشش کی لیکن گاڑی خطرناک انداز میں لہراتی ہوئی بند سے اتری اور نشیب میں بکھری جھاڑیوں اور گھاس پھوس کو روندتی ہوئی ، اچھلتی کودتی آگے ہی بڑھتی چلی گئی۔ بیس تیس گز کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک اور شدید دھچکا لگا اور گاڑی ایک جھٹکے سے منہ کے بل جھکتی ہوئی اپنی جگہ جم کر رہ گئی۔ سامنے کا حصہ شاید کسی گہرے گڑھے میں جا پڑا تھا۔مصری جو سیٹ کے اوپر اکڑوں بیٹھا ہوا تھا ایک دھچکے سے اچھلا اور حکم داد کے اوپر سے لڑھک کر مرشد اور خنجر کی گود میں آ لیٹا۔سبھی کے ہونٹوں سے بے معنی آوازیں خارج ہوگئی تھیں۔
گاڑی تیس ڈگری زاویہ پر کھڑی تھی۔ سامنے کا بایاں حصہ ایک گہرے گڑھے میں اتر چکا تھا جس کے باعث وہ قدرے بائیں پہلو جھکی ہوئی تھی۔ مصری کی سوکھی سڑی ٹانگوں کو ایک طرف ہٹاتے ہوئے سب سے پہلے مرشد ہی دروازہ کھول کر نیچے اترا ، بشارت کو غالباً چوٹ آئی تھی۔ ٹیپو اسے سنبھال رہا تھا۔گاڑی کا انجن ابھی بےدار تھا ۔ بائیں طرف کی ہیڈ لائٹ ٹوٹ چکی تھی البتہ دائیں ہیڈلاٹ کی بدولت مختصر سا حصہ اپنا آپ دکھا رہا تھا۔ یہاں خود رو گھاس پھونس اور سرکنڈوں کی بہتات تھی۔ دائیں ہاتھ کچھ فاصلے پر کھنڈرات نما ہیولے دکھائی دے رہے تھے۔ عقبی طرف بہت پیچھے, دور ….سڑک کے آثار تھے۔ سڑک پر کھڑی گاڑیوں کی طویل قطار کی روشنیاں جگنوو�¿ں کی طرح جھلملا رہی تھیں۔مرشد ایک ہی نظر میں بند پر اسی سمت دوڑی آتی چند گاڑیوں کی جھلک بھی دیکھ چکا تھا۔ وہ کم از کم بھی ایک کلومیٹر پیچھے تھیں ابھی۔
” چلو باہر نکلو جلدی۔” خنجر رائفل بدست، مغویان سے مخاطب تھا۔ سب سے پہلے کمر پر ہاتھ رکھ کر نیچے اترنے والا مصری تھا۔. مرشد نے جھانک کر ایک نظر حجاب کی طرف دیکھا تو اسے بے چین نگاہوں میں سوال لیے اپنی ہی طرف متوجہ پایا۔
"سرکار! آجائیں۔” اس نے چھوٹے اسحاق کو کالر سے کھینچ کر باہر نکالا۔ حکم داد کی باری آئی تو اس نے خلاف توقع بالکل اچانک ہی اترتے ہوئے مرشد کے سینے پر ٹکر مار دی۔وہ زخمی تھا ،ہاتھ بھی پشت پر بندھے ہوئے تھے ،اس کے باوجود اس نے ان کے ہاتھوں میں موجود رائفلوں کی بھی پرواہ نہیں کی تھیمرشد اس اچانک حملے پر لڑکھڑا گیا۔ اس کا ایک پاو�¿ں کسی گڑھے میں پڑا اور وہ توازن کھو کر گر پڑا۔ حکم داد کے حلق سے درندوں جیسی چنگھاڑ بلند ہوئی اور وہ اچھل کر مرشد کے اوپر ہی جا پڑا۔ مرشد نے ٹانگیں سکیڑ کر اس کے گٹھے ہوئے جسم کا بوجھ گھٹنوں پر سہارا اور ساتھ ہی دائیں ہاتھ کا گھونسا اس کے جبڑے پر رسید کردیا۔ حکم داد کے حلق سے ایک غراہٹ بلند ہوئی، وہ پہلو کے بل گرا لیکن گرتے ہی کسی اسپرنگ کی طرح اچھل کر دوبارہ مرشد کے اوپر آیا۔اس کا انداز ایسا تھا جیسے اپنے بھاری جبڑوں میں مرشد کا نرخرہ دبوچ کر ادھیڑ دینا چاہتا ہو۔
اس بار مرشد کا گھونسا پوری قوت سے اس کی بائیں آنکھ پڑھا ۔اس کے حلق سے امڈنے والی دردناک کراہ نے غمازی کی کہ یہ ضرب قدرے کارگر ثابت ہوئی ہے۔گرتے وقت رائفل مرشد کے ہاتھ سے نکل گئی تھی جو قریب ہی گھاس میں پڑی تھی۔اس نے جھپٹ کر رائفل پکڑی اور ایک بار پھر خود پر حملہ آور ہوتے حکم داد کی پیشانی پر اس کا کندا رسید کیا۔اگلے ہی پل وہ اٹھ کر کھڑا ہو چکا تھا۔حکم داد کے دونوں ہاتھ چونکہ پشت پر بندھے ہوئے تھے لہٰذا وہ اٹھنے کے معاملے میں پھرتی کا مظاہرہ نہیں کر سکا۔اس کا ایک گھٹنا ابھی زمین ہی پر تھا کہ مرشد نے رائفل کو لاٹھی کی طرح استعمال
کرتے ہوئے اس کے سر کے عقبی حصے میں ایک بھرپور ضرب لگائی اور حکم داد جو اٹھ کر کھڑے ہونے کی کوشش کر رہا تھا کسی بے جان بوری کی طرح منہ کے بل ڈھیر ہو گیا۔ گاڑیاں لمحہ بہ لمحہ قریب آتی جا رہی تھیں۔اس نے رائفل کندھے کے ساتھ لٹکاتے ہوئے حکم داد کے بے حس و حرکت وجود کو سیدھا کیا اور پھر ایک جھٹکے سے اٹھا کر دوسرے کندھے پر لاد لیا۔
"چلو …. اس طرف۔”اس نے فورا کھنڈرات نما ہیولوں کی طرف بڑھتے ہوئے خنجر سے کہا تو اپنی اپنی جگہ ساکت کھڑے سبھی افراد حرکت میں آگئے۔حجاب نے مرشد کے ساتھ ہی قدم بڑھائے خنجر نے دونوں اسحاقوں کو نشانے پر آگے لگا لیا۔ ٹیپو نے مصری اور تاجل سے کچھ کہا، بشارت کے ہاتھوں میں بھی رائفل دکھائی دینے لگی تھی۔
"اب….اب کیا ہوگا ؟ ان لوگوں کی تعداد تو بہت زیادہ ہے۔” حجاب نے مرشد کے ساتھ تیز قدم اٹھاتے ہوئے سوال کیا۔ اس کی آواز میں خفیف سی لرزش تھی۔
"جو خدا کو منظور ہوگا۔ آپ دھیان سے آئیں۔”
آگے آگے وہی دونوں تھے۔ چاروں طرف اندھیرا تھا۔ آسمان پر تارے بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔شاید بادلوں کی ٹکڑیوں نے آسمان کو ڈھانپ رکھا تھا۔ حبس زدہ فضا میں ایسی سیلن زدہ سی بو پھیلی ہوئی تھی جیسی مینڈکوں اور کچھوﺅں سے آتی ہے۔ زمین پر جگہ جگہ چھوٹے بڑے گڑھے تھے۔
کہیں سے زمین اونچی تھی اور کہیں سے نشیبی ،ہر جگہ خودرو گھاس سے اٹی پڑی تھی۔ یہ گھاس کہیں بالکل چھوٹی چھوٹی تھیں اور کہیں بالشت بھر لمبی ۔اس کے علاوہ سرکنڈوں کے گز گز بھر لمبے پودوں کے چھوٹے بڑے جھنڈ چاروں طرف بکھرے ہوئے تھے۔ ایک جگہ تو اس جھنڈ میں مرشد گرتے گرتے بچا ۔بہرحال انہیں زیادہ مشقت نہیں اٹھانی پڑی۔محض چند گز کا فاصلہ طے کرتے ہی وہ اینٹوں سے بنے چھوٹی دیواروں والے ایک مکان کے دروازے تک پہنچ گئے ۔دروازہ تو نہیں تھا ہاں دروازے کی جگہ دیوار میں خلا چھوڑ دیا گیا تھا۔مرشد بلاجھجک اس خلا سے اندر داخل ہوگیا۔اندر داخل ہوتے ہی بالکل سامنے ایک کمرے کی بغلی دیوار تھی اور باقی کمرے اس کی اوٹ میں تھے۔ مرشد نے قدرے دائیں طرف آگے بڑھ کر دیکھا، باہر سے اس اندھیرے میں ڈوبے مکان کو دیکھ کر یہی اندازہ ہوتا تھاکہ یہ خالی اور ویران پڑا ہے لیکن ایسا نہیں تھا۔
دائیں ہاتھ ایک مختصر سا صحن تھاجس کے ایک کونے میں چند بکریاں بندھی تھیں۔ سامنے کے رخ ایک دو کمرے مزید موجود تھے ۔ان کے سامنے چھوٹا سا برآمدہ تھا۔ برآمدے ہی کی ایک دیوار کے ساتھ روشن لالٹین لٹک رہی تھی۔ صحن میں تین چار پائیاں بچھی تھی جس پر دو افراد سو رہے تھے جبکہ ایک چارپائی خالی تھی۔کونے میں بندھی بکریوں میں سے اچانک ایک بکری اٹھی اور کسی جوشیلے کتے کی طرح بھونکتی ہوئی مرشد کی طرف لپکیدراصل وہ ایک اچھا خاصا جسیم کتا ہی تھا جو بکریوں کے ساتھ بیٹھا بادی النظر میں بکری ہی محسوس ہوا تھا۔اس کے اس طرح اچانک جھپٹنے پر حجاب بے اختیار چیختی ہوئی دو تین قدم پیچھے ہٹ گئی۔ مرشد نے اضطراری انداز میں لات کو حرکت دی تو اس کے پاو�¿ں میں موجود کھیری کی ٹو اس کتے کی تھوتھنی پر لگی۔چیاو�¿ں کی ایک آواز نکال کر وہ دوبارہ جھپٹا تو مرشد نے حکم داد کو اس پر پھینک دیاکتے کے نصیب ہی اچھے تھے کہ وہ پوری طرح حکم داد کے بھاری وجود کے نیچے دبنے سے بچ گیا۔پھر بھی اسے شاک ضرور پہنچا تھا کیونکہ وہ چیختا ہوا چند قدم برآمدے کی طرف کھسک گیا تھا۔
اسی وقت بشارت اور خنجر لوگ بھی موقع پر پہنچ گئے اور چارپائیوں پر سوئے ہوئے افراد بھی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔
"خنجر! ادھر اندر کا تو سنبھال اور سب سے پہلے ان دونوں کے بھی ہاتھ باندھے دے۔ "مرشد کا اشارہ اسحاقوں کی طرف تھا۔خود وہ فوراً پیچھے ہٹ کر بیرونی دیوار کی طرف بڑھ گیا۔ بیرونی دروازے کا خلا بند کے رخ تھا اور اس سے قریباً سات آٹھ فٹ آگے بغلی دیوار تھی اونچائی یہی کوئی چار
ساڑھے چار فٹ رہی ہوگی۔مرشد لپک کر اس دیوار کے قریب جا کھڑا ہوا ۔ رائفل کندھوں سے اتار کر وہ ہاتھوں میں تھام چکا تھا۔بند کی طرف نظر پڑتے ہی اس کے پورے وجود میں چونٹیاں سی دوڑ گئیں بند پر آگے بڑھتی گاڑیوں کی تعداد پانچ چھ یا سات آٹھ نہیں تھی وہ کم از کم بھی چودہ پندرہ گاڑیاں تھیں اور کاریں بھی۔
"یہ تو پورا قافلہ ہے اتنی زیادہ نفری ! "بشارت اس کے برابر آکھڑا ہوا۔ اس کی آواز میں بجا طور پر تشویش تھی۔
” یہ صرف پولیس والے نہیں ہیں، کچھ اور کتے بلے بھی شامل ہے ان میں۔” مرشد نے تلخ لہجے میں کہا۔اس کے رگ و پے میں ایک جوش آمیز سنسنی بیدار ہو آئی تھی۔ان کے سامنے بیس گز کے فاصلے پر ان کی گاڑی سربجود تھی۔ اس کی اکلوتی ہیڈلائٹ جوں کی توں روشن تھی۔اس کی عقبی طرف دس پندرہ فٹ اونچے بند پر اس طرف دوڑی آتی گاڑیاں اب بہت قریب پہنچ آئی تھیں۔ محض ڈیڑھ دو سو گز کا فاصلہ رہ گیا ہو گا۔صرف چند منٹ کی بات تھی پھر وہ ان کے سر پر سوار ہو آتے ۔مرشد نے ایک ذرا تذبذب محسوس کیا پھر ہونٹ بھینچتے ہوئے رائفل سیدھی کر لی۔
"یہ …. یہ کیا کر رہے ہیں آپ ؟”بشارت نے تیز لہجے میں جیسے اسے ٹوکا ۔ اسی لمحے مرشد کو محسوس ہوا کہ عقب میں کوئی موجود ہے۔ اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو حجاب کو اپنے پیچھے کھڑا دیکھ کر چونک پڑا۔
"سرکار ! آپ یہاں کیا کر رہی ہیں ؟”
"میں یہی رکوں گی۔آپ کے قریب۔” وہ آہستہ سے منمنائی۔
"نہیں سرکار! آپ اندر جائیں۔ برآمدے کی طرف ,جلدی کریں۔
"وہ …. آپ…. آپ ان لوگوں کو کیوں پکڑ لائے ہیں ساتھ۔” اس کا لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ خاصی گھبرائی ہوئی ہے۔مرشد کو فورا اندازہ ہوگیا کہ ان لوگوں سے اس کی کیا مراد ہے۔ یقینا وہ حکم داد اور پولیس ملازموں کا ذکر کر رہی تھی۔باقی سب لوگ تو آگے بڑھ گئے تھے۔ صحن کی طرف سے کتے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے بھی بولنے کی آوازیں آرہی تھیں لیکن ان دونوں پولیس والوں اور خصوصا حکم داد کی وجہ سے حجاب اس طرف جانے کا حوصلہ نہیں کرپائی تھی۔ وہ خوف زدہ تھیدشمنوں کا قافلہ مزید قریب پہنچ چکا تھا۔اب باقاعدہ گاڑیوں کے انجنوں کی آوازیں تک سنائی دینے لگی تھیں۔
"سرکار! خدا کے لئے آپ ادھر چلی جائیںبشارت! سرکار کو اندر لے جاو�¿.”اس نے مضطرب انداز میں باری باری دونوں سے کہا اور پھر پلٹ کر گاڑیوں کے اس قافلے کی طرف دیکھا جو اب بامشکل سو گز کے فاصلے پر تھا ۔اس نے نگاہیں سب سے آگے والی گاڑی پر جما دیں جو ایک پولیس جیپ تھی۔رائفل پر گرفت مضبوط کی اور ٹریگر دبا دیا۔صبح قریب کی اس گہری تاریکی میں کتے کی آواز کے ساتھ، ٹرپل ٹو رائفل کی خوفناک ترتراہٹ کی آوازبھی گونج اٹھی۔ اس نے یکے بعد دیگرے دو چھوٹے چھوٹے برسٹ فائرکئے تو اس کی توقع کے عین مطابق گاڑیوں کا وہ قافلہ فوراً ہی رک گیا۔چند اڑتی اڑتی آوازیں بھی اس کی سماعت تک پہنچیں۔بشارت تو گومگو کی سی کیفیت میں اسی جگہ نیچے بیٹھ گیا تھا۔مرشد برق رفتاری سے پلٹا اور حجاب کا ہاتھ تھام کر اسے صحن کی طرف ،کمرے کی اوٹ میں لے گیا۔حکم داد اسی جگہ بے سدھ پڑا تھا۔ خنجر اسحاقوں کے ہاتھ پشت پر کس رہا تھا جبکہ ٹیپو افراد خانہ کے ساتھ کھڑا تھا۔کتا برآمدے میں جا کھڑا ہوا تھا لیکن برابر بھونکے جا رہا تھا۔
"آپ کچھ دیر یہیں رکیے۔ اس طرف مت آئیے گا۔”اس نے تیز لہجے میں کہا اور واپس پلٹتے ہوئے خنجر سے مخاطب ہوا۔
"خنجر ! سرکار کا خیال کرنا۔”خود وہ دوبارہ جھک کر اس جگہ جا پہنچا جہاں بشارت رائفل زمین پر ٹکائے پنجوں کے بل بیٹھا تھا۔ اس نے دیوار سے
جھانک کر دیکھا ،تمام گاڑیاں اسی جگہ ٹھہری ہوئی تھیں۔
"آپ یہ سب کیا کر رہے ہیں؟ ہم مقابلے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور مقابلہ بھی پولیس کے ساتھ. مارے جائیں گے۔” بشارت نے بجھے بجھے لہجے میں کہا۔
"تو پھر کیا کیا جائے ؟” مرشد بھی نیچے بیٹھ گیا۔
"ہمیں یہ تین بندے اغوا نہیں کرنے چاہیے تھے۔ویسے مسئلہ بن بھی جاتا تو ملک منصب اور ارباب صاحب خود ہی حل نکال لیتے۔یہ اغوا والا کام خراب ہوا ہے۔”
"مسئلے اور مسئلے کے حل سے اگر تمہاری مراد یہ ہے کہ ہم گرفتار ہوجاتے تو ملک یا ارباب ہمیں چھڑا لیتا تو ایسا شاید تمہاری اور ٹیپو کی ذات تک تو ہو جاتا، ہم لوگوں کا معاملہ الگ ہے۔”
"ارباب صاحب نے آپ کو پناہ دی ہے اپنا مہمان کہا ہے۔ وہ ایسے ہی لاتعلق نہ ہو جاتے آپ سے۔ پورا ساتھ دیتے۔”
"یہ بات اپنی جگہ لیکن کیا تمہیں لگتا ہے کہ یہ سب لوگ محض میری گرفتاری کے شوق میں یوں پاگل ہوئے جا رہے ہیں….نہیں …. ان پاگل کتوں کے ارادے کچھ اور ہیں۔ موت تو زندہ چیز کو آکر رہتی ہے بشارت خان! انسان کو کبھی کبھی یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی موت منتخب کرسکے۔ ہم کسی صورت یہاں سے نکل سکتے ہیں تو بولو؟ دوسری صورت تم اور ٹیپو اس لڑائی سے دامن بچاو�¿, ہم لوگ تو لڑکر مرنا پسند کریں گے۔”
"یہ پاگل پن ہے۔ آنے والے کم از کم بھی پچاس ساٹھ لوگ ہوں گے۔ مزید بھی آسکتے ہیں۔ ہمارے پاس صرف پانچ رائفلیں اور گنی چنی گولیاں ہیں۔ ایک آدھ گھنٹہ بھی ہم ٹک نہیں پائیں گے۔”
"تو پھر میں نے پوچھا تو ہے یہاں سے نکلنے کی کوئی صورت ہے تو بتاو�¿؟”
"گاڑی رہی نہیں, آگے بھی یونہی کھلا علاقہ ہے سارا اور اس طرف دریا ہےکس طرف نکلیں اور کیسے نکلیں!”وہ بری طرح پریشان تھا۔
"یعنی ہمارے پاس مقابلے کے علاوہ دوسرا کوئی چارہ نہیں ہے، تو بس پھر” مرشد نے جملہ ادھورا چھوڑا اور دوبارہ دیوار پر سے جھانکا۔ اسے تو توقع تھی کہ اس کے فائر کے جواب میں شدید قسم کی جوابی فائرنگ ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوا تھا۔جھانک کر دیکھنے پر اسے اپنی سجدہ ریز گاڑی کے علاو�¿ہ اور کوئی گاڑی دکھائی نہیں دی۔ بند مکمل طور پر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا یعنی آنے والی تمام گاڑیوں کی لائٹس آف کر دی گئی تھیں۔ اس نے آنکھیں سکیڑ کر دھیان سے دیکھا لیکن کچھ دکھائی نہیں دیا۔یہ صورت حال مزید پریشان کن بلکہ خوف زدہ کر دینے والی تھینادیدہ دشمن سے زیادہ خطرہ, زیادہ خوف محسوس ہوتا ہے اور یہاں تو دشمن بھی کوئی ایک آدھ نہیںتھا چار پانچ درجن تعداد تھی ان کی۔ گاڑھے اندھیرے کے باعث کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا ،ایسے میں دشمن چاروں طرف سے گھیرا ڈال کر اچانک ان کے سر پر آکھڑے ہوتے تو یہ عین ممکنات میں سے تھا اور حالات واقعات سے سمجھ آرہی تھی کہ دشمن یہی حکمت عملی اختیار کر رہے ہیں۔
مرشد نے فائرنگ کی تھی ان کی فوری پیش قدمی روکنے کے لیے اس مقصد میں اسے کامیابی بھی ہوئی تھی لیکن اب موجودہ صورت حال نے یکدم ہی اس کی تشویش اور پریشانی میں کئی گنا اضافہ کر دیا تھا اور یہ ساری تشویش, ساری پریشانی حجاب سے تعلق رکھتی تھی۔ان لمحات میں یہ سوال پوری شدت سے اس کی کنپٹیوں میں ٹھوکریں مار رہا تھا کہ اگر اس معرکے میں اس کی زندگی کام آگئی تو سرکار کا کیا بنے گا ان پر کیا بیتے گی ؟ وہ نازک اور معصوم جان کیسے چودھریوں کی جنونی نفرت اور اندھی وحشت کا سامنا کر پائے گی؟دماغ اپنی پوری تندہی سے مصروف تھا لیکن کوئی قابلِ عمل حل سمجھ نہیں
آرہا تھا ۔یہ اضطراب اعصاب چٹخائے دے رہا تھا کہ وقت بہت کم ہے۔ پچاس ساٹھ بھوکے بھیڑیے لحظہ بہ لحظہ ان کے گرد اپنا گھیرا تنگ کرتے آرہے تھے۔کسی بھی لمحے کسی بھی طرف سے اندھی گولیوں کی باڑ ان کے جسموں میں درجنوں سوراخ کھولتی ہوئی گزر جاتی
مرشد ابھی شش و پنج میں تھا کہ فضا ایک بار پھر فائرنگ کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھی.. یہ ایک طویل برسٹ تھا جو مکان کی چھت سے چلایا گیا تھا۔ شاید ٹیپو یا خنجر میں سے کسی نے چھت پر پوزیشن سنبھال لی تھی۔ اس برسٹ کا فوری جواب آیا۔ پہلے ایک برسٹ فائر ہوا اور پھر ایک ساتھ کئی رائفلوں کے دہانے کھل گئے۔ پہلے گاڑیوں کی طرف سے فائرنگ شروع ہوئی ، پھر اس مکان کے دروازے کے رخ ،بند کی دوسری طرف سے بھی رائفلوں کی گھن گرج سنائی دینے لگی۔ ایک ساتھ درجنوں رائفلیں استعمال ہونے لگی تھیں۔ فائر نگ کا یہ بھیانک شور کلیجہ پانی کر دینے والا تھا۔ مرشد کو خنجر اور ٹیپو کی فکر نے آ دبوچا۔ بند کی بلندی اس مکان سے زیادہ اونچی تھی۔ وہاں سے باآسانی چھت پر موجود شخص کو نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔ مرشد نے ایک لمحے کیلئے سوچا اور پھر پلٹ کر جھکے جھکے انداز میں مکان کے اندرونی حصے کی طرف بڑھ گیا۔
صحن کی طرف پہنچتے ہی وہ چونک پڑا۔ برآمدے کی دیوار کے ساتھ لٹکتی لالٹین کی روشنی میں اس نے خنجر اور ٹیپو دونوں کو ہی برآمدے میں موجود پایا۔ ٹیپو ایک دروازے کی باہر سے زنجیر چڑھا رہا تھا جبکہ خنجر چند قدم کے فاصلے پر دوسرے کمرے کے دروازے کے سامنے رائفل سنبھالے کھڑا تھا ۔ کتے کو ایک چارپائی کے پائے کے ساتھ باندھ دیا گیا تھا اور وہ وحشت زدہ انداز میں بھونکتا ہوا زنجیر سے چھٹکارا پانے کیلئے زور مار رہا تھا۔ بکریاں الگ شور مچانے لگی تھیں ۔
چھت پر سے برابر پولیس فائرنگ کا جواب دیا جا رہا تھا اور ایک سے زائد رائفلیں استعمال ہو رہی تھیں۔ سماعت کو جھنجھنا دینے والے فائرنگ کے شور میں مرشد کو اچانک احساس ہوا کہ فائرنگ صرف اسی چھت کے اوپر سے نہیں کی جا رہی بلکہ بغلی طرف والے مکان کی چھت پر بھی دو چار لوگ پوزیشنیں سنبھالے ہوئے تھے مرشد لپک کر خنجر تک جا پہنچا۔
” سرکار کدھر ہیں ؟ "
” اندر” خنجر نے عقب میں موجود کمرے کی طرف اشارہ کیا۔ ” ان تینوں حرامیوں کو باندھ کر اس کمرے میں ڈال دیا ہے۔”
اس نے ٹیپو کی طرف دیکھا،
” چھت پر کون ہے ؟ "
” کچھ پتا نہیں۔ اس گھر میں تو صرف بوڑھے میاں بیوی تھے اور ایک بچہ، وہ بھی سرکار کے ساتھ ہیں اور مصری اور اسکا جمورا بھی اسی کمرے میں ہیں۔“
فائرنگ جس طرح اچانک شروع ہوئی تھی اسی طرح یکایک ختم بھی ہو گئی۔ کتے اور بکریوں کا شور البتہ جاری رہا۔مرشد خنجر کے برابر سے گزر کر کمرے میں داخل ہو گیا ۔ یہاں بھی ایک دیوار کے ساتھ روشن لالٹین لٹک رہی تھی۔ کوری اینٹوں کی دیواروں کے ساتھ یہ روشنی خاصی مدقوق تھی پھر بھی اندر موجود نفوس دکھائی دے رہے تھے ۔ بغلی دیوار کے ساتھ پڑے پلنگ پر حجاب کے ساتھ ایک خاتون بیٹھی تھی ۔ ایک بچہ اس نے اپنی گود میں سمیٹ رکھا تھا ۔ مصری اور اسکا جمورا ایک دیوار کے ساتھ کمر ٹکائے پیروں کے بل بیٹھے تھے جبکہ سامنے والی دیوار کے ساتھ پڑی چارپائی پر ایک ستر پچھتر سالہ شخص کندھے جھکائے بیٹھا تھا ۔ مرشد اسی کے پاس جا کھڑا ہوا –
” چھت پر کون ہے؟ ” اس کے سوال پر بوڑھا گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔
” او.. او سجّا ہئے ”
” سجّاکون؟ "
” سجّا بلوچ ”
” کون ہے یہ سجّا بلوچ اور اسکے ساتھ اور کون کون ہے؟”
” میرا… میرا داماد ہئے … بیا اوندھے یار سجن ہِن ” ( میرا داماد ہے اور اسکے یار دوست ہیں) بوڑھا سرائیکی زبان بول رہا تھا۔ مرشد سرائیکی زبان جانتا تو نہیں تھا پھر بھی اسے بخوبی اندازہ ہو گیا کہ بوڑھا کیا کہہ رہا ہے۔ بوڑھے کا لہجہ ٹھیٹ دیہاتی تھا اور وہ بری طرح پریشان دکھائی دے رہا تھا۔
مرشد پلٹ کر باہر نکل آیا، خنجر اور ٹیپو برآمدے میں ہی کھڑے تھے ۔
” چھت پر کوئی سجّا بلوچ اور اسکے ساتھی ہیں جو پولیس مقابلہ کر رہے ہیں۔”
” مگر ان لوگوں کو کیا آفت پڑی ہے جو ہمارے لیے پولیس سے بھڑ گئے ہیں۔” خنجر متعجب ہوا۔
” شاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔”
ٹیپو بولا، ” یہ سجّا بلوچ اشتہاری مجرم ہے۔ کئی پولیس مقابلے کر چکا ہے، تین سال پہلے اس نے ایک سب انسپکٹر کی ٹانگوں میں برسٹ مارے تھے، وہ بچ تو گیا تھا لیکن اس کی دونوں ٹانگیں کاٹنی پڑی تھیں ۔”
” یہ لوگ جس طرح چھتوں پر پوزیشنیں سنبھالے بیٹھے ہیں، اس کے بعد تو یہ ممکن ہی نہیں کہ انہوں نے ہمیں اس طرف آتے نہ دیکھا ہو یا پھر اس صحن میں ہونے والے شور شرابے سے بے خبر رہے ہوں، پھر بھلا ہم پر انہوں نے گولی کیوں نہیں چلائی؟ ” مرشد نے پرسوچ انداز میں کہا ۔
” مرشد استاد! "آواز دینے والا برآمدے کے دوسرے کونے سے اچانک ہی کسی بھوت کی طرح نمودار ہوا تھا۔ مرشد کا دل اچھل کر رہ گیا۔
وہ آواز اور لالٹین کی مدھم روشنی میں دکھائی دینے والا وہ سراپا مرشد کیلے اجنبی نہیں تھا البتہ یوں قطعی غیر متوقع طور پر اسے یہاں دیکھ کر مرشد کا رواں رواں سنسنا اٹھا تھا !آنے والا لپک کر آگے بڑھا اور مرشد سے بغل گیر ہو گیا۔
وہ جعفر تھا…. جعفر ملتانی۔ مرشد کا اب تک یہی خیال تھا کہ وہ بھی ہیرا منڈی کے ٹبی تھانے میں مراد اور شبیر ے کے ساتھ ہی جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے لیکن اب معجزانہ طور پر اسے زندہ سلامت دیکھ کروہ دنگ رہ گیا تھا ۔
”” اوئے جعفر! یہ سچ میں ت�±و ہی ہے نا ! ” مرشد نے اسے بازوو�¿ں میں دبوچ لیا۔
” ہاں استاد ! ایک ہزار اک پرسنٹ۔ ”
” میں تو کئی بار تجھ پہ فاتحہ پڑھ چکا ہوں اور ت�±و یہاں زندہ سلامت بیٹھا ہے ۔ مجھے یقین نہیں آ رہا۔ ”
” میرا دانہ پانی باقی تھا، اس لئے بچ نکلا ۔” وہ الگ ہوتے ہوئے بولا۔ اس کی آواز میں جذباتی شدت کے باعث خفیف سی لرزش تھی۔
” اپنے بچ نکلنے کی تفصیل بعد میں بتاو�¿ں گا، پہلے تم بتاو�¿ سب ٹھیک ہے نا ؟ "
” ابھی تک تو ٹھیک ہی ہے ۔”
” بی بی جی بھی ساتھ ہیں ؟ "
” ہاں "
” بس پھر سب اچھا ہے ۔ "اس کے بعد وہ خنجر اور ٹیپو کی طرف متوجہ ہوا، وہ تینوں ایک دوسرے کیلئے اجنبی تھے۔ مرشد نے ان کا مختصراً تعارف کروایا، پھر جعفر سے مخاطب ہوا۔
” بند کی اونچائی اچھی خاصی ہے، اگر دشمن نے بند کی دوسری طرف سے آکر فائرنگ کر دی تو وہ نقصان دہ ثابت ہو گی۔ "
” ایسا نہیں ہو گا، بند کی دوسری طرف جو چند ایک مکانات ہیں وہاں بھی اپنے بندے مورچے سنبھالے بیٹھے ہیں۔ ک�±تے پ�±لسیے تو پیچھے بھی ہٹ چکے ہیں…. تم آو�¿ میرے ساتھ۔ "وہ دوبارہ برآمدے کے دوسرے کونے کی طرف پلٹا تو مرشد خنجر اور ٹیپو کو وہیں چوکس کھڑے رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے جعفر کے پیچھے چل پڑا ۔ برآمدے کے کونے میں، کمرے کے بغلی طرف ایک تنگ سا راہداری نما راستہ تھا، چوڑائی بمشکل دو فٹ رہی ہو گی، اس راہداری کے آخر میں ایک کوٹھری نما جگہ تھی اور اس کوٹھڑی سے پختہ زینے چھت تک جاتے تھے ۔ مرشد، جعفر کے ساتھ یہ زینے طے کرتا ہوا اوپر پہنچا ۔ چھت پر پہنچتے ہی جعفر اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے نیچے بیٹھ گیا ۔
” کھڑے نہیں ہونا استاد! تین فٹ کی اونچائی تک ہم ” کور“’ ہیں”..
اس کے بعد اس نے اندھیرے میں پکارا۔
” استاد سجے !!…. مرشد استاد۔ ” جواب میں مکان کے سامنے کے رخ سے ایک خشک اور کرخت سی آواز آئی۔
” آ جا…. آگے آ جا ".. مرشد اتنے میں سرسری انداز میں جائزہ لے چکا تھا۔ چھت پر تین اطراف میں تین فٹ اونچی چاردیواری تھی جبکہ عقبی طرف چاردیواری کا تکلف نہیں کیا گیا تھا۔ اسی طرف دریائے چناب بہتا تھا جو اندھیرے کے باعث دکھائی تو نہیں دے رہا تھا البتہ اس طرف دیکھتے ہوئے ایک مہیب بے کرانی کا احساس ضرور ہوتا تھا۔
” آو�¿ استاد!! تمہیں سجے بلوچ سے ملواو�¿ں، پچھلے دو روز سے ہم سب لوگ تمہاری راہ دیکھ رہے تھے۔ آو�¿ "
” تم لوگوں کو یہ اندازہ کیسے ہوا کہ میں ساتھیوں کے ساتھ اسی جگہ پہنچوں گا ؟ ”
” کوئی اندازہ نہیں تھا۔ ملتان، مظفر گڑھ، رکنی اور لورالائی، پانچ شہروں میں مختلف گروہ تمہاری مدد کیلئے چوکس ہیں ۔”
مرشد کیلئے یہ اطلاع حیرت انگیز تھی۔ وہ ان گروہوں کے متعلق پوچھنا چاہتا تھا لیکن اس دوران وہ جھکے جھکے سامنے کے رخ دو دیواروں کے کونے تک پہنچ گئے۔ یہاں تین افراد موجود تھے اور اس جگہ کو باقاعدہ مورچے کی شکل دی گی تھی۔ دیوار کے ساتھ پچیس تیس بوریوں کی آڑ کھڑی کی گئی تھی اور سائے کی غرض سے لکڑی کے چند چوڑے تختوں کی مدد سے سات بائے آٹھ فٹ کے قریب ایک سائبان کھڑا کیا گیا تھا جو دیوار سے تین چار انچ اونچا تھا ۔ دو رائفل بردار اس تین چار انچ کی جگہ سے دوسری سمت جھانک رہے تھے جس طرف بند پر پولیس اور دوسرے بدمعاشوں کی گاڑیاں موجود تھیں ۔
” تو آخرکار شیروں کا شیر یہاں تک پہنچ آیا۔ ” ان دونوں کے وہاں پہنچتے ہی ایک دبلے پتلے شخص نے خوشدلی سے کہتے ہوئے گرمجوشی سے مرشد کے ساتھ ہاتھ ملایا ۔
“ مرشد استاد کے ساتھ دو تین بندے اور ہیں اور وہ بی بی جی بھی ہیں جن کا ذکر ہوا تھا۔ ” جعفر نے کہا ۔ اس نے رائفل کندھے سے اتار کر گود میں رکھ لی تھی۔ دیوار کے ساتھ گھٹنوں کے بل بیٹھے دونوں افراد نے بھی باری باری مرشد کو سلام کیا اور دوبارہ دوسری سمت جھانکنے لگے ۔
” کوئی زخمی یا بیمار تو نہیں ؟ ” سجے کے سوال پر مرشد نے جواب دیا
” نہیں.. سب ٹھیک ٹھاک ہیں۔ حجاب سرکار کے علاوہ میرا ایک ساتھی ہے، باقی دو افراد ملتان سے ہمارے ساتھ چلے تھے۔ ان لوگوں نے ملتان میں ہمیں پناہ دی تھی۔ ان کے علاوہ تین بندوں کو ابھی ہم نے اسی روڈ سے اغوا کیا ہے۔ اس وقت وہ نیچے ایک کمرے میں بندھے پڑے ہیں۔ ان میں سے دو پولیس والے ہیں۔ "
” پولیس والے مار کر پھینک دینا تھا ان حرامیوں کو، ساتھ اٹھا کر لانے کی کیا ضرورت تھی ۔ ” اس نے نفرت سے کہا۔ اسکا لہجہ گواہ تھا کہ اسے پولیس سے کس درجہ چڑ اور نفرت ہے ۔”
میری ان دونوں سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے۔ مارنا نہیں چاہتا تھا اس لئے زندہ اٹھا لایا ۔ ”
” یہ سانپوں سے بدتر ہوتے ہیں۔ دشمن ہو یا نہ ہو جہاں کوئی پ�±لسیا نظر آئے، پھڑکا دو۔ یہ بھی بے گناہ غریبوں اور کمزوروں کو ڈسنے سے باز نہیں آتے۔ ”
” میں بے وجہ کے خون خرابے کا قائل نہیں ہوں۔ اس لئے بے وجہ کسی کی جان نہیں لوں گا، البتہ جو بی بی سرکار کو نقصان پہنچانا چاہے گا یا خود میری جان کو آئے گا، اس کیلئے کوئی رعایت، کوئی معافی نہیں ،پھر چاہے وہ کسی جاگیر کا مالک ہو یا کوئی وزیر مشیر ہو۔ "مرشد نے سجے کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں کو اپنے چہرے پر مرکوز پایا۔ فضا کی تاریکی میں صبح کی موہوم سفیدی گھل آئی تھی۔ کچھ ہی دیر تک صبح کے اجالے میں ہر منظر ظاہر ہونے والا تھا۔ چند لمحے دیکھتے رہنے کے بعد سجّا بولا۔
” مرشد استاد! تمہارے متعلق میں نے بڑا کچھ سنا ہے کئی قصے تو اس جعفر نے سنائے ہیں اور پھر تمہارے متعلق استاد رستم لاہوری کی بے چینی بھی بتاتی ہے کہ تمہارے اندر بڑے گ�±ن ہوں گے میں جگرا رکھنے والوں کی بڑی قدر کرتا ہوں۔سچ کہوں تو مجھے بھی بڑا شوق تھا تمہیں دیکھنے کا، تم سے ملنے کا۔ رب سوہنے نے اتفاق بنا دیا۔ "
” تم لالا رستم کو کیسے جانتے ہو؟ "اس کے منہ سے لالا رستم کا نام سنتے ہی مرشد چونک پڑا۔
” یہ لمبی کہانی ہے بس اتنا سمجھ لو کہ میں استاد رستم کے احسان مندوں میں سے ہوں۔ آج سے دس پندرہ سال پہلے استاد نے میرے اماں ابا کو ایسی مصیبت، ایسے عذاب سے نکالا تھا جس میں سے زندہ نکل آنے کی کوئی صورت، کوئی امید باقی نہیں بچی تھی۔ دو دن پہلے لاہور سے چند بندے میرے پاس پہنچے، وہ تمہارے حوالے سے استاد کا پیغام لیکر آئے تھے۔ بعد میں میری فون پر بات بھی ہوئی استاد سے وہ تمہارے حوالے سے سخت فکرمندی کا شکار ہیں۔ ملتان سے لورالائی تک انہوں نے کئی بندوں کی ڈیوٹی لگا رکھی ہے کہ جلد از جلد تمہیں تلاش کیا جائے اور تمہاری ہر ممکنہ مدد کی جائے ۔ ا�±دھر… پ�±ل پر بھی ہمارے بندے موجود تھے ۔ یہاں جس طرح پولیس والے پاگل کتے بنے ہوئے تھے اس سے ہمیں خاصا یقین تھا کہ آج کی رات کچھ نہ کچھ تو ہو کر رہے گا۔ اللہ کی کرنی کہ تم خود ہی اس چار دیواری تک پہنچ آئے۔ "
” ہاں پہنچ تو آئے ہیں، اب یہاں سے نکلنے کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ "
” اتنی جلدی بھی کیا ہے "
” جلدی کی تو پوچھو مت۔ میں نے سرکار کو قلعہ سیف اللہ تک پہنچانا ہے ،وہ بھی جلد از جلد باقی ہر مسئلہ، ہر رپھڑ بعد کی بات ہے۔ "مرشد نے سنجیدگی سے کہا۔ فضا کا حبس ختم ہو گیا تھا۔ ہلکی ہلکی سی ہوا چلنا شروع ہو گئی تھی۔ کسی کسی وقت دریا کی طرف سے آنے والا جھونکا سانسوں میں عجیب ناگوار سی بو چھوڑ جاتا تھا۔
” صورتِ حال بس تھوڑی سی پیچیدہ ہو گئی ہے۔ ” سجّا بلوچ پرسوچ انداز میں بولا۔ ” ہمیں توقع نہیں تھی کہ یکایک پولیس کی اتنی زیادہ نفری ادھر آ دھمکے گی، بس اسی لئے باقی زیادہ پریشانی والی بھی کوئی بات نہیں ہے ۔ فوری طور پر تو نہیں البتہ کوئی نہ کوئی رستہ، کوئی نہ کوئی انتظام ہو ہی جائے گا۔ ”
” یہ سب گاڑیاں پولیس کی نہیں ہیں ۔ ان میں نندی پور کے چوہدری فرزند کے علاوہ نواب اسفند یار کے کارندے بھی شامل ہیں۔ "
” نواب اسفند یار …. اس کا اس سارے معاملے سے کیا تعلق واسطہ؟ ” سجّا بلوچ متعجب ہوا۔ ساتھ ہی وہ گھٹنا زمین پر ٹیکتے ہوئے دیوار کے اوپر سے جھانکنے لگا ۔ مرشد اور جعفر نے بھی اس کی تقلید کی۔
” اصل تعلق واسطہ تو چوہدری فرزند کا ہے۔ نواب کی اور اس کی تعلق داری ہے، شاید اسی لئے وہ بھی اپنی ٹانگ اڑا رہا ہے۔ "مرشد نے وضاحت کی۔
اندھیرا اب صبح کی ملگجی سفیدی میں تبدیل ہو رہا تھا۔ اردگرد کے مناظر دکھائی دینے لگے تھے۔ بند پر موجود گاڑیاں کافی پیچھے ہٹ چکی تھیں۔ دو گاڑیاں بند پر ترچھی حالت میںکھڑی تھیں ۔ دو گاڑیاں بہت پیچھے مین روڈ کے قریب کھڑی تھیں ۔ وہاں چند لوگ شاید آپس میں کسی بحث میں مصروف تھے۔ اس طرف بھی گاڑیوں کی اوٹ میں نقل و حمل کا احساس ہوتا ہے۔ ان پندرہ سولہ گاڑیوں میں تقریبا تین چار پرائیویٹ گاڑیاں تھیں، چار عدد جیپیں اور تین عدد کاریں، یہ یقیناً نواب اور چوہدری کے ڈشکروں کے استعمال میں تھیں ۔
” یہ ابھی بھی ہماری فائرنگ رینج میں ہیں۔” بلوچ کا ایک ساتھی بولا۔
” فائر نہیں کرنا، صرف انتظار کرو اور چوکس رہو ۔ جب وہ پہل کریں تب جوابی کاروائی کرنا۔ یہ حرامی ایک انچ بھی آگے نہ بڑھنے پائیں۔”
” آگے بڑھتے ہوئے تو یہ اب ہزار بار سوچیں گے میرے خیال میں ان کے دو تین بندے زخمی بھی ہوئے ہیں۔” یہ جعفر تھا۔
” اچھا ہوا ہے۔ مر جاتے تو اور اچھا تھا۔ خالہ جی کا گھر سمجھ کے گھسے آ رہے تھے حرام کے تخم۔ "
” ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ اتنی بھرپور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا انہیں۔ "
” ابھی تو ان کے کئی گمان دور ہونے ہیں۔ "
مرشد بغور اطراف کا جائزہ لے رہا تھا۔ ان کی گاڑی اسی طرح منہ کے بل جھکی کھڑی تھی ۔ دور دکھائی دیتی مین روڈ پر آتی جاتی گاڑیاں بھی نظر آ رہی تھیں ۔ بند کے ساتھ ساتھ دور تک خودرو جھاڑیاں اور گھاس اگی ہوئی تھی۔ اس مکان کے عقبی طرف بہتا دریا بھی اب دکھائی دینے لگا تھا ۔ مکان سے اسکی دوری بمشکل بیس پچیس گز رہی ہو گی۔ دریا کا پاٹ کم از کم بھی ڈیڑھ دو کلومیٹر چوڑا تو ضرور تھا۔ دریا کے بالکل وسط میں ایک دو جگہ سرسبز جزیرہ نما خشکی کے قطعے بھی موجود تھے ۔ اس دریا سے منسوب کئی نام اور کئی داستانیں مرشد کے ذہن میں ابھر آئیں۔
دریائے چن آب، چندرا، چندرا بھاگا، چندر بھاگ، سب اسی کے نام تھے۔ یہ بھارت کی ریاست ہماچل پردیش کے ضلعے لاہول سے شروع ہوتاہے اور جموں کشمیر میں جموں کے علاقے سے بہتا ہوا پنجاب کے میدانوں میں اترتاہے۔ ضلع جھنگ میں تریموں بیراج کے مقام پر یہ دریائے جہلم سے ملتا ہے اور اوچ شریف کے مقام پر دریائے ستلج سے ملکر پنجند بناتا ہے ۔ قدیم ہندوستان میں اسے ” اشکنی” کے نام سے اور قدیم یونان میں ” آچے سائنز” کے نام سے جانا جاتا تھا۔ 325 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے اپنی فوجوں کے ساتھ اسی دریا کے کنارے پڑاو�¿ ڈالا تھا اور ایک شہر کی بنیاد بھی رکھی تھی جسے آج شاید اوچ شریف، کوٹ مٹھن یا پھر چچارن کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ سوہنی مہینوال کے علاوہ ہیر رانجھا کی پنجابی رومانوی داستان بھی اسی دریا کے گرد گھومتی ہے اچانک ہی مرشد کی سوچوں میں حجاب کا خیال در آیا۔ اس کا روشن چہرہ، چمکدار آنکھیں جن میں معصومیت بھری ہوئی تھی اور پرگداز ہونٹ ،جن پر رس بھرے سرخ انگوروں کا گمان ہوتا تھا ۔ پردہ تصور پر ایک اور منظر طلوع ہوا ۔ وہ اماں کے کمرے میں
داخل ہوا تھا۔ سامنے ہی حجاب گھٹنوں کے بل بیٹھی فرش پر بچھے بستر کی چادر درست کر رہی تھی۔ اس کے سر پر موجود دوپٹے کے نیچے سے اس کے بالوں کی ریشمی آبشار اس کی کمر پر اتر رہی تھی ۔ کمر پر سے قمیض بھیگی ہوئی تھی۔ شاید وہ نہا کر نکلی تھی بالوں میں ابھی تک نمی موجود تھی – دل کو اچانک ہی کچھ ہوا – دھڑکنیں جیسے سینے سے اچھل کر سامنے چپ چاپ بہتے دریا میں جا کودیں۔ احساس جیسے گہرے پانیوں میں ڈوبنے ابھرنے لگا تھا ۔
اچانک ایک چنگھاڑ بلند ہوئی اور ساتھ ہی گولی چلنے کی آواز آئی ایک گھبراہٹ زدہ نسوانی چیخ کی مدھم آواز بھی سنائی دی تھی جو ممکنہ طور پر حجاب کے سوا اور کسی کی نہیں تھی۔ وہ سبھی بری طرح چونک پڑے ۔ یہ آوازیں نیچے صحن سے بلند ہوئی تھیں ۔
مرشد اپنی جگہ سے تڑپ کر اٹھا اور دیوانہ وار سیڑھیوں کی طرف دوڑ پڑا۔ عقب سے جعفر اور بلوچ نے اسے پکار کر کچھ کہا بھی لیکن وہ سن کر بھی سمجھ نہیں پایا کہ کیا کہا گیا ہے۔ اس کے ذہن میں حجاب کے علاوہ کوئی سوچ ، کوئی خیال نہیں تھا۔ وہ سیڑھیاں طے کرتا ہوا ، تنگ راہداری سے برآمدے کی طرف بڑھا تو اسکی سماعت سے دھینگا مشتی کی آوازیں ٹکرائیں۔ دو تین افراد آپس میں لڑ رہے تھے ۔ برآمدے میں پہنچتے ہی اس بات کی تصدیق ہو گئی۔
بشارت، خنجر اور حکم داد آپس میں بری طرح گتھم گتھا تھے ۔ ان کی رائفلیں برآمدے کے کچے فرش پر پڑی تھیں۔ لالٹین نیچے گر کر ٹوٹ چکی تھی اور اس میں موجود تیل کچی زمین پر بہہ رہا تھا۔ ایک طرف ٹیپو گٹھڑی بنا پڑا کراہ رہا تھا اور اس کے قریب ہی حجاب دیوار سے لگی کھڑی لرز رہی تھی۔ اس کی چادر برآمدے کے کچے فرش پر پڑی تھی اور چہرے پر زردی کھنڈی ہوئی تھی۔ اس کی ہراساں نظریں حکم داد کی طرف لگی تھیں جو وحشت ناک انداز میں غراتا ہوا بشارت اور خنجر کو دھکیل کر صحن تک لے گیا تھاحجاب کی حالت دیکھتے ہی مرشد کے دل پر گھونسہ سا پڑا۔ وہ سرتاپا کپکپا رہی تھی ۔ بال بکھرے ہوئے تھے اور کپڑوں پر مٹی کے نشانات تھے ۔ مرشد سیدھا اسی کی طرف بڑھا ۔
” سرکار! آپ اندر جائیں ۔” اس نے چادر اٹھا کر اسے تھمائی اور خود صحن کی طرف بڑھ گیا۔ جہاں حکم داد، خنجر اور بشارت ایک دوسرے پر گھونسے برسانے میں مصروف تھے۔ حکم داد تن و توش میں ان دونوں سے زیادہ تھا اور ان پر حاوی دکھائی دے رہا تھا۔ مرشد نے قریب پہنچتے ہی حکم داد کی کمر میں لات رسید کی ۔ وہ تینوں کتے والی چارپائی سے ٹکرائے اور دھڑام سے گر پڑے ۔
” ہٹ جاو�¿ خنجر! ایک طرف ہو جاو�¿ ۔” مرشد نے رائفل سیدھی کرتے ہوئے کہا ۔ کتا ایک بار پھر حلق پھاڑ پھاڑ کر بھونکنے لگا تھا۔ خنجر اور بشارت فورا ایک طرف ہو گئے۔ حکم داد بھی ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا تھا لیکن مرشد کے ہاتھوں میں موجود رائفل کی بھیانک اور سرد نال کو اپنے سینے کی طرف اٹھا دیکھ کر وہیں کا وہیں کھڑا رہ گیا۔ اس کے منہ اور ناک سے خون بہہ رہا تھا اور اکلوتی آنکھ انگارے کی طرح دہک رہی تھی۔
” تجھے جہنم میں جانے کی زیادہ جلدی ہے یا اپنے ہاتھوں پیروں کی ہڈیاں تڑوانے کا شوق ہو رہا ہے۔ ” مرشد نے اس کی ”آنکھ“ میں آنکھیں ڈالتے ہوئے درشتی سے کہا تو حکم داد خون تھوکتے ہوئے حقارت سے بولا ۔
” کیا پدی اور کیا پدی کا شورا ( شوربہ )، ت�±و بزدلوں کی طرح رائفل چلا کر مجھے مار سکتا ہے، ہاتھ پیر توڑنے کی اوقات نہیں ہے تیری، نہ تجھ میں اتنا دل گردہ ہے اور نہ تیرے ان دم چھلوں میں کوئی ایسا سورما ہے جو حکم داد کے سامنے ٹِک سکے …. باری باری میرے ساتھ لڑ کر دیکھ لو۔ سب کا کچومر نہ نکال کر رکھ دیا تو میں بھی اپنے باپ کا پوت نہیں۔ آ…. پنجہ لڑا کر دیکھ مجھ سے۔ "
جعفر اور سجّا بلوچ بھی مرشد کے پیچھے آ کھڑے ہوئے تھے ۔ بشارت ٹیپو کو سنبھال رہا تھا اور خنجر برآمدے میں گری پڑی اپنی رائفل اٹھا رہا تھا۔ اس کی قمیض کے بٹن ٹوٹ چکے تھے اور گریبان ناف تک پہنچ چکا تھا۔ حجاب بدستور اپنی جگہ کھڑی تھی۔ چادر البتہ اس نے اوڑھ لی تھی۔ اسی وقت صحن کی بغلی
دیوار پر دو اجنبی چہرے نمودار ہوئے۔ ان میں سے ایک نے بلوچ کو مخاطب کیا۔
” کیا رولا ہئے سجے! کیا دھاڑ دھاڑ ہئے؟ ”
” ک�±جھ نئیں ، سب فِٹ ہئے ۔بس اے ہِک سور پاگل تھی کھڑے۔”
( کچھ نہیں، سب ٹھیک ہے، بس یہ ایک سوّر پاگل ہو گیا ہے)
” تے وَل ایہندے سِر ہِچ فیر مارو تے جند چھڑاو�¿۔”
( تو پھر اسکے سر میں فائر مارو اور جان چھڑاو�¿) وہ سرائیکی بول رہے تھے۔سجے نے انہیں چپ رہنے کا اشارہ کیا ۔ مرشد نے خنجر کو مخاطب کیا۔
” گولی کس نے چلائی تھی؟ ”
” چلائی نہیں، بس اچانک چل گئی تھی ٹیپو سے۔ لالٹین نشانہ بنی ۔ یہ ک�±تّے کا پِلّا اچانک حملہ آور ہو گیا تھا۔”
” ک�±تے کا پِلّا ت�±و ہوئے گا۔ تم سب ہوو�¿ گے۔” حکم داد آستین سے خون صاف کرتے ہوئے غرایا ۔ اب مرشد کے علاوہ جعفر کی رائفل بھی اس کی طرف اٹھی ہوئی تھی ۔ مرشد اسکا بھونکنا نظر انداز کرتے ہوئے خنجر سے سوال انداز ہوا۔
” یہ تو کمرے میں بند پڑا تھا۔ دروازہ بھی باہر سے بند تھا، پھر اچانک کیسے حملہ آور ہو گیا ؟ ”
” میں نے خود اسکے ہاتھ پاو�¿ں باندھے تھے، پتا نہیں کیسے اس نے وہ بندشیں کھول لیں۔ اندر سے تڑپنے پھڑکنے کی آوازیں آ رہی تھیں، چیک کرنے کیلئے ٹیپو نے زنجیر ہٹائی تو اِس نے اچانک ا�±س کے سینے میں لات ماری ۔ حجاب سرکار اس وقت مجھ سے تمہارے بارے میں پوچھ رہی تھیں، اس خنزیر نے جھپٹ کر انہیں گردن سے دبوچ کر نیچے گرا دیا۔ اس کے بعد پھر میں اور بشارت اس سے بھڑ گئے ۔”
مرشد کی نظریں بے اختیار ہی حجاب کی طرف اٹھ گئیں۔ اس کے مغموم چہرے پر ابھی تک خوف کے سائے لہرا رہے تھے۔ مرشد کا رواں رواں سلگ اٹھا ۔ دماغ میں یکایک ہی انگارے سے دہک اٹھے تھے۔ اس نے شعلہ فشاں نظروں سے حکم داد کی طرف دیکھا جو اپنی جگہ تَن کے کھڑا اسی کی طرف گھور رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں استہزا تھا …. عجیب تاو�¿ دلانے والا انداز تھا اسکا۔ مرشد کو اپنی طرف دیکھتے پا کر وہ حقارت آمیز انداز میں بولا۔
”گھور تو ایسے رہا ہے جیسے ابھی میری پنڈلی پر کاٹ لیوے گا۔ اگر اپنی ماں کا پتر ہے تو یہ بندوقڑی پھینک کر آ جا ادھر… میں ابھی تیرے کو بتا دوں گا کہ ت�±و کتنے مردوں کی اکلوتی اولاد ہے۔ "
مرشد نے خاموشی سے رائفل جعفر کی طرف بڑھا دی۔
” کیا ضرورت ہے اس سے الجھنے کی… کھوپڑ میں گولی مار کر قصہ پاک کرو اس حرامی کا۔ ” سجا ناگواری سے بولا۔
مرشد س�±نی اَن س�±نی کر گیا۔ اس کے دماغ میں صرف یہ خیال ٹھوکریں مار رہا تھا کہ اس بدبخت نے سرکار کا گلا دبوچنے کی جرات کی ہے، انہیں زمین پر گرایا ہے ۔ وہ کسی صورت بھی رعایت کا حقدار نہیں تھا اور اسے گولی مار کر ختم کر دینا بہت بڑی رعایت تھی ۔ وہ رائفل جعفر کو تھماتے ہوئے آگے بڑھا تو حکم داد کی اکلوتی آنکھ میں درندے کی سی چمک ابھر آئی، وہ پوری طرح چوکس نظر آنے لگا تھا۔ مرشد کے مقابل آتے ہی وہ کسی جانور کی طرح چنگھاڑتا ہوا اس پر حملہ آور ہو گیا۔ غالباً مرشد کو جپھا ڈال کر دھکیل لے جانا چاہتا تھا لیکن مرشد برق رفتاری سے ایک طرف سرک گیا، ساتھ ہی اس نے حکم داد کے بازو پر ہلکی سی تھپکی دی اور اس کی بائیں ٹانگ پر پاو�¿ں سے ٹھوکر رسید کر دی۔ ٹھوکر گو زوردار نہیں تھی لیکن ٹائمنگ پرفیکٹ تھی ۔ حکم داد جو اپنے ہی زور میں تھا، لڑکھڑایا اور چارپائی سے ٹکرا کر گرتے گرتے بچا ۔سنبھل کر وہ ایک بار پھر پلٹا اور مرشد پر حملہ آور ہوا، اس بار اس نے مرشد کی
گردن دبوچنا چاہی تھی لیکن مرشد نے اسکی کلائی دبوچتے ہوئے اس کی بغل میں گھونسہ رسید کیا، گھونسہ کھانے کے باوجود وہ مرشد سے لپٹ گیا اور اسے دھکیلتے ہوئے کونے میں بندھی بکریوں کی طرف لے گیا۔ مرشد کو احساس ہوا کہ اس کے وجود میں کسی جنگلی سانڈ جیسی طاقت ہے ۔ اس کے تمام جسم سے کسی جانور جیسی بو آ رہی تھی۔ اچانک مرشد کا داو�¿ چلا۔ اس نے اڑنگا لگا کر حکم داد کو بکریوں کے قریب پٹخ دیا۔ اس نے تڑپ کر اٹھنا چاہا لیکن پسلیوں پر لات کھا کر بکریوں کے عین درمیان جا گرا۔ بکریاں منمناتی ہوئی اچھل کود کرنے لگیں۔ کتا اپنی جگہ الگ بھونک بھونک کر ہلکان ہو رہا تھا۔ دیوار پار کے صحن سے جھانکنے والے سجے بلوچ کے ساتھی اور برآمدے میں کھڑے افراد سنسنی آمیز دل چسپی سے یہ لڑائی دیکھنے لگے تھے۔ ان سب میں صرف ایک حجاب تھی جو پریشانی اور خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ سب دیکھ رہی تھی ۔
حکم داد دھاڑتا غراتا ہوا اٹھا اور مغلظات بکتا ہوا پھر سے مرشد پر جھپٹا ۔ اسکا م�±کا مرشد کی ٹھوڑی کو چھوتا ہوا گزرا۔ مرشد کا اچٹتا ہوا ہاتھ اسکی گردن پر پڑا تو حکم داد کی دوسری کہنی کی ضرب مرشد کے سینے پر پڑی ۔ مرشد کو یہی محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے سینے پر ہتھوڑا کھینچ مارا ہو۔ وہ دو قدم لڑکھڑایا اور حکم داد توپ سے نکلے گولے کی طرح اس سے جا ٹکرایا ، دونوں ایک دوسرے سے الجھ کر گر پڑے۔ مرشد نیچے تھا اور حکم داد اس کے اوپر، اس نے دونوں ہاتھوں سے مرشد کا گلا دبوچ لیا ۔ اس کے بھاری اور پرگوشت ہاتھ کسی شکنجے کی طرح مرشد کے گلے پر جم کر رہ گئے تھے ۔ مرشد نے اس کی کلائیوں پر زور صَرف کیا لیکن گرفت واقعی کسی آہنی شکنجے کی طرح سخت تھی۔
حکم داد کے چہرے اور آنکھ میں غیض و غضب کی بجلیاں سی تڑپ رہی تھیں۔ چہرہ تانبے کی طرح تپا ہوا تھا۔ اسکے نتھنے، ہونٹ اور ٹھوڑی خون میں لتھڑے ہوئے تھے اور وہ کسی خون آشام عفریت کی طرح مرشد پر جھکا ہوا تھا۔مرشد کا دَم گھٹنے لگا۔ اس کے ساتھیوں کی آوازیں، کتے کی آواز میں غتر بود ہو رہی تھیں ، سمجھ میں ایک جملہ بھی نہیں آ رہا تھا۔ حکم داد کی موٹی کلائیوں پر زور آزمانے کے بعد اس نے دائیں ہاتھ کا مکا حکم داد کی آنکھ پر مارا ۔ یہ ایک تیز رفتار اور زوردار ضرب تھی۔ حکم داد کی گرفت ایک دَم ذرا نرم پڑی۔ اسی لمحے مرشد نے پورا زور مار کر اسے اپنے اوپر سے دائیں پہلو گرا دیا ۔ اس نے دوبارہ جھپٹ کر مرشد کی گردن ناپنی چاہی لیکن اس سے پہلے ہی مرشد کا دوسرا مکا اس کے ہونٹوں کی خبر لے چکا تھا ۔ اس کے منہ سے بے اختیار ایک درد ناک کراہ خارج ہوئی اور مرشد تڑپ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ حکم داد نے بھی اٹھنے میں کسی تاخیر سے کام نہیں لیا۔ دونوں ایک بار پھر آمنے سامنے آ گئے ۔
اس بار بھی حملے میں پہل حکم داد نے کی۔ بے شک اس کے وجود میں ایک جنگلی جانور کا سا زور تھا لیکن وہ لڑائی کی ٹیکنیکس نہیں جانتا تھا۔ اس دفعہ بھی اس نے مرشد کو جپھا ڈالنے کی کوشش ہی کی تھی لیکن اس مختصر سی زور آزمائی میں مرشد اس کے لڑنے کے انداز کو سمجھ چکا تھا۔ اس بار خود حکم داد کو بھی سمجھ نہیں آئی کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ وہ مرشد پر جھپٹا اور اگلے ہی لمحے وہ اس کے سر کے اوپر سے ہو کر دھڑام سے کچے فرش پر آ گرا۔ دائیں کولہے میں ایسی شدید تکلیف اٹھی کہ وہ فوری طور پر اٹھ بھی نہ پایا۔ اٹھنے کی کوشش کی تو کمر پر مرشد کی لات کھا کر دوبارہ منہ کے بل گر پڑا۔ مرشد کے ساتھیوں نے بے ساختہ تحسین آمیز کلمات بولے ۔ حکم داد نے ایک دفعہ پھر اٹھنے کی کوشش کی لیکن اس بار مرشد کا طوفانی ٹھڈا اس کے چہرے پر پڑا اور وہ بے ساختہ کرب ناک انداز میں چیخ اٹھا ۔ یہ ٹھوکر اتنی شدید اور زوردار تھی کہ اس کے سامنے کے تین چار دانت ٹوٹ گئے اور منہ فورا ہی خون سے بھر گیا۔
مرشد اتنے پر بس کرنے والا نہیں تھا – حکم داد اس کے نزدیک پہلے ہی قابل معافی نہیں تھا اور اب حجاب پر حملہ کر کے اس نے اپنے بدترین انجام پر خود مہر ثبت کر لی تھی۔ مرشد نے اسے فٹ بال تصور کرتے ہوئے ٹھوکروں پر رکھ لیا۔وہ زمین سے اٹھنے کی کوشش کرتا رہا لیکن مرشد نے اسے موقع نہیں دیا۔ ناک اور منہ کے علاوہ اس کے سر سے بھی خون بہنے لگا تھا ۔کچھ ہی دیر میں اس نے دفاعی انداز اختیار کر لیا لیکن مرشد کے رگ و پے میں تو جیسے
کوئی برقی رو سرایت کر چکی تھی۔ محض ڈھائی تین منٹ میں ہی حکم داد کی ساری ہیکڑی نکل گئی۔ وہ صحن کے کچے فرش پر ادھ موا پڑا تھا۔ قمیض پھٹ چکی تھی ۔ چہرے کے علاوہ اس کی گردن اور سینے کے بال بھی خون میں لتھڑ چکے تھے اور وہ اکھڑے اکھڑے سانس لینے لگا تھا۔
حجاب اس پرتشدد منظر کی تاب نہ لاتے ہوئے ڈگمگاتے قدموں سے پلٹ کر واپس کمرے میں چلی گئی تھی ۔ وہاں موجود دیگر افراد حکم داد کے خستہ حال وجود کے گرد گھیرا ڈال کر کھڑے تھے ۔ سجے نے کندھے سے رائفل اتارتے ہوئے حکم داد کے سینے کی طرف سیدھی کی تو مرشد نے فورا رائفل کی نال تھام کر اوپر کی طرف اٹھا دی۔
” نہیں سجے ! یوں نہیں…. اس نے اپنے ناپاک ہاتھوں سے سرکار کو چھونے کی جرات کی ہے ۔ ان پر حملہ کیا ہے ، تم مداخلت نہیں کرو یہ اتنی آسان موت کا حقدار نہیں ہے ۔”
“ تو کیا کرو گے اس کے ساتھ ؟ "اس کے سوال پر مرشد نے بغلی دیوار کی طرف دیکھا جہاں دو چہرے موجود تھے ۔
” اس طرف کیا ہے ؟ "
” چھوٹا سا مکان ہے۔ اپنے تین چار سجن ہیں اور بس ” سجے نے نہ سمجھنے والے انداز میں کہا۔
” کوئی فیملی…. عورت یا بچہ ؟ ”
” نہیں…. کیوں؟ ” مرشد نے اس کی کیوں کے جواب میں جھک کر حکم داد کے ٹوٹے پھوٹے وجود کو اٹھایا اور ایک جھٹکے سے کندھے پر لاد لیا ۔ اس کے بعد وہ آگے بڑھ کر دیوار کے قریب پہنچا جس کی اونچائی قریباً پانچ فٹ تھی۔ دوسرے ہی لمحے وہ حکم داد کے بھاری وجود کو کسی بے جان بوری کی طرح دیوار کی دوسری سمت اچھال چکا تھا۔ ایک ”دھپ“ کی آواز آئی اور ساتھ ہی حکم داد کی اذیت بھری کراہیں سنائی دیں۔
سجا بلوچ اور اس کے دیوار پار کے ساتھیوں کے علاوہ بشارت اور ٹیپو بھی خاموشی سے مرشد کی طرف دیکھ رہے تھے جس کے پر حدت چہرے پر چٹانوں کی سی سختی چھائی ہوئی تھی۔ اس نے پلٹ کر خنجر کی طرف دیکھا ۔
” خنجر! اس دروازے کے سامنے سے ہٹنا نہیں۔ ” اسکا اشارہ اس کمرے کی طرف تھا جہاں حجاب موجود تھی۔
” بے فکر رہو جگر! میں یہاں جم کے کھڑا ہوں۔ ” اس نے مستعدی سے کہا ۔ مرشد سجے کی طرف متوجہ ہوا۔ ” میں ذرا اس گینڈے کی شکل والے سور کا حساب چکتا کر لوں، بعد میں پتا نہیں موقع ملے یا نہیں۔ "
اس نے سجے کے جواب کا انتظار کئے بغیر دیوار کی طرف رخ کیا اور پھر دیوار کے اوپر ہاتھ جماتے ہوئے اچھل کر برابر والے صحن میں جا اترا۔ حکم داد دیوار کے ساتھ ہی نیچے پڑا کراہ رہا تھا۔ یہ بھی ایک چھوٹا سا مکان تھا ۔ مختصر سے صحن اور مختصر سے برآمدے میں برابر برابر دو کمرے ۔
” اس کے لیے پانی کا انتظام کرو ” اس نے حکم داد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہاں موجود دونوں افراد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور خود حکم داد کو ٹانگ سے پکڑ کر بے رحمی سے گھسیٹتا ہوا اندر ایک کمرے میں لے گیا ۔ دس بائی بارہ کے اس کمرے میں بان کی دو چارپائیوں کے علاوہ ایک بستروں والی لوہے کی پیٹی تھی اور ایک پانچ فٹ اونچا لوہے کی چادر کا گندم والا ڈرم مرشد نے حکم داد کو کمرے کے وسط میں لا ڈالا اور ایک ٹھوکر اسکی پسلیوں میں رسید کی۔ پہلے تو وہ تکلیف سے کراہا پھر خون تھوکتے ہوئے گالیاں بکنے لگا۔ مرشد دو قدم پیچھے ہٹ کر اطمینان سے چارپائی پر بیٹھ گیا ۔ چند ہی لمحوں بعد پانی کا جگ آ گیا ۔ لانے والا جعفر تھا۔ اس کے کندھے کے ساتھ سیون ایم ایم رائفل لٹک رہی تھی۔
” پلاو�¿ اس سور کو، اس کے حواس ذرا درست ہوں۔ ” اس کے اندر داخل ہوتے ہی مرشد نے کہا۔جعفر، حکم داد کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔
” حواس تو استاد تم نے ٹکا کے درست کر دئے ہیں طبیعت بنا دی اس کی تو۔ "
” نہیں، ابھی نہیں یہ تو صرف ٹریلر تھا، اصل فلم ابھی باقی ہے۔ ” مرشد نے انگلی کی مدد سے پیشانی کا پسینہ پونچھا ۔ جعفر نے بیٹھ کر حکم داد کے سر کے نیچے ہاتھ ڈال کر اسے پانی پلانے کیلئے اس کا سر ذرا سا اٹھایا تو حکم داد نے اس کے منہ پر تھوک دیا اور ساتھ ہی اسے ذرا سا دھکا دیا۔ جعفر نے کہنی عقب میں ٹکاتے ہوئے خود کو گرنے سے بچایا اور بھنا کر جگ اس کے چہرے پر الٹ دیا۔
” ک�±تے کا پِلّا…. ک�±تے کی د�±م سے زیادہ ڈھیٹ ہے۔” اس نے بازو کی مدد سے چہرہ صاف کیا ۔ ” اس حرامی کو پانی شانی کی ضرورت نہیں ہے ا�±ستاد ! موتر پلانا چاہئے اسے ۔” جعفر قہر بار نظروں سے اسے گھورتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
” خارش زدہ ک�±توں کی موت مرو گے تم سب ” حکم داد نے پہلو کے بَل ہوتے ہوئے پہلے کچے فرش پر خون تھوکا، پھر اسی حالت میں پڑے پڑے مرشد کی طرف دیکھ کر بولا۔ ” جتنا بھاگنا تھا، بھاگ لیا تم گیدڑوں نے۔ اب…. اب یہیں تم سب کی لاشوں پر ک�±تے چھوڑے جاویں گے اور اس شاہنی سے ،چوہدری صیب تم سب کی لاشوں پر مجرا کروائیں گے۔ ” جملہ مکمل ہوا ہی تھا کہ جعفر کا ٹ�±ھڈا اس کے تھوبڑے پر پڑا۔ مرشد نے ایک جھٹکے سے دوبارہ ا�±ٹھتے ہوئے جعفر کو بازو سے پکڑ کر ایک طرف ہٹایا اور آگے بڑھ کر حکم داد کی گردن پر پاو�¿ں رکھ دیا۔
” سرکار کے متعلق جس نے بھی برا سوچا یا بولا وہ سمجھو غارت ہو گیا ۔”اس کے حلق سے ایک سفاک غراہٹ بلند ہوئی اگلے ہی پَل اس نے جھکتے ہوئے پنڈلی کے ساتھ بندھے نیام سے خنجر کھینچا اور حکم داد کا بایاں بازو تھامتے ہوئے خنجر انتہائی بے دردی سے اسکی بغل میں گھونپ دیا ۔ خنجر گوشت میں گھسا اور حکم داد کے کندھے کی ہڈی کے ساتھ ٹکر کھا کر، ہڈی کے عقب سے گوشت چیرتا ہوا کندھے کے اوپر نکل آیا۔
خنجر اور ہڈی کے ٹکراو�¿ کا جھٹکا مرشد کی پوری کلائی نے محسوس کیا ۔ حکم داد کرب ناک انداز میں چیخا تھا۔ گھاو�¿ سے ابل پڑنے والا اس کا گرم گرم لہو مرشد کی انگلیاں بھگو گیا ۔ اس نے ایک جھٹکے سے خنجر کھینچا اور حکم داد کے حلق سے ایک اور دلدوز چیخ نکل گئی ۔ وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپ اٹھا مرشد نے پیچھے ہٹ کر ایک چارپائی کی پائنتی سے کھیس اٹھا کر پہلے اپنا خون آلود ہاتھ صاف کیا اور پھر خنجر کا دستہ۔ حکم داد نے دوسرے ہاتھ کی مدد سے کندھے کا گھاو�¿ دبوچ لیا تھا۔ اس نے شدت سے جبڑے بھینچ رکھے تھے پھر بھی اس کے منہ سے وحشت خیز کراہیں خارج ہو رہی تھیں۔
” کیوں پھر سواد آ رہا ہے نا ؟ ” مرشد اس کی طرف دیکھتے ہوئے پرسکون انداز میں بولا ۔ اس کے چہرے پر عجیب سا اطمینان تھا ۔ وہ آگے بڑھ کر حکم داد کے قریب گ�±ھٹنا ٹیک کر بیٹھ گیا۔
” ہاں تو چوہدریکے پیارے! تو نے کبھی سوچا تھا کہ تیرا اپنا انجام کتنا رنگین، کتنا شاندار ہو گا تیرے بھیانک، سیاہ کرتوت کب اور کس طرح تیرے سامنے آئیں گےکبھی سوچا تھا ؟ خیال آیا تھا تجھے ؟ ” حکم داد خاموش رہا۔ اس کے چہرے کا بایاں حصہ، ٹھوڑی، گلا اور جسم کا بایاں حصہ کولہے تک خون سے سرخ ہو رہا تھا۔ وہ پسینے میں شرابور تھا۔ چہرے پر ضبط کی انتہائیں ابھری ہوئی تھیں تو بائیں بازو پر مسلسل ایک خفیف سی لرزش طاری تھی البتہ اس کی اکلوتی آنکھ میں کرب و اذیت کے ساتھ ساتھ نفرت کے شعلے بھی دہک رہے تھے۔ مرشد چند لمحے اسکی اکلوتی آنکھ میں جھانکتا رہا پھر خنجر کی نوک سے اسکی بھنو کو سہلاتے ہوئے بولا۔
” کیسی سور کی آنکھ جیسی آنکھ ہے تیری ایک ذرا بھی انسانی رمق محسوس نہیں ہوتی اس میں… بہت بری بات ہے…. بہت ہی زیادہ۔ ”
یکایک حکم داد ایسے دل فگار انداز میں چیخا اور پھڑکا کہ دو تین قدم پیچھے کھڑا جعفر بھی بے اختیار جھرجھری لے کر رہ گیا۔ اس کے پورے وجود میں برقی رو کی طرح ایک سرد لہر دوڑ گئی تھی۔ دراصل مرشد نے بالکل اچانک ہی خنجر کی نوک حکم داد کی آنکھ میں چبھوئی تھی ۔ تیز دھار نوک آنکھ کے پپوٹے میں
سے گزرتی ہوئی آنکھ کے ڈیلے کو چیر گئی تھی۔ حکم داد چیختا ہوا ایڑیوں کے زور پر دو تین فٹ اپنے سر کی طرف سرک گیا۔ ہاتھ کندھے سے ہٹ کر آنکھ پر آ جما ۔ وہ تڑپ رہا تھا، چیخ رہا تھا اور اپنا سر کچے فرش سے ٹکرا رہا تھا۔ اکلوتی آنکھ میں ایک چھوٹا اور معمولی سا سوراخ ہو گیا تھا ۔ اس سوراخ سے بہنے والا خون اس کے گال اور وَرَم زدہ ہونٹوں کو بھگوتا ہوا منہ سے رِسنے والے خون میں گ�±ھلنے لگا تھا۔ اس کے اردگرد کا فرش بھی رنگین ہو رہا تھا۔مرشد اٹھ کر پیچھے ہٹ گیا۔ اس کا چہرہ سپاٹ تھا اور آنکھوں میں چٹانوں سی سرد سفاکی
” او گینڈے کی شکل والے سور ! ” مرشد نے حکم داد کو مخاطب کیا ۔ ” حوصلہ رکھ ابھی مرے گا نہیں تو کیا زنانیوں کی طرح بَین ڈال رہا ہے مرد بن جوان بن تھوڑا۔ "حکم داد کو شاید سنائی ہی نہیں دیا، وہ کمر سے پیٹ کے بل ہو چکا تھا۔ بایاں بازو بے جان سے انداز میں فرش پر گرا پڑا تھا اور دائیں ہاتھ سے وہ آنکھ دبوچے بری طرح اپنی ٹانگیں جھٹک رہا تھا ۔ دیکھنے میں یہی لگتا تھا کہ اس پر نزع کا عالم طاری ہے۔
” چل جعفر! آ جا اس بھڑوے کو بھیروی الاپنے دے۔ ” مرشد نے خنجر واپس نیام میں ڈالتے ہوئے جعفر کو مخاطب کیا اور ایک نفرت کی نگاہ حکم داد پر ڈالتا ہوا پلٹ کر کمرے سے باہر نکل گیا ۔ دل میں اس خیال کے ساتھ ہی ٹھنڈک سی پھیل گئی تھی کہ حجاب سرکار کے بدترین دشمنوں میں سے ایک اور بدترین دشمن اندھا ہو کر تڑپ رہا ہے اور آج کل ہی میں اس کی یہ تڑپ موت کے سکون میں بدلنے والی ہے۔
کمرے سے نکل کر وہ دونوں مکانوں کی درمیانی دیوار تک پہنچا، ارادہ تھا کہ دیوار پھلانگ کر واپس پہلے والے مکان میں پہنچے اور جا کر حجاب سرکار کی خیریت معلوم کرے لیکن حجاب کا خیال آتے ہی وہ ٹھٹھک کر رک گیا ۔ اس کے دونوں ہاتھ دیوار پر تھے۔ ساتھ والے صحن کا منظر آنکھوں کے سامنے تھا۔ صحن میں پڑی چارپائی پر ٹیپو اور بشارت بیٹھے تھے ۔ ک�±تے کو بکریوں کے قریب ایک کھونٹے سے باندھ دیا گیا تھا۔ خنجر، رائفل سنبھالے، برآمدے میں حجاب والے کمرے کے دروازے پر کھڑا تھا۔ مرشد کی آنکھوں میں کچھ دیر پہلے کا منظر لہرا گیا۔ حجاب کا دوپٹہ برآمدے کے فرش پر پڑا تھا اور وہ خود دہشت زدہ سی دیوار کے ساتھ لگی کھڑی تھی ۔ اس کی سماعت میں خنجر کے الفاظ گونجے ۔
” حجاب سرکار تمہارے بارے میں پوچھ رہی تھیں۔ اس خنزیر نے جھپٹ کر انہیں گردن سے دبوچ کر نیچے گرا دیا گردن سے دبوچ کر نیچے گرا دیا گردن سے دبوچ کر گردن گردن گردن”
اس کے تصور میں حجاب سرکار کی نرم و نازک گردن اور گلا آ چمکا اور حکم داد نے اس گردن کو چھوا تھا …. اس گلے کو دبایا تھا ….. یکایک اس کے رگ و پے میں ایک لاوا سا دہک اٹھا۔ دماغ سنسنا کر رہ گیا تھا۔ وہ وہیں سے پلٹا تو عقب میں جعفر موجود تھا ۔
” کیا بات ہے استاد! کیا ہوا؟ "جعفر نے پوچھا تھا ۔
” کچھ نہیں… تم پہنچو ادھر… میں آتا ہوں ۔” وہ سپاٹ انداز میں کہتے ہوئے اس کے برابر سے گزر کر آگے بڑھ گیا۔ جعفر نے گردن گھما کر ایک نظر اسے دیکھا پھر دیوار پھلانگتے ہوئے دوسری طرف کود گیا۔
مرشد دروازے کی زنجیر ہٹا کر کمرے میں داخل ہوا – حکم داد اسی جگہ پڑا درد کے مارے کراہ رہا تھا۔ اس کے اردگرد کچے فرش پر خون پھیلا ہوا تھا ۔ مرشد نے آگے بڑھ کر پہلے اس کے کولہے پر ٹھوکر رسید کی اور پھر اس کی بائیں کلائی پر پاو�¿ں رکھ کر کھڑا ہو گیا۔
”تجھے اتنی بڑی گستاخی نہیں کرنی چاہئے تھی حکم داد ! … تو بڑا بدبخت ہے… بہت بڑا بدبخت !”اس نے نیچے بیٹھتے ہوئے نیام سے خنجر کھینچا ۔ حکم داد کو جیسے اندازہ ہو گیا تھا۔ اس نے گردن موڑ کر مرشد کی طرف دیکھنے کی اضطراری کوشش کی، اتنے میں مرشد نے بے رحمی سے وار کیا۔ خنجر اس کے ہاتھ کے قریب ،اس کی موٹی سیاہ کلائی کو چیرتا ہوا دوسری طرف سے کچے فرش میں اتر گیا ۔ حکم داد کے حلق سے فلک شگاف چیخ بلند ہوئی ۔ وہ بری طرح تڑپا
تو مرشد نے بائیں ہاتھ سے اس کی کلائی دبوچتے ہوئے خنجر کو افقی رخ حرکت دی ، خنجر کی بلیڈ جیسی تیز دھار نے حکم داد کی آدھی کلائی صابن کی طرح کاٹ کر رکھ دی۔ خون فوارے کی طرح چھوٹا تھا ۔ وہ درندے کی طرح چیختا غراتا ہوا تڑپا۔ شدید وحشت و اضطرار میں اس نے مرشد پر ٹانگوں سے وار کیا تھا۔ اس کے گھٹنے کی ضرب مرشد کی کمر میں لگی تو اس کا توازن بگڑ گیا ۔ حکم داد تڑپ کر اس کی گرفت سے نکلا اور پلک جھپکنے کی دیر میں اٹھ کر بیرونی دروازے کی طرف دوڑا لیکن دوسرے ہی قدم پر چارپائی سے ٹھوکر کھاتا ہوا دھڑام سے منہ کے بل گر پڑا۔ اگلے ہی پل وہ پھر اٹھا لیکن اس بار کمر میں مرشد کی لات کھا کر ڈکراتا ہوا دوبارہ منہ کے بل جا پڑا۔ مرشد کے سر پر تو جیسے خون سوار ہو چکا تھا۔ اس نے حکم داد کو ٹھوکروں پر رکھ لیا۔ آدھی کلائی کٹ جانے کے باعث اس کا ہاتھ بڑے بھیانک انداز میں اس کی کلائی کے ساتھ لٹک رہا تھا اور کٹی ہوئی رگوں سے دھاروں کی صورت خارج ہونے والا لہو کمرے کے فرش اور حکم داد کے ساتھ ساتھ مرشد کے کپڑوں پر بھی گلکاریاں چھوڑ رہا تھا ۔ حکم داد کے حلق سے کرب ناک آوازوں کے ساتھ ساتھ گالیاں بھی خارج ہو رہی تھیں ۔ چیختے، تڑپتے اور گالیاں دیتے ہوئے وہ مرشد کو عبرت ناک انجام کی دھمکیاں بھی دے رہا تھا لیکن مرشد کو جیسے کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا ۔ اس کی سماعت جیسے پتھرا چکی تھی۔ ایک منظر اس کے پردہ تصور پر ثبت ہو کر رہ گیا تھا، اس منظر میں حجاب پشت کے بَل زمین پر پڑی تھی اور حکم داد اپنے مکروہ ہاتھوں سے اس معصوم کی گردن دبوچے اپنے غلیظ بوجھ سمیت اس پر سوار تھا۔
مرشد کی بے رحم ٹھوکروں نے کچھ ہی دیر میں حکم داد کو ایک بار پھر ادھ موا کر چھوڑا۔ اس کا تڑپنا پھڑکنا ایک ذرا سست پڑا تو مرشد نے اس کی موٹی گردن پر پاو�¿ں رکھتے ہوئے خون میں لت پت اس کا ادھ کٹا ہاتھ دبوچا اور انتہائی بے رحمی اور سفاکی سے خنجر کا وار کرتے ہوئے کلائی اور ہاتھ کا بقیہ آدھا ادھورا تعلق بھی کاٹ ڈالا ہاتھ کے کلائی سے جدا ہوتے ہی خون کا فوارہ سا پھوٹا اور مرشد کا چہرہ رنگین کر گیا ۔ مرشد نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، مزید کچھ ہی دیر بعد وہ حکم داد کا دوسرا ہاتھ بھی اس کی کلائی سے کاٹ کر علیحدہ کر چکا تھا ۔ اس کے بعد وہ حکم داد کو تڑپتے کرلاتے چھوڑ کر اس کے دونوں ہاتھ اٹھا کر کمرے سے باہر نکل گیا ۔ پھر جب وہ دیوار پھلانگ کر دوسرے صحن میں پہنچا تو ٹیپو اور بشارت اسے دیکھتے ہی بے اختیار چارپائی سے اٹھ کھڑے ہوئے !
اس کی ہئیت کذائی ہی کچھ ایسی تھی کہ اسے دیکھ کر کسی کا بھی پِتا پانی ہو کر رہ جاتا ۔ چہرے پر چٹانوں کی سی سختی، داڑھی مونچھوں کے ساتھ ساتھ چہرہ بھی خون آلود تھا تو سیاہ قمیض اور سفید دھوتی پر بھی جابجا خون کے دھبے اور نقش و نگار تھے۔ پاو�¿ں بھی خون آلود تھے اور ہاتھ بھی خون میں تر بتر… اور تو اور ایک ہاتھ میں خون آلود خنجر تھا اور دوسرے میں حکم داد کے کٹے ہوئے ہاتھ… چارپائی کے قریب کھڑے بشارت اور ٹیپو اپنی اپنی جگہ پتھرا کر رہ گئے۔ تھوڑے فاصلے پر برآمدے میں کھڑے خنجر کی حالت بھی ان سے مختلف نہ تھی۔ ان تینوں کے علاوہ صحن میں اور کوئی موجود نہیں تھا۔ جعفر شاید اوپر چھت پر سجے لوگوں کے پاس چلا گیا تھا ۔
وہ تینوں اب سے کچھ دیر پہلے تک حکم داد کی کلیجہ لرزا دینے والی چیخیں تو سنتے رہے تھے، اب مرشد پر نظر پڑتے ہی ان چیخوں کا وحشیانہ اور سفاک پسِ منظر بھی خودبخود ان پر واضح ہو آیا تھا۔ ٹیپو تو باقاعدہ جھرجھری لیکر رہ گیا تھا۔
مرشد ان میں سے کسی کی طرف بھی توجہ دئے بغیر صحن کے کونے کی طرف بڑھ گیا ۔ جہاں بکریوں کے ساتھ ساتھ کتا بھی بندھا ہوا تھا جو مرشد کو دیکھتے ہوئے ایک بار پھر بھونکنے لگا تھا ۔ اس بار اس کے بھونکنے میں وحشت کے ساتھ ساتھ ایک طرح کا ہراس بھی واضح طور پر محسوس ہو رہا تھا شاید مرشد کی ہئیت اسکے اعصاب پر بھی اثر انداز ہوئی تھی یا پھر یہ انسانی خون کی بو کا اثر تھا مرشد نے حکم داد کے خون آلود ہاتھ اس کے سامنے پھینکے اور خود ہاتھ دھونے نلکے کی طرف بڑھ گیا ۔
” بشارت بھائی ! ” ٹیپو یک ٹک مرشد کی طرف دیکھتے ہوئے زیرِ لب سرگوشی کے انداز میں بولا۔ ” یہ بندہ انسان نہیں، کوئی وحشی درندہ ہے۔ ”
جواب میں بشارت نے اسے صرف ایک نظر گھورنے پر اکتفا کیا ۔ پانچ سات منٹ بعد مرشد سر کے گیلے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا ان کی طرف آیا تو اس کے چہرے کے تاثرات قدرے بہتر تھے ۔ خون تو اس نے دھو لیا تھا البتہ کپڑوں، خصوصاً دھوتی پر دھبے موجود تھے لیکن اب وہ کم ازکم نارمل انسان دِکھنے لگا تھا۔
” مر گیا؟ ” مرشد کے قریب آنے پر بشارت متفسر ہوا ۔ ظاہر ہے اس کا یہ استفسار حکم داد کے متعلق ہی تھا ۔
” نہیں.. ابھی زندہ ہے سور کا بچہ… بڑا موٹا چَم ہے۔ ابھی وقت لے گا مرنے میں۔ ” مرشد نے اسے جواب دیتے ہوئے خنجر کو اشارہ کیا تو وہ لپک کر قریب پہنچ آیا ۔
” سرکار کو کوئی چوٹ تو نہیں آئی ؟ ”
” میرا خیال ہے کہ نہیں۔“ وہ بشارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید بولا۔“ ہم دونوں قریب ہی موجود تھے۔ سرکار کے گرتے ہی ہم نے حکم داد کو گھسیٹ لیا تھا ۔” مرشد نے بشارت کی طرف دیکھتے ہوئے دوستانہ انداز میں اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
” شکریہ دوست ! مرشد تمہارا مقروض ہوا، زندگی رہی تو تمہارا یہ قرض اتارنے کی کوشش کروں گا۔ ”
” کون سا قرض ؟ "
” تم نے سرکار کی مدد کی۔ یہ تمہارا مجھ پر احسان ہے اور میں احسان کو قرض ہی مانتا ہوں۔ ”
” وہ سیّد سرکار ہیں تو یہ احسان تم پر نہیں، اپنے آپ پر کیا ہے میں نے… اور ویسے… اگر وہ سید سرکار نہ بھی ہوتیں تو ان کا عورت ذات ہونا ہی کافی تھا۔ تب بھی میں بلاجھجک حکم داد سے بِھڑ جاتا۔ میرا ردِ عمل یہی رہتا چاہے سامنے کوئی رستمِ زماں ہی کیوں نہ ہوتا ۔”بشارت نے سپاٹ انداز میں کہا ۔اسی لمحے بغلی کمرے کی طرف سے جعفر نمودار ہوا تو سب اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی ۔
” مرشد استاد ! ہم لوگوں کو یہاں سے روانہ ہونا پڑے گا۔ ” وہ قریب پہنچ کر مرشد کی رائفل اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا ۔
” کیسے اور کدھر سے ؟ ”
”ابھی ابھی دو تین گاڑیاں واپس ہوئی ہیں ۔ سجے کا کہنا ہے کہ اب پولیس کی نفری ہمیں عقبی طرف سے گھیرنے کی کوشش کرے گی ۔ اس سے پہلے ہی ہمیں بند کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے ادھر سے نکل جانا چاہئے ۔ اگر گھیرے میں آ گئے تو پھر صورتحال بڑی خراب ہو جاوے گی۔”
” اس چار دیواری سے نکلتے ہی نظروں میں آ جائیں گے، اتنی نفری ہے۔ آگے کہاں جانے دیں گے یہ ہمیں ؟ "خنجر فورا پریشانی سے بولا ۔
” نہیں.. ہم ان مکانوں کی اوٹ میں سفر کریں گے ۔ جب تک نظروں میں آئیں گے، کافی آگے نکل چکے ہوں گے۔ "
” یہ خطرناک ہو گا وہ لوگ بند کی اونچائی پر ہیں، جلد دیکھ لیں گے ہمیں ۔” ٹیپو کے لہجے میں بھی فکرمندی اور اندیشے تھے ۔
” جدھر یہ لوگ موجود ہیں ا�±دھر سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکیں گے وہ۔ سجے کے کچھ ساتھی یہیں رہ کر ان کا راستہ روکے رکھیں گے اور ہمیں دور نکل جانے کا موقع مل جاوے گا۔ ”
مرشد کچھ سوچتے ہوئے بولا۔ ” کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم رات تک یہیں رکیں اور رات کے اندھیرے میں کسی طرح دریا پار کرنے کی کوشش کریں؟ ”
” نہیں استاد.. دریا پار کرنے کا یہاں کوئی انتظام نہیں ہے اور ویسے بھی اس طرف پولیس والوں کا دھیان ہووے گا۔ ہم. نے ایسی کوئی کوشش کی تو آسانی سے ان کا شکار بن جاویں گے ۔” وہ کھڑے آپس میں صلاح مشورے کر رہے تھے کہ سجا بلوچ بھی اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ پہنچ گیا۔ وہ چاروں مسلح تھے۔ اس کے دو ساتھی فوراً دیوار پھلانگ کر دوسرے صحن میں کود گئے اور سجا ان کے قریب آ رکا ۔
” وہ بی بی جی کدھر ہیں؟ انہیں ساتھ لو اور نکلنے کی کرو اب۔ "وہ جعفر اور مرشد کی طرف باری باری دیکھتے ہوئے بولا تو بشارت نے اسے مخاطب کیا۔
” یوں آگے ہم کہاں تک جا سکیں گے ؟ ادھر سے بھی ملتان پولیس راستہ آ روکے گی۔ ”
” کوئی مسئلہ نہیں، تب صرف ایک طرف لڑنا پڑے گا۔ یہاں رہے تو تین طرف سے گھیرے جائیں گے اور چوتھی طرف ویسے ہی دریا ہے اور پھر ادھر سے پ�±ل قریب ہونے کے باعث دریا کے دونوں طرف بند ہے، چند کلومیٹر پیچھے ہٹ کر کھلے علاقے سے دریا پار کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔ ان حرامیوں کی فائرنگ رینج سے باہر ہوں گے تب۔ ” چند لمحوں کیلئے سب متذبذب سے ہو کر خاموش ہو رہے۔ اسی جگہ رکے رہنا یا سجے کی رائے کے مطابق یہاں سے روانہ ہو جانا دونوں ہی پہلو ان سب کیلئے غیر تسلی بخش تھے ۔ دونوں صورتوں میں سنگین خطرات موجود تھے۔ان کو ایک دوسرے کی طرف دیکھتے پا کر سجا لاپرواہی سے بولا۔
” اگر تم سب لوگ یہیں رکنا چاہو تو بھی مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ میں یہاں بھی تم سب کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر لڑوں گا…. اپنی آخری سانس تک۔“
” نہیں سجے! ” مرشد فیصلہ کن انداز میں گویا ہوا۔ ” تمہارا فیصلہ درست ہے۔ ہمیں یہاں سے نکلنا چاہیے۔”
” ہاں! جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ ” جعفر نے فوراً سے تائید کی تو بشارت بھی کندھے اچکاتے ہوئے بولا۔
” ٹھیک ہے…. جیسے تم کہو ، ہم ساتھ ہیں۔ "
” چلو پھر نکلتے ہیں۔ ” سجے نے کہا اور اپنے ساتھی سے مخاطب ہوا۔
” چل خانو! تو پھر پہنچ ادھر لیکن احتیاط سے۔ "
” ٹھیک ہے۔” خانو فوراً بند کی طرف موجود بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا، شاید سجے نے اسے بند کی دوسری طرف موجود اپنے ساتھیوں تک پہنچنے کا کہا تھا ۔ خود سجا برآمدے کی طرف بڑھا۔ اس نے ” تایا ” کہہ کر آواز بھی لگائی تھی۔ شاید اندر موجود بوڑھے کو پکارا تھا اس نے، مرشد بھی کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔ سجے نے بوڑھے سے بات چیت کی، تین چار سالہ بچے کو گود میں اٹھا کر پیار کیا اور مرشد نے حجاب کو یہاں سے روانہ ہونے کے پروگرام کے متعلق بتایا ۔مصری اور اس کا جمورا تاجل دونوں ،دیوار کے ساتھ اسی جگہ پیروں کے بَل بیٹھے تھے ۔ بشارت نے دروازے میں سے مصری کو باہر آنے کا کہا تو وہ ناگواری سے زیرِ لب کچھ بڑبڑاتا ہوا اٹھ کر باہر نکل گیا۔
پانچ منٹ بعد وہ سبھی یہاں سے نکلنے کیلئے صحن میں تیار کھڑے تھے۔ دن خاصا چڑھ گیا تھا لیکن آسمان پر چھائے گدلے بادلوں کی وجہ سے دھوپ کے کہیں کوئی آثار نہیں تھے۔ ہوا کے ہلکے جھونکے ایک خوشگوار احساس دلاتے تھے۔ سجے نے اپنے ساتھیوں سے بغل گیر ہوتے ہوئے انہیں کچھ ہدایات دیں۔ کمرے میں بند دونوں پولیس والوں کے متعلق بتایا سمجھایا، یہاں سے اس کے ساتھ صرف اس کے دو ساتھی روانہ ہو رہے تھے۔ حجاب، مصری اور تاجل کے علاوہ وہ سبھی مسلح تھے۔ سجے کے دونوں ساتھیوں کے کندھوں کے ساتھ گولیوں والے مخصوص بیگ بھی جھول رہے تھے۔
سب سے پہلے وہ دونوں اور سجا ہی دیوار پھلانگ کر دوسری طرف کودے۔ ان کے بعد جعفر اور ٹیپو نے دیوار پھلانگی تو بشارت، مصری اور تاجل کی
طرف متوجہ ہوا۔
” تم دونوں بھی چلو”.. اس کے مخاطب کرنے پر مصری نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
” ایسو کیسو چلاﺅو ؟… میرو سو اس عمر مائیں دیواراں ناہی پھلانگی جانوے گی، میرو لیو کچھ اور انتجام کرو۔”
” تمہارے لئے اب کیا اڑن کھٹولا منگواو�¿ں ؟” بشارت نے بدمزگی سے کہا۔
” منگوائی سکتوہو تو منگوائی لو…. یہ دیواراں تو ناہی پھلانگ سکوں مائیں "..مصری نے ایک شانِ بے نیازی سے کہا اور لاپرواہی سے آگے بڑھ کر چارپائی پر بیٹھ گیا ۔ مرشد اور خنجر برابر برابر کھڑے تھے اور حجاب سیاہ چادر لپیٹے مرشد کے عقب میں.. بشارت کچھ مزید بدمزگی کا شکار ہوا ۔
” دیکھو مصری! ایسے خوامخواہ پکاو�¿ مت.. مجھے پتا ہے تم کتنے نازک جان ہو، وقت برباد مت کرو اور اٹھ کر چل پڑو، اگر پولیس والے پہنچ آئے تو گولیوں سے چھلنی کر ماریں گے تمہیں”..
” کیوں کر ماریں گو چھولنی؟ مائیں نوان کی کھوتی کو ناہی چھیڑو تم لوگاں اپنو ساتھ میرو کو بھی جلیل کروا رہو ہو۔ اپنو ساتھ میرو کو بھی چھولنی کروانا چاہو ہو ، ناہی کرو.. میرو کو جلیل ناہی کرو،مائیں ابھی مرنا ناہی چاہوں ہوں۔ میرو کو معاپھ کر دیو۔ یہ دیکھومائیں ہاتھ جوڑوں ہوں ۔”مصری نے سخت بیزاری سے ہاتھ جوڑتے ہوئے اپنے ماتھے کے ساتھ لگائے..
” پہلو ہی تم میرو اتنا نقشان کر چکو ہو میرو ساریوجمع پونجی برباد کر دیو ہو اب تو میرو کو بَکش دیو "..
” تمہاری ساری جمع پونجی ملک منصب کے پاس حویلی میں پہنچ چکی ہے۔ تمہیں بھی ہم وہیں لے کر جا رہے ہیں۔ ارباب صاحب کی باتیں یاد ہیں یا نہیں؟ ملک منصب کا حکم ہے کہ تمہیں بھی صحیح سلامت ان کے پاس حویلی پہنچایا جائے اور تم ہو کہ بے وجہ نخرے دکھا رہے ہو۔ سوچ سمجھ لو! "
ملک منصب کے ذکر پر مصری کے جھلسے ہوئے چہرے پر تاریک سایہ سا لہرایا۔ اس نے انتہائی زہر ناک نظروں سے بشارت کی طرف گھورا لیکن کچھ کہنے کی بجائے خاموشی سے اٹھ کر دیوار کی طرف بڑھ گیا۔ ان سبھی نے دیکھا کہ وہ بنا دشواری کے، باآسانی دیوار پھلانگتے ہوئے دوسری طرف کود گیا تھا مرشد اور خنجر دونوں کے چہروں پر زیرِ لب ہلکی سی مسکراہٹ موجود تھی، پھر مرشد کے اشارے پر خنجر بھی تاجل اور بشارت کے ساتھ دیوار کی طرف بڑھ گیا تو مرشد پلٹتے ہوئے حجاب کی طرف متوجہ ہوا۔
” آئیں سرکار! ” لیکن اس نے جیسے مرشد کی آواز سنی ہی نہیں تھی، وہ پتھر کے بت کی طرح اپنی جگہ ساکت کھڑی رہی تو مرشد نے نظر اٹھا کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا، اس نے چادر سے نقاب کر رکھا تھا اور ان لمحوں اس کا دھیان کہیں اور تھا۔ مرشد نے اس کی نگاہوں کا تعاقب کیا ۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے صحن کے مشرقی کونے کی طرف دیکھ رہی تھی جہاں چند بکریوں کے ساتھ ایک کھونٹے سے کتا بھی بندھا ہوا تھا اور اس وقت وہ حکم داد کا خون آلود ہاتھ اپنے ایک پاو�¿ں کے نیچے تلے دبائے ،اسے بھنبھوڑنے میں مگن تھا۔ اس کی تھوتھنی بھی خون آلود ہو رہی تھی۔
مرشد اپنی جگہ سے ہٹتے ہوئے حجاب کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ مقصد تھا اس منظر اور حجاب کی بصارت کے درمیان رکاوٹ بننا ۔
” سرکار!!! ” حجاب کی نظر خودبخود اس نظر سوز نظارے سے ہٹ کر مرشد کے چہرے پر آ ٹکی۔
” وہ…. وہ……” وہ کچھ بھی نہیں کہہ پائی۔
” کچھ بھی نہیں سرکار… کچھ بھی نہیں ہے۔، ہمیں یہاں سے نکلنا ہے … آئیے ! ” مرشد نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے ملائمت سے کہا ۔ اس کے چہرے پر ایک نرم سی مسکراہٹ تھی.. تسلی دیتی ہوئی.. حوصلہ بندھاتی ہوئی…
” آئیے ! "اس نے ہاتھ کے اشارے سے دیوار کی طرف اشارہ کیا۔ حجاب رخ بدلتے ہوئے دیوار کی طرف بڑھ تو گئی لیکن نظریں جیسے ازخود اس منظر کی طرف کھنچ رہی تھیں جو ابھی چند لمحے پہلے اس نے دیکھا تھا ۔ کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں تھی اس نے صاف اور واضح طور پر کتے کے سامنے دو انسانی ہاتھ پڑے دیکھے تھے۔ خون میں لتھڑے ہوئے بھاری اور صحت مند ہاتھ…. اندر کمرے میں بیٹھے ہوئے حکم داد کی کرب ناک چیخیں اس کی سماعت تک پہنچتی رہیں تھیں اور اب اس کتے کے سامنے پڑے وہ دو انسانی ہاتھ جیسے چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے, یہ اعلان کر رہے تھے کہ حکم داد کے ساتھ کیا عبرت ناک سلوک کیا گیا ہے اور اس وقت اس کی حالت کتنی دردناک اور قابلِ رحم ہو گی..
دیوار کے قریب مرشد گھٹنا زمین پر ٹیک کر بیٹھتے ہوئے حجاب سے مخاطب ہوا :
” سرکار! میری پیٹھ پر پاو�¿ں رکھ کر دیوار پر چڑھ جائیں۔” حجاب الٹا ایک قدم پیچھے ہٹ گئی۔
” نہیں…. میں ایسی بدتمیزی نہیں کر سکتی۔ "
” تو کیا ایسے دیوار پھلانگ پائیں گی آپ ؟ "
” آپ… آپ وہ چارپائی ادھر کھینچ لیں۔ ” حجاب نے صحن میں پڑی چارپائی کی طرف دیکھا تو مرشد چارپائی کی طرف بڑھ گیا ۔ اس نے چارپائی کھینچ کر دیوار کے ساتھ بچھائی اور حجاب چارپائی پر پاو�¿ں رکھتی ہوئی دیوار پر جا پہنچی ۔ دیوار کی اونچائی پانچ فٹ تھی، وہ جھجکتی ہوئی دوسری طرف کود گئی ۔ مرشد نے چارپائی اٹھا کر دوسری طرف لٹکائی اور خود بھی دیوار پھلانگ کر دوسری طرف جا پہنچا ۔اس طرح انہوں نے تین دیواری پھلانگی اور تیسرے مکان کی بغلی طرف جا پہنچے۔ باقی سب ہی ساتھی پہلے سے وہاں موجود تھے۔ یہاں سے ان کے بائیں ہاتھ بیس پچیس گز کے فاصلے پر وسیع پاٹ کا دریا تھا جو دور… افق کی سمت سے بہتا چلا آ رہا تھا۔ دریا کے دونوں اطراف سبزے اور درختوں کی بہتات تھی، کہیں کہیں کھیتوں میں لہراتی فصلیں بھی دکھائی دیتی تھیں۔ دائیں ہاتھ محض چند قدم پر دریا کا کچا بند تھا جس کی اونچائی کم از کم بھی پندرہ فٹ تو ضرور رہی ہو گی۔ وہ دیوارِ چین کی طرح سامنے دور تک جاتا دکھائی دیتا تھا اور تقریبا ڈیڑھ دو فرلانگ آگے بند کے ساتھ ہی ایک دو مکان اور دکھائی دے رہے تھے۔
مرشد اور حجاب کے پہنچتے ہی سجے نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا اور وہ سامنے کے رخ چل پڑے ۔ ان کے پیچھے پیچھے بشارت ، ٹیپو، مصری اور تاجل تھے ۔
” آئیں سرکا ر ! ” مرشد نے بھی قدم آگے بڑھا دئے ۔ اس کے بائیں ہاتھ خنجر تھا اور دائیں ہاتھ جعفر۔ حجاب مرشد کے عقب میں ہی چل رہی تھی۔ کچھ دیر پہلے دیکھا ہوا منظر اس کے ذہن سے چپک کر رہ گیا تھا۔ خون میں لتھڑے دو ہاتھ اور ان کو بھنبھوڑتا ہوا کتا… اس کے ذہن میں پینو کی آواز گونجی..
” سنا ہے اس صبح فجر کی اذان سے پہلے تیرے بابا سائیں نے مسجد کے سپیکر سے اعلان کر کے بتایا تھا کہ چوہدریوں نے تجھے گھر سے اٹھا لیا ہے لوگ کہتے ہیں کہ چکّی والی گلی میں تیرے بھائیوں کے پاس گولیاں ختم ہو گئی تھیں ورنہ اس روز حویلی کے اندر کوئی ایک بھی زندہ نہ بچتا چوہدریوں کے شیطان ٹبر سے اس روز علاقے کو نجات مل جاتی جب گولیاں ختم ہو گئیں تو چوہدریوں نے تیرے بھائیوں کو گھیر لیا پھر بھی تیرے دونوں بھائیوں نے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ وہ شیر جوانوں کی طرح لڑتے ہوئے اپنی زندگیاں ہار گئے تیرے بابا سائیں تیرے پیچھے حویلی تک جا پہنچے تھے ۔ وہاں چوہدریوں نے انہیں بہت مارا پیٹا پھر …. حویلی کے بھوکے بوہلی کتوں میں پھینک دیا اور وہ وہیں ختم ہو گئے "..
اپنے باپ بھائیوں کے کرب ناک انجام کا خیال آتے ہی اس کے قلب و ذہن میں کرب کے بھنور سے کروٹیں لینے لگے.. سینے میں دھواں سا بھر آیا
اور آنکھوں میں خود بہ خود نمی سی اتر آئی ۔ اس نے جھلملاتی آنکھوں سے نظریں اٹھا کر دیکھا، سامنے تین چار قدم آگے مرشد چل رہا تھا۔ نم آنکھوں کے باعث اس کا سراپا دھندلا دکھائی دے رہا تھا ۔ اس کی سفید دھوتی، سیاہ قمیض، کندھے کے ساتھ جھولتی رائفل.. اونچا لمبا مضبوط ج�±ثہ.. بے خوف اور پر اعتماد چال… وہ گویا ایک مضبوط اور ناقابلِ شکست ڈھال کی صورت اس کے سامنے موجود تھا اسی نے اب سے کچھ دیر پہلے چوہدری کے ایک خاص درندے کو عبرت اثر حال تک پہنچایا تھا اس کے دونوں ہاتھ کاٹ کر کتے کے سامنے ڈال دئے تھے وہی بے رحم اور مکروہ ہاتھ جو حجاب کی گردن تک پہنچے تھے اور شاید اس کے جوان گھبرو بھائیوں اور مہربان و شفیق بابا سائیں پر ظلم ڈھانے والوں میں بھی شامل رہے تھے ۔
حجاب کو خیال آیا کہ شاید اب تک وہ ہاتھ کتے کے معدے میں پہنچ چکے ہوں۔ مرشد نے محاورتاً نہیں، حقیقتا وہ ہاتھ صفحہ ہستی سے مٹا دئے تھے اور خود حکم داد بھی شاید اپنے اپاہج وجود کو چھوڑ کر موت کے اندھیروں میں غرق ہو چکا تھا۔ اس خیال کے ساتھ ہی حجاب نے اپنے دل میں ٹھنڈک سی اترتی محسوس کی کہ اس کے باپ بھائیوں کا ایک بدترین مجرم اپنے بدترین انجام تک جا پہنچا ہے۔
اس نے متفکرانہ نظروں سے ایک بار پھر اپنے سامنے چلتے مرشد کی طرف دیکھا۔ وہ اپنے ساتھیوں سے بات کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ ان کے درمیان اسی رات کے حوالے سے بات ہو رہی تھی جس رات لاہور تھانہ ٹبی کے صحن میں ملنگی نے پولیس والوں کی صوابدید سے ان کے ساتھ سفاکانہ کھیل کھیلا تھا اور مراد کے ساتھ ساتھ شبیرے کو بھی بے رحمی و بے دردی سے گولیوں کا نشانہ بنایا تھا ۔
” مراد اور شبیرے کے ساتھ ساتھ میں تو تجھ پر بھی فاتحہ پڑھ چکا تھا ۔” مرشد جعفر سے کہہ رہا تھا ۔ ” میرے وہم و گمان میں بھی یہ خیال کہیں نہیں تھا کہ تجھے دوبارہ کبھی دیکھ سکوں گا۔ ت�±و وہاں سے بچ کر نکلا کیسے اور یہاں پہنچا کیسے ؟ ”
” یہ سارا منشی یونس کا کمال ہے استاد! بڑی ہمت اور حوصلہ دکھایا اس نے…. اس وقت چیخم دھاڑ کے دوران جب بجلی گئی تو اندھیرا ہونے سے پہلے جو آخری منظر میں نے دیکھا اس کے مطابق اس حرامی ملنگی نے تم پر گولی چلائی تھی۔ تمہیں گرتے دیکھ کر میں یہی سمجھا تھا کہ تم. نشانہ بن گئے ہو۔ یہ تو بعد میں منشی یونس کی زبانی پتا چلا کہ وہ گولی ان تین سپاہیوں میں سے ایک کے کلیجے میں گ�±ھسی تھی جو اس وقت تم سے چمٹے ہوئے تھے ۔ اندھیرا ہوتے ہی میں اپنا آپ چھڑا کر اندھا دھند سیڑھیوں کی طرف دوڑا تھا ۔ سیڑھیوں کے قریب منشی جاوید جپھا ڈال کر میرے سے لپٹ گیا۔ سیڑھیوں کے ساتھ ہی ایک کمرے میں الماری کے اندر اس نے میرے کو چھپا دیا تھا ۔ وہ بڑا مشکل اور تکلیف دہ وقت تھا ۔ میں کوئی چھ گھنٹے اس الماری میں بے حس و حرکت پتھر کے ب�±ت کی طرح کھڑا رہا اذانوں سے تھوڑی دیر پہلے منشی یونس نے میرے کو وہاں سے نکال کر چھت کے رستے فرار ہونے کا موقع دیا اور میں چھتوں کے اوپر سے ہوتا ہوا دو مینار والی مسجد تک پہنچا ۔اگلا سارا دن میں مسجد کے ایک مینار ہی میں گ�±ھس کر بیٹھا رہا۔ منشی نے میرے کو بتا دیا تھا کہ ملنگی تمہیں اپنے ساتھ کسی نامعلوم مقام کی طرف لے گیا ہے اور امید نہیں کہ اب تم زندہ ملو گے۔ ساتھ ہی یہ بھی میرے کو پتا چل گیا تھا کہ راتوں رات اپنے کئی یار بیلی گرفتار کر لئے گئے ہیں۔ حالات کی خرابی اور خطرناکی کا میرے کو پوری طرح اندازہ ہو چکا تھا۔ دوسری رات میں ادھر سے نکل کر شیخوپورہ جا پہنچا۔ وہاں سے میں نے لالا رستم کو فون کر کے ساری بات بتا دی۔ لالا نے میرے کو روپوش ہونے کا کہا اور سچ بات تو یہ ہے استاد! کہ میری اپنی سٹی گم تھی کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ کیا کروں کدھر کو جاو�¿ں۔ تمہاری زندگی کی طرف سے بھی مایوسی ہی تھی۔ لالا رستم کے مشورے سے بھی یہی سمجھ آئی کہ حالات میری توقع سے بھی زیادہ بگڑے ہوئے ہیں۔ بس پھر…. میں ادھر سے نکل کر یہاں… مظفر گڑھ آ گیا ۔ ”
” ٹھیک کیا ت�±و نے.. ت�±و تھانے والے ڈرامے کا چشم دید گواہ تھا۔ پولیس کے ہتھے چڑھ جاتا تو وہ تجھے پار کرنے میں ذرا دیر نہ لگاتے.. نہ پولیس والے اور نہ ملنگی لوگ۔ عادی اور پیشہ ور مجرم ہیں وہ سب۔ ” مرشد نے کہا ۔
خنجر بولا : ” پولیس تو اب بھی اسی مشن پر ہو گی اور مجھے یقین ہے کہ ملنگی گروپ بھی یہاں پہنچ چکا ہو گا۔ جلد یا بدیر ہمارا سامنا ہو گا ملنگی اور فوجی سے "..
” صرف ان سے ہی نہیں…. باقی سارے دشمن بھی یہیں.. ہمارے اردگرد موجود ہیں۔ ملنگی، فوجی گروپ، چوہدری فرزند، ڈپٹی اعوان اور ان سب کے ساتھ ساتھ یہاں کے کچھ مقامی بااثر لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہیں ۔ ان کو بھی دشمنوں میں ہی شمار کرو۔ ” مرشد کی بات پر خنجر فورا بولا۔
” تمہارا اشارہ لہراسب اور چوہان لوگوں کی طرف ہے نا ؟ "
” وہ دونوں بھی اور ان کا وہ نواب اسفند یار خان بھی.. لہراسب اور چوہان تو اس کے کارندے ہیں "..
” نواب اسفند یار…. اسے ہم لوگوں سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟ "جعفر کے تعجب پر مرشد نے چلتے چلتے اس کی طرف دیکھا ۔
” ت�±و کچھ جانتا ہے اس کے متعلق؟ "
” ہاں! کافی کچھ س�±ن رکھا ہے مظفر گڑھ سے میاں والی کی طرف دس پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک علاقہ ہے.. ‘ خان پور ‘.. وہاں اس کا بہت بڑا فارم اور ایک قلعہ نما حویلی ہے۔ پیچھے سے بلوچستان کا رہنے والا ہے۔ کسی پٹھان قبیلے سے تعلق رکھے ہے۔ ”
” بلوچستان کا ہے ؟ "
” ہاں! غالباً لورالائی یا قلعہ سیف اللہ سے ہے ۔” جعفر کی زبان سے قلعہ سیف اللہ کا سن کر مرشد بری طرح چونک پڑا ۔ اس کی منزل بھی تو قلعہ سیف اللہ ہی تھی۔ قلعہ سیف اللہ… جہاں حجاب کی پھپھو رہتی تھیں۔ اس کے پھوپھا کا وہاں کے بااثر افراد میں شمار ہوتا تھا۔ اسی شہر کا ایک نواب یہاں موجود تھا اور نواب کے چوہدریوں سے دیرینہ مراسم تھے ۔ چوہدری فرزند کے باپ اکبر علی سے اور شاید اس کے دادا جاگیردار حاکم علی سے بھی جس کا ذکر مرشد نے ارباب کی زبان سے سنا تھا ۔یہ جاگیردار گھرانہ حجاب کے گھرانے سے دشمنی میں ہر حد پار کر چکا تھا۔ اس کے ذہن میں خودبخود ڈپٹی اعوان کے الفاظ گونج اٹھے جو اس نے ڈسکہ میں رانا سرفراز کی کوٹھی میں مرشد سے کہے تھے۔
” تمہیں یہ بڑا کھڑاگ لگ رہا ہے؟ یہ تو کچھ بھی نہیں… یہ سب تو ایک بہت پرانی دشمنی کا محض ایک حصہ ہے اتنی پرانی دشمنی کہ جب تم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ جب یہ خطہ برصغیر کہلاتا تھا ۔ انگریز راج تھا یہاں پر یہ سب کچھ اسی پرانی دشمنی کا شاخسانہ ہے۔”
ڈپٹی اعوان کی باتوں سے ظاہر ہوا تھا کہ سادات اور چوہدریوں کے درمیان کوئی بہت پرانی دشمنی چلی آ رہی تھی… اتنی پرانی کہ جس کا آغاز شاید چوہدری فرزند کے دادا حاکم علی کے دور سے ہوا تھا اور یقینی طور پر یہ وہ دور رہا ہو گا جب ہندوستان میں تحریکِ پاکستان اپنے زوروں پر ہو گی… یہ خطہ برِصغیر کا حصہ تھا، انگریز راج تھا یہاں…. پتا نہیں کیوں لیکن اچانک مرشد کے ان خیالوں میں ارباب کی کہی ہوئی باتیں بھی گڈمڈ ہونے لگیں..
” تم حاکم علی کو جانتے ہو؟ میں جانتا ہوں…. وہ رذیل انسان اس جاگیر دار فرزند کا دادا اور مکار لومڑ اکبر علی کا باپ تھا۔ یہ سب ایک سے بڑھ کر ایک کمینے اور فرعون ہیں.. مجھے ان کا پورا شجرہ معلوم ہے۔ بہت پرانا یارانہ ہے نواب اور جاگیرداروں کا…. ہماری نسلیں سیدوں کی مقروض ہیں…. ہم آج بھی سادات کا بخشا ہوا کھا رہے ہیں "…
ڈپٹی کی کہی باتوں کو مرشد نے اس وقت کوئی خاص اہمیت نہیں دی تھی۔ اس نے یہی خیال کیا تھا کہ ڈپٹی محض اسے الجھانے کیلئے ایسی باتیں کر رہا ہے ۔ مگر اب…. اب اسے محسوس ہونے لگا تھا کہ اس کی باتوں میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور تھی۔ اس کے اندر کوئی بول رہا تھا کہ نواب اسفند اور جاگیر داروں کا یہ گٹھ جوڑ اور نواب کے بلوچستان کے اسی شہر سے تعلق ہونا جس میں حجاب سرکار کی پھپھو رہتی ہیں، محض کوئی اتفاق نہیں ہے بلکہ یہ نواب بھی اسی پرانی دشمنی میں حصے دار رہا ہے جو سادات اور جاگیردار گھرانے میں ایک مدت سے چلی آرہی ہے ہو نہ ہو یہ نواب چوہدری
فرزند، اکبر علی، حاکم علی، حجاب سرکار کے باپ دادا اور پھوپھا بھی کسی قدیم دشمنی کی ایک ہی کہانی کے کردار ہیں… ایک ہی زنجیر کی مختلف کڑیاں ہیں یہ سب…
مرشد کو اچانک ہی یہ احساس ہونے لگا تھا کہ اس کا یہ سفر دوطرفہ ہے وہ قدم با قدم حجاب سرکار کی منزل کے ساتھ ساتھ ماضی کی طرف بھی آگے بڑھ رہا ہے ۔ اس ماضی کی طرف جس میں ایک گہری دشمنی کے زہریلے بیج دفن تھے….. اس ماضی کی طرف جس نے ایک ایسی ہنگامہ خیز اور خون آشام کہانی کو جنم دیا تھا جس کا وہ خود بھی ایک حصہ، ایک کردار بن چکا تھا… اس کہانی کے کئی ایک کردار منظرِ عام پر اس کے اردگرد بکھرے تھے تو چند ایک ابھی پسِ پردہ تھے جو یقینی طور پر عنقریب سامنے آنے والے تھے ۔
” اس نواب کی ہم لوگوں سے براہِ راست کوئی دشمنی نہیں ہے۔” خنجر، جعفر سے کہہ رہا تھا۔” اس کے اور نندی پور والے چوہدریوں کے درمیان بڑا پرانا اور گہرا یارانہ ہے۔ ان کا پورا پورا ساتھ دے رہا ہے یہ خبیث کا بچہ، لہذا یہ بھی ہمارا دشمن ہی ہوا ۔”
” یہ بہت اثر و رسوخ والا بندہ ہے۔ کئی مربعہ زمین پر اس کے آموں کے باغات پھیلے ہیں ۔ سنا ہے کہ اس نے اپنے ایک فارم ہاو�¿س پر شیر بھی پال رکھے ہیں ۔ ضلع بھر کے سارے بڑے بڑے افسر اور سارے ایم پی اے، ایم این اے سمجھو اس کی جیب میں پڑے رہویں ہیں۔ ”
” وہ باتیں کرتے آگے بڑھ رہے تھے۔ ان سے چند قدم آگے بشارت ، ٹیپو، اور مصری و تاجل تھے ۔ ان سے آگے سجا بلوچ اور اس کے دونوں ساتھی۔
آسمان پر چھائی بدلیوں میں مزید اضافہ ہو آیا تھا۔ ہوا کچھ مزید خوشگوار ہو چکی تھی۔ وہ تقریبا دو فرلانگ فاصلہ طے کر چکے تھے جب اچانک دور عقب میں ہونے والی فائرنگ کی آواز سن کر وہ سب ٹھٹھک کر رک گئے ۔ تقریبا سبھی نے ایک ساتھ پلٹ کر دیکھا تھا ۔
دو فرلانگ پیچھے وہ مکانات تھے جن سے وہ نکل کر آ رہے تھے۔ ان مکانوں سے مزید ڈیڑھ دو فرلانگ آگے بند کے اوپر پولیس کی گاڑیاں موجود تھیں اور ان گاڑیوں کی اوٹ میں کہیں کہیں پولیس والوں کی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔ یقینی طور پر انہیں بھی مرشد لوگ دکھائی دے رہے تھے ۔ فائر نگ کی شروعات ادھر ہی سے ہوئی تھی لیکن بنا کسی تاخیر کے سجے کے ساتھیوں نے ایسا بھرپور جواب دیا تھا کہ پولیس والوں میں کھلبلی سی مَچ گئی تھی۔ دوری کے باعث فائرنگ کی آواز مدھم ضرور تھی پھر بھی اس کی شدت کا واضح اندازہ ہوا تھا۔
اسی وقت ان کے بائیں ہاتھ بند کی بلندی پر تین مسلح آدمی نمودار ہوئے۔ تینوں کے ہاتھوں میں جدید رائفلیں تھیں اور وہ اپنی وضع قطع سے ہی مفرور اشتہاری مجرم دکھائی دے رہے تھے۔ ان میں سے ایک کو مرشد نے پہلی نظر میں ہی پہچان لیا، وہ سجے کا ساتھی ” خانو ” تھا۔ وہ سنسنی خیز انداز میں پکار کر سرائیکی میں بولا ۔
” سجے! آ رہا ہے حرامیوں کا ٹولا” ساتھ ہی اس نے گردن موڑ کر بند کی دوسری طرف کو دیکھا ۔ سجا فورا آگے بڑھ کر بند پر چڑھتا چلا گیا ۔ مرشد نے بھی اس کی تقلید کی۔ بند کی اونچائی سے دوسری طرف جھانکتے ہی مرشد کے رگ و پے میں ایک سنسناہٹ سی بیدار ہو آئی۔ سامنے دور تک ایک وسیع و عریض منظر بچھا ہوا تھا۔ غیر آباد زمین کے علاوہ کہیں کہیں کھیت موجود تھے۔ بالکل سامنے تقریبا ایک کلومیٹر کے فاصلے پر کھیتوں کے درمیان ایک کچا راستہ تھا اور اس راستے پر پانچ گاڑیاں دکھائی دے رہی تھیں جو دھول اڑاتی بند کے متوازی رخ آگے بڑھ رہی تھیں۔ ان میں ایک کار تھی، دو پوٹھوہاری جیپیں اور دو پولیس جیپیں وہ یقینا آگے سے گھوم کر اسی طرف آنے والی تھیں تاکہ ان لوگوں کے فرار کا راستہ مسدود کر سکیں۔ انہیں آگے بڑھنے سے روک سکیں۔خنجر، جعفر اور بشارت بھی بند پر چڑھ آئے تھے۔ بشارت کسی قدر پریشانی سے بولا۔
” کیا فائدہ ہوا ہمیں اس طرف سے نکلنے کا اب نہ آگے بڑھنے کے اور نہ پیچھے ہٹنے کے… افرادی قوت بھی کم ہو گئی ہماری۔ ” سجے نے گردن گھماکر اس کی طرف دیکھا اور پھر ایک بھرپور قہقہہ لگا کر ہنس پڑا ۔ تقریبا سبھی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا تو اس نے بشارت کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے تقریبا نصف فرلانگ آگے بند کے ساتھ موجود مکانات کی طرف دیکھا جن کی جھلک انہوں نے اپنے والے مکانوں سے نکلتے ہوئے دیکھی تھی۔
” ہمیں بس ان مکانوں تک پہنچنا ہے کیا خیال ہے؟ پہنچ پائیں گے یا نہیں ؟ "
” ان تک تو پہنچ ہی چکے لیکن….” بشارت نے کندھے اچکاتے ہوئے کچھ کہنا چاہا تو سجا اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔
” بس پھر آ جاو�¿ ” وہ بند سے اترتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھا تو باقی سب بھی فورا اس کے پیچھے چل دئے۔ سب ہی کسی نہ کسی قدر تشویش کا شکار ہو چکے تھے ۔ ان میں اگر کوئی پوری طرح بے فکر اور لاپرواہ نظر آ رہا تھا تو وہ سب سے آگے آگے چلنے والا سجا ہی تھا۔ یہ بے فکری اور لاپرواہی شاید اس کے مزاج کا حصہ تھی۔
*************************
چوہدری اکبر علی، حسن آرا کو تین ماہ کی مہلت دے گیا تھا اور مہلت کا یہ وقت بھاگم بھاگ گزرا تھا ۔ اس دوران چوہدری تین چار بار چکر لگا گیا تھا۔ ہر بار حسن آرا کو لبھانے رجھانے کی غرض سے تحفے تحائف لاتا اور بھونڈے انداز میں اپنی محبت کا اظہار کرتا رہتا۔حسن آرا انتہائی ضبط و تحمل سے نہ صرف اسے برداشت کرتی رہی تھی بلکہ ساتھ کی ساتھ نزہت بیگم سے ایک جنگ لڑتی آ رہی تھی۔
عشرت اور سندس بھی نزہت بیگم اور چوہدری کی ہمنوا تھیں ۔ نزہت بیگم کے ساتھ ساتھ وہ دونوں بھی اس پر دباو�¿ بنائے ہوئے تھیں کہ میر ارشد اللہ کے بچے کو گرا دے اور چوہدری کی نوازشات قبول کر لے ۔ دن میں کتنی ہی بار ان کی آپس میں تلخ کلامی ہوتی تھی ۔ نزہت بیگم تو ہر وقت اسے کوستی رہتی، اٹھتے بیٹھتے اپنی قسمت کو پیٹتی اور میر ارشد اللہ کے ساتھ ساتھ حسن آرا کو بھی بددعائیں دیتی رہتی۔ حسن آرا کو میر صاحب نے جو فون نمبر دیا تھا، اس دوران وہ سینکڑوں بار اس نمبر پر فون کر چکی تھی لیکن پتا نہیں کیا مسئلہ تھا کہ رابطہ ہوتا ہی نہیں تھا، لائن ہر بار خاموش ہی ملتی تھی ۔
چوہدری کی دی ہوئی تین ماہ کی مہلت پوری ہونے میں اب بس دس پندرہ دن ہی بچے تھے۔ حسن آرا شدید فکرمندی اور پریشانی کا شکار تھی اور اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے ۔ چوہدری اکبر علی جو کچھ بھی چاہتا تھا اسے تسلیم کر لینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اور چوہدری سے بچنے اور محفوظ رہنے کی بھی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی تھی ۔ اسی باعث وہ دوہری اذیت، دوہری پریشانی کا شکار ہو کر رہ گئی تھی۔ کوئی بس نہیں چلتا تھا تو جائے نماز پر جا بیٹھتی تھی۔ خدا کے حضور روتی گڑگڑاتی تھی، فریادیں گزارتی تھی، کئی درباروں پر جا کر منتیں مانگ چکی تھی، کئی معجزے بھی مان رکھے تھے اس نے کہ کم از کم میر صاحب واپس آ جائیں یا ان کی خیریت کی کوئی خبر ہی کسی ذریعے سے مل جائے مگر سب بے اثر تھا…. کسی صورت بھی من کی مراد بھرتی نظر نہیں آتی تھی… گزشتہ دو ماہ بیس دن میں وہ ہزاروں بار میر صاحب کا خط پڑھ چکی تھی۔ خط کے الفاظ ہر بار اس کے یقین کو جِلا بخشتے کہ میر صاحب ضرور واپس آئیں گے۔ وہ الفاظ ہر وقت اس کے ذہن میں گونجتے رہتے…
” حسن آرا !!!
ہمارا محبت بھرا سلام قبول کریں ۔
آپکے بطن میں ہماری نشانی، ہماری امانت موجود ہے۔
اس باعث ہمارا آپ سے دہرا رشتہ بن چکا ہے اور ہم بھلا اس بات کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں حسن آرا !
جس ذات کے حضور ہم روزانہ پانچ بار سر جھکاتے ہیں اس رب کی قسم کھا کر آپکو زبان دیتے ہیں کہ ہم واپس آئیں گے ۔
تھوڑی بہت تاخیر ہو سکتی ہے لیکن ہم آئیں گے ضرور.. چاہے کچھ بھی ہو جائے… ان شاءاللہ…
اپنا بہت بہت خیال رکھئے اور اپنے ساتھ ساتھ اس ننھی جان کا بھی جو ہماری محبت، ہمارے رشتے کی بنیاد ہے۔ ”
ان ہی باتوں میں کبھی کبھی چوہدری اکبر کی مکروہ آواز گونج اٹھتی..
” ارشد اللہ اب نہیں آئے گا… وہ اس لیے نہیں آئے گا کہ اس نے چوہدری اکبر سے متھا لگایا تھا…. میں نے یہیں ،تم دونوں کے سامنے اسے کہا تھا کہ ارشد اللہ میں تجھے معاف نہیں کروں گا۔ تو نے اپنی بدبختی کا انتظام کر لیا ہے۔ ”
پھر اسے کلینک میں میر صاحب سے ہوئی اپنی آخری ملاقات کے لمحات یاد آ جاتے.. وہ بہت بے چین اور بہت پریشان تھے.. انہوں نے بتایا تھا کہ ملتان کے قریب بابا سائیں کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا ہے اور وہ اس حادثے میں جاں بر نہ ہو سکے تھے۔
جاگتے میں سارا وقت دماغ اسی طرح پکتا د�±کھتا رہتا اور سوتے میں یہ دماغی بدحالی بھیانک اور پریشان کن خوابوں کی شکل اختیار کر لیتی… کبھی دیکھتی کہ چوہدری اکبر نے کسی عفریت کی صورت میر ارشد اللہ کو دبوچ رکھا ہے اور کبھی وہ اسے ایک جنونی قاتل کی صورت میں میر ارشد اللہ پہ حملہ آور نظر آتا اور کچھ نہیں تو وہ خود کو اس کے نرغے میں پاتی ۔ چوہدری اکبر اسے کبھی کسی آدم خود درندے کے روپ میں دکھائی دیتا اور کبھی ایک خون آشام مردار خور گدھ کی شکل میں… دن رات کے اس شدید اعصابی دباو�¿ نے اسے چارپائی سے لگا دیا تھا۔ گزشتہ تین ماہ بھی وہ تقریبا بیمار ہی رہی تھی۔ صحت خاصی متاثر ہو چکی تھی ۔ اب کی بار جو چارپائی پہ لیٹی تو جیسے چارپائی کی ہی ہو کر رہ گئی طبیعت روز بروز اس قدر خراب ہوتی گئی کہ جان کے لالے پڑ گئے ۔ کیا ڈاکٹری دوائیں اور کیا حکیمی پ�±ڑیاں اور کڑوے سیال… سب کچھ جیسے بے اثر ہو کر رہ گیا تھا۔ اسے دیکھنے والے اس کی زندگی کی طرف سے مایوس ہو گئے تھے۔
دس پندرہ دن بعد طے شدہ مہلت ختم ہونے پر چوہدری اکبر آیا تو حسن آرا کو دیکھ کر دَنگ رہ گیا۔ بستر پر پڑی چھائیوں بھرے چہرے والی, ہڈیوں کی یہ نحیف و نزار ڈھیری تو کہیں سے حسن آرا نہ لگتی تھی.. وہ تو اس کا عکس بھی نہ تھا.. چوہدری کو تو اتنا بھی حوصلہ نہ ہوا کہ وہ کچھ دیر حسن آرا کے قریب رکتا البتہ جاتے ہوئے ایک موٹی رقم نزہت بیگم کو تھما گیا کہ حسن آرا کے علاج معالجے پر خرچ کی پروا نہ کی جائے۔ اس کا اچھے سے اچھا علاج کیا جائے اور اچھی سے اچھی خوراک دی جائے۔اس روز کے بعد اس نے ڈیڑھ دو ماہ بعد ایک سرسری سا چکر لگایا۔ اس وقت حسن آرا کی طبیعت بہتر تھی لیکن اس کی صحت اور رنگ و روپ پوری طرح گہنا چکا تھا ۔ وہ حسن و خوبصورتی وہ جسمانی گداز جو دیکھنے والی آنکھ کو پتھرا دیا کرتا تھا اس کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا اس بار چوہدری بددل ہو کر وہاں سے واپس گیا اور ایسا گیا کہ پھر حسن آرا نے اس کی شکل کوئی ڈھائی سال بعد دیکھی ۔
بہرحال حسن آرا تو اپنی اس جسمانی بدحالی کو خود پر خدا کی کوئی کرم نوازی ہی تصور کرتی تھی کیونکہ اسی باعث چوہدری کی طبیعت اس سے اوب گئی تھی ورنہ تو کوئی اور صورت نہیں تھی چوہدری کی ہوس اور غضب سے بچنے کی…نزہت بیگم کا رویہ اس کے ساتھ سرد سے سرد تر ہوتا چلا گیا کہ اب وہ صرف ناکارہ ہی نہیں، ایک اضافی بوجھ بنتی جا رہی تھی۔ اگلے چند ماہ ایک دو پڑوس والیوں کے سوا ایک اقبال کوثر کی ذات تھی جو اس کے سب سے زیادہ قریب رہی ۔ وہ باقاعدہ سے چکر لگاتا رہا اور اکثر ہی حسن آرا کے کھانے پینے کو کچھ لاتا رہا۔ اس کی تیمارداری اور دیکھ ریکھ کی ذمہ داری جیسے اس نے خود سے اپنے سر لے لی تھی اور شاید یہ اس کی پر خلوص کوشش کا نتیجہ تھا کہ حسن آرا کی طبیعت و صحت پھر سے بحال ہونا شروع ہو گئی۔
ایک روز اقبال آیا تو اسکے ہاتھ میں اخبار کا ایک صفحہ تھا ۔ اس نے آتے ہی سنسنی خیز انداز میں وہ صفحہ حسن آرا کے سامنے کر دیا ۔
” آپا ! یہ دیکھ…. یہ خبر!” اس نے ایک سرخی پر انگلی رکھی۔ اس خبر پر نظر پڑتے ہی حسن آرا کا دل اچھل پڑا۔ اخبار چند ماہ پرانا تھا۔ اس پر جگہ جگہ تیل یا گھی کے دھبے تھے ۔ جس خبر کی اقبال نے نشاندہی کی تھی وہ میر ظفر اللہ کے متعلق تھی ۔ سرخی کچھ یوں تھی :
” صوبائی وزیر میر ظفر اللہ کی حادثاتی موت ”
حسن آرا کی ساری توجہ خبر پر مرکوز ہو گئی۔ نیچے تفصیل لکھی تھی۔
”گزشتہ روز صوبائی وزیر میر ظفر اللہ کی ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں موت واقع ہو گئی۔ تفصیلات کے مطابق
کل صبح میر ظفر اللہ مظفر گڑھ کی حدود میں واقع اپنے زرعی فارم سے لاہور کیلئے روانہ ہوئے لیکن مظفر گڑھ
اور ملتان کے درمیان ،دریائے چناب کے پل پر ان کی گاڑی ایک تیز رفتار ٹرک کی زد میں آ کر پل سے نیچے
خشک دریا میں جا گری۔ ۔ میر ظفر اللہ سمیت ان کا ڈرائیور اور ایک سیکورٹی گارڈ موقعے پر جاں بحق ہو گئے۔
گاڑی بری طرح تباہ ہونے کے باعث متوفین کی لاشیں گاڑی کی پچکی ہوئی باڈی کاٹ کر نکالنا پڑیں۔
میر ظفر اللہ کے دیگر چار گارڈز نے ٹرک ڈرائیور کے فرار کی کوشش ناکام بنا دی جسے بعد ازاں پولیس نے حراست
میں لے لیا۔ عینی شاہدین کے مطابق مخالف سمت سے آنے والے مذکورہ ٹرک نے اچانک ہی رخ بدل کر میر ظفر
اللہ کی گاڑی کو ٹکر جا ماری تھی۔
کچھ افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ حادثہ نہیں بلکہ ایک سازش ہے اور میر ظفر اللہ کی گاڑی کو دانستہ نشانہ بنایا گیا ہے ۔
اس سازش کے حوالے سے نواب اسفند یار خان پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ میر ظفر اللہ کی اس موت کا ذمہ دار
وہی ہے۔ یاد رہے کہ میر ظفر اللہ اور نواب اسفند یار خان کے درمیان کچھ پرانی رنجشیں موجود تھیں ۔ پولیس…. "
اس سے آگے اخبار کا کچھ حصہ پھٹا ہوا تھا۔ باقی خبر موجود نہیں تھی۔
نواب اسفند یار کا نام پڑھتے ہی حسن آرا کے دماغ کو جھٹکا سا لگا۔ حافظے میں ایک جھماکا سا ہوا تھا۔ اسے یاد آیا کہ وہ اس نام سے ہی نہیں، اس شخصیت سے بھی واقف ہے۔ وہ چند ایک بار اس نواب کو اپنے ہاں دیکھ چکی تھی ۔ اس کے ساتھ ایک اور نواب بھی آتا رہا تھا… نواب سکندر خان…
جس رات اس نے میر ارشد اللہ کو پہلی بار اپنی محفل میں دیکھا ،اس رات یہ دونوں میر ارشد اللہ کے دائیں بائیں موجود تھے۔ محفل کے بعد جب اس نے نزہت بیگم سے میر صاحب کے متعلق استفسار کیا تو نزہت بیگم کے اس روز کہے گئے الفاظ اسے اب تک یاد تھے۔ اس نے کہا تھا ۔
” وہ….وہ میر ارشد اللہ ہیں۔ پہلی بار ہی آئے ہیں، بلکہ آئے کیا، لائے گئے ہیں ان کے دائیں بائیں جو دو افراد بیٹھے تھے، وہ نواب لوگ ہیں۔ اپنے پرانے قدر دانوں میں سے ہیں۔ وہی میر صاحب کو ”گھیر“ کر لائے ہیں ۔”
” وہی میر صاحب کو "گھیر "کر لائے ہیں”… اس روز حسن آرا نے ان الفاظ پر دھیان نہیں دیا تھا، لیکن آج یہ الفاظ خود سے اپنی معنویت ظاہر کر رہے تھے بعد ازاں ایک آدھ بار وہ ان دونوں نوابوں کو چوہدری اکبر کے ساتھ بھی دیکھ چکی تھی۔ میر صاحب کو کوٹھے تک لانے والوں میں ایک یہی نواب اسفند یار تھا اور اب مبینہ طور پر میر صاحب کے والد کی موت کی ذمہ داری بھی اسی کے سر ڈالی جا رہی تھی…. ان کے درمیان کچھ پرانی رنجشیں تھیں….
” آپا ! اس خبر سے تو پھر یہ پتا چلتا ہے کہ میر صاحب مظفر گڑھ کے رہنے والے ہیں۔ ” اقبال کوثر کے لہجے میں دبا دبا جوش تھا۔” اگر کوشش کی جائے تو وہاں سے میر صاحب کی خیر خبر نکلوائی جا سکتی ہے اور ان تک تمہارے متعلق اطلاع یا تمہارا پیغام پہنچانے کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے۔ ”
حسن آرا کھوئی کھوئی نظروں سے اقبال کی طرف دیکھتی رہی، اس کا دماغ کہیں اور تھا۔
” ایسے کیوں دیکھ رہی ہو؟ میں کوئی غلط بات کہہ رہی ہوں کیا ؟ آج ہی کسی کو مظفر گڑھ کی طرف روانہ کر دیتی ہوں۔ تمہاری دیکھ بھال کی فکر نہ ہوتی تو پھر میں خود چلی جاتی۔ ”
” نہیں اقبال ! ” حسن آرا کے لب آہستہ سے ہلے… "کسی کو نہیں بھیجنا”..
” کیوں؟ کیوں بھلا؟ تم یہاں اندر ہی اندر گھلے جا رہی ہو، جس کی چاہ میں، جس کے ہجر میں تمہارا یہ حال ہے اسے خبر تو ہو…. یا تمہاری بات کو بڑا کریں تو آخر پتا تو چلے کہ میر صاحب خود خیریت سے ہیں یا نہیں…. اگر نہیں تو معلوم پڑ جائے گا کہ وہ کس مصیبت، کس آفت کا شکار ہیں؟ کیوں
اب تک واپس نہیں آ سکے؟ ”
حسن آرا کا دل لرز کر رہ گیا۔ بھیانک اندیشوں کے تحت وہ اندر ہی اندر کانپ گئی تھی۔
” نہیں اقبال ! کسی چھان بین کی ضرورت نہیں ہے۔ بالکل بھی نہیں ہے، میں پہلے سے جانتی ہوں وہ خیریت سے نہیں ہیں ۔“
” ہو سکتا ہے یہ تمہارا وہم ہو ".. اقبال کا جملہ اس کی سماعتوں پر کوڑے کی طرح پڑا۔
” اگر یہ وہم ہے تو بھلا اب تک وہ واپس کیوں نہیں آئے؟”
” واپس…. واپس تو شاید…. وہ….. ” اقبال گڑبڑا کر رہ گیا۔ اسے حسن آرا کے سامنے اپنے اس خیال کے اظہار کا حوصلہ نہیں تھا کہ میر صاحب کے ارادے یا نیت بدل گئی ہو گی.. وہ دانستہ واپس نہیں آئے… میر صاحب کے متعلق حسن آرا کس قدر حساس اور جذباتی تھی، اس کے جذبات و احساسات، محبت کی شدتوں کے ساتھ ساتھ عقیدت و احترام کی کس معراج کو پہنچے ہوئے تھے… اس کا اندازہ سبھی کو تھا!
خدا خدا کر کے اب کہیںاس کی طبیعت کچھ سنبھلی تھی۔ اقبال کو احساس ہوا کہ اب دوبارہ کوئی ایسی ویسی بات ہوئی یا کسی ذریعے سے حسن آرا کے اس اندھے یقین کی نفی ہوئی ،یا اس کے انتہا کو پہنچے ہوئے عقیدت و احترام پہ کوئی حرف آیا تو وہ دوبارہ بستر پر گر پڑے گی…. اس بری طرح ٹوٹ پھوٹ جائے گی کہ شاید زندہ بھی نہ رہ پائے… مزید جی ہی نہ سکے.. اس کے جینے کا اور زندہ رہنے کا واحد بہانہ اب گویا صرف یہی اندھا یقین تھا ۔
اقبال خاموش بیٹھا اس کی صورت دیکھے گیا اور حسن آرا خلاو�¿ں میں جھانکتی کھوئی کھوئی آنکھیں لئے دھیمے لہجے میں بولتی گئی..
” میر صاحب بہت سے مسائل اور پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں اقبال! وہ ان دنوں بہت مشکل میں ہیں۔“حسن آرا کے تصور میں میر صاحب کا گھر، خاندان تھا، ان کی فیملی، بیوی بچے، سسرالی
” میری ذات کی وجہ سے ان کیلئے مزید کوئی الجھن یا پریشانی نہیں بننی چاہیے۔ میں…. میں تو ویسے ہی ان کے لیے منحوس ثابت ہوئی ہوں۔ ان کی اچھی خاصی پرسکون زندگی درہم برہم ہو چکی… پتا نہیں وہ کیسی آفتوں اور کس کس طرح کے مصائب کا سامنا کر رہے ہوں گے…. مجھے…. مجھے ان کی زندگی میں کوئی مداخلت نہیں کرنی اقبال ! بالکل… بالکل بھی نہیں… میں بس ان کے لئے دعا کروں گی، تم بھی اگر کچھ کر سکتی ہو تو بس دعا کرو…. خدا ان کو سلامت رکھے۔ ان کے…. ان کے لئے آسانیاں پیدا کرے۔ جب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا تو وہ خود ہی چلے آئیں گے۔ تم…. تم دیکھ لینا…. انہوں نے وعدہ کیا تھا۔ زبان دی تھی مجھے… وہ ضرور اپنے کہے کی پاسداری کریں گے.. وہ آئیں گے… ضرور آئیں گے …. بس تم دعا کرو ان کے لیے.. "
اس کی نگاہیں کہیں ان دیکھی خلاو�¿ں میں اٹکی تھیں۔ آنکھوں میں تیرتی نمی چھلک پڑنے کو بے تاب تھی اور وہ دھیمے، خواب ناک لہجے میں بول رہی تھی۔ انداز خودکلامی والا تھا۔ اقبال کو محسوس ہوا کہ حسن آرا اس وقت اپنے حواسوں میں نہیں ہے.. اس پر ایک جذب کی سی کیفیت طاری تھی اور وہ آسیب زدہ دکھائی دیتی تھی۔
اقبال نے اس کی باتوں سے اختلاف کرنے سے دانستہ گریز کیا۔ آئندہ کچھ دنوں میں طبیعت مزید سنبھل آئی تو حسن آرا نے گائیکی کیلئے ریاض شروع کر دیا۔ نزہت بیگم کو اس نے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ اس پر بوجھ بن کر نہیں بیٹھے گی، البتہ محفل میں گیت غزل گا دینے سے ہٹ کر اس سے کوئی توقع نہ رکھی جائے۔
پانچ ماہ بعد اس نے ایک خوبصورت سے بچے کو جنم دیا۔ میر صاحب کی محبت ان کی نشانی ایک معصوم وجود کی صورت اس کی گود میں ہمکنے لگی۔حسن آرا کی ہجر زدہ آنکھوں کی ٹھنڈک کا انتظام ہو گیا تھا۔ قدرت نے اس کے دل بہلاوے کا بندوبست کر دیا تھا۔ بچے کی صورت جینے کا ایک بہانہ مل گیا تھا۔ میر صاحب ہی کے نام پر اس نے بیٹے کا نام رکھا تھا…. میر شاہ نواز ارشد…. آنے والے وقت میں جب بچے نے ہوش و حواس سنبھالے…. ایک مخصوص مزاج اور طبیعت پا لی تو اپنے نام کے لفظوں سے حروف چن کر اپنے نام کو ایک مختصر شکل دے لی… مرشد!!!
*******************