قدم قدم ہنگاموں اور حادثوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے عشق کی رودادِ دل گداز
اُس نے نزہت جہاں بیگم کے کوٹھے پر آنکھ کھولی، مسلے مرجھائے گجرے، باسی پھول اور گھنگرو اس کے کھلونے بنے، بدمعاشوں کی دنیا نے اسے مرشد مانا اور پھر…… وہ کسی کا مرید ہو گیا
مرشد
شاہی محلے کا نمازی بدمعاش جس نے سرکار سے عشق کیا اور عشق کی مریدی
Murshid Urdu Novel |
حجاب نے اپنا دل کٹتا ہوا محسوس کیا۔ سینے میں دھواں سا بھرنے لگا۔ اسے محسوس ہوا کہ سینے میں بھرتے ہوئے دکھ سے اس کا دم گھٹ جائے گا۔ اس نے ایک بار پھر سختی سے ہونٹ بھینچ لیے اور اندر کا کرب ، اضطراب اور بے بسی آنکھوں کے رستے آنسوو�¿ں کی صورت اس کے رخساروں پر بہنے لگی۔
خنجر کو فرنٹ سیٹ سے پانی کی بوتل مل گئی تھی۔ اس نے مرشد کے قریب بیٹھتے ہوئے ڈھکن کھول کر بوتل اس کے ہونٹوں سے لگادی۔ مرشد نے چند گھونٹ پانی پیا، کچھ پانی اس کے گریبان کو بھگو گیا۔ پانی خشک حلق میں اترتے ہی ایک ذرا اس کے حواس بہتر ہوئے۔ اپنے سر کے بے ترتیب بالوں میں ہاتھ چلانے کے بعد اس نے اپنی گھنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا۔ انگلی کی پشت سے مونچھوں کو اوپر اٹھایا اور پھر خنجر کے گھٹنے پر ہاتھ رکھتے ہوئے نقاہت زدہ آواز میں بولا۔
"خنجر! میرے ساتھ ایک وعدہ کر۔”
"تمہیں فی الحال چپ رہنا چاہیے جگر!”
"وہ تو کچھ دیر تک …. میں نے ہو ہی جانا….ہے۔” اس نے سر جھٹکا۔ آنکھیں پٹپٹا کر بصارت پر چھاتی تاریکی کو دور کیا اور سرد پڑتی دائیں کنپٹی کو
مسلتے ہوئے دوبارہ بولا۔”لگ تو یہی…. رہا ہے۔ تو میرے ساتھ وعدہ کر کہ …. اگر مجھے کچھ ہوگیا تو سرکار….سرکار کو ان کی منزل تک پہنچائے گا۔ یہ….ادھورا سفر تو پورا کرے گا…. وعدہ کر۔ "
کچھ نہیں ہوگا تمہیں۔ ہم اکھٹے منزل تک پہنچیں گے ۔”
"وہ تو مجھے پتا ہے کہ…. کچھ نہیں ہونا مجھے۔ وعدہ تو…. احتیاطاً لے رہا ہوں تجھ سے۔”
"ہاں ٹھیک ہے۔ وعدہ رہا، اب چپ کر کے بیٹھے رہو۔ .”
"میرا سارا جسم سن ہوتا جارہا ہے …. ہاتھ پیر اور…. کنپٹیاں ٹھنڈی پڑ رہی ہیں۔” خنجر کے چہرے کی تشویش میں کچھ مزید اضافہ ہوگیا۔ مرشد نے اپنا بایاں ہاتھ تو مسلسل اپنے پہلو پر جما رکھا تھا۔ خنجر اس کے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کا مساج کرنے لگا۔سامنے کی طرف سے جعفر نے خنجر کو آواز دی تو پہلے وہ اٹھ کر سامنے کی طرف متوجہ ہوا پھر سیٹیں پھلانگ کر جعفر کے قریب جا پہنچا۔ جعفر اسے کچھ ہدایات دے رہا تھا۔ حجاب چند لمحے بے چین سی اپنی جگہ بیٹھی رہی پھر اٹھ کر خنجر کی جگہ آبیٹھی اور مرشد کی ہتھیلی کی مالش کرنے لگی۔اس کی دیکھا دیکھی تاجل اپنی جگہ سے اٹھ کر مرشد کے پاو�¿ں مسلنے بیٹھ گیا۔
حجاب کے قرب اور ہاتھوں کا لمس محسوس کرتے ہی مرشد نے اپنی ڈھلکی ہوئی گردن اٹھائی اور دھندلائی ہوئی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا …. آنکھوں کی دھندلاہٹ میں ایک جگنو سا چمکا۔ ہونٹ بہٹ دھیرے سے اس انداز میں کھنچے جیسے اس نے مسکرانے کی کوشش کی ہو۔ حجاب نمناک لہجے میں بولی۔
"مرشد جی ! آپ کو کچھ نہیں ہونا چاہیے۔ کچھ بھی نہیں …. سنبھالیے خود کو۔آپ نے …. آپ نے وعدہ کیا تھا کہ آپ خود مجھے میرے پھوپھا کے پاس چھوڑ کر آئیں گے۔ یاد ہے نا …. اور خالہ نے بھی یہی حکم دیا تھا۔ وہ…. وہاں لاہور میں بیٹھی آپ کی واپسی کا انتظار کر رہی ہیں۔ ان کا آپ کے سوا اور ہے ہی کون ” اس کی آواز بھرا گئی۔حلق میں آنسوو�¿ں کا گولا سا آپھنسا۔ اسے شدت سے یہ احساس ہوا تھا کہ اگر مرشد کو کچھ ہو گیا تو اس کی موت کی خبر سنتے ہی اس کی ماں بھی مر جائے گی وہ بیمار اور کمزور دل عورت اپنے پہاڑ جیسے جوان بیٹے کی موت کا صدمہ ہرگز بھی برداشت نہیں کر پائے گی۔
مرشد کے خشک ہونٹوں کو جنبش ہوئی۔ پہلے اس نے ہونٹوں پر زبان پھیری، کھینچ کر سانس لیا پھر انتہائی نحیف سی آواز میں بولا۔
"آپ اپنے… پھوپھا کے ہاں… ضرور… پہنچیں گی۔ یقین رکھیں۔”
"نہیں ” حجاب نے فوراً سر کو نفی میں حرکت دی۔”مجھے وہاں تک آپ کے ساتھ جانا ہے۔ صرف آپ کے ساتھ اور کسی پر مجھے بھروسہ نہیں ہے…. بالکل بھی نہیں ہے۔” آنکھیں پھر چھلک پڑیں۔خنجر پلٹ کر دوبارہ مرشد کے قریب آنا چاہتا تھا لیکن حجاب کو اس کے قریب بیٹھے دیکھ کر اپنی جگہ ٹھٹک کر رک گیا۔ مرشد کی نازک حالت کے باعث سبھی کے چہرے ستے ہوئے تھے۔ سب ہی کے ذہنوں میں پر تشویش اندیشے کلبلا رہے تھے۔
"آپ …. رو کیوں رہی ہیں ؟” مرشد کے ہونٹ پھر لرزے تھے۔
"اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاو�¿ں گی۔ کبھی سکون کا سانس نہیں لے پاو�¿ں گی۔”
"اس میں آپ کا…. کیا قصور؟”
"سارا قصور میرا ہی ہے۔ میں منحوس ہوں۔میری وجہ سے ہی یہ سب ہوا ہے۔ آپ کیوں میرے سامنے آئے۔ مجھے گولی لگنے دیتے۔مرجانے دیتے مجھے ” وہ سسک اٹھی تھی۔مرشد کی آنکھوں میں کرب سا کسمسایا۔چہرے پر رنج و غم کا سایہ لہرایا۔ اس نے بچی کھچی قوت کو مجتمع کرتے ہوئے سر کو دائیں
بائیں حرکت دی اور بادقت تمام بولا۔
"خدا کے لیے سرکار ! ایسا مت…. سوچیں۔ صد شکر کہ دھرتی کا بوجھ ،یہیہ وجود کسی کام آیا…. میری ہزار زندگیاں…. آپ پہ قربان سرکار!” بات مکمل کرتے ہی وہ لمبے لمبے سانس لینے لگا۔
"میں سرکار نہیں ہوں۔ حجاب نام ہے میرا۔مجھے ایسا احترام چاہیے نہ کوئی قربانی۔مجھے صرف آپ کی زندگی چاہیے۔ سمجھے آپ…. میں آپ کو زندہ دیکھنا چاہتی ہوں اور بس!”اس نے آنسو بہاتے ہوئے جملہ مکمل کیا۔ مرشد کے الفاظ ان الفاظ میں چھپی وارفتگی اور والہانہ پن اس کی روح تک کو جھنجوڑ گیا تھا۔ دل جیسے سینے میں کٹ کر رہ گیا تھا۔
مرشد کا چہرہ لیموں کی طرح زرد تھا۔ سانس اکھڑ رہی تھی، آنکھوں میں اجل خیر دھندلاہٹ بھرآئی تھی۔ آنکھیں کھلی رکھنا بھی جیسے اس کے لیے ایک کار دشوار بن گیا کر رہ گیا تھا اور اس عالم میں بھی جیسے اسے اس کی ذات کے علاو�¿ہ اور کسی بات کی کوئی پرواہ ،کوئی فکر ہی نہ تھی۔
حتا کہ اپنی موت کا بھی جیسے اسے کوئی دکھ ،کوئی افسوس یا کوئی خوف نہیں تھا،بلکہ الٹا ان لمحوں حجاب کو اس کی بجھتی ہوئی آنکھوں میں ایک عجیب الوہی سی طمانیت اور اطمینان بھرا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ وہ اپنی نیم وا غنودہ آنکھوں سے یک ٹک اس کی طرف دیکھ رہا تھا….اس کی نظریں ،اسی کے چہرے کے طواف میں مصروف تھیں….جیسے …. جیسے وہ اپنے ان آخری لمحات میں اس کی صورت کو ہمیشہ کے لیے اپنی بصارتوں میں محفوظ کر لینا چاہتا ہو….ایک نئی دنیا کے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے ،اس کی روشن صورت سے اپنی دھندلی آنکھوں کے لیے زاد راہ سمیٹ لینا چاہتا ہو
حجاب نے بھی اپنے دل و دماغ میں کسی قسم کی کوئی جھجھک یا گھبراہٹ محسوس نہیں کی بلکہ اس کے دل و دماغ میں شدت سے یہ خواہش ابھر آئی کہ مرشد اسے یونہی دیکھتا رہے ….اسی طرح یک ٹک تکتا رہے۔ اس کی آنکھیں کبھی ویران نہ ہوں۔ کبھی بند نہ ہوں لیکن…خواہشیں پوری کہاں ہوتی ہیں!
اچانک مرشد نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔ سانس لینے میں اسے شدید دشواری پیش آنے لگی۔ جسم پر ایک خفیف سی لرزش طاری ہوگئی۔ حجاب فوراً دوسرے ہاتھ سے اس کا سینہ مسلنے لگی تھی۔
"مرشد جی! کیا ہو رہا ہے آپ کو ..مرشد جی!”حجاب نے اپنی آواز میں ایک دہشت زدہ لرزش محسوس کی۔ وہاں پھیلے ہوئے خون کی تازہ اور ثفیل بو اچانک ہی بری طرح اس کے نتھنوں میں گھسنے لگی تھی۔مرشد نے چند لمحے کھینچ کھینچ کر سانس اپنے بے جان ہوتے پھیپھڑوں میں سمٹنے کی کوشش پھر ایک طویل سانس کے بعد پہلے اس کی گردن دائیں طرف کو ڈھلکی اور ساتھ ہی اس کا وجود سیٹ کے ساتھ پھسلتا ہوا دائیں طرف کو کھسکا اور وہ پہلو کے بل گر پڑا۔ اس کا بے جان سر حجاب کے گھٹنے پر آٹکا تھا۔ وہ مکمل طور پر بے حس و حرکت ہو چکا تھا۔ آنکھیں بجھ گئی تھیں۔ دماغ تاریکیوں میں ڈوب گیا تھا۔ سانسوں کی نازک ڈور ٹوٹ چکی تھی۔اس کا ہاتھ ، اس کی گرفت سے آزاد ہوچکا تھا اور وہ سکتہ زدہ سی بیٹھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کے مردہ چہرے کو تک رہی تھی!!۱
٭ ٭ ٭
چند لمحوں کے لئے تو وہ اپنی جگہ بالکل پتھرا کر رہ گئی تھی۔ دل جیسے دھڑکنا بھول گیا تھا۔ پھر اس نے مرشد کے گال تھپتھپائے, اسے ایک دو بار جھنجھوڑا اور یکایک جیسے اس کا اب تک کا سارا ضبط پارہ پارہ ہو کر بکھر گیا۔وہ انتہائی دل دوز انداز میں چیخی تھی۔
"مرشد جی…. آپ مجھے یوں بیچ راستے چھوڑ کر نہیں جاسکتے ۔ مرشد جی…. یا خدایا….”
گاڑی کی اندرونی فضا اس کی قلق انگیز چیخوں سے گونج اٹھی۔ سبھی کے دل دہل اٹھے تھے۔ خنجر تڑپ کا سیٹ پھلانگتا ہوا ان کے قریب آ پہنچا۔ اس نے انتہائی پریشانی اور گھبراہٹ کے عالم میں مرشدکی دھڑکنیں چیک کی۔ اس کے توانا دل نے ابھی شکست تسلیم نہیں کی تھی۔ دل دھڑک رہا تھا۔ زندگی اس کے وجود میں باقی تھی ابھی، سانسوں کی ڈور کمزور سہی لیکن ابھی ٹوٹی نہیں تھی۔
"یہ زندہ ہےکمزوری کی وجہ سے صرف بے ہوش ہوا ہے۔ آپ سنبھالیں خود کو۔”خنجر کی گھمبیر آواز حجاب کے دل و دماغ میں بھرتے آتے اندھیروں میں امید کی روشن کرن کی طرح اتری تھی۔
"یہ زندہ ہے ابھی…. صرف بے ہوش ہوا ہے۔.”
"تو آپ گاڑی کو کدھر لے جارہے ہیں؟ فوراً کسی ہسپتال کی طرف چلیں۔” وہ تیز لہجے میں بولی۔خنجر مرشد کی ٹانگیں سیدھی کرتے ہوئے بولا۔
"ہسپتال نہیں جاسکتے ہم، فوراً دھر لیے جائیں گے سب۔ مرشد نے بھی منع کیا تھا۔”
"پاگل ہوگئے ہیں کیا آپ ….” وہ اس پر پھٹ پڑی۔ ” یہ مر جائیں گے۔انہیں فوری علاج کی ضرورت ہے۔ سیدھے ہسپتال لے کر چلیں انہیں۔ اس وقت ان کی زندگی سے زیادہ ضروری اور کچھ نہیں ہے۔”خنجر نے ایک گہری نظر حجاب کے ہیجانی چہرے پر ڈالی اور مرشد کے زخمی پہلو کی طرف متوجہ ہوگیا۔ خون کے اخراج کی شدت کم ہوچکی تھی لیکن اب بھی رساو�¿ جاری تھا۔ اس کی سفید دھوتی سرخ ہو چکی تھی اور جیپ کا آدھا فرش پوری طرح رنگین ہو رہا تھا۔ اچانک حجاب نے مرشد کا سر اپنے گھٹنے سے اٹھا کر بہ آہستگی نیچے رکھا اور اٹھ کر سامنے کے حصے کی طرف پلٹ کر ٹیپو اور جعفر سے مخاطب ہوئی۔
"گاڑی فوراً ہسپتال کی طرف موڑو…. سنا تم لوگوں نے…. میں کہہ رہی ہوں گاڑی کو فوراً ہسپتال کی طرف لے چلو۔”
عقب سے خنجر نے جعفر کو پکار کر بتایا۔
”مرشد بے ہوش ہے۔ حالت نازک ہے اس کی۔”
"کیسے دوست ہیں آپ! گاڑی کدھر لیے جارہے ہو… ہسپتال کی طرف کیوں نہیں جارہے۔مرشد جی کی زندگی خطرے میں ہے….مرجائیں گے یہ۔” وہ رو رہی تھی، چیخ رہی تھی۔
جعفر پلٹ کر بولا۔ "ہمیں مرشد استاد کی حالت کا پورا اندازہ ہے بی بی جی ! آپ تھوڑا حوصلے اور صبر سے کام لیں۔ ہم بس منزل پر پہنچنے ہی والے ہیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا… اللہ نے چاہا تو مرشد استاد کو کچھ بھی نہیں ہووے گا۔ آپ بس دعا کریں۔”وہ رخ بدلتے ہوئے ٹیپو سے بات کرنے لگا۔ اور حجاب دوبارہ مرشد کے قریب بیٹھ گئی۔باہر بادل زور و شور سے برس رہے تھے اور اندر اس کی آنکھیں …. مرشد کی حالت دیکھ دیکھ کر اس کا دل ڈوب ڈوب جا رہا تھا۔
مرشد کے ساتھ اس کا کوئی رشتہ نہیں تھا لیکن ذہنی اور جذباتی طور پر ایک ایسا گہرا اور مضبوط تعلق بن چکا تھا کہ وہ محسوس کر رہی تھی کہ اگر خدا نخواستہ مرشد کو کچھ ہوگیا تو اسے بھی ضرور کچھ جائے گا ….وہ بھی جی نہیں پائے گی۔ اس کا دل دھڑکنا چھوڑ دے گا, دم گھٹ جائے گا اور وہ خود بھی مر جائے
گی۔وہ خود کو ایک بار پھر سے بے آسرا اور بے سہارا محسوس کرنے لگی تھی۔ ساری دنیا جیسے یکایک پھر سے اجنبی اور نامہرباں ہو گئی تھی۔ اس کا محافظ زندگی اور موت کے درمیان جھول رہا تھا۔ کسی بھی لمحے وہ دم توڑ سکتا تھا اور اگر وہ سچ میں…. سچ میں…. وہ لرز کر رہ گئی….مرشد کی موت کا تصور بھی اس کے لئے سوہان روح تھا۔اس خیال کے ساتھ ہی عدم تحفظ کا خوفناک احساس کسی عفریت کی طرح اسے اپنے دل و دماغ میں پنجے گاڑتا ہوا محسوس ہوا۔موسلادھار برستی بارش کے باوجود جیپ انتہائی مناسب رفتار سے دوڑ رہی تھی پھر بھی حجاب کو یہی لگ رہا تھا کہ وہ دوڑ نہیں رہی بلکہ رینگ رہی ہے۔ اگلے چند منٹ جیسے گھنٹوں پر محیط ہو کر گزرے اور بل آخر جیپ اپنی منزل پر پہنچ گئی۔
یہ کسی ہاو�¿سنگ سوسائٹی میں جدید طرز پر بنی ایک دو منزلہ کوٹھی تھی۔ کوٹھی کا جہازی سائز گیٹ پوری طرح کھلا ہوا تھا۔ ٹیپو جیپ کو سیدھا اندر لیتا چلا گیا۔
سامنے ہی بائیں ہاتھ پر بنے وسیع پورچ میں پہلے سے ایک کار کھڑی تھی۔ٹیپو نے جیپ اس کے برابر جا روکی۔سامنے سے وہ اور جعفر ایک ساتھ اترے اور عقبی طرف سے خنجر رائفل سنبھالتا ہوا باہر نکل گیا۔
حجاب نے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا۔ دائیں ہاتھ ایک برآمدہ نما حصے میں ایک طویل کمرہ سا بنا ہوا تھا جس کے سامنے کا حصہ کاو�¿نٹر نما تھا اور اس کاو�¿نٹر کے اوپر شیشے کی دیوار سی موجود تھی۔ برآمدے میں ایک لڑکی کرسی پر بیٹھی تھی۔ اس کے قریب ہی پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک نوجوان کاو�¿نٹر پر کہنی ٹکائے کھڑا تھا۔دونوں کے ہاتھوں میں چائے کے کپ تھے۔ ایک لڑکے کی جھلک اسے کاو�¿نٹر کے پار شیشے کے اس طرف بھی دکھائی دی۔ ایک دو پوسٹرز اور پورٹریٹ سے اسے فوراً اندازہ ہوگیا کہ یہ کوٹھی پرائیویٹ کلینک کے طور پر استعمال کی جارہی ہے۔
جعفر اور ٹیپو اس طرف بڑھے تھے جب کہ خنجر بیرونی گیٹ کی طرف گیا تھا۔ وہ گیٹ بند کرنے کا ارادہ رکھتا تھا کہ گیٹ کے برابر موجود کیبن سے ایک باوردی سیکورٹی گارڈ کچھ کہتا ہوا فوراً آگے بڑھا۔ اس بے چارے کو ٹھیک سے اندازہ نہیں تھا کہ آنے والے کس صورت حال کا شکار ہیں اور ان کی ذہنی و جذباتی حالت کیا ہے۔اس کے آگے آتے ہی خنجر نے اسے برق رفتاری سے دو بے رحم ضربیں لگائیں اور وہ بارش میں بھیگتے فرش پر گٹھڑی کی صورت ڈھیر ہوگیا۔خنجر نے پھرتی سے گیٹ بند کیا اور پھر سکورٹی گارڈ کو گھسیٹ کر برآمدے کی طرف لے آیا ۔اتنے میں جعفر اور ٹیپو دائیں طرف موجود لڑکی اور نوجوان کو برآمدے کے کونے میں اکٹھا کر چکے تھے۔
جعفر نے پینٹ والے کو دو تین تھپڑ رسید کیے تھے۔ وہ تینوں بری طرح سہم چکے تھے۔ خنجر نے سکورٹی گارڈ کو بھی وہیںلا ڈالا۔ اگلے چند منٹ میں وہ اس کلینک کو پوری طرح قبضے میں لے چکے تھے۔ان چار لوگوں کے علاوہ اندرونی حصے میں سات لوگ مزید موجود تھے۔ان سات میں سے ایک خاتون مریضہ تھی جو ایک اندرونی کمرے میں چادر اوڑھے سو رہی تھی۔ایک عورت اور مرد اس کے ذاتی خادموں کے طور پر اس کے ساتھ تھے۔
باقی چار میں سے دو فیمیل نرسیں تھیں اور دو میاں بیوی تھے جو ڈاکٹرز تھے اور اس کلینک کے مالک بھی۔
جعفر اور خنجر نے ڈاکٹروں اور نرسوں کے علاوہ باقی تمام افراد کو مریضہ والے کمرے میں ہی بند کرکے باہر سے کنڈی لگا دی اور مرشد کو اٹھا کراس چھوٹے سے کمرے میں لے گے جسے آپریشن روم کے طور پر سیٹ کیا گیا تھا۔ دونوں ڈاکٹرز میاں بیوی اور دونوں نرسوں کو ٹیپو وہیں گھیرے کھڑا تھا۔مرشد کا ایک ذرا جائزہ لیتے ہی نفیس طبع ادھیڑ عمر ہراساں ڈاکٹر کے چہرے پر مزید ہوائیاں اڑنے لگیں۔
"یہ… یہ تو سیدھا سیدھا تین سو دو کا کیس ہے۔اس کے بچنے کے چانسز نہیں ہیں۔”
"بکواس کی بجائے علاج شروع کر۔” جعفر نے اس کی کمر میں ہلکی سی دھپ رسید کرتے ہوئے کرخت لہجے میں کہا ۔
آپ… آپ اسے نشتر ہسپتال لے جائیں۔ یہاں اس کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ بہت…. بہت خون ضائع ہو چکا ہے۔“
جعفر نے دانت پیستے ہوئے اسے دو چار کرارے تھپڑ رسید کر دیئے۔
"تجھے بھونکنے سے منع کرا ہے۔ سمجھ نہیں آئی تیرے کو… خنجر ! اس کے گھر والی کی پسلیوں میں فائر مار۔ اسے بھی ساتھ ہی نشتر لے چلتے ہیں۔”
"نن، نہیں… نہیں۔”
"ہم ….ہم کرتے ہیں کچھ۔ پلیز آپ انہیں ماریں نہیں۔.” اس کی فربہ اندام بیوی فوراً چیخ کر بولی۔”افشاں! بلڈ سیمپل لو…. تم وینٹی لیٹر لگاو�¿۔
آپ…آپ بسم اللہ کریں جی! ” اس نے بوکھلائے ہوئے انداز میں ہدایات دینا شروع کیں اور نرسوں سمیت وہ دونوں خود بھی حرکت میں آگئے۔
جعفر ٹیپو سے مخاطب ہوا۔
"بارش کی وجہ سے آج یہاں زیادہ رونق نہیں ہے پھر بھی کوئی نہ کوئی نازل ہو سکے ہے۔ تم جا کر سیکورٹی گارڈ والی جگہ سنبھال لو۔جو بھی آئے اسے کہہ دو آج کلینک بند ہے۔”ٹیپو اثبات میں سر ہلاتا ہوا فوراً باہر نکل گیا۔جعفر خنجر کی طرف متوجہ ہوا۔
"ان کے سر پر یہاں میں سوارر ہوںگا۔ تم قیدیوں والے کمرے کے آس پاس رہو۔ کہیں ان میں سے کسی کو ہیرو بننے کا دورہ نہ پڑ جاوے۔”
"بی بی جی ! آپ بھی باہر برآمدے میں بیٹھیں اور مرشد استاد کے لیے دعا کریں۔”خنجر اور حجاب دونوں باہر نکل آئے۔تشویش اور اندیشوں کا شکار تو وہ سب پہلے ہی تھے۔ اب ڈاکٹر کے رویے اور باتوں نے انہیں مزید پریشان کر دیا تھا۔
مرشد کو دیگر ٹریٹمنٹ کے ساتھ فوری خون کی بھی ضرورت تھی۔ کلینک کے بلڈ بینک میں مرشد کے بلڈ گروپ کی صرف ایک بوتل موجود تھی جو کراس میچنگ کے بعد فوراً ٹرانسفیوژن پروسیجر پر لگا دی گئی لیکن یہ ایک بوتل قطعی طور پر نا کافی تھی لہذا باری باری سب کے بلڈ سیمپلز لیے گے اور سوئے اتفاق ان میں سے صرف حجاب کا بلڈ گروپ میچ ہو پایا اور کراس میچنگ کا رزلٹ بھی پازیٹیو آیا۔اسے بھی آپریشن روم میں بلایا گیا۔ ڈاکٹر بیوی نے بلڈ لینے کا عمل بھگتایا تھا۔ بلڈ بیگ ابھی آدھا ہی بھرا تھا کہ مرشد کو لگایا گیا بیگ خالی ہو گیا سو حجاب والے بیگ سے دوسری بلڈ ٹیوب مرشد کو منتقل کر دی گئی۔ ایک طرف سے خون بیگ میں جمع ہو رہا تھا تو دوسری طرف سے مرشد کے وجود میں داخل ہو رہا تھا۔
کچھ دیر پہلے والی ڈاکٹر کی بوکھلاہٹ اور پریشانی ختم ہو چکی تھی۔ اب وہ مکمل طور پر اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور سنجیدگی کے ساتھ مرشد کے پہلو میں موجود گولی کے گھاو�¿ کے ساتھ مصروف عمل تھا۔ اس کی ڈاکٹر بیوی اس کو اسسٹ کر رہی تھی۔ دونوں نرسیں گھبرائی سہمی ایک طرف کھڑی تھیںاور دروازے کے قریب رائفل بدست جعفر سنجیدہ اور خاموش کھڑا قدرے متفکر اور پریشان نظروں سے مرشد کی طرف دیکھ رہا تھا۔مرشد کے چہرے پر چھائی زردی اور مردنی کی تاب نہ لاتے ہوئے حجاب نے چہرہ اس کی طرف سے پھیر کر آنکھیں بند کر لیں تھیں۔ وہ دل ہی دل میں مسلسل اس کی زندگی اور سلامتی کے لیے دعائیں مانگ رہی تھی۔پردہ تصور پر اس کے ساتھ گزرے ہوئے اب تک کے وقت کے مختلف واقعات باری باری اپنی جھلک دکھلا رہے تھے۔
پہلی بار اس نے اسے انتہائی غیض و غضب کے عالم میں دیکھا تھا…. اس وقت جب نزاہت بیگم نے اسے کوٹھے کے باغیچے والے کمرے میں قید کر رکھا تھا۔ وہ لمحات اس کے اپنے لیے بڑے کٹھن اور تکلیف دہ تھے۔مکروہ صورت ہاشو اس کے سامنے کھڑا انتہائی غلیظ نظروں سے اسے گھور رہا تھا اور نزہت بیگم اور ہاشو کے درمیان اسے بے آبر�±و کرنے کے حوالے سے صلاح مشورہ ، ہو رہا تھا۔ اس لمحے مرشد اندر داخل ہوا تھا اور اس نے آتے ہی ہاشو کے منہ پر تھپڑ رسید کیا تھا۔ ہاشو…. جو حجاب کو ان لمحوں ایک بھیانک دیو محسوس ہو رہا تھا ، مرشد اسے گریبان سے پکڑ کر یوں گھسیٹ کر
کمرے سے باہر لے گیا تھا جیسے وہ ایک معمولی اور حقیر کہچوے سے زیادہ کوئی حیثیت نہ رکھتا ہو…. اس وقت مرشد کی اس آمد پر ان سب کو اپنی پڑ گئی
تھی۔ حجاب کی طرف مرشد نے دیکھا تک نہیں تھا۔
اس کے بعد وہ حسن آرا کے کمرے میں نماز پڑھ رہی تھی نماز کے دوران اس کا رواں رواں خدا کے حضور رحم، مدد، اور اپنی داد رسی کے لیے گڑگڑاتا رہا تھا…. اس کی ایک ایک سانس فریاد کناں اور ہر ایک دھڑکن دعا گو رہی تھی۔سلام پھیرنے کے بعد آنکھیں کھولتے ہی اس نے مرشد کو کمرے کے دروازے میں کھڑے پرشوق نظروں سے اپنی طرف دیکھتے پایا تھا اس لمحے وہ مرشد کو دیکھتے ہی بری طرح سے دہشت زدہ ہو گی تھی۔ یہ بات تو اسکے وہم و گمان کو بھی چھو کر نہ گزری تھی کہ یہ اکھڑ، بدمعاش دراصل اسکی دعاوں کا حاصل ہے اسے خدا نے اس کی مدد اور داد رسی کے لیے ہی اس کی طرف بھیجا ہے وہ تو خوف و گھبراہٹ سے اٹھ کر دروازے سے جا لگی تھی جب کہ مرشد خاموشی سے جائے نماز اٹھا کر کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔لیکن جانے سے پہلے حجاب کی گھبراہٹ اور خوف کو محسوس کرتے ہوئے اس نے جن حیرت بھری نظروں سے اسکی طرف دیکھا تھا وہ نظریں آج بھی حجاب کے حافظے میں چپکی ہوئی تھیں۔
مرشد اور اس کی ماں… یعنی خالہ حسن آرا سے تعارف ہوتے ہی وہاں اس کے ارد گرد موجود بے حس، خون آشام بدروحوں کو خود بہ خود ایک نادیدہ نکیل ڈل گئی تھی۔مرشد خم ٹھوک کر چوہدریوں جیسے فرعونوں کے مقابل آ کھڑا ہوا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن مرشد سائے کی طرح اس کے ساتھ ساتھ تھا۔ مسلسل دشمنوں سے نبرد آزما تھا۔ چوہدری اپنی ساری طاقت ….سارا زور صرف کئے ہوئے تھے۔ دولت کے بل بوتے پر کئی پیشہ ور مجرموں کے علاوہ پولیس والوں کو بھی انہوں نے مرشد اور حجاب کے پیچھے لگا رکھا تھا لیکن اس کے باوجود بھی وہ حجاب کا ککھ نہ بگاڑ پائے تھے اپنی تمام تر طاقت اور اثر و رسوخ استعمال کرنے کے بعد بھی وہ تاحال نامراد و ناکام تھے اور ایسا صرف اور صرف مرشد کی بدولت تھا اس نے اب تک ہر قدم, ہر محاذ پر دشمنوں کے دانت کٹھے کیے تھے۔کتنی بار اسے جان لیوا صورت حال سے نکال لایا تھااور ہزار رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود اسے ساتھ لیے مسلسل آگے کا سفر جاری رکھے ہوئے تھا…. بغیر کسی خوف، کسی پریشانی کے۔
حجاب نے اس کے حدت آمیز سرخ و سفید چہرے پر ہمیشہ ایک عزم و استقلال کی جھلک دیکھی تھی۔ اس کی موٹی موٹی آنکھوں میں یقین اور اطمینان کا ایک سمندر ہلکورے لیتا تھا۔ بھاری مردانہ آواز اور لب و لہجے میں بے خوفی اور ایک غیر متزلزل اعتماد بولتا تھا، جسے سن کر حجاب کے سارے اندیشے اور خوف ہیج ہو کر رہ جاتے تھے۔ دل و دماغ میں خود بہ خود بے فکری اور گہرا اطمینان اتر آتا تھا۔
بھرپور زندگی کی حرارتوں سے جگمگا نے والے اسی چہرے پر اب گہری زردی کھنڈی ہوئی تھی…. دیکھنے والی آنکھ کو ہراساں کر دینے والی مرونی طاری تھی…. ناقابل تسخیر دکھائی دینے والے، یقین و اطمینان سے بھری رہنے والی آنکھیں دھندلا کر بند ہو چکی تھیں۔ اسے دیکھ دیکھ کر مسکراتے رہنے والے ہونٹ سیاہ پڑے ہوئے تھے۔ ان پر خشکی کی پیپڑیاں سی جمی ہوئی تھیں اور اس کی یہ قابل رحم حالت خود حجاب ہی کی وجہ سے تھی…. یہ سب سوچ سوچ کر اس کا دل اندر ہی اندر کٹتا جا رہا تھا۔
سات افراد کی موجودگی کے باوجود اس کمرے کی فضا میں گہری خاموشی پھیلی ہوئی تھی۔ حجاب اور مرشد برابر برابر پڑے بیڈز پرلاشوں ہی کی طرح خاموش اور ساکت لیٹے ہوئے تھے۔ دونوں کی آنکھیں بند تھیں۔ ان کے درمیان تین چار فٹ کا فاصلہ تھا اور اس فاصلے کے باوجود بلڈ ٹرانسفیوژن والی باریک نالیاں ان دونوں کو آپس میں جوڑ رہی تھیں۔ حجاب کے وجود سے قطرہ قطرہ خون نکل رہا تھا اور دوسری طرف یہی خون ایک نئی زندگی کی صورت قطرہ قطرہ مرشد کے وجود میں اتر رہا تھا ایک بلڈبیگ مکمل ہونے کے بعد ڈاکٹر نے تجویز پیش کی تھی کہ اب جن افراد کو ایک کمرے میں بند کیا گیا ہے ان کے بلڈ سمپلز لیے جائیں یا پھر کہیں باہر سے مزید خون کا انتظام کیا جائے لیکن حجاب نے انہیں ایسا نہیں کرنے دیااس کا کہنا تھا کہ
مزید بھی جتنا خون مرشد کو دیا جانا ہے وہ اس کے وجود سے نکالا جائے۔ حالانکہ ڈاکٹر اس حق میں نہیں تھا مگر حجاب نے اس کی پیش نہیں چلنے دی۔ وہ ازحد جزباتی ہو رہی تھی۔ گویا وہ ایک احساس جرم کا شکار تھی کہ مرشد کی اس حالت کی وجہ وہی ہے۔ وہی ذمہ دار ہے اس سانحے کی لہذا وہ اپنی جان دے کر بھی مرشد کی جان بچا لینے کا عزم کیے ہوئے تھی۔
کچھ پس و پیش کے بعد ایک بوتل خون کی مزید اس کے وجود سے مرشد کے وجود میں منتقل کر دی گئی البتہ اس سے خود حجاب کو ہاتھوں پیروں میں ایک سنسناہٹ سی محسوس ہونے لگی تھی۔ کنپٹیاں جیسے سن ہو گئی تھیں۔ یہ دو بوتلیں دینے کے بعد جب وہ بیڈ سے اترنے لگی تو دماغ چکرا کر رہ گیا۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا پھیل گیااور وہ دوبارہ بیڈ پر بیٹھ گئی۔ ڈاکٹر بیوی نے اسے دوبارہ لٹا دیا اور جعفر کو بتایا کہ دوسری منزل پر فریج میں دودھ، جوس اور فروٹ وغیرہ موجود ہے۔ وہ جا کر لے آتی ہے لیکن جعفر نے اس کی بجائے خنجر کو اوپر بھیجا اور وہ محض پانچ منٹ میں تمام چیزیں ایک ٹوکری میں ڈال کر واپس آگیا۔ اس نے جوس کا گلاس بھر کر حجاب کو تھمایا تھا۔
ڈاکٹر اپنی کاروائی مکمل کر چکا تھا۔ مرشد کے گھاو�¿ کی ڈریسنگ ہو چکی تھی لیکن ڈاکٹر کے تاثرات کچھ حوصلہ افزا نہیں تھے۔
” ہاں ڈاکٹر صاحب! کیسی حالت ہے ہمارے بندے کی؟” خنجر متفسر ہوا تو ڈاکٹر ہچکچاتے ہوئے بولا۔
” ہمارے ہاتھ بس میں جو کچھ تھا وہ ہم نے کر دیا ہے ۔اب…. اب آپ چاہیں تو انہیں لے جا سکتے ہیں۔”
"کہاں؟ "اس نے بھنویں اچکاہیں۔
” جہاں…. جہاں آپ کا دل چاہے۔ "
"دماغ ہل گیا ہے کیا تیرا…. اس حال میں ہم اسے کہاں لے جا سکتے ہیں جاہل آدمی! اب چند دن ہم لوگ یہاں مہمان بن کر رہیں گے۔ کم از کم تب تک جب تک اس بندے کی طبیعت کچھ سنبھل نہیں جاتی۔.” خنجر ایک سیب چھیلتے ہوئے بولا تو ڈاکٹر کی پریشانی میں آ ضافہ ہو گیا۔
"مم، مگر…. مگر یہ تو…. یہ”
"یہ تو کیا؟” خنجر نے سوال اٹھایا۔
"یہ تو پولیس کیس ہے۔ ہم نے آپ کی مدد کی ہے… آپ آپ اب ہمارے لیے مشکل تو نہ کھڑی کریں۔ انہیں کچھ ہو گیا یا پولیس کو پتہ چل گیا تو ہمارے لیے بڑی پریشانی بن جائے گی۔”
"انہیں کچھ کیوں ہو گا…. خون بھی لگ گیا ہے اور زخم کی بھی مرہم پٹی کر دی ہے تم نے اب کیا مسئلہ ہے؟”
ڈاکٹر نے تھوک نگل کر انتہائی بےچارگی اور پریشانی سے سب کی طرف دیکھا۔
"کیا کوئی خطرے کی بات ہے؟” حجاب نے دھڑکتے دل سے پوچھا۔ وہ بیڈ پر بیٹھی تھی۔ خنجر اس کے قریب کھڑا تھا۔ دونوں نرسیں اور ڈاکٹر کی بیوی اس بیڈ کے سرہانے کی طرف موجود تھیں۔ جب کے ڈاکٹر مرشد کے پہلو کی طرف کھڑا تھا اور جعفر چند قدم پرے دروازے کے قریب۔ سبھی کی نظریں ڈاکٹر کی طرف متوجہ تھیں۔
"دیکھیں…. ایسی کنڈیشن میں یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اچھی بات یہ ہے کہ گولی نے ہڈی یا کسی باڈی آرگن کو نقصان نہیں پہنچایا صرف…. صرف گوشت پھاڑ کر نکل گئی ہے لیکن آپ نے ان کو یہاں لانے میں خاصی دیر کر دی ہے۔ ان کا جتنا خون ضائع ہوا ہے اس کے بعد بھی ان کی سانس چل رہی ہے یہی ایک غیر معمولی سی بات ہے مگر…. "ڈاکٹر جھجک کر خاموش ہو گیا۔
"مگر کیا…. صاف صاف بات کر۔” خنجر نے سیب حجاب کو تھماتے ہوئے ڈاکٹر کو جھاڑ پلائی۔
"مگر ان کی حالت ابھی تک خطرے سے باہر نہیں ہے۔”ڈاکٹر کا لب و لہجہ اور چہرے کے تاثرات اس بات کی غمازی کر رہے تھے کہ معاملے کی سنگینی ان سب کی توقعات سے بڑھ کر ہے۔ ڈاکٹر واشگاف الفاظ میں بتانے سے ہچکچا رہا تھا تو وہ سب بھی جیسے اس بات کو سمجھتے ہوئے اپنی اپنی جگہ خاموش ہو رہے۔ کسی نے بھی ڈاکٹر سے مزید کوئی سوال نہیں کیا تھا۔
اس دوران وہ اتنا جان چکے تھے کہ اس کلینک کی اوپری منزل پر ڈاکٹر کی رہائش ہے۔ ان کے دو بچے تھے جو فی الوقت اپنی خالہ کے گھر گئے ہوئے تھے۔ ایک نرس اور حجاب کو مرشد کے قریب چھوڑ کر باقی تینوں کو خنجر اور جعفر نے آپریشن روم سے باہر نکالا اور دروازے کو باہر سے کنڈی لگادی۔
ان کا ارادہ تھا کہ فی الحال ان تینوں کو بھی دیگر افراد کے ساتھ بند کر دیا جائے اور پھر باہمی صلاح مشورے کے بعد آگے کا پروگرام طے کیا جائے۔ ڈاکٹر لجاجت بھرے انداز میں ان سے بات کرتا رہا۔ اس کی کوشش تھی کہ کسی طرح وہ لوگ ان کی جان چھوڑ دیں اور مرشد کو لے کر چلے جائیں لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا۔ باہر کی صورت حال کے حوالے سے ان کے ذہنوں میں ڈھیروں ڈھیر اندیشے تھے اور ساتھ ہی یہ پریشانی بھی تھی کہ ملنگی کے توسط سے ڈپٹی اعوان پہلے ہسپتال اور پھر یہاں اس کلینک تک بھی پہنچ سکتا تھا۔یہ شہر کوئی زیادہ بڑا نہیں تھا۔ ایک دو ہسپتالوں کے علاوہ یہاں چند ایک ہی اچھے کلینک موجود تھے لہذا اس ڈگر پر چلتے ہوئے ان کے دشمنوں اور پولیس والوں کو یہاں تک پہچنے میں کوئی بہت زیادہ دقت نہیں اٹھانا پڑتی۔
مریضہ والا کمرہ اس راہداری کے آخری کونے میں تھا۔ خنجر نے وہاں پہنچ کر دروازے کی کنڈی ہٹائی اور ڈاکٹر کو اندر دھکیلا۔ ڈاکٹر ان کے سامنے گھگیا رہا تھا۔ اسی لمحے اندرونی طرف سے ایک جھنجھلائی ہوئی سی نسوانی آواز ان کی سماعتوں تک پہنچی۔
"کیا تماشہ ہو رہا ہے یہ سب …. کون لوگ ہیں یہ ؟”جعفر یہ آواز سنتے ہی قدرے چونکا تھا۔ اس نے ایک ذرا جھانک کر دیکھا۔ اندر بائیں ہاتھ کونے میں بیڈ پر مریضہ نیم دراز تھی۔اس کے چہرے پر گہری ناپسندیدگی اور ناگواری کے تاثرات تھے۔ جعفر کی صورت پر نظر پڑتے ہی وہ بھی چونکی تھی۔
"ارے…. تو یہاں؟” جعفر بے اختیار سوال کرتے ہوئے اندر داخل ہو گیا۔ اسے حیرت کا اچھا خاصہ جھٹکا لگا تھا۔ اس کے عقب میں خنجر نے پاو�¿ں اندر رکھا تو مریضہ کے چہرے پر نظر پڑتے ہی وہ بھی بری طرح چونک پڑا، دوسری طرف مریضہ بھی اپنی جگہ ہکی بکی سی پڑی ان دونوں کی طرف تک رہی تھی۔ وہ تینوں ہی ایک دوسرے سے بہ خوبی آشنا تھے۔ وہ مریضہ کوئی اور نہیں فیروزہ تھی…. فیروزہ …ہیرا منڈی کی طوائف ، مرشد کی عاشق جو زریون علی کے حواسوں پر سوار تھی۔
قریب ایک ہفتہ پہلے ڈسکہ میں رانا سرفراز کی کوٹھی پر اس کے کندھے میں گولی لگی تھی اور زریون اسے گاڑی میں ڈال کر لے گیا تھا۔ بعد میں انہیں پتا چلا تھا کہ وہ گوجرانوالہ کے ایک ہسپتال میں پڑی ہے اور اب وہ گوجرانولہ سے سینکڑوں میل دور یہاں…مظفر گڑھ کے اس کلینک میں نظر آرہی تھی۔ اب سے پہلے جب وہ لوگ دیگر افراد کو یہاں دھکیل کر گئے تھے تو اس وقت وہ چادر اوڑھے سو رہی تھی اس لیے وہ اس کے متعلق جان نہیں پائے تھے۔
"فیروزہ …. تو یہاں کیسے؟” جعفر متعجب سا اس کے قریب جا پہنچا۔ اس کے کندھوں اور گردن کے پیچھے دو تکیے رکھے تھے۔ اس کے علاو�¿ہ کمرے میں اس وقت نو افراد مزید موجود تھے جن میں سے دو دیہاتی صورت مرد و عورت اس کے خدام تھے۔ یہ انہیں نو عمر کمپاو�¿نڈر نے بتایا تھا۔
"میں…. میری مت پوچھو۔ مرشد کدھر ہے؟” اس نے سرسراتے لہجے میں سوال کیا۔ اتنا وہ سن چکی تھی کہ کچھ مسلح لوگ اپنے ایک زخمی ساتھی کے ساتھ کلینک میں گھس آئے ہیں اور کلینک پر ان لوگوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ خنجر اور جعفر تو صیح سلامت اس کے سامنے کھڑے تھے تو پھر یقینی طور پر ان کا ساتھی ہی زخمی تھا…. یعنی خود مرشد۔
"مرشد… مرشد استاد بھی یہیں ہے۔”
"کیا ہوا ہے اسے؟“ اس نے اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا۔ ڈاکٹر فورا اس سے مخاطب ہوا۔
"آپ لیٹی رہیں۔ آپ کے زخم کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔.”دیہاتی عورت فوراً لپک کر اس کے پاس پہنچ گئی۔
"فیروجا بی بی ! آپ آرام سے لیٹی رہیں۔”
خنجر بولا ” وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔ گولی کا معمولی سا زخم ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مرہم پٹی کر دی ہے اس کی… نیند کا ٹیکا لگا دیا ہے تو سو رہا ہے۔ پریشانی والی کوئی بات نہیں۔ "
” میں ابھی اسے دیکھنا چاہتی ہوں "اس نے بےقرار نظروں سے ان دونوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کو دیکھا۔
ڈاکٹر بولا.” آپ لوگ ایک دوسرے کو کیسے جانتے ہیں؟ ” وہ الجھن زدہ سا تھا جعفر مسکراتے ہوئے بولا۔
” ہم ایک ہی قبیل سے ہیں اور…. ایک ہی خاندان سے۔”
” یہ کیا تیری باجی لگتی ہے؟ "خنجر ڈاکٹر کی طرف دیکھ کر چبھتے ہوے لہجے میں بولا، اس کا اشارہ فیروزہ کی طرف تھا۔
"جج…. جی کیا؟”
"یہ پولیس کیس نہیں تھا کیا…. یا ادھر تیری رشتہ داری نکل آئی تھی؟”
"یہ…. یہ تو وہ… “ڈاکٹر سے بات نہ بن سکی۔ فیروزہ جعفر سے مخاطب ہوئی۔
"کہاں گولی لگی ہے مرشد کو؟”
"بس ایسے پسلیوں کی طرف سے تھوڑا سا گوشت ادھیڑ کر نکل گئی ہے۔.”
"وہ…. وہ واقعی ٹھیک ہے نا؟”
"وہ ٹھیک نہ ہوتا تو ہم تجھے اتنے پرسکون نظر آتے کیا؟ ” ایسی چھوٹی موٹی چوٹ یا زخم سے کچھ نہیں بگڑنے والا مرشد استاد کا…. تو یہ بتا کہ تو یہاں کیسے آئی؟ "اس کے سوال کے جواب میں فیروزہ نے کمرے میں موجود باقی افراد کی طرف دیکھا، سبھی پریشان دکھائی دے رہے تھے۔
” ان سب کو یہاں کیوں بند کر دیا ہے؟”
"تجھے تو حالات کا اندازہ ہو جانا جاہیے۔”
” مجھے اس رش سے گھٹن ہو رہی ہے۔.”
"انہیں کسی دوسرے کمرے میں پہنچا دیتے ہیں۔.”
"ہم لوگوں سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں۔ ” لیڈی ڈاکٹر جلدی سے بولی۔ اب تو ویسے بھی آپ فیروزہ باجی کے خاندان سے ہیں تو بات ہی کچھ اور ہو جانی ہے۔.”
"ہاں بالکل! مس فیروزہ ایک طرح سے یہاں کی مالک ہیں۔ آپ کلینک کو اپنی ملکیت ہی سمجھیں۔ بس ہمیں ادھر ادھر بند مت کریں آپ۔” ڈاکٹر نے فوراً اپنی بیوی کی تائید کی. جعفر نے معنی خیز نظروں سے فیروزہ کی طرف دیکھا۔
” فیروزہ جی…. مالک”
” یہ دونوں ٹھیک کہ رہے ہیں۔ شریف اور اچھے لوگ ہیں دونوں۔ تم لوگ بھروسہ کر سکتے ہو ان کی زبان پر۔” فیروزہ نے بجھے بجھے سے لہجے میں کہا۔ اس کے چہرے پر بددلی اور بےزاری سی تھی۔
"‘ٹھیک ہے۔ تم دونوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ فی لحال تو چپ چاپ سب کے سب ادھر سامنے والے کمرے میں گھس جاو۔.” جعفر نے کہا اور اس کے بعد سب کو ہانک کر راہداری میں سامنے کے رخ موجود ایک کمر ے میں بند کر دیا گیا۔ جعفر نے کمرے میں موجود دوسرا بیڈ گھسیٹ کر فیروزہ والے بیڈ کے قریب کر لیا۔
” ہاں تو فیروزہ جی! یہ سب کیا چکر ہے…. کب خریدا ہے یہ کلینک، یہ خادم لوگ اور ملازموں کی فوج…. کیا ہے یہ سب؟” وہ دونوں ہی دوسرے بیڈ پر ٹک گئے تھے۔
"نصیب کی مار ہے یہ سب اور کچھ نہیں…. پہلے مجھے کوٹھے سے اغوا کیا گیا۔ گوجرانوالہ ہسپتال تھی کہ اماں لوگوں کو پتہ چل گیا۔ وہ مجھے واپس لے کے جانا چاہتی تھیں کہ وہاں ہسپتال سے بھی مجھے بے ہوش کر کے اغوا کیا گیااور راتوں رات یہاں پہنچا دیا گیا ہے۔.” وہ بے زاری سے بولی
خنجر نے پوچھا.۔” تجھے یہاں لانے والا کون ہے؟”
"وہی بگڑاہوا سید زادہ…. زریون.. یہ سب لوگ اس کے سامنے بچھ بچھ جاتے ہیں۔ خادموں کے نام پر جو تم نے مرد و عورت دیکھے ہیں ان کو بھی وہی یہاں چھوڑ کر گیا ہے۔ خادم کاہے کے…. پہرے دار ہیں مجھ پر…. منحوس مارے۔”
” میرا بھی یہ ہی اندازہ تھا کہ تجھے یہاں لانے والا زریون ہی ہو گا. "خنجر نے تفہیمی انداز میں سر ہلاتے ہوے کہا۔
” یہ زریون کون ہے اور کیا مسئلہ ہے اس کے ساتھ؟” جعفر متعجب ہوا۔
"ہے ایک نمونہ…. کسی کم ظرف باپ کی اولاد…. سادات کے نام پر دھبہ۔ جوانی کی بھاپ دماغ کو چڑھی ہوئی ہے.. نہ عملی طور پر کچھ کرتا ہے نہ جان چھوڑتا ہے…. دماغ ٹھکانے پر نہیں ہے اس کا۔” فیروزہ کے لب و لہجے میں تلخی گھل آئی۔جعفر یک دم چونک پڑا۔ اسے اچانک کچھ یاد آگیا تھا.
” یہ… یہ کہیں وہ تو نہیں جس نے ایک دفعہ سحری کے وقت تیرے گھر کے سامنے تماشا کھڑ ا کیا تھا بعد میں کسی نے اس پر اور اس کے دوستوں پر فائرنگ بھی کی تھی۔ "
” ہاں وہی پاگل ہے…. اول درجے کا بدتمیز اورخود سر ہے۔”
"ابھی اس وقت کہاں ہے؟” خنجر نے پوچھا۔ اس کے ذہن میں اچانک ایک ساتھ کئی خیالات کلبلا نے لگے تھے۔
” اس شہر میں ان لوگوں کی کچھ زمینیں، باغات اور کوئی فیکٹری وغیرہ بھی ہے۔ ادھر ہی کہیں ہو گا۔ روز ایک آدھ چکر لگا جاتا ہے۔ "
” کس وقت آتاہے؟”
"کوئی مخصوص وقت نہیں ہے۔ دن رات میں جب دل کرے آ جاتا ہے کلیجہ جلانے، دماغ کھانے.۔” خنجر سوچ میں پڑ گیا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ
حجاب کے رشتہ داروں میں سے ہے لیکن اس کا ملنا ملانا حجاب کے دشمنوں سے تھا شاید اسی لیے مرشد نے بھی اس کی طرف سے احتیاط برتی تھی اور حجاب کے حوالے سے اس پر کچھ بھی ظاہر نہیں کیا تھا لیکن اس وقت مرشد بے ہوش پڑا تھا۔ زندگی و موت سے لڑ رہا تھا۔ حجاب بھی یہیں موجود تھی اور ان کے سب ہی دشمن کثیر تعداد میں اس شہر اور اس شہر کی داخلی حدود پر موجود تھے۔
فیروزہ جعفر سے مرشد اور حجاب کے متعلق پوچھ رہی تھی۔ خنجر خاموشی سے آٹھ کر باہر نکل آیا۔ پریشانی کے ساتھ ساتھ اس کا زہن الجھن کا شکار ہو آیا تھا۔زریون کا حجاب کے ساتھ دور نزدیک کا جو بھی رشتہ بنتا تھاوہ اس کے لیے ناداں دوست ثابت ہوتا اور سیانے لوگوں کا فرمان ہے کہ ناداں دوست سے دانا دشمن بہتر مرشد نے رانا سرفراز کی کوٹھی پر زریون کو حجاب کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔ دیگر وجوہات کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ زریون مرشد کی زات کے پس منظر سے بخوبی واقف تھا اور مرشد نہیں چاہتا تھا کہ اس کا حجاب کی ذات سے کوئی تعلق واسطہ ظاہر ہو۔ اس نے حجاب سے بھی زریون کے متعلق کوئی بات نہیں کی تھی۔ صاف لفظوں میں منع کیا تھا کہ وہ منزل پر پہنچنے کے بعد اپنے پھوپھا پھوپھی یا وہاں کے کسی فرد پر یہ ظاہر نہیں کرے گی کہ اس کا کچھ وقت کسی کوٹھے پر گزرا ہے یا وہ وہاں کے کسی بندے کو جانتی ہے۔
مرشد اب ہوش و حواس سے دور آپریشن روم میں نیم مردہ حالت میں پڑا تھا لیکن خنجر اس کے جزبات و احساسات اور اس کے مقصد کے متعلق جانتا تھا۔ ان حالات میں وہ ساری زمہ داری وہ اپنے سر محسوس کر رہا تھا۔ اپنی، اپنے ساتھیوں اور مرشد و حجاب کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اسے مرشد کے جزبات و احساسات اور اس کے ارادوں کا بھرم بھی نبھانا تھا۔ اس نے طے کر لیا تھا کہ زریون جس وقت بھی آیا اول تو خود اس کے سامنے نہیں آئے گا اور کوشش یہ کی جائے گی کہ اسے ان لوگوں کی یہاں موجودگی کے بارے میں معلوم ہی نہ ہو پائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو سکا تو کم از کم وہ حجاب اور زریون کو ایک دوسرے کی یہاں موجودگی کے حوالے سے ضرور لاعلم رکھے گا۔ یہ سارا معاملہ اور وجوہات اس نے جعفر کو بھی اچھے سے سمجھا دی تھیں۔
وہ رات سبھی نے انتہائی بے چینی اور بے سکونی میں گذاری۔ حجاب نماز ادا کرنے کے بعد اسی جگہ بیٹھی مرشد کی زندگی اور صحت و سلامتی کے حوالے سے دعائیں کرتی رہی۔ باقی سب بھی دعائیں تو مانگتے رہے لیکن مرشد کی حالت میں کوئی سدھار محسوس نہیں ہوا۔
جعفر نے گن پوائنٹ پر فیروزہ کی خادمہ اور ایک نرس کی خدمات حاصل کرتے ہوئے رات کا کھانا تیار کروایا لیکن کم از کم ان میں سے کوئی بھی ڈھنگ سے کھا نہیں پایا۔بارش تقریباً نصف رات تک جاری رہی کبھی اس کی شدت کم ہو جاتی اور کبھی زیادہ۔اس دوران ٹیپو نے دو تین بار فون پر ملک منصب کی حویلی میں رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکامی ہوئی۔فون ڈیڈ پڑا تھا۔انہیں اندیشہ تھا کہ اور کوئی آئے یا نہ آئے، یہاں موجود ملازمین میں سے کسی کے گھر سے ضرور کوئی آوارد ہوگا لیکن حسن اتفاق سے ایسا نہیں ہوا۔ شاید ملازمین کا رات یہاں رک جانا کوئی ایسی غیر معمولی بات نہیں تھی اور اس رات تو ویسے ہی موسم بڑا حشر انگیز رہا تھا۔
حجاب اور تاجل کے علاو�¿ہ وہ تینوں رات بھر جاگتے رہے اور اپنی اپنی جگہ چوکس رہے۔ تینوں ہی کو دھڑکا لگا رہا تھا کہ کسی بھی پل اچانک گیٹ دھڑ دھڑایا جائے گا یا پولیس والے دیواروں پر سے فائرنگ کرتے ہوئے یکایک اندر کود آئیں گے۔ یا پھر ملنگی یا چوہدری کے ڈشکرے کسی طرف سے ہلا بول دیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا اور رات لمحہ لمحہ سرکتی گئی۔ تاجل راہداری ہی کے ایک کونے میں سمٹ کر یوں بے سدھ ہو کر سو گیا تھا جیسے وہ ننگے فرش پر نہیں بلکہ کسی بہترین بیڈ پر دراز ہو۔حجاب، جعفر اور خنجر کے کہنے کے باوجود اوپری منزل پر نہیں گئی۔ وہ مرشد کے آس پاس رہنا چاہتی تھی۔ مرشد کو آپریشن روم کے برابر والے ایک کمرے میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ نرس بھی اس کمرے میں تھی اور حجاب بھی۔ وہیں ایک کرسی پر بیٹھے بیٹھے وہ سو گئی۔
غنودگی خود بخود حواسوں پر سوار ہو آئی تھی اور یقیناً ایسا خون کی دو بوتلیں دینے کے باعث ہوا تھا۔
اس نے ڈھنگ سے کھانا تو نہیں کھایا تھا البتہ خنجر نے مختلف باتوں اور حیلوں بہانوں سے کام لیتے ہوئے اسے تھوڑا سا فروٹ کھلا دیا تھا اور وقفے وقفے سے دو تین گلاس دودھ بھی پلا دیا تھا۔
رات کا آخری پہر تھا۔ کچھ ہی دیر تک فجر کی آذانیں ہونے والی تھیں۔ خنجر،جعفر اور ٹیپو برآمدہ نما حصے میں کرسیاں ڈالے بیٹھے تھے۔ خنجر اور جعفر مرشد کی طرف سے تشویش و پریشانی کا شکار تھے تو ٹیپو بشارت کی موت پر انتہائی دل گرفتگی کا شکار تھا۔اس بات کا بھی اسے از حد قلق تھا کہ وہ لوگ اس کی لاش کو وہیں چھوڑ کر نکل بھاگے تھے لیکن ایسا مجبوراً کرنا پڑا تھا۔
حالات ہی ایسے تھے ….خنجر کا کہنا تھا کہ مرشد نے موقع پر ہی بشارت کی موت کا حساب چکتا کر دیا تھا۔فوجی کی موت فوجی گروپ کے لیے کوئی معمولی بات نہیں ۔ ان کے لیے یہ نقصان ناقابلِ تلافی تھا۔ یہ نقصان کسی صورت پورا ہونے والا نہیں تھا۔
خنجر جانتا تھا کہ ملنگی اورفوجی اپر پنجاب کے علاقوں میں کیسی دہشت رکھتے ہیں۔ فوجی کی اس اچانک موت سے ڈپٹی اعوان کے ساتھ ساتھ رانا سرفراز کو بھی اچھا خاصا دھچکا لگنا تھا۔ ان دونوں کے مفادات کے لیے فوجی نجانے کیسے کیسے گھناو�¿نے اور سفاک جرائم میں ملوث رہا تھا اور آخر کار اب اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا۔مرشد کی چلائی ہوئی گوئی اس کا حلق چیرتی ہوئی گدی پھاڑ کر نکل گئی تھی۔
وہ تینوں بیٹھے ان ہی باتوں میں مصروف تھے کہ بیرونی گیٹ کے سامنے آکر رکنے والی گاڑی کی آواز سن کر بری طرح چونک پڑے۔ گیٹ کے نیچے سے ہیڈلائٹس کی روشنی اندر آئی تھی اور ساتھ گاڑی والے نے ہارن بجایا تھا ۔ٹیپو گیٹ کی طرف بڑھا ،خنجر نے ستون کی اوٹ لے لی اور جعفر رائفل سنبھالتا ہوا بائیں ہاتھ رسیپشن کاو�¿نٹر کی طرف لپک گیا۔ٹیپو نے گیٹ کے اوپری حصے میں موجود پلیٹ سلائیڈ کرتے ہوئے جھانک کر باہر دیکھا اور کچھ کہا۔ گاڑی کی ہیڈ لائٹس آف ہوگئیں۔ غالباً گاڑی والے نے بھی کچھ کہا تھا۔
اچانک ٹیپو نے عجیب حرکت کی …. اس نے بغلی دروازہ کھولا اور باہر نکل گیا۔اس کی اس حرکت پر خنجر اور جعفر دونوں ہی ہونٹ بھینچ کر رہ گئے تھے۔ محض چند ہی لمحے بعد وہ افتاں و خیزاں دوبارہ واپس اندر آیا۔ اس نے برق رفتاری سے گیٹ کا کھٹکا ہٹایا اور اگلے ہی لمحے گیٹ چوپٹ کھول دیا۔ جعفر اور خنجر اپنی اپنی جگہ حیران و پریشاں تھے کہ گیٹ کے سامنے کھڑی نئے ماڈل کی کار حرکت میں آئی اور سیدھی برآمدے کے قریب آرکی۔ کارمیں صرف ایک ہی شخص سوار تھا۔ وہ ڈرائیونگ سیٹ سے اترا تو خنجر کے ساتھ ساتھ جعفر بھی اس کی شکل دیکھتے ہی چونک پڑا۔اس نے بھی آنے والے کو پہچان لیا تھا۔ وہ زریون تھا…. زریون علی۔
جس ستون کے عقب میں خنجر رائفل سنبھالے کھڑا تھا اس کے برابر سے گزر کر زریون نے سامنے موجود راہداری میں داخل ہونا تھا۔ چھپے رہنا ممکن ہی نہ رہا تھا۔خنجر کو ٹیپو پر شدید غصہ آیا اور کچھ تھوڑی سی حیرت بھی۔ ٹیپو کے انداز غمازی کر رہے تھے کہ وہ زریون سے نا آشنا نہیں ہے۔
کار سے اترنے کے بعد زریون پلٹ کر گیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ خنجر ستون کی اوٹ سے نکل آیا۔ٹیپو گیٹ بند کرنے کے بعد بہ عجلت زریون کی طرف آیا
"تم یہاں کیا کر رہے ہو اور وہ …. عظمت اور عرفان کدھر ہیں ؟” زریون ٹیپو سے مخاطب ہوا۔اس کا لب و لہجہ جتا رہا تھا کہ وہ نشے میں ہے۔
"میں…. میں رات ادھر پہنچا ہوں شاہ جی ! تھوڑی ایمرجنسی بن گئی تھی۔” ٹیپو نے انتہائی مو�¿دب لہجے میں جواب دیا اور ساتھ ہی ایک جھجکتی ہوئی سی نظر اس کے عقب میں، برآمدے میں کھڑے خنجر کی طرف دیکھا۔ جعفر بھی کاو�¿نٹر کی اوٹ سے نکل کر خنجر کی طرف بڑھا۔
"کیسی ایمرجنسی ….” زریون نے سوال کرتے ہوئے اس کی نظر کے تعاقب میں اپنی عقبی طرف دیکھا اور خنجر پر نظر پڑتے ہی بری طرح چونک پڑا۔ ان کے درمیان با مشکل چار قدم کا فاصلہ تھا۔ جعفر بھی خنجر کے برابر آکھڑا ہوا۔ ان دونوں کے ہاتھوں میں رائفلیں تھیں۔ زریون کے چہرے پر سایہ سا لہرا گیا۔ان پر نظر پڑتے ہی اس کے ذہن میں جھماکے سے فیروزہ کا خیال آیا تھا اور اسے یہی سمجھ آئی تھی کہ یہ لوگ اگر یہاں موجود ہیں تو یقینی طور پر یہ فیروزہ ہی کے لیے یہاں تک پہنچے ہیں۔
اس کی نظریں پہلے باری باری ان دونوں کے چہروں پر سرسرائیں اور پھر وہاں سے ہٹ کر ان کے عقب میں موجود راہداری میں ایک دوشیزہ پر جا ٹھہریں۔خوبصورت چہرے اور متناسب وجود کی وہ دوشیزہ اچانک ہی ایک کمرے سے نمودار ہوئی تھی اور ان لوگوں پر نظر پڑتے ہی اپنی جگہ ٹھٹھک کر رک گئی تھی۔ زریون نے اس کی نظروں کو اپنے چہرے پر سرسراتے ہوئے محسوس کیا۔اس کے زاویہ نگاہ پر خنجر نے بے اختیار پلٹ کر دیکھا تو بری طرح چونک پڑا۔ چند قدم پیچھے راہداری میں حجاب کھڑی تھی۔ شاید وہ نماز کے لیے وضو کی نیت سے کمرے سے نکلی تھی اور وہیں ٹھٹھک کر رک گئی تھی۔ خنجر نے محسوس کیا کہ وہ زریون ہی کی طرف دیکھ رہی ہے۔
گڑبڑ ہو چکی تھی اس سے پہلے کہ وہ اپنی جگہ سے حرکت کرتا , زریون اور حجاب کے درمیان آتا, یا حجاب کو واپس کمرے میں پہنچاتا۔ حجاب تیزی سے آگے بڑھ کر ان کے قریب آئی اور زریون سے مخاطب ہوئی۔
"آپ …. آپ زریون ہے نا؟” اس نے اضطراری انداز میں زریون کی طرف انگلی اٹھا رکھی تھی۔ آواز میں واضح لرزش تھی۔ ہاتھ بھی کپکپا رہا تھا۔ اس کے بے قرار لہجے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ زریون کو پہچان چکی ہے اور اب محض اس کی زبان سے اس بات کا اقرار سننا چاہتی ہے۔ لیکن….شاید زریون اسے نہیں پہچان پایا تھا !
"کیا ہم پہلے کہیں مل چکے ہیں ؟” زریون نے بغور حجاب کی طرف دیکھا۔ اس کے لہجے میں قدرے الجھن تھی۔
"مم….میں…. میں حجاب”
"کون حجاب؟” وہ چونکا۔
"حجاب …. حجاب، نندی پور سے۔ میں آپ کو پہچان چکی ہوں۔ آپ …. زریون ہی ہیں۔ میں…. میں آپ کے ماموں کی بیٹی ہوں۔ صلاح الدین کی بیٹی۔”وہ ایک ہی سانس میں بولتی گئی۔ شدت جذبات کے باعث اس کی آواز بری طرح لرز رہی تھی۔ ٹیپو اپنی جگہ ہونق بنا کھڑا تھا۔ زریون اور حجاب کا رشتہ جان کر جہاں جعفر اور خنجر چونکے تھے، وہیں حجاب کے الفاظ نے زریون کے لیے بھی جیسے کسی بم دھماکے کا کام کیا تھا۔ اس کے چہرے پر زلزلے کے تاثرات نمودار ہوئے تھے۔ آنکھیں جیسے یکایک ہی حیرت و ب یقینی سے پھٹ پڑنے پر آمادہ ہو آئی تھیں۔
"حج، حجاب …. تم ، تم حجاب ہو …. اوہ….اوہ مائی گاڈ! تم ،تم …..”وہ جیسے بولا نہیں چیخا تھا۔ پہلے بے اختیار ایک قدم آگے بڑھا پھر پیچھے ہٹا۔ پھر دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھامتے ہوئے دوبارہ حجاب کی طرف پلٹا۔
"تم ، تم …. کہاں تھی اب تک اور … اور یہاں کیا کر رہی ہو؟ کب پہنچی یہاں اور….اور کیسے پہنچیں ؟” اس نے یکایک آگے بڑھ کر حجاب کے کندھوں پر ہاتھ رکھ دئیے۔ حجاب سسک اٹھی تھی۔ جعفر اور خنجر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر رہ گئے۔ ان کا سوچا سمجھا ہوا سارا پروگرام درہم برہم ہو کر رہ گیا تھا۔
"تمہیں اندازہ بھی نہیں حجاب! کہ تمہاری تلاش میں کیا کچھ کیا جا رہا ہے۔کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا گیا تمہیں۔ کتنے ہی لوگ تمہاری تلاش میں پاگل
ہوئے پھر رہے ہیں اور تم…. تم یہاں موجود ہو!!مجھے…. مجھے یقین ہی نہیں آ رہا۔ کون لایا تمہیں یہاں؟ کیسے پہنچی ہوں یہاں تک؟”
اچانک جیسے زریون کو اپنے سوال اور سوال کے جواب کا ادراک ہوگیا۔ اس نے باری باری خاموش اور سنجیدہ کھڑے جعفر اور خنجر کی طرف دیکھا۔پھر حجاب کو ایک کرسی پر بٹھا دیا۔اس کی سسکیاں تیز اور بلند ہوچکی تھیں۔اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کئی زمانوں، کئی صدیوں بعد کسی اپنے کی صورت دیکھی ہو، کسی اپنے کی آواز سنی ہو۔زریون کی ذات سے اسے پھوپھا پھوپھی کی خوشبو آرہی تھی۔ ذہن میں ایک ساتھ یادوں کی ڈھیر ساری کھڑکیاں کھل آئی تھیں۔
"ڈاکٹر زمان کدھر ہیں؟” زریون پلٹ کر جعفر اور خنجر سے مخاطب ہوا۔ ان دونوں سے پہلے ٹیپو دو قدم آگے بڑھتے ہوئے بولا۔”انہیں اندر ایک کمرے میں بند کیا ہے۔ کلینک کا باقی عملہ بھی ان کے ساتھ ہے۔”
"بند کیا ہے؟ کس نے؟ کیوں؟”
"وہ….. رات کچھ ایمرجنسی میں ایسا کرنا پڑا۔”
"لے کر آو�¿ انہیں۔” زریون نے تحکمانہ انداز میں کہا اور ٹیپو ”جی اچھا “کہتا ہوا فوراً راہداری کی طرف بڑھ گیا۔ زریون خنجر کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ کافی حد تک خود کو سنبھال چکا تھا اور غالباً ساری صورت حال کا اندازہ بھی کر چکا تھا۔
"تمہارا وہ مرشد کدھر ہے؟”
"یہیں ہے زخمی ہے۔”
"کیا ہوا ہے اسے ؟”
"گولی لگی ہے۔ ہسپتال نہیں جاسکتے تھے اس لیے رات اس کلینک پر قبضہ کرنا پڑا….اندازہ نہیں تھا کہ یہاں آپ کی بھی زیارت کا موقع مل جائے گا۔”
"اسے کیسے جانتے ہو؟” وہ خنجر کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے سوال انداز ہوا۔اشارہ حجاب کی طرف تھا۔
"زیادہ نہیں جانتے۔” ہمیں صرف یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ ان بی بی جی کو بلوچستان میں ان کے پھوپھا کے ہاں پہنچانا ہے۔”
"یہ زمہ داری کس نے سونپی تھی ؟”
"اس بات کا صرف مرشد کو علم ہے اور وہ فی الحال بے ہوش ہے۔” خنجر نے محتاط انداز میں جواب دیا۔ زریون نے گہری نظروں سے اس کی صورت دیکھی۔ اسی وقت زمان نامی ادھیڑ عمر ڈاکٹر قریب پہنچ آیا۔ ٹیپو اس کے عقب میں تھا۔ ڈاکٹر نے عاجزی اور ادب کے ساتھ زریون سے سلام دعا کی۔ زریون اس کے ساتھ مرشد کے متعلق بات چیت کرنے لگا۔حجاب کرسی پر بیٹھی سسک رہی تھی۔ڈاکٹر حیران پریشان سا تھا۔ اس نے اپنے عملے کے متعلق ذکر کیا تو زریون ایک بار پھر ٹیپو سے مخاطب ہوا۔
"ٹیپو! باقی سب کو بھی نکالو باہر۔.”
"ٹھہرو ٹیپو!” جعفر فوراً بولا۔ پھر زریون سے مخاطب ہوا۔ "ان سب کو ادھر کمرے ہی میں آرام کرنے دو۔ایسے پریشانی کا باعث بنیں گے۔”
"کوئی پریشانی کا باعث نہیں بنے گا۔ بے فکر رہو…… جاو�¿ ٹیپو!”
"نہیں ٹیپو ! زریون صاحب ! آپ کو حالات کا اندازہ نہیں ہے۔ ہمارے اردگرد بہت خطرناک دشمن موجود ہیں۔ ہم رسک نہیں لے سکتے۔ ان
لوگوں کو وہیں بند رہنے دیں۔”
"ایسی بات ہے تو تم لوگ مرشد کو لے کر نکل جاو�¿ ادھر سے۔”
"ہم یہاں چھاو�¿نی ڈالنے نہیں آئے۔ صرف مرشد استاد کے ہوش میں آنے کا انتظار ہے ہمیں۔ اس کے بعد یہاں زیادہ دیر نہیں رکیں گے ہم۔” جعفر کے لہجے میں ہلکی سی ناگواری تھی۔
"کب تک ہوش آجائے گا اسے ؟” زریون ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہوا۔
"پتا نہیں…. میں دوبارہ چیک کر لیتا ہوں۔”ڈاکٹر نے ہچکچا کر کہاپھر ڈاکٹر تو جعفر کے ساتھ مرشد والے کمرے کی طرف چلا گیا اور زریون حجاب کی طرف پلٹ پڑا جو کرسی پر سر جھکائے بیٹھی گھٹی گھٹی آواز میں رو رہی تھی۔
"حجاب ! رونا بند کر دو اور بالکل بے فکر ہو جاو�¿۔ میں ایک مریض کو دیکھ لوں پھر یہاں سے چلتے ہیں …. ٹھیک ہے نا؟ میں آتا ہوں ابھی۔” وہ راہداری کی طرف بڑھ گیا۔ یقینی طور پر وہ فیروزہ کو دیکھنے کا کہہ رہا تھا۔ اس کے دور چلے جانے کے بعد خنجر حجاب سے مخاطب ہوا۔
"بی بی جی! یہ زریون صاحب تو آپ کو پہچانتے ہی نہیں آپ نے کیسے پہچان لیا ان کو !”
"ہم نے آٹھ دس سال بعد ایک دوسرے کو یوں آمنے سامنے دیکھا ہے۔ میں…. میں نے ان کی تصویریں دیکھ رکھی ہیں۔ اس لیے پہچان لیا۔” وہ بھیگی ہوئی آواز میں بولی۔ایک تذبذب کے بعد خنجر مزید بولا۔
"ہمارے لیے اب کیا حکم ہے؟”
"کیسا حکم ؟” اس نے سر اٹھاتے ہوئے اپنی آنسوو�¿ں سے لبریز آنکھوں سے اس کی سمت دیکھا۔
"یہ آپ کو یہاں سے چلنے کا کہہ رہے ہیں۔ کیا آپ ان کے ساتھ جانا چاہتی ہیں؟”
"یہ میرے پھوپھو زاد ہیں۔ انہی کے ہاں تو پہنچنا ہے مجھے۔”
"لیکن آپ کو قلعہ سیف اللہ پہنچنا تھا اور وہاں تک آدھا سفر باقی ہے ابھی۔”
"کوئی بات نہیں ۔زریون مجھے لے جائیں گے وہاں تک۔ میرے چلے جانے سے شاید آپ لوگوں کے لیے بھی خطرات کم ہوجائیں اور…میں زریون سے کہتی ہوں، جب تک مرشد جی! اچھے سے صحت یاب نہیں ہو جاتے تب تک وہ آپ کے روپوش رہ سکنے کا کوئی نہ کوئی انتظام کر دیں گے۔”مرشد کا ذکر کرتے ہوئے اس کے دل پر ضرب سی لگی لیکن وہ نظر انداز کر گئی۔ آج نہیں تو کل…. اس ساتھ کا انجام یہی ہونا تھا۔ان کے راستے جدا ہو جانے تھے۔ انہیں اپنی اپنی زندگی جینا تھی … دل میں ایک ہوک سی ٹوٹی۔اپنی اپنی زندگی جینا تھی …. وہ صحیح سلامت تھی اور جس کی بدولت تھی، وہ صحیح سلامت نہیں تھا…. وہ تاحال زندگی سے دور اور شاید موت کے زیادہ قریب تھا۔اس کی زندگی کی طرف سے ابھی تک کوئی اطمینان بخش بات سامنے نہیں آئی تھی۔
حجاب نے شعوری طور پر خود کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ مرشد کے لیے منحوس ثابت ہو رہی ہے اور اب اگر اس سے دور ہو جائے تو شاید اس کے زندہ رہنے کے امکانات بڑھ جائیں۔چند لمحے وہاں ایک گھمبیر سی خاموشی طاری رہی پھر خنجر بولا۔
"چوہدری ٹولا، ڈپٹی اعوان،رانا سرفراز اور ملنگی لوگ …. یہ سبھی آپ کے بدترین دشمن ہیں اور اس وقت سب کے سب اسی شہر میں موجود ہیں۔ مرشد نے آپ کو شاید بتایا نہیں تھا لیکن میں بتا دوں کہ ان زریون صاحب کا رانا سرفراز کے ساتھ خاصا قریبی یارانہ ہے ملنگی لوگوں کے ساتھ بھی ان
کے کچھ معاملات ہیں۔ اپنی کم علمی یا کم عقلی کے باعث یہ اپنے ساتھ ساتھ آپ کو بھی کسی مشکل یا مصیبت میں پھنسا دیں گے اس لیے میرا مشورہ ہے کہ آپ ان کے ساتھ مت جائیں ،نہیں تو کوئی نہ کوئی گڑبڑ ہو جائے گی۔”
"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟” حجاب نے کسی قدر چونک کر کہا۔ "زریون ایسے نہیں ہیں جو اس طرح کے لوگوں کے ساتھ دوستیاں رکھیں۔”
"میں آپ سے جھوٹ کیوں بولوں گا…. میں وہی کہہ رہا ہوں جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سن رکھا ہے۔ان صاحب کو تو دوست دشمن کی پہچان ہی نہیں یہ کیسے آپ کو قلعہ سیف اللہ تک لے جائیں گے …. نہیں، آپ ان کے ساتھ مت جائیں۔ ہم لوگ آپ کو یہاں تک لے کر آئے ہیں تو آگے بھی ہم ہی پہنچائیں گے۔”
"انہیں سارے حالات بتا دیتے ہیں۔ وہ خود کوئی بہتر بندوبست کر لیں گے۔”
یہ سب کچھ جان کر بھی سمجھ نہیں پائیں گے۔ یہ ممی ڈیڈی ٹائپ کے بندے ہیں ۔ ان کے بس کا کام نہیں ہے یہ آگے بلوچستان تک دشمن موجود ہوں گے۔ جگہ جگہ کرائے کے مجرموں کے علاوہ پولیس والے بھی راہ تک رہے ہوں گے اور آپ جانتی ہیں کہ ایسے سب لوگوں کو مرشد سے بھی زیادہ آپ کی ذات میں دلچسپی ہے۔ یہ زریون صاحب آپ کو ان سب سے بچا کر قلعہ سیف اللہ تک نہیں پہنچ پائیں گے….کسی صورت بھی نہیں یہ ان کے بس کا روگ ہی نہیں ہے اور آپ کو بھی اس بات کا یقیناً اندازہ ہے لہذا آپ انہیں منع کر دیں۔”
"میں…. میں ایسا کیسے کر سکتی ہوں۔” وہ کسی قدر گڑبڑا کر متعجب ہوئی۔”مجھے ان ہی کے ہاں جانا ہے اور باقی ساری زندگی ان ہی کے ہاں گزارنی ہے۔ میں بھلا ان کے ساتھ جانے سے انکار کیسے کرسکتی ہوں۔ ” اس نے جیسے ان الفاظ میں یہ ظاہر کیا تھا کہ زریون کے ساتھ اس کا صرف کزن ہی کا رشتہ نہیں ہے۔ بلکہ زندگی بھر کا ناتا ہے۔ گویا یہ بتانے ،ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی کہ یہ وہی پھوپھی زاد ہے جس کے ساتھ اس کی بچپن سے نسبت طے ہے۔ آنے والے دنوں میں جس کی اسے دلہن بننا ہے اور پھر ساری زندگی جسے اپنا مجازی خدا تسلیم کر کے اپنی سانسیں پوری کرنی ہیں۔ ہاں…. یہ وہی شخص تو تھا جسے وہ اپنے بچپن سے چوری چوری سوچتی آئی تھی….سردیوں کی طویل راتوں میں جس کے خواب دیکھتی آئی تھی ….یہ خوب رو اور وجہیہ انسان زریون علی، وہی تھا جسے آنے والے دنوں میں اس کے جسم و جاں کا محرم ہونا تھا۔
"جیسے بھی کرسکتی ہیں کریں۔” خنجر اس سے مخاطب تھا۔ "ہم سب کے لیے یہی بہتر رہے گا۔ اگر آپ اس کے ساتھ گئیں تو اپنے ساتھ ساتھ اس کی زندگی سے بھی دشمنی کریں گی۔ اور ہم….ہم مرشد کو کیا جواب دیں گے؟ آپ کے یوں جانے کا سوچ کر وہ ایک لمحہ بھی بستر پر آرام کرنا پسند کرے گا کیا…. بالکل بھی نہیں اور آپ کو اس بات کا بھی اچھی طرح اندازہ ہے۔ ہم لوگ اسے بستر تک نہیں روک پائیں گے۔ خدا کے لیے رحم کریں۔ خود پر، زریون پر اور…. مرشد پر بھی۔” خنجر کا ملتجیانا لہجہ اور اس کی باتیں حجاب کے دل پر اثرانداز ہوئیں۔وہ غلط نہیں کہہ رہا تھا۔ ایک ایک بات ٹھیک تھی اس کی لیکن دوسری طرف زریون کو انکار کرنے کا حوصلہ بھی نہیں تھا اس میں۔وہ کیا سوچتا سمجھتا …. اس کے انکار سے کیا مطلب اخذ کرتا بھلا؟
وہ اپنی جگہ کسمسا کر رہ گئی۔ ذہن الجھن کا شکار ہو گیا تھا۔ اسی وقت زریون فیروزہ کے کمرے سے نکل کر اسی طرف کو آتا دکھائی دیا۔
ٹیپو پہلی بار بولا۔ "بی بی جی کو چھوٹے شاہ جی کے ساتھ جانے دیں۔ ارباب صاحب تک اطلاع پہنچاتے ہیں ،وہ ان لوگوں کے قلعہ سیف اللہ تک پہنچنے کا سارا انتظام کر دیں گے۔ زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔”
خنجر نے ناپسندیدہ نظروں سے اس کی طرف گھور کر دیکھا۔
"تمہیں ساری بات کا ابھی پتا نہیں ہے لہذا چپ رہو۔ مرشد ہوش میں آتے ہی اپنی جان کا دشمن بن جائے گا ،اگر بی بی یوں یہاں سے چلی گئیں تو
"۔جعفر اور ڈاکٹر زمان بھی مرشد والے کمرے سے باہر نکل آئے۔ وہ تینوں ایک ساتھ ہی برآمدے کی طرف آئے تھے۔ زریون نے مرشد کی کنڈیشن کے متعلق استفسار کیا۔
ڈاکٹر بولا۔ "اس کی کنڈیشن تسلی بخش نہیں ہے۔مجھے ڈر ہے کہ کہیں اس کے دماغ کو کوئی نقصان نہ پہنچا ہو۔ جب یہ لوگ اسے لے کر یہاں پہنچے تھے اس وقت تک بہت زیادہ خون بہہ چکا تھا اس کا۔ "
"پھر اب کیا کیا جاسکتا ہے اس کے لیے؟” زریون نے پوچھا۔
"صرف دعا اور انتظار …. میڈیکلی جو کچھ ممکن تھا وہ ہم کرچکے ہیں۔”چند لمحے کی پر سوچ خاموشی کے بعد زریون دوبارہ بولا۔
"زمان صاحب ! اس بندے کا ایک احسان پہلے سے مجھ پر تھا۔” اس نے ایک سرسری نظر حجاب پر ڈالی۔
"ایک بڑا احسان اس کا اب ہوگیا ہے۔ اس کے علاج معالجے میں کوئی غفلت یا کمی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر…. کوئی ضرورت ہے تو بتائیں ؟ میں پوری کرا دیتا ہوں۔”اس کے لہجے کی گھمبیرتا سے حجاب کو عجیب سا احساس ہوا۔ اس کے لب و لہجے کا بوجھل پن اور بولنے کا انداز کچھ خمار زدہ سا تھا۔ یوں…. جیسے وہ پوری طرح اپنے ہوش و حواس میں نہ ہو!
ڈاکٹر زمان نے جواباً فوراً کہا۔ "شاہ جی! یہ پولیس کیس ہے۔ ہم تو کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے لیکن پولیس کسی بھی وقت یہاں چھاپہ مار سکتی ہے۔ ہمارے ساتھ تو جو ہوگا سو ہوگا۔ اس بندے کے ساتھ پتا نہیں وہ کیا سلوک کریں۔” ڈاکٹر نے ایک ہچکچاتی ہوئی سی نظر جعفر اور خنجر پر ڈالی۔ زریون لاپرواہی سے ہاتھ جھٹک کر بولا۔
"اس طرف سے آپ کوئی ٹینشن نہ لیں۔میں …. ایس ایچ او کو فون کر دیتا ہوں۔ کوئی ادھر نہیں آئے گا۔” اس کی بات سنتے ہی حجاب سمیت سب ہی کے دل دھڑک اٹھے۔
"ایسا مت کرنا ” جعفر فوراً بولا پڑا۔ ”آپ کے ایسے فون سے الٹا ملتان مظفرگڑھ کی ساری پولیس یہاں ٹوٹ پڑے گی اور پولیس کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی با اثر دشمن۔”اس کی بات مکمل ہوتے ہی خنجرتائیدی انداز میں بولا۔
"ہاں بالکل! پولیس والے تو کٹھ پتلیاں بنے ہوئے ہیں ۔یہ معاملہ بہت اوپر تک پہنچا ہوا ہے۔ .”
"تو پھر ایس پی سے بات کر لیتے ہیں۔” زریون نے جیسے تائید طلب نظروں سے ان دونوں کی طرف دیکھا۔ "کہو تو فون کرکے ابھی کے ابھی ایس پی کو یہاں بلا لیتا ہوں میں۔”
"ایس پی خود اپنے سارے ماتحتوں سمیت اس وقت چناب کے بند پر مورچہ بنائے بیٹھا ہے۔وہ بھی چودھریوں کے اثرو رسوخ کے زیر اثر کٹھ پتلی بنا ہوا ہے۔.”
"کون چوہدری ؟” زریون نے بھنوئیں اچکائیں۔
"نندی پور والے چوہدری …. چوہدری اکبر اور اس کا حرامی پتر فرزند۔ جنہوں نے آپ کے ماموں اور آپ کے ماموں زادوں کو اپنی درندگی اور فرعونیت کا شکار بنایا اور اب مسلسل پاگل کتوں کی طرح ان بی بی جی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔”خنجر کی وضاحت پر زریون کے چہرے پر ایک رنگ سا لہرا گیا۔ پہلی بار اس کی آنکھوں میں ہلکی سی فکرمندی پیدا ہوئی۔وہ فوری طور پر کچھ بھی بول نہیں پایا۔ذہن جیسے اچانک ہی کہیں بہت دور جا پہنچا تھا۔
خنجر مزید بولا۔ "وہ دونوں خود بھی اس وقت اسی شہر میں موجود ہوںگئے۔ ڈپٹی اصغر علی اعوان ہوگیا۔ ملنگی فوجی گروپ اور شیخوپورہ والا رانا سرفراز ہوگیایہ سب ایک ہی کچھ ہیں اور سب کے سب بی بی جی کے بدترین دشمن ہیں۔”
"یہ….. یہ کیا کہہ رہے ہو تم!“ زریون واضح طور پر چونکا تھا۔
"ڈپٹی اعوان صاحب تو ذمہ دار پولیس آفیسر ہیں۔ وہ خود حجاب کو تلاش کر رہے ہیں اور رانا…. رانا سرفراز کا بھی اس معاملے سے بھلا کیا تعلق واسطہ۔ ان کو کیوں دشمنی ہونے لگی ؟”
"یہ لمبی کہانی ہے …. بڑا بکھیڑا ہے۔ ہم لوگوں کی ڈسکہ میں رانا سرفراز کی کوٹھی پر جو ملاقات ہوئی تھی ،وہ بھی اسی بکھیڑے کا حصہ تھی۔ وہاں بھی ہم ان ہی بی بی کی تلاش میں پہنچے تھے۔”
زریون کے تاثرات بتا رہے تھے کہ یہ باتیں اس کے لیے انکشافات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ حیران پریشان سا دوقدم پیچھے ہٹ کر حجاب کے برابر کرسی پر بیٹھ گیا۔دماغ میں اچانک ہی ایک اودھم سا مچ گیا تھا۔ اپنے ماموں صلاح الدین کے گھر کی ہولناک تباہی سے لے کر اب تک کے حالات و واقعات کی تمام تر تفصیل تو اسے معلوم نہ تھی کیوں کہ اس کی دل چسپیاں ، ترجیحات اور مصروفیات ہی کچھ اس طرح کی تھیں لیکن پھر بھی چونکہ یہ سارا معاملہ اس کے اپنے ہی خاندان کا تھا اور انتہائی قریبی اور ایک طرح سے دوہرے رشتے داروں سے متعلق تھا لہذا بیشتر معلومات اسے تھیں۔
رانا سر فراز کی کوٹھی والا واقعہ بھی اسے یاد تھا۔ ابھی ہفتہ دس دن ہی تو گزرے تھے اس سب کو…. اسے اچھی طرح یاد تھا کہ مرشد رانا سرفراز سے کسی لڑکی کے متعلق جاننا چاہ رہا تھا۔ یہ حقیقت تو اس پر اب آشکار ہو رہی تھی کہ وہ لڑکی دراصل حجاب تھیاس کی ماموں زاد کزن جو اس وقت اس کے برابر سرجھکائے بیٹھی سسک رہی تھی۔زریون کو اپنے ماموں اور حجاب کے حوالے سے اپنی والدہ کی تڑپ اور بے قراریاں یاد آئیں۔باپ کی پریشانی اور تایا کی فکر مندی کے ساتھ ساتھ دیگر کئی لوگوں کے چہرے اس کی آنکھوں کے سامنے لہرا گئے۔کوئی ایک بھی مکمل طور پر حقیقت سے واقف نہیں تھا حجاب کی زندگی موت کے حوالے سے بھی کسی کو کوئی اندازہ نہیں تھالیکن وہ زندہ سلامت اس وقت اس کے سامنے موجود تھی۔ ایک دو انکشاف اس پر ہو چکے تھے اور حجاب ہی کے توسط آگے بہت سے انکشافات ہونے والے تھے۔
وہ چند لمحے تو اپنی جگہ خاموش اور گم سم سا بیٹھا رہا پھر حجاب کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا۔
"اسرار اور ممانی کے بارے میں کوئی خیر خبر ہے تمہارے پاس؟”
"نہیں۔” وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے رندھے لہجے میں بولی۔ ” مجھے کچھ پتا نہیں، کوئی خیر خبر نہیں ہے۔”
"ٹھیک ہے۔ کوئی بات نہیں۔ وہ لوگ بھی جلد مل جائیں گے۔ اٹھو…. چلیں یہاں سے۔”وہ اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔تب ہی حجاب کو شراب کی بو کا احساس ہوا ۔وہ جان گئی کہ زریون نے شراب پی رکھی ہے ۔وہ نشے میں تھا۔ دل پر ایک غیر محسوس سا بوجھ آپڑا۔
"تم لوگوں کا اب آگے کا کیا پروگرام ہے ….کیا ….کیاسوچ رکھا ہے تم لوگوں نے ؟”زریون خنجر سے مخاطب تھا۔ حجاب نہ چاہتے ہوئے بھی کش مکش کی سی حالت میں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"مرشد سمیت ہم لوگ ایک ہی پروگرام لے کر چل رہے ہیں …. ان بی بی کو بلوچستان ان کے پھوپھا تک پہنچانا ہے اور بس ! ” خنجر نے گہری سنجیدگی سے کہا۔
"اس کی فکر تم اب چھوڑ دو۔ اسے میں ساتھ لے جا رہا ہوں۔ تم اپنی بتاو�¿…کسی قسم کی بھی ہیلپ چاہیے تو بتاو�¿ مجھے ؟”
"آپ ساتھ لے جا رہے ہیں …. کہاں؟” خنجر کا سوال کرنا شاید زریون کو چبھا تھا۔ اس کے چہرے پر ناگواری کا سایہ سا لہرا گیا۔
"کہیں بھی…. تمہیں اس سے کیا مطلب؟”
"واہ جی ! یہ مطلب کی بھی آپ نے خوب کری ” جعفر نے استہزائیہ لہجے میں کہا اور دو قدم آگے بڑھ آیا۔”آپ کو تو اندازہ بھی نہیں ہووے گا کہ ان بی بی کے لیے کتنے لوگ قتل ہو چکے ہیں ، مارے گئے ہیںآدھی خلقت ان کی جان کی دشمن ہو رہی ہے۔ہم لوگ مسلسل ایک جنگ لڑتے آرہے ہیں۔ اپنے بچپن کے یار سجن اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھے ہیں ہم نے۔ ادھر…. اندر کمرے میں اپنے علاقے کا شہزادہ پڑا زندگی موت سے لڑ رہا ہے۔ کچھ اندازہ نہیں کہ ہمارا یار, ہمارا استاد بچتا بھی ہے یا نہیں ۔ہم اب بھی حالت جنگ میں ہیں۔ کس لیے …. ان بی بی کو ان کے پھوپھا کے پاس بلوچستان پہنچانے کے لیے اور آپ ہم سے مطلب پوچھ رہے ہیں ؟”
"ٹھیک ہے۔ یہ تم لوگوں کا احسان ہوا، ان پر بھی اور…. ہم لوگوں پر بھی۔اپنے احسان کے بدلے تم لوگ کسی فائدے کی توقع رکھتے ہو تو کہو…. میں تمہاری ڈیمانڈ پوری کر دوں گا۔”زریون نے اپنی دانست میں ایک معقول ترین بات کہی تھی لیکن خنجر اور جعفر کو یہ بات تھپڑ کی طرح لگ گئی جعفر کا اندر کچھ زیادہ ہی دکھ گیا تھا۔ وہ فوراً بولا۔
” اللہ نے شاید آپ کو آپ کی ضرورت سے زیادہ ہی دے دیا ہے…. آپ ہماری ڈیمانڈ پر لعنت بھیج کر اپنا فائدہ دیکھیں اور جیسے آئے ہیں ویسے ہی لوٹ جائیں, یا اندر اپنی مریضہ کے پاس جا کر بیٹھیں۔ بی بی کو ہم ان کی منزل تک پہنچا دیویں گے۔”
زریون کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ جعفر کے الفاظ اور انداز ہی ایسا تھا۔ اس نے ایک نظر ناگوار ان دونوں کے چہروں پر ڈالی اور پھر پلٹ کر حجاب کی طرف متوجہ ہوا جو عجیب طرح کی الجھن، پریشانی اور اضطراب کی حالت میں جکڑی کھڑی تھی۔اس کے دل و دماغ میں ایک کہرام برپا تھا۔ذہن میں ایک کمرے کا منظر تھا۔ ایک بیڈ پر مرشد نیم مردہ حالت میں بے حس و حرکت پڑا تھا۔ اس کا ذہن تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا سانس ازحد مدھم تھی۔ زرد چہرے پر تاریک سایہ سا محسوس ہوتا تھا۔ یہ منظر تھا اور…. انتہائی وضاحت کے ساتھ اس کے اندر موجود تھا۔ اس منظر کے سوا اور کچھ نہیں تھا البتہ اس کے باہر …. اس کے سامنے زریون کھڑا تھا۔
"حجاب ! تم میرے ساتھ چل رہی ہو یا نہیں؟” وہ اپنی پرتپش آنکھیں اس کی آنکھوں میں گاڑے کرخت اور تحکمانہ انداز میں پوچھ رہا تھا۔ چند لفظوں کا چھوٹا سا جملہ …. مختصر سا سوال۔
"تم میرے ساتھ چل رہی ہو یا نہیں؟”
یہ چھوٹا سا جملہ اور مختصر سا سوال حجاب کو کسی بھاری اور جاں گسل بوجھ کی طرح اپنے حواسوں پر اترتا ہوا محسوس ہوا۔ اسے لگا کہ اس کے جواب ہی سے اس کی اپنی زندگی و موت کا فیصلہ مشروط ہے۔ اس کی ذات کے نہاں خانوں میں صرف مرشد تھا۔ صرف اسی کا خیال، اسی کی فکر تھی اور باہر …. اس کے سامنے زریون کھڑا تھا،جس کے مختصر ترین سوال نے ان لمحوں اسے اس کے داخل و خارج کے درمیانی برزخ میں لا کھڑا کیا تھا۔بے اختیار وہاں موجود سب ہی افراد کی نظریں حجاب کے چہرے پر جا ٹکیں ،کیوں کہ فیصلہ بہرحال اسی نے کرنا تھاجواب تو صرف دو ہی تھے …. ہاں یا ناں…. مرشد کا ساتھ یا ہمیشہ کے لیے الوداع…. دونوں جواب ہی جاں گسل تھے پھر بھی ….دو میں سے کوئی ایک جواب تو اسے دینا ہی تھا…
فیصلہ کن لمحہ آن پہنچا تھا !
٭ ٭ ٭
"تم میرے ساتھ چل رہی ہو یا نہیں ؟ ” زریون نے سوال دوھرایا تو حجاب نپے تلے انداز میں بولی۔
"جی !میں چل رہی ہوں لیکن آپ ان لوگوں کی بھی سنیں۔ یہ ٹھیک کہ رہے ہیں۔ وہ بہت سارے لوگ ہیں۔ بہت ساری گاڑیاں ہے۔ ہم لوگوں کو مارنے کے لیے پاگل ہو رہے ہیں سب۔اب تک پورے شہر میں پھیل چکے ہونگے وہ۔”
"میری گاڑی روکنے کی جرا ت کوئی نہیں کرے گا اور جو کرے گا اسے میں خود دیکھ لوں گا۔”
"وہ لوگ آپ کی سوچ سے زیادہ خطرناک اور بے رحم ہیں اور ….اور یہ لوگ…..” اس نے ایک نظر جعفر اور خنجر کی طرف دیکھا۔
"یہ لوگ میری وجہ سے ان لوگوں سے اور پولیس والوں سے لڑ رہے ہیں۔ مرشد جی کو گولی بھی میری وجہ سے لگی ہے۔ یہ سب بھی خطرے میں ہیں۔ان کی بھی مدد کے لیے کچھ کریں۔”
زریون ایک ناگوار نظر جعفر پر ڈالتے ہوئے طنزیہ انداز میں بولا۔
"یہ تو مہمان خوددار قسم کے سرفروش ہیں۔ یہ کوئی مدد کیوں قبول کریں گے…. ویسے بھی یہ تو دوسروں کی مدد کرنے والے لوگ ہیں۔انھیں بھلا مدد کی کیا ضرورت…. تم آو�¿ میرے ساتھ۔” اس نے ہاتھ بڑھا کر حجاب کی کلائی تھام لی۔وہ پلٹا تو خنجر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
"زریون صاحب! تھوڑا ہوش سے کام لیں۔ آپ کو بالکل بھی اندازہ نہیں ہو رہا کہ حالات کتنے سنگین ہیں۔ آپ اپنے ہی نہیں, بی بی کے ساتھ بھی دشمنی کر رہے ہیں۔“
"تم اپنی فکر کرو۔ ہٹو سامنے سے۔”
"بات سمجھنے کی کوشش کریں۔ مرشد اندر بے ہوش پڑا ہے۔ہم اسے چھوڑ کر آپ دونوں کے ساتھ نہیں جا سکتے اور بی بی کو یوں آپ کے ساتھ روانہ بھی نہیں کر سکتے۔”
"تم سن چکے ہو کہ یہ میرے ساتھ جانا چاہتی ہے اور جب یہ جانا چاہتی ہے تو کوئی ہمیں روک نہیں سکتا۔” زریون نے خشک لہجے میں کہا۔ ٹیپو اپنی جگہ کھڑا بے چینی سے انہیں دیکھ سن رہا تھا۔صورتحال رانا سرفراز کی کوٹھی جیسی بن آئی تھی۔ بس فیروزہ کی جگہ حجاب تھی اور مرشد کی جگہ خنجر….خنجر کو مرشد کا ضبط اور زریون کا احترام کرنا یاد تھا اور وہی یاد ان لمحوں جیسے اس کے لیے لگام بن آئی تھی۔وہ اسی تحمل سے بولا۔
"آپ ایسا کریں کہ ان کے پھوپھا , یعنی اپنے والد صاحب کو فون کر کے بلا لیں۔ وہ آ جائیں تو پھر آپ لوگ انھیں لے جائیے گا۔”
"وہ نہیں آئیں گے۔”
"معاف کیجیے گا پھر ہم آپ کے ساتھ بی بی کو روانہ نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارے ذمے ہے کہ ہم انہیں صرف ان کے پھوپھا جی ہی کے سپرد کریں۔”
"تم جانتے ہو کہ میں کون ہوں؟” زریون کے لب و لہجہ میں درشتی پھنکاری۔
"ہاں جی! جان چکے ہیں۔ اسی لیے پہلے معذرت کی ہے۔ آپ اپنے والد صاحب کو بلائیں۔“
"ہٹ سامنے سے، والد صاحب کے بچے !“ زریون نے خنجر کو دھپ مارنے والے انداز میں زور کا دھکا مارا۔ وہ لڑکھڑا کر دو قدم پیچھے ہوا تو زریون حجاب کی کلائی تھامے کار کی طرف بڑھا۔ خنجر تو لحاظ کر گیا لیکن جعفر نا کر سکا۔ اس نے فوراً آگے بڑھ کر زریون کی چھاتی پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے رکنے پر مجبور کیا اور خشک لہجے میں بولا۔
"ہمیں بدتمیزی کے لیے مجبور مت کرو۔بی بی کا ہاتھ چھوڑو، یہ کہیں نہیں جائیں گی۔”
"یہ میری منسوبہ ہے ہونے والی بیوی اور یہ میرے ساتھ جا رہی ہے۔” زریون نے اسے بھی دھکا دینا چاہا تھالیکن اس نے جھپٹ کر زریون کی کلائی تھام لی اور اگلے ہی پل دونوں ہاتھوں سے زریون کے سینے میں ایسی دھپ لگائی کہ وہ بے اختیار ایک دو قدم پیچھے کو لڑکھڑا گیا۔
"بی بی جی! سمجھائیں اسے ،ورنہ میرے ہاتھوں نقصان اٹھائے گا۔”جعفر نے غصیلے انداز میں حجاب سے کہا لیکن اب کیا سمجھنا سمجھانا تھا۔ زریون کے نزدیک یہ حملا تھا، اعلان جنگ تھا، توہین کے شدید احساس نے اس کے دماغ میں انگارے بھر دیے تھے۔وہ دو تین قدم لڑکھڑایا اور سنبھلتے ہی اس نے قمیض کے نیچے سے پسٹل نکال لیا۔ ایک ہی لمحے میں وہاں کی فضا میں انتہا درجے کا سنگین تناو�¿ اتر آیا۔اس کے پسٹل نکالتے ہی جعفر نے اسے رائفل کے نشانے پر لے لیا تھا۔جعفر کے رائفل سیدھی کرتے ہی ٹیپو نے تیز آواز میں جعفر کو متنبہ کرتے ہوے اس پر رائفل تانی تو خنجر نے ٹیپو پر رائفل سیدھی کر لی۔
"ٹیپو! بے وقوفی مت کرنا۔”
"خبردار جعفر! رائفل ہٹا لے۔“
زریون نے گالی دیتے ہوئے پسٹل جعفر کی طرف سیدھا کیا تھا کہ حجاب چیختی ہوئی ان کے درمیان آگئی۔
"نہیں نہیں…. یہ…. یہ آپ سب لوگ کیا کر رہے ہیں؟ خدا کے لیے نہیں۔اب اگر یہاں کوئی فساد ہوا تو…. تو میں خود کو ختم کر لوں گی۔ ہاں, میں مار ڈالوں گی خود کو۔“
"حجاب! ہٹ جاو�¿ سامنے سے، میں اس باسٹرڈ کو شوٹ کر دوں گا۔”
"نہیں زریون! خدا کے لیے نہیں۔“ حجاب اسکے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے رو پڑی۔ ” یہ کیا کر رہے آپ؟ یہ…. یہ لوگ دشمن نہیں، محسن ہیں۔ عزت اور احترام کے حق دار ہے۔”
"اس کی ہمت کیسے ہوئی مجھے دھکا مارنے کی۔یہ ہوتا کون ہے ہمارا راستہ روکنے والا۔میں کہ رہا ہوں تم ہٹ جاو�¿ سامنے سے۔“
” وہ ٹھیک کہ رہے ہیں۔ آپ پھوپھا جان کو فون کر کے میرا بتائیں اور بلائیں۔ وہ بہتر طریقے سے سارے بندوبست کر لیں گے۔”
چند لمحے کے لیے ایک دوسرے پر اسلحہ تاننے والے اپنی اپنی جگہ پر جیسے پتھرا کر رہ گئے تھے۔سب ہی کی انگلیاں رائفلوں کی لبلبیوں پر تھیں اور نظریں ایک دوسرے پر۔ حجاب, جعفر اور زریون کے درمیان کھڑی تھی۔ جعفر نے رائفل نیچے کر لی۔ اس کی رائفل ہٹاتے ہی سب کے اعصاب کا تناو�¿ کم ہوگیا اور پھر ٹیپو اور خنجر نے بھی رائفلیں جھکالیں۔
خنجر اور ٹیپو کی نظریں آپس میں ٹکرائیں تو دونوں نے ایک دوسرے کو آنکھوں میں آنکھیں گاڑ کے دیکھا۔ ٹیپو کے تیور یکسر تبدیل ہو چکے تھے۔ خصوصاً جعفر کے لیے اس کی آنکھوں میں واضح طور پے نفرت اور غصے کی تپش تھی۔ وہ قدم قدم ان کے ساتھ تھا۔ اب تک مو�¿دب بھی رہا تھا لیکن اب زریون کی حمایت میں یکایک ایک بدترین حریف کی صورت ان کی مخالفت میں کھڑا ہو گیا تھا….عجیب کایا پلٹ ہوئی تھی اس کی!
"انہیں فون کر کے بتائیں کہ چوہدریوں کے علاوہ اور بہت سے ظالم دشمنوں کے ساتھ ساتھ خود ڈپٹی اعوان صاحب بھی ہماری جان کے دشمن ہو رہے ہیں۔” حجاب روتے ہوئے زریون سے کہ رہی تھی۔”ہم سب لوگ کتنے دن سے بھاگتے اور چھپتے پھر رہیں ہیں۔کتنی جگہ گولیاں چلی ہیں۔میں نے….میں نے اپنے سامنے لوگوں کو گرتے اور مرتے ہوئے دیکھا ہے۔ خون….خون میں لت پت ہوتے دیکھا ہے۔ میرے بھائی
اور بابا کو بھی بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ مرشد جی کو بھی میرے سامنے گولی لگی۔ وہ….وہ لوگ ہمیں بھی مار ڈالیں گے۔ مجھے کبھی قلعہ سیف اللہ تک پہنچنے نہیں دیں گے۔کبھی بھی نہیں…. میرے ساتھ ان سب بھلے لوگوں کو بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے وہ۔ انہوں نے …. انہوں نے ہم سب کو مار ڈالنے کی ٹھان رکھی ہے۔”اس کی رندھی ہوئی آواز میں ایک مہیب دکھ نوحہ کناں تھا۔ ایک دل دوز کرب سسک رہا تھا۔ زریون کے بگڑے ہوئے تاثرات میں تغیر پیدا ہوا۔
"کریں …. پھوپھا جی کو فون کرکے یہ ساری باتیں بتائیں….انہیں حالات کے بارے میں اچھی طرح بتائیں تاکہ وہ حالات کے مطابق بندوبست کر سکیں۔”
خنجر فوراً آگے بڑھا۔ "گستاخی معاف لیکن بی بی ٹھیک کہ رہی ہیں۔ آپ بڑے شاہ جی کو فون کرکے حالات سے باخبر کریں۔ میں دعوے سے کہ رہا ہوں کہ اس وقت شہر کے چاروں راستوں پر دشمن موجود ہونگے۔ وہ بڑی تعداد میں ہیں۔ اسلحے کی کوئی کمی نہیں ان کے پاس۔ پولیس بھی ان ہی کا ساتھ دے رہی ہے۔ بلکہ پورے پنجاب کی پولیس ہماری دشمن بنی ہوئی ہے۔“
"تم لوگوں نے پولیس والوں کو قتل بھی تو کیا ہے اور…. ڈپٹی اعوان کو اغوا کر کے حبس بے جا میں بھی رکھے رکھا۔”زریون بڑبڑانے والے انداز میں بولا۔ حجاب اور خنجر کی باتوں نے اس کی ذہنی رو بدل دی تھی البتہ موڈ ہنوز خراب تھا۔
"آپ کچھ بھی سوچیں سمجھیں لیکن یہ دھیان میں رکھیں کہ تمام پولیس والوں کو اور دشمنوں کو ہم سب سے زیادہ ان بی بی جی میں دلچسپی ہے۔ چوہدریوں کے علاو�¿ہ خود ڈپٹی بھی ان بی بی کے ایک بیان سے عذاب میں پڑ جائے گا۔ بی بی اس وقت سب کے گلے کا کانٹا بنی ہوئی ہیں اور یہ کانٹا نکالنے کے چکر میں بہت سے طاقتور اور با اختیار لوگ پاگل ہوئے جا رہے ہیں۔ بہت اوپر سے ڈوریں ہلائی جا رہی ہیں۔“
زریون کی سنجیدہ صورت پر سوچ اور الجھن کے تاثرات اتر آئے۔
"رات چناب والے ڈاک بنگلے میں بشارت بھائی کا بھی قتل ہو گیا۔” ٹیپو کی مو�¿دب اور دھیمی آواز پر زریون نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
"اوہ….کیسے،کیا ہوا تھا؟”
"ان سب کے کوئی دشمن لوگ ہی تھے۔واقعی بڑے خطرناک لوگ ہیں۔ تین چار ان کے مرے۔ بشارت بھائی کے سر میں رائفل کا برسٹ لگا تھا۔ بعد میں مرشد صاحب کو گولی لگی….اس سے پہلے چناب پار بند پر کوئی چوبیس گھنٹے پولیس کے گھیرے میں رہے۔ ستر اسی گاڑیاں تھیں ادھر۔“
زریون کی آنکھیں تھوڑی پھیل گئیں۔اسے جیسے اچانک ہی اب معاملے کی سنجیدگی اور سنگینی کا تھوڑا احساس ہوا تھا!
ٹیپو بول رہا تھا۔ "اس سے ایک روز پہلے ملتان گل گشت والی کوٹھی پر بھی پنگا ہو چکا ہے۔ یہ لوگ چوہدریوں سے بھاگتے ہوئے کوٹھی میں گھس آئے تھے۔ پولیس اور چوہدریوں نے کوٹھی کو گھیرے رکھا۔ راو�¿ اعظم صاحب نے خود موقع پر پہنچ کر معاملہ سنبھالا۔” وہ خنجر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔ "چوہان کے ساتھ بھی پھڈا پڑا ہے ان کا۔“
زریون کی آنکھیں بے اختیار خنجر کی طرف سرک گئیں۔
"چوہان….” وہ بے ساختہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ چہرے پر گہرے غور و فکر کے تاثرات پھیل گئے تھے۔ کچھ لمحے کی پر سوچ خاموشی کے بعد وہ حجاب سے مخاطب ہوا۔
"میرا خیال ہے کہ اگر تم ان لوگوں کے ساتھ رہی تو تمہاری وجہ سے یہ اور ان کی وجہ سے تم شدید خطرے میں رہوگی۔ اگر تم میرے ساتھ چل پڑو تو کسی
دشمن کو پتا نہیں چلے گا کیونکہ کسی کو اس بات کی توقع ہی نہیں ہوگی۔ یہاں سے ہم فارم ہاو�¿س چلتے ہیں۔ آگے کا تو پھر کوئی مسلہ ہی نہیں۔”
حجاب سے پہلے خنجر بول پڑا۔
"آپ کے اس خیال کے مطابق بھی ہو سکتا ہے اور اس کے الٹ بھی۔ اس میں رسک بہرحال موجود ہے اور رسک بھی عزت اور زندگی کا۔”
ٹیپو محتاط انداز میں بولا۔ "اگر آپ لوگ کہیں تو میں شاہ پور جا کر ملک منصب اور ارباب کو اس ساری صورتحال سے باخبر کرتا ہوں۔ وہ لوگ سارا معاملہ پھر خود ہی سمبھال لیں گے۔“
"تم رستے میں دھر لیے جاو�¿ گے۔”جعفر نے کہا۔
"کوشش تو کی جا سکتی ہے۔ یہاں کا فون خراب پڑا ہے ورنہ تو ساری پریشانی ہی ایک کال سے ختم ہو جاتی۔“
"ٹیپو! گیٹ کھولو۔“ زریون بالکل اچانک ہی اپنی کار کی طرف بڑھا اور ٹیپو حکم کے غلام کی طرح فوراً ہی گیٹ کی طرف لپک گیا۔
"کدھر جا رہے ہیں آپ؟” حجاب نے قدرے الجھن اور پریشانی سے پوچھا لیکن زریون نے اس کے سوال کو درخورِ اعتنا نہ جانا۔ خنجر نے حجاب کی طرف دیکھا تو وہ اس کی آنکھوں کا مطلب سمجھتے ہوئے زریون کے پیچھے گئی۔
"زریون…. زریون! آپ کدھر جا رہے ہیں؟”
زریون گاڑی کا دروازہ کھول چکا تھا۔
"رکیں….میری بات تو سنیں۔ زریون….کہاں جا رہے ہیں آپ؟”
"کہیں نہیں….آدھے گھنٹے تک واپس آتا ہوں۔“ زریون نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ حجاب اسے روکتی رہی لیکن وہ گاڑی سٹارٹ کر کے نکل گیا۔ ٹیپو نے گیٹ بند کر دیا اور حجاب نم آنکھیں لیے صحن میں کھڑی گیٹ کی طرف دیکھتی رہی۔جعفر اور خنجر نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
"کیا اندازہ ہے تمہارا؟” خنجر نے سوال کیا۔
"یہ بھوت ضرور کوئی پنگا کھڑا کرے گا۔”
"پھر….اب کیا کیا جائے؟”
"پتا نہیں ،پر ہمیں کسی پنگے میں نہیں پڑنا چاہیے ،کم از کم جب تک مرشد استاد کو ہوش نہیں آ جاتا ہے۔”
ڈاکٹر زمان جو ان کے قریب ہی کھڑا تھا اور ان کی اب تک کی بات چیت سن کر مزید گھبراہٹ اور پریشانی میں مبتلا ہو چکا تھا۔ جھجھکتے ہوئے بولا۔
"آپ لوگوں کو فوراً کسی محفوظ ٹھکانے تک پہنچ جانا چاہیے۔یہاں…. یہاں تو کسی بھی وقت کوئی گڑبڑ ہو سکتی ہے۔“
جعفر اور خنجر نے ایک بار پھر ایک دوسرے کو دیکھا اور دونوں ہی جیسے ایک نقطے پر متفق ہو گئے۔ دونوں نے ایک ساتھ ہی قریب آتے ہوئے ٹیپو کی طرف دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ان دونوں نے آگے کا لائحہ عمل طے کر لیا۔حجاب بے جان قدموں سے واپس پلٹی تھی۔ خنجر اس سے مخاطب ہوا۔
"بی بی جی! ہم لوگوں کو یہاں سے روانہ ہونا ہے…. ابھی اسی وقت۔”
"کیا…. کدھر, کہاں؟” اس نے چونک کر دونوں کی طرف دیکھا۔
جعفر بولا۔ "ایک دو ٹھکانے ہیں میری نظر میں۔ وہاں تک پہنچ گئے تو مرشد استاد کے سنبھلنے تک تسلی سے وہاں روپوش رہ سکیں گے۔”.
"لل..لیکن وہ زریون۔ وہ آدھے گھنٹے تک واپس آنے کا کہ کر گئے ہیں۔“
"اسی لیے تو ہمیں فوراً نکلنا ہے۔ وہ گئے ہیں تو ضرور کسی نہ کسی مصیبت کا انتظام کریں گے۔ ہمیں ان سے کسی دانش مندانہ فیصلے یا حرکت کی توقع نہیں۔ ویسے بھی آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ وہ نشے میں دھت ہیں۔ایسے میں کیا سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں گے وہ….ان کے آنے سے پہلے ہمیں روانہ ہونا ہے۔یہی ہم سب کے حق میں بہتر رہے گا۔”. خنجر نے گہری سنجیدگی سے کہا اور پھر ڈاکٹر سے مخاطب ہوا۔
"چل ڈاک ڈار! تو اپنا بیگ سمبھال اور ضرورت کی ساری دوائیاں اور سامان شمان بھر لے بیگ میں۔”.
"کک،کیوں….کس لیے؟” ڈاکٹر گھبرا گیا۔
"ابے گھامڑ ! ہمارے ساتھ مریض ہے۔ سیریس حالت میں…. ایک ڈاکٹر تو ہر وقت مریض کے پاس ہونا چاہیے نا۔“
"مم،مگر….مگر میں آپ لوگوں کے ساتھ کیسے جا سکتا ہوں۔ یہاں ہر وقت میری ضرورت ہوتی ہے۔ ایمرجنسی کیسز آتے رہتے ہیں۔“
"اچھا…. ٹھیک ہے جعفر! اسے رہنے دے۔ اس کی بیوی کو نکال لااسے لے چلتے ہیں۔“ٹیپو نے مداخلت کی۔
"آپکو یہ سب نہیں کرنا چاہیے۔ یہ سب ٹھیک نہیں ہے”.
"ہم لوگ جب سے پیدا ہوئے ہیں سب کچھ غلط کرتے آ رہے ہیں اور آگے کی زندگی بھی ہم نے ایسے ہی گزارنی ہے۔تم چاہو تو شاہ پور اپنے مالک کی حویلی جا سکتے ہو۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ".
"آپ اچھی طرح سوچ سمجھ لیں۔مجھے بھی ایسا کرنا ٹھیک نہیں لگ رہا۔ زریون کیا سوچیں گے؟” حجاب نے تذبذب سے کہا۔ اس کے ذہن و دل میں بلا کی کشمکش جاری تھی۔ مرشد اور اس کے ساتھیوں پر اسے مکمل اعتماد اور مکمل بھروسہ تھا۔ اسے یقین تھا کہ یہ لوگ اپنے جیتے جی تو اسے کوئی گزند نہیں پہنچنے دیں گے لیکن زریون سے ملاقات ہو جانے کے بعد اسے یوں نظر انداز کر کے ان کے ساتھ یہاں سے چلے جانا۔اسے کسی طور مناسب نہیں لگ رہا تھا۔
زریون کے مزاج اور طبیعت کا بھی اسے خاصی حد تک اندازہ ہو چکا تھا۔ اب اگر وہ خنجر لوگوں کے ساتھ یہاں سے روانہ ہو جاتی اور زریون واپسی پر اسے غائب پاتا تو وہ یقیناً اپنی توہین….اپنی نفی محسوس کرتا۔اس کی آئندہ زندگی کے لیے یہ کسی صورت بھی سازگار نہیں ہوتا۔ دوسری طرف مرشد کو اس حالت میں چھوڑ کر زریون کے ساتھ چلے جانے کو بھی اس کا دل قطعی آمادہ نہیں تھا۔ مرشد کی حالت کی طرف سے ابھی کوئی تسلی بخش بات سامنے نہیں آئی تھی۔ وہ زندگی اور موت کے درمیان جھول رہا تھا۔ خنجر کی اس بات پر بھی اسے اندھا یقین تھا کہ اسے یہاں سے غائب پا کر مرشد ہوش میں آتے ہی اس کے پیچھے نکل کھڑا ہوگا۔ وہ بستر پر پڑا رہنا ہرگز بھی گوارہ نہیں کرے گا چاہے نتیجے میں اپنی جان ہی کیوں نا گنوا بیٹھے۔ حالات و واقعات نے اسے ایسے دوراہے پر لاکھڑا کیا تھا کہ جہاں ایک طرف زریون تھا اور دوسری طرف مرشد
زریون….جس کے ساتھ بچپن میں ہی اس کے والدین نے اس کی نسبت طے کر دی تھی۔ زندگی بھر کے لیے جس کا پابند کر دیا تھا۔ جسے اس کا مجازی خدا ٹھہرا دیا تھا اور مرشد….جس نے اس کی حفاظت،اس کی عزت آبرو کے تحفظ کیلیے اپنا سب کچھ تج دیا تھا۔ جو مسلسل سائے کی طرح، ایک مضبوط ڈھال کی طرح قدم قدم اس کے ساتھ رہا تھا۔ جو اس کی اس طرح عزت و تکریم کرتا تھا کہ جس پر عبادت کا گماں ہو….وہ جو اس کی طرف دیکھتا تھا تو محسوس ہوتا کہ اس کی آنکھوں کا نور چھلک چھلک کر اس کی ذات کے کرد ایک ہالہ قائم کرتا ہے وہ جس نے اس کے حصے کی موت کو بھی اپنے
وجود پر لیا تھا۔حجاب کے دل نے گواہی دی کہ عزت و ناموس کے ساتھ ساتھ اگر اس کی زندگی بھی محفوظ ہے تو مرشد کی بدولت…. ایک طرح سے اس کی یہ زندگی مرشد کی ہی دی ہوئی تھی ورنہ تو شاید بہت پہلے ہی وہ عزت اور آبرو گنوا کر قتل ہو چکی ہوتی یا پھر خودکشی کر گزری ہوتی…. مرشد اس کا محافظ تھا، محسن تھا۔ ایسا محسن جس کے احسانات وہ کبھی اور کسی بھی صورت اتار نہیں سکتی تھی اور ایسے محسن کو یوں موت کے منہ میں چھوڑ کر چلے جانا کمینگی کی حد تک خود غرضی کی بات تھی۔ وہ چلی جاتی تو باقی تمام زندگی اس کا اپنا ضمیر اسے لعنت ملامت کرتا رہتا۔ کبھی سکون کی سانس نہیں لینے دیتا!
اس کی پلکوں سے دو آنسو ٹوٹے اور وہ شل اعصاب کے ساتھ ایک کرسی پر ڈھیر سی ہو گئی۔ دل و دماغ دونوں کا جھکاو�¿ مرشد کے حق میں تھا۔ ان لمحوں اس اکھڑ مزاج بدمعاش کا پلڑا بھاری رہا تھا۔
ساری کارروائی محض چند منٹ میں مکمل ہو گئی۔جس وقت جعفر اور خنجر مرشد کو جیپ میں منتقل کر رہے تھے سوئے اتفاق ان ہی لمحوں فیروزہ کمرے سے نکل آئی۔اس کا دایاں بازو آرم سلنگ میں تھا۔ حجاب کی رضامندانہ چپ اور فیروزہ کی مداخلت نے ٹیپو کو شش و پنج میں مبتلا کر دیا۔ اس نے محتاط انداز میں ان کے اس پروگرام کی مخالفت تو کی مگر کسی نے بھی اس کی بات کو اہمیت نہیں دی۔ فیروزہ کی شدید ضد پر معمولی پس و پیش کے بعد خنجر اور جعفر نے اسے بھی جیپ میں سوار کر لیا اور حجاب کے بیٹھنے کے بعد ٹیپو جیسے چار و ناچار ان کے ساتھ ہو لیا۔ ڈاکٹر زمان کے ساتھ انہوں نے زبردستی کی تھی البتہ تاجل کو وہیں سوتا چھوڑ دیا گیا۔
فجر کی اذان ہو گزری تھی۔ کچھ ہی دیر بعد صبح کی سفیدی پھیلنے والی تھی جب ان کی جیپ اس کوٹھی سے نکل کر باہر کیچڑ آلود سڑک پر اترآئی۔
خنجر سوچ رہا تھا کہ کچھ دیر بعد جب زریون کی واپسی ہوگی اور وہ حجاب کے ساتھ ساتھ فیروزہ کو بھی یہاں سے غائب پائے گا تو اس پر کیا گزرے گی؟ یقیناً غصے اور جھنجھلاہٹ سے اس کی حالت بری ہونے والی تھی!
****************
کئی ایکڑ رقبے پر پھیلے آموں کے باغات کے بالکل وسط میں تین چار کمروں پر مشتمل یہ ایک ڈیرا نما نیم پختہ عمارت تھی۔چار فٹ اونچی کچی دیواروں کا ایک وسیع احاطہ تھا اور اس احاطہ کے مغربی حصے میں کوری اینٹوں کی مدد سے یہ چند کمرے تعمیر کیے گئے تھے۔ ان کمروں کے علاوہ شمالی دیوار کے ساتھ ساتھ چند کوٹھڑیاں اور کچھ چھپر کٹ برآمدے بھی موجود تھے۔ان ہی چھپر کٹ برآمدوں میں ایک جگہ وہ جیپ کھڑی تھی جو خنجر لوگوں نے چناب والے ریسٹ ہاو�¿س سے قبضہ میں لی تھی اور اس کے بعد ڈاکٹر زمان کے کلینک سے وہ لوگ یہاں پہنچے تھے۔
صبح کا اجالا پوری طرح پھیل چکا تھا البتہ سورج طلوع ہونے میں ابھی چند منٹ باقی تھے۔ وہ لوگ ابھی یہاں پہنچے تھے۔ ان باغات اور ڈیرے کا مالک باسط سیال نامی شخص جعفر کا پرانا شناسا تھا۔ اس نے کھلے دل سے ان سب کو خوش آمدید کہا تھا۔مرشد کو عقبی طرف کے ایک کمرے میں منتقل کر کے وہ سب باسط سیال کے ساتھ باہر نکل گئے تھے۔مرشد کے قریب حجاب اور فیروزہ موجود تھیں۔ مرشد بدستور بے ہوش تھا پر اب اسکے چہرے پر چھائی تاریکی کم پڑ چکی تھی۔ پہلی نظر میں لگتا تھا کہ وہ سو رہا ہے۔فیروزہ کے استفسار پر حجاب اسے تفصیل بتا رہی تھی کہ وہ لوگ کیسے یہاں تک پہنچنے اور کیسے مرشد کو گولی لگی اس سے پہلے فیروزہ، راستے ہی میں اسے یہاں اپنی موجودگی کے حوالے سے بتا چکی تھی….وہ بتا تو چکی تھی لیکن اس کے بیان میں زریون کا نام نہیں آیا تھا یعنی وہ دونوں ہی لا علم تھیں کہ اپنی اپنی جگہ وہ زریون کو اچھی طرح سے جانتی ہیں۔ "خدا کا شکر ہے کہ ابھی بچت ہو گئی۔”. حجاب کی بات مکمل ہوتے ہی فیروزہ بولی۔
"اگر….اگر خدا ناخواستہ اس مچھل کو کچھ ہو جاتا تو اس کے ساتھ ساتھ دو لوگ اور مر جاتے…. ایک اس کی ماں اور دوسری میں….میں نے بھی اس کے بغیر زندہ نہیں رہنا تھا۔ میں نیلا تھوتھا کھا لیتی یا کالا پتھر گھوٹ کر پی لیتی۔”.
وہ مرشد کی چارپائی کی دائیں طرف موجود چارپائی پر دراز تھی جب کہ حجاب مرشد کے بائیں ہاتھ رکھی اونچی پشت کی رنگین کرسی پر بیٹھی تھی۔اس نے ایک نظر فیروزہ کے چہرے پر ڈالی۔ وہ یک ٹک مرشد کے چہرے کو تک رہی تھی اور پیار بھرے لہجے میں بول رہی تھی۔
"منہ زور! اتھرے گھوڑے کا مزاج رکھتا ہے لیکن ہے سچل مال….مجال ہے جو پیٹھ پر سایہ بھی برداشت کر جائے…. بچپن سے ہی ایسا ہے….سڑیل،غصیلا….ایک زرا سی بات ہوئی نہیں کہ مینڈک کے غباروں کی طرح نتھنے پھیلا کر کھڑا ہو گیا۔“ حجاب کو اسکی آنکھوں میں ایک مسکراتی ہوئی چمک دیکھائی دی اور لہجے میں استحقاق بھری اپنائیت اور لاڈ ۔ پتہ نہیں کیوں…. لیکن سینے کے اندر ایک بوجھ سا آ ٹھہرا …. سانس کی نالی پر دباو�¿ سا آیا تھا!
"آپ مرشد کو پسند کرتی ہیں؟” اس کے سوال پر فیروزہ کی نظریں مرشد کے چہرے سے پھسل کر اس پر جا ٹھہریں۔ چند لمحے خاموشی سے دیکھتے رہنے کے بعد وہ دوبارہ مرشد کی طرف دیکھتے ہوئے مدھم سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
"نہیں…. پسند نہیں کرتی….مجھے اس سے عشق ہے…. عشق کرتی ہوں میں اس سے….آج سے نہیں ،کئی برسوں سے ۔بچپن میں جب میں نے ہوش بھی نہیں سنبھالا تھا, اپنے نام تک کا شعور نہیں تھا مجھے, تب سے….یا شاید اس سے بھی پہلے سے۔ یا شاید….مجھے اس سے عشق پہلے ہوا اور میں خود بعد میں ہوئی۔“
"ہمارا شروع بچپن کا ساتھ ہے….مجھے یاد ہے کہ میں نے جب ہوش سنبھالا تو اس سے پہلے سے یہ میرے دل میں موجود تھا۔ جیسے دھڑکن دل کے اندر موجود ہوتی ہے….تب یہ بہت نازک اور حساس ہوتا تھا۔ چھوٹی چھوٹی بات کو محسوس کرنے والا۔ ذرا سی بات پر آنکھیں بھگو لینے والا۔ تب جتنا نازک اور حساس ہوتا تھا آج اتنا ہی پتھر اور بے رحم ہو چکا ہے۔”.
"میرا نہیں خیال۔” حجاب کے بے ساختہ اختلاف پر فیروزہ نے اس کی طرف دیکھا۔ اب حجاب کی آنکھیں مرشد کے چہرے پر اتری ہوئی تھیں۔ ممنون و مشکور،اپنائیت سے لبریز آنکھیں….
"اللہ نے انہیں بہت خوبصورت دل سے نوازا ہے۔ دل کے ساتھ ساتھ اعلا کردار سے بھی۔ بس…. غلط جگہ اور غلط ماحول میں پروان چڑھے ہیں …. اگر آپ لوگوں کی شادی ہو جائے تو انہیں وہاں نہ رہنے دیجیے گا۔آپ دونوں وہ جگہ،وہ علاقہ چھوڑ دیجئیے گا۔“
"شادی ؟ فیروزہ نے استہزاءآمیز اداسی سے جیسے ہنکارا بھرا۔شاید وہ کچھ مزید بولتی لیکن اسی وقت خنجر اور جعفر ڈاکٹر زمان کے ساتھ اندر داخل ہو آئے۔ ڈاکٹر مرشد کا جائزہ لینے لگا اور خنجر انہیں بتانے لگا کہ ان دونوں کے لیے کونے والا کمرہ مخصوص کر دیا گیا ہے۔
"اب آگے نا معلوم وقت تک وہ دونوں اس کمرے میں ٹھہریں گی ۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ رات کی نسبت اب مرشد کی طبیعت خاصی بہتر ہے۔ اس کی بات پر سبھی نے قدرے سکون محسوس کیا۔ ذہنوں اور دلوں پر طاری اندیشوں کی تاریکی میں امید کی روشن کرن چمک اٹھی۔ جعفر اور ڈاکٹر تو وہیں موجود رہے البتہ خنجر ان دونوں کو کونے والے کمرے میں چھوڑ گیا۔
یہ کمرہ قدرے بہتر حال میں تھا۔صاف اندازہ ہو رہا تھا کہ اسے تازہ تازہ ہنگامی بنیادوں پر سنوارا گیا ہے۔ چارپائیوں پر صاف ستھری چادریں بچھی
تھیں۔ نئے نکور تکیے رکھئے تھے۔ چارپائیوں کے درمیان تپائی پر گلاس دھرے تھے اور ایک دیوار کے ساتھ پیڈسٹل فین آن حالت میں کھڑا تھا۔
یہاں پہنچتے ہی حجاب نے وہیں سے بات شروع کی جہاں سے ان کا سلسلا کلام منقطع ہوا تھا۔
"میرا شادی کی بات کرنا آپ کو ٹھیک نہیں لگا کیا؟”
"چاند سورج کی جوڑی کہیں نہیں بن سکتی حجاب بی بی! چاند سورج کا تو سامنا ہی گرہن بن جاتا ہے….مرشد میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے لیکن میں جانتی ہوںمجھے پتا ہے کہ مرشد کبھی میرا نہیں ہو سکتا۔ آپ نے ٹھیک کہا ہے کہ اللہ کی ذات نے اسے خوبصورت دل اور اعلا کردار سے نوازا ہے۔ میں بتاﺅں آپ کو محلے بھر کی لڑکیاں اور بازار کی کئی چھنال عورتیں مرشد کے متعلق کیا سوچتی ہیں ؟”
اس نے کمر عقب میں تکیے سے ٹکائے ٹکائے پہلو حجاب کی طرف بدلا۔
"محلے اور علاقے میں مرشد کے نام پر ٹھنڈی گرم آہیں بھرنے والی بہت ساری ہیں بہتوں کے کلیجے کا روگ ہے مرشد اور ایسا ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مرشد نے کبھی کسی کو منہ نہیں لگایا کیچڑ میں رہتے ہوئے بھی اس نے اپنا دامن محفوظ رکھا ہوا ہے۔ یہ اس بستی میں پیدا ہوا ، پلا بڑا ، سب کے درمیان میں رہا ہے لیکن….لیکن سب کو اندازہ ہے کہ یہ ہماری بستی ،ہمارے قبیلے کا بندہ نہیں ہے۔ سب کا ماننا ہے کہ جب تک اس کی ماں حسن آرا زندہ ہے، صرف تب تک ہی یہ اس بستی میں ہے۔ ماں اس کے پاو�¿ں کی زنجیر ہے۔ وہ زنجیر نہ رہی تو یہ بھی وہاں نہیں رہے گا…. میں بھی یہ بات اچھی طرح جانتی ہوں لیکن دل تو دل ہے نا….جڑ گیا تو جڑ گیا….کیا کیِا جا سکتا ہے۔“ فیروزہ کے چہرے پر مدھم سی مسکان تھی۔
حجاب بولی۔ "میں نے دیکھا تھا خالہ حسن آرا آپ کو پسند کرتی ہیں۔ آپ کوشش کریں گی تو بات بن جائے گی۔ آپ دونوں کی جوڑی خوبصورت بھی بہت لگے گی۔“
پتا نہیں کیوں لیکن فیروزہ کے منہ سے مرشد کے متعلق یہ سب سن کر حجاب کو بہت اچھا لگا تھا۔
"حجاب بی بی! یہ جو دل ہوتا ہے نا! یہ ہمیشہ انہونے خوابوں کے پیچھے بھاگتا ہے۔ سرابوں کے پیچھے دوڑتا ہے یہ….اور شاید ایسا ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ کچھ وقت سے خود مرشد کے ساتھ بھی ایسا شروع ہو چکا ہے….وہ بھی جاگتے میں ایک ایسا خیال لیے پھر رہا ہے جس کی کوئی تعبیر ہی نہیں…. اس خواب نے ہمیشہ خواب ہی رہنا ہے…. سراب رستے نے ہمیشہ سفر ہی رہنا ہے۔ کبھی اور کسی صورت منزل نہیں ہونا اور اس حقیقت کا خود اسے بھی اچھی طرح پتا ہے۔ پھر بھی…. واپسی پر انسان کا اختیار ہی نہیں ہوتا نا!”
حجاب کی دھڑکنوں میں ایک ہلچل سی بے دار ہوئی۔وہ سمجھ گئی کہ فیروزہ کا اشارہ کس کی طرف ہے۔ ذہن میں فوراً اس روز کا منظر چمک گیا تھا جس دن مرشد اس کے لیے ڈھیروں ڈھیر شاپنگ کر کے لایا تھا۔ حسن آرا کے کمرے میں چھوٹی سی محفل کا ماحول بنا ہوا تھا۔فیروزہ بھی موجود تھی۔ چوڑیاں دیکھتے ہوئے مرشد کے ٹوکنے پر اسنے عجیب چھبتے ہوئے لہجے میں ایک جملہ کہا تھا۔
"کیوں….کوئی "دوسرا” دیکھ بھی نہیں سکتا کیا؟” اس وقت اس نے لفظ "دوسرا” جس انداز اور لہجے میں کہا تھا وہ حجاب کو جوں کا توں یاد تھا۔وہ اپنی دھڑکنیں سنبھالتی ہوئی بولی۔
"آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ سرابوں اور خوابوں کے پیچھے دوڑنے والوں کے حصے میں سوائے پشیمانی کے اور کچھ نہیں آتا۔ میں سمجھاو�¿ں گی مرشد جی کو کہ وہ کسی خواب سراب میں نہ پڑیں۔ زندگی کا سفر کھوٹا کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا…. میں نے پہلے ان سے بات کی ہے کہ وہ اب واپس جانے کے بجائے کسی طرح خالہ حسن آرا کو راز داری سے اپنے پاس بلالیں اور کسی دور دراز کے علاقے میں جاکر گمنامی اور روپوشی کی زندگی گزاریں۔
پولیس اور چوہدری لوگ اب ان کی جان بخشی نہیں کریں گے۔ آپ بھی بات کریں ان سے….قدرت نے بھی آپکو یہاں پہنچا دیا ہے تو ضرور اس میں خدا کی کوئی حکمت ہوگی۔اس نے چاہا تو آپ تینوں کی اچھی نبھے گی۔“
"آپ نے بات کی تھی تو پھر کیا جواب دیا تھا اس نے؟” فیروزہ نے سنجیدگی سے سوال کیا اور پھر حجاب کے جواب سے پہلے ہی مزید بولی۔”وہ نہیں مانا ہوگا….کسی نہ کسی پہلو سے اس نے اپنی ماں کا ذکر کیا ہوگا اور اپنی معذوری کا اظہار کیا ہوگا۔”.
"ہاں جی! انہوں نے کہا تھا کہ خالہ حسن آرا وہ جگہ نہیں چھوڑنا چاہتیں۔“
فیروزہ نے تفہیمی انداز میں سر کو جنبش دی۔
"پتا ہے….پورا محلہ ہی جانتا ہے۔اگر خالہ وہ جگہ چھوڑنے پر آمادہ ہوتی تو مرشد بہت پہلے ہی ہجرت کر گیا ہوتا….خالہ کے وہ جگہ نا چھوڑنے کی وجہ بھی آپ جانتی ہی ہونگی؟”.
"ہاں جی! وہ مرشد جی کے بابا سائیں کا انتظار کر رہیں ہیں۔“ فیروزہ کے سنجیدہ چہرے پر مدھم سی اداسی اور افسوس کا رنگ پھیل گیا۔آنکھوں میں جیسے ایک حسرت انگیز پیاس کسمسا اٹھی۔کمرے کی فضا میں اچانک ایک مضمحل سا سکوت بھر آیا۔ گھوں گھوں کی آواز کے ساتھ آتی پنکھے کی ہوا میں بارش کی خنک مہک گھلی ہوئی تھی۔ کمرے کے کچے فرش کی تازہ تازہ صفائی،فرش پر ایک سوگواری پھیلا گئی تھی۔ کوری اینٹوں کی درزوں سے جیسے اچانک ہی بے شمار ہجر زدہ منتظر آنکھیں جھانکنے لگیں ۔
"خالہ کے اس عشق کا خیال تو کبھی کبھی مجھے لرزا جاتا ہے…. میں مرشد کے عشق کا دم بھرتی ہوں لیکن خالہ کے عشق کا سوچ کر مجھے لگتا ہے میرا عشق تو بس مذاق ہی ہے….کئی بار خود سے پوچھا کہ کیا میں مرشد کے لیے خالہ جیسی زندگی گذار سکتی ہوں….ہر بار جواب نفی میں ہی ملا۔ مجھ میں تو اتنا حوصلہ اور سکت نہیں ہے!“
"ویسے عجیب لگتا ہے یہ سن کر کہ کوئی ستائیس سال سے کہیں بیٹھا کسی کی واپسی کا انتظار کر رہا ہے!” حیرت حجاب کا انداز تھی۔
"ہاں! عجیب تو ہیںماں بیٹا دونوں ہی عجیب ہیں….دونوں کا مزاج،طبعیت،دونوں کی آپس میں مثالی محبت….ایک مقناطیس کے تین ٹکرے ہیں۔ایک گمشدہ ہے اور دو یہ ماں بیٹا ہیں….تیسرے ٹکرے کی کشش میں خدا نے خالہ کو ایک جگہ باندھ کر بٹھا دیا اور خالہ کی کشش نے مرشد کو باندھ کر وہاں ٹھہرا دیا ابھی پتا نہیں مزید کتنا عرصہ وہ انہیں یونہی باندھے رکھے گا”.
"کیا آپ ان کے بابا سائیں کے متعلق کچھ جانتی ہیں؟ کون تھے وہ، کہاں سے تھے؟”
"میرے تو پیدا ہونے سے پہلے کی بات ہے۔”
"میرا مطلب تھا کہ آپ نے وہاں کسی سے کچھ سنا ہو ان کے بارے میں”.
"چند باتیں تو بہت سوں سے سنی ہیں۔مثلاً یے کہ وہ کوئی بہت خاندانی بندہ تھا….بہت بڑے اور اونچے خاندان سے تعلق تھا اس کا۔ ایسے دین دار اور رکھ رکھاو�¿ والے خاندان سے جن کے ہاں کوٹھے اور طوائف جیسے لفظوں کا استعمال تک معیوب سمجھا جاتا تھا…. نانی کچھ عجیب سا لقب یا نام لیتی تھی۔اس بندے کا….کیا تھا….یاد نہیں آ رہا….بہرحال نانی کے بقول اس نے خود دیکھا بھی تھا اس شخص کو۔ کہتی ہے کہ انتہائی نفیس،شریف اور پروقار شخصیت کا مالک تھا۔خالہ کے ساتھ پوری سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ شادی کرنے پر باضد رہا ۔نکاح تک بات آگئی تھی۔ سب کچھ ٹھیک تھا۔ نکاح کی رسم ادا ہو رہی تھی کہ درمیان ہی میں بھنگ پڑ گئی اس بندے کے باپ کی ناگہانی موت کی وجہ سے نکاح کی رسم درمیان میں ہی درہم برہم
ہو گئی۔وہ شخص ظاہر ہے کہ ہنگامی انداز میں وہاں سے روانہ ہوا اور پھر….آج تک خالہ اس کی منتظر بیٹھی ہے….”
وہ واپس کیوں نہیں آئے۔” حجاب نے بے ساختہ سوال کیا۔
"یہ تو شاید کسی کو بھی پتا نہیں اور نا ہی میرا خیال ہے کہ کسی نے پتا چلانے کی کوشش کی ہوگی۔”.
"کسی کو تو کوئی خیر خبر ہوگی ان کی۔”
"کسی کو کچھ خبر نہیں۔ہوتی بھی کیوں! ہر کسی کو اپنی پڑی ہوتی ہے اور ہمارے یہاں یہ کوئی ایسی اہم اور غیر معمولی بات تھی بھی نہیںیہ سب تو وہاں کے معمولات کا حصہ ہے۔اس سب میں کچھ غیر معمولی رہا تو وہ ہے خالہ کا یقین اور انتظار….خیر خبر ہوتی تو خود خالہ کو ہوتی جو کہ نہیں ہے…. اور اگر محلے میں کسی ایک آدھ فرد کو ہوئی بھی تو وہ کبھی منہ نہیں کھولے گا۔”
"کیوں بھلا؟ وجہ؟”
"وجہ ہے مرشد اور مرشد کے بعد رستم لہوری…..”
"کیا مطلب؟ میں کچھ سمجھی نہیں۔“کسی نا معلوم احساس یا خیال کے تحت فیروزہ ایک خفیف سی جھرجھری لے کر بولی۔
"مرشد نے آج سے گیارہ بارہ سال پہلے؛ پہلی دفعہ جس لڑکے کو پیٹا تھا اس نے مرشد کو اس کے باپ ہی کے متعلق کوئی بات کی تھی۔ خدا کی پناہ….مرشد نے اس کے چہرے کے ساتھ اس کے پورے بدن پر نقش و نگار بنا دئیے تھے۔اور اس کا ایک کان بھی کاٹ دیا تھا۔پولیس پکڑ کر لے گئی تو اس کا گرو رستم لاہوری اس کے پیچھے تھانے جا پہنچا اور یہ محض چند گھنٹوں بعد چھوٹ کر واپس آ گیا ۔ اس کے بعد دو بار مزید ایسا ہوا کہ اس کے باپ اور ماں کے حوالے سے بات کی گئی اور مرشد نے بات کرنے والوں کا وہ حشر کیا کہ الامان الحفیظ….سارا محلہ،سارا بازار گواہ ہے کہ مرشد نے انہیں مار مار کر ادھ موا کرنے کے بعد ان کی زبانیں کاٹ کر پھینک دی تھیں….رستم لہوری نے سزا اسے ایک بار بھی نہیں ہونے دی۔اب آپ خود سوچیں ایسے میں کون خود سے دشمنی کرے گا؟سب اچھی طرح جان سمجھ چکے ہیں کہ مرشد کو اپنے باپ کے ذکر سے کس انتہا درجے کی نفرت ہے لہذا عرصہ ہو گزرا، اب محلے میں کوئی اس طرح بات نہیں کرتا”.
حجاب کو فوراً خیال آیا کہ وہ خود اس حوالے سے مرشد کے ساتھ براہ راست بات کر چکی ہے اور خاصی تفصیل سے کر چکی ہے۔مرشد نے نہ صرف تسلی اور سکون سے ساری باتیں کی تھیں بلکہ اس کے کہنے پر وہ اپنے باپ کو تلاش کرنے تک کی حامی بھی بھر چکا تھا….اب فیروزہ کی باتوں سے اسے احساس ہو رہا تھا کہ یہ کیسا غیر معمولی کام تھا جو وہ انتہائی معمولی انداز میں کر بھی چکی تھی …. ساتھ ہی اس کے ذہن و دل کی گہرائیوں میں کہیں یہ احساس تفاخر بھی موجود تھا کہ مرشد کی طرف سے یہ غیر معمولی حق اور اختیار آج تک بطور خاص صرف اسی کو دیا گیا ہے۔
خنجر کے ناشتہ لے کر آنے پر ان کی گفتگو کا رخ تبدیل ہو گیا۔اس کے جانے کے بعد ناشتہ دونوں نے خاموشی سے کیا۔اس دوران فیروزہ مرشد کے متعلق سوچتی رہی اور حجاب زریون کے….یہ خیال رہ رہ کر ذہن کو کچوکے دینے لگتا تھا کہ کہیں زریون کو نظر انداز کرکے اس کا یوں چلے آنا آئندہ زندگی میں اس کے لیے کوئی مستقل اور کڑی آزمائش نہ بن جائے۔اس کے حوالے سے زریون اپنی دل میں کوئی گرہ نہ ڈال بیٹھے۔پھر وہ خود ہی شعوری طور پر خود کو سمجھانے لگتی کہ نہیں…. زریون پڑھے لکھے اور سمجھدار انسان ہیں۔وہ ضرور صورتحال اور میری کمزور پوزیشن کو سمجھ جائیں گے اور اگر ان کے ذہن و دل میں کوئی چھوٹا موٹا گلہ شکوہ ہوگا بھی تو وہ وقت آنے پر خود ہی تفصیل اور وضاحت سے انہیں سب کچھ بتا سمجھا کر ان کا دل صاف کر دے گی….سب ٹھیک ہو جائے گا۔
زریون سے دھیان پھسل کر پھوپھا پھوپھی اور باقی دونوں کزنوں کی طرف چلا گیا۔فائزہ اور وقار…. دونوں کے دھندلے دھندلے خاکے یادستان میں محفوظ تھے۔ تقریباً قریب دس سال ہو گئے تھے ان سب کو بالمشافہ ملے ہوئے۔ دس سال پہلے دونوں گھرانے قلعے سیف اللہ میں اکٹھے ہوئے تھے۔اس کے بابا سائیں اور پھوپھا میں گہرا دوستانہ تھا۔برادرانہ محبت تھی دونوں میں۔ ایک رات پکنک کے طور پر انہوں نے پہاڑوں کے دامن میں بہتے ایک شفاف چشمے کے کنارے گزاری تھی۔چاند اپنے جوبن پر تھا۔فضا صاف شفاف اور نتھری ہوئی تھی۔ بابا اور پھوپھا ایک چٹان پر چادر بچھا کر بیٹھ گئے۔ان کے پاس زمانوں کے قصے تھے ۔ایک دوسرے کو سنانے کے لیے۔ خواتین چشمے کنارے محفل جما کر بیٹھ گئیں۔ لڑکے اور بچے اپنی بھاگ دوڑ اور ہنسی ٹھٹھول میں مست ہو گئے۔پورے چاند کی ٹھنڈی چاندنی، سکون اور اطمینان کی پھوار کی طرح چاروں اور اتر رہی تھی۔فضا خوش گپیوں اور ہنسی مذاق کی آوازوں سے چھلک چھلک جا رہی تھی۔ وہ رات بھی یادوں کے ڈھیر میں ایک خواب ناک سی یاد کی صورت حجاب کے حافظے میں موجود تھی۔
اس رات وقار اور اسرار بھاگتے دوڑتے پہاڑ کی دوسری سمت نکل گئے تھے اور پھر بھاہ زوار اور زریون دو گارڈز کے ساتھ ان کے پیچھے گئے تھے۔دونوں کو اپنی ماو�¿ں سے خوب ڈانٹ پڑی تھی۔اسرار کے تو ماں جی نے اچھے سے کان بھی مروڑے تھے۔ بعد میں کتنے روز تک وہ اسرار کو اس واقعہ پر چھیڑتی اور چڑاتی رہی تھیکسی نیزے کی انی کی طرح کلیجے میں ایک ہوک سے ٹوٹی۔ یک بارگی ماں جی اور بھائیوں کی ہنستی مسکراتی صورتیں اس کے پردہ تصور پر روشن ہوکر سینے میں کرب کا بھنور سا بےدار کر گئیں….کیا ہوئیں وہ پر محبت صورتیں….وہ شفیق اور مہربان وجود, وہ رفاقتیں….محبت گندھی مٹی سے بنا وہ گھر،وہ در و دیوار جہاں اس نے اپنی زندگی کے اب تک کے بیس بائیس سال گذارے تھے….وہ سب کچھ….آج تک کی زندگی سمیت، دھواں بن کر فضاﺅں میں کہیں تحلیل ہو چکا تھا…. وہ سب محض ایک خواب،ایک یاد کی صورت باقی تھا اب اور بس۔
ذہن آپوں آپ ماں جی اور اسرار کی طرف چلا گیا۔ان کی زندگی کی طرف سے آس امید تو باقی تھی لیکن ساتھ ہی لاتعداد اندیشے اور واہمے بھی تھے۔
وہ دونوں زندہ تھے لیکن کچھ اندازہ نہیں تھا کہ وہ کہاں موجود ہیں؟ کس حال میں ہیں اور کیسے گزار رہے ہیں؟ اپنے گھرانے پر ٹوٹ پڑنے والی اس قیامت،اس ہول ناکی کے حوالے سے ان دونوں کے دلوں , دماغوں پر کیا گزر رہی ہوگی….ماں جی تو انتہائی نرم اور نازک دل کی مالک تھیں۔چڑیا جیسا دل تھا ان کا۔ اتنی بھیانک قیامت کیسے برداشت کی ہوگی انہوں نے….ان کا دل یہ عظیم دکھ،یہ جان کاہ کرب کیسے برداشت کر پایا ہوگا اور اسرار….وہ بھی تو ابھی بالکل نا سمجھ اور معصوم ہی تھا نا!اس کی نا سمجھی ہی تو تھی جو اس اندھے اور بے رحم طوفان کا باعث بنی تھی جو سب کچھ تہہ و بالا کر گیا تھا۔ انہیں تباہ و برباد کر گیا تھا۔ان کے بابا اور دونوں بھائیوں کو نگل گیا تھا اور ماں جی کے ساتھ ساتھ خود اسرار اور حجاب کو درخت سے ٹوٹے پتوں کی طرح ارزاں اور بے مول کر گیا تھا۔کاش کہ اسرار نے اس کی باتوں پر کان دھرے ہوتے….کاش نازیہ ہی اس کے سمجھانے پر سمجھ گئی ہوتی تو یہ سب نہ ہوا ہوتا…. زندگی آج ڈراونا خواب نہ ہوتی۔