قدم قدم ہنگاموں اور حادثوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے عشق کی رودادِ دل گداز
اُس نے نزہت جہاں بیگم کے کوٹھے پر آنکھ کھولی، مسلے مرجھائے گجرے، باسی پھول اور گھنگرو اس کے کھلونے بنے، بدمعاشوں کی دنیا نے اسے مرشد مانا اور پھر…… وہ کسی کا مرید ہو گیا
مرشد
شاہی محلے کا نمازی بدمعاش جس نے سرکار سے عشق کیا اور عشق کی مریدی
Murshid Novel |
"بابا سائیں والد ” وہ جیسے سامنے پڑے صوفے سے مخاطب ہوا۔”وہ جو کوئی بھی تھا تھا تو پاکھنڈ باز ہی۔ اس نے اپنی شوقین طبع سے مجبور ہو کرآج سے ستائیس اٹھائیس سال پہلے ایک پاکھنڈ رچا تھا اور اماں اماں نے اس سارے پاکھنڈ کو دل ہی سے لگا لیا شاید اماں کی آج تک کی زندگی میں وہی چند دن سب سے زیادہ اثر انگیز اور پر فریب رہے ہیں اس قدر حسین کہ اماں آج تک ان کے اثر سے باہر نہیں نکل سکی۔ یا یوں کہہ لیں کہ وہ نکلنا ہی نہیں چاہتی وہ چند دن آج تک اماں کے اندر ٹھہرے ہوئے ہیں پہلے روز کی طرح!”
"ہو سکتا ہے ایسا نہ ہو جیسا آپ سمجھ رہے ہیں! اگر اس طرح کی کوئی بات ہوتی تو خالہ انکی اس انتہا درجہ تک عزت نہ کرتیں۔”
"عزت ” مرشد نے یونہی اک نظر اسکی طرف دیکھا۔ وہ کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولی۔
"وہ ستائیس سال سے انکا انتظار کر رہی ہیں آپ خود بتا رہے ہیں کہ وہ آج بھی روز اول کی طرح پریقین ہیں۔ انکا یہ انتظار اور یقین بتاتا ہے کہ وہ آپ کے بابا سائیں کی بے انتہا عزت کرتی ہیں۔ جس کے لیے دل میں عزت و محبت نہ ہو۔ اس کے لیے عورت کبھی بھی انتظار کی مثال نہیں بن سکتی اور انکا یقین اس غیر متزلزل یقین کی کوئی وجہ تو ہوگی؟ "
"وجہ تو ہے خود فریبی! "
"ہو سکتا ہے آپ کے بابا سائیں کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ, ایسا مسئلہ بن گیا ہو جو ان کی واپسی کی راہ میں رکاوٹ بن کر رہ گیا ہو۔”
"اگر وہ شخص مر چکا ہے تو دوسری بات ہے۔ ورنہ یہ مسئلے ، مجبوری والی بات بالکل بے معنی ہے۔”مرشد کے لب و لہجے کی بے حسی نے کچھ دیر کیلئے جیسے اس کی قوت گویائی ہی سلب کر لی۔ وہ کس بے رحمانہ انداز سے اپنے باپ کی موت کا ذکر کر گیا تھا۔
” کیا آپ نہیں جانتے وہ کون ہیں؟” وہ بغورمرشد کے تاثرات کا جائزہ لے رہی تھی۔ بلب کی روشنی میں اس کی چھوٹی چھوٹی داڑھی اور بڑی بڑی مونچھوں کی سیاہی چمک رہی تھی۔
"نہیں اور میں نے کبھی جاننا چاہا بھی نہیں، اس کی ضرورت ہی نہیں تھی کیوں کہ مجھے اس شخص سے کوئی سروکار ہی نہیں ہیں۔”
"آپ آپ ان سے نفرت کرتے ہیں؟ ” حجاب کے جھجک آمیز سوال پر اس نے بے اختیار حجاب کی طرف دیکھا۔ چند لمحے کھوئی کھوئی سی نظروں سے دیکھتے رہنے کے بعد اس کے ہونٹ ہلے۔
"پتا نہیں لیکن میں اس کے خیال سے بھی ” چڑ ” محسوس کرتا ہوں۔ وہ میری اماں کا گنہگار ہے۔ مجرم ہے اسکا۔ اس شخص کی وجہ سے اماں ایک لا علاج روگ میں مبتلا ہو گئی ہے۔ وہ روگ بن کر ہی اماں کی زندگی میں آیا تھا۔” اس نے چند لمحے کا توقف کیا۔ نظریں پھر سے سامنے والے صوفے پر آٹکی تھیں۔
"خودبخود جتنا معلوم ہو سکا اس میں صرف اسکا نام ہے اور یہ کہ وہ کسی بارسوخ اور عزت دار گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اماں سے چند روز عشق و محبت کا ڈھونگ کرنے کے بعد ایسا غائب ہوا کہ آج تک پلٹ کر نہیں دیکھا اس نے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اس سب میں اسکا بھی کیا قصور۔ اس نے کسی کو مجبور نہیں کیا تھا وہ تو ایک تماش بین تھا۔ ایک عیاش خریدار,قصور وار تو خود اماں ہیں بازار میں بیٹھ کر, بیوپار کرتے ہوئے، دھندے کو بھول کر اپنا آپ ہار دینے کی غلطی تو اس سے سرزد ہوئی نا!
اسے تو کھیلنے کے سارے گر بھی سکھائے گئے تھے۔ سارے داو�¿ پیچ سمجھائے گئے تھے۔ اس کے باوجود وہ خود کو ہار بیٹھی تو قصور وار وہ خود ہوئی
پھر پھر مجھے یوں لگنے لگتا ہے کہ اماں کے روگی ہونے کی اصل وجہ میں ہوں مجھے دنیا میں نہیں آنا چاہیے تھا آگیا تھا تو زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہنا چاہیے تھا۔ میرے وجود اور زندگی نے اماں کے انتظار کو دائمی شکل دے دی۔ اس کے ماضی کے حسین اور خوشگوار دن اور فریب انگیز یادیں میری صورت میں اسکے حال کا حصہ نہ بنتیں تو شاید وہ کچھ عرصے میں سنبھل جاتی سب کچھ بھول بھال جاتا اسے اور پھر وہ اپنے پیشے,اپنے ہنرمیں طاق ہو جاتی لیکن وہ تو پہلے ہی قدم پر کلیجے میں روگ سمیٹ کر بیٹھ گئی۔”
"پھر تو یہ ایک طرح سے اچھا ہی ہوا”حجاب فورا اور بے ساختہ کہہ گئی تھی۔ مرشد نے یوں اسکی طرف دیکھا جیسے سمجھ نہ پایا ہو۔
"آپ کو نہیں لگتا کہ یہ پیشہ اور یہ ہنر کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ عزت پر حرف آتا ہے۔ یہ سب رسوا کر دینے والا ہے۔”
"اس پیشے سے جڑے لوگ تو ایک دوسرے کو بدنام یا رسوا نہیں کرتے عزت کے حوالے سے اس قبیل کے لوگوں کے اپنے معیارات ہیں۔ باصلاحیت فنکاروں کو عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جو بھیڑ چال میں ” ڈنگ ٹپاو�¿ ” قسم۔کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ان کے بھی منہ ملاحظہ پر دید لحاظ سے کام لیتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس بستی کے باہر کے لوگ, جو یہاں آکر خوشگوار اور پر فریب لمحات گزارتے ہیں جن کے دم کرم سے یہ صنعت آج تک قائم و دائم ہے، وہی اپنی بستیوں میں واپس جا کر اسے برا کہتے ہیں۔ بدنام ٹھہراتے ہیں, انکی یہی کم ظرفی اور منافقت ہماری بستی اور ہم لوگوں کی بدنامی اور رسوائی کی ذمہ دار ہے یہیں سے میرے اور میری بستی کے لوگوں کیلئے گھٹن اور کڑھن کی شروعات ہوتی ہے۔ وگرنہ تو سب کچھ ٹھیک ہے۔ "
وہ صوفے پر ڈھیلا ڈھالا سا بیٹھا بظاہر آرام اور اطمینان سے بات کر رہا تھا، اس کے باوجود حجاب اسکے اندر کے کرب کو محسوس کر رہی تھی۔ وہ کرب اس کے لہجے میں شامل تھا اسکے چہرے کے عقب میں اپنی موجودگی اور شدت کا احساس دلا رہا تھا مرشد صوفے کو گھورتے ہوئے اپنی رو میں بولے جا رہا تھا۔
"ہر کسی کی اپنی زندگی ہے۔ جو جیسے گزارنا چاہے۔ جیسے بھی جینا چاہے۔ مجھے اپنے ارد گرد والوں کے طرز زندگی یا طرز معاشرت سے کوئی مسئلہ نہیںہے کیونکہ میں اپنی زندگی اپنے طریقے,اپنی مرضی کے مطابق گزار رہا ہوں۔ جب کبھی بھی تنہائی میں بیٹھ کر پورے تحمل اور سنجیدگی سے اس سارے سلسلے پر غور کیا,ہمیشہ اپنی سوچوں اور خیالوں کو ایسا ہی پایا ہے۔ غیر جانبدار لیکن لیکن پتا نہیں کیوں۔ کبھی کبھی کبھی کبھی مجھے اپنے گردوپیش سے سخت وحشت ہونے لگتی ہے۔ دم گھٹتاہوا محسوس ہونے لگ جاتا ہے۔ وحشت اور گھٹن کی اس کیفیت کے دوران مجھے اپنے اردگرد کے لوگوں, اپنے ماحول, حتٰی کہ اپنے آپ سے بھی شدید گھن آنے لگتی ہے۔
ایسے میں مجھے یوں لگتا ہے جیسے مجھ پر کوئی آسیب مسلط ہو گیا ہو۔ جیسے جیسے اچانک کوئی دورہ پڑا ہو جذبات و احساسات کو کوئی اور ہی طاقت کنٹرول کر رہی ہوتی ہے۔ اگر میں اپنی اس کیفیت کو کوئی نفسیاتی دورہ کہوں تو اس دورے کہ اثرات ایک دو روز تک ضرور میرے حواسوں پر چھائے رہتے ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ شاید میرے اس دورے کا تعلق اماں کی ذات سے ہے۔ میں اپنے اس ماحول میں رہتے ہوئے بھی اس ماحول اور وہاں کے لوگوں سے میلوں دور رہتا ہوں۔ سب کے ساتھ معاملات اور تعلق ہونے کے باوجود ذہنی طورپر لا تعلق رہتا ہوں۔ لیکن اماں ” مرشد نے بے ساختہ ایک گہری, ٹھنڈی سانس بھری۔”اماں سے لاتعلق نہیں رہ سکتا میں یہ میرے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔ اماں ہی کی بدولت میرا تعلق اس ماحول سے جڑ جاتا ہے اور یہ جڑت ،اذیت کے ایک طویل سلسلے کو جگا دیتی ہے۔ تب میرے اندر ایک محشر بیدار ہو جاتا ہے اماں اس ماحول کا حصہ ہے۔ وہ ایک کامیاب پیشہ ور طوائف کی بیٹی ہے۔ خود بھی طوائف رہی ہے۔ آج بھی اسی کوٹھے پر پڑی ہے۔ میں بھی وہیں کی
پیداوار ہوں۔ ایک طوائف کا بیٹا جسے اپنے باپ کا بھی پتا نہیں سوچوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اماں کا ماضی ا س کی سماجی حیثیت, اسکی ذات سے جڑے سارے حوالے اور سارے قصے سب کچھ ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ میرے اختیار و قدرت میں ہوتا تو میں اماں کی تقدیر اسکی زندگی سے یہ سارا کچھ حرفِ غلط کی طرح مٹا دیتا۔ "
حجاب سر کو تفہیمی انداز میں جنبش دیتے ہوئے بولی۔
"اسکا مطلب تو پھر یہی ہوا کہ اندر دل سے آپ بھی اس سب کو اچھا نہیں سمجھتے۔”
"اماں کی ذات کے حوالے سے تو بالکل بھی نہیں۔”
"پھر تو یہ اچھا ہی ہوا نا کہ خالہ اس سلسلے کا حصہ نہیں بنیں وجہ چاہے کچھ بھی رہی ہو آپ یا آپ کے بابا سائیں وہ پہلے ہی قدم پر روگی بن کر بیٹھ گئیں اور ایک برے رستے پر چلتے رہنے سے بچ گئیں اگر ایسا نا ہوا ہوتا تو پھر آج آپکی برداشت کا کیا حال ہوا ہوتا بھلا ؟”
مرشد اسکی ملیح صورت دیکھتا رہ گیا۔ وہ نظریں جھکائے بول رہی تھی۔
"اگر ایسا کسی بیماری, کسی روگ کی بدولت ہوا ہے تو پھر وہ روگ,روگ نہیں اللہ کی مہربانی ہے آپ پر بھی اور خالہ پر بھی۔ وہ یقینا آپ دونوں کو عزیز رکھتا ہے۔ اس نے گوارہ نہیں کیا کہ خالہ گناہ اور گمراہی کے راستے پر چلیں۔ اس لیے اس نے آپ کے بابا سائیں کی صورت ان کے لیے اس روگ کا انتظام کیا۔ بچت کا اور تو کوئی راستہ ہی نہیں تھا نا کسی دکان کے شوکیس میں سجی گڑیا کب تک گاہک کی دسترس سے دور رہ سکتی ہے؟ "
مرشد کا منہ دھیرے سے کھل گیا۔ کتنی سیدھی اور سادہ سی بات تھی لیکن آج تک اس کے دماغ میں کبھی نہیں آئی تھی۔ اسکے ذہن نے کبھی اس زاویے سے سوچا ہی نہیں تھا۔ وہ حیران حیران نظروں سے حجاب کی طرف دیکھے گیا۔ وہ بول رہی تھی۔
"یہ اس روگ کا اعجاز ہے کہ خالہ برس ہا برس سے ایک گندی ندی میں ٹھہری ہوئی ہیں اس کے باوجودآج تک انکا اپنا دامن بھیگنے سے محفوظ رہا ہے۔ مجھے شروع دن سے آپ دونوں اس ماحول کا حصہ نہیں لگے۔ آپ لوگوں کی طبیعت اور مزاج وہاں والوں سے بالکل الگ طرح کا ہے۔ آپ لوگوں کو وہاں نہیں رہنا چاہیے وہ جگہ آپ دونوں کے رہنے کی نہیں ہے۔ چھوڑ دیں۔ وہ وہ شہر ہی چھوڑ دیں۔ "
مرشد نے پھر ایک ٹھنڈی سانس بھری۔
” کئی سالوں سے کہہ رہا ہوں مگر اماں نہیں مانتی۔”
"آپ کسی بھی طرح انہیں اس بات پر راضی کریں۔”
"میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں لیکن زبردستی نہیں کر سکتا۔ اماں ہے تو وہ کسی صورت اپنی ضد نہیں چھوڑے گی۔”
"کیسی ضد ؟ "
"یہی انتظار والی ضد۔”
"تو آپ انکی ضد پوری کر دیں اپنے بابا سائیں کو ڈھونڈ کر ان کے سامنے لے جا کھڑا کر یں تب تو ان کے پاس وہاں بیٹھے رہنے کی کوئی وجہ نہیں رہے گی نا؟ "مرشد کے دماغ کو ایک اور جھٹکا لگا۔ کلیجہ جیسے اچھل کر حلق تک آگیا تھا۔ جس شخص کا ذکر تو کجا، خیال تک اسے ناگوار گزرتا تھا۔ اسی کے متعلق اسے کہا جا رہا تھا کہ وہ اس شخص کو ڈھونڈے اور اماں کے سامنے لے جا کھڑا کرے!
"یہ یہ میں کیسے کر سکتا ہوں؟” وہ جیسے متحیرانہ انداز میں خود ہی سے مخاطب ہوا تھا۔
"آپ نے کہا ہے کہ میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔”
"جی وہ تو ہے۔ ” اسے عجیب مخمصے,عجیب الجھن نے آلیا تھا۔ آج تک کسی نے بھی اس کے ساتھ اس حوالے سے بات کرنے کی جرات کی تھی نہ اس نے کچھ سننا یا سوچنا گوارا کیا تھا,لیکن اس وقت اس وقت جو ہستی اس کے سامنے تھی وہ انتہائی غیر معمولی تھی وہ یہی نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ اسے کس قسم کے ردعمل کا اظہار کرنا چاہیے!
"پھرکیسے سے آپکی کیا مراد ہے؟” حجاب سوال انداز تھی۔
"وہ میں نے کبھی اس بارے میں سوچا ہی نہیں۔”
"حالاں کہ حالات کو سمجھتے ہوئے آپ کو بہت پہلے سوچ لینا چاہیے تھا۔ بہرحال اب بھی وقت ہے۔ آپ نے بتایا ہے کہ وہ کسی بارسوخ اور عزت دار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ آپ کوشش کریں گے تو جلد ہی انکو ڈھونڈ لیں گے۔ خالہ سے انکے متعلق آپکو ضرور کچھ اور معلومات بھی مل جائیں گی۔ اپنے دوستوں کے ذمے لگائیں انکی تلاش کا کام۔”
مرشد اپنی جگہ حیران پریشان سا بیٹھا رہا۔ ابھی کچھ ہی دیر پہلے حجاب نے باتوں باتوں میں اسکی ایک اذیت کی گرہ کھولی تھی اور اب وہ اسے ایک اور ناقابل حل مسئلے کا حل سجھا رہی تھی۔ برسوں کی ایک اذیت کے تدارک کا طریقہ بتا رہی تھی انتہائی سادگی اور مصومیت سے۔
"خالہ نے ایک جہنم میں بیٹھ کر ساری زندگی انتظار کی نذر کر دی۔ انہیں اس جہنم سے نکالیں اب۔ اگر خدا نہ خواستہ آپ کے باباسائیں نہیں بھی ملے تو کوئی ایسی خبر ضرور مل جائے گی, جس سے خالہ کے اس انتظار کی ساری بیڑیاں کھل جائیں گی۔ ساری زنجیریں کٹ جائیں گی۔ بہت انتظار کر لیا خالہ نے انہیں اب اس قید سے رہائی مل جانی چاہیے بولیں آپ انہیں آزادی دلائیں گے نا ؟ "
مرشد بولا. "میں نے سچ کہا ہے۔ میں نے کبھی اس بارے میں نہیں سوچا آپکو بتایا ہے نا! مجھے اس شخص کے خیال تک سے چڑ ہوتی ہے۔ اس کا خیال آتے ہی مجھے غصہ آنے لگتا ہے۔ اس پر, خود پر اور اماں پر بھی۔”
حجاب نے جھکی جھکی آنکھوں سے نظریں اٹھا کر اسکے تاثرات کو ٹٹولا۔ وہاں تھوڑا اضطراب تھا، تھوڑی تھکاوٹ تھی کچھ پریشانی سی تھی تو کچھ بے بسی بھی تھی لیکن غصہ غصہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
"لگتا تو نہیں کہ آپ غصے میں ہیں” اسکا لہجہ محتاط تھا۔ مرشد فورا سر جھٹکتے ہوئے بولا۔
"آپ کے سامنے کیسے آسکتا ہے سرکار! آپکی بات اور ہے ورنہ میرے کسی جاننے والے نے کبھی اس حوالے سے میرے ساتھ بات نہیں کی۔ ساون اور مراد نے بھی نہیں۔اس خنجر نے بھی کبھی کچھ نہیں کہا, پوچھا۔”
"خنجر یہ بھی بھلا کوئی نام ہے؟ "
"نام تو خضر عباس ہے جی! بس یاروں دوستوں میں” خنجر” پڑ گیا۔ اچھا دوست ہے نسلی بندہ ہے۔”
"آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا؟ "
"میں اس بارے میں سوچتا ہوں، اماں کیلئے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں. آپ اس طرح چاہتی ہیں تو میں کوئی گنجائش نکالتا ہوں پھر -"
"آپ لازمی سوچیں اور جلد از جلد کوئی بہتر رستہ نکالیں. "
"جی بہتر….میں نے کبھی دھیان کو باپ والے خانے کی طرف جھانکنے نہیں دیا، شاید اسی لئے خیال نہیں آیا ورنہ تو یہ سیدھا سا حل ہے. واقعی اس طرح اماں کی ذہنی رو کو توڑا جا سکتا ہے، اس کا انتظار ختم کیا جا سکتا ہے، صرف اسی طرح وہ اس نحوست والی جگہ، اس چوبارے کو الوداع کہنے کیلئے آمادہ ہو سکتی ہے،”اس کا انداز خود کلامی والا تھا۔
دل و دماغ میں ایک نئی طرز کی اکھاڑ پچھاڑ بیدار ہو آئی تھی اور اسکا دھیان اسی اکھاڑ پچھاڑ کی طرف لگا تھا – حجاب کی کچھ ہی دیر کی بات چیت سے اسکے ذہن کی بہت سی کھڑکیاں خود بخود کھل گئی تھیں، سوچوں نے ایک نیا رخ اختیار کیا تھا، زاویہ نگاہ میں تبدیلی کسمسانے لگی تھی –
وہ حجاب کو آرام کا مشورہ دیتے ہوئے اٹھ کر واپس اپنے کمرے میں آ گیا تھا، خنجر صوفے پر نیم دراز سگریٹ پھونکنے میں مگن تھا – مرشد کی غائب دماغی اور گہری سوچ بچار کو محسوس کرتے ہوئے اس نے وجہ جاننے کی کوشش کی، لیکن اسکی طرف سے "ہوں ،ہاں” اور ” نہیں… کچھ نہیں” جیسے الفاظ سن کر اس نے فی الوقت خاموشی اختیار کرنا ہی مناسب سمجھا – مرشد دروازے کے سامنے صوفے پر دراز ہو گیا، سر اس نے صوفے کے بازو پر ٹکا لیا، نظریں راہداری کے پار دروازے کے پردے پر جمی تھیں اور ذہن میں حجاب کی باتیں گونج رہی تھیں –
"وہ روگ، روگ نہیں، اللہ کی مہربانی ہے…
اس نے آپکے بابا سائیں کی صورت ان کے لئے اس روگ کا انتظام کیا ہے…. آپ ان کی ضد پوری کر دیں، اپنے بابا سائیں کو ڈھونڈ کر ان کے سامنے لے جا کھڑا کریں.. آپ کوشش کریں گے تو آپ جلد ہی انہیں ڈھونڈ نکالیں گے "-
کس سادگی اور روانی سے وہ یہ سب کہہ گئی تھی اور وہ تحمل سے سب سنتا رہا تھا، نہ صرف سنتا رہا تھا بلکہ اسکا دماغ ان دونوں باتوں کو ایک نئے انداز سے سوچنے بھی لگا تھا – ایک نئے اور مثبت رخ سے دیکھنے لگا تھا.. وہ نئے سرے سے اس بات پر غور کر رہا تھا کہ میر ارشید اللہ نامی شخص اماں کا گناہ گار، اماں کا مجرم ہے بھی یا نہیں؟ یا واقعی اسکی آمد اور کارگزاری کے پیچھے مشتِ ایزدی کارفرما تھی…. قادرِ مطلق کی کوئی مصلحت پوشیدہ تھی اور وہ شخص محض ایک بہانہ تھا….
وہ گزشتہ کئی برسوں سے اماں کو کہتا آ رہا تھا کہ اس شخص کو بھول جا…. چھوڑ یہ انتظار اور میرے ساتھ یہاں سے اتنی دور چلی چل کہ یہاں کا خیال بھی دماغ تک نہ پہنچ سکے، لیکن نہیں… اس کا ایک ہی جواب رہا تھا… وہی ایک جواز.. وہی ایک ضد جس کا مرشد کے پاس کوئی حل نہیں تھا لیکن آج اس کا ایک سیدھا سادھا سا حل حجاب نے اس کے سامنے رکھ دیا تھا۔ کام تھوڑا مشکل اور جذباتی طور پر تکلیف دہ تھا، لیکن تھا قابلِ عمل
وہ خاموش لیٹا سوچتا رہا اور خنجر سگریٹ پھونکتا رہا.. کمرے میں پنکھے کی گوں گوں چکراتی رہی، پھر فضا بوجھل ہونا شروع ہوئی مرشد کو اندازہ بھی نہ ہو سکا اور حواس کو سہلاتی غنودگی اسے کھینچ کر نیند کی گہرائیوں میں لے گئی ۔
___________________
وہاں ایک کہنہ سال پلنگ پڑا تھا، پلنگ پر ایک سفید پوش جسم تھا اور وہ آہنی زنجیروں سے پلنگ کے ساتھ جکڑا ہوا تھا۔ مرشد نے ذرا توجہ سے دیکھا تو اس کا دل دہل اٹھا، وہ سفید پوش جسم تو اسکی اماں کا تھا بلاشبہ وہ اسکی ماں ہی تھی جو زنجیروں میں جکڑی اس پلنگ پر پڑی تھی.. اس نے اضطراری انداز میں آگے بڑھنا چاہا لیکن زمین اس کے پیروں سے چپک گئی. اس نے پاو�¿ں اٹھانے کے لئے زور لگایا مگر نہیں… زمین نے اس کے پاو�¿ں
جکڑ لئے تھے ایک دم اس نے پریشانی میں اضافہ ہوتے محسوس کیا اور بے اختیار اماں کو آواز دی، لیکن آواز اس تک شاید پہنچی ہی نہیں.. مرشد نے دوبارہ پکارا… مزید زور سے آواز دی، گلا پھاڑ کر پکارا لیکن محض چند قدم کے فاصلے کو بھی اس کی یہ آوازیں پار نہیں کر سکیں
اماں ساکت لیٹی رہی.. آرام و سکون سے اس کی نظریں چھت کی طرف مرکوز تھیں مرشد نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا.. سر پر ایک نامانوس اور خستہ حال چھت موجود تھی۔ چھت کے مغربی کونے میں ایک سوراخ تھا اور اس سوراخ سے کچھ عجیب سی روشنی چھن چھن کر اندر آ رہی تھی۔ اس روشنی میں ایک نیلگوں سی سفید چمک تھی اور وہ چاندنی کی سی ٹھنڈک کا احساس دلاتی تھی۔ اماں پوری محویت سے یک ٹک اس روشنی کو دیکھے جا رہی تھی – اس کی آنکھیں… مرشد نے آج تک اس کی آنکھوں میں اتنی توانائی، اتنی زندگی نہیں دیکھی تھی – یوں لگتا تھا جیسے پورے بدن سے جان سمٹ کر اسکی آنکھوں میں اکٹھی ہو آئی ہو۔تبھی ایک شناسا آواز نے اسے چونکا دیا۔
” ان کی ضد پوری کر دیں” ۔
اس نے بے اختیار پلٹ کر اپنے عقب میں دیکھا.. اس کے پیچھے چند قدم کے فاصلے پر ایک اجڑی پجڑی تہہ خانہ نما جگہ تھی.. کچھ کاٹھ کباڑ، لکڑیاں، دیمک زدہ کڑیاں, جو چھت سے نیچے کی طرف لٹک رہی تھیں۔اسی کباڑ میں سے ٹوٹے پھوٹے پختہ زینے اوپر کی طرف کہیں جاتے تھے۔ اس اجاڑ گوشے میں روشنی کم اور اندھیرا زیادہ تھا۔ اسی اندھیرے اجالے میں اسے ایک نسوانی چہرہ دکھائی دیا یہ چہرہ تھا حجاب کا چاند کی طرح روشن، اجلا اور شفافمرشد کو محسوس ہوا کہ اس حصے میں پھیلا مدہم اجالا اسی روشن چہرے سے پھوٹ رہا ہے۔
وہ آنکھوں سے دوسری سمت اشارہ کرتے ہوئے اسی دلنشین لہجے میں بولی
” اپنے بابا سائیں کو ڈھونڈ کر ان کے سامنے لا کھڑا کریں”..
مرشد نے کسی معمول کی طرح اس کے اشارے کا تعاقب کیا اور اسکی نظریں بغلی دیوار میں موجود کھڑکی پر جا ٹکیں کھڑکی کے دونوں پٹ کھلے تھے، سلاخوں کے پار ایک کشادہ گلی تھی جو دھند یا دھوئیں سے بھری ہوئی تھی دھند کے بادلوں کا وہ مہین غبار سلاخوں کے اس پار باقاعدہ حرکت کرتا دکھائی دے رہا تھا.. اس گاڑھی دھند کے علاوہ ادھر اور کچھ بھی نہیں تھا.. اس نے ذرا دھیان اور توجہ سے جھانکا تو چونک پڑا.. کچھ تھا.. کوئی تھا وہاں….. اس لمحے مرشد کی تمام حسیات اسکی آنکھوں میں سمٹ آئیں۔ وہ دیدے پھاڑ پھاڑ کر دھند کے اندر جھانکنے لگا۔
گلی حیرت انگیز طور پر کشادہ تھی لیکن نامانوس ہرگز نہیں تھی. یہ وہی گلی تھی جو ہمیشہ سے اس کھڑکی کے پار موجود تھی۔ گلی کے دوسرے کنارے پر ایک دکان کے تھڑے کا دھندلا سا ہیولا دکھائی دے رہا تھا.. اس تھڑے کے کونے کے ساتھ ایک کھمبا تھا جس کا اوپری آدھا حصہ دھند میں ملفوف تھا۔ کھمبےکے نیچے ایک لوہے کا ڈرم رکھا گیا تھا جسے زنجیر ڈال کر کھمبے سے باندھ دیا گیا تھا۔ یہ میونسپل کمیٹی والوں کا کام تھا۔اسی ڈرم کے قریب کوئی موجود تھا… وہ ڈرم کے ساتھ اس طرح ٹیک لگائے بیٹھا تھا کہ اس کے جسم کا کچھ حصہ دھندلا سا دکھائی دے رہا تھا اور کچھ ڈرم کی اوٹ میں تھا۔ مرشد کے دل میں اس شخص کا چہرہ دیکھنے کا خیال ابھرا جو متوقع طور پر اسکا نام نہاد باپ تھا میر ارشد اللہ.. .. اس خیال کے ابھرتے ہی ایک تجسس کسی الاو�¿ کی صورت بھڑک اٹھا رگ و پے میں ایک شدید اضطراب کھول اٹھا تھا
اس نے آنکھیں سکوڑتے ہوئے مزید توجہ اور غور سے دیکھا۔ ڈرم کی اوٹ میں برہنہ پاو�¿ں دکھائی دیا میلی کچیلی خستہ حال شلوار اور گندا کھردرا پاو�¿ں… پھر مرشد کو اسکے ہاتھ دکھائی دئے اسکے غلیظ ہاتھوں میں ایک گھسی ہوئی چپل تھی اور وہ کوئی ڈوری یا دھاگہ نما چیز لئے اس کی مرمت میں مصروف تھا۔ مرشد کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو آئیں پتا نہیں کیوں لیکن اس کے ذہن میں شدت سے شناسائی کا احساس بیدار ہوا۔اسے شدت
سے محسوس ہوا کہ وہ پہلے ہی سے اس مفلوک الحال شخص سے واقف ہے اسے جانتا ہے تبھی دھند کا ایک بڑا اور گاڑھا مرغولہ سا کسمساتا ہوا کھڑکی کے سامنے اترا اور وہ منظر پوری طرح اوجھل ہو گیا۔مرشد اضطراری انداز میں آگے بڑھ کر کھڑکی تک جا پہنچا۔ اماں، حجاب، کمرہ، تہہ خانہ کہیں تحلیل ہو گیا تھا۔ اس کی ساری توجہ گلی میں جا پڑی تھی۔ وہ ہر صورت اس شخص کی صورت دیکھ لینا چاہتا تھا جو اسکے دنیا میں آنے کا باعث بنا تھا ۔ جسے وہ اپنے ساتھ ساتھ اپنی ماں کا بھی گناہ گار مانتا تھا۔ وہ کھڑکی کی سلاخیں تھامے بے چینی سے اس سمت جھانکتا رہا. چند لمحے بعد پھر سے دھندلا دھندلا منظر دکھائی دینے لگا اب وہ شخص اپنی جگہ بدل چکا تھا ۔ اب وہ ڈرم کی اوٹ کی بجائے دکان کے تھڑے پر بیٹھا تھا لیکن اس کا رخ دوسری طرف تھا اور پیٹھ مرشد کی طرف۔
وہ سر جھکائے غالباً اپنی کاروائی میں مصروف تھا۔ گلی میں اور کوئی نہیں تھا۔ بس ایک عجیب سی اداسی اور خاموشی پھیلی ہوئی تھی۔ مرشد چند لمحے بے چینی سے سلاخوں کو مسلتا رہا، اسکا جی چاہا آواز دیکر اس شخص کو متوجہ کرے، قریب تھا کہ وہ اسے پکارتا، اس شخص کو جیسے کسی غیبی ذریعے سے معلوم ہو گیا اس نے اچانک ہی گردن موڑ کر مرشد کی طرف دیکھا سیدھا اسکی آنکھوں میں جیسے وہ مرشد کی ساری بے قراریاں جان گیا ہو، اسکا ارادہ سمجھ گیا ہو!
اس چہرے کے سامنے آتے ہی مرشد چونک گیا وہ چہرہ، وہ نقوش،، نظر ناآشنا نہیں تھے۔اس چہرے کو وہ برسوں سے دیکھتا آرہا تھا۔ اپنے بچپن سے وہ چہرہ کسی آدمی کا نہیں، ایک عورت کا تھا اس کی اماں کا چہرہ تھا وہ. مرشد اپنی جگہ بے حس و حرکت کھڑا اس چہرے کو مصنوعی مسکراہٹ مسکراتے دیکھتا رہا۔
یہ ایک خواب تھا۔ اس خواب سے ملتے جلتے خواب وہ پہلے بھی کئی بار دیکھ چکا تھا۔ اس بار نئی بات یہ ہوئی تھی کہ حجاب بھی اس خواب کا حصہ بن آئی تھی گہری نیند کے باعث اسے وقت گزرنے کا کوئی احساس نہیں رہا۔ شاید نصف سے زیادہ رات گزر چکی تھی جب گولی چلنے کی آواز سن کر اسکی آنکھ کھل گئی۔ یہ تو اندازہ نہ ہو سکا کہ فائر کس ہتھیار کا تھا لیکن یہ بات یقینی تھی کہ وہ آواز تھی فائر کی ہی اگلے ہی لمحے ایک اور فائر ہوا پھر دوسرا پھر تیسرا اور پھر دو طرفہ فائرنگ شروع ہو گئی۔ مرشد ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ سب سے پہلے اسکی نظر حجاب کے کمرے کی طرف گئی. دروازہ ویسے کا ویسے کھلا تھا۔ پردہ ہوا سے ہولے ہولے لہرا رہا تھا۔ اس نے خنجر کی طرف دیکھا، وہ رائفل سنبھالتے ہوئے گڑبڑا کر اٹھ کھڑا ہوا فائرنگ کی آوازیں کوٹھی کے اندر سے ہی بلند ہو رہی تھیں،غالباً بغلی حصے سے۔ اس طرف دیوار کے ساتھ ایک تنگ گلی لگتی تھی اور اسی طرف کوئی گڑبڑ ہوئی تھی۔ گالیوں اور پکاروں کی مدہم آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔
"لگتا ہے کوئی دیوار پھلانگ کر کوٹھی کے اندر گھسا ہے.. "خنجر نے قیاس آرائی کی۔ مرشد بھی ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔
” چوہدری ٹولہ ہی ہو گا اور کس کو پاگل کتے نے کاٹا ہے ” مرشد نے زہرخند لہجے میں کہا اور دروازے کی طرف بڑھ گیا۔خنجر نے ہاتھ بڑھا کر کمرے کی لائٹ آف کی اور عقبی کھڑکی کی طرف بڑھ گیا ۔
مرشد نے جھانک کر دیکھا۔ راہداری خالی پڑی تھی۔ غضنفر بھی بینچ پر موجود نہیں تھا۔ وہ فورا حجاب والے کمرے میں داخل ہو گیا۔
” سرکار” اس نے بے قراری سے پکارا..
” کیا… کیا ہوا ہے.. یہ فائرنگ کیوں ہو رہی ہے”؟ حجاب کی گھبرائی سی آواز بلند ہوئی۔ لہجے سے پتا چل رہا تھا کہ وہ ابھی ابھی نیند سے جاگی ہے۔ مرشد نے بٹن ٹٹول کر کمرے کی لائٹ آن کر دی۔ وہ گھبرائی سی بیڈ پر بیٹھی تھی۔
”کچھ پتا نہیں۔نیچے کچھ گڑبڑ ہے۔ آپ کھڑکی بند کریں اور دروازے کی بھی چٹخنی چڑھا لیں۔ میں دیکھتا ہوں کیا مسئلہ ہے۔ "وہ واپس پلٹا تو حجاب نے بے ساختہ اسے پکارا۔
” رک جائیں۔ آپ کدھر جا رہے ہیں؟”
” میں ابھی دیکھ کر آتا ہوں۔“
"نن… نہیں.. آپ کہیں مت جائیں۔ یہاں والے لوگ خود دیکھ لیں گے۔ آپ آپ یہیں رہی۔“
” کچھ نہیں ہو گا، آپ اطمینان رکھیں۔ اگر ہمارے دشمن کوٹھی کے اندر گھسے ہیں تو ہمارا فرض بنتا ہے ہم ارباب اور اسکے آدمیوں کا ساتھ دیں۔ ان کی مدد کریں۔ آپ دروازہ اندر سے بند کریں، میں آتا ہوں کچھ دیر میں” اس نے تیز لہجے میں کہا اور پلٹ کر فورا ہی کمرے سے باہر نکل گیا۔ حجاب نے جلدی سے اٹھ کر اسکے کہے پر عمل کرتے ہوئے دروازے کی چٹخنی چڑھا دی۔
"چوکس رہنا خنجر! میں نیچے جا رہا ہوں۔“اس نے کمرے کے دروازے سے ہی پکار کر کہا اور رائفل سنبھالتاہوا تیز قدموں سے زینے کی طرف بڑھ گیا۔ فائرنگ جس طرح اچانک شروع ہوئی تھی اسی طرح اچانک بند ہو گئی، البتہ کچھ تیز اور غصیلی آوازوں کا شور موجود تھا۔ مرشد زینے اترتا ہوا نچلی راہداری میں پہنچا تو سامنے ہی اسے تین افراد بہ عجلت اس طرف آتے دکھائی دئے۔ آگے آگے بوڑھا مصری اور تاجل تھے، دونوں کے چہروں پر گھبراہٹ اور سراسیمگی چھائی ہوئی تھی۔ ان کے پیچھے لحیم شحیم مچھل غضنفر تھا۔ وہ جیسے ان دونوں کو دھکیلتے ہوئے لا رہا تھا۔
” کیا بات ہے؟ فائرنگ کیسی تھی؟” مرشد نے غضنفر کو مخاطب کیا۔
"تین حرام خور سور گھس آئے تھے۔دو تو دم دبا کر بھاگ گئے، ایک کتا پکڑا گیا ہے۔ زخمی ہے، دو فائر لگے ہیں حرامی کو ایک ٹانگ میں دوسرا چوتڑوں میں اب بھرتابنائیں گے اسکا۔ ” اس نے جوشیلے لہجے میں جواب دیا۔ تاجل اور مصری کو لیکر وہ زینے سے اوپر کی طرف چلا گیا اور مرشد آگے بڑھ کر برآمدے کی طرف نکل گیا۔ اس طرف آوازوں کا شور زیادہ تھا۔ غالباً زخمی قیدی کو گھسیٹ کر لایا جا رہا تھا۔ ساتھ کے ساتھ گالیوں اور ٹھوکروں سے اسکی تواضع کی جارہی تھی۔ برآمدے میں پہنچ کر اس کے اندازوں کی تصدیق بھی ہو گئی۔
وہاں ارباب اور بشارت بھی موجود تھے۔ چار پانچ بندوں نے ایک زخمی کو لا کر ارباب کے سامنے فرش پر ڈال دیا۔ اسکی قمیض کا نچلا حصہ اور شلوار خون میں لت پت تھی اور اسکے حلق سے کراہیں خارج ہو رہی تھیں۔ وہاں موجود سب افراد کے چہرے ہی تمتمائے ہوئے تھے۔
” دو تین بندے بھاگ نکلے ہیں جی.. میرا خیال ہے ان میں چوہان بھی شامل تھا” ایک شخص ارباب سے مخاطب ہوا۔ چوہان کا نام سن کر مرشد چونک اٹھا۔
” ڈوب مرو پھر شرم نہیں آ رہی یہ خبر سناتے ہوئے؟ گولی سے زیادہ تیز رفتار تھی ان کی جو وہ بھاگ نکلے؟ تم اتنے سارے تھے۔لاشیں کیوں نہیں گرائیں ان کی؟ ” ارباب نے سخت برہمی سے کہا” اپنے بندوں میں سے کون پھٹل ہوا ہے؟”
” کوئی بھی نہیں، صرف ٹیپو کے بازو پہ تھوڑی سی رگڑ آئی ہے۔ وہ بھی گرنے کی وجہ سے "..
ارباب نے اپنے پیروں میں پڑے زخمی کے منہ پر ٹھوکر رسید کی تو وہ چیختا ہوا دوسری طرف لڑھک گیا..
” غائب کرو اسے اور اسکے گندے خون کے نشانات کو بھی یا پھر… خود میں سے بھی کسی کو زخمی کرو۔“ مرشد نے آگے بڑھ کر بغور زخمی کی شکل دیکھی.. مرشد کیلئے وہ قطعی اجنبی تھا۔
” جوان! تمہیں اوپر ہی رہنا چاہیے تھا۔” ارباب اسکی طرف متوجہ ہوا۔
” فائرنگ کی آواز سن کر آیا تھا.. کون ہے یہ بندہ؟ میرے لئے تو شکل اجنبی ہے ” مرشد نے کہا۔ ارباب کے کارندے زخمی کو ڈنڈا ڈولی کر کے اندرونی طرف لیجانے لگے۔
” اس کا تم سے کوئی واسطہ نہیں، یہ ہمارا ذاتی جھگڑا ہے۔ تم واپس اپنے کمرے میں جا کر آرام کرو۔“
” آپ کے ذاتی جھگڑے والوں کو ہم سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے "؟
” کیا مطلب ہے اس بات کا؟ ” ارباب نے تیوری چڑھا کر اسکی طرف دیکھا۔ براو�¿ن کلر کا ہولسٹر اسکے بائیں کندھے سے جھول رہا تھا اور بشارت اسکے ساتھ کھڑا تھا۔
” میں نے ابھی چوہان کا ذکر سنا ہے۔ یہ لہراسب خان والا چوہان ہی تھا نا؟ ” اس بار ارباب چند لمحے اسکی طرف دیکھتا رہا۔ تبھی دو کارندے برآمدے کے فرش سے خون صاف کرنے کیلئے پانی کی بالٹی اور کچھ کپڑے لئے وہاں پہنچ آئے۔
” کیا دشمنی کی ہے انہوں نے”؟ ارباب اسے اشارہ کرتے ہوئے اندرونی حصے کی طرف بڑھا۔
” ہماری مخبری "… اسٹیشن کے سامنے جس ہوٹل میں ہم ٹھہرے تھے، چوہدری فرزند کو وہاں تک پہنچانے والا چوہان ہی کا ایک ساتھی تھا۔ یہ لوگ وہیں سے ہمارے پیچھے لگ کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ "
” چوہان کے ساتھ تم نے ایسا کیا کیِا؟ کیا واسطہ ہے تمہارا چوہان یا لہراسب سے”؟
” کوئی واسطہ نہیں ہےصرف اتنا ہوا کہ کل صبح گوجرہ کے قریب ایک سپیروں کی بستی میں ان لوگوں سے ہمارا سامنا ہوا تھا وہ لوگ اس بوڑھے مصری اور اس کے نوجوان ساتھی کو زبردستی اپنے ساتھ کہیں لیجا رہے تھے.. ہمیں انہوں نے وہاں سے ملتان تک لفٹ دی تھی بس اس سے زیادہ میں ان لوگوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ "ارباب نے چلتے چلتے دوبارہ ایک گہری نظر اس کے چہرے پر ڈالی۔ بشارت تو راہداری میں ہی کہیں غائب ہو گیا تھا۔ ارباب اس کے ساتھ زینے طے کرتا ہوا اوپری منزل تک آ گیا۔
” لہراسب ایک معاملہ فہم اور ہشیار بندہ ہے سمجھ گیا ہو گا تم سے ان لوگوں کو دشمنی ہو یا نہ ہو، چوہدری فرزند سے محبت ضرور ہے انہیں۔ ان سب کی ماں کا یار لگتا ہے وہ۔“
” یعنی لہراسب کا تعلق ہے چوہدری سے؟“
” نہیں.. کچھ خاص نہیں۔ ان کا ایک باپ ہے نواب اسفند یار اصل تعلق اس کا ہے۔ فرزند سے بھی اور اسکے مکار باپ چوہدری اکبر سے بھی۔ بہت پرانا یارانہ ہے نواب اور ان چوہدریوں کا ان کے اس یارانے سے سوروں کا ایک پورا جھنڈ بن جاتا ہے ۔“
” ہوں… تو یہ مصری اور تاجل تو ان لوگوں کی گرفت میں تھے۔ انہیں یہاں دیکھ کر ہمیں بہت حیرت ہوئی ہے ! “
” ان دونوں کو ہم نے کل دوپہر ان لوگوں سے گن پوائنٹ پر چھینا تھا۔ اس کے بعد یہاں لے آئے یہ جو حملہ ہوا ہے، انہی دونوں کے سلسلے میں ہوا ہے ۔“
” چھینا تھا؟ کیا مطلب ؟ یہ دونوں آپکے علاقے, بستی کے لوگ ہیں ؟“ مرشد نے قدرے تعجب سے کہا۔ یہ تو اسے معلوم تھا کہ تاجل سندھ کا رہنے والا ہے اور بوڑھا مصری کسی بھی ایک ٹھکانے کا تھا ہی نہیں پھر بھی اس نے سوال داغ دیا۔ مقصد کچھ مزید جاننا تھا۔
” نہیں.. اس طرح کی کوئی بات نہیں۔ یہ ایک مختلف معاملہ ہے۔ "
” کیا کوئی راز کی بات ہے؟“ مرشد نے بغور اسکی آنکھوں میں دیکھ کر استفسار کیا تو ارباب نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے دھیرے سے اسکا کندھا تھپتھپایا۔
” راز شاز والی کوئی بات نہیں۔ یہ نواب اسفند یار اور ملک منصب کی باہمی دشمنی کا معاملہ ہے نواب کوایک ایسا مسئلہ، ایسی پریشانی درپیش ہے جس کا علاج کہہ لو یا حل ، اگر دنیا میںکہیں کسی کے پاس ہے تو وہ شاید صرف اس مصری ہی کے پاس ہے ملک منصب کی خواہش ہے کہ نواب کی وہ پریشانی جو کسی عذاب سے کم نہیں ہے، کبھی ختم نہ ہو اور وہ اس پریشانی کے ساتھ ہی قبر میں جا اترے ذرا لمبی کہانی ہے، پھر کبھی بات کریں گے، ابھی جا کر آرام کرو۔ مجھے بھی کچھ معاملات بھگتانے ہیں ۔” وہ چھت پر جانے والے زینوں کے قریب ہی کھڑا تھا۔ اپنی بات مکمل کرتے ہی وہ زینوں پر چڑھ گیا اور مرشد اپنے کمرے کی طرف پلٹ گیا۔ خنجر کمرے کے دروازے میں کھڑا تھا۔
” کیا مسئلہ تھا کیا بنا ؟ ” اس نے بے صبری سے پوچھا۔
” کچھ نہیں ان لوگوں کی اپنی دشمن داری کا معاملہ تھا۔ ایک بندہ پکڑا گیا ہے، باقی بھاگ گئے ہیں” مرشد نے سرسری انداز میں کہا اور حجاب والے دروازے پر دستک دی۔
"سرکار”… خنجر فورا پیچھے ہٹ کر کمرے کے اندر چلا گیا۔ مرشد کو دوبارہ دستک نہیں دینا پڑی۔ دروازہ کھولتے ہی حجاب نے اس کو سرتاپا فکرمند نظروں سے دیکھا۔ ایک عجیب بے ساختگی تھی اسکی فکرمندی میں۔
” آپ ٹھیک ہیں”؟ سوال خود بخود نوکِ زبان تک آیا تھا۔
"بالکل”.. وہ مسکرایا۔ ” ارباب لوگوں کا اپنا کوئی جھگڑا تھا معمولی اچکّے قسم کے دو چار لوگ تھے۔ پریشانی والی کوئی بات نہیں، سکون کریں۔“
اس نے وہیں کھڑے کھڑے حجاب سے تسلی و تشفی کی دو چار باتیں کی اور پلٹ کر کمرے میں آ گیا۔ دروازے کے سامنے پڑے صوفے پر۔
” فائرنگ کی شروعات تو یوں ہوئی تھیں جیسے پوری بٹالین حملہ آور ہوئی ہو.. اتنی جلدی سب بھاگ بھی گئے "؟ خنجر نے یوں کہا جیسے اسے افسوس ہوا ہو.۔
” لہراسب کے بندے تھے۔ حملہ آوروں میں مبیّنہ طور پر چوہان بھی شامل تھا جو بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔“
” کیا بات کر رہے ہو "؟ خنجر نے دیدے پھیلا کر اس کی طرف دیکھا۔
” ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ لہراسب اور چوہان وغیرہ کسی نواب اسفند یار کی پارٹی میں ہیں۔ یعنی اصل دشمنی ملک منصب اور نواب اسفند یار کے بیچ میں ہے اور نواب اسفند یار کا چوہدری اکبر سے بہت پرانا یارانہ ہے یعنی کہ ہمارے دشمنوں کی منصب اور ارباب کے دشمنوں سے، یاری ہے۔“
” یہ تو پھر اپنی رشتے داری نکل آئی ملک منصب سے بھی اور ارباب سے بھیتمہیں کس نے بتایا یہ سب ؟“
”خود ارباب نے۔“مرشد نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا اور ارباب کے ساتھ ہونے والی تمام بات چیت خنجر کے گوش گذار کر دی۔ سب کچھ سن لینے کے بعد وہ گہرے پر سوچ انداز میں سر کو ہلاتے ہوئے بولا۔
” اس کا مطلب تو پھر یہ ہوا کہ یہ زہریلی مصری دو کتوں کے درمیان ہڈی بنی ہوئی ہے۔“
مرشد نے مصنوعی ناگواری سے اسکی طرف دیکھا، شاید اسے ” کتوں” والی تشبیہ پسند نہیں آئی تھی۔ خنجر فورا سمجھانے والے انداز میں بولا۔
” دیکھو….. نواب کے کارندے گن پوائنٹ پر اس نحوستی کو اٹھا کر لے جا رہے تھے، راستے میں منصب کے لوگوں نے گن پوائنٹ پر ہی اسے ان لوگوں سے چھین لیا۔ ابھی وہی لوگ اس کے چکر میں اسلحہ اٹھائے یہاں گھس آئے اس کے لئے دونوں طرف کے لوگ کتوں کی طرح آپس میں لڑ رہے ہیں تو یہ ان کے درمیان ہڈی ہی بن گیا نا ؟“
” میرا خیال ہے دونوں پارٹیوں کی اس کھینچا تانی میں یہ بابا شہادت کا مرتبہ پا جائے گا پہلے ہی تین سو دو کا کیس ہے۔“
” اس وقت ساتھ والے کمرے میں ہی ہے وہ مچھل لیکر آیا ہے۔ انہیں ادھر اس کمرے میں بند کر کے اوپر چھت پر گیا ہے۔“
” ارباب بھی چھت پر ہی گیا ہے، شاید ان دنوں کے ذہنوں میں ابھی مزید کوئی اندیشہ باقی ہے۔ "
” کچھ دیر تک پولیس پھر آئے گی تو پریشانی بنے گی۔“
” پریشانی کے خیال سے گھبراہٹ ہوتی ہے؟“
” اوئے نئیں جگر ! گھبراہٹ تو ویسے ہی ہوتی رہتی ہے.. پریشانی سے تو بے آرامی ہوتی ہے۔“
بیس پچیس منٹ گزرے ہوں گے کہ ارباب کمرے میں داخل ہوا۔ وہ اکیلا ہی تھا۔ خنجر اور مرشد سیدھے ہو بیٹھے۔
” مرشد ".. وہ سیدھا مرشد کے پاس آ ٹھہرا۔
” یہاں تھوڑی سی گڑبڑ ہے "..
” کیسی گڑبڑ "؟ مرشد اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا..
” مجھے انتہائی بارسوخ ذرائع سے اطلاع ملی ہے کہ ایک گھنٹے بعد کوٹھی پر زبردست قسم کا حملہ ہونے والا ہے۔ اس حملے کے پیچھے سارا پاگل پن اور جنون چوہدری فرزند کا ہے۔ پینتیس چالیس مسلح بندوں کا گروپ تیاری کر رہا ہے۔ اتنے مسلح افراد کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہم فی الحال نہیں ہیں ۔”اس نے توقف کرتے ہوئے پلٹ کر ایک نظر حجاب والے کمرے کی طرف دیکھا اور دوبارہ مرشد سے مخاطب ہوا۔
” بی بی جی کا تحفظ ہمارے نزدیک سب سے پہلی ترجیح ہے۔ ہم لوگوں نے اسی وقت کوٹھی خالی کرنے کا پروگرام بنایا ہے لیکن اس سے پہلے ہم، تم لوگوں کو بحفاظت یہاں سے نکالیں گے۔ تم لوگ تیاری کر لو”..
” حملہ ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی ہے۔ آپ کوٹھی خالی کرنے کی بجائے اپنے دوست راو�¿ صاحب سے مدد کیوں نہیں لیتے "؟
ارباب ایک گہری سانس لیتے ہوئے بولا
” میری خبر کا ذریعہ راو�¿ صاحب ہی ہیں انہوں نے خود فون پر مجھے یہ اطلاع دی ہے۔ حملے کی یہ خبر ڈی آئی جی تک کے نوٹس میں ہے۔ حملہ ہونے کے آدھے پونے گھنٹے بعد تک پولیس ادھر کا رخ نہیں کرے گی اور جب پولیس یہاں پہنچے گی تو کھیل ختم ہو چکا ہو گا۔ کھلاڑی گھروں کو جا چکے ہوں گے.. ملک منصب نے بھی یہی کہا ہے کہ فی الوقت ہم دامن بچا کر ایک طرف ہو جائیں ۔“
مرشد نے ایک لمحے کو سوچا اور پھر کندھے اچکاتے ہوئے بولا
”ٹھیک ہے کیا پروگرام ہے پھر؟“
” تم لوگ بی بی جی کو لیکر نیچے آ جاو�¿ سارا پروگرام مکمل ہے۔ اللہ نے چاہا تو ہم سبھی آرام سے نکل جائیں گے ۔“ وہ ایک ایک نظر ان دونوں پر ڈالتا ہوا نکل گیا۔ مرشد خنجر کی پریشان صورت دیکھ کر مسکرایا۔
” تیری گھبراہٹ کچھ کم ہوئی یا ابھی بھی نہیں؟“
” جگر! اس کی یہ بات تو سمجھ میں آ گئی کہ ہمیں حفاظت سے نکال دے گا، لیکن نکال کدھر کو رہا ہے ؟“
” یہاں سے نکلتے ہیں، آگے کی پھر دیکھ لیں گے۔ فیصلہ تو ہم ہی نے کرنا ہے۔ چل…میں سرکار کو لیکر آتا ہوں۔“ وہ رائفل کندھے سے لٹکائے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
حجاب کے کمرے کی لائٹ روشن تھی۔ توقع کے مطابق وہ جاگتی ملی۔ مرشد نے اسے تازہ صورتحال سے آگاہ کیا تو وہ یوں اٹھ کھڑی ہوئی جیسے پہلے سے تیار بیٹھی ہو۔ مرشد نے اس کے والا بیگ اٹھایا اور وہ چادر لپیٹتے ہوئے نقاب کرنے لگی۔ جس وقت وہ تینوں نیچے پہنچے، برآمدے میں انہیں ہلچل محسوس ہوئی۔ یہاں ارباب کھڑا اپنے ساتھیوں کو پروگرام سمجھا رہا تھا۔
” چار لوگ تم ہو جاو�¿ گے مہمان پانچ دس منٹ بعد روانہ ہوں گے۔ بشارت اور ٹیپو ان کے ساتھ نکلیں گے۔ مصری اور اسکے جمورے کو بھی اسی گروپ میں رکھو فاضل اور توقیر میرے ساتھ رہیں گے۔“ مرشد نے دیکھا ارباب کے گرد سات آٹھ پگڑی پوش کھڑے تھے البتہ ایک نوجوان کا سر ننگا تھا۔ اس نے پگڑی کو بکل کے انداز میں لپیٹ رکھا تھا، کچھ فاصلے پر سبز جیپ کے علاوہ ایک اسٹیشن ویگن بھی کھڑی تھی۔ رات کے تقریباً تین بج رہے تھے۔
” سب کو سمجھ آ گئی؟“
” ہاں جی!”
” چلو پھر تم لوگ روانہ ہو جاو�¿ اب حویلی میں ملاقات ہو گی۔“ چار بندے فورا جیپ کی طرف بڑھ گئے ۔جس نے بکل مار رکھی تھی اس نے چادر سر پر اوڑھتے ہوئے باقاعدہ عورتوں کی طرح نقاب کیا،تب ان تینوں کو جیسے سمجھ آ گئی کہ وہ کیا ارادے رکھتے ہیں۔ یقینا وہ کوٹھی کے گرد موجود چوہدری فرزند کے پالتو کتوں کو اپنے پیچھے لگا لے جانا چاہتے تھے۔ دو بندے فرنٹ سیٹوں پر سوار ہو گئے اور تیسرے رائفل بردار کے ساتھ وہ نقاب پوش بھی جیپ پر سوار ہو گیا۔جیپ ریورس ہوئی اور گھوم کر کوٹھی کے عقبی حصے کی طرف مڑ گئی۔ تبھی مرشد کو خیال آیا کہ سامنے کی طرف سے تو نکلنے کا راستہ ہی نہیں تھا عقبی طرف پلاسٹک کی بوتلوں اور مرتبانوں وغیرہ کے ڈھیر کی اوٹ میں بھی ایک گیٹ تھا۔ جیپ سوار یقینا اسی طرف جا رہے تھے۔ جیپ کے جاتے ہی ارباب انکی طرف متوجہ ہوا۔
” بی بی جی کو وین کی پچھلی سیٹ پر بٹھا دو۔پانچ سات منٹ بعد تم لوگ بھی روانہ ہو رہے ہو۔“
” اور آپ؟“ مرشد نے پوچھا۔
” میں ابھی یہیں رکوں گا۔ بشارت کو میں نے سارا کچھ سمجھا دیا ہے۔ یہ تم لوگوں کو محفوظ مقام پر لے جائے گا۔ اگلی ملاقات وہیں ہو گی۔ رب راکھا۔“ اس نے اپنی بات مکمل کی اور دو آدمیوں کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرتے ہوئے واپس اندرونی حصے کی طرف پلٹ گیا۔ وہاں ان کے علاوہ صرف بشارت حسین کھڑا رہا۔ جس ٹیپو کا ارباب نے ذکر کیا تھا وہ کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ مرشد حجاب کو لیکر وین کی طرف بڑھ گیا۔
وین کے شیشے کلرڈ تھے۔ اسے دروازہ کھولنے کے بعد اندازہ ہوا کہ وہ مکمل طور پر خالی نہیں ہے۔ وہاں مصری اور تاجل پہلے سے موجود تھے اور وین کی درمیانی سیٹ پر سہمے ہوئے مرغوں کی طرح ایک دوسرے سے چپک کر بیٹھے تھے۔ حجاب سوار ہو گئی تو خنجر اور بشارت بھی وین کی طرف آ گئے۔
” آپ دونوں بھی پیچھے ہی بیٹھیں، میرے ساتھ ٹیپو آگے بیٹھے گا۔” بشارت نے کہا اور ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھ گیا۔ مرشد اور خنجر سائیڈ ڈور سے
عقبی حصے میں سوار ہوئے تو انکی صورتیں دیکھ کر مصری اور تاجل حیران ہوئے لیکن خنجر زیادہ بری طرح چونکا تھا۔
” یہ… یہ بھی؟“ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ دیدے کشادہ ہو گئے۔
” ہاں یہ بھی بیٹھ جاو�¿۔“ مرشد نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنے برابر بٹھا لیا تو وہ برا سا منہ بنا کر رہ گیا۔ غنیمت تھا کہ مصری خاموش رہا تھااس نے کوئی زہریلا جملہ نہیں بولا تھا۔
ادھورا چاند افق پار چمک رہا تھا باہر مکمل خاموشی تھی رات بالکل پرسکون تھی۔ جیپ کو روانہ ہوئے ٹھیک آٹھ منٹ گزرے تھے کہ وین کا انجن سٹارٹ ہوا اور وہ حرکت میں آ گئی۔ ٹیپو انہیں عقبی گیٹ پر ملا۔ وہ پچیس چھبیس سال کا ہیرو ٹائپ نوجوان تھا۔ وحید مراد جیسے نقوش، خوبصورت ترشی ہوئی مونچھیں، جینز کی پینٹ پر کالا کرتا اور سر پر کالی پگڑی۔
وین کے باہر سڑک نما گلی میں آ جانے کے بعد اس نے گیٹ بند کیا اور لپک کر بشارت کے پہلو میں سوار ہو گیا۔ اس کے سوار ہوتے ہی وین حرکت میں آ کر تیزی سے دائیں طرف کو مڑ گئی۔ مرشد اور خنجر دونوں اپنی اپنی جگہ پر چوکنے بیٹھے ہوئے تھے۔ رائفلیں ان کے ہاتھوں میں تھیں اور نظریں اطراف کو ٹٹول رہی تھیں۔ گلی پوری طرح خاموش اور ویران تھی پھر بھی ان کے اعصاب تناو�¿ کا شکار تھے۔ وہ ایک سنگی چار دیواری سے نکل کر کھلے میدان میں آ گئے تھے۔ اگرچہ اس بات کی قوی امید تھی کہ انکی گھات میں بیٹھے دشمن کچھ دیر پہلے روانہ ہونے والی جیپ کے پیچھے لگ کر اب تک کافی دور پہنچ چکے ہوں گے پھر بھی وہ اپنے طور پر پوری طرح چوکس تھے۔ دشمن ہر لحاظ سے طاقتور بھی تھا اور جنون میں بھی۔ اس سے کچھ بھی بعید نہ تھا۔ انہوں نے بمشکل ڈیڑھ دو کلومیٹر فاصلہ طے کیا ہو گاکہ ان کے اندازے پوری طرح درست ثابت ہو آئے ان کا تعاقب کیا جا رہا تھا !
٭ ٭ ٭
چند روز کے وقفے کے بعد آج صبح سے پھر بخار اس کی مزاج پرسی کر رہا تھا۔جسم تنور کی طرح تپ رہا تھا اور پورے بدن میں ایک ٹوٹ پھوٹ سی مچی ہوئی تھی۔آج سردی بھی کچھ زیادہ ہی تھی۔پچھلے تین چار روز سے مسلسل دھند پڑ رہی تھی۔سارا سارا دن سورج کی جھلک تک دکھائی نہیں دیتی تھی۔
وہ صبح سے لحاف میں منہ سر لپیٹے پڑی تھی لیکن ظہر کی آذان کے بعد اٹھ بیٹھی۔دل تو ہلنے کو بھی نہیں چاہ رہا تھا۔ وجود میں سکت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی، لیکن اس کے دماغ میں چند الفاظ شدت سے گونج رہے تھے۔یہ الفاظ ایک حدیث قدسی کے تھے جو چند روز پہلے ہی اس نے کسی کے منہ سے سنے تھے۔
"اگر تو قربان کر دے اپنی چاہت کو میری چاہت پر
تو میں بخش دوں گا تجھے وہ جو تیری چاہت ہے۔”
اسے یوں لگتا تھا جیسے یہ اسی سے کہا گیا ہےیہ فرمان اسی کے لیے ہے وجود میں سکت نہ ہونے کے باوجود وہ خود پر جبر کرتے ہوئے اٹھ کر باتھ روم کی طرف چلی گئی۔اسے اپنے آرام سکون کی چاہ کو قربان کرنا تھا۔اس نے جیسے تیسے وضو کیا اور نماز کے لیے جائے نماز پر آ کھڑی ہوئی۔
اسی جائے نماز پر دو تین بار میر صاحب نے بھی نماز ادا کی تھی۔اس کے پاو�¿ں ٹھیک اسی جگہ تھے جہاں میر صاحب کے پاو�¿ں کا لمس موجود تھا نظریں سجدے کی جگہ جمی ہوئی تھیں۔ جہاں میر صاحب کی پیشانی سجدہ ریز ہوتی رہی تھیآنکھیں خود بخود جھلملا اٹھیں۔کتنے بہت سے دن ہو گئے تھے آنکھوں کا یہی چلن تھا بات بے بات جھلملا اٹھتیں۔ہر وقت چھلکنے کو تیار رہتیںپتا نہیں کہاں سے اتنا پانی امڈ امڈ کر آنکھوں میں بھر آتا تھا!
اس کی زبان پر آیات تھیں اور دل و دماغ میں میر صاحب ایک عجیب سی راحت ، عجیب سا قرار دل کے پھپھولوں میں اترتا ہوا محسوس ہوا۔
وہ یوں اس کیفیت میں محو ہوئی کہ اپنے گردوپیش سے بھی بے خبر ہو گئی۔نماز کے بعد وہ آنکھیں بند کر کے اسی جگہ سر جھکائے بیٹھی رہی۔اس لمحے وہ گویا مجسم دعا ہو چکی تھی۔وہی ایک دعاوہی مخصوص فریادمیر صاحب کی سلامتی ، ان کی خیر خیریت اور زندگی
میر ظفر اللہ کے چہلم کو گزرے تقریباً ایک ماہ ہونے کو آیا تھا اور یہ ایک ماہ حسن آرا کے قلب و جاں پر ایک صدی کی طرح گزرا تھا۔ایک ایک دن کسی پہاڑ کی طرح اس کے اعصاب کو رگیدتا ہوا گزا تھا۔میر صاحب کی کسی قسم کی کوئی خیر خبر نہیں مل سکی تھی۔قریشی صاحب بھی دوبارہ پلٹ کر نہیں آئے تھے۔ یہ ایک انہونی تھی۔ میر صاحب کو جان لینے کے بعد یہ ایک ناقابلِ یقین بات لگتی تھی کہ وہ دانستہ یہ بے پروائی برت رہے ہیں۔
ضرور کچھ نہ کچھ گڑبڑ تھی۔ کوئی شدید قسم کی گڑبڑ ، یقینی طور پر وہ کسی بڑی مشکل ، بڑی مصیبت کا شکار تھے وگرنہ اور کچھ نہ سہی فون کے ذریعے تو اپنی خیر خیریت سے آگاہ کر سکتے تھےاس کی خیریت معلوم کر سکتے تھے قریشی صاحب کو بھیج سکتے تھے۔
سو رستے، سو طریقے تھے۔ اگر ایسا نہیں ہو رہا تھا تو اس کی واحد وجہ یہی ہو سکتی تھی کہ وہ کسی انہونی کا شکار ہیںکسی زبردست مشکل میں ہیںوہ فکر مندی جو اس کے جسم و جاں کا حصہ بن چکی تھی، وہی دعاو�¿ں اور فریادوں کی صورت اس کی زبان تک پہنچ آئی تھی۔
اس وقت بھی وہ مراقبے کی سی حالت میں اپنے رب کے حضور اپنی اسی فکر مندی کو لیے بیٹھی تھی۔ارد گرد کا کچھ ہوش نہیں تھا۔اسے تو یہ تک احساس نہیں تھا کہ اس کی آنکھوں نے اس کے گالوں کو بھگو رکھا ہے۔اس کی یہ محویت ایک بھاری آواز پر ٹوٹی۔
”اللہ اکبر! یہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں ؟”
اس نے چونک کر سر اٹھایا، محض چار قدم کے فاصلے پر چودھری اکبر کھڑا تھا۔اس کے کندھوں پر سفید رنگ کی بھاری چادر تھی۔ایک رائفل بردار کارندہ اس کے عقب میں ایک چھوٹا سا پیتل کا حقہ اٹھائے کھڑا تھا۔حسن آرا نے اس کی طرف دیکھا تو وہ کچھ مزید حیران ہوا۔
"ارے آپ رو بھی رہی ہیںایسے کیسے، ایسا کیا ہو گزرا بھئی ؟”اس کے خفیف اشارے پر رائفل بردار نے آگے بڑھ کر حقہ پلنگ کے قریب رکھا اور فوراً پلٹ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
” کیا بات ہوئی ہے ؟ کسی نے آپ سے اونچی نیچی بات کی ہے تو ہمیں بتائیں، کھال میں بھوسا بھر وا کر چوک پر لٹکا دیں گے اسے۔”
وہ آگے بڑھ کر کمرے کے اکلوتے پلنگ پر بیٹھ گیا۔حسن آرا نے کوئی جواب نہیں دیا۔خاموشی سے اپنی چادر کے پلّو سے گیلے گال پونچھ لیے۔
"ہمیں تو پتہ چلا تھا کہ ہمارے” حسن “کی طبیعت پھر خراب ہے. ٹکا کے بخار شخار چڑھا ہوا ہے آپ کی عیادت کرنے آئے تھے مگر یہاں تو نقشا ہی کچھ اور طرح کا ہے۔کیا ہوگیا آپ کو ؟ یہ کس کام کو لگی ہوئی ہیں آپ ؟”
حسن آرا پرسکون لہجے میں بولی۔
” اس طرح کسی کی خلوت میں گھسں آنا پسند کیے جانے والی حرکت نہیں ہے۔”
"کسی کی خلوت کسی کون ؟” چوہدری نے لحاف کو تکیہ کی طرح لپیٹ کر بغل میں دباتے ہوئے تعجب سے کہا۔” ہم تو اپنی ہی خلوت میں آئے ہیں ۔آپ کو ہم نے شروع دن سے اپنا سمجھا ہے۔ آپ ہماری ،تو آپ کی خلوت بھی ہماری۔ آپ ہمارے لئے غیر تھوڑی ہیں۔ .”
"ہم غیر ہی ہیں۔ ہمارے درمیان کوئی ایسا رشتہ تعلق نہیں ہے کہ آپ اس طرح بنا اجازت میرے کمرے میں چلے آئیں۔”
"ایسا رشتہ تعلق نئیں ہے تو ابھی بنا لیتے ہیں۔ آجائیں ادھر۔” چودھری نے کمینگی سے بستر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ایک واہیات سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیل رہی تھی۔وہ بہت مطمئن اور خوش دکھائی دیتا تھا۔
"آپ کیوں بار بار مجھے پریشان کرنے آجاتے ہیں۔ مجھے اذیت دے کر ،پریشان کرکے کیا ملتا ہے آپ کو کیوں نہیں سمجھ جاتے آپ؟”
اس کے لہجے میں بخار کی نقاہت تھی، لرزش تھی۔
"آپ بھی بس کمال ہی کرتی ہیں حسن آرا جی! شاید آپ نے کبھی ہمیں جاننے سمجھنے کی کوشش ہی نئیں کی۔” وہ حقہ گڑگڑاتے ہوئے مزید بولا۔
” ہم تو آپ کی پریشانیوں کا واحد مداوا ہیں۔ یہ بات آپ کیوں نئیں سمجھ جاتیں۔ یقین نہیں تو ابھی ازما کر دیکھ لیں۔بتائیں ہم کو، کیا پریشانی ہے آپ کو کیوں رو رہی تھیں ابھی آپ ؟ بتائیں، بتائیں ہم کو ؟”
"کچھ نہیں۔ ” حسن آرا کا گلا رندھ گیا۔ دو آنسو پلکوں سے ٹوٹ کر گالوں پر لڑھک آئے۔ اس نے آہستہ سے سر جھکا لیا۔
” آپ کے یہ آنسو ہمارے دل پر تزاب کی طرح گر رہے ہیں حسن آرا جی! انہیں سنبھال لیں یا یا پھر ہمیں اپنی پریشانی بتائیں ،ہم ابھی اس کا کوئی نہ کوئی حل نکالتے ہیں ۔”
"کوئی پریشانی نہیں ہے مجھے۔ آپ بس خدا کے لئے مجھے معاف کر دیں، مت آیا کریں یہاں۔ آتے ہیں تو اماں یا عشرت،سندس لوگوں تک رہا کریں۔ میرے پاس مت آیا کریں۔ میں نہیں ملنا چاہتی آپ سے۔ کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتیں میں ۔” اس کے اس دوٹوک انداز پر چودھری کے ہونٹوں کی مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ماتھے پر بل نمودار ہو آئے۔ وہ چند لمحے خشمگیں نظروں سے اس کے بخار میں تپے چہرے کو گھورتا رہا۔حسن آرا کے وجود پر خفیف سی لرزش طاری تھی۔ اسے سردی لگ رہی تھی۔ چودھری کے تاثرات پھر سے نرم پڑگئے۔ وہ ملائمت سے بولا۔
"لگتا ہے آپ کو ٹھنڈ لگ رہی ہے۔ وہاں کیوں بیٹھی ہیں۔ ادھر…. بستر میں آجائیں نا۔”
حسن آرا خاموش بیٹھی رہی۔
"آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ ہم آپ کے لیے کیسی خوشخبری لے کر آئے ہیں۔ آپ کی دلی تمنا پوری کرنے کا سوچا ہے ہم نے کیا سمجھیں۔”
وہ خاموش رہی۔ چودھری کی موجودگی سے وہ سخت گھٹن محسوس کر رہی تھی۔بس چلتا تو ایک پل کے لیے بھی اسے برداشت نہ کرتی لیکن مجبور تھی سو چپ چاپ بیٹھی رہی۔ چودھری خلاف معمول ،خلاف عادت کچھ زیادہ ہی خوش گوار موڈ میں دکھائی دیتا تھا۔ حسن آرا نے تو اس وقت حیرت کے ساتھ سکون کا سانس لیا جب دس پندرہ منٹ بعد وہ خود ہی اٹھ کر چلا گیا۔ حسن آرا کو سچ میں حیرت ہوئی تھی۔اسے ہرگز بھی توقع نہیں تھی کہ یہ خبیث اتنی جلدی اور اتنی شرافت سے چلا جائے گا!
دو روز بعد اس کا بخار اترا ۔ دھوپ بھی نکلی ہوئی تھی۔ وہ نہا دھو کر چھت پر بیٹھی تھی۔ جب نزہت بیگم آپہنچی۔اس کے منہ میں پان تھا اور ہاتھوں میں سروتا اور چھالیہ کا ڈبہ۔ وہ اس کی کرسی کے ساتھ پڑے بینچ پر بیٹھ کر چھالیہ کترنے لگی اور ساتھ میں ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگی۔
” پروین کا بابلا سارا زیور اور جمع پونجی سمیٹ کر کہیں رفو چکر ہوگیا ہے۔“
"گلزاری کو دق لگ گئی ہے۔ وہ نہیں بچنے کی اب۔”
” مہرالنساءکے ہاں صبح بڑے زور کا رن پڑا ہے۔ باو�¿ اور اختری دونوں بیٹھے پی رہے تھے اوپر سے مہرو پہنچ گئی۔ تو تو، میں میں سے بات اتنی بڑھی کہ جنڈے جھانپڑ تک پہنچ گئی۔مہرو کی کہنی اتری اور اختری کے دو دانت اب باو�¿ غائب ہے۔”
"کچھ دیر پہلے دائی حساں آئی بیٹھی تھی۔بتا رہی تھی کہ رات ستارا بیگم کے ہاں کوہاٹ کے دو پٹھان ٹھہرے تھے۔چارپائیاں ہی توڑ گئے کلموہے کہیں کے۔”پیک تھوکنے کے بعد وہ پھر بولی۔
"ستارہ کی چھوٹی ہے نا! شکریہ کہ فکریہ، کیا نام ہے اس کا ؟ چھوٹی ناک والیاس کا کام کرنے گئی تھی۔ چار مہینے کا اٹھائے پھر رہی تھی۔ ستارہ نے بٹھا کر سمجھایا کہ ابھی چار دن کھیل کود لے ابھی کوئی عمر بھی تو نہیں ہے اس کییہی تیری ہم جولی ہوگی۔ حساں ایک دم دھو سنوار آئی ہے اسے۔ اپنے کام کی بڑی س�±چی ماہر ہے۔ میں تو کہتی ہوں حسن آرا کہ تو بھی اب بچپنا چھوڑ، اس فضول کے سوگ سے نکل آ ،ابھی زیادہ لوگوں کو خبر بھی نہیں ہے ۔میں حساں سے بات کر لیتی ہوں، تو بھی صفائی کرا لے۔ بات چار دیواری کے اندر ہی رہ جائے گی۔”
"اماں یہ کیا کہہ رہی ہو تم ؟”اس نے اچنبھے سے نزہت بیگم کی طرف دیکھا جو اسے حمل گرانے کا مشورہ دے رہی تھی۔
"بالکل ٹھیک کہہ رہی ہوں۔ بھول جا میر ارشد اللہ کو ، دماغ سے سارا خناس نکال دے۔ ساری زندگی پڑی ہے ابھی, اس طرح نہیں گزرے گی جس طرح کے لچھن اپنا رکھے ہیں تو نے۔”
"خود کو بھول سکتی ہوں اماں! میر صاحب کو نہیں ،آج نہیں تو کل ،کل نہیں تو پرسوں انہیں واپس آنا ہی ہے۔”
نزہت بیگم کی تیوریاں چڑھ گئی ، وہ پچکاری پھینکتے ہوئے بولی۔
"آ لیے بس ۔ یہاں ہر دوسرے صحن میں ایسی ہی کہانیاں قصے رلتے پھرتے ہیں۔ستارہ کی نکڑی کا بتا تو رہی ہوں تجھے۔چار دن بعد آنے والے کی آج چار ماہ بعد بھی کوئی خبر نہیں اور دور کیا جانا سب سے بڑی مثال تو میں خود تیرے سامنے بیٹھی ہوں۔بتایا تھا نا! سندس کا باپ پندرہ دن کا وعدہ کر کے گیا تھا۔جا کے مر ہی گیا حرامی کا بیج تو بھی اب بندے کی بچی بن, عقل کے ناخن لے اور میر صاحب والا راگ الاپنا چھوڑ کر گیت غزل کا ریاض شروع کر, بہت ہوگیا شغل ڈرامہ۔ میں شام کو بلاتی ہوں حساں کو اور اس سے تیری بات کرتی ہوں۔تو تیاری پکڑ لے۔ "
"ہرگز بھی نہیں اماں! میں ایسا کچھ بھی نہیں کروں گی ۔یہ میر صاحب کی امانت ہے، میں پوری دیانت داری سے اسے سنبھال کر رکھوں گی۔”
"امانت دیانت کی بچی ! میر صاحب نہیں آنے کے اب اور یہ تحفہ جو تو کوکھ میں لیے بیٹھی ہے یہ لڑکی نہیں ، لڑکا ہے۔ کام کا نا کاج کا دشمن اناج کا کل کو دنیا میں آئے گا ،پرسوں کو کھائے گا بھی اور آنکھیں بھی دکھائے گا۔مصیبت بن جائے گا اور مصیبتوں کو سنبھال کر نہیں رکھا جاتا ، موری میں بہایا جاتا ہے۔”
"تمہاری مرضی اماں! جو مرضی ہے سوچو ، جو مرضی ہے بولو، میں اپنی تمہیں بتا چکی۔”
"تیری بہت سن چکی میں۔ اب تو میری سنے گی اور اس پر عمل بھی کرے گی۔کل شام کو تیار رہنا، جان چھڑانی ہے اس مصیبت سے۔”نزہت بیگم نے تند لہجے میں کہا۔حسن آرا ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"میرے جیتے جی تو ایسا نہیں ہوگا اماں ! اس معصوم کو دنیا میں آنے سے روکنا چاہتی ہو تو اس کی واحد صورت یہ ہے کہ تم مجھے زہر دے کے مار دو۔”
وہ اتنا کہہ کر اپنے کمرے کی طرف پلٹ گئی۔نزہت بیگم کی آواز نے کمرے تک اس کا تعاقب کیا۔
"یہ منحوس ابھی سے تجھے اس قدر پیارا ہے تو پھر ہم سب ک تُو زہر دے کر مار دے پھر آنے والے وقت میں دونوں ماں بیٹا یہاں لڈیاں ڈالتے رہنا۔”
حسن آرا اپنے کمرے میں آ کر بیٹھ گئی۔دس منٹ بعد نزہت بیگم بھی اس کے پیچھے چلی آئی۔
"دو دن پہلے چودھری اکبر یہاں تیرے پاس بیٹھا رہا، کیا کہہ کر گیا تھا۔”اس کا چہرہ سپاٹ مگر لہجہ نرم تھا۔
"بتا چکی ہوں تجھے۔”
"ان باتوں کے علاو�¿ہ بھی کچھ کہا ہوگا۔”
حسن آرا نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔
"مجھے اس کی بکواس حفظ کر کے رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ بہت کچھ بیٹھا بکتا رہا تھا۔”نزہت بیگم دروازے میں کھڑی تھی۔چند لمحے خاموش کھڑی حسن آرا کو دیکھتی رہی پھر ایک گہری سانس بھرتے ہوئے بولی۔
"حسن آرا! اگر تجھے یہاں کی زندگی ،یہاں کے طور طریقے پسند نہیں, تو اس ماحول کے مطابق نہیں گزار سکتی تو ٹھیک ہے۔کوئی زبردستی نہیں "
اس نے ایک ذرا توقف سے کام لیا۔”چودھری اسی حوالے سے تیرے لیے خوشخبری لے کر آیا تھا۔ مجھ سے ساری بات کر کے گیا ہے۔وہ تجھے اپنانے کو تیار ہے۔تیری مرضی کے مطابق, تو چاہے گی تو وہ تیرے ساتھ نکاح بھی کر لے گا۔”
"اچھا کتنے دن کے لیے۔” اس نے زہر خند سے پوچھا۔
"ہمیشہ کے لیے لے جائے گا تجھے۔ الگ رکھے گا, الگ مکان لے کر دے گا۔ تیری زندگی سکون میں آجائے گی۔”
افسوس ہے اماں! بے حد افسوس ہے۔”اس نے نزہت بیگم کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے تاسف آمیز دکھ سے کہا۔”میں تم پر بوجھ بن کر نہیں بیٹھوں گی۔ تسلی رکھو، جب تک میر صاحب واپس نہیں آتے تب تک میں تمہارے مہمانوں کے سامنے گاو�¿ں گی، تم کہوں گی تو ہر رات ، ہر محفل میں گاو�¿ں گی لیکن یہ بھی بتا دوں کہ اب صرف گاو�¿ں گی۔ اس سے آگےاس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔” حسن آرا کا انداز اور لہجہ حتمی اور فیصلہ کن تھا۔ نزہت بیگم کے تاثرات پھر سے بگڑ گئے۔ ایک دفع تو لگا وہ غصے میں پھٹ پڑے گی ، لیکن چند لمحے حسن آرا کو غصیلی نظروں سے گھورتے رہنے کے بعد وہ ایک جھٹکے سے پلٹ کر واپس چلی گئی۔حسن آرا اپنے ذہن کے بھنور میں اتر گئی۔
دوسری صبح سے بحث اور تلخ کلامی کا یہ ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔عشرت اور سندس بھی چودھری کی ترجمان بن کر حسن آرا کو قائل کرنے پر کمربستہ ہوگئیں۔ان کا کہنا تھا کہ "چودھری اکبر کو ابھی اس بات کا علم نہیں ہے کہ تو کوکھ میں میر ارشد اللہ کا بوجھ اٹھائے پھر رہی ہے۔لہذا اسے خبر ہونے سے پہلے ہی چپ چاپ اس بوجھ سے چھٹکارا پا لیا جائے۔ اس کے بعد چودھری کے ساتھ چند شرطیں طے کر کے تیرا نکاح پڑھوا کر تجھے رخصت کر دیتے ہیں۔ یہاں سے بھی تیری جان چھوٹے گی اور آگے بھی ظاہر ہے ساری زندگی کمی تو کوئی ہوگی نہیں۔ "انہوں نے مختلف لہجے اور انداز اپنائے ،پورا زور صرف کر دیا کہ کسی طرح حسن آرا کو چودھری کے حق میں رام کر لیا جائے۔آخر کار حسن آرا ہتھے سے اکھڑ گئی۔
تلخ کلامی ہوئی اور ٹکا کر ہوئی لیکن یہ محض شروعات تھی۔ ان کے درمیان باقاعدہ محاذ بن گیا۔ نزہت بیگم ، سندس، عشرت تینوں چودھری کی طرف داری میں تھیں اور دوسری طرف تنہا حسن آرا تھی جو جم کر کھڑی ہوگئی تھی ۔روزانہ ، صبح دوپہر شام ایک ہی کل کلیانحسن آرا کی نازک جان کے لیے ایک میر صاحب کی پریشانی ، ان ہی کا غم کچھ کم نہ تھا کہ اب یہ ایک نئی اذیت، نئی پریشانی کا سامان ہو گیا تھا ۔ ہفتہ دس دن اسی طرح گزر گئے۔
وہ نوچندی جمعرات کا دن تھا۔ حسن آرا پہلے خالہ شبانہ کی طرف ختم شریف پر گئی اور وہاں سے خالہ شبانہ، اقبال اور نیلم وغیرہ کے ساتھ داتا صاحب حاضری دینے چلی گئی۔ ابھی وہ لوگ تانگے سے اتر کر دربار کی طرف بڑھی تھیں کہ ایک جیپ آندھی اور طوفان کی رفتار سے ان کے قریب آکر ایک جھٹکے سے رکی اوراس میں سے چار رائفل بردار ڈشکرے چھلانگے مار کر نیچے اتر آئے۔
اطراف میں اچھا خاصا رش تھا۔انسانوں کا ایک ہجوم تھا لیکن آنے والوں کے خطرناک تیور دیکھتے ہوئے سبھی اپنی اپنی جگہ پتھرائے کھڑے رہ گئے۔ وہ چاروں سیدھے حسن آرا پر جھپٹے تھے۔اتنے رش اور اتنے لوگوں کے درمیان میں سے انہوں نے زبردستی حسن آرا کو اٹھا کر جیپ میں ڈالا اور روانہ ہو گئے۔ حسن آرا کا تڑپنا مچلنا اور شور مچانا کسی کام نہیں آسکا تھا۔حسن آرا کے ساتھ آنے والیاں بھی پھٹی آنکھوں یہ ساری کارروائی دیکھتی ہی رہ گئی تھیں ۔ وہ مسلح افراد اسے واپس کوٹھے پر اٹھا لائے۔اندازہ تو اسے پہلے ہی ہو گیا تھا یہاں پہنچتے ہی اس اندازے کی تصدیق بھی ہوگئی۔وہ چودھری اکبر علی ہی کے کارندے تھے۔چودھری خود دالان ہی میں بیٹھا تھا۔ نزہت بیگم ، عشرت اور سندس بھی وہاں موجود تھیں۔ سبھی کے چہروں پر غیر معمولی تناو�¿ تھا۔حسن آرا کے پہنچتے ہی چودھری نے اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کی کلائی دبوچی اور اسے تقریباً گھسیٹنے والے انداز میں ایک اندرونی کمرے میں لے آیا۔اسے پلنگ پر دھکیلنے کے بعد اس نے پلٹ کر دروازہ بند کرتے ہوئے زنجیر چڑھائی تو حسن آرا کا کلیجہ اچھل کر حلق میں آگیا۔صورت حال پوری طرح واضح تھی۔چودھری کے مکروہ ارادے صاف ظاہر تھے۔وہ تڑپ کر پلنگ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ چودھری نے پلٹ کر پر تپش نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ صاف پتا چلتا تھا کہ اس نے شراب بھی پی رکھی ہے۔
"کیا ہوا گھبرا کیوں رہی ہے ؟”
”زنجیر کیوں چڑھائی ہے آپ نے ؟در دروازہ کھول دیں۔”اس کی آواز میں لرزش تھی۔ دل پتے کی طرح لرزنے لگا تھا۔ آنے والے لمحات کے تصور ہی سے اس کی روح فنا ہوئی جا رہی تھی۔
"دروازہ تو اب ایسے نہیں کھلنے شلنے لگا, بہتر ہے کہ تو کھل کے بستر پر لیٹ جا۔”چودھری نے قہر بار نظروں سے اسے گھورتے ہوئے کہا تو وہ دو قدم پلنگ کی پائنتی کی طرف سرکتے ہوئے لرزیدہ آواز میں بولی۔
"یہ یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ پہلے آپ کے بندوں نے بھی میرے ساتھ بدتمیزی کی ہے۔”
تو بھی تو کسی ڈھیٹ مٹی کی پیداوار ہے ۔ تمیز اور شرافت کی زبان تجھ حرافہ کی سمجھ میں اج تک آئی ہی کب ہے لیکن کوئی بات نہیں ، میں سمجھ چکا
ہوں …. بھلا کیا سمجھ چکا ہوں؟”وہ آگے بڑھا تو حسن آرا فوراً سرک کر پلنگ کی پائنتی کی طرف جا کھڑی ہوئی۔
"چودھری صاحب آگے مت بڑھیں یہ یہ ٹھیک نہیں ہے میں ،میں اپنی جان دے دوں گی۔”
چودھری اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا۔
"یہی کہ تو نہ میری کوئی بات سمجھے گی نہ مانے گی لہذا بہتر یہی ہے کہ من مانی ہی کر لی جائے۔ باقی تو کہہ رہی ہے کہ جان دے دوں گی,کوئی بات نہیں, پہلے جو میں لینا چاہتا ہوں وہ لے لوں، بعد میں تسلی سے یہ جان شان بھی دیتی رہنا۔ چل آجا شاباش۔”وہ مزید آگے بڑھا ، یہ مختصر سا کمرہ تھا ۔حسن آرا نے اس کے برابر سے کترا کر نکلتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھنا چاہا لیکن چودھری نے اچانک جھپٹ کر اس کی کلائی
دبوچ لی۔
"ادھر کدھر جاتی ہے میری جان!ادھر ادھر مر۔”اس نے پھر اسے پلنگ کی طرف دکھیلنا چاہا تو حسن آرا نے اپنی کلائی پر موجود اس کے ہاتھ کی پشت میں دانت گاڑ دیے ۔ چودھری کے حلق سے بے اختیار ایک سسکاری سی نکل گئی۔ اس نے فوراً دوسرے ہاتھ سے حسن آرا کے بال دبوچ کر زور سے جھٹکا دیا اور ساتھ ہی اس کے منہ پر ایسا بے رحمانہ تھپڑ رسید کیا کہ حسن آرا چیختی ہوئی لڑکھڑا کر لکڑی کی دیوار گیر الماری سے جا ٹکرائی۔ گدی میں ایک اور ہتھوڑے جیسا ہاتھ پڑا اور اس کا چہرہ اس بری طرح الماری سے ٹکرایا کہ ہر چیز اس کی نگاہوں کے سامنے چکرا کر رہ گئی۔ ایک ذرا حواس یوں مختل ہوئے کہ اسے محسوس ہوا جیسے وہ چکرا کر گرنے والی ہے۔
"کتیا! اپنا کتیا پن تو دکھائے گی ہی نا !کاٹ لے اور کاٹ مجھے۔”دو فولادی بازوں نے اسے اپنے شکنجے میں جکڑا اور اٹھا کر پلنگ پر پٹخ دیا۔ اس کی آنکھوں میں رنگ برنگے دائرے گھس آئے تھے۔دو ہی ضربوں نے دماغ میں گاڑھی دھند بھردی تھی۔ وہ ادھ موئی سی پلنگ پر گری تھی۔ ڈوبتے ذہن نے اسے احساس دلایا کہ چودھری کا پہاڑ جیسا وجود اس کے اوپر آن پڑا ہے۔ شراب سے آلودہ چودھری کی بوجھل اور غلیظ سانسیں اس کے چہرے سے پھسلتی ہوئی گردن تک پہنچیں اور پھر گردن کی نرم و نازک کھال میں اترنے والی خنجر جیسی تیز اور انگاروں کی سی جلن نے دماغ میں بھری ہوئی دھند کو ایک پل میں منتشر کر دیا۔شدید تکلیف کے سبب اس کے حلق سے بے اختیار ایک دردناک چیخ خارج ہوگئی۔
چودھری نے کسی خون آشام عفریت کی طرح اس کی نازک گردن میں دانت گاڑھ دیے تھے۔ حسن آرا بری طرح تڑپی مچلی لیکن چودھری اکبر اس پر پوری طرح چھایا ہوا تھا۔ وہ اس کے بھاری وجود تلے یوں دبی ہوئی تھی کہ اسے اپنے وجود کی ہڈیاں چٹخی ہوئی محسوس ہورہی تھیں۔شراب کے ساتھ ساتھ چودھری کے وجود سے ایک اور بھی عجیب حیوانی اور ناگوار بو اٹھ رہی تھی۔
حسن آرا چیخی چلائی، اس نے اضطراری انداز میں چیخ چیخ کر نزہت بیگم ، سندس اور عشرت وغیرہ کو آوازیں دیں۔ جانتی بھی تھی کہ مدد کو کوئی نہیں آئے گا۔ مدد کو آنے والوں کی صوابدید ہی پر تو چودھری اکبر اس درندگی پر اترا تھا۔ پھر بھی پھر بھی وہ حلق پھاڑ پھاڑ کر انہیں آوازیں دیتی رہی
"چپ چپ کر جا حرام زادی۔”چودھری نے اچانک اس کا گلا دبوچ لیا۔”کوئی کتیا، کوئی کنجر نئیں آئے گا ادھرایسے” خامخاہ “بھونک بھونک کر میرے کان خراب نہ کر،سمجھی ؟”اس کے حلق سے بھوکے بھیڑیے جیسی غراہٹ بلند ہوئی ، آنکھیں کچھ مزید سرخ انگارہ ہوچکی تھیں۔ حسن آرا نے بولنا چاہا لیکن صرف خرخرا کر رہ گئی۔ چند لمحے اس کی دہشت سے پھٹی پھٹی آنکھوں میں جھانکتے رہنے کے بعد چودھری نے دھیرے سے اس کے گلے سے گرفت ختم کردی۔ حسن آرا نے دو تین لمبے لمبے سانس لیے اور چودھری کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے گھگھیائی۔
"چودھری صاحب !خدا کے لیے ایسا مت کریں۔ مجھے معاف کر دیں۔ آپ کو خدا کا واسطہ ہے۔ مم میں تو پہلے ہی مری ہوئی ہوں, مری ہوئی کو
یوں مت ماریں۔ مجھے معاف کر دیں۔ خدا کے لیے معاف کر دیں۔”
اس کی آنکھوں سے زارو قطار آنسو بہہ رہے تھے ۔الماری سے ٹکڑانے کے باعث چہرے پر جو چوٹ لگی تھی اس کی وجہ سے اس کی نکسیر جاری ہوچکی تھی۔ ناک سے رسنے والا لہو اس کے اوپری ہونٹ کو رنگین کرتا ہوا بائیں گال پر ایک لکیر کی صورت بہہ رہا تھا۔آنکھ اور ناک پر چوٹ کا واضح نشان دکھائی دے رہا تھا۔اس کا نچلا دھڑ چودھری اکبر کے دونوں گھٹنوں کے درمیان جکڑا ہوا تھا۔چودھری کا دایاں ہاتھ بدستور اس کے گلے پر موجود تھا۔لیکن اب گرفت بہت نرم تھی۔چودھری لحاف کی مدد سے اس کی ناک سے رسنے والے خون کو صاف کرتے ہوئے بولا۔
"معاف تو تجھے میں نے کر دیا تھا لیکن وہ معافی تجھے راس ہی نئیں آئی تجھ کسبی نے شاید میری فراخ دلی کو میری کوئی کمزوری شمزوری سمجھا تھا۔ میری محبت تجھے محبت نئیں لگی۔ نئیں لگی تو نہ سہی پیار محبت اور راضی خوشی تُو میری نئیں ہوئی تو پھر نہ سہی زبردستی ہی سہی۔ اب روتی کیوں ہے ؟”
"نن ،نہیں چودھری صاحب !ایسی بات نہیں ہے ۔وہ وہ تو میںمیں آپ کے قابل نہیں تھی، صرف اس لیے اور تو کوئی بات نہیں تھی۔”
"یہ تیری پریشانی نئیں تھی تو میرے قابل ہے یا نئیں، یہ تیرے سوچنے کی بات ہی نئیں تھی میری چن مکھنی! یہ تو بات ہی نہ کرتُو۔”
چودھری ایک بار پھر اس کے چہرے پر جھکا اور وہ بری طرح سسک اٹھی۔ چودھری کی بدبودار سانسیں اور ہوس ناک ہونٹ اس کے چہرے پر سرسراتے ہوئے اس کے ہونٹوں تک پہنچ آئے ،اگلے ہی پل حسن آرا کے حلق سے ایک گھٹی گھٹی چیخ نکل گئی۔ چودھری نے اس کے نچلے ہونٹ کو اپنے دانتوں میں دبوچ لیا تھایوں جیسے وہ کوئی گوشت خور درندہ ہو اور حسن آرا کی صورت خوشبودار اور لذیزترین گوشت اس کے ہتھے چڑھ گیا ہو۔ حسن آرا کسی زخمی چڑیا کی طرح پھڑپھڑا کر رہ گئی لیکن اس بے رحم گرفت سے نکل نہیں پائی۔ اس نے اضطراری انداز میں ہاتھ چلائے۔ چودھری کے مکروہ چہرے کو دور ہٹانا چاہا تو اس کی انگلی چودھری کی آنکھ میں لگ گئی۔چودھری ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹا تھا ۔بے اختیار اس نے ایک ہاتھ اپنی آنکھ پر رکھ لیا۔چہرے پر شدید تکلیف کے آثار ابھر آئے۔ حسن آرا نے ایک بار پھر اس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش میں زور مارا تو چودھری کو جیسے پاگل پن کا دورہ پڑ گیا۔
حسن آرا کے گال پر پڑنے والے تھپڑ کی” چٹاخ “پورے کمرے میں گونج اٹھی ۔ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا چودھری نے جنونی انداز میں اس پر تھپڑوں کی بارش کر دی تھی۔چند ہی لمحوں بعد حسن آرا کی چیخیں اس کے حلق میں گھٹ کر رہ گئیں۔اس کے چہرے نے چند لمحوں میں دو تین رنگ بدلے ۔پہلے زرد ہوا، پھر سفید ، آنکھوں کی پتلیاں الٹ گئیں اور ہونٹ یک دم نیلے پڑگئے ۔اس کے حلق سے خرخراہٹ کی آوازیں خارج ہونے لگیں ۔ وجود یوں جھٹکے کھانے لگا جیسے اسے شدید قسم کی ہچکی لگی ہو۔چودھری اسے تھپڑ مارتے مارتے ٹھٹک گیا۔اندھے غیض و غضب کے باوجود حسن آرا کی اس اچانک بگڑ جانے والی حالت نے اس کے چہرے پر ایک رنگ سا دوڑا دیا تھا۔
”مکر کرتی ہے حرام کی جنی!“ ” چٹاخ “ بھرپور تھپڑ کے باوجود حسن آرا کی حالت میں رتی برابر بھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔. ہچکی کے ساتھ ساتھ اس کے پورے وجود پر ایک لرزہ طاری تھا، شاید وہ ٹھیک سے سانس نہیں لے پارہی تھی۔ چودھری کو خودبخود سمجھ آگئی کہ وہ مکر نہیں کر رہی بلکہ سچ میں اس کی حالت تشویش ناک حد تک بگڑ چکی ہے۔ وہ فوراً اس کے اوپر سے ہٹتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ ناک کے ساتھ ساتھ اب اس کے ہونٹ اور گردن سے بھی خون رس رہا تھا۔ دونوں جگہ چودھری کے دانتوں کے نشان واضح دکھائی دے رہے تھے۔
چودھری چند لمحے بغور اس کا جائزہ لیتا رہا پھر دروازے کی طرف پلٹا اور زنجیر ہٹا کر کمرے سے نکل گیا۔حسن آرا کی طبیعت تو ویسے ہی ٹھیک نہیں رہتی تھی، چودھری کے اس ذلت آمیز اور ظالمانہ سلوک نے اسے ادھ موا کر چھوڑا تھا۔ کچھ دیر کے لیے وہ سچ مچ اپنے ہوش و حواس سے بے گانہ ہوگئی
تھی۔حواس بحال ہوئے تو اس نے خود کو اسی جگہ پایا۔ اپنے بستر پر خوف اور پریشانی کی شدید لہر نے اسے جھنجھوڑ کر اٹھایا تو فوراً دو ہاتھ اس کے کندھوں پر بوجھ انداز ہو آئے۔
"نہیں ، نہیں۔ لیٹی رہ۔”
"پریشانی کی کوئی بات نہیں ، سب ٹھیک ہے۔”
اسے اپنے اردگرد چند شناسا اور ہم درد چہرے دکھائی دئیے ۔خالہ شبانہ تھی،اقبال پروین تھا، نیلم ، صفیہ اور کستوری بھی موجود تھی۔ نہیں تھا تو اس کے اپنے گھر میں سے کوئی نہیں تھااس کی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسوو�¿ں کی جھڑی جاری ہوگئی۔ ان سب نے اس کا جتنا حوصلہ بندھایا وہ اتنی ہی بے حوصلہ ہوتی گئی
غم واندوہ کی شدت سے کلیجہ کٹ کٹ کر منہ کو آرہا تھا۔ اس کے زخموں پر مرہم لگایا گیا۔ ٹکوریں کی گئیں ۔ اقبال بھاگم بھاگ کچھ مزید دوائیاں ، فروٹ اور گرم گرم دودھ لے آیا، جس میں ہلدی ملا کر تقریباً زبردستی اسے گھونٹ گھونٹ پلایا گیا۔ وہ رات اقبال اور نیلم نے اسی کے پاس گزاری۔ رات ہی میں اسے شدید بخار نے آ دبوچا جو اگلے کئی روز تک اسے نڈھال کیے رہا۔ اس دوران میر صاحب کے خیال، ان کی یاد نے جان لیوا شدت اختیار کرلی۔ وہ خاموش زبان سے انہیں پکارتی رہی۔ آوازیں دیتی رہی۔ خدا کے حضور گڑگڑاتی رہی، دعائیں مانگتی رہی لیکن وہ بھی نجانے اپنی کس مصلحت کے تحت بالکل بے نیاز اور خاموش رہا۔
تین چار روز گزرے ہوں گے کہ چودھری اکبر ایک بار پھر اس کے سر پر سوار ہو آیا۔اس وقت بھی وہ شدید بخار میں پھنک رہی تھی۔ چوہدری اندر داخل ہوا تو نزہت بیگم بھی اس کے ہمراہ تھیچوہدری کو بیڈ کے برابر کھڑا دیکھ کر حسن آرا کے چہرے اور آنکھوں میں یوں ہراس ابھرا جیسے چودھری کے روپ میں اسے ملک الموت دکھائی دے گیا ہو۔ وہ فوراً اٹھ کر سیدھی ہو بیٹھی۔چودھری کے وحشیانہ سلوک کی تمام نشانیاںاس کے چہرے پر موجود تھیں۔ ایک آنکھ سوج کر آدھی بند دکھائی دے رہی تھی۔رخساروں پر تھپڑوں کے نیلاہٹ آمیز نشان ابھی موجود تھے۔چہرے کے ساتھ ساتھ اس کے ہونٹ پر بھی ورم تھا۔ گردن اور ہونٹ پر دانتوں کے زخم واضح طور پر دکھائی دے رہے تھے۔چودھری چند لمحے کھڑا اسے خاموشی سے گھورتا رہا پھر نزہت بیگم سے مخاطب ہوا۔
"کیا وجہ یہ بخار کچھ زیادہ ہی نہیں چڑھنے لگا اسے ؟”
"جتنی یہ نظر آتی ہے اندر سے اس سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر بیمار پڑجاتی ہے۔” نزہت بیگم نے منہ ٹیڑھا کرتے ہوئے کہا۔
حسن آرا نے اس کے لیے دل میں شدید نفرت محسوس کی۔ وہ اس کی سگی خالہ تھی۔حسن آرا آج تک اسے اماں کہتی آئی تھی لیکن اب وہ اسے ایک ڈائن محسوس ہونے لگی تھی۔ایک ایسی بھوکی اور پاگل ڈائن جو اپنے بچوں تک کا کلیجہ چبا جانے سے نہ ہچکچائے۔
"کمزور تو خیر نئیں ہے کمزور ہوتی تو اس دن جو اس کی حالت تھی ،اس کے بعد اب تک تو اس کی قبر کی مٹی بھی ٹھنڈی ہوچکی ہوتی۔”
"قبر کی مٹی تو کب کی ٹھنڈی ہوچکی!”
نزہت بیگم کی بات پر چودھری نے اس کی طرف دیکھا اور پھر قہقہ لگا کر ہنس پڑا ۔ نزہت بیگم نے دیوار کے ساتھ قطار میں رکھی چار کرسیوں میں سے ایک گھسیٹ کر کمرے کے درمیان میں رکھی تو چوہدری پیچھے ہٹ کر اس پر بیٹھ گیا۔ اس نے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائی اور کندھوں پر موجود چادر کا ایک پلو اپنے دائیں گھٹنے پر پھیلا لیا ۔ نزہت بیگم فورا دروازے کی طرف بڑھی، وہاں چوہدری کا ایک پالتو کتا حقہ اٹھائے کھڑا تھا۔ نزہت بیگم نے اس کے
ہاتھ سے حقہ لیا اور لا کر چوہدری کی کرسی کے قریب رکھتے ہوئے اس کی ” نے “ چوہدری کے ہاتھ میں دے دی ۔
” ہاں تو ح�±سن آرا جی! اب کیا ارادے ہیں تمہارے… کہا سوچا پھر… ؟ "چوہدری کے اس سوال پر اس کے ہونٹ تھرتھرا کر رہ گئے ۔ وہ کچھ بھی بول نہیں پائی تھی ۔حقے سے ایک طویل کَش کھینچ کر چوہدری دوبارہ بولا۔
” تمہاری اماں نے تمہیں ساری بات سمجھا دی تھی۔ اگر تمہاری کوئی شرط، ڈیمانڈ ہے تو بتا دو۔ ہم وہ بھی پوری کر دیں گے ۔”
اس نے ایک ذرا توقف کیا۔
” یہ تو تم جانتی ہی ہو کہ ہم مجبور شجبور نئیں ہیں۔ تم ہمارے لئے گھڑے کی مچھلی ہو جب چاہیں ،جو مرضی کر گزریں، لیکن بات وہی ہے ہم چاہتے ہیں کہ تم اپنی مرضی سے اپنا آپ ہمیں سونپ دو۔ اس طرح نہ ہمارا سواد کرکرا ہو گا ،نہ تمہیں کوئی تکلیف اٹھانی پڑے گی… دوسری صورت میں پھر….” اس نے دھمکی آمیز انداز میں جملہ ادھورا چھوڑ دیا ۔
” آپ اثر رسوخ والے بندے ہیں۔ ” حسن آرا نے نظریں جھکاتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہنا شروع کیا۔ بولتے ہوئے ہونٹ میں تکلیف اٹھی تھی ۔ ” مجھے پتا ہے کہ میں ایک لاوارث ہوں۔ بے حیثیت، بے وقعت… آپ تو آپ، مجھ جیسی لڑکی کو تو کوئی بھی ذلیل و رسوا کر سکتا ہے۔ میرا کسی پر زور نہیں، آپ کا جو جی چاہے آپ کریں لیکن میں آپ پر واضح کر دوں کہ آپ صرف ایک زندہ لاش کو ہی پامال کر سکتے ہیں… اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ "
” یہی تو ہم کرنا نہیں چاہتے ایسا کرنا ہوتا تو کب کا کر گزرے ہوتے۔ ہم تو تم سے زندگی کی بات کر رہے ہیں۔ ایک نئی زندگی کی تم بھی تو یہی چاہتی ہو نا! یہاں سے، اس ماحول سے نکل کر ایک گھریلو اور عزت دار زندگی گزارنا چاہتی ہو.. ہم گھر بار اور چار دیواری کا تحفظ دیں گے تمہیں۔ یہاں سے لیجا نے سے پہلے گھر کی ملکیت کے کاغذات تمہارے حوالے کر دیں گے۔ ” حسن آرا نے یہ سن کر ایک نظرِ ناگوار نزہت بیگم پر ڈالی جو ایک طرف موڑھے پر بیٹھی تھی۔
” یہ بات آپ سے جس نے بھی کہی ہے اول درجے کا جھوٹ بولا ہے۔ میں ایسا کچھ بھی نہیں چاہتی۔ مجھے اپنے ماحول سے کوئی مسئلہ ہے نہ گھریلو زندگی کا چاو�¿۔میں یہاں کی مٹی سے ہوں اور یہیں مطمئن ہوں ۔”
” اگر ایسا کچھ نہیں چاہتی ہو تو پھر اس ارشد اللہ کے ساتھ کیا چکر چلا رکھا تھا؟ کیا ڈرامہ تھا وہ سب؟ ” چوہدری کے لہجے میں گہرے طنز کی کاٹ تھی۔
” وہ سب میر صاحب کی خواہش تھی۔ ان کا اپنا ذاتی فیصلہ تھا وہ۔ میں ان سے نکاح کے بعد بھی خود کو ان کی ادنی کنیز سے زیادہ تصور نہ کرتی کیونکہ مجھے اپنی اصل، اپنی حیثیت، اپنی اوقات کا پتا ہے۔ ”
” میر صاحب…. ادنی کنیز….” چوہدری نے شدید بدمزگی سے دہرایا ۔ وہ جو اچھے خاصے بہتر موڈ میں دکھائی دے رہا تھا، یکدم اس کا موڈ خراب نظر آنے لگا۔ وہ نزہت بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
” اس سور کے تخم نے کیا گھول کے پلایا ہے اسے؟ کیا جادو ٹونا کیا ہے اس پر؟ "
حسن آرا کے دماغ کو دھچکا سا لگا.. سور کا تخم… یہ الفاظ چوہدری نے یقینا میر صاحب کے متعلق ہی کہے تھے ۔ حسن آرا کے رگ و پے میں یکایک ایک حدت انگیز سنسناہٹ دوڑ گئی۔
” کیا بتاو�¿ں چوہدری صاحب! اس منحوس کی وجہ سے ہماری تو زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کلموہی کو سمجھا سمجھا کر میری کھوپڑی پلپلی ہو چکی، زبان
لکڑی بن گئی لیکن اس بدبخت کو سمجھ نہیں آتی۔ ” نزہت بیگم کے ان الفاظ پر حسن آرا کا خون کھول اٹھا۔
” اماں ! سوچ سمجھ کر بول کل تک تو میر صاحب کے قدموں میں بچھ بچھ جاتی تھی اور آج ان کی پیٹھ پیچھے تیری زبان یوں زہر اگل رہی ہے ۔ جب وہ واپس آئیں گے تب ان کے سامنے اس طرح بات کر کے دکھانا مجھے۔ "
” اب وہ آئے گا ہی کیوں ؟ اس کا مطلب نکل چکا۔ تیرا کنوار پن کھانا تھا اس نے کھا لیا، اب یہاں اس کا کیا دھرا ہے جو وہ آئے گا ؟ "
” وہ آئیں گے۔ ضرور آئیں گے دیکھ لینا تم۔ "اس کے لہجے میں ایسا غیر متزلزل یقین تھا کہ چوہدری اور نزہت بیگم اس کی شکل دیکھتے رہ گئے۔
” اگر وہ نہ آیا؟ ” چوہدری نے گہری سنجیدگی سے پوچھا..
” وہ آئیں گے۔ ”
” میں نے پوچھا ہے اگر وہ نہ آیا تو ؟ "
” خدا ان کی زندگی سلامت رکھے آج نہیں تو کل، وہ آئیںگے لازمی آئیں گے۔”
” جو میں نے پوچھا ہے اس سوال کا جواب دے اگر وہ نہ آیا تو ؟ ” چوہدری کے لہجے میں غراہٹ دَر آئی۔
” میں جواب دے چکی ہوں ان کے نہ آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ” کمرے میں چند لمحوں کے لیے ایک گہری خاموشی پھیل گئی پھر چوہدری کی گھمبیر آواز نے اس خاموشی میں رخنہ اندازی کی۔
” میری اک بات اچھے سے اپنے دماغ میں بٹھا لے ارشد اللہ اب نہیں آئے گا چاہے دنیا اِدھر کی ا�±دھر ہو جائے اور پتا ہے وہ کیوں نہیں آئے گا؟ ” حسن آرا نے نظریں اٹھا کر چوہدری کی طرف دیکھا جس کا چہرہ لال بھبوکا ہو رہا تھا ۔
” وہ اس لئے نہیں آئے گا کہ اس نے چوہدری اکبر علی سے مَتھا لگایا تھا چوہدری اکبر علی کی محبت پر ڈاکا ڈالا تھا اس کی وجہ سے چوہدری اکبر علی کو چند گھنٹے یہاں کے تھانے میں گزارنے پڑے تھے۔ میں نے یہیں ….. تم دونوں کے سامنے اسے کہا تھا کہ میں تجھے معاف نہیں کروں گا تو نے اپنی بدبختی کا سامان کر لیا ہے۔ یاد ہے نا تجھے ؟ اب آگے کی ساری زندگی وہ بس اپنے زخم چاٹتا رہے گا۔ بہتر ہے کہ ت�±و اس بات کو سمجھ جائے ورنہ ت�±و بھی عمر بھر سسکتی رہے گی، روتی رہے گی کچھ حاصل اور وصول نہیں ہو گا۔ ”
” مجھے اندازہ ہے وہ کسی سنگین مسئلے اور مجبوری کا شکار ہیں، اسی باعث اپنے وعدے کے مطابق نہیں پہنچ پائے لیکن جلد یا بدیر وہ آئیں گے ۔ یہ میرا یقین ہی نہیں ، ایمان بھی ہے۔ ”
” تیرے یقین ایمان پر ک�±تے موتیں گے، فی الحال تو مجھے یہ بتا کہ میری پیش کش کے بارے میں تیرا کیا فیصلہ ہے؟ میری محبت کو قبول کرے گی یا میرے قہر اور نفرت کو دیکھے گی؟ جواب اچھی طرح سوچ سمجھ کے دے تیرے جواب تک ،اچھا برا سب تیرے ہاتھ میں ہے۔ ”
چوہدری نے نخوت سے کہا اور حقہ گڑگڑانے لگا۔
” اچھا برا کیا سوچوں؟ سوچنے کیلئے میرے پاس کونسی مہلت ہے؟ مرضی تو آپ ہی کی چلنی ہے نا ” کوشش کے باوجود وہ لہجے کی تلخی نہیں چھپا پائی تھی ۔
” میری مرضی تو ہے چن مکھنی…یعنی تجھے ہر صورت میرا ہونا ہے اب اس کی دو صورتیں ہیں میں یہ موقع اور حق تجھے دے رہا ہوں کہ ان دو میں سے اک طریقہ چ�±ن کے خود ہی بتا دے، جس طرح تو پسند کرے رہی بات مہلت کی، تو مہلت جو تو چاہے میں تجھے دینے کو تیار ہوں۔ اب بول کیا کہتی ہے؟ "
” ٹھیک ہے، کچھ وقت دیں مجھے ” اس نے مصلحت سے کام لینے کا فیصلہ کیا ۔
” یہی تو میں بھونک رہا ہوں، کتنا وقت چاہیے تجھے؟ "
” ایک سال ۔”
” بھیجا پھر گیا ہے تیرا! یا مجھے پھدو سمجھ رہی ہے… .. ہیں؟ تجھے مسئلہ کشمیر کا حل نکالنے کا نہیں کہا میں نے کوئی عقل میں آنے والی بات کر۔ ”
” تین مہینے“ اس نے فورا کہا ۔چوہدری کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔ وہ غصے میں کچھ کہنے والا تھا لیکن نجانے کیا سوچ کر چپ کر رہا ۔ چند لمحے تیکھی نظروں سے اسے گھورتا رہا۔ پھر اچانک اس کے ہونٹوں پر مدھم سی مسکراہٹ اتر آئی۔ اس نے حقے سے دو تین چھوٹے چھوٹے کش لئے پھر فراخ دلانہ انداز میںبولا۔
” چل ٹھیک ہے تو بھی کیا یاد کرے گی دیے تین مہینے تجھے۔ اج دس جنوری ہے۔ دس اپریل کی صبح دس بجے تک کی مہلت دی تجھے ۔سوچنے سمجھنے کیلئے ۔ اچھی طرح سوچ وچار کر ،جس طرح چاہے ارشد اللہ کی واپسی کے حوالے سے اپنی غلط فہمی کی بھی تسلی کر لے۔ کوئی اور مسئلہ معاملہ یا الجھن ہو تو وہ بھی دور کر لے تین مہینے بہت ہوتے ہیں۔ "کچھ دیر مزید بیٹھنے کے بعد چوہدری اکبر اٹھ کھڑا ہوا۔ نزہت بیگم کسی باندی کی طرح حقہ اٹھا کر چوہدری کے پیچھے ہی کمرے سے نکل گئی ۔ حسن آرا تھکے ٹوٹے انداز میں دوبارہ لیٹ گئی۔ ذہن میں چوہدری کی باتوں کی بازگشت گونجتی رہ گئی۔
میر صاحب کے حوالے سے کہی گئی چوہدری کی باتیں اس کے بدترین اندیشوں کی تصدیق کر گئی تھیں۔ اس نے جیسے واضح طور پر اعتراف کیا تھا کہ میر صاحب کے واپس نہ پہنچ پانے کا ذمہ دار وہی ہے۔ اس نے کوئی ایسا شیطانی کھیل کھیلا ہے جس کے باعث میر صاحب کسی سنگین مشکل میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ اسے تو کسی کسی وقت یہ شبہ بھی ہونے لگتا تھا کہ میر صاحب کے والد میر ظفر اللہ کی موت بھی پتا نہیں طبعی تھی یا ان کی موت کے پیچھے بھی کسی نہ کسی صورت چوہدری ہی کا کوئی ہاتھ، کوئی کردار رہا ہے!
*********°°°°*******
وہ دو گاڑیاں تھیں ایک جیپ ایک کار۔
” دو گاڑیاں ہمارے پیچھے آ رہی ہیں۔ "خنجر نے بشارت کو مطلع کیا۔ اس نے فورا ہی گاڑی کی رفتار کچھ مزید بڑھا دی۔ غالباً عقب میں دوڑی آتی ہیڈ لائٹس سے وہ بھی تعاقب کا اندازہ لگا چکا تھا۔ ان کی گاڑی کی رفتار بڑھتے ہی پیچھے آتی گاڑیوں کی رفتار میں بھی تیزی آ گئی۔
” یا تو ہماری چال ناکام ہو گئی ہے یا پھر ہم نے ان لوگوں کی تعداد کے متعلق غلط اندازہ لگایا تھا ۔” بشارت نے بیک مرر پر نظر ڈالتے ہوئے کہا ۔
” آپ لوگ اپنے ہتھیار تیار رکھیں۔”ہتھیار پہلے ہی تیار تھے۔ رائفلیں ان کے ہاتھوں میں تھیں اور پسٹلز ڈَب میں
” ابھی ہم لوگاں کو کہاں لے جا رہو ہو۔ ” بوڑھے مصری نے تشویش انگیز لہجے میں بشارت کو مخاطب کیا ۔ وہ اور اسکا جمورا ،درمیانی سیٹوں پر پریشان بیٹھے تھے۔ ان کے عقب میں آخری سیٹ پر حجاب جبکہ خنجر اور مرشد ڈرائیور کی عقبی سیٹ پرموجود تھے ۔
” وہ قریب آ رہے ہیں۔“ ٹیپو نے کھڑکی سے عقبی طرف جھانکتے ہوئے کہا ۔ بشارت نے گاڑی کو دائیں ہاتھ ایک کشادہ گلی میں موڑ دیا۔
” ہم لوگاں کو کسی اندھیاری نکڑ پر پھینک دیو ۔” مصری نے ایک بار پھر پکارا لیکن کسی نے بھی اس کی طرف توجہ نہیں دی۔
” دو گاڑیاں ہیں تو کم از کم چھ سات بندے تو ضرور ہوں گے۔”
” ظاہر ہے۔ ” مرشد کی بات پر خنجرنے فورا تائید کی۔ دونوں کا دھیان عقبی طرف تھا۔ گاڑی کی اندرونی فضا میں ایک تشویش انگیز سنسنی پھیل گئی ۔ کالی چادر کی اوٹ سے جھانکتی حجاب کی آنکھوں میں بھی بے چینی اور پریشانی بھری ہوئی تھی۔
رات کا آخری پہر تھا۔ سڑک ہی کی طرح گلی بھی مکمل طور پر سنسان اور اندھیرے میں ڈوبی تھی۔ ان کی اسٹیشن وین آندھی کی رفتار سے دوڑ رہی تھی ۔ دوسرے کونے سے مڑتے ہوئے انہوں نے جیپ کی ہیڈ لائٹس کو گلی میں داخل ہوتے دیکھا۔
” وہ حرامی آ رہے ہیں بشارت بھائی! اسکول کی طرف سے ہو کر گوداموں کی طرف نکل چلو۔” ٹیپو، بشارت سے مخاطب تھا ۔ بشارت نے فوری سر کو نفی میں جنبش دی۔
” نہیں، ہمیں پھاٹک کی طرف سے ہو کر نکلنا ہے۔ طے شدہ طریقے کے مطابق۔”
اس نے گاڑی ایک اور گلی میں گھما دی۔ ہیڈ لائٹس کی روشنی میں گلی پوری دکھائی دے رہی تھی۔ یہ ایک انتہائی غلیظ گلی تھی۔ ایک طرف ٹوٹے پھوٹے بے ڈھنگے مکانات تھے تو دوسری طرف کوڑا کرکٹ کا ایک دیوار نما سلسلہ۔ ان ڈھیروں کے عقب میں کہیں کہیں جنگلی کیکر کے درخت بھی جھلک دکھاتے تھے ۔ یہیں سے بشارت نے اچانک گاڑی کا رخ بدلا اور ایک مکان کی گری ہوئی دیوار کے برابر سے گاڑی کو ایک سخت ناہموار راستے کی طرف لے آیا ۔ یہ قدرے نشیب کو اترتی ہوئی کوئی گلی تھی۔ گاڑی نے اس بری طرح ہچکولے کھائے کہ یونہی محسوس ہوا جیسے وہ الٹنے جا رہی ہے ۔ مرشد اور خنجر ایک دوسرے سے ٹکرائے۔حجاب کے حلق سے گھٹی گھٹی سی چیخ نکلی۔ کچھ عجیب و غریب آوازیں مصری اور تاجل نے بھی خارج کیں۔ بہرحال خیریت رہی ۔ راستے کی یہ ناہمواری بس چند گز تھی۔ بشارت نے مشاقی سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے تین چار گلیاں مزید تبدیل کیں اور پھر ایک پختہ سڑک پر نکل آیا۔ سڑک پر نکلتے ہی اس نے رفتار ایک دَم بڑھا دی۔ عقب میں دور تک کوئی گاڑی نہیں تھی۔ شاید وہ اپنے تعاقب میں آنے
والوں کو ج�±ل دینے میں کامیاب ہو گئے تھے ۔
” لگتا ہے ہم ڈاج دینے میں کامیاب رہے ہیں۔ عقب میں کوئی گاڑی نہیں ہے۔ ” ٹیپو نے چہکتے ہوئے کہا۔
بشارت بولا۔ ” دھیان رکھو، کہیں سامنے کوئی مل نہ جائے۔”
” بس اب بریک پر پاو�¿ں نہ آئے۔ بھگائے رکھو۔”
” کہاں لے جا رہو ہو ہم کو؟ ہم کو اتار کیوں ناہی دیتو ؟“ مصری پھر بولا تھا۔ ساتھ ہی اس نے باری باری اپنی سانپ جیسی تیز آنکھوں سے مرشد اور خنجر کی صورتیں دیکھیں ۔
” تجھے ارباب صاحب نے کہا تھا نا! ہمیں پریشان نہیں کرنا؟” ٹیپو نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔
” تو کب کیو ہے؟”
” بس پھر چپ کر کے بیٹھا رہ، کہیں بیچنے کو تو نہیں لے جا رہے تجھے ۔”
” تم لوگاں ہم کو ماپھ کیوں ناہی کرتو؟ کیوں گھسیٹتو پھر رہو ہو ہم کو؟ چھوڑ دیو… اتار دیو یاہیں کاہیں۔ ” مصری کے چہرے کے ساتھ ساتھ لہجے میں بھی بیزاری تھی۔
” ہمیں اس بات کی اجازت نہیں ہے، تجھے بھی اس بات کا پتا ہے لہذا چپ کر کے بیٹھا رہ یا پھر کھڑکی میں سے چھلانگ لگا کر اتر جا۔ ” ٹیپو نے سنجیدگی سے کہا اور سیدھا ہو بیٹھا ۔ مصری آہستہ آواز میں کچھ بڑبڑانے لگا ۔
کچھ ہی دیر بعد مرشد نے محسوس کیا کہ گاڑی کسی مین روڈ پر پہنچ آئی ہے ،کیونکہ رات کے اس آخری پہر بھی یہاں اکا دکا گاڑیوں کی آمدورفت جاری تھی ۔مرشد بشارت سے مخاطب ہوا۔
” ہم جا کس طرف رہے ہیں؟ ”
” مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان کی طرف یہی سڑک سیدھی بلوچستان کی طرف جاتی ہے ۔”
” قلعہ سیف اللہ یا کوئٹہ کا فاصلہ یہاں سے کتنا ہو گا ؟ ”
” قلعہ سیف اللہ کا تو پتا نہیں، کوئٹہ تک یہاں سے کوئی سترہ اٹھارہ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ راستے میں پہاڑوں کے درمیان سڑک سمجھو ہے ہی نہیں، پانچ چھ گھنٹے کا سفر تو انتہائی تھکا دینے والا ہے۔ ” بشارت ساتھ کی ساتھ عقب نما میں بھی دیکھ رہا تھا لیکن تعاقب کے کوئی آثار نہیں تھے۔
” اس کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی ہو گا؟ "
” سیدھا راستہ تو یہی ہے اور تو پھر لمبا چکر کاٹنا پڑتا ہے ۔سندھ سے ہو کر یا پھر پنڈی سائیڈ سے ۔”
” ابے کتیا! تیرے کو کیا بیماری ہے، کیا موت پڑ رہو ہے کیوں پسلیوں ماںسوراکھ بنائے جاوو ہے ؟ پرو کو مر بیٹھ تھوڑو ” بوڑھا مصری اچانک اپنے جمورے تاجل پر پھٹ پڑا۔
” مجھے…. مجھے بہت ڈر لگ رہیو ہے ددا! یہ…. یہ ہم….. "
” مر بھی… ” مصری نے باقاعدہ اس کی گدی میں جھانپڑ رسید کر دیا۔
” ادھر ہٹ کے بیٹھ مر تھوڑو پہلے ہی اتنو گرمی ہے، اوپر سے تو چپکو جاوو ہے۔ تیری اماں کی گود ناہی ہے یہ۔ ” وہ سخت بھنایا ہوا تھا۔
جمورا اپنی جگہ تھوڑا مزید سکڑ سمٹ کر بیٹھ گیا۔ وہ بے چارا بری طرح دہشت زدہ دکھائی دیتا تھا جبکہ مصری کا رواں رواں سخت بے زاری اور جھنجھلاہٹ میں مبتلا تھا ۔ اس کی غیر معمولی روشن اور تیز آنکھوں میں ایک بے بسی ہلکورے لے رہی تھی۔ مرشد اور خنجر سے اس کی نظریں ملیں تو چہرے پر کچھ مزید بدمزگی برس پڑی ۔ وہ زیرِ لب بڑبڑاتا ہوا کھڑکی کی طرف متوجہ ہو گیا جس کی دوسری طرف گہری تاریکی تھی۔ مرشد نے دیکھا، وہ سیٹ پر اپنے مخصوص آسن میں بیٹھا تھا۔ یعنی پیروں کے بل سیٹ کا عقبی حصہ اس نے بغل میں دبوچ رکھا تھا ۔ پچیس تیس منٹ سفر اسی طرح جاری رہا پھر اچانک بشارت نے گاڑی کی رفتار دھیمی کر دی۔
” آگے کوئی گڑبڑ ہے۔” اس نے سرسراتی آواز میں کہا۔ مرشد اور خنجر پہلے ہی سامنے کی طرف جھانک رہے تھے ۔انہیں سامنے تھوڑے ہی فاصلے پر گاڑیوں کی ایک طویل قطار رکی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ اس قطار میں زیادہ تعداد ہیوی ٹرانسپورٹ کی تھی اور یہ قطار کم از کم بھی ایک ڈیڑھ کلومیٹر لمبی تو ضرور رہی ہو گی۔ بشارت نے گاڑی کی رفتار آہستہ کرتے کرتے اسے ایک ٹرک کے عقب میں جا روکا ۔
” ٹیپو! اتر کے دیکھ ذرا، لگتا ہے پ�±ل پر کوئی گڑبڑ ہے ۔”بشارت نے کہا اور ہیڈ لائٹس کے ساتھ ساتھ گاڑی کی اندر والی لائٹ بھی آف کر دی۔ ٹیپو فورا نیچے اتر گیا۔ چند قدم کے فاصلے پر ایک ٹرک کے ساتھ تین بندے کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ ٹیپو بھی ان کے پاس جا کھڑا ہوا۔
” جگر! مجھے لگتا ہے یہ سارا انتظام اپنے لئے ہی ہے۔ آگے پولیس ناکا ہو سکتا ہے۔” مرشد نے کوئی تبصرہ کئے بغیر اطراف کا جائزہ لیا، دونوں طرف گہری تاریکی تھی.. دور دور تک روشنی کے آثار دکھائی نہیں دیتے تھے ۔ اسی وقت ان کے عقب میں ایک بس آ کر رکی..
” یہ لو۔” خنجر پھر بولا۔” لگتا ہے کچھ ہی دیر بعد پیچھے ہٹنے کا راستہ بھی نہیں ملے گا۔ "
” بشارت ! کیا اندازہ ہے تمہارا؟” مرشد بشارت سے مخاطب ہوا ۔
” آگے دریا ہے جی! چناب.. اس کے پل پر کوئی مسئلہ ہے ۔ ہو سکتا ہے آپکا ساتھی ٹھیک کہہ رہا ہو، پ�±ل پر پولیس نے ناکہ لگا رکھا ہو۔”
” تو پھر… کوئی دوسرا راستہ اختیار نہیں کیا جا سکتا ؟ ”
” ہم منزل کے بالکل قریب پہنچ آئے ہیں۔ درمیان میں یہ صرف دریا کی رکاوٹ ہے۔ اس سے آگے بس چند کلومیٹر سفر باقی ہے ہمارا۔ ”
سامنے کھڑے ٹرک کی دائیں طرف ٹیپو موجود تھا، بائیں طرف نشیب پھیلا ہوا تھا۔ اسی طرف سے ٹرک کے برابر سے اچانک تین افراد نمودار ہوئے۔ مرشد جو بشارت سے کچھ مزید کہنے والا تھا، اس طرح چونک پڑا کہ اس کی بات اس کے منہ میں ہی رہ گئی۔ آنے والے دو پولیس کانسٹیبل تھے اور تیسرا چوہدری فرزند کا پالتو کتا۔ حکم داد… اس کی شکل دیکھتے ہی مرشد کے خون نے اچھال مارا۔ سنسنی کی ایک تیز لہر اس کے پورے وجود میں دوڑ گئی۔وہ ایک نظر میں مرشد کو شناخت کرسکتا تھا۔ ایک کانسٹیبل فرنٹ کھڑکی سے اندر جھانکتے ہوئے بشارت سے مخاطب ہوا۔
"ہاں بھئی! کیا نام ہے تیرا اور کدھر سے آرہاہے ؟ "
"بشارت نام ہے جی! وہاڑی سے آرہا ہوں۔”
"پیچھے کون ہے؟ لائٹ جلاو�¿ ذرا۔”
"فیملی ہے۔ لیکن کیا چکر کیا ہے ؟”بشارت کا لب و لہجہ بالکل ہموار تھا۔اس کے لہجے سے کسی پریشانی کا اندازہ نہیں ہوتا تھا۔ عقبی طرف مرشد اور خنجر شدید اعصابی تناو�¿ میں بیٹھے تھے ۔رائفلوں پر دونوں کی گرفت مضبوط ہوچکی تھی۔
گاڑی کے شیشے کلرڈ تھے۔ باہر بھی کوئی خاص روشنی نہیں تھی۔ اسی باعث باہر والوں کو وہ واضح طور پر دکھائی تو نہیں دے رہے تھے البتہ یہ اندازہ ہوتا تھا
کہ اندر چند لوگ موجود ہیں۔
"چکر بھی بتاتے ہیں ،پہلے ت�±و لائٹ تو جلا۔”
اسی وقت عقبی دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا۔ دروازہ کھولنے والا حکم داد تھا۔ اس کے شاید وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دروازہ کھولتے ہی اس کے ساتھ ایسا ہوگا۔اس کے کیا, اس کے ساتھ کرنے والے مرشد کو خود بھی اندازہ نہیں تھا دروازے کے ساتھ وہی رائفل تھامے بیٹھا تھا۔ ایک لمحہ پہلے تک وہ صرف یہ سوچ رہا تھا کہ فوری طور پر کیا کرنا چاہیے لیکن دروازہ کھلتے ہی اس کے ہاتھ خودبخود حرکت میں آگئے تھےرائفل کی آہنی نال اچانک کسی نیزے کی طرح حکم داد کے سینے سے ٹکرائی تھی۔ ضرب یقیناً زور دار تھی۔حکم داد کے حلق سے بے ساختہ ایک درد ناک کراہ خارج ہوئی اور وہ لڑکھڑا کر دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔مرشد اتنے میں اچھل کر باہر آچکا تھا۔
"خبردار اوئے! ہلنا بھی مت ورنہ پھڑکا دوں گا ( ناقابل اشاعت ) کو۔”اس کی آواز میں سکتہ طاری کردینے والی وحشت ناک گرج تھی۔ دونوں کانسٹیبل اپنی اپنی جگہ پتھرا کر رہ گئے۔ان دونوں کو شاید خود بھی اندازہ نہیں ہوسکا کہ ان کے ہاتھ اوپر اٹھ چکے ہیں۔ یہ سب پلک جھپکتے تو ہو گزراہ تھا!
"خنجر ! رائفلیں سنبھال ان حرامیوں کی۔”
حرامیوں کی ہراساں آنکھیں مرشد کے ہاتھوں میں موجود رائفل پر جمی ہوئی تھیں جس کی خوفناک نال کا جان لیوا دھانا ان ہی دونوں کی طرف تھا۔ دو قدم کے فاصلے پر حکم داد ایک ہاتھ سینے پر رکھے قدرے جھکا ہوا تھا البتہ وہ دیکھ مرشد ہی کی طرف رہا تھا۔کسی گاڑی کی روشنیاں اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔اس کے چیچک زدہ چہرے پر خون کے دباو�¿ کی سرخی تھی۔ آنکھ کا پتھر چمک رہا تھا اور گلے کی رگیں پھولی ہوئی تھی۔شاید وہ ٹھیک سے سانس نہیں لے پارہا تھا۔اس کے باوجود اس کے چہرے اور اکلوتی آنکھ میں خطرناک عزائم پھنکار رہے تھے۔شاید اسے چند لمحے ملتے تو وہ رائفل کی پرواہ کیے بغیر مرشد پر حملہ آوار ہوجاتا لیکن مرشد ذرا بھر رعایت دینے کو تیار نہیں تھا۔خنجر نے گاڑی سے پاو�¿ں باہر رکھا ہی تھا کہ مرشد برق رفتاری سے حرکت میں آیا اور اس کی رائفل کا بٹ حکم داد کے کان کے عقبی حصے پر پڑا۔ حکم داد منہ کے بل سڑک پر گرا تھا۔اسی لمحے دوسری طرف سے ٹیپو لپک کر ان کے قریب پہنچ گیا ۔ نظر آنے والے منظر نے اسے بری طرح چونکا دیا تھا۔اردگرد دوچار اور سنسنی زدہ چہرے موجود تھے۔
"چلو گاڑی میں بیٹھو۔”مرشد نے رائفل کی نال سے اشارہ کرتے ہوئے پولیس والوں سے کہا۔خنجر ان کے کندھوں سے رائفلیں اتار رہا تھا۔
"کک کیوں ؟”ان دونوں کے سانس خشک ہوگئے۔
"چودھری کے اس کتے کو بھی گاڑی میں ڈالو۔”
"تت تم لوگ ہماری رائفلیں لے جاو�¿۔ اسے…. اسے بھی بے شک لے جاو�¿۔”ان میں سے ایک حکم داد کی طرف دیکھتے ہوئے ہکلایا۔
مرشد نے ایک قدم آگے بڑھ کر رائفل کی نال اس کی گردن میں گھسیڑتے ہوئے غرا کر کہا۔
"جو کہا ہے اس پر چپ چاپ عمل کرو ورنہ تم دونوں حرامیوں کے کھوپڑوں میں فائر مار دوں گا۔تمہیں پتا ہی ہوگا کہ میں پولسیوں کو کتنی خوشی اور شوق سے قتل کرتا ہوں چلو اٹھاو�¿ اپنی ماں کے اس یار کو اور ڈالو گاڑی میں۔”
دونوں کانسٹیبل حرکت میں آگئے ۔ان کی حالت سے باخوبی اندازہ ہوتا تھا کہ مرشد کے نام کی ان پر کتنی دہشت سوار ہے۔
"باو�¿ جی! یہ آپ کیا کر رہے ہو اس سب کی کیا ضرورت ہے ؟”ٹیپو متذبذب سے انداز میں مرشد سے مخاطب ہوا۔
"ضرورت تو انہوں نے خود پیدا کر دی ہے۔”
” یہ مناسب نہیں ہوگا۔”
"تو تم اپنا کوئی مناسب انتظام کر لو ،ہمارے ساتھ چلنے کی کوئی ضرورت نہیں۔”
ٹیپو ہونٹ کاٹ کر رہ گیا۔ مرشد کے تیور خاصے بگڑے ہوئے تھے۔ حکم داد ہوش میں تھا۔ سپاہیوں نے اسے سہارا دے کر گاڑی میں سوار کرنا چاہا تو اس نے نخرے دکھانے کی کوشش کی لیکن گدی میں پڑنے والی رائفل کے کندے کی ایک اور ضرب نے اس کے حواس بالکل استری کر دیے۔
"دیکھو اس بندے کو بے شک گاڑی میں ڈال لو لیکن ان پولیس والوں کو رہنے دو۔ بہت بڑا کھڑاک بن جائے گا یہ۔”ٹیپو نے ایک بار پھر دھیمے لہجے میں کہا تو مرشد نے مسکراتے ہوئے اس کا کندھا تھپکا۔
"گاڑی میں بیٹھو۔”
دونوں کانسٹیبل جیسے مسمرایز ہوکر رہ گئے تھے۔ حکم داد کو ایک سیٹ پر ڈالنے کے بعد وہ خود بھی مصری کے برابر دبک کر بیٹھ گئے ۔ خنجر حکم داد والی رائفل بھی قبضے میں لے چکا تھا۔ مرشد نے اپنی سیٹ پر سوار ہوتے ہوئے بشارت کو مخاطب کیا۔
"چلو بشارت پیارے! گاڑی نکالو یہاں سے۔” اس نے دروازہ بھی بند کر لیا۔
"یہ سب کیا ہے؟ ان لوگوں کو لے کر کدھر جائیں گے؟”مرشد نے محسوس کیا وہ بھی تھوڑا سا پریشان ہوگیا ہے۔