زندہ اور مردہ زبانیں

 زندہ اور مردہ زبانیں۔
 ماضی کی بہت سی زبانوں کو آج کوئی نہیں جانتا ، بہتوں کے نام بھی نہیں معلوم ۔ کچھ ایسی ہیں جن کی یادگاریں لوحوں یا کتبوں میں طرح طرح کی بصری علامتوں میں نظر آتی ہیں۔

زندہ زبانیں

بول چال اور سوچ بچار یا غورو فکر کی زبان ہی زندہ زبان کہلاتی ہے۔ خواہ اس کے بولنے والے کسی بھی تہذیبی، تمدنی اور علمی و ادبی سطح پر ہوں۔ زندہ زبان کا تعلق خواندگی کی شرح سے نہیں۔ بالکل جاہل لسانی گروہ کی زبان بھی اسی طرح زندہ زبان کہلاتی ہے ، جس طرح سو فی صد شرح خواندگی رکھنے والے گروہ کی۔

وہ بھی ایک نظام کی حامل ہوتی ہے۔ ابلاغ کا حق ادا کرتی ہے ، تغیر وتبدل کی منزلیں طے کرتی اور فطری ارتقاء کا سفر جاری رکھتی ہے ۔ مہذب متمدن اور اعلی تعلیم یافتہ لسانی گروہ کی زبان کی طرح زبان کوئی بھی ہو۔ اس کا ہر جز اسی وقت تک زندہ سمجھا جاتا ہے جب تک وہ زبان زد رہتا ہے۔ سنا جاتا ہے اور یاد رکھا جاتا ہے۔ بول چال اس کی غذا ہے۔

وہ علوم و ادبیات ، فکر و آگہی کی مظہر اور امانت دار بن کر بھی اپنی غذا کے لئے بول چال کی محتاج رہتی ہے۔ بول چال میسر نہ آسکے تو اس کا فطری ارتقاء رک جاتا ہے۔ وہ کتابوں ہی میں نظر بند ہو کر رہ جاتی ہے۔ لیکن کتابیں اسے حقیقی معنوں میں زندہ نہیں رکھ سکتیں ۔ ماضی کی بہت سی زبانوں کو آج کوئی نہیں جانتا ، بہتوں کے نام بھی نہیں معلوم ۔ کچھ ایسی ہیں جن کی یادگاریں لوحوں یا کتبوں میں طرح طرح کی بصری علامتوں میں نظر آتی ہیں۔

مردہ زبانیں

کچھ زبانیں کتابوں کی زینت ہیں ۔ ان کے بصری میڈیم کے مطالع سے گرامر اور معنویاتی نظام کی تدوین اورصوتی نظام کی استخراجی تشکیل یا بازیافت بھی کی جاتی رہی ہے۔ انہیں پڑھا اور سمجھا جا سکتا ہے لیکن ان میں سے کوئی زبان اب کہیں سننے میں نہیں آتی۔ مختلف ادوار میں یہ بھی زبان زد رہ چکی ہیں۔ کیونکہ ان کے وسیلے سے کوئی لسانی گروہ اپنی نجی اور سماجی ضرورتوں اور تقاضوں سے عہدہ بر آ ہو سکتا تھا۔

ان سے اظہار و ابلاغ کا حق اچھی طرح ادا ہو سکتا تھا۔ یہ بول چال اور سوچ بچار کی زبانیں تھیں ، ان سے شعور و ادراک کی رونمائی ہوتی تھی۔ پروہتوں اور عالموں نے مذہب یا علم و ادب کے سنگھاسن پر بٹھا کر ان کے گرد معیار کا ایسا حصار کھینچ دیا کہ وہ عوامی رابطے سے کٹتی گئیں۔ ان کے تقدس اور جامد معیار نے بول چال سے ان کے فاصلے بڑھا دیئے۔ رفتہ رفتہ وہ عوام کے لئے نا قابل فہم ہوتی گئیں۔ جب سماجی تقاضے پورے کرنے کے لائق نہ رہیں تو نطق وسماعت سے بھی محروم ہو گئیں۔

ان میں سے بعض کے کچھ اجزا تبرک کے طور پر باقی تو رہ گئے لیکن بہ حیثیت ایک نظام کے وہ داستانِ پارینہ بن کر رہ گئیں۔ ان کو استعارہً مردہ زبانیں کہا جا تا ہے۔ انھیں پڑھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ ان کے نظام پر دسترس ہو لیکن بول چال اور غور و فکر کا وسیلہ نہیں بنایا جا سکتا۔ کیونکہ ان سے ابلاغی منصب یا وظیفہ ادا نہیں ہو سکتا۔ ان میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جن کا کچھ نہ کچھ فیضان بالواسطہ جاری ہے ۔

ان کو ایسے لسانی سرچشموں سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جن سے پھوٹنے والے شاخ در شاخ دھارے بڑھتے بڑھتے دریا بن گئے۔ کچھ اب بھی رواں دواں ہیں۔ ان کے بعض اجزا کو ایک طرح کی ابدی زندگی بھی مل گئی ہے۔

جدیدیت

علمی وادبی سطح پر یا لسانی گروہ کے بعض طبقوں یا حلقوں ہی میں سہی، یہ اجزا جدید زبانوں میں سابقوں اور لاحقوں کی حیثیت سے دخیل ہوکر سائنسی اور عمرانی علومِ ادب کی اصطلاحات سازی اور علوم کی اشاعت و ترویج کا وسیلہ بن رہے ہیں۔

جدید مغربی زبانوں کی اکثر علمی اصطلاحیں یونانی اور لاطینی سے اخذ کئے ہوئے سابقوں اور لاحقوں کی مرہون منت ہیں۔ بھارت کی جدید زبانیں علمی و ادبی جولاں گاہوں میں سنسکرت سے خوشہ چینی کرتی رہی ہیں۔

لاطینی اور سنسکرت مذہبی اور تدریسی سطحوں پر اب بھی کسی قدر رائج ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ لسانی گروہوں کے سوادِ اعظم نے ان کے لسانی نظاموں کو بالکل بھلادیا ہے۔ اب وہ بولی اور سنی نہیں جاتیں، اس لئے انہیں زندہ زبانیں نہیں کیا جاسکتا۔

عرف عام میں مردہ کہلانے والی زبانیں ماضی ہی کے عصری تقاضے پورے کرنے کا وسیلہ نہ رہی تھیں۔ ان کے ذریعہ سے دور جدید کے یکسر مختلف گونا گوں اور پیچیدہ تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کی توقع عبث ہے۔ چنانچہ ان کو بول چال میں استعمال کرنے یا ان کے احیاء کی کوئی گنجائش نہیں۔

مردہ عبرانی زبان میں نئی روح

زبان کی بقا اور نمو کے اصولوں کی رو سے اس کا قطعا امکان نہیں۔ لیکن اسرائیل نے اسے ممکن کر دکھایا ہے۔ اسرائیلی قومیت کے جوش و خروش اور قومی زبان کے ذریعہ سے تشخص کے شدید احساس نے عبرانی کے مردہ جسم میں نئی روح پھونک دی ہے۔

مدت مدید کی گرد میں آئی ہوئی زبان کی جھاڑ پونچھ اور تراش خراش کے بعد اسے قومی اور سرکاری زبان بنا لیا گیا ہے۔ لیکن چونکہ عبرانی سینکڑوں سال تک بول چال اور غور و فکر کا وسیلہ نہیں رہی، اس لئے جدید عبرانی میں قدیم عبرانی کی لسانی روایت کا تسلسل نہیں ملتا۔۔

اردو زبان کی کہانی

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے