مرشد (عشق جس کو وراثت میں ملا تھا) قسط نمبر12

قدم قدم ہنگاموں اور حادثوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے عشق کی رودادِ دل گداز

اُس نے نزہت جہاں بیگم کے کوٹھے پر آنکھ کھولی، مسلے مرجھائے گجرے، باسی پھول اور گھنگرو اس کے کھلونے بنے، بدمعاشوں کی دنیا نے اسے مرشد مانا اور پھر…… وہ کسی کا مرید ہو گیا

مرشد

شاہی محلے کا نمازی بدمعاش جس نے سرکار سے عشق کیا اور عشق کی مریدی
urdu novel murshid by s j syed, romantic love story
Urdu Novel Murshid


مرشد نے لاشعوری طور پر خنجر کی طرف دیکھا تو خنجر کو اس کے چہرے اور آنکھوں میں شدید حیرت اور بے یقینی دکھائی دی۔ اس نے اپنے مخصوص انداز میںبھویں اچکا کر استفسار کیا ۔مرشد رخ بدل کر ایک بار پھر دروازے کی جھری سے اندر جھانکنے لگا۔محض چند قدم کا تو فاصلہ تھا رانا سرفراز ایک صوفے پر بیٹھا تھا اور اس کے سامنے دوسرے صوفے پر محکمہ پولیس کا دیانت دار اور قابل ترین پولیس افسر، ڈپٹی اصغر علی اعوان نیم دراز تھا۔

ہفتہ دس دن پہلے، جسے گوجرانوالہ کے قریب نامعلوم افراد نے پانچ سپاہیوں کو قتل کرنے کے بعد اغوا کرلیا تھا اور جس کی تلاش میں پولیس مسلسل کوششوں میں مصروف تھی وہ اس وقت یہاں، مرشد کے سامنے محض چند قدم کے فاصلے پر ایک صوفے پر پورے اطمینان کے ساتھ نیم دراز تھا۔ اس کے ہاتھ میں ولایتی شراب کا گلاب تھا اور وہ انتہائی مدبرانہ انداز میں رانا سے مخاطب تھا۔

”مجھے دو کروڑ پورا چاہیے… ٹھیک ہے کہ آپ کا تھوڑا فائدہ ہوگا لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ فائدہ ہوگا بھی تو دہرا نا!“

”فرزند علی بری طرح جھنجلایا ہوا ہے ۔باپ بیٹے کے درمیان خاصی تو تکرار کا بھی پتا چلا ہے، بس نہیں چل رہا ان لوگوں کا۔“ رانا سر فراز کی اطلاع پر ڈپٹی اعوان ایک بار پھر کھل کر ہنسا۔

”بس… بس کیا چلنا اب ان کا ۔پوری طرح پھنسے ہوئے ہیں وہ لوگ۔ آپ کہہ رہے تھے کہ وہ ڈیمانڈ کم کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ذرا دو چار دن مزید انتظار کریں اعصاب چور چور ہوجائیں گے ان کے۔ ہاتھ جوڑ کر ڈیمانڈ پوری کریں گے۔ بس آپ… آپ کو جیسے جیسے بتایا ہے ،آپ ویسے ہی کہانی چلاتے جائیں۔“

”اس طرف سے آپ بالکل بے فکر رہیں، میں نے پوری طرح فرزند کا دماغ سیٹ کر رکھا ہے اور آج صبح تو اس کے باپ اکبر علی کی جھنجلاہٹ اور بے بسی بھی دیکھنے کے قابل تھی۔“ رانا نے عقب میں صوفے سے پشت ٹکائی، جس وقت میں نے اسے بتایا کہ دو چار دن بعد ڈپٹی صاحب منظر عام پر آکر اپنے اغوا کے حوالے سے ان لوگوں کے خلاف بیان دینے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی اس شاہ چھوکری کی طرف سے ان کے خلاف چھ قتلوںکی ایف آئی آر درج کریں گے تو اکبر علی کے ماتھے پر پسینے اتر آئے تھے۔ چہرہ بالکل ہی بجھ گیا تھا اس کا۔“

ڈپٹی اعوان نے مسکراتے ہوئے اپنی ران پر دو تین بار ہاتھ مارا۔

”انہیں اچھے سے سمجھ آرہی ہے کہ وہ کس بری طرح الجھ چکے ہیں۔ حجاب کے ماں باپ اور بھائیوں کے قتل تو ان کے سر ہیں ہی، اب پانچ سپاہیوں کا خون بھی اس طرح ان ہی کی گردنوں پر آپڑنا ہے۔ پنجاب پولیس کے پانچ جوانوں کا خون۔“ڈپٹی نے عیارانہ مسکراہٹ کے ساتھ اپنی موٹی گردن کو ایک ذرا جھٹکا دیا۔ ”منکے چٹخ جائیں گے رانا جی! گردنوں کی ہڈیاں ایک ایک جھٹکے میں ٹوٹیں گی گلے چرجائیں گے اندر سے“

تقریبا ساری کہانی ہی مرشد کی سمجھ میں آگئی تھی۔ ڈپٹی اعوان اور حجاب سرکار کے اغوا کی ساری کارروائی محض ایک سنگین ڈرامہ تھا ۔اس ڈرامے میں

پانچ سپاہیوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا اور کچھ زخمی حالت میں شاید ابھی تک اسپتال میں پڑے تھے۔

چند روز پہلے ملنگی لوگوں کی قید کے دوران مرشد پر ظاہر ہوا تھا کہ چوہدری فرزند اور رانا سرفراز کسی شخص کی وجہ سے بری طرح پریشان ہیں۔ مرشد کو ان کے کچھ جملے بھی یاد تھے۔

”وہ بہت کایاں بندہ ہے، گدھے کے سینگوں کی طرح غائب ہوچکا ہے۔“

”اس کو بھی موقع پر ہی پار کردینا چاہیے تھا، بھروسہ کر کے غلطی کی۔“

”اس معاملے کو بڑے تحمل اور سمجھداری سے دیکھنا پڑے گا چوہدری صاحب !جذباتی ہو کر جوش اور غصے سے کام لیا تو سارے کا سارا معاملہ بگڑ جائے گا ۔ساری کہانی الٹی پڑ سکتی ہے۔“

 یقینا ان کی پریشانی کا باعث ڈپٹی اعوان ہی تھا۔ رانا سرفراز کی عیاری و مکاری میں بھی کوئی کلام نہیں رہا تھا۔ایک طرف وہ بظاہر چوہدری لوگوں کا مخلص وہم درد اور ان کا مدد گار تھا تو دوسری طرف وہ ڈپٹی کے ساتھ مل کر انہی چوہدریوں کیخلاف ایک انتہائی خطرناک کھیل، کھیل رہا تھا۔ ڈپٹی کی دیانتدار صورت کے عقب میں بد دیانتی کی ایسی مکروہ اور گھناﺅنی تصویر چھپی ہوگی ،یہ شاید کبھی کسی کے گمان میں بھی نہیں آیا ہوگا!

مرشد کا ایک سے بڑھ کر ایک کمینہ فطرت اور خبیث ترین انسانوں سے واسطہ پڑ رہا تھا اور وہ انتہائی کرب سے یہ سوچ رہا تھا کہ یہ تمام کے تمام خبیث، انسان نما جانور، حجاب سرکار کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ وہ نازک اور معصوم جان تنہا اتنے سارے خون آشام بھیڑیوں میں گھری ہوئی تھی

ڈپٹی اعوان کی اصلیت منکشف ہونے کے بعد مرشد کا رواں رواں سلگ اٹھا تھا۔ ایک نادیدہ آگ نے جیسے یکایک اس کے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر دروازہ کھولا اور ڈب سے پسٹل نکالتے ہوئے کمرے کے اندر داخل ہوگیا۔ خنجر اس کے اس خاموش اور اچانک عملی فیصلے پر ایک لمحے کو گڑ بڑایا، دوسرے ہی لمحے وہ بھی پسٹل نکالتے ہوئے اس کے پیچھے ہی کمرے میں داخل ہوگیاتھا ۔

کمرے میں اسے سی کی خوش گوار خنکی تھی اور ہلکی سی شراب کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ پہلے ڈپٹی اعوان کی نظر ان پر پڑی، اس کے چہرے کے تاثرات اس تیزی سے تبدیل ہوئے کہ مرشد کے ہونٹوں پربے اختیار ایک زہر خند سی مسکراہٹ اتر آئی۔ ڈپٹی اضطراری انداز میں سیدھا ہو بیٹھا ۔رانا سرفراز بے ساختہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ مرشد اتنے میں ان کے سامنے جا پہنچا ۔

”بیٹھ جا… واپس بیٹھ جا۔“ اس نے پستول سے رانا کو بیٹھنے کا اشارہ کیا لیکن رانا کی تو جیسے سماعت ہی پتھرا کر رہ گئی تھی۔ رانا اور ڈپٹی دونوں کے فرشتوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مرشد یہاں، یوں اچانک ان کے سر پر آ کھڑاہوگا ڈپٹی کی نسبت رانا کی حالت زیادہ دگرگوں ہوگئی تھی۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ شراب کا سارا نشہ مرشد کی زیارت ہوتے ہی اڑن چھو ہوگیا تھا۔ وہ اپنی جگہ سکتے کی سی حالت میں کھڑا رہا تو مرشد نے اچانک اس کی پسلیوں میں لات رسید کی اور وہ لڑ کھڑا کر پہلے صوفے پر گرا اور وہاں سے لڑھک کر فرش پر۔

”میں نے کہا تھا تجھے کہ بیٹھ جا۔“وہ مزید دو قدم آگے بڑھا۔

”دیکھو، دیکھو مرشد! یہ طریقہ درست نہیں ۔تم… تم ابھی پوری حقیقت نہیں جانتے ۔سس… سکون سے بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔“ رانا بے اختیار فرش پر پیچھے کو سرکا۔ مرشد نے اسے قہر بار نظروں سے گھورتے ہوئے غرا کر کہا۔

”یہیں سکون سے بیٹھ جا رانا !منہ سے ایک ذرا آواز نہ نکلے ورنہ، تیری اس گندی کھوپڑی میں گولی مارتے ہوئے مجھے بڑی خوشی ہوگی۔“

”ہاں ، ٹھیک ہے… ہوں… اوں۔“ رانا نے فرمانبردار بچوں کی طرح فوراً رضا مندی ظاہر کرتے ہوئے باقاعدہ سختی سے ہونٹ بھینچ لیے خنجر، پسٹل سنبھال کر ایک طرف صوفے کے پیچھے کھڑا ہوگیا تھا ۔مرشد نے ڈپٹی اعوان کی طرف رخ بدلا جو اپنی جگہ گلاس تھامے بیٹھا تھا ۔اس کے چہرے پر کوئی خاص پریشانی نہیں تھی البتہ تھوڑی دیر پہلے والا اطمینان اور بشاشت کہیں غائب ہوچکی تھی۔

”واہ ڈپٹی صاحب ،واہ! تو اصل ڈپٹی اصغر علی اعوان آپ ہیں جسے شاید کوئی جانتا ہی نہیں ہے!“ مرشد کے انداز میں دکھ سے بھری کرب ناک تپش تھی۔ ڈپٹی نے اپنی سرخ اور موٹی آنکھوں سے مرشد کے دائیں ہاتھ میں موجود پسٹل کو ایک نظر دیکھا پھر نظروں کا زاویہ بدل کر مرشد کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے متفسرانہ انداز میںبولا۔

”کیا ہے یہ سب؟ کس لیے کیوں؟“

”سرکار کہاں ہیں ڈپٹی؟“

”کون سرکار!اچھا تم شاید حجاب بی بی کی بات کر رہے ہو۔ بالکل محفوظ ہیں وہ مضبوط اورمحفوظ ہاتھوں میں ہیں۔“

اگر وہ مضبوط اور محفوظ ہاتھ تیرے ہیں تو آج کے بعد یہ ہاتھ تیرے جسم کے ساتھ نہیں رہیں گے۔ اب صاف صاف بتا ،کہاں ہیں سرکار؟“

مرشد پستول پکڑے، ڈپٹی کے سامنے محض دو قدم کے فاصلے پر کھڑا تھا ۔اس کے عقب میں قدرے دائیں ہاتھ صوفے کے ساتھ ہی رانا سرفراز فرش پر بیٹھا کبھی مرشد اور ڈپٹی کی طرف دیکھ رہا تھا اور کبھی اس صوفے کے عقب میں پستول تھامے کھڑے، خنجر کی طرف ۔خنجر پوری طرح چوکنا تھا۔ اس نے برابر رانا اور ڈپٹی پر نظر رکھی ہوئی تھی اور ساتھ ہی اس کا دھیان کمرے کے چوپٹ دروازے کی طرف بھی تھا۔

مرشد کے غضب ناک لہجے اور تیوروں پر ڈپٹی اعوان کی آنکھوں میں ایک ذرا ناگواری لہرائی پھر اس نے گلاس میں موجود باقی ماندہ شراب حلق میں انڈیلی اور گہری سنجیدگی سے بولا۔

”سکون سے بیٹھ جاﺅ مرشد !بیٹھ کر بتاﺅ کہ تمہارے ساتھ پرابلم کیا ہے؟ اس پرابلم کو ختم کردیتے ہیں۔“

”سرکار کدھر ہیں؟“ مرشد کا لہجہ سرد ہوگیا ۔وہ مشکل سے خود پر قابو رکھے ہوئے تھا۔

”تمہارے اس سوال کا جواب میں دے چکا ہوں۔ تم اطمینان رکھو ،وہ میری ذمہ داری ہیں۔“

”نہیں۔“ مرشد نے فوراً اس کی بات رد کی۔” تم ہر ذمہ داری سے بری ہوئے ۔سرکار اب صرف مرشد کی ذمہ داری ہیں۔ بتاﺅ کدھر رکھا ہے انہیں؟“

”دیکھو مرشد! حجاب بی بی کی زندگی کے لیے از حد ضروری ہے کہ چوہدریوں کی گردنوں میں پھانسی کے پھندے فٹ کردیے جائیں اور اس کی میں کوشش کر رہا ہوں۔ صرف چند دن مزید۔“ وہ بات کرتے کرتے اٹھ کر کھڑا ہوا تھا کہ مرشد کی لات حرکت میں آئی، ڈپٹی کے سینے پر اتنے زور کی ضرب پڑی تھی کہ اس کے منہ سے بے اختیار” اوغ“ کی آواز خارج ہوئی، وہ عقب میں موجود صوفے سے ٹکرایا اور صوفے سمیت دوسری طرف پلٹ کر گر پڑا۔

”اور تو نے چوہدریوں کی گردنوں میں وہ پھندے فٹ کرنے کے لیے اپنے ہی پانچ بے گناہ ما تحتوں کو قتل کرا دیا ہے۔“ مرشد نے ترش لہجے میں کہا۔ ڈپٹی گرتے ہی تڑپ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کی آنکھوں میں غیض و غضب کی چمک تھی، تمتمایا ہوا چہرہ غصے کی وجہ سے کچھ مزید تمتما اٹھا تھا۔

”مرشد… ہوش کے ناخن لو۔“ ڈپٹی کا انداز غرانے والا تھا۔ اس کے چہرے پر خوف کے کوئی آثار نہیں تھے۔ وہ کوئی عام آدمی جو نہیں تھا ڈی

ایس پی تھا۔ افسرانہ شان تو اس کے خون تک میں گھلی ہوئی تھی۔

اس سے پہلے میں تجھے بے ہوشی کے ٹھڈے دوں گا تیرا سارا آندر پیٹا پھاڑ کر ڈھیر کردوں گا اپنی سلامتی چاہتا ہے تو فورا بتا دے سرکار کو کدھر چھپا رکھا ہے؟“ مرشد ایک قدم آگے بڑھا تو ڈپٹی اس کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے بولا۔

”دیکھو مرشد! بے وقوف مت بنو، میں جو کچھ بھی کر رہا ہوں حجاب بی بی کے بھلے کے لیے کر رہا ہوں۔ یہ سب حجاب بی بی کے پھوپھا ،ان کے ہونے والے سسر کے کہنے پر کیا جا رہا ہے۔“

مرشد ٹھٹک گیا ۔ڈپٹی کا آخری جملہ اسے چونکا گیا تھا۔

”تمہارا اغوا، میرے ساتھیوں کا قتل، میرا اشتہاری ہونا ،تمہارے ما تحت پولیس ملازموں کا قتل اور اب تمہارا یہ دو کروڑ والا ڈرامہ تمہارے مطابق یہ سب سرکار کے پھوپھا، بلوچستان والے، ان کے کہنے پر کیا گیا ہے؟“ اس نے اپنی نظریں ڈپٹی کے چہرے پر گاڑھ دیں۔

”ہاں، میں یہی کہہ رہا ہوں اور یہ جو اتنا کچھ ابھی تم نے گنا ہے اغوا، قتل، کروڑ وغیرہ وغیرہ، یہ سب غیر قانونی ہے لیکن ان سب کے احکامات مجھے ڈی آئی جی صاحب نے براہ راست دیے ہیں۔ ذاتی طور پر ملاقات کر کے۔“ڈپٹی نے صوفہ اٹھا کر سیدھا کیا پھر سینے پر قمیص کی جگہ لگی ہوئی مٹی جھاڑتا ہوا آگے بڑھا۔

”اس واہیات پرزے کو ایک طرف کرو اور اپنے خون کے ابال پر بھی تھوڑا قابو رکھو سکون سے بیٹھ کر پہلے سب جان سمجھ لو۔“ ڈپٹی کے انداز میں سخت ناگواری اور بد مزگی تھی۔ وہ دوبارہ اپنی جگہ بیٹھ گیا۔

”بیٹھ جاﺅ۔ بغیر بولے سنے تمہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔“ اس نے ہاتھ بڑھا کر تپائی کو اپنے قریب سرکایا، جس پر شراب اور سوڈے کی بوتل دھری تھی۔ مرشد کو اس کے تاثرات اور لب و لہجے کے اعتماد و روانی نے متذبذب کردیا لیکن اسے ڈپٹی کی بات پر پوری طرح یقین نہیں آیا۔ بے یقینی پیدا کرنے کے لیے بہت سی باتیں تھیں۔

”انہیں بھلا اتنا بڑا کھڑاگ پھیلانے کی کیا ضرورت تھی؟“ مرشد متفسر ہوا۔

”بڑا کھڑاگ ہونہہ۔“ ڈپٹی استہزاءسے ہنسا۔”تمہیں یہ بڑا کھڑاگ لگ رہا ہے ؟ یہ کچھ نہیں ہے کچھ بھی نہیں یہ سب تو ایک بہت پرانی دشمنی کا محض ایک معمولی سا حصہ ہے۔ اتنی پرانی دشمنی کہ جب یہ خطہ بر صغیر کہلاتا تھا ۔انگریز راج تھا یہاں پر یہ سب کچھ اسی پرانی دشمنی کا شاخسانہ ہے۔“ڈپٹی نے دو گلاس تیار کیے تھے، ایک خود سنبھال کر دوسرا اس نے مرشد کی طرف بڑھا دیا۔

”اگر یہ چوہدریوں اور سید سرکار لوگوں کی کسی پرانی دشمنی کا حصہ ہے تو اس دشمنی سے میرا کیا لینا دینا ؟میرے اور میرے ساتھیوں کے قتل کا منصوبہ کس نے بنایا اور کیوں؟“ مرشد نے خشک انداز میں ایک اور سوال کرتے ہوئے ڈپٹی کے ہاتھ سے گلاس پکڑ لیا ۔ڈپٹی کو چند لمحے کے لیے چپ لگ گئی پھر وہ ایک گہری سانس چھوڑتے ہوئے بولا۔

”منصوبہ صرف تمہارے قتل کا تھا تمہارے ساتھیوں کو ملنگی نے اپنے طور پر اس سب میں شامل کیا ۔رہی بات یہ کہ یہ منصوبہ بنایا کس نے تو یہ تمہاری حجاب سرکار کے پھوپھا کا کام ہے۔ یعنی بڑی سرکار کا“ ”بڑی سرکار پر اس نے مسکراتے ہوئے زور دیا تھا۔ مرشد کے دماغ کو جھٹکا سا لگا۔ یہ تو عجیب بات تھی ۔وہ بولا تو حیرت و بے یقینی کا عنصر اس کے لہجے میں شامل تھا۔

”کیوں وہ بھلا ایسا کیوں کرنے لگے؟ مجھ سے انہیں کیا دشمنی ہے؟ ہم تو ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں!۔“ ڈپٹی کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔

اس نے شراب کا گھونٹ بھرا اور بائیں طرف پڑے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔

”بیٹھ جاﺅ مرشد! بیٹھ کر سننے سے بھی بات سمجھ آجاتی ہے۔“ مرشد نے ایک ہی سانس میں گلاس خالی کیا اور خالی گلاس ڈپٹی کے برابر صوفے پر اچھال کر خود بائیں ہاتھ موجود صوفے پر ٹک گیا۔

”میں نے کچھ پوچھا ہے۔“اس کے سوال پر ڈپٹی چند لمحے خاموش نظروں سے اسے دیکھتا رہا پھر اسی طرح دیکھتے دیکھتے گمبھیر لہجے میں بولا۔

”صرف تم نہیں جانتے انہیں ،وہ تمہیں جانتے ہیں ۔مجھے سارا کچھ تو نہیں پتا، بس میرا اندازہ ہے کہ تمہارے قتل کے منصوبے کی وجہ تمہاری والدہ ہوسکتی ہے!“ڈپٹی کی یہ بات بھی مرشد کے لیے قطعی غیر متوقع اور عجیب تھی۔ وہ ناگواری سے بولا۔

”اب اس بکواس کا کیا مطلب ہوا؟“

”اگر یہ وجہ تمہیں بکواس لگتی ہے تو پھر دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ بڑی سرکار کی جان کاری کے مطابق تم حجاب بی بی کی محبت میں مبتلا ہوچکے ہو اور متوقع طور پر آنے والے وقت میں تم یقینی طور پر ان کے لیے ذلت اور تکلیف کا باعث بنو گے، جو انہیں کسی صورت بھی گوارہ نہیں۔“ ڈپٹی نے بات مکمل کرتے ہی گلاس ایک بار پھر ہونٹوں سے لگا لیا۔ مرشد کچھ دیر اس کے چہرے پر نظریں جمائے خاموش بیٹھا یک ٹک دیکھے گیا پھر اچانک ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔

”یہ سب بکواس ہے ،جھوٹ بول رہا ہے تو۔ میرے نبی پاک کی آل اولاد میں سے کوئی بھی اتنا بے درد اور بے رحم نہیں ہوسکتا جو یوں ظالمانہ انداز میں دوسرے انسانوں کو قتل کراتا پھرے ۔تو سراسر فضول بھونک رہا ہے۔ اب فورا سے پہلے مجھے یہ بتا دے کہ حجاب سرکار کو کدھر رکھا ہے؟ جلدی بول۔“ یک بہ یک مرشد کے تیور ہی بدل گئے تھے ۔اسے خیال آگیا تھا کہ اب سے دو تین گھنٹے قبل ملنگی اور فوجی متوقع طور پر سرکار کو کسی دوسری جگہ سے لا کر یہاں چھوڑ گئے تھے۔ ان کی آنکھوں پر پٹی بندھے ہونے کی خبر ملی تھی۔ اب ڈپٹی اعوان کی یہاں موجودگی سے کوئی شک باقی نہیں رہا تھا کہ وہ سچ میں حجاب سرکار ہی تھیں اور اس وقت یقینی طور پر اسی عمارت میں کہیں قید تھیں۔

”وہ جہاں ہیں وہاں انہیں بڑی سرکار نے رکھا ہے۔“

”غلط جواب۔“ مرشد آگے بڑھ کر ڈپٹی کے سامنے جا کھڑا ہوا۔”میں جانتا ہوں کہ وہ اس وقت اسی کوٹھی میں موجود ہیں، صرف اتنا بتاﺅ کہ کدھر ہیں وہ؟“

”اس کوٹھی میں؟“ڈپٹی نے اچنبھے سے کہا۔”یہ تم سے کس نے اور” اوغ““مرشد کی بھرپور لات ایک بار پھر اس کے سینے پر پڑی اور الفاظ اس کے حلق ہی میں اٹک کر رہ گئے۔ صوفہ ایک بار پھر الٹتے الٹتے بچا۔

”اداکاری نہیں ڈپٹی صاحب! مجھے معلوم ہے کہ اب سے ڈھائی تین گھنٹے پہلے ملنگی فوجی ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر انہیں یہاں لائے ہیں۔ رانا اور وہ لوگ آگے پیچھے ہی یہاں پہنچے تھے۔“ اس بار ڈپٹی اعوان نے چونک کر رانا سرفراز کی طرف دیکھا، مرشد بھی اس کی طرف پلٹا۔

”کیوں رانا! ٹھیک کہہ رہا ہوں نا میں؟“رانا نے گھبرائے ہوئے انداز میں باری باری ان تینوں کی صورتیں دیکھیں۔

”تم… تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے مرشد!“ رانا سرفراز کا جملہ مکمل ہوا ہی تھا کہ خنجر نے آگے جھکتے ہوئے پسٹل کی نال سے اس کے سر پر ضرب لگائی تو وہ بے اختیار کراہ اٹھا ۔

”غلط فہمی کی سٹ !ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ سیدھی طرح بک کدھر ہیں وہ؟“ خنجر نے آنکھیں نکالیں ،رانا فورا بولا۔

”مم… میں سچ کہہ رہا ہوں۔ وہ… وہ نہیں ہے۔“

”تو کون ہے؟“ مرشد ڈپٹی کی طرف سے دو قدم پیچھے ہٹ آیا۔

”وہ تو… وہ تو ایک کنجری ہے۔“ مرشد نے آگے بڑھ کر اسے گریبان سے پکڑ کر کھڑا کرلیا۔

”ایک مہان کنجر کے منہ سے کسی دوسرے کے لیے یہ لفظ کچھ اچھا نہیں لگتا ۔کدھر ہے وہ؟“

”اوپر اوپر کے ایک کمرے میں۔“ رانا کے تو جیسے سانس ہی خشک ہوگئے تھے ۔مرشد اور خنجر نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر مرشد رانا کو گریبان سے جھٹکا دے کر دروازے کی طرف دھکیلتے ہوئے بولا۔

”چل مجھے دکھا وہ کمرہ خنجر! ذرا ڈپٹی صاحب کا دھیان رکھنا، طبیعت خراب نہیں ہونی چاہیے ان کی۔“ خنجر مسکرا کر بولا۔

”ڈپٹی صاحب سیانے بندے ہیں ،کچھ نہیں ہوتا ان کی طبیعت کو، بے فکر رہو۔“

مرشد، رانا کو کالر سے دبوچے لاﺅنج میں پہنچا ،وہاں موجود سیڑھیوں کے ذریعے وہ دوسری منزل کے ایک کوریڈور میں پہنچے جس میں زیر و پاور کے دو بلب تھوڑے تھوڑے فاصلے پر روشن تھے۔ رانا سرفراز مرشد کو لے کر کوریڈور میں موجود دوسرے دروازے کے سامنے پہنچ کر رک گیا ،دروازے میں ہضمی قفل تھا جسے رانا نے جیب سے چابی نکال کر کھولا۔

رانا اسے بتا چکا تھا کہ یہ کوئی اور لڑکی ہے پھر بھی پتا نہیں کیوں مرشد کے دل میں ایک موہوم سی امید بھی تھی کہ شاید ڈپٹی اداکاری کر رہا ہو۔ شاید رانا جھوٹ بول رہا ہو، شاید دروازہ کھلے اور آنکھوں کے سامنے وہی چہرہ آ ٹھہرے جس کی دید کی طلب میں اس کی آنکھیں کب سے سلگ رہی تھیں، جل رہی تھیں۔

دروازہ خود اس ہی نے دھکیل کر کھولا تھا ۔اندر روشنی تھی۔ مرشد نے رانا کو کالر سے جھٹکا دے کر کمرے کے اندر دھکیلا اور پھر خود بھی اندر داخل ہوگیا۔ اس کمرے میں بھی اے سی کی ٹھنڈک موجود تھی۔ دروازے سے قدرے بائیں ہاتھ، بغلی دیوار کے ساتھ ایک انتہائی نفیس بیڈ موجود تھا اور اس بیڈ پر بیٹھی پریشان صورت پر نظر پڑتے ہی مرشد بے اختیار ٹھٹک گیا ،وہ حجاب سرکار تو ہر گز نہیں تھی لیکن وہ اس کے لیے کوئی اجنبی یا نا آشنا بھی نہیں تھی ۔وہ اسے دیکھتے ہی متعجب ہوا تھا تو اس صورت پر بھی جیسے مرشد پر نظر پڑتے ہی حیرت و بے یقینی کے پہاڑ ٹوٹ پڑا تھے مگر یہ کیفیت محض چند لمحوں کے لیے رہی پھر اس چہرے اور ان آنکھوں میں ایک رونق ایک گہرا اطمینان سرایت کرتا چلا گیا ۔وہ کوئی اور نہیں فیروزہ تھی۔ اس کی پڑوسن ،اس کی عاشق۔

”کیسے پہنچی ہو یہاں؟“ مرشد نے حیرت کے جھٹکے سے سنبھلتے ہوئے اس سے سوال کیا۔

”مجھے زبردستی لایا گیا ہے ۔چار بد معاش صورت بندے مغرب کے بعد اچانک اندر گھس آئے تھے پھر ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے مجھے گھسیٹ کر لے آئے۔“ کمرے کی فضا اچانک ایک زور کی چٹاخ سے گونج اٹھی۔ مرشد نے رانا سرفراز کے گال پر تھپڑ رسید کیا تھا ،وہ لڑ کھڑا گیا۔

”کیوں، اب اس سے کون سی دشمنی ہے تیری، بول بتا؟“ مرشد نے آگے بڑھ کر رانا کو دو تین تھپڑ اور ٹکا دیے۔ دو تین ضربیں پسٹل کے دستے سے بھی لگائیں ،رانا بری طرح کراہنے لگا ۔فیروزہ کے چہرے پر سکون کی روشنی سی پھیل گئی۔ وہ وہیں بیٹھے بیٹھے عجیب محبت پاش نظروں سے مرشد کو دیکھنے لگی تھی۔

”بتا؟ بول اپنی اس ماں سے کون سی دشمنی چکانا چاہ رہا ہے؟“ مرشد نے پسٹل کے دستے سے اس کی گدی میں ایک زوردار ضرب لگائی تو رانا کراہ کر

گھٹنوں کے بل گر پڑا۔

”میری کوئی دشمنی نہیں، کوئی بھی دشمنی نہیں اس سے۔“

”تو پھر اس کو یوں اٹھوایا کیوں ہے رانڈ کھانے؟“ مرشد نے ایک ٹھوکر اس کی پسلیوں میں رسید کی، رانا بری طرح بلبلاتے ہوئے فرش پر لڑھک گیا۔

”یہ یہ میں میں نے اپنے ایک کاروباری ساتھی کے کہنے پر کیا ہے۔ اس نے اس کام کے لیے میرے ساتھ سودا طے کیا تھا۔“

اچانک کوٹھی کے سامنے کے رخ سے مدہم سی ہارن کی آواز سنائی دی تو مرشد کے کان کھڑے ہوگئے ۔وہ رانا کی طرف دیکھتے ہوئے جلدی سے کمرے میں سامنے کے رخ موجود کھڑکی تک پہنچ گیا ۔ایک ذرا پردہ ہٹا کر باہر جھانکا تو کوٹھی کا گیٹ اسے بالکل سامنے دکھائی دیا ۔گیٹ کے اس طرف ،باہر ایک کار کھڑی تھی اور ملازم لڑکا تیزی سے گیٹ کی طرف بڑھ رہا تھا۔

”یہ وہی ہوگا۔“ رانا کی آواز اس کی سماعت تک پہنچی۔”جس نے میرے ساتھ سودا طے کیا تھا۔ میں نے اسے بارہ بجے کے بعد یہاں آنے کا کہا تھا۔ یہ وہی ہوگا، مجھے نہیں پتا اس کی، اس کے ساتھ کیا دشمنی ہے ۔میری بالکل بھی کوئی دشمنی نہیں ہے۔“ رانا، سرفراز، مرشد کی توقع سے بھی زیادہ بزدل اور بودا نکلا تھا۔ اس نے جب سے مرشد کو یہاں دیکھا تھا تب سے اس کی سٹی گم تھی۔ رنگت متغیر تھی۔ مرشد کی دہشت نے اسے پوری طرح اپنے نرغے میں لے رکھا تھا ۔لڑکا گیٹ تک پہنچ چکا تھا۔ مرشد کی نظریں کار پر جمی ہوئی تھیں۔ کار کی اندرونی لائٹ روشن تھی، ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا شخص بخوبی دکھائی دے رہا تھا لیکن بلندی پر ہونے کی وجہ سے مرشد کی نظر سے اس کا چہرہ اوجھل تھا۔

مرشد کی توجہ یا تو نیچے گیٹ پر تھی یا پھر رانا سرفراز کی طرف، نیچے کوٹھی کے اندرونی حصے سے اچانک گولی چلنے کی آواز بلند ہوئی تووہ بری طرح چونک پڑا۔ آواز مدہم تھی لیکن واضح طور پر پسٹل کے فائر کی تھی۔ اس کا دھیان فوراً خنجر اور ڈپٹی اعوان کی طرف چلا گیا۔ ایک کے بعد دوسرا اور تیسرا فائر ہوا ،چند ثانیے کے وقفے سے دو فائر مزید کیے گئے ،مرشد بے اختیار کمرے کے دروازے کی طرف دوڑا ،ان لمحوں اس کی نظروں کے سامنے خنجر کی صورت تھی اور بس…

٭ ٭ ٭

ویگن کے شیشوں کے سامنے پردے کھینچے ہوئے تھے۔ وہ دونوں باہر دیکھ سکنے سے قاصر تھیں ۔ان آٹھ افراد میں سے دو ان کے سامنے والی نشست پر پتھر کے مجسموں کی طرح خاموش اور ساکت بیٹھے تھے ،باقی دوسری دو گاڑیوں میںان کی ویگن کے آگے پیچھے موجود تھے۔

نزہت بیگم نے ایک بار حسن آرا سے بات کرنی چاہی تو سامنے بیٹھے ایک شخص نے اسے ڈپٹ کر چپ رہنے پر مجبور کردیا ۔اس کے بعد تقریبا آدھے گھنٹے تک بالکل خاموشی سے یہ سفر جاری رہا پھر کسی کوٹھی کے گیٹ سے اندر داخل ہو کر گاڑی رک گئی۔ دروازے کھلے، پہلے وہ دونوں گرانڈیل نیچے اترے پھر ان دونوں کو بھی اتار لیا گیا۔تینوں گاڑیاں آگے پیچھے ایک وسیع و عریض پورچ میں کھڑی تھیں ۔تھوڑے فاصلے پر پانچ چھ مزید چمچماتی کاریں ایک قطار میں موجود تھیں۔ ان میں سے اوپل اور پیکارڈ کی تو حسن آرا کو بخوبی شناخت تھی باقی بھی اپنی اپنی جگہ شان دار تھیں اور یہ کوٹھی کوٹھی نہیں بلکہ ایک پر شکوہ محل دکھائی دیتی تھی۔

 نصف رات گزر چکی تھی اس کے باوجود یہاں ایک ہلچل سی تھی۔ ساری لائٹیں آن تھیں، کئی ایک لوگ موجود تھے۔ تقریبا سبھی کی حرکات وسکنات پیشہ ور ملازمین والی تھیں۔ ان کے جسموں پر الگ الگ دو طرح کی وردیاں تھیں ۔زیادہ تعداد ایسے متعدد افراد کی تھی جو یہاں کے محافظ محسوس ہو رہے تھے، ان کے کسرتی اور ٹھوس جسموں پر سیاہ چست لباس تھے اور پیروں میں بھاری جوتے، کچھ کے پاس تو باقاعدہ اسلحہ بھی دکھائی دے رہا تھا۔

نزہت بیگم اپنے ارد گرد دیکھتے ہوئے بے اختیار تھوک نگل کر رہ گئی۔ اسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ یہ سب لوگ کون ہیں اور وہ اس وقت کہاں موجود ہے، یہی وجہ تھی کہ اس کے سانس خشک ہو رہے تھے۔رہائشی حصے کی طرف سے ایک خشک مزاج سا ادھیڑ عمر شخص تیزی سے ان کی طرف آیا تھا۔

”ادھر… اس طرف لے کر آﺅ ان کو۔“اس کے مخاطب کرنے پر انہیں لانے والا ایک شخص ان سے مخاطب ہوا۔

”چلوآگے بڑھو۔“

وہ ادھیر عمر پلٹ کر رہائشی عمارت کی طرف بڑھ گیا اور وہ دونوں حیران پریشان اس کے پیچھے چل پڑیں۔ دو افراد ان کے ساتھ ساتھ تھے۔

دو دروازوں اور ایک طویل کوریڈور سے گزرنے کے بعد وہ ایک ایسے ہال کمرے تک پہنچ گئیں جس کی سج دھج اور شان و شوکت دیکھتے ہی ان دونوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ یہ ایک وسیع و عریض کمرہ تھا۔ چھت انتہائی بلند تھی جس کے عین وسط میں ایک جہازی سائز کا نفیس ترین فانوس روشن تھا۔ کمرے کے آخری حصے سے جناتی سائز کی سیڑھیاں اوپری حصے کی طرف جاتی تھیں، جو اوپر جا کر دو روشیں اختیار کرلیتی تھیں۔ سیڑھیوں کے دونوں طرف سنہرے رنگ کی لشکارے مارتی ریلنگ تھی جس پر سونے کا گمان ہوتا تھا ۔فرش سے لے کر سیڑھیوں کے آخری زینے تک انتہائی قیمتی اور دبیز قالین بچھا ہوا تھا۔ ترتیب اور سلیقے سے لگائے گئے صوفے اتنے بیش قیمت اور دیدہ زیب تھے کہ حسن آرا تو کیا جہاں دیدہ نزہت بیگم نے بھی اپنی اب تک کی زندگی میں کہیں نہیں دیکھے تھےدیواروں پر مختلف پینٹنگز آویزاں تھیں اور کئی ایک سونے یا سونے جیسے پیتل اور سنگ مر مر کے عجیب و غریب مجسمے جا بجا ایستادہ تھے ۔اس نظارے سے ان دونوں کے دلوں پر ایک ہیت سی آ بیٹھی۔

”ادھر بیٹھ جاﺅ دونوں۔“ اسی ادھیڑ عمر نے صوفوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور خود سامنے کے رخ موجود سیڑھی کی طرف بڑھ گیا جبکہ ان کے ساتھ ساتھ آنے والے باقی دونوں افراد خاموشی سے واپس پلٹ گئے ۔وہاں پھیلی ہوئی ٹھنڈک بتا رہی تھی کہ کم از کم دو اے سی آن ہیں۔

”اماں کچھ سمجھ آرہی ہے تمہیں؟“ حسن آرا نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے سوال کیا۔ نزہت بیگم بھی اس کے برابر ہی صوفے میں دھنس گئی تھی۔

”آ بھی رہی ہے اور نہیں بھی۔ جو نہیں آرہی وہ کچھ دیر میں آجائے گی۔“ نزہت بیگم سحر زدہ سے انداز میں وہاں موجود ایک ایک چیز کو تک رہی تھی۔

”مجھے لگتا ہے اماں کہ یہ میر صاحب کا گھر ہے۔“ حسن آرا کی قیاس آرائی پر نزہت بیگم نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور پھر اس کی طرف پہلو بدلتے ہوئے ناصحانہ انداز میں بولی۔

”دیکھ حسن آرا! میر صاحب کے بھوت کو سر سے اتار پھینک اور خیر کے کلمے پڑھ ،یہاں کوئی ایسی ویسی بات منہ سے ہر گز مت نکالنا کہ جو ہمارے لیے مصیبت کا باعث بنے ۔اگر ان لوگوں نے ہمیں کاٹ کر یہیں دفن کر دیا تو کبھی کسی کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں ہوسکے گا کہ ہم دونوں کا انجام کیا ہوا۔ سمجھی؟“ حسن آرا خاموش رہی، اس کے دل کی حالت عجیب ہو رہی تھی۔ یہ احساس اس کے روئیں روئیں پر ایک انوکھی سرشاری طاری کیے جا رہا تھا کہ وہ اس وقت میر صاحب کے ہاں بیٹھی ہے ،اس مندر ،اس معبد میں موجود ہے جہاں میر صاحب کے روپ میں ایک دیوتا گھومتا پھرتا ہے۔ جہاں اس دنیا کا سب سے خوب صورت اور پیارا انسان رہتا ہے۔

اس کے خیالات کا سلسلہ اس وقت ٹوٹا جب اس کی نظر زینوں سے اترتے آغا جی پر پڑی۔ ابھی پرسوں ہی تو ان سے ملاقات ہوئی تھی اس کی اور آج شام ہی میر صاحب نے اسے بتایا تھا کہ آغا جی ان کے بڑے بھائی ہیں ۔وہ بے اختیار ان کے احترام میں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ وہ آج بھی ویسے ہی حلیے میں تھے۔ جسم پر بہترین تراش کا سفید شلوار سوٹ اور آنکھوں پر سنہرے فریم کا بیش قیمت چشمہ، البتہ آج ان کے چہرے اور آنکھوں کی سرد مہری پہلے سے زیادہ گہری تھی۔ وہ پر وقار انداز میں چلتے ہوئے ان کے سامنے آ پہنچے۔

”آداب حضور! مجھے پہلے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ ہو نہ ہو یہ عالی شان محل حضور والا ہی کا ہوگا۔“ نزہت بیگم فوراً خوشامدانہ انداز میں گویا ہوئی۔ ”لیکن حضور کو ایسی زحمت فرمانے کی کیا ضرورت تھی! آدھی زبان سے حکم فرما دیتے کنیزیں سر کے بل حاضر ہوجاتیں۔“

”ہمارا خیال ہے آپ جان چکی ہیں کہ ہم کون ہیں؟“آغا جی نے سامنے والے صوفے پر بیٹھتے ہوئے سوال کیا اور ساتھ ہی ہاتھ سے ان دونوں کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ دونوں جھجکتی ہوئی واپس بیٹھ گئیں۔

”لیں جی! یہ بھی بھلا کوئی پوچھنے کی بات ہے ۔رعایا میں سے کون بد بخت ہو گا جو وقت کے شاہ اور شاہ زادوں کو نہیں جانتا ہوگا باقی ابھی ہم سے کیا خطا سرزد ہوئی ہے جو آپ نے ہمیں یوں طلب فرما لیا؟“

”جو خطا آپ لوگ کرچکے وہی ایک کافی ہے ،مزید کا کیا سوال دوسری بات یہ کہ آپ کو یوں یہاں ہمارے کہنے پر نہیں لایا گیا، ایسا ہمارے بابا سائیں میر ظفر اللہ کے حکم پر کیا گیا ہے۔ وہ اس وقت صدر پاکستان کے ساتھ خصوصی طیارے میں ہیں اور کسی بھی وقت ایئر پورٹ پر اترنے والے ہیں۔ ان کا حکم تھا کہ ان کے پاکستان پہنچنے سے پہلے آپ دونوں کو یہاں موجود ہونا چاہیے۔“ آغا جی کا لہجہ انتہائی خشک تھا ۔اسی وقت ایک بغلی دروازے سے ایک باوردی خانسامہ ٹرالی دھکیلتا ہوا اندر داخل ہوا، نزہت بیگم بے چینی سے پہلو بدل کر رہ گئی۔ 

میر ظفر اللہ کوئی غیر معروف شخصیت نہیں تھی ۔ان کے پاس ایک وزارت کا قلم دان تھا۔ اخبارات میں اکثر ان کی تصاویر شائع ہوتی رہتی تھیں۔ کہنے والے کہتے تھے کہ وہ صدر ایوب کے چہیتے وزرا میں سے ہیں اور طبیعت کے انتہائی سخت اور دبنگ واقع ہوئے ہیں۔

طرے دار پگڑی، اچکن اور چوڑی بیلٹ میں ملبوس خانسامہ نے ان کے سامنے آکر ٹرالی روکی، چائے بنا کر کپ پرچوں میں سجا کر باری باری انہیں پیش کی، اس دوران اس کی نظریں مسلسل جھکی رہی تھیں۔ سروس دینے کے بعد وہ اسی طرح گردن جھکائے جھکائے واپس چلا گیا۔

”حضور! اس سب میں ہمارا تو کوئی قصور نہیں۔ میر صاحب خود ہی چلے آتے ہیں۔ آج شام جب وہ آئے تو ہم نے تو سیدھے منہ بات بھی نہیں کی ان سے پانی تک کا نہیں پوچھا اور بھلا کیا کرسکتے ہیں ہم؟“ نزہت بیگم سچ میں پریشان تھی البتہ حسن آرا مختلف کیفیت میں تھی۔ وہ وہاں کی ایک ایک چیز کو یوں دیکھ رہی تھی جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں ہر ایک چیز کی بلائیں لے رہی ہو وہ سوچ رہی تھی کہ میر ارشد اللہ بھی یہیں کہیں ارد گرد ہی موجود ہوں گے یہاں کے کسی درروازے کی اس طرف ،ان دیواروں کی دوسری جانب ،اسی عمارت کے کسی ایک حصے میں شاید جاگ رہے ہوں یا شاید سو رہے ہوں، پتا نہیں انہیں اس وقت ،ان کی یہاں موجودگی کا علم بھی تھا یا نہیں؟“

آغا جی خاموش رہے۔ انہوں نے ایک نظر حسن آرا کے چہرے پر ڈالی اور چائے کے کپ کی طرف متوجہ ہوگئے ۔چند لمحوں کی خاموشی کے بعد نزہت بیگم ایک بار پھر بولی۔

”حضور! ہمیں آپ ہی بتا دیں کہ ہم نمانے کیا کریں؟ آپ جیسے کہیں گے ہم ویسے ہی کریں گے۔ جو کہیں گے وہی کریں گے، بس ہمیں واپس جانے دیں۔ آپ کے لوگ جس طرح ہمیں لائے ہیں، محلے میں بڑی بدنامی ہوجانی ہے ہماری۔“

 آغا جی نے فوراً بھویں اچکا کر نزہت بیگم کی طرف دیکھا۔

”بدنامی… پہلے تو شاید پورے شہر میں آپ کی نیک نامی کے جھنڈے لہرا رہے ہیں ہے نا؟“ ان کے لہجے میں گہرے طنز کی کاٹ تھی۔

”ہم ٹھہرے دو کوڑی کے لوگ، دو کوڑی کی عزت والے لیکن حضور! ہمارے لیے تو یہی سوا لاکھ ہے۔ فن کار لوگ ہیں، قدر دانی سے زیادہ رسوائی کی خاک سر منہ میں آتی ہے۔ صرف اپنی برادری اپنے محلے والے ہی ہیں جوآپس میں ایک دوسرے کی کچھ عزت قدر کرلیتے ہیں۔ ایک دوسرے کا دل رکھ لیتے ہیں بس اور کیا۔“

”فن کار تو آپ واقعی ہیں۔ آپ کی فن کاری کو ہم دیانت داری سے تسلیم کرتے ہیں ۔جب میر ارشد اللہ جیسے شخص آپ کی فن کاری کے سحر میں دیوانے ہوئے پھر رہے ہیں تو یقینی طور پر آپ اپنے فن میں طاق ہوں گی اور…!“ آغا جی نے ایک ذرا توقف سے کام لیتے ہوئے نظر حسن آرا کے چہرے پر ڈالی۔” آپ کی تربیت ہے یاجو بھی آپ کی بھانجی آپ سے بھی زیادہ زور کی فنکارہ ہیں۔“ حسن آرا ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔

”جی… بہت شکریہ۔“ آغا جی کی پیشانی پر تناﺅ سمٹ آیا۔

”یہ ہم آپ کی تعریف نہیں کر رہے۔“

”پھر بھی شکریہ۔“ اس کی متانت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ آغا جی کے چہرے پر بد مزگی کے تاثرات ابھر آئے۔

”دیگر لوازمات کے ساتھ ساتھ یقینا آپ کی اس چرب زبانی کا بھی پورا پورا اثر ہے جو میر ارشد اللہ کے دماغ کو چڑھ چکا ہے۔ آپ کی بدولت زندگی میں پہلی بار پرسوں رات ایسا ہوا ہے کہ انہوں نے ہمارے ساتھ اختلاف برتا، بحث کی، بد لحاظی کی حد تک آپ کا جادو یوں ان کے سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ وہ خاندان تک سے کٹ کر جی لینے کو تیار ہیں۔ یعنی یعنی حد ہی ہوگئی!“انہوں نے ہاتھ جھٹک کر کہا اور حسن آرا کی طرف خشمگیں نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے۔

”ہماری آج تک کی خاندانی روایات میں یہ سب پہلی بار ہو رہا ہے خاندان سے کٹ کر جینے کا مطلب جانتی ہیں آپ ؟اور وہ بھی پھر ہمارے یہاں مگر نہیں آپ بھلا یہ کسیے جان سمجھ سکتی ہیں آپ کو تو ٹھیک سے خاندان کے معنی بھی معلوم نہیں ہوں گے۔“

مزید کسی کے کچھ بولنے سے پہلے بغلی دروازہ کھلا ،دروازے میں اسی ادھیڑ عمر شخص کی صورت دکھائی دی، جو ان دونوں کو اس کمرے تک لایا تھا۔ اس نے آنکھوں سے آغا جی کو کوئی اشارہ کیا اور گردن خم کرتے ہوئے دروازے ہی سے واپس چلا گیا ۔آغا جی بھی فوراً اٹھے اور جلدی سے باہر نکل گئے۔

نزہت بیگم تو کسی اور پریشانی کا شکار تھیں،حسن آرا کے دل پر آغا جی کی باتوں سے ایک بوجھ سا آ پڑا تھا۔ جس بات کی اسے اب تک فکر رہی تھی،جو اندیشے اس کا خون پیتے رہتے تھے اور جس حوالے سے میر صاحب اسے پختہ انداز میں یقین دلا چکے تھے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا ،وہی سب شروع ہوچکا تھا ۔اسے لے کر میر صاحب کے گھر، خاندان میں بد مزگی اور کشیدگی پیدا ہونا شروع ہوچکی تھی۔

آغا جی کی واپسی تقریبا بیس منٹ بعد ہوئی لیکن اس بار وہ اکیلے نہیں تھے۔ سب سے پہلے کمرے میں میر ظفر اللہ داخل ہوئے ،انہوں نے سیاہ شیروانی زیب تن کر رکھی تھی۔ سر پر جناح کیپ تھی، مٹھی بھر سفید داڑھی، موٹی موٹی غصے سے بھری آنکھیں ،ستواں ناک اور گھنی بھویں ،جن میں ہلکی سی سر مئی رنگ کی جھلک باقی تھی۔

اندر داخل ہوتے ہی وہ سیدھے ان دونوں ہی کی طرف آئے۔ ان کے عقب میں آغا جی اور پھر وہ ادھیڑ عمر تھا۔ حسن آرا اور نزہت بیگم بے اختیار اٹھ کھڑی ہوئیں۔ نزہت بیگم نے سلام کرنا چاہا لیکن میر ظفر اللہ کے تاثرات دیکھنے کے بعد اس کے منہ سے کوئی لفظ بھی نہ نکل پایا۔ یکایک اسے محسوس ہوا کہ اس کا حلق بری طرح خشک ہو رہا ہے ۔حسن آرا تھی جس نے حوصلہ مجتمع کرتے ہوئے سلام میں پہل کی۔

”السلام علیکم۔“

”حسن آرا؟“ انہوں نے سلام کا جواب دینے کی بجائے سوال داغا۔ وہ ان دونوں کے سامنے آکھڑے ہوئے تھے۔

”جی!“ حسن آرا نے چادر کچھ مزید اچھے سے اوڑھتے ہوئے نظریں جھکالیں ۔میر ظفر اللہ دو قدم پیچھے ہٹ کر صوفے پر بیٹھ گئے ۔دونوں بازو انہوں نے صوفے کی پشت پر پھیلا دیے تھے۔ نزہت بیگم اور حسن آرا خاموش کھڑی رہیں، انہیں بیٹھ جانے کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا تھا۔ ان کے دائیں ہاتھ کچھ فاصلے پر آغا جی ایک صوفے پر بیٹھ گئے۔ ادھیڑعمر شخص ان کے قریب ہی مودب کھڑا رہا۔چند لمحے کمرے کی فضا میں ایک گمبھیر خاموشی جمی رہی پھر میر ظفر اللہ کی گونج دار آواز ابھری۔

”تم میر ارشد اللہ کے ساتھ نکاح کرنا چاہتی ہو؟“

”جی نہیں میر صاحب خود سے ہمیں یہ عزت و سعادت بخشنا چاہتے ہیں۔“

”تمہارے کوٹھے کا نمبر کیا ہے؟“ اس بار وہ نزہت بیگم سے مخاطب ہوئے۔

”تین سو سترہ حضور! ہماری آبائی جنم بھومی ہے ۔آخری شہنشاہ ہند سے بھی پہلے سے ہمارے جد امجد یہاں آباد تھے۔“ نزہت بیگم فورا ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی۔ ”حضور! غریب فن کار لوگ ہیں ہم۔ دو وقت کی روٹی کے لیے ہڈیاں گھساتے گزر جاتی ہے اور اس دو وقت کی روٹی کے سوا اور کچھ ہمیں چاہیے بھی نہیں۔“

”اچھی بات ہے۔“ انہوں نے ہنکارا سا بھرا اور حسن آرا سے مخاطب ہوئے۔ ”اور حسن آرا! تمہیں دو وقت کی روٹی سے سوا کیا چاہیے؟“ حسن آرا نے ایک نظر ان کے کرخت چہرے پر ڈالی اور سر کو نفی میں حرکت دیتے ہوئے بولی۔

”نہیں اور کچھ نہیں چاہیے۔“

”میر ارشد اللہ بھی نہیں؟“ اس کے دل پر ایک ضرب سی پڑی۔ زبان حلق میں بل کھا کر رہ گئی۔

”ہم تیرہ بخت لوگ آپ کی خوش نودی کے سوا اور کچھ بھی چاہنے کی جسارت نہیں کرسکتے حضور !ہم ملیچھ ذاتوں کے لائق کوئی بھی حکم ہو، سر تسلیم خم ہے۔“ وہ بولی نہیں، کراہی تھی۔ میر ظفر اللہ چند لمحے سرد نگاہوں سے اس کی صورت کا جائزہ لیتے رہے پھر رخ پھیر کر انہوں نے مودب کھڑے اس ادھیڑ عمر شخص کی طرف دیکھا۔

”خادم حسین!“ خادم حسین جیسے ان کی آنکھ کا تاثر سمجھ گیا۔

”جی… بہتر۔“ اس نے فورا گردن کو قدرے خم کیا اور مستعدی سے پلٹ کر بغلی دروازے کی طرف بڑھ گیا ۔میر ظفر اللہ نے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائی۔

”دیکھو بائی جی !جس کھیل کی تم لوگوں نے شروعات کی ہے ،وہ نظر انداز کر دیے جانے والا نہیں پھر بھی… ہم گنجائش نکالتے ہوئے پہلی اور آخری بار تہذیب کامظاہرہ کرتے ہوئے معقول ترین رویے کے ساتھ تم لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ میر ارشد اللہ سے جو کچھ اور جتنا بھی حاصل کرنا چاہ رہے تھے ،وہ ہم سے کہو، ہم چوبیس گھنٹوںمیں تمہاری ڈیمانڈ پوری کردیں گے ۔اس بات کا خیال رکھنا کہ آج کے بعد میر ارشد اللہ کو تمہارا دروازہ کھلا نہیں ملنا چاہیے اور اگر تم لوگ ایسا نہیں کرسکتے تو چوبیس گھنٹے کے اندر اندر تیاری کرو اور اس شہر سے کہیں دور چلے جاﺅ صوبہ ہی چھوڑ دو۔ حیدر آباد جا بسو یا کراچی وگرنہ تیسری صورت میں“انہوں نے نزہت بیگم کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے اسے تنبیہہ کے انداز میں جنبش دی۔ ان کے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے غصے اور قہر کو ضبط کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ نزہت بیگم دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے لجاجت سے بولی۔

”حضور! ہمیں کچھ نہیں چاہیے ۔میر صاحب سے بھی ہمیں کوئی لالچ نہیں ۔وہ… وہ تو خود ہی ضد پر اڑے ہوئے ہیں۔ ہم کوڑیوں ٹکوں کے لوگوں کی اتنی ہمت اور اوقات نہیں کہ میر صاحب کی ناراضگی کا بوجھ سہار سکیں، باقی آپ کا حکم سر آنکھوں پر،آپ جیسے کہیں گے ویسے ہی ہوگا۔ بس اتنا احسان کیجیے کہ ہمیں شہر بدر مت کیجیے۔ ہمیں یہیں جینے دیں ہم… ہم آپ کے ہر حکم کی تعمیل کریں گے۔“ نزہت بیگم جیسی خرانٹ اور لالچی عورت ان لمحوںمیر ظفر اللہ کی تپش دیتی آنکھوں کے سامنے گھبراہٹ کا شکار تھی۔ اسے محسوس ہوا تھا کہ اگر یہاں اس نے اپنی لالچی فطرت کا ذرہ بھر بھی اظہار کیا تو اس کا سیدھا سا مطلب یہی بنے گا کہ ان لوگوں نے واقعی لالچ کے تحت میر ارشد اللہ کو پھانسنے کا کھیل رچایا تھا۔ اس صورت نتیجہ وہی ہوتا جو کسی خونخوار اور غصے میں آئے ہوئے مگر مچھ کو چھیڑنے کا ہوسکتا ہے۔

”بس پھر آئندہ اپنی دہلیز کا دھیان رکھنا ورنہ بلڈوزر پھر جائے گا اور تم دونوں ہمیشہ کے لیے لا پتا ہوجاﺅ گی۔“

اچانک بغلی دروازہ زور کی آواز سے کھلا ،آغا جی اور میر ظفر اللہ نے چونک کر اس طرف دیکھا ۔نزہت بیگم اور حسن آرا کی گردنیں بھی بلا ارادہ اس طرف کو گھومیں، آنے والے میر ارشد اللہ تھے ۔ان کی آنکھوں میں خون کی سی سرخی تھی اور بال بکھرے ہوئے تھے ۔حسن آرا کا دل بے طرح سے دھڑک اٹھا۔

اندر داخل ہوتے ہی ان کی نظر ایک ساتھ حسن آرا، نزہت بیگم اور پھر اپنے والد میر ظفر اللہ پر پڑی ۔باپ پر نظر پڑتے ہی وہ ٹھٹک گئے، چہرے پر ایک لمحے میں کئی رنگ آکر گزر گئے بہرحال انہوں نے فوراً ہی خود کو سنبھال لیا۔

”السلام علیکم بابا سائیں!“ قریب پہنچتے ہی انہوں نے مودب انداز میں میرظفر اللہ کو سلام کیا پھر ایک نظر حسن آرا کی طرف دیکھا جو نظریں جھکائے کسی مجرم کی طرح خاموش کھڑی تھی۔

”آپ انہیں پہچانتے ہوں گے؟“ میر ظفر اللہ نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے گمبھیر لہجے میں سوال کیا۔ میر ارشد اللہ کا چہرہ بشرا اور جسم پر موجود شکن آلود گاﺅن غمازی کر رہا تھا کہ وہ سوتے میں سے اٹھ کر آئے ہیں۔

”جی!“ انہوں نے دونوں ہاتھ پشت پر باندھتے ہوئے نظریں جھکا کر سنجیدگی سے اعتراف کیا۔

”آپ کو اپنے اس اعتراف پر شرمندگی کا کوئی احساس ہے یا نہیں؟“

”ہے اور ہم اس احساس سے چھٹکارہ پانا چاہتے ہیں ،تلافی کرنا چاہتے ہیں۔“

”یعنی ہمیں درست اطلاع ملی تھی آپ سچ میں اپنا ذہنی توازن گنوا بیٹھے ہیں۔“ میر ظفر اللہ کے چہرے پر شدید ناگواری کے تاثرات ابھر آئے۔

”دامن پر لگے کسی دھبے کو اتارنے کے لیے کیچڑ سے غسل نہیں کیا جاتا برخوردار! آپ اپنے منہ پر تو کالک مل چکے، اب باقی سارے خاندان کے منہ پر بھی سیاہی پھیرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟“

دھبہ صرف ہمارے دامن ہی پر نہیں لگا، ہماری وجہ سے حسن آرا کا اجلا دامن، بھی داغ دار ہوا ہے۔“

”اجلا دامن“ میر ظفر اللہ نے یوں ان کی طرف دیکھا جیسے سچ میں ان کی ذہنی حالت کے متعلق مشکوک ہوگئے ہوں۔”کوٹھے پر بیٹھی ایک طوائف اور اجلا دامن میر ارشد اللہ! آپ کہیں سچ میں تو پاگل نہیں ہو چکے؟“

”ہم جو کہہ رہے ہیں پوری ذمہ داری سے کہہ رہے ہیں۔ ان کی عصمت اور دوشیزگی کے ہم خود گواہ ہیں۔“ میر ارشد اللہ نے نظروں کے ساتھ ساتھ سر بھی قدرے جھکا لیا۔ میر ظفر اللہ کے چہرے پر غیض کے تاثرات ابھرے لیکن وہ ضبط کر گئے۔ کمرے میں چند لمحے کے لیے گہری خاموشی چھا گئی۔ نزہت بیگم کا اعصابی دباﺅ بڑھتا جا رہا تھا۔ اس کے برابر ہی حسن آرا نظریں نیچی کیے چپ چاپ کھڑی تھی ۔اس کے دل و دماغ میں بھنور سے ڈوب ابھر رہے تھے ۔اسے محسوس ہو رہا تھا کہ باپ بیٹے کے درمیان کا یہ تناﺅ مزید کشیدگی اور خرابی کی طرف بڑھے گا۔ بے چینی خون کی حدت سے دل میں پارے کی مانند مچلنے لگی تھی لیکن اس میں جرات نہیں تھی کہ ان دونوں ہستیوں کے درمیان کسی بھی طرح سے ،کسی بھی طرح کی مداخلت کرتی۔

”میر ارشد اللہ! آپ یہ سب فتور اپنے دماغ سے کھرچ کر نکال پھینکیں ۔یہ سبھی لوگوں کے لیے بہتر رہے گا۔“ انہوں نے ایک نگاہ ناگوار نزہت بیگم اور حسن آرا پر ڈالی اور اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔

”ہم آئندہ کبھی بھی نہ تو تم لوگوں کی شکل دیکھنا پسند کریں گے اور نہ ہی کوئی نیا قصہ سننا گوارا کریں گے۔“ انہوں نے نزہت بیگم کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے کہا تھا۔

”اور آپ… آپ دوبارہ کبھی ان غلیظ رستوں کی طرف نہیں جائیں گے۔“ اس بار وہ میر ارشد اللہ سے مخاطب تھے ۔وہ اپنا فیصلہ سناتے ہوئے وہاں سے جانے کے لیے آگے بڑھے تھے کہ میر ارشد اللہ کی سنجیدہ اور مستحکم آواز نے ان کے قدم پکڑ لیے۔

”ہم کسی قسم کے ذہنی فتور کا شکار نہیں ہیں بابا سائیں !ہمارا فیصلہ ہماری غیرت کا تقاضہ ہے۔“

”غیرت“ میر ظفر اللہ بھنائے ہوئے انداز میں پلٹے۔”کون سی غیرت غیرت ہوتی تو آج یہ تماشا کیوں کھڑا ہوتا؟ آپ کے دو معصوم بچے ہیں۔ خدا نے بہترین شریک حیات سے نوازا ہے ۔اپنی حیثیت خاندان اور اپنا سلسلہ نسب دیکھیں اس سب کے باوجود طوائف نگری کو جاتے

ہوئے غیرت آپ کے پاﺅں کی بیڑی نہیں بنی تو ابھی آپ کس غیرت کی بات کر رہے ہیں؟ اور کس منہ سے کر رہے ہیں؟“ میر ظفر اللہ بھڑک اٹھے تھے۔ نزہت بیگم دہل کر رہ گئی، اسے یہ خیال شدت سے ستانے لگا تھا کہ ”بیلوں کی لڑائی میں ”ڈڈو“ خوامخواہ کچلے جاتے ہیں۔“

آغا جی بدستور آٹھ دس قدم پیچھے پڑے صوفے پر ڈھیلے ڈھالے انداز میں خاموش بیٹھے یہ سب دیکھ سن رہے تھے۔ اپنے دونوں ہاتھ انہوں نے سینے پر باندھ رکھے تھے ۔چہرے پر گمبھیر سنجیدگی اور آنکھوں میں سکون سمیٹے بیٹھے وہ بہت گہرے اور خطرناک دکھائی دے رہے تھے۔

”ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہوئی، ہماری وہ غلطی گناہوں کے کسی سلسلے کی بنیاد ثابت نہ ہو اس لیے ہم نے یہ طے کیا کہ ہم اپنی اس غلطی کو سدھاریں گے ،حسن آرا سے نکاح کریں گے۔“ میر ارشد اللہ بولے تھے۔

”اور بہو بیگم جو پہلے سے آپ کے نکاح میں بیٹھی ہیں، انہیں کیا جواز دیں گے؟“

”انہیں جواز سے پہلے ہم حقیقت بتا چکے ہیں۔ سچ سچ انہیں ہمارے فیصلے پر نہ کوئی اعتراض ہے اور نہ کوئی اختلاف۔“

”انہیں نہ ہوگا مگر ہمیں اعتراض ہے ۔ہم آپ کو ایسی کسی واہیات حرکت کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے۔“

”ہم حسن آرا کو زبان دے چکے ہیں۔“

”کاٹ کر پھینک دیں ایسی فضول زبان کو۔“

”آپ کے حکم پر ایسا کرسکتے ہیں لیکن اس سے ہمارے فیصلے اور ارادے کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔“ میر صاحب کا انداز مودب اور دھیما تھا لیکن لہجہ انتہائی مضبوط اور اٹل۔ میر ظفر اللہ ان کے بالکل سامنے کھڑے ہوئے تھے۔

”اپنے ارادرے اور فیصلے یہیں ختم کردیں ورنہ ہم اپنے ہاتھوں سے آپ کو گولی تو مار دیں گے لیکن اپنے شجرہ نسب میں کسی طوائف یا طوائف سے چلنے والی نسل کا ذکر آنا برداشت نہیں کریں گے۔ سمجھے آپ؟“ انہوں نے میر صاحب کو کندھوں سے پکڑ کر جھنجوڑ ڈالا۔

”آپ گولی مارنے کا حق رکھتے ہیں بابا سائیں !ہماری سات جانیں آپ پر قربان لیکن اپنی ذات کی خلوتوں سے آشنا ہوجانے والی عورت سے بھلا ہم کیسے لا تعلق ہو کر جی سکتے ہیں ؟کیسے اسے یونہی سماج کی اس وحشت زدہ بھیڑ میں تنہا چھوڑ سکتے ہیں ؟ایک ذرا خود ہمارے اندر کی حالت کو محسوس کر کے دیکھیے۔“ میر ارشد اللہ نے پہلی بار سر اٹھاتے ہوئے براہ راست باپ کی آنکھوں میں جھانک کر کرب سے کہا ۔کرب تھا احساس خطا کا ،اضطراب کا ،سرزد ہوچکنے والے گناہ کی احساساتی بازگشت کا ۔وہ بول رہے تھے یا شاید کراہ رہے تھے۔

”جو غلطی، جو گناہ ہم سے سرزد ہوا وہ ہماری اپنی نظروں میں بھی قابل معافی نہیں ہے ۔وہ ہو گزرا ،اتفاق تھا حادثہ، کوئی لغزش تھی یا مقدر ،ہو گزرا خود کشی کو ہم نے خود رد کردیا تھا۔ ہمارے اس گناہ کی پاداش میں آپ ہمارے سینے میں گولی اتار دیں گے تو ہمیں اپنے اندر کی اذیت سے قدرتی طور پر نجات مل جائے گی۔ آپ نے ہمیں سزا دینی ہے تو ہمارے گزرے ہوئے گناہ کی دیجیے، جو ہم اب کرنا چاہ رہے ہیں وہ کوئی گناہ نہیں ہے ۔خدائے لم یزل بھی ہمیں اس کا حق اور اختیار دیتا ہے ۔کوئی شرعی نکتہ بھی نہیں اٹھتا ،بلکہ ہمارے اس عمل کو تو ایک طرح کی نیکی کہا جائے گا۔“

”جو نیکی بڑی برائیوں اور خرابوں کا باعث بنتی ہو اس سے احتراز کیا جاتا ہے ۔طوائف کی کوکھ سے جنم لینے والے بچوں کی ولدیت ہمیشہ مشکوک رہتی ہے ۔آپ کی ادھر سے چلنے والی نسل کو لوگ میر ارشد اللہ کی بجائے ایک طوائف کی اولاد کہیں گے اور ہم ہم کس کس کو سمجھاتے پھریں گے۔ شہاب الدین کو کیا جواب دیں گے۔ نہیں ہر گز نہیں۔ آپ یہ خاک نہیں اڑائیں گے۔“ میر ظفر اللہ ٹہلتے ہوئے صوفے کی عقبی طرف جا کھڑے ہوئے ۔

”ہم کوئی جھوٹا اقرار نہیں کریں گے بابا سائیں! چاہے آپ ہمیں گولی ہی کیوں نہ مار دیں۔“ میر ظفر اللہ دونوں ہاتھ صوفے کی پشت پر ٹکا کر قدرے آگے کو جھکتے ہوئے بولے۔

”میر ارشد اللہ! ہمارے ضبط کا امتحان مت لیں ۔ہم جو کہہ چکے وہ حرف آخر ہے، آپ آئندہ کبھی ان گلیوں کی طرف نہیں جائیں گے اور دوسرا ہمیں یہ بھی بتا دیں کہ ادھر کا رستہ آپ کو دکھایا کس نے ؟کون آپ کو وہان تک لے کر گیا تھا؟“ ان کے سوال پر میر صاحب نے نظریں جھکالیں ،وہ جواب میں کچھ بھی نہیں بولے تھے البتہ اس بار پہلی دفعہ آغا جی نے لب کھولے۔

”نواب اسفند یار خان اور نواب سکندر خان جو گیزئی۔“ ان کی گونج دار آواز پر میر ظفر اللہ یوں جھٹکا کھا کر ان کی طرف پلٹے جیسے صوفے میں سے کرنٹ لگا ہوا۔

”اسفند یار اور سکندر خان!“ وہ غصے اور تعجب کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ میر صاحب سے مخاطب ہوئے۔”آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان دونوں خبیثوں کے جاگیردار حاکم علی کے ساتھ کس نوعیت کے مراسم ہیں پھر بھی آپ نے ان کے ساتھ معاملات رکھے ہوئے ہیں؟ ان کے ساتھ بازار حسن تک چلے گئے؟ کوٹھے کے زینے چڑھ گئے آپ آپ کو ایک بار بھی خیال نہیں آیا کہ حاکم علی ان دونوں خبیثوں کے ذریعے یوں ہمارے ساتھ اپنی دشمنی چکا رہا ہے، ہمارے خلاف چال چل رہا ہے!“

”ہمارا ان کے ساتھ کسی قسم کا کوئی معاملہ نہیں چل رہا، بس اسی روز ساتھ رہا وہ بھی اس روز ہم ٹھیک سے اپنے حواسوں میں نہیں تھے تو اسی لیے“

”حواسوں میں تو آپ آج بھی نہیں ہیں۔“ میر ظفر اللہ نے زہر خند سے کہا پھر بڑبڑانے والے انداز میں بولے۔ ”حاکم علی اوچھے اور گھٹیا ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے۔“ پھر انہوں نے ایک ذرا توقف سے کام لیتے ہوئے بھویں اچکا کر میر صاحب کی طرف دیکھا ”حاکم علی کے بیٹے کے ساتھ بھی آپ کا کوئی تنازع بنا ہے؟“

”اس نے ان لوگوں کا جینا حرام کر رکھا تھا اور تو اور پیٹرول چھڑک کر ان دونوں کو زندہ جلانے والا تھا، اگر ہم بروقت نہ پہنچ پاتے تو شاید وہ اپنے اس سفاک اور بے رحم مقصد میں کامیاب بھی ہوجاتا۔“

نزہت بیگم اور حسن آرا دونوں جانتی تھیں کہ یہ چوہدری اکبر علی کا ذکر ہو رہا ہے۔ میر ظفر اللہ نے ایک انتہائی ناگوار نظر ان دونوں پر ڈالی، ان کی نگاہوں میں کچھ ایسی چیز تھی کہ نزہت بیگم کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک جھرجھری سی کلبلا کر رہ گئی۔ کمرے میں پھیلی خوش گوار ٹھنڈک کے باوجود اسے اپنی پیشانی پر پیسنے کی نمی محسوس ہو نے لگی۔

”ٹھیک ہے ۔ان لوگوں کو اب ہم دیکھ لیں گے ۔آپ جائیں جا کر آرام کریں اور جو کچھ ہم نے کہا ہے اسے اچھی طرح اپنے دماغ میں نقش کرلیں، بٹھا لیں اپنے ذہن میں؟“

”بابا سائیں!“ انہوں نے میر ظفر اللہ کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں گہری ناراضگی اور غصے کے تاثرات رقم تھے۔

”ہمیں دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ ہمارا مسئلہ نہیں سمجھ پائے۔ اگر بات مزید زندہ رہنے کی ہے تو ہم حسن آرا کو اپنائے بغیر سکون سے نہیں جی سکیں گے۔ ہماری سانس سانس ہمارے لیے اذیت کا باعث بنی رہے گی ،ہمیشہ ہم…!“

”جو کہنا ہے سیدھے صاف کہیں ، واشگاف الفاظ میں۔“ میر ظفر اللہ ان کی بات کاٹتے ہوئے بولے ۔ان کے تاثرات کچھ مزید بگڑ گئے تھے۔ کمرے کی خنک فضا میں چند لمحے کے لیے ایک اعصاب شکن خاموشی چھا گئی، حسن آرا کا دل مٹھی میں جکڑا گیا۔پھر میر صاحب کی پر رعب آواز بلند ہوئی۔

ان کا لہجہ فیصلہ کن تھا۔

”اس جمعے ہم حسن آرا سے نکاح کرنے جا رہے ہیں۔“

”ہم آپ کو اس حماقت کی اجازت نہیں دے سکتے۔“

”ایسے میں ہم آپ سے معذرت چاہیں گے۔“

”یعنی… یعنی آپ اس طوائف کے لیے اپنے باپ کی نفی کر گزریں گے؟“ انہوں نے تعجب سے وہاں موجود چاروں افراد کی باری باری شکلیں دیکھیں پھر صوفے کے عقب سے نکل کر میر صاحب کی طرف بڑھتے ہوئے بولے۔

”اتنے خود سر ہوچکے ہیں آپ !اور ہمیں اندازہ تک نہیں ہوا کبھی ایک طوائف کا عشق اس درجہ آپ کے دماغ پر سوار ہوچکا ہے کہ آپ یہاں، اپنے باپ ہی کے فیصلے کے خلاف کھڑے ہیں تمیز و تہذیب اور اپنی خاندانی اقدار کو بھی کسی موری میں بہا چکے آپ تو، لیکن ہم آپ کو بتا دیں کہ میر ظفر اللہ کے جیتے جی تو ایسا کچھ نہیں ہوگا جیسا آپ چاہ رہے ہیں اور اگر ایسا کچھ ہوا تو یاد رکھنا کہ ایک لاش تو ضرور گرے گی۔ چاہے وہ لاش آپ کی ہو یا ہماری!“ انہوںنے میر صاحب کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا پھر ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے آغا جی سے مخاطب ہوئے۔

”آپ ایسا کریں کہ ان دونوں کو۔“ اشارہ نزہت بیگم اور حسن آرا کی سمت تھا ”جہاں سے اٹھوایا ہے واپس وہیں پھینکوائیں اور…!“ انہوں نے رخ بدل کر ان دونوں کی طرف دیکھا۔

”تم دونوں آج کی رات صرف سوچ کر گزارو، ہاں صبح تک اپنا فیصلہ آپ خود ہی کرلینا۔“

ان کے لفظوں میں چھپی ہولناک دھمکی کو ان دونوں نے ہی بخوبی محسوس کیا ۔وہ ایک بار پھر آغا جی سے مخاطب ہوئے۔

”ان دونوں کے ساتھ ساتھ یہ قالین صوفہ اور یہ برتن بھی یہاں سے کہیں دور پھینکوا دیں۔“ ان کے لہجے میں نفرت تھی، حقارت تھی ،ان کا ایک ایک لفظ حسن آرا کا کلیجہ چھید کر گزرا۔ اسے لگا جیسے اس کا وجود ایک گالی ہو۔ ایک سانس لیتا جیتا جاگتا گناہ ہو،۔رنج و غم کا ایک بے کراں ساگر اس کے سینے میں کروٹیں لینے لگا۔میر ظفر اللہ اس کے بعد وہاں رکے نہیں تھے۔

…٭٭…

کمرے سے نکلتے ہی اس نے بہ عجلت دروازے کی باہر سے کنڈی لگائی اور چیتے کی سی پھرتی سے سیڑھیوں کی طرف دوڑ پڑا۔ پانچ فائر ہوئے تھے۔ انداز دو طرفہ فائرنگ کا سا تھا۔ یا تو کسی تیسرے کی طرف سے مداخلت ہوئی تھی یا پھر ان لوگوں نے ڈپٹی اعوان کی طرف سے غفلت برتی تھی۔ اس کی تلاشی نہیں لی تھی۔ بہرحال دونوں صورتیں ہی خنجر کے حوالے سے جان لیوا تھیں۔مرشد محض چند لمحوں میں نچلے زینوں تک جا پہنچا ۔وہ پوری طرح چوکنا تھا۔ اس کی انگلی پسٹل کی لبلبی سے یوں چمٹی ہوئی تھی کہ وہ پلک جھپکنے کی دیر میں فائر کر سکتا تھا۔

 وہ نیچے پہنچا ہی تھا کہ اس کوریڈور سے خنجر نمودار ہوا، اس کے بائیں کندھے سے خون بہہ رہا تھا اور چہرے پر ہیجانی تپش تھی۔

”وہ حرامی نکل بھاگا۔“ مرشد پر نظر پڑتے ہی اس نے تیز لہجے میں کہا

”گولی لگی ہے تمہیں؟“ وہ لپک کر خنجر تک پہنچ گیا۔

”معمولی زخم ہے۔ اس نے نجانے کدھر سے پسٹل نکال کر فائر کردیا، بس وہی گولی کندھے سے رگڑ کھا گئی۔ دو فائر میں نے کیے لیکن وہ تو بندر کی طرح اچھل کود کر اس طرف والے صوفے کے پیچھے آگرا، کمرے کے دروازے سے پھر اس نے دو فائر کیے، بال بال ہی بچا ہوںمیں ۔“

مرشد اس کی قمیص کا کالر کھینچ کر زخم کا جائزہ لے چکا تھا۔ گولی اوپر سے گوشت کو ادھیڑتی ہوئی گزر گئی تھی۔ زخم سے بہنے والا خون اس کی قمیص اور آستین کو رنگین کر رہا تھا۔

”ہاں بچت ہوگئی تم ادھر اندر دیکھو ، میں اس حرامی کو باہر دیکھتا ہوں۔“وہ فورا دروازے کی طرف لپکا۔

”میں بھی ساتھ آتا ہوں وہ یقینا باہر ہی کو بھاگا ہے۔“ خنجر نے اس کی تقلید کی ۔لاﺅنج کے بیرونی دروازے سے وہ دونوں آگے پیچھے ہی باہر نکلے تھے ۔ملازم لڑکا گیٹ بند کرنے کے بعد گیٹ کے سامنے ہی حیران پریشان کھڑا تھا، شاید اسے فائرنگ کی آواز سنائی دی ہو اور یہ بھی ممکن تھا کہ چند لمحے پہلے اس نے ڈپٹی اعوان کو اندر سے پاگلوں کی طرح نکل کر بھاگتے ہوئے دیکھا ہو۔ دائیں ہاتھ پورچ میں ایک کار رک رہی تھی۔ اس کار میں آنے والا متوقع طور پر رانا کا وہی کاروباری ساتھی یا واقف کار تھا جس کی ایما پر رانا نے فیروزہ کو اس کے کوٹھے سے اٹھوا لیا تھا۔ مرشد نے اس کی طرف قطعا کوئی توجہ نہیں دی، اس کا سارا دھیان کسی اور طرف تھا۔

”تم ان دونوں کو سنبھالو۔“ اس نے خنجر سے کہا اور خود کوٹھی کی بغلی سمت کی طرف دوڑ پڑا، اگلے چند منٹ میں اس نے کوٹھی کے سارے کونے کھدرے دیکھ ڈالے لیکن ڈپٹی کا کہیں کوئی نشان نہیں تھا ۔اس کا سیدھا سا مطلب یہی تھا کہ وہ نکل بھاگا ہے ۔مرشد واپس لاﺅنج میں داخل ہوا تو اس کے کانوں سے ایک مردانہ آواز ٹکرائی۔

”تم ہو کون اور رانا صاحب کدھر ہیں؟“

مرشد نے دیکھا کہ ملازم لڑکا ڈرا سہما سا فرش پر بیٹھا تھا ۔سامنے ہی خنجر پسٹل لیے کھڑا تھا اور لڑکے کے قریب ہی ایک صوفے پر نووارد بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے پر بیزاری کے تاثرات تھے۔ اس کے باوجود وہ چہرہ بارعب اور خوب رو دکھائی دے رہا تھا۔ اسے دیکھ کر مرشد چونکا تھا تو مرشد پر نظر پڑتے ہی اس نووارد کے تاثرات میں بھی تغیر اتر آیاالبتہ آنکھوں میں شناسائی کی چمک پیدا ہونے میں چند لمحے لگے۔

وہ کوئی اور نہیں زریون تھا ۔زریون علی ،جسے اب سے پہلے وہ فیروزہ کے کوٹھے کے باہر گلی میں مل چکا تھا اور پھر حجاب سرکار کے ماموں مرید حسین کے گھر بھی دیکھ چکا تھا۔ اب اس کی یہاں موجودگی مرشد کے لیے قطعی غیر متوقع تھی۔ مرشد کو پہچانتے ہی اس کے چہرے پر ایک لمحے میں کئی ایک رنگ لہرا گئے۔

”مرشد؟“ اس نے مرشد کی طرف تائید طلب انداز میں انگلی اٹھائی۔

”کیا آپ سید گھرانے سے ہیں؟“ مرشد نے اس کے سامنے پہنچ کر سنجیدگی سے استفسار کیا ۔اس کے سوال پر زریون کی آنکھوں میں ایک ذرا حیرانی سی ابھری۔

”آں ،ہاں… کیوں؟“

مرشد کو اندازہ ہوگیا کہ وہ آج بھی شراب کے نشے میں ہے البتہ اس کا جواب مرشد کے اندازے کی تائید کرگیا۔ وہ یقینا حجاب سرکار کے رشتوں داروں ہی میںسے تھا ۔مرشد نے خنجر کی طرف دیکھا۔

”اوپر کوریڈور میںبائیں ہاتھ تیسرا دروازہ ہے۔ باہر سے کنڈی لگی ہے ۔دونوں کو نیچے لے آﺅ۔“ اس کا اشارہ رانا اور فیروزہ کی طرف تھا ۔خنجر سر ہلا

کر فوراً سیڑھی کی طرف بڑھ گیا۔

”رانا صاحب کدھر ہیں اور تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟کیا چل رہاہے یہاں؟“ زریون نے سوال کیا ۔مرشد ایک طرف صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا۔

”مجھ جیسوں کا تو رانا جیسے چنگڑوں سے واسطہ پڑتا ہی رہتا ہے مگر آپ سید سرکار ہیں۔ آپ کو اس طرح یہاں نہیں ہونا چاہیے تھا۔“

”میرے رانا صاحب کے ساتھ کاروباری معاملات ہیں ۔ہماری دو فیکٹریوں کی کاٹن رانا صاحب ہی پوری کرتے ہیں۔“

”کاروبار… کاٹن… اور اس کے علاوہ کیا معاملات ہیں؟“

”تم کس حساب میں ہمارا نٹرویو لے رہے ہو؟“ زریون کے ماتھے پر ناگواری کی شکنیں کھنچ گئیں۔

”حضور! گستاخی معاف ۔آپ مہربانی کر کے بتائیں کہ رانا کے ساتھ آپ کے معاملات کس سطح تک ہیں۔ آپ رانا کو کس حد تک جانتے ہیں؟ گزشتہ کچھ دنوں سے، رانا جس معاملے میں ملوث ہے ،کیا آپ اس کے متعلق کچھ جانتے ہیں؟ اگر جانتے ہیں تو کیسے؟ کیوں اور کتنا؟“ مرشد کی آنکھوں کے سامنے چند مناظر جھلملا رہے تھے، آپس میں گڈ مڈ ہو رہے تھے۔ سب سے زیادہ واضح منظر میں حجاب سرکار کی اداسی میں رنگی معصوم صورت تھی پھر فیروزہ کے کوٹھے کے سامنے گلی میں ،نشے میں دھت زریون تھا۔ فوجی، ملنگی، ڈپٹی اعوان چوہدری فرزند، رانا اور پھر زریون سب ایک ساتھ تھا ۔آپس میں جڑا ہوا، الجھا ہوا۔ پتا نہیں کیوں؟ لیکن ان لمحوں مرشد کے ذہن سے اس پر اسرار خیر خواہ عورت کا خیال بھی گزرا جس کی مدد سے وہ ملنگی لوگوں کی قید سے زندہ سلامت نکل آیا تھا اور آتے ہوئے سرکار کے دو دشمن بھی کم کر آیا تھا۔

شاید مرشد کے انداز تخاطب سے جھلکتا ادب احترام ہی تھا جس نے زریون کے ماتھے کی شکنیں کم کردیں البتہ اس کے چہرے کی سنجیدگی کچھ مزید گہری ہوگئی ۔وہ مرشد کو تولتی، ٹٹولتی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔

”پہلے تم مجھے بتاﺅ کہ تم یہ سب کیوں جاننا چاہتے ہو؟ کیا دلچسپی ہے تمہیں اس سب میں؟“ زریون کے سوال پر مرشد نے سر نیچے جھکا لیا۔ وہ دونوں کہنیاں رانوں پر ٹکائے بیٹھا تھا۔ پستول اس کے دائیں ہاتھ میں جھول رہا تھا۔ چند لمحے بعد اس نے سر اٹھایا اور ایک گہری سانس لیتے ہوئے بولا۔

”یہ سب میری ڈیوٹی کا حصہ ہے۔“

”ڈیوٹی“ زریون نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔”کیسی ڈیوٹی؟“

”کیس اتنی حساس نوعیت کا ہے کہ میں آپ کو تفصیل نہیں بتا سکتا،اتنا بتا دیتا ہوں کہ بہت سوں کی موت کے پروانے جاری ہوچکے ہیں اور آج رانا سرفراز کا نمبر لگا ہے۔“

”کیا تم کسی ایجنسی کے لیے کام کرتے ہو یا… یا پھر یونہی بکواس کر رہے ہو؟“

”کیا آپ ڈپٹی اصغر علی اعوان کو جانتے ہیں؟“ مرشد نے ایک اور سوال اٹھایا۔

”ہاں… کسی حد تک۔“

”آپ کو کوئی اندازہ ہے کہ اس وقت وہ کہاں ہے؟“

ہفتہ دس دن پہلے انہیں کچھ نامعلوم افراد نے اغوا کرلیا تھا، میرا خیال ہے کہ اس کے بعد سے اب تک کسی کو بھی ان کی خبر نہیں ہے۔“ مرشد بغور اس کی طرف دیکھ رہا تھا، اس کے اس بیان سے اتنا تو اندازہ ہوتا تھا کہ وہ ڈپٹی والی ساری کہانی سے ناواقف ہے۔ شاید حجاب سرکار والے معاملے کی اصل صورت حال کا بھی اسے کوئی اندازہ نہیں تھا۔

اسی وقت سیڑھیوں پر ہونے والی آہٹ نے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی، خنجر ان دونوں کو لے آیا تھا۔ رانا کا کالر اس نے بائیں ہاتھ میں دبوچ رکھا تھا، فیروزہ ان دونوں کے پیچھے آرہی تھی، اس پر نظر پڑتے ہی زریون کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک پیدا ہوگئی ،ہونٹ مسکراہٹ کے انداز میں کھینچ گئے اور وہ آہستہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔رانا کو خنجر نے مرشد کے سامنے فرش پر لا بیٹھایا، اس کے دائیں گال پر سرخ سرخ لکیریں واضح دکھائی دے رہی تھیں جو مرشد کے تھپڑوں کی کارستانی تھی۔

”یہ کیا بد تمیزی ہے؟“ رانا کی حالت زار دیکھتے ہوئے زریون نے ناگواری سے پوچھا۔

”انہیں جانتے ہو؟“ مرشد نے زریون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رانا سے پوچھا جبکہ خنجر نے پسٹل سے اشارہ کرتے ہوئے زریون کو بیٹھ جانے کا کہا اور فیروزہ مرشد کے عقب میں صوفے کے پیچھے آ کھڑی ہوئی۔

”یہی ہیں جو میں نے کہا تھا، ان ہی کے کہنے پر میں نے اس کو“ رانا نے ایک نظر مرشد کے عقب میں کھڑی فیروزہ کے چہرے پر ڈالی ”ہیرا منڈی سے اٹھوایا تھا۔“

”ان کو تمہاری، ڈپٹی اور سرکار والی کہانی کا پتا ہے؟“

”نن… نہیں تو…!“ اس نے سراسیمہ سی پریشانی کے ساتھ مرشد اور خنجر کی طرف دیکھا ،ایک بے چین سی نظر اس نے زریون پر بھی ڈالی تھی۔

”ان کا اس سب سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔“

”ہوسکتا ہے کسی نہ کسی حوالے سے ان کا تعلق واسطہ بنتا ہو“ مرشد کے لہجے اور آنکھوں میں معنی خیز چبھن تھی۔ زریون کا دھیان ان پر ٹھہر گیا۔

”ہمیں اب زیادہ دیر نہیں رکنا چاہیے یہاں۔“ خنجر نے دھیمی آواز میں کہا لیکن مرشد نے ان سنی کردی۔

”نہیں… ایسا بالکل بھی نہیں ہے ان کے ساتھ بس یہی ایک معاملہ طے ہوا تھا میرا۔“

مرشد چند لمحے اس کی آنکھوں میں جھانکتا رہا ،ایک بار تو اس کے ذہن میں آئی کہ حجاب سرکار والا معاملہ کھول لے، اس سے یہ بھی معلوم ہوجاتا کہ زریون کا حجاب سرکار سے کیا رشتہ بنتا ہے اور زریون کو بھی معلوم ہوجاتا کہ رانا اور ڈپٹی کی اصلیت کیا ہے اور حجاب سرکار اس وقت کس کے پاس یرغمال ہیں ،لیکن اس میں کچھ قباحتیں تھیں ۔سب سے بڑی اور ناقابل برداشت قباحت خوداس کی اپنی ذات تھی ذات سے جڑا ایک انتہائی بدنام اور ناقابل قبول پس منظر تھا اس نے سر جھٹکتے ہوئے ارادہ بدل دیا۔

”یہ تو صاف ہے کہ تو اور ڈپٹی ایک ہی ہیں ۔اب فورا سے پہلے بک دے کہ سرکار کو کہاں رکھا گیا ہے ،کہاں پر ہیں وہ؟“

”ہیلو!“ زریون سے چپ نہیں رہا گیا ۔” یہ کیا اسٹوری ڈسکس ہو رہی ہے؟“

”چپ کر کے بیٹھ جا ،کہیں تیری اسٹوری وی…!“ خنجر نے پسٹل سیدھا کرتے ہوئے اسے دھکمانے کی کوشش کی تو مرشد نے فورا اسے ٹوک دیا۔

”خنجر! یہ سید بادشاہ ہیں۔“ خنجر نے فورا پسٹل نیچے کرلیا۔ مرشد نے زریون کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔

”حضور! چند منٹ… صرف چند منٹ آرام و تحمل سے تشریف رکھیے۔“ زریون نے بے زاری سے ہنکارہ سا بھرا اور صوفے پر ڈھیر ہوگیا۔ قریب ہی فرش پر ملازم لڑکا گم صم بیٹھا تھا ۔اس کے چہرے پر پریشانی کے ساتھ ساتھ شدید حیرت و بے یقینی پھیلی ہوئی تھی۔ اب سے پہلے وہ رانا سرفراز کو جس کروفر میں دیکھتا رہا تھا، اس کے بعد یقینا اب اسے رانا کی موجودہ حالت زار اور بے چارگی پر یقین نہیں آرہا تھا۔

”ہاں تو رانا! بی بی سرکار کہاں ہیں؟“ مرشد پھر سے رانا کی طرف متوجہ ہوا ۔رانا اچھی طرح جانتا تھا کہ مرشد کی ،”سرکار“ سے کیا مراد ہے البتہ زریون

کو کوئی اندازہ نہیں تھا، شاید مرشد لفظ سرکار کی جگہ حجاب بی بی استعمال کرتا تو زریون بری طرح چونک اٹھتا۔

”جیسی جی چاہے قسم لے لو، مجھے نہیں پتا۔“

”رانا صاحب!“ زریون نے رانا کو پکارا۔

”کوئی وہسکی شسکی نہیں رکھی ہوئی آپ نے؟“ رانا نے ہچکچاتے ہوئے انداز میں ایک طرف موجود فریج کی طرف اشارہ کیا۔

”ادھر… اس میں رکھی ہے۔“

”تھنک یو سو مچ۔“ وہ اٹھ کر فریج کی طرف بڑھ گیا۔ خنجر نے مرشد کی طرف دیکھا اور مرشد زریون کو دیکھ کر رہ گیا۔

”رانا مجھے چڑانے کی کوشش مت کر۔“ وہ ایک بار پھر رانا پر غرایا۔

”خدا کی قسم میں سچ کہہ رہا ہوں۔ میں نے ایک دو بار پوچھا بھی ہے مگر ڈپٹی نے مجھے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا، صرف صرف خود اسی کو پتا ہے کہ اس نے اس لڑکی سرکار کو کہاں چھپا رکھا ہے۔“مرشد چند لمحے یک ٹک اس کی آنکھوں میں جھانکتا رہا پھر اس نے پسٹل کی نال اس کے سر پر رکھ دی۔

”جب تجھے کسی بات کی کوئی خبر ہی نہیں ہے تو پھر تجھے مرجانا چاہیے۔“ اس کا لہجہ اتنا سرد تھا کہ رانا بے اختیار جھرجھری لے کر رہ گیا۔

”لل… لیکن میں ڈپٹی کے متعلق جانتا ہوں کہ وہ کہاں پر ہے۔“ اس بار اس کی زبان کی روانی پر مرشد بے اختیار مسکرا دیا۔

”آگے بول ،بتا جو جانتا ہے۔“

”وہ… وہ یہیں ہے ۔اغوا والے دن سے لے کر ابھی تک؟“ اس بار مرشد بری طرح چونک پڑا۔ اس نے ایک نظر زریون کی طرف دیکھا ،وہ سامنے والے کونے میں فریج کے سامنے وہسکی کی بوتل کو ڈائریکٹ منہ سے لگائے کھڑا تھا ،پتا نہیں رانا کی آواز وہاں تک نہیں پہنچی تھی یا زریون کی توجہ ہی ان کی باتوں پر نہیں تھی۔ مرشد نے جھپٹ کر رانا کو گریبان سے دبوچ لیا۔

”کہاں… کہاں ہے وہ اس وقت؟“ اس کی غضب ناکی میں اس کی تمام قلبی بے قراریاں گھلی ہوئی تھیں۔

”یہیں، عقبی طرف والی کوٹھی میں ،اگر… اگر وہ نکل گیا ہے تو ادھر سے سیدھا اسی کوٹھی میں گیا ہوگا۔ ابھی وہیں ہوگا۔“

یکایک مرشد کے رگ و پے میں خون اچھالے مارنے لگا۔ اس نے خنجر کی طرف دیکھا ،اس کے چہرے پر بھی جوش کی سنسناہٹ تھی ۔اس کی آستین اور قیمیص کا ایک حصہ خون سے پوری طرح رنگین تھا پھر بھی وہ پوری طرح مستعد اور تازہ دم دکھائی دے رہا تھا۔مرشد اٹھتے ہوئے اس سے مخاطب ہوا۔

”خنجر! فی الوقت تم فیروزہ کو لے کر مکان پر چلے جاﺅ، میں تمہیں وہیں آکر ملتا ہوں۔“

”بالکل نہیں… جدھر چلنا ہے اکٹھے چلیں گے۔“

”بحث نہیں کرو۔“ مرشد کے لہجے میں سختی اور بے زاری در آئی۔ ”جیسا کہہ رہا ہوں خاموشی سے ویسا ہی کرو، تم فیروزہ کے ساتھ نکلو یہاں سے ،میں ادھر کا حساب چکتا کر کے آتا ہوں اور اگر بالفرض مجھے ایمرجنسی ادھر سے کہیں اور جانا پڑا تو تم صبح اسے لاہور والی گاڑی میں چڑھا دینا اور مکان پر میرا انتظار کرنا۔“

”اور میں…!“ عقب سے زریون کی آواز پر مرشد نے پلٹ کر دیکھا، زریون بوتل پکڑے اس کے پیچھے کھڑا تھا ۔”میں کیا کروں گا؟ کس لیے آیا

ہوں میں یہاں؟ تم لوگوں کا یہ ناٹک دیکھنے… نہیں۔“

”آپ بتائیں کس لیے آئے ہیں آپ؟“ مرشد نے سنجیدگی سے دریافت کیا۔ زریون نے ایک بار پھر بوتل منہ سے لگالی ،ایک بڑا سا گھونٹ بھرا اور فیروزہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔

”اسے کہاں بھیج رہے ہو؟“

”جہاں سے اسے لایا گیا ہے۔“

”بھیجنے کے لیے نہیں لایا گیا کم از کم آج کے آج تو نہیں، کل صبح سوچیں گے۔“ وہ چھوٹے قدموں چلتا صوفے کے برابر آ کھڑا ہوا۔ نگاہیں فیروزہ کے چہرے پر ٹکی تھیں جہاں ناگواری پھیلی ہوئی تھی۔ زریون براہ راست اس سے مخاطب ہوا۔

”دیکھ لیں فیروزہ جی! ہم نے انتظام کیا تھا کہ تمام رات تسلی اور یکسوئی سے آپ کو سن سکیں ، دیکھ سکیں۔ درمیان میں کسی قسم کی مداخلت یا بد مزگی نہ ہو ذرا سی بھی، لیکن دیکھ لیں ہر دفعہ ہر دفعہ ارمان دل میں ہی رہ جاتے ہیں۔“

”آپ جب بھی ہمارے یہاں تشریف لائے ہم نے آپ کو عزت سے بٹھایا اور آپ… آپ نے ہمیں بد معاشوں کی مدد سے اٹھوایا، عزت اور قدردانی کا آپ کے یہاں یہی صلہ ہوتا ہے؟“ فیروزہ نے اپنے لہجے کی ناگواری اور تلخی کو چھپانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی تھی۔ زریون کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔

”محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے ڈیئر فیروزہ!“ اس نے قدرے جھک کر فیروزہ کا ہاتھ تھاماتو اس نے فوراً جھٹکے سے چھڑا لیا۔

”ہمارے اور آپ کے درمیان کس تخت کی جنگ ہے؟“

”جنگ نہیں… محبت ہے۔ محبت ہے آپ سے ہمیں۔“

”اس بدمعاشی اور سینہ زوری کو آپ محبت کہتے ہیں افسوس ہے ہمیں آپ کی اس محبت پر۔“

”وہاں آپ کے ارد گرد گدھوں کی جو منڈی رہتی ہے اس نے ہمیں ایسی گستاخی کرنے پر مجبور کردیا۔ آپ ہمارے جذبات سمجھنے کی کوشش کریں تو کہیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ چلیں اوپر چلتے ہیں۔“اس نے ایک بار پھرفیروزہ کا ہاتھ تھام لیا۔ نشے کی خماری پوری طرح اس کی آنکھوں سے چھلکنے لگی تھی ۔فیروزہ نے ہاتھ چھڑانا چاہا لیکن اس بار زریون کی گرفت مضبوط تھی۔

”ہاتھ چھوڑیں ہمارا۔“ فیروزہ نے ہاتھ چھڑانے کے لیے زور لگایا، خنجر نے بے چینی سے مرشد کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر گہری سنجیدگی کھنڈی ہوئی تھی۔ یہ زریون کی طبیعت مزاج کا حصہ تھا یا شدید شراب کا اثر، بہرحال وہ حد سے زیادہ بڑھ رہا تھا۔ اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اتنی دیر میں مرشد کی لات یا گھونسے کا نشانہ بن چکا ہوتا لیکن زریون کے حوالے سے مرشد اپنے ہاتھوں پیروں کو دو زنجیروں میں جکڑا ہوا محسوس کر رہا تھا دو حوالے زریون کا حصار تھے ایک یہ کہ وہ سید زادہ تھا اور دوسرا یہ کہ دور یا نزدیک سے وہ حجاب سرکار کا رشتے دار بھی تھا حجاب سرکار جو اسے ہر چیز سے بڑھ کر عزیز تھی۔

’آئیے! کچھ دیر اوپر بیٹھ کر آرام سے بات کرتے ہیں۔ تم ہٹو سامنے سے۔“ اس نے خنجر کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے دھکیلا اور خود فیروزہ کا ہاتھ کھینچتے ہوئے آگے بڑھا تو مرشد اس کے سامنے آکھڑا ہوا۔

”اس کا ہاتھ چھوڑ دیں حضور!“

”تم اس معاملے سے الگ رہو مرشد! یہ ہمارا آپس کا معاملہ ہے۔“

”فیروزہ آپ سے کچھ کہنا سننا نہیں چاہتی تو آپ کو زبردستی کاحق نہیں پہنچتا… برائے مہربانی اس کاہاتھ چھوڑ دیں اور یہاں سے واپس لوٹ جائیں۔“

”میں نے کہا ہے ناں کہ یہ ہمارا آپس کا معاملہ ہے۔ تم بے وجہ خدائی فوج دار بننے کی کوشش مت کرو‘ پیچھے ہٹو۔“اس نے مرشد کے بھی سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے دھکیلنا چاہا مگر ناکام رہا۔ مرشد چٹان کی طرح اس کے سامنے جم کر کھڑا رہا۔

”حضور! آپ سید سرکار ہیں۔یہ سب آپ کے شایان شان نہیں۔ برائے کرم اس کا ہاتھ چھوڑ دیں۔“

زریون نے فیروزہ کو کھینچتے ہوئے کترا کر مرشد کے پہلو سے نکلنا چاہا تو مرشد نے فیروزہ کا دوسرا ہاتھ تھام لیا۔

”مرشد! درمیان میں مت آﺅتم مجھے جانتے نہیں ہو۔“ زریون نے نتھنے پھلاتے ہوئے کہا۔ شراب کا خمار پوری طرح اس کی آنکھوں سے چھلکنے لگا تھا۔

”جانتا ہوں حضور! آپ آل نبی‘ اولاد علی سے ہیں۔ آپ کا احترام مجھ پر واجب ہے۔ اسی لیے مسلسل آپ سے درخواست کررہا ہوں کہ اس کا ہاتھ چھوڑ دیں… یہاں سے چلے جائیں۔“

”میں نے آج تک اپنے باپ کا بھی حکم قبول نہیں کیا… اپنی مرضی کا میں آپ مالک ہوں اور اپنے متعلق فیصلے بھی میں خود ہی کرتا ہوں لہٰذا تم اپنے فیصلے اور درخواستیں اپنے لیے یا اپنے کسی چمچے کڑچھے کے لیے سنبھال رکھو اور فیروزہ جی کا ہاتھ چھوڑ کر ایک طرف ہٹ جاﺅ۔“وہ زہرخند لہجے میں بولتا ہوا مرشد کے سامنے سیدھا ہو کھڑا ہوا۔ اس کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ فیروزہ کس شدت کے ساتھ اس کے حواسوں پر چھائی ہوئی ہے۔ وہ وہاں کی صورت حال کو جیسے مکمل طور پر فراموش کرچکا تھا۔ رانا سرفراز اور اس کی حالت سے وہ بالکل لاتعلق اور بے نیاز ہوچکا تھا۔ مرشد اور خنجر کے علاوہ‘ ان دونوں کے ہاتھوں میں موجود پسٹلز کی بھی جیسے اسے ذرا پروا نہیں تھی۔ مرشد اسی سکون کے ساتھ بولا۔

”اس طرح کی باتیں آپ کو زیب نہیں دیتیں‘ لیکن آپ سید سرکار ہیں… بادشاہ ہیں،کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ میری آپ سے صرف اتنی منت ہے کہ ایک تھوڑا سا غور کریں،یہ کام آپ غلط کررہے ہیں۔ ایسا مت کیجیے۔“زریون کو مزید جلال آگیا۔ وہ اپنی پیشانی مرشد کی پیشانی سے ملاتے ہوئے غرانے والے انداز میں بولا۔

”میں نے کہا ہے ہاتھ چھوڑ۔“خنجر کشمکش اور بے چینی کا شکار تھا۔ فیروزہ بھی پریشان نظروں سے ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ مرشد نے ایک ذرا الجھن سی محسوس کی۔ مقابل سید سرکار تھی… ایک سید زادہ تھا۔ طیش میں آنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ البتہ یہ سید زادہ جو فرمان جاری کررہا تھا مرشد کے اندر کا انسان اسے وہ تسلیم کرلینے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ سرکار کونین کے خانوادے کے اس جوان کی تعظیم بھی واجب تھی۔ وہ بس ایک ذرا الجھا‘ پھر سنجیدگی سے بولا۔

”حضور سرکار! اپنے ارادے بدل…“اس کا جملہ ابھی ادھورا تھا کہ زریون نے اچانک اس کی پیشانی میں اس زور کی ٹکر ماری کہ مرشد بے اختیار دو قدم لڑکھڑا گیا۔ ساتھ ہی زریون نے فوراً قمیص کے نیچے سے پسٹل نکالا لیکن ٹھیک اسی دوران دو دھماکے اور ایک زور دار چھناکے کی آواز بلند ہوئی… چھناکا تھا کچن کی کھڑکی کے، شیشے کے ٹوٹنے کا اور دھماکا ماﺅزر سے چلائی گئی دو گولیوں کا… زریون کی ٹکر مرشد کی زندگی بچا گئی تھی ورنہ اس کی آستین کے کپڑے سے رگڑ کھا کر گزرنے والی گولی اس کے کلیجے میں اتر چکی ہوتی… دوسری گولی زریون کے ہاتھ میں دبے پسٹل پر لگی تھی۔

پسٹل خودبخود اس کے ہاتھ سے نکل کر دو فٹ دور جاگرا۔ انگوٹھے کی جڑ کے قریب سے اس کا گوشت بھی ادھڑ گیا تھا لیکن یہ معمولی زخم تھا۔ مرشد نے فوراً ہی خود کو عقب میں صوفے کے پیچھے گرا دیا اور گرتے گرتے کچن کی کھڑکی کی طرف ایک فائر بھی کردیا… زریون بھی فیروزہ کا ہاتھ کھینچتے ہوئے ایک صوفے کی اوٹ میں بیٹھ گیا۔ خنجر پہلے ہی اپنی جگہ چھوڑ چکا تھا۔ اسے اسی بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں ڈپٹی اپنے بندوں کو لے کر پلٹ نہ آئے اور اب غالباً ایسا ہوچکا تھا۔

مرشد نے صوفے کے عقب سے جھانک کر دیکھا۔ رانا اسی جگہ گٹھڑی سی بنا پڑا تھا‘ جب کہ سامنے والے صوفے کے عقب سے اسی کی طرح زریون جھانک رہا تھا۔ پہلے اس نے اپنے پسٹل کی طرف دیکھا جو مرشد سے فٹ بھر کی دوری پر پڑا تھا‘ پھر اس کی غصیلی نظریں مرشد کی نظروں سے ٹکرائیں‘ محض چند ثانیے ان کی نظریں ملیں پھر مرشد نے ہاتھ بڑھا کر اس کاپسٹل اس کی طرف لڑھکا دیا۔ اس کی آنکھوں میں ایک ذرا استعجاب ابھرا بہرحال اس نے ہاتھ بڑھا کر پسٹل اٹھا لیا۔دوفائرز کے بعد باہر مکمل طور پر خاموشی چھاگئی تھی۔ نہ تو تیسرا فائر ہوا تھا اورنہ کوئی آواز سنائی دی تھی۔ یقینا وہ لوگ بہتر پوزیشن سنبھال رہے تھے۔ اندر گھس آنے کا رستہ بنا رہے تھے۔

”اب یہ بھی کوئی تمہارا رشتے دار ہی ہوگا؟“ زریون نے درشت لہجے میں مرشد سے کہا۔ اس کا ہاتھ خون سے رنگین ہوچکا تھا اور اب خون چھوٹی انگلی کے ناخن سے قطرہ قطرہ نیچے فرش پر ٹپک رہا تھا۔

”میرا اور آپ کا تو یہ دشمن ہی ہوگا البتہ آپ کے رانا صاحب کا سگا ہے۔“ مرشد کا لہجہ ہموار تھا۔

”یہاں یہ سب چل کیا رہا ہے؟ رانا صاحب کے ساتھ تمہاری کوئی ذاتی دشمنی ہے یا… یا فیروزہ کے پیچھے آئے ہو؟“

”دونوں ہی باتیں نہیں ہیں… میری کوئی ذاتی دشمنی بھی نہیں ہے۔“

”پھر… یہ سب ہو کیا رہا ہے؟“

”ڈیوٹی۔“

”بکواس۔“

مرشد خاموش رہا‘ اس کی تمام حسیات بیرونی جانب مرکوز تھیں۔ اگر یہ مداخلت ڈپٹی اعوان کی طرف سے ہوئی تھی تو واضح بات تھی کہ اس وقت وہ باہر اکیلا نہیں تھا۔وہ سب اس وقت لاﺅنج میں موجود تھے۔ کچن کی کھڑکی سے تو لاﺅنج کا بہت مختصر سا حصہ نشانے پر آتا تھا البتہ لاﺅنج کے دروازے کی طرف سے ہونے والی اندھی فائرنگ زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی تھی۔ 

مرشد نے نظریں گھما کر خنجر کی طرف دیکھا جو پہلے ہی منتظر نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ مرشد نے اسے آنکھوں کے اشاروں ہی سے سمجھادیا کہ فیروزہ کو لے کر فوراً اوپری منزل پر پہنچو۔ خنجر اپنی جگہ سے ہلا ہی تھا کہ لاﺅنج اچانک گھپ اندھیرے میں ڈوب گیا۔ یہ صورت حال مزید تشویش ناک تھی۔ قوی امکان اسی بات کا تھا کہ باہر سے دانستہ بجلی کا کنکشن منقطع کیا گیا ہے۔ مرشد نے دھیمے لہجے میں تیز سرگوشی کی۔

”اوپر چلو… جلدی۔“لاﺅنج کے تاریک سناٹے میں فوراً ہی کچھ حرکات کی آواز سرسرائی۔ خنجر‘ زریون اور فیروزہ تینوں ہی‘ ایک طرف کونے میں موجود سنگی زینے کی طرف بڑھے تھے اور مرشد اپنی جگہ سے سرکتا ہوا دوسرے صوفے کی طرف… جہاں رانا گٹھڑی بنا پڑا تھا لیکن جب اس نے اپنے اندازے سے رانا پر ہاتھ ڈالا تو وہ جگہ خالی تھی اس نے ادھر ادھر ٹٹولا‘ رانا سچ میں وہاں موجود نہیں تھا۔ مرشد ہونٹ بھینچ کر رہ گیا۔ رانا غالباً اندھیرا ہوتے ہی ادھر ادھر ہوگیا تھا۔اس کے ساتھی زینے تک پہنچ چکے تھے۔

ان لمحوں میں مرشد ہمہ تن گوش ہونے کی مثال بن گیا۔ اس نے پوری کوشش کی کہ اپنے اردگرد رانا کی کوئی آہٹ یا سرسراہٹ محسوس کرسکے اور پھر اسے بھی گردن سے دبوچ کر گھسیٹتا ہوا اپنے ساتھ ہی اوپر لے چلے… آنے والے لمحات میں وہ ان کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوسکتا تھا… ایک آواز ابھری… کسی کی گھگھی بندھی ہوئی تھی‘ مگر وہ رانا نہیں تھا۔وہ رانا کا ملازم لڑکا تھا جو بدستور دہشت زدہ سا اپنی جگہ بیٹھا تھا۔

اندھیرے میں آواز اور آہٹ ہی پر شکاری‘ شکار کو مار گراتا ہے۔ مرشد نے احتیاط سے ادھر ادھر کی جگہ ٹٹولی… رانا کہیں نہیں تھا ،اس نے لڑکے کے قریب ہوکر سرگوشی کی۔

”کوئی آہٹ یا آواز نہ نکالنا ورنہ کوئی اندھی گولی کھوپڑی میں آگھسے گی۔ زندہ رہنا ہے تو میرے ساتھ آ۔“اس کے بعد وہ لڑکے کو ساتھ لے کر صوفے کو ٹٹولتا ہوا جھکے جھکے انداز میں زینے کی طرف بڑھ گیا۔وہ ابھی زینے کے درمیان میں تھا کہ اوپری منزل کے کسی حصے سے دو فائر ہوئے‘ جن کے فوری جواب میں اوپری راہداری کے اس کونے سے یکے بعد دیگرے دو تین فائر کیے گئے‘ یہیں سے فیروزہ کے ساتھ ساتھ ایک اور نسوانی چیخ بھی بلند ہوئی تھی… انتہائی دل دوز چیخ!اندھیرا بہت گاڑھا تھا۔ مرشد حتی الامکان تیزی سے آگے بڑھا… راہداری میں کچھ گڑبڑ تھی… اسے بھاگتے قدموں کی آواز سنائی دی اور ساتھ ہی زریون کی پریشانی میں ڈوبی ہوئی آواز۔

”فیروزہ… فیروزہ جی! آپ ،آپ ٹھیک تو ہیں؟“فیروزہ کرا رہی تھی۔ راہداری پوری طرح تاریک نہیں تھی۔ شروع میں ہی مرشد کو تین ہیولے دکھائی دیے۔ فیروزہ راہداری کے بیچوں بیچ پڑی تڑپ رہی تھی۔ زریون اسے سنبھالنے کی کوشش کررہا تھا‘ قریب ہی ایک اور نسوانی وجود حالت نزع میں پھڑپھڑا رہا تھا اور اس کے حلق سے اعصاب شکن خرخراہٹوں کی آوازیں خارج ہورہی تھیں۔ خنجر راہداری کے درمیان میں تھا۔ اس کے ہاتھ میں شاید موم بتی تھی اور وہ تیس قدم دور راہداری کے دوسرے کونے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ادھر کونے پر شاید حملہ آور پڑا تڑپ رہا تھا اور موم بتی کے شعلے کی لرزش کی بدولت‘ راہداری میں بھرے اندھیرے کے بیچ روشنی تڑپتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی مرشد لپک کر فیروزہ کے قریب جا بیٹھا۔

”گولی لگی ہے؟“ اس نے تصدیق چاہی تھی۔

”ہاں، یہ ادھر… کندھے پر۔“ جواب زریون نے دیا۔ مرشد نے زخم کا جائزہ لیا… گولی دائیں کندھے کی ہڈی سے ایک انچ نیچے گوشت میں گھسی تھی اور اندر ہی موجود تھی۔ دوسری غالباً رانا سرفراز کی رکھیل عظمیٰ تھی۔ گولی اس کی شہ رگ ادھیڑ کر گزری تھی۔ وہ ختم ہوچکی تھی۔

”اسے فوراً اسپتال پہنچانا ہوگا۔“ مرشد نے بڑبڑانے والے انداز میں خود کلامی کی۔ یہ خود کلامی فیروزہ کے متعلق تھی۔

”یہ… یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔“ زریون مرشد پر چیخا۔ اس کا سارا نشہ ہرن ہوچکا تھا۔ وہ کسی حد تک وحشت زدہ دکھائی دے رہا تھا۔ مرشد وہاں سے اٹھ کر خنجر کی طرف بڑھ گیا‘ جو راہداری کے دوسرے کونے پر گھٹنے فرش پر ٹکائے کسی پر جھکا ہوا تھا۔ مرشد اس کے قریب پہنچا ہی تھا کہ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ نیچے فرش پر ایک تیس بتیس سالہ شخص چت پڑا تھا۔ دو گولیاں عین اس کے سینے مین اتری تھیں۔ اس کی سانس الٹ چکی تھی۔

خنجر نے اپنا پسٹل ڈب میں لگا لیا ۔ اس وقت اس کے دائیں ہاتھ میں حملہ آور کا ماﺅزر تھا اور بائیں ہاتھ میں فٹ بھر لمبی موم بتی۔ وہ تیز لہجے میں مرشد سے مخاطب ہوا۔

”جگر! یہ اکیلا ہی تھا… ہمارے پاس اب وقت بہت کم ہے‘ پولیس کسی بھی لمحے پہنچنے والی ہوگی۔ ہم لوگوں کو فوراً سے پہلے کھسک جانا چاہیے۔“

”ہے کون یہ؟“ مرشد نے ایک نظر مقتول کے چہرے پر دوڑائی۔

”جمشید… بیچارے کی موت واپس لے آئی تھی۔میرا خیال ہے یہ پائپ کے سہارے اوپر پہنچا ہے۔“ دونوں واپس پلٹ گئے۔

”اس کی بہن بھی اسی کے ہاتھوں ماری گئی۔ فیرزہ کے کندھے میں گولی لگی ہے۔“

”اسے فوراً اسپتال پہنچانا ہوگا۔“

”بس نکلتے ہیں… اس نے اچانک ہی فائر کھولا تھا۔ایک کا نشانہ فیروزہ بنی اور دوسری کا اس کی اپنی بہن… اس کی موت بھائی کے ہاتھوں ہی لکھی ہوگی… میں نے جواب میں بس یونہی اندھا دھند دو گولیاں چلائی تھیں۔ قسمت تھی کہ دونوں ٹھیک نشانے پر لگیں۔“وہ دونوں زریون اور فیروز کے قریب پہنچ گئے‘ جہاں زریون اس کے کندھے کے زخم پر اپنی ہتھیلی جمائے بیٹھا تھا۔ فیروزہ شدید تکلیف میں تھی۔

”اس کا بہت خون بہہ رہا ہے… جلدی کچھ کرو۔“ زریون کے لہجے میں اضطراب تھا۔

”اٹھیں… میں اسے اٹھاتا ہوں۔ اسے فوراً اسپتال لے کر چلتے ہیں۔“ مرشد نے جھکتے ہوئے فیروزہ کی طرف ہاتھ بڑھائے تو زریون نے اس کے ہاتھ جھٹک دیے۔

”تم ہٹ جاﺅ پیچھے۔ میں خود اٹھاﺅں گا… خود اسپتال لے کر جاﺅں گا فیروزہ جی کو۔“مرشد اور خنجر ایک دوسرے کی شکل دیکھ کر رہ گئے جبکہ زریون فوراً کراہیں بھرتی فیروزہ کو بازوﺅں میں اٹھا کر کھڑا ہوگیا۔

”چلو… جلدی کرو۔“ فیروزہ کے حوالے سے وہ سخت پریشان اور فکرمند دکھائی دے رہا تھا۔خنجر موم بتی سنبھالے سب سے آگے چل پڑا۔ اس کے پیچھے فیروزہ کو اٹھائے زریون… مرشد نے چار قدم پر کھڑے لرزتے کانپتے لڑکے کا ہاتھ تھاما اور ان سب کے پیچھے ہولیا۔

لاﺅنج سے باہر نکلتے وقت وہ سب پوری طرح چوکنے اور محتاط تھے لیکن انہیں فوراً ہی اندازہ ہوگیا کہ باہر کوئی موجود نہیں ہے۔زریون نے فیروزہ کو اپنی کار کی عقبی سیٹ پر لٹا دیا ۔ مرشد نے خنجر کو ساتھ روانہ کرنا چاہا تو زریون پھر سے بھڑک اٹھا… مرشد نے بھی خاموشی اختیار کرلی… اسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ زریون نہایت آسانی سے اور زیادہ بہتر طریقے سے پولیس اور اسپتال کے معاملات سنبھال لے گا جب کہ اس کے اور خنجر کے لیے یہ سب انتہائی زیادہ خطرناک ثابت ہوتا۔

فیروزہ کو زریون کے ساتھ اسپتال روانہ کرنے اور ملازم لڑکے کو کوٹھی سے نکال دینے کے فوراً بعد مرشد پلٹا اور کوٹھی کی عقبی سمت کی طرف بڑھ گیا۔ خنجر نے اس کی تقلید کی۔ اتنا تو وہ دیکھ ہی چکے تھے کہ اردگرد کی کوٹھیوں اور گھروں میں بتیاں روشن تھیں… ان گھروں میں بھی‘ جن میں اس وقت اندھیرا تھا جب وہ اس کوٹھی میں داخل ہوئے تھے… ایک دو کھڑکیوں میں انہیں کچھ سر بھی دکھائی دیے۔ یقینا اردگرد والے یہاں ہونے والی فائرنگ کی آوازیں سن کر تجسس اور سنسنی میں مبتلا تھےوہ دونوں عقبی طرف بڑھے تو انہیں گیٹ کی طرف گلی میں ایک سے زیادہ گاڑیوں کی آواز سنائی دی جو بالکل اسی کوٹھی کے سامنے آکر رکی تھیں۔ کم از کم دو تین گاڑیاں تو رہی ہوں گی۔

”لے جگر! پولیس پہنچ آئی۔“وہ دونوں باقاعدہ عقبی طرف دوڑ پڑے۔ بقول رانا سرفراز ،ڈپٹی اعوان اپنے اغوا سے لے کر اب تک اسی عقبی کوٹھی میں روپوش تھا۔ دونوں کوٹھیوں کی عقبی دیوار مشترکہ تھی۔ بلندی بھی کم از کم سات فٹ تو رہی ہوگی لیکن وہ دونوں بنا کسی خاص دقت کے اس دیوار کو پھلانگ کر دوسری طرف اتر گئے۔ ادھر بھی اندھیرا اور سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ فوراً احساس ہوتا تھا کہ کوٹھی خالی ہے… پھر بھی وہ دونوں کچھ دیر وہیں دیوار کے ساتھ چپک کر بیٹھے رہے۔ وہیں بیٹھے بیٹھے دونوں نے اپنے اپنے میگزین لوڈ کیے پھر اٹھ کر آگے بڑھ گئے۔ وہ اپنی طرف سے پوری طرح چوکنے تھے‘ مگر انہیں یہاں پہنچنے میں دیر ہوچکی تھی مکیں یہ مکان چھوڑ کر رخصت ہوچکے تھے۔ کوٹھی بالکل خالی پڑی تھی۔

مرشد نے کوٹھی کے سارے کمروں کی تلاشی لی‘ آثار سے صاف پتا چلتا تھا کہ اب سے پہلے تک یہاں چند لوگ موجود رہے ہیں اور کچھ دیر پہلے بہ

عجلت… افراتفری کے عالم میں یہاں سے روانہ ہوئے ہیں۔ تین کمروں کی حالت گواہ تھی کہ وہ زیر استعمال رہے ہیں۔ یہاں رہنے والوں کے استعمال کی کچھ چیزیں بھی مرشد کو ملیں‘ لیکن وہ سب بے کار تھیں۔ ان سے کوئی مدد نہیں مل سکتی تھی۔اب تک کی تمام تگ ودو فضول اور لاحاصل ثابت ہوئی تھی۔ ہنوز مرشد کے پاس حجاب کا سراغ تک نہیں تھا… ہاں البتہ اس ساری ہنگامہ آرائی سے اتنی خبر مل گئی تھی کہ وہ فی الحال چودھریوںکی دسترس سے دور ہے۔

اب وہاں مزید وقت ضائع کرنا نامناسب ہی نہیں ،خطرناک بھی تھا۔ عقبی طرف رانا سرفراز کی کوٹھی میں پولیس والے گھس آئے تھے بلکہ گلی میں کھڑی موٹر بائیک بھی ان کی نظروں میں آچکی تھی۔ باہر نکلنے کے بجائے خنجر ہاتھ پکڑ کر مرشد کو کوٹھی کی بغلی دیوار تک لے آیا… یہاں سے دونوں دیوار پھلانگ کر برابر والی کوٹھی میں داخل ہوئے اور پھر پائپ کی مدد سے چھت تک جاپہنچے۔ رانا ہاﺅس کی ساری لائٹیں روشن تھیں۔ عمارت کے اندر بھی باوردی پولیس والے موجود تھے اور باہر گلی میں بھی اور تو اور ان کے اندیشے کے عین مطابق اس عقبی گلی میں بھی تین چار سپاہی دکھائی دے رہے تھے۔

”یہ… پولیس والوں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں لگ رہی۔“خنجر کے انداز میں تفکر اور لہجے میں تعجب تھا۔

”ڈپٹی نے اپنے کسی ناجائز بچے کو ہدایات دی ہوں گی۔“ مرشد کے لہجے میں غم وغصے کا زہر تھا۔ دونوں بغور اطراف کا جائزہ لے رہے تھے۔ خود وہ جس چھت پر موجود تھے اس پر مکمل تاریکی تھی۔ اسلحہ دونوں نے اپنی اپنی ڈب میں لگا لیا تھا۔

”ا�±ن ہدایات میں پھر تمہارا ذکر تو ضرور آیا ہوگا۔“مرشد خاموش رہا‘ اس کی نظریں رانا کی کوٹھی پر جمی تھیں۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد خنجر یک دم مرشد کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔

”میرا خیال ہے کہ ہم جلد از جلد شہر سے نکل چلیں۔“مرشد نے گردن گھما کر اس کی طرف دیکھا تو وہ مزید بولا۔

”یہ جو کارروائی ہم ڈال چکے ہیں ناں! یہ بڑی دھماکے دار ہے اور یہ شہر بہت چھوٹا… مجھے تھانے کا تقریباً سارا عملہ جانتا پہچانتا ہے۔ رانا کے حلیہ بتاتے ہی میری تلاش کا عمل شروع ہوجانا ہے۔“

مرشد کا دھیان فوراً اس کے چہرے کی طرف گیا۔ قدرے لمبوترا چہرہ‘ چھوٹی اور لمبی آنکھیں، پتلی اور تیکھی ناک اور ناک کے نیچے تلوار مونچھیں… یہ چہرہ اور یہ نقوش تو جیسے بس خنجر ہی کا خاصہ تھے۔ وہ درست کہہ رہا تھا۔ اس کا حلیہ سنتے ہی اس کی شناخت ہوجاتی۔ وہ مزید بول رہا تھا۔

”پھر اس سب میں تمہارا بھی نام ہے۔ یہ حرامی رانا اور وہ سور کا پتر ڈپٹی، کبھی نہیں چاہیں گے کہ تمہیں یہاں سے نکل کر جانے دیں۔ میرا خیال ہے کہ صبح تک شاید یہاں سے نکلنے کے سارے راستوں پر ہی ناکے لگ چکے ہوں… مکان پر تو میرا خیال ہے کہ کچھ دیر تک چھاپہ پڑ جائے گا۔“

اس کے لب ولہجے میں تشویش تھی۔ وہ بے چارہ بھی مصیبت میں پھنس چکا تھا۔ مرشد اس کا کندھا تھپکتے ہوئے بولا۔

”ٹھیک ہے… چلتے ہیں، آﺅ۔“اس کے بعد وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ دو کوٹھیوں کا فاصلہ انہوں نے چھتوں پر سے طے کیا… پھر ایک کوٹھی کی دیوار پھلانگ کر باہر گلی میں پہنچے۔ یہاں سامنے ہی ایک کشادہ مگر تاریک گلی تھی‘ دونوں لپک کر اس میں داخل ہوگئے۔گلی میں دونوں طرف گھر تھے لیکن گلی سمیت سب گھر بھی خاموشی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ رات کے کم از کم بھی دو ڈھائی کا وقت تو رہا ہی ہوگا۔ مختلف گلیوں سے ہوتے ہوئے وہ روڈ کی طرف آئے ہی تھے کہ ان کا سامنا پولیس والوں سے ہوگیا۔ وہ دو تھے‘ جس گلی سے مرشد اور خنجر نکلے تھے اس کے دائیں ہاتھ کوئی دس قدم کے فاصلے پر وہ دونوں پہلے سے موجود تھے۔ ایک بائیک کی ٹیک لیے کھڑا، بیٹھا سا تھا۔ دوسرا اس کے سامنے کھڑا تھا۔ دونوں کے کندھوں پر بندوقیں جھول رہی تھیں اور ہاتھوں میں سگریٹ دبے تھے۔

انہیں اندازہ تھا کہ گلی سے نکلتے ہی انہیں دیکھ لیا گیا ہے۔ واپس گلی کی طرف پلٹنا تو نری حماقت ہوتی… دونوں فوراً بائیں ہاتھ پلٹ کر چل پڑے لیکن گڑبڑ تو ہوچکی تھی

”اوے! اوئے… ٹھہرو ذرا۔“ عقب سے انہیں تحکمانہ انداز میں پکارا گیا۔مرشد اور خنجر قدرے تاریکی میں تھے جب کہ پولیس والے ایک دکان کے باہر روشن بلب کی روشنی میں کھڑے تھے۔ وہاں سے وہ خنجر کی قمیص اور آستین پر جما ہوا خون نہیں دیکھ سکتے تھے۔

”چلو… سواری کا انتظام تو ہوگیا۔“ مرشد نے خنجر کی طرف دیکھ کر بڑبڑانے والے انداز میں کہا اور رکتے ہوئے واپس پلٹ کر دیکھا۔

”ادھر آﺅ ادھر۔“ دونوں سپاہی سیدھے ہو کھڑے ہوئے تھے۔

”تم یہیں ٹھہرو…“ مرشد نے اسی انداز میں کہا اور خود ان سپاہیوں کی طرف بڑھا۔

”ہاں جی… کیا بات ہے جی؟“

”اوہاں جی کے پتر! ادھر آ اور اسے… اوئے… تو بھی ادھر آ، اوئے!“ لہجہ مزید درشت ہوگیا۔ ساتھ ہی خنجر کو بھی آواز دی گئی تھی۔

”وہ میرا چھوٹا بھراہ ہے جی !آپ حکم کرو‘ کیوں روکا ہے ہمیں؟“مرشد ان کے سامنے جاپہنچا… ان میں جو قدرے طویل قامت تھا ،وہ مرشد کو بغور دیکھ رہا تھا۔ بندوق لاشعوری طور پر اس نے کندھے سے ہاتھ میں لے لی تھی۔ مرشد کا ڈیل ڈول تو جو تھا سو تھا‘ اس وقت اس کا چہرہ‘ آنکھ پر موجود نیل کا نشان،داڑھی اور خصوصاً مونچھیں کسی بھلے آدمی کے منہ پر ایسی مونچھوں کا تصور ذرا مشکل ہی سے کیا جاسکتا تھا۔ دونوں سپاہیوں کی آنکھوں میں تیزی سے شکوک وشبہات گہرے ہوئے لیکن مرشد کی لات نے برق کی سی تیزی دکھائی… ٹھوکر طویل قامت کی دونوں ٹانگوں کے درمیان پڑی تھی‘ اس کی چیخ حلق میں ہی گھٹ کر رہ گئی۔ وہ ڈیڑھ فٹ اچھل کر عقب میں پختہ سڑک پر گرا… دوسرے نے تڑپ کر پیچھے ہٹتے ہوئے کندھے سے رائفل اتارنا چاہی لیکن اپنی آنکھوں کے بالکل سامنے پستول کی نال کا سرد اور تاریک دہانہ دیکھ کر وہ دہشت سے پتھرا کر رہ گیا۔ اس کے دونوں ہاتھ جیسے خودبخود ہوا میں بلند ہوگئے تھے۔

 مرشد اس پہ پستول تانے کھڑا تھا لیکن اس نے گولی کے بجائے پہلے ہی کی طرح اپنی مخصوص تکنیک آزمائی اور سامنے والے کے دونوں گال غبارے کی طرح پھول گئے۔ وہ ریت کی بوری کی طرح دھڑام سے گرا تھا۔خنجر نے موقع پر پہنچتے ہی ان دونوں کی بندوقیں اٹھا کر برابر میں موجود بڑے سائز کی نالی میں پھینک دیں۔

”چل خنجر! کک مار… یہ سورمے اب کچھ دیر تک یونہی مفلوج پڑے رہیں گے۔“ مرشد نے روڈ پر دونوں طرف نظریں دوڑاتے ہوئے کہا۔ روڈ پوری طرح سنسان دکھائی دے رہا تھا۔

…٭ ٭…

وہ جو پانچ نمازوں کی پابندی تھی ،وہ ختم ہوچکی تھی۔ کبھی ایک پڑھ لی اور کبھی دو… یہ ایک دو بھی ڈھنگ سے ادا نہیں ہو پاتی تھیں۔

صبح تو وہ یونہی سوگیا تھا‘ البتہ اب ظہر کے وقت اس ڈیرے کے ایک کونے میں کچے صحن میں چادر بچھا کر نماز کی نیت باندھ کر کھڑا ہوگیا تھا‘ مگر… مسئلہ جوں کا توں تھا… دھیان نماز میں ہوتا ہی نہیں تھا۔حاضر رہتا ہی نہیں تھا۔ توجہ ویسے ہی بھٹک بھٹک جارہی تھی۔تصور میں حجاب کی شبیہہ جھلملاتی تھی تو سماعت کے ایوانوں میں اس کی آواز ایک بازگشت کی مانند ڈوب ڈوب کر ابھرتی تھی… اس نے بے چینی اور بے سکونی کی حالت میں یوں نماز ادا کی جیسے بس جان چھڑائی ہو

ڈیرے کے کنال بھر صحن کے عین وسط میں برگد کا ایک درخت تھا‘ جس کے نیچے تین چارپائیاں بچھی تھیں۔ خنجر کندھوں پر وہی سفید مخملی کپڑا اوڑھے‘ ویسے ہی بیٹھا تھا۔ شاکر کو گھر گئے ہوئے تقریباً گھنٹہ ہونے والا تھا۔ یہ ڈیرہ اسی کا تھا۔ وہ ڈسکہ شہر سے گوجرانوالہ کی طرف کوئی چھ سات کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ،رنجھائی نامی گاﺅں کا رہنے والا تھا اور یہ ڈیرہ روڈ سے تقریباً ایک کلومیٹر اندر کھیتوں میں موجود تھا دو کچے کمرے‘ ایک کوٹھری‘ دو مختصر مختصر ڈھارے اور بڑا سارا صحن… اطراف میں دور دور تک صرف کھیت تھے۔ گندم کی فصل اٹھالی گئی تھی اور نئی کاشت کے لیے کھیتوں میں ہل چلانا ابھی شروع ہی کیا گیا تھا۔شاکر جٹ سے مرشد کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ مرشد کو وہ بس ”ایویں“ ہی لگا تھا۔ خنجر اس کی طرف سے پوری طرح مطمئن تھا تو مرشد نے اس پر اکتفا کیا تھا۔ سلام پھیرنے کے بعد وہ اٹھ کر خنجر کے قریب آبیٹھا۔

”درد کی سناﺅ؟“

”ابھی تو بالکل سکون ہے… صبح بڑی تراٹیں پڑ رہی تھیں۔“ اس نے کپڑا کندھوں پر برابر کیا۔نیچے صرف شلوار تھی۔ کندھے پر گولی سے آنے والے زخم کی مرہم پٹی مرشد نے صبح اپنے ہاتھوں سے کی تھی۔ مرہم پٹی کا سامان شاکر ڈسکہ سے لے کر آیا تھا۔اس نے بتایا تھا کہ شہر میں خاصی سنسنی پھیلی ہوئی ہے۔ پولیس بھی جگہ جگہ موجود ہے۔ سننے میں آرہا ہے کہ ہیرا منڈی کے اشتہاری بدمعاش مرشد نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ رات رانا سرفراز کی کوٹھی پر دھاوا بولا اور رانا سرفراز ایم پی اے کی دوسری بیوی اور سالے کو گولیوں سے چھلنی کرکے رکھ دیا یعنی اس کے کھاتے میں دو قتل مزید ڈالے جاچکے تھے۔

”اب آگے کا کیا پروگرام ہے تمہارا؟“مرشد کے اس سوال پر خنجر نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ تکیے کی طرف متوجہ تھا۔ اس کے لہجے کی طرح اس کا چہرہ بھی سپاٹ ہی تھا۔

”میرا کیا پروگرام ہونا ہے! تمہارے ساتھ ہی ہوںجو پروگرام تمہارا ہوگا وہی میرا۔“ مرشد نے ایک ذرا ٹھٹک کر ٹیڑھی بھوﺅں کے ساتھ خنجر کی طرف دیکھا پھر تکیہ کندھوں کے پیچھے جما کر دراز ہوتے ہوئے بولا۔

”ابھی تک تسلی نہیں ہوئی تمہاری… کیوں ذلیل وخوار ہوکر مرنا چاہتے ہو۔“

”تسلی… ذلیل وخوار…“ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اتر آئی۔ ”یہ دونوں کام ہی ہوچکے ہیں… میں اب کہیں کا نہیں رہا، میرا سب کچھ غارت ہوچکا لہٰذا اب تم مجھے بھگتو… جدھر بھی منہ کرنا ہے بولو ؟میں تو اب تمہارے سر ہوں۔“

”تم اپنا سر بچالو تو اچھے رہوگے۔اگر کوئی محفوظ ٹھکانہ ہے تو بہتر‘ ورنہ میں انتظام کروا سکتا ہوں۔“

”انتظام کروا سکتے ہو تو اپنے لیے کرواﺅ۔“

”میری تو مجبوری ہے خضری! میں روپوش ہوکے‘ سکون سے ٹک کر نہیں بیٹھ سکتا۔“

”اچھا… تو تم اب آگے کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہو؟“

”افسوس کہ ڈپٹی گرفت میں آکر ہاتھ سے نکل گیا… اس وقت شاید صرف وہی جانتا ہے کہ حجاب سرکار کہاں ہیں؟ مجھے ڈپٹی کو تلاش کرنا ہے۔“

”کہاں… کیسے؟“

”کچھ لوگ ہیں جو اس کی مدد کررہے ہیں… رات جس طرح ہنگامی بنیادوں پر وہ فوری طور پر غائب ہوا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی دسترس میں کوئی متبادل انتظام تھا اور شاید… زیادہ دوری پر بھی نہیں… کوئی عجب بات نہیں کہ وہ ابھی تک ڈسکہ شہر میں ہی موجود ہو یا پھر… ہماری ہی طرح یہیں ڈسکہ کے دائیں بائیں کہیں اطمینان وسکون سے بیٹھا ولایتی کے پیگ چڑھا رہا ہو۔“

”اور اگر ڈپٹی کی تلاش کے چکر میں تم خود کہیں دھرلیے گئے تو؟“

”مجھے حجاب سرکار تک پہنچنا ہے۔“ مرشد نے اچانک خنجر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اسے مرشد کی آنکھوں میں ایک کرب انگیز اضطراب ہلکورے لیتا دکھائی دیا۔اس نے یہ جملہ کچھ اس انداز‘ اس لہجے میں ادا کیا تھا جیسے اس کا اول وآخر مقصد بس یہی ہو… جیسے اس بات کے علاوہ اسے اور کسی بات کا ہوش ہی نہ ہو۔ جیسے… جیسے وہ اور کچھ بھی سوچنے سمجھنے سے قاصر ہو… خنجر چند لمحے اس کی صورت دیکھتا رہا پھر کچھ سوچتے ہوئے بولا۔

”اگر فرض کیا جائے کہ ڈپٹی کے حوالے سے تمہارا اندازہ درست ہے تو پھر ڈسکہ میں تین چار بندے ایسے ہیں جو ڈپٹی کی ٹوہ لگا سکتے ہیں ایک سجن اپنا تھانے میں بھی ہے۔ بڑا ستھرا بندہ ہے لیکن… مسئلہ ہے اس وقت ان سے رابطے واسطے کا۔“ خنجر نے ایک ذرا توقف کیا‘ پھر سر ہلاتے ہوئے بولا۔

”خیر… شاکر آجائے ،کوئی جگاڑ کرتے ہیں۔“شاکر مزید آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعد دوپہر کا کھانا لے کر وہاں پہنچا۔دیسی گھی میں بھنی ہوئی دیسی مرغی… تندور کی گرما گرم روٹیاں‘ آم کا اچار اور بالٹی بھر چاٹی کی لسی… تینوں ایک ہی چارپائی پر اکٹھے ہو بیٹھے ۔کھانے کے دوران ہی خنجر نے شاکر سے کہا۔

”شاکرے! بابر سے ملاقات کرسکتا ہے؟“

”بابر؟“ شاکر نے ایک بوٹی بھنبھوڑتے ہوئے مستفسرانہ نظروں سے اسے گھورا۔

”بابر بندوق… دیگوں والا۔“

”آں‘ اچھا… ابھی شام کو جانا ہے مجھے ڈسکہ۔ مل لوں گا‘ خیریت؟“

”میرا ایک پیغام پہنچا دے اس تک۔“

”کیا؟“

”اسے کہنا کہ مجھے کوٹلی سیداں والے قبرستان میں ملے… جتنی جلدی ہوسکے۔“

”کب ملے؟“

”ٹائم اس سے پوچھ کے آکے مجھے بتانا کہ وہ کس وقت قبرستان پہنچے گا۔“

”ٹھیک ہے اور کچھ؟“

”نہیں… بس یہ پیغام اس تک پہنچا۔“

”کچھ منگوانا ہو… کوئی دوا دارو یا کوئی اور چیز؟“

”کیوں مرشد؟“ خنجر نے مرشد کی طرف دیکھا‘ وہ اپنے آپ میں گم صم سا بیٹھا کھانا کھا رہا تھا۔ اس نے جیسے ان دونوں کی کوئی ایک بات بھی نہیں سنی تھی۔

”کیا؟“

”کہاں پہنچے ہوئے ہو… ڈسکہ سے منگوانا ہے کچھ؟“

”نہیں… مجھے کچھ نہیں چاہیے۔“خنجر، شاکر کو رانا ہاﺅس والے معرکے کا بتاچکا تھا۔عظمیٰ اور جمشید کے قتل کا بھی اس نے بتایا تھا‘ لیکن شاکر کو ابھی اس نے مکمل تفصیل اور اس سب کے پس منظر میں موجود کہانی کے متعلق کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔ شاکر نے بھی خود سے اسے کریدنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ بس کسی کسی وقت وہ مرشد کو بغور اور ٹٹولتی ہوئی نظروں سے دیکھ کر رہ جاتا تھا۔

”یہاں سے نندی پور کا فاصلہ کتنا ہوگا؟“کھانے کے بعد خنجر نے دوسری چارپائی پر سرکتے ہوئے سرسری سے انداز میں شاکر سے سوال کیا… مرشد کا ذہن خودبخود حاضر ہوا۔

”یہی‘ کوئی… چار پانچ کلومیٹر۔“ شاکر برتن سمیٹنے لگا۔

”کچھ عرصہ پہلے ادھر جو پھڈا فساد ہوا تھا اس کا کوئی فیصلہ شیسلہ ہوا یا نہیں ابھی؟“

شاکر نے بے ساختہ ایک گہری سانس لی۔

”فیصلہ شیسلہ کیا ہونا تھا… جو ہونا تھا ہو گزرا‘ بس قصہ ختم۔“

”کیا مطلب قصہ ختم؟ قاتل گرفتار نہیں ہوئے کیا؟“

”ہوں نہ ہوں‘ جو قتل ہوگئے انہیں کیا فرق پڑتا ہے کسی کے گرفتار ہونے سے یا کسی کے رہا ہونے سے‘ آزاد رہنے سے۔“شاکر نے برتن سمیٹ کر تیسری چارپائی پر منتقل کیے اور خنجر کے برابر ہی چارپائی پر ٹک گیا۔ برگد کے اوپر پرندے پھدک رہے تھے۔ ان کی چہکاریں تھیں اور نیچے ٹھنڈی چھاﺅں میں وہ تینوں بیٹھے تھے۔

”کتنے قتل ہوئے تھے بھلا؟“ خنجر نے ایک اور سوال اٹھایا۔

”منظر عام پر تو سات آٹھ لاشیں آئی تھیں۔ کون جانے کتنی لاشوں کا کسی کو پتا ہی نہ چلا ہو… بڑی بھیانک رات تھی وہ۔ خدا معاف کرے بس۔“ شاکر نے بے اختیار ہاتھ کانوں کو لگائے۔

”کچھ پتا چلا کہ اصل کہانی تھی کیا؟“

”طرح طرح کی باتیں اور کہانیاں چل رہی ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ زیادتی چودھریوں کی ہے اور پہل بھی انہی کی طرف سے ہوئی تھی۔“ شاکر نے راز دارانہ انداز اختیار کرلیا۔

”اس روز صبح اذان سے پہلے چودھری فرزند خود شاہوں کے گھر گھسا تھا۔اس کے ساتھ آدھی درجن مسلح شکرے تھے۔ وڈی بی بی کو زخمی کرکے وہ گھر میں ہی پھینک گئے اور چھوٹی بی بی کو چودھری فرزند بالوں سے گھسیٹتا ہوا پہلے باہر گلی میں لے کر آیا‘ پھر اسے گاڑی میں ڈال کر حویلی لے گیا… تب سے اب تک چھوٹی بی بی کو کسی نے نہیں دیکھا۔ ان کے متعلق بھی بس رنگ برنگی باتیں ہی سننے کو ملتی ہیں۔“

”تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو کہ یہی بات سچ ہے جو تم بتارہے ہو؟“ مرشد نے سنجیدگی سے دریافت کیا۔شاکر نے پہلے باری باری دونوں کی صورتیں دیکھیں پھر مرشد کی طرف قدرے جھکتے ہوئے بولا۔

”میں یقین سے اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میرا چاچا اس سارے واقعے کا چشم دید گواہ ہے اس نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے!“

مرشد اور خنجر دونوں چونک پڑے۔ شاکر بول رہا تھا۔

”شاہوں کے گھر کے بالکل سامنے میرے چاچا کا گھر ہے۔ جس صبح یہ سب ہوا‘ چاچا نے اپنے دروازے سے سب کچھ دیکھا۔ اس روز اذان سے پہلے وڈے شاہ جی نے مسجد کے اسپیکر سے چودھریوں کے ساتھ بات کی تھی۔ بہت سے لوگوں کو اصل حقیقت کا سارا پتا ہے لیکن… چودھری بڑی طاقت اور پہنچ رکھتے ہیں جی! ان کے ساتھ پنگا لینا‘ مطلب اپنے گھر کو تباہی بربادی کے حوالے کرنا… اپنی حرام موت کا آپ انتظام کرنا ہے۔“ شاکر بول رہا تھا اور مرشد کے وجود کو جیسے کوئی نادیدہ آگ لمحہ بہ لمحہ اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی۔گزشتہ کچھ مختصر سے عرصے میں اس کی اپنی زندگی کیسے بھونچال سے گزری تھی۔ سب کچھ تلپٹ ہوچکا تھا۔ وہ اپنے کچھ عزیزوں کو تو ہمیشہ کے لیے کھوچکا تھا۔ خود ایک اشتہاری مجرم بن چکا تھا۔ چودھریوں نے ایسا اندھیر مچا رکھا تھا کہ ان کا ظلم یہاں سے سفر کرتا ہوا لاہور کے بازار حسن اور تھانے تک پھیل چکا تھا۔ شاید وہ اس سب سے بھی کہیں زیادہ قدرت اور اختیار رکھتے تھے۔ لوگ ان سے پنگا لینے کا سوچنے کی بھی جرات نہیں رکھتے تھے،یہ مرشد ہی تھا جس نے اپنی ماں کے کہنے پر بغیر سوچے،بے دھڑک ان کو متھا دیا تھا۔ اب بھی اس نے شاکر سے سیدھا صاف سوال کیا۔

”کیا نام ہے چاچا جی کا؟“

”نذیر… نذیر جٹ۔“

”بیٹھک ہے اس کے گھر میں؟“

”بیٹھک… ہاں جی !ہے۔“ شاکر نے متذبذب سے انداز میں ان دونوں کی صورت دیکھی۔

”چاچے کے ساتھ تمہاری کیسی علیک سلیک ہے؟“

”ول ہے… اکٹھے بیٹھ کر سگریٹ پانی کرلیتے ہیں ہم۔“ شاکر دھیرے سے مسکرایا۔

”بس پھر… ہمیں وہ بیٹھک دکھانے کا انتظام کرو۔“

”چاچا کی بیٹھک… کوئی مسئلہ نہیں، جب کہو گے چل پڑیں گے۔ یہ تو کھڑا ہے نندی پور۔“ شاکر نے بے فکری سے کہا۔ خنجر مرشد کی سنجیدہ صورت دیکھ کر رہ گیا۔ اس کے اندر کہیں تشویش بھی کسمسائی تھی۔ شاکر کو معلوم نہیں تھا مگر خنجر تو الف سے بے تک سب کچھ جانتا تھا نندی پور جانا مرشد کے لیے ہر لحاظ سے خطرناک تھا۔ خنجر کو مرشد کی ذہنی اور جذباتی حالت کا کافی حد تک اندازہ تھا۔ وہ مرشد سے کسی بھی انتہائی قدم کی توقع کرسکتا تھا۔ ایسے میں اس کا نندی پور جانا اور بھی زیادہ تشویش کی بات تھی۔ وہ یہ بھی اچھی طرح جانتا تھا کہ مرشد نے کرنی اپنی ہی مرضی ہے۔

”بس پھر آج شام ہی چلو۔ مغرب کے بعد۔“

”ٹھیک ہے… میں پھر شہر کا چکر ابھی لگا آتا ہوں۔ شام کا روٹی ٹکر آج چاچا کی طرف ہی کرتے ہیں۔“ اس کے بعد شاکر برتن اٹھا کر ڈیرے سے چلا گیا۔

”نندی پور جانے کی کیا ضرورت ہے؟“

”یہیں پڑا رہوں؟“ مرشد نے الٹا سوال داغ دیا۔ اس کا موڈ رات سے کچھ زیادہ ہی بگڑا ہوا تھا۔ خنجر خاموش ہورہا۔ کچھ دیر تک ان کے سروں پر صرف پرندوں کی مختلف آوازیں گونجتی رہیں‘ پھر مرشد کی نرم آواز ابھری۔

”تم یہیں آرام کرو… میں لوٹ آﺅں گا۔“خنجر خاموش رہا… مرشد بھی اپنے اندر کے بھنور میں اتر گیا۔

شاکر کے چاچا نذیر کی بیٹھک سے اسے بھلا کیا دل چسپی ہونی تھی… دل چسپی کی بات تو یہ تھی کہ اس بیٹھک کے عین سامنےاس دنیا کی سب سے انمول اور نرالی عمارت تھی… وہ چار دیواری تھی جس کے حصار میں اس کی حجاب سرکار نے اپنی اب تک کی ساری زندگی بتائی تھی۔ ان درو بام نے، انہیں پروان چڑھتے دیکھا تھا… قدم قدم چلتے اور بھاگتے دوڑتے دیکھا تھا… وہ گھر حجاب سرکار کا تھا۔ اس گھر کو سرکار سے نسبت تھی۔ وہ مرشد کے نزدیک ایک غیر معمولی گھر تھا۔ اس کے دل میں خودبخود ان درودیوار کو دیکھنے کی تڑپ پیدا ہوگئی تھی!

شاکر مغرب کی اذانوں کے ساتھ ڈیرے پر پہنچا اور اذانوں کے پندرہ منٹ بعد وہ تینوں شاکر کی بائیک پر نندی پور کی طرف روانہ ہوگئے۔بات تو ایسی کوئی خاص نہ تھی پھر بھی جیسے جیسے سفر طے ہوتا گیا‘ مرشد کی دھڑکنوں کی لے ،تال میں خودبخود ایک تغیر رونما ہوتا چلا گیا۔ صرف ایک خیال تھا۔ وہ حجاب سرکار کے گاﺅں کی طرف بڑھ رہا ہے ان کے گھر کی طرف جارہا ہے اور لمحہ بہ لمحہ قریب ہوتا جارہا ہے۔اس کی داخلی کیفیات نے اس کے نزدیک اس چند کلومیٹر کے فاصلے کو جیسے ایک روحانی سفر میں بدل دیا تھا اسے محسوس ہورہا تھا جیسے وہ کسی مقدس مقام‘ کسی پوتر استھان کی ا�±ور بڑھ رہا ہے۔ دل ودماغ میں خودبخود جیسے ایک الوہی اطمینان‘ الوہی سکون اترتا چلا گیا۔

پھرجس وقت شاکر نے بائیک اپنے چاچا کے دروازے پر روکی اس وقت اندھیرا پوری طرح پھیل چکا تھا۔ مرشد کی تمام حسیات ان لمحوں جیسے اس کی آنکھوں میں سمٹ آئی تھیں۔ اس کی نظریں سامنے والے مکان کی کچی اور اونچی دیواروں پر جم کر رہ گئیں گاﺅں کے ہر گھر میں روشنی تھی۔ آوازیں تھیں… روشنیوں اور آوازوں سے بھرے ان گھروں کے بیچ یہ واحد گھر تھا جو اندھیرے اور خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا ایک یاس انگیز ویرانی اور سناٹا اس گھر کے درو دیوار سے پھوٹتا ہوا محسوس ہوتا تھا

شاکر نے اندر جاکر بیٹھک کا دروازہ کھول دیا تھا۔ خنجر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو دونوں پلٹ کر بیٹھک میں داخل ہوگئے۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی دائیں بائیں‘ دونوں دیواروں کے ساتھ ایک ایک پلنگ بچھا تھا اور درمیان میں ایک میز دھری تھی۔ سامنے کی طرف بید سے بنی ہوئی تین کرسیاں رکھی تھیں۔ مرشد آگے بڑھ کر ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ حجاب سرکار کے گھر کی دیوار اس کی نظروں کے سامنے تھی۔ دیوار کے اس پار‘ سرکار کے صحن میں لگے درخت کی جھلک دیوار کے اوپر سے دکھائی دیتی تھی۔ اندھیرے اور سناٹے میں خاموش‘ ساکت اور سوگوار کھڑا یہ درخت بھی جیسے اس گھر کے معزز مکینوں پر گزرنے والی المناک قیامت پر نوحہ کناں تھا۔

خنجر پلنگ پر ٹک گیا تو شاکر بیٹھک کا دروازہ بند کرنے لگا۔

”کیا ہوا… دروازہ کیوں بند کررہے ہو؟“مرشد کے سوال پر شاکر ٹھٹک گیا۔

”وہ… چاچا آرہا ہے۔“

”تو پھر؟“

”اصل میں چاچے نے کچھ انتظام کر رکھا تھا۔ بیٹھ کر ماحول بناتے ہیں۔“

”دروازہ کھلا رہنے سے کیا مسئلہ ہوگا؟“

”گاﺅں ہے ناں جی! لوگ آتے جاتے جھانکتے ہیں اور… پھر آپ لوگوں کو بھی تو زیادہ نظروں میں نہیں آنا چاہیے۔“

”ہاں ٹھیک ہے۔“ خنجر نے مرشد کی طرف دیکھتے ہوئے تفہیمی انداز میں سر ہلایا۔ ”فی الحال ایسے ہی بیٹھتے ہیں‘ بعد میں پھر دروازہ کھول لیں گے۔“

”بالکل ذرا رات ہونے دیں‘ پھر سکون سے دروازہ کھول کر بیٹھے رہیں گے۔“شاکر نے فوراً خنجر کی ہاں میں ہاں ملائی اور دروازے کی زنجیر چڑھادی۔ اس کے بعد اس نے چھت والا پنکھا آن کیا اور دوسرے کونے میں موجود صحن والے دروازے سے باہر نکل گیا۔

یہ ایک عام سا دیہاتی طرز کا کمرہ تھا۔ دو دیواروں کے اندر ہی شیلف بنے ہوئے تھے۔ ایک طرف بان کے کچھ گچھے اور گولے رکھے گئے تھے تو دوسری طرف پیتل کی کچھ کٹوریاں اور ہاتھ برابر کے گلاس۔ پہلے ایک شرمیلا سا نو عمر لڑکا اندر آیا اور میز پر جگ اور جستی گلاس دھرگیا۔ پھر شاکر آیا‘ اس کے ایک ہاتھ میں نمکو سے بھرا کٹورا تھا اور دوسرے میں اسٹیل کا ڈھکن والا جگ۔ وہ خاصا کھلا کھلا دکھائی دے رہا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد ایک درمیانے قد کا چالیس پینتالیس سالہ شخص اندر داخل ہوا۔ گہری سانولی رنگت‘ خشخشی داڑھی‘ وجود پر میلا سا دھوتی کرتا اور چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ‘ اندر آتے ہی اس نے مرشد اور خنجر سے یوں خیر خیریت دریافت کی جیسے پہلے سے انہیں جانتا ہو۔ چند منٹ میں ہی مرشد کو اندازہ ہوگیا کہ وہ بے تکلف طبیعت کا ایک من موجی سا شخص ہے۔شاکر اتنے میں چار گلاس تیار کرچکا تھا۔ پہلا گلاس اس نے خوش دلی سے اٹھا کر اپنے چاچا کی طرف بڑھایا۔

”لے چاچا! محفل کا افتتاح کر۔“

”اوئے کھوتیا! پہلے مہمانوں کے اگے پیش کرتے ہیں۔“اس نے شاکر کے ہاتھ سے گلاس پکڑا اور مسکراتے ہوئے مرشد کی طرف بڑھادیا۔

”لو باﺅ جی! سنبھالو میں شاکر سے پہلے ہی پچھ چکا ہوں کہ آپ دونوں بھی کھانے پینے والے بندے ہو۔ گھٹ لگاﺅ گئے تو طبیعت نکھر جائے گی… پہلے پور کی دیسی ہے۔“

مرشد نے گلاس پکڑ لیا… شاکر نے خنجر کو گلاس دینے کے بعد چاچا کی طرف گلاس بڑھایا تو مرشد نے اپنا گلاس اس کے سامنے میز پر رکھ دیا… وہ ایک ہی سانس میں غٹک گیا تھا۔ شاکر اور چاچا دونوں کو جیسے کرنٹ لگا‘ انہوں نے ایک ساتھ چونک کر اس کی طرف دیکھا۔

”او باﺅ جی! اتنا غصہ؟“ چاچا حقیقی تعجب کا شکار ہوا تھا۔ مرشد مسکراتے ہوئے بولا۔

”ٹھنڈی زیادہ ہے چاچا! اسے تھوڑا ابال لاﺅ۔“

”اچھا…“ چاچا نے بھنویں اٹھا کر اسے دیکھا۔ ”بلے بھئی بلے… لگتا ہے کلیجے میں کوئی بھانبھڑ ہے باﺅ کے۔“ آخری جملہ اس نے شاکر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”دے… ذرا تگڑا سا بنا کردے باﺅ کو۔“ خود اس نے بھی ایک ہی سانس میں گلاس خالی کیا اور فوراً کٹورے سے نمکو کی مٹھی بھر کر منہ میں ڈال لی۔

”آپ لوگ مسوس نہ کرنا ہم چاچا بھتیجے کے درمیان یاری کا رشتہ بھی ہے۔“

”ہاں جی! شاکر نے ذکر کیا تھا، اسی لیے تو ہم لوگ آپ سے ملنے چلے آئے۔“ خنجر نے خوش اخلاقی سے کہا۔

”بہت چنگا کیتا آپ نے۔ لہور میں کس جگہ رہتے ہیں آپ؟“

”سارا لہور ہی اپنا ہے جی!“

‘”کاروبار وغیرہ کرتے ہیں؟“

”پراپرٹی کا لین دین کرتے ہیں ۔آپ نے کوئی زمین وغیرہ بیچنی یا خریدنی ہو تو ہمیں بتائیے گا۔“

”زمین تو اپنی ہے لیکن بیچنے کاکوئی ارادہ نئیں۔ ہاں… یہاں ایک سجن ہے اپنا۔ فضل آرائیں‘ وہ دو بیگے بیچنے کا ارادہ رکھتا ہے… نہر کے ساتھ ہی پڑاہے رقبہ۔ آپ کہیں توسویرے ہی ملاقات کرا دیتا ہوں اس کے ساتھ۔“

شاکر نے دوبارہ گلاس سب کے سامنے سرکا دیئے۔ مرشد گلاس اٹھاتے ہوئے بولا۔

”یہ… ایک مکان آپ کے گھر کے سامنے بھی ہم نے دیکھا ہے ۔ویران لگتا ہے یہ بکاﺅ ہے کیا؟“

مرشد اور خنجر نے واضح طور پر دیکھا‘ نذیر جٹ کے چہرے پر فوراً ایک سایہ سا لہرا گیا۔ اس کی آنکھوں میں ایک دکھ اور تاسف کا رنگ آٹھہرا تھا۔

”ٹھیک کہا آپ نے اور ٹھیک دیکھا ہے… یہ گھر ویران ہی پڑا ہے لیکن بکاﺅ نئیں ہے بیچنے والا ہی کوئی نئیں… اس کے مالک اب یہاں نئیں ہیں۔“

٭ ٭ ٭                                                                    

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے