مرشد (عشق جس کو وراثت میں ملا تھا) قسط نمبر11

قدم قدم ہنگاموں اور حادثوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے عشق کی رودادِ دل گداز

اُس نے نزہت جہاں بیگم کے کوٹھے پر آنکھ کھولی، مسلے مرجھائے گجرے، باسی پھول اور گھنگرو اس کے کھلونے بنے، بدمعاشوں کی دنیا نے اسے مرشد مانا اور پھر…… وہ کسی کا مرید ہو گیا

مرشد

شاہی محلے کا نمازی بدمعاش جس نے سرکار سے عشق کیا اور عشق کی مریدی

best novel murshid by sahir jameel syed, action adventure
Urdu Novel Murshid

سوچ بچار میں ضائع کرنے کے لیے مرشد کے پاس زیادہ وقت نہیں تھا۔ یہ فورا ًفیصلے اور عمل کی گھڑیاں تھیں‘پھر ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح اس کے دماغ میں چمکا تو وہ فوراً ہی اس پر عمل درآمد کی نیت سے حرکت میں آ گیا۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کی صورت وہ اس کو ٹھڑی سے باہر نکل جائے گا۔

اس نے فوراً ہی دروازے کے پٹ لپیٹے ہوئے اندر سے زنجیر چڑھائی اور رائفل بردار کے مردہ وجود کو پھلانگتا ہوا فرش پر بچھے بستر تک پہنچ گیا۔ پستول ڈب میں لگاتے ہوئے اس نے قمیض پہنی اور سیون ایم ایم رائفل اٹھاتا ہوا عقبی دیوار میں موجود کھڑکی کے قریب چلا آیا۔ اس کے بعد اس نے رائفل سیدھی کی اور کھڑکی کے نچلے حصے پر فائر کھول دیا۔ توقع کے عین مطابق مٹی کے ساتھ ساتھ لکڑی کے بھی چیتھڑے اڑے اور مضبوط سلاخوں کی جڑیں ظاہر ہو آئیں۔ باہر سے بھی دو تین شاٹ چلائے گئے جو کمرے کے دروازے میں سوراخ کھولتے ہوئے ایک طرف دیوار میں دھنس گئے۔سلاخوں کے نچلے سرے نکل آنے کے بعد مرشد کو دو تین سلاخیں کھینچ کر اس چوکھٹے میں سے نکالنے میں چنداں دقت نہیں ہوئی۔

 اگلے چند ہی لمحوں میں وہ دوسری طرف پہنچ چکا تھا۔ یہ ڈیرے کے کمروں کا عقبی حصہ تھا۔ سامنے ہی دوچار قدم کے فاصلے پر ڈیرے کے احاطے کی عقبی دیوار تھی۔ اس دیوار کے باعث یہ حصہ ایک طویل راہداری کی صورت اختیارِکیے ہوئے تھا۔ یہاں بے تحاشا خود رو گھاس تھی۔ دیوار کے ساتھ ساتھ سرکنڈوں کی جھاڑیاں تھیںاور آک کے بلند قامت پودے تھے۔ اس راہداری میں اترتے ہی اس کے ننگے پاﺅں تازہ کیچڑ میں لتھڑ گئے۔

ایک دفعہ تو اس کے دل میں آئی کہ دیوار پھلانگے اور جلد از جلد اس جگہ سے دور نکل جائے لیکن فوراًہی اس نے اس خیال کو جھٹک دیا۔ اسے معلوم تھا کہ جب تک یہ لوگ اور ان کے آقا زندہ ہیں تب تک اس کا پیچھا کیا جاتا رہے گاحجاب سرکار غیر محفوظ رہیں گی اور یہ سب مل کر اس کے ساتھیوں کی طرح، نجانے اورکتنے لوگوں کو موت کی نیند سلاتے رہیں گے شریف اور کمزور لوگوں کے گھروں کو اجاڑتے رہیں گے۔

وہ اس راہداری میں دائیں ہاتھ آگے بڑھنے کا ارادہ کر رہا تھا کہ یکے بعد دیگرے دو چھوٹے برسٹ چلنے کی آواز سنائی دی‘ساتھ ہی لکڑی ٹوٹنے کی دوسری طرف سے دشمن کوٹھڑی کے دروازے تک پہنچ آئے تھے۔ ایک بلند اور بھاری آواز کوٹھڑی کے دروازے کے اس طرف سے بلند ہوئی۔

”مرشدے!ہتھیار پھینک کر باہر آجا۔ہم تجھے مارنے نہیں آئے‘لیکن اگر تو باہر نہیں آیا تو فیر ہم اس کو ٹھڑی میں ہی تجھے چھاننی کر دیں گے۔“مرشد نے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا۔دروازے کا ایک پٹ کھلا ہوا تھا۔ زنجیر والی جگہ سوراخ دکھائی دے رہا تھا۔ یقینا وہ دروازے کے ساتھ والی دیوار کی اوٹ میں موجود تھے اور سمجھ رہے تھے کہ مرشد ابھی تک کوٹھڑی کے اند ہی دبکا بیٹھا ہے۔ مرشد تو نہیں البتہ منظوراں اپنی جگہ دیوار کے ساتھ ہی نیچے بیٹھ چکی تھی۔ وہ لرز رہی تھی اور کپکپا تے ہونٹوں کے ساتھ نجانے کیا بدبدا رہی تھی۔

”ہمیں پتہ ہے مرشدے!اندر تو ہے اور منجوراں ہے۔ تیرے واسطے یہی چنگا ہو گا کہ تو دونوں ہتھ سر پر رکھ کر سیدھی طرح باہر آ جا۔“ ایک بار پھر پکار کر کہا گیا۔ مرشد کوئی جواب دینے کی بجائے بائیں ہاتھ بڑھ گیا۔ ادھر محض آٹھ دس قدم کے فاصلے پر عقبی دیوار ایک کمرے کے ساتھ متصل تھی۔اس دیوار کے سہارے وہ چھت تک پہنچ سکتا تھا۔ پسٹل اس کی ڈب میں موجود تھااور طاقتور سیون ایم ایم اس کے ہاتھوں میں۔اسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ ان دو ہتھیاروں اور ان کی محدود گولیوں کے ساتھ وہ زیادہ دیر مقابلہ بازی کا متحمل نہیں ہو سکے گا اور مقابلہ وہ کرنا بھی نہیں چاہتاتھا وہ تو شکار کرنا چاہتا تھاسوچ سمجھ کر پوری احتیاط اور تحمل کے ساتھ

دیوار کے نزدیک پہنچ کر رائفل اس نے کندھے سے لٹکائی اور باآسانی دیوار کے اوپر پہنچ گیا۔دیوار سے چھت پر پہنچنے میں بھی اسے کوئی خاص

دشواری پیش نہیں آئی‘سوائے اس کے کہ اس کے ہاتھ گیلی مٹی سے لتھڑ گئے‘جو اس نے شلوار کے ساتھ رگڑ کر صاف کر لئے۔ آسمان اب بھی ابرآلود تھا۔البتہ اب بارش کے امکانات محسوس نہیں ہو رہے تھے۔ اس کے اندازے کے عین مطابق اس ڈیرے کے چاروں طرف دوردور تک کھیت پھیلے ہوئے تھے۔ مشرق کی طرف کافی فاصلے پر موجوددرختوںکی طویل قطار تھی اور اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ قطار کسی نہر کی پٹڑی پر موجود ہے۔ نہر سے آگے مزید دو تین فرلانگ کے فاصلے پر کسی آبادی کے آثار معلوم ہوتے تھے۔ شمالی طرف بھی تقریباًتین فرلانگ دور کھیتوں کے بالکل درمیان ایک دو ڈھارے‘کوٹھے اپنی جھلک دکھا رہے تھے۔ شاید وہ بھی کوئی ڈیرہ ہی تھا۔مرشد نے رائفل دوبارہ سنبھالی اور دبے قدموں جھکے جھکے انداز میں چلتا ہوا سامنے کے رخ بڑھ گیا۔ یہاں سے اسے ایک جیپ کی جھلک بھی دکھائی دی تھی‘جو ڈیرے کے سامنے قدرے فاصلے پر کھڑی تھی۔ یقینا یہ چاروں اسی جیپ پر یہاں تک پہنچے تھے۔

ڈیرے کا کشادہ صحن پوری طرح خالی اور سنسان تھا۔ منڈیر کے قریب ہوتے ہوئے مرشد نے رائفل سیدھی کر لی‘وہ پوری طرح محتاط اور چوکناتھا۔ منڈیر سے جھانک کر دیکھنے پر اسے دوافراد نظر آئے۔ وہ کوٹھری کی دیوار کے ساتھ چپکے کھڑے تھے۔جو دروازے کے قریب تھا‘ وہ کسی بھی لمحے دروازے کے سامنے ہوتے ہوئے فائر کھولنے والاتھا۔ پھر شاید اسے کسی گڑبڑ کا احساس ہوا‘اگلے ہی پل اس نے سر اٹھا کر اوپر کی طرف دیکھا‘یہ پتھر کی آنکھ والا حکم داد تھا۔ ایک لمحے صرف ایک لمحے کے لیے اس کی اور مرشد کی آنکھیں آپس میں ملیں اور اس سے پہلے کہ وہ یا اس کا ساتھی کوئی حرکت کرتے،مرشد نے یکے بعد دیگرے دو فائر ِکیے۔ خاموش فضا دو خوفناک دھماکوں سے لرز کر رہ گئی۔ حکم داد شاید مرشد کے چہرے پر‘ اس کی آنکھوں میں ملک الموت کو دیکھ چکا تھا۔ وہ تو فوراًسے بیشتر غڑاپ سے کوٹھری کے دروازے سے اندر چلا گیا۔ البتہ اس کے ساتھی کا وقت پورا ہو چکا تھا۔ گولی اس کے سر کی ہڈی توڑتی ہوئی کھوپڑی میں اتری اور حلق پھاڑتی ہوئی نیچے گیلی زمین میں دھنس گئی۔

فائرکرتے ہی مرشد چند قدم پیچھے ہٹ گیا اور یہ اس کی زندگی کے حق میں بہتر ثابت ہوا۔حکم داد نے اندر سے برسٹ چلا یا تھا‘ جو سرکنڈوں سے بنی چھت میں کئی سوراخ کر گیا تھااسی وقت مرشد کی نظر دو جیپوں پر پڑی‘جو نہر کی طرف سے اس ڈیرے کی طرف آ نے والے کچے راستے کی طرف مڑ رہی تھیں۔مرشد دبے قدموں پیچھے ہٹتا چلا گیا۔آنے والی جیپوں میں حکم داد کے مزید ساتھی ہو سکتے تھے یاپھر فوجی گروپ ملنگی لوگ دونوں صورتوں میں ہی مرشد کے لیے خطرہ بڑھ جانا تھا۔وہ پیچھے ہٹتے ہوئے منڈیر کے قریب اسی جگہ پہنچ گیا جہاں سے وہ چھت پر چڑھا تھا۔حکم داد کوٹھڑی کے اندر سے پاگلوں کی طرح گولیاں چلا رہا تھا‘پوری چھت میں سوراخ نمودار ہو رہے تھے۔

مرشد پہلے دیوار پر اترا اور وہاں سے عقبی کھیت میں کود گیا۔ اب مزید یہاں رکنا کسی طور بھی مناسب نہیں تھا۔وہ سامنے موجود مکئی کے کھیتوں کی طرف دوڑ پڑا۔ مکئی کی قد آدم فصل میں گھستے ہی وہ مکمل طور پر اوجھل ہو گیا لیکن رکا نہیں،بلکہ حتی الامکان تیزی سے آگے بڑھتا چلا گیا۔اسے اب جلد از جلد یہاں سے دور نکلنا تھا۔ اس کے نزدیک سب سے اہم بات تھی‘حجاب سرکار کی تلاش اور حفاظت و مدد حکم داد یا ملنگی لوگوں کے ساتھ تو بعد میں بھی حساب کتاب چکائے جا سکتے تھے۔

کھیت کی مٹی پوری طرح کیچڑ میں بدلی ہوئی تھی۔پودے نم آلود تھے۔اندر حبس تھا لیکن اسے کوئی پروا نہیں تھی۔ وہ اس کھیت کی دوسری طرف پہنچا تو اس کے بالکل سامنے ایک پگڈنڈی تھی جو سیدھی ان ڈھادوں‘کوٹھوں کی طرف جاتی تھی جو کچھ دیر پہلے اس نے چھت پر سے دیکھے تھے۔وہ اسی سمت دوڑ پڑا‘قریب پہنچنے پر اسے اندازہ ہوا کہ یہ کوئی گھر نہیں ہے۔ دو کچے کمروں اور مختصر سی چاردیواری پر مشتمل وہ عمارت بھی ڈیرہ نما ہی تھی۔ یہاں مکمل خاموشی تھی۔ کسی کی موجودگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ حتیٰ کہ کوئی جانور وغیرہ بھی یہاں نہیں تھا۔ اس نے چھوٹی سی دیوار کے اوپر سے

جھانک کر دیکھا‘ اندر سناٹے اور ویرانی کا راج تھا۔

وہ کترا کر آگے بڑھ جانے کا ارادہ رکھتا تھاکہ صحن کے دائیں کونے میں بنے چھپر کے نیچے کھڑی ایک موٹر بائیک پر نظر پڑتے ہی وہ چونک گیا۔ بائیک کے ٹائرز کیچڑ آلود تھے۔ یعنی یہ جگہ مکمل طور پر خالی نہیں تھی۔ کوئی یہاں موجود تھا۔ مرشد دائیں طرف کونے میں موجود اس چاردیواری کے اس خلا کی طرف بڑھ گیا جو داخلی رستہ تھا۔ ادھرسے تقریباًچارفٹ کا ایک کچا راستہ نہر کی طرف نکلتا تھااور اس پر موٹر بائیک کے پہیوں کے تازہ نشان بھی موجود تھے۔

مرشد نے اندر داخل ہو کر سب سے پہلے بائیک کا جائزہ لیا۔ پھر دوسرے کونے میں برابر برابر موجود دو چھوٹے کمروں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ بظاہر ادھر مکمل خاموشی اور سناٹا تھا لیکن قریب پہنچتے ہی اسے یقین ہو گیا کہ بائیں طرف والے کمرے میں کوئی موجود ہے۔ بلکہ ایک نہیں دو افراد موجود ہیں۔ اس نے ایک نظر دیوار کے اوپر سے اپنے عقب میں ڈالی،ادھر ابھی تک کسی قسم کی ہلچل کے آثار نہیں تھے۔ وہ دبے قدموں دروازے کے مزید قریب ہو گیا۔ اندر سے مدھم سے نسوانی ہنسی کی آواز سنائی دی ،پھر ایک مردانہ آواز ابھری۔

”میری جان! میں سچ کہہ رہا ہوں۔اب دوچار دن اس ڈنگر کو اپنی ہی پڑی رہے گی۔“

”اور دو چار دن کے بعد؟“

”وہ بھی دیکھی جائے گی۔ میں سنبھال لوں گا سارا معاملہ۔فی الحال مجھے مزید نہ تڑپا،آ آ سینے سے لگ جامیرے۔“

”تو بڑا ندیدہ ہے کرمے !تیرا تو دل ہی نہیں بھرتا۔“

کرمے کا ہلکا سا قہقہہ سنائی دیا۔

”دل دریا سمندروں ڈونگے یہ دل تجھ سے کبھی بھر سکتا بھی نئیں ہے کملیے! تو چیز ہی ایسی ہے۔“

اندر کوئی پریمی جوڑا تھا، جو موسم کو انجوائے کرنے اس ویران ڈیرے پر آکر خوش فعلیوں میں مگن تھا۔مرشد نے ہاتھ اٹھا کر دروازے پر دستک دی تو اندر یکدم یوں سناٹا چھا گیا جیسے کرمے اور کملی نے اپنے سانس تک روک لیے ہوں۔

”کرمے بھائی! میں اندر آ جاﺅں کیا؟“مرشد نے نرم اور دھیمے لہجے میں کہا تو اندر سے کرمے کی گھبرائی ہوئی سی آواز سنائی دی۔

”کون…کون ہو تم؟“

”دشمن نہیں ہوں کرمے بھائی ! اچھا،ایسا کرو کہ تم ہی باہر آ جاﺅ۔ بہت ضروری اطلاع دینے آیا ہوں میں۔“ اندر چند لمحے کے لیے خاموشی چھا گئی۔ مرشد نے پھر آواز دی۔

”وقت ضائع نہیں کرو،ورنہ بہت بڑی مصیبت میں پھنس جاﺅگے۔“

کرما یقینا تذبذب کا شکار تھا لیکن اس نے دروازے کی زنجیر ہٹا کر دروازہ کھول دیا۔ وہ ایک پچیس چھبیس سال کا لمبا تڑنگا نوجوان تھا۔ گندمی چہرے پر موٹی موٹی آنکھیں اور تلوار مونچھیں خوب جچ رہی تھیں۔ وہ پہلے ہی حیران اور پریشان تھا‘ مرشد پر نظر پڑتے ہی اس کی رنگت کچھ اور متغیر ہو گئی۔

”کون ہو بھائی تم!او اور یہاں کیا کر رہے ہو؟“ اس نے مرشد کے زخمی چہرے اور ہاتھ میں موجود رائفل کو دیکھتے ہوئے قدرے لرزیدہ آواز میں پوچھا۔ مرشد اس کے سینے پر رائفل کی نال رکھ کر اسے دھکیلتے ہوئے کمرے کے اندر داخل ہو گیا۔

”تم لوگوں کا دشمن نہیں ہوں۔ بے فکر ہو جاﺅ۔“ اس نے ایک نظر کمرے کے دائیں حصے کی طرف ڈالی جہاں ایک بان کی چارپائی پر بیس بائیس سال

کی گوری چٹی لڑکی چہرے پر سرا سیمگی سمیٹے بیٹھی تھی۔

”یہ کون سی جگہ ہے؟“مرشد نے کرمے کو مخاطب کیا۔

”یہ یہ میرے پھوپھا جی کا ڈیرہ ہے۔“کرمے کا رنگ فق تھا۔شاید اس کے ذہن میں اودھم مچاتے اندیشوں میں‘ یہ دل دوز اندیشہ بھی کلبلا اٹھا تھاکہ کہیں یہ نووارد اسے نقصان پہنچا کر اس کی کملی پر مجرمانہ حملہ نہ کردے۔

” میں نے تیرے پھوپھا کی جاگیر کا حساب نہیں پوچھا۔ اس علاقے کے بارے میں پوچھا ہے۔“

” ڈو ڈوکے وال۔ ڈسکہ یہاں سے چار پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔“

”کس طرف؟“

”ادھر‘،اگے نہر ہے۔اس کے ساتھ ساتھ دائیں ہاتھ کو۔“ کرمے کی نظر بے ساختہ بار بار اپنے سینے کی طرف اٹھی رائفل کی نال کی طرف سرک رہی تھی۔

”موٹر سائیکل کی چابی دے۔“

”چابی وہ وہ کیوں؟“کرمے کی آنکھیں تھوڑی پھیل گئیں۔مرشد نے رائفل کی نال اس کے سینے میں چبھوئی۔

”یہاں گولی مار کر بھی چابی لے جا سکتا ہوںگھوڑے کی شکل والے اور بھی بہت کچھ کرسکتا ہوں‘لہٰذا بندے کا پتر بن کر چابی پکڑا دے۔“

کرمے کا چہرہ بالکل ہی مرجھا گیا۔ اس نے بے جان سے ہاتھوں کے ساتھ کھیسے میں سے چابی نکالی اور مرشد کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔

”ہم نے کافی دور جانا تھالیکن اب آپ کہہ رہے ہیں تو رکھ لیں یہ چابی۔“اس کی حالت پر وہ محاورہ صادق آ رہا تھا۔” مرتا کیا نہ کرتا۔“ مرشد نے چابی پکڑ کر جیب میں ڈالی اور پھر اس کے پیروں کی طرف دیکھا۔ اس نے کالے رنگ کی کھیڑی پہن رکھی تھی۔

”جوتے بھی اتار دے۔“

”جوتے بھی!“مرشد کے دوسرے حکم پر اس نے مری مری آواز میں کہا اور جوتے بھی اتار دئیے۔

”ٹھیک ہے اب بے فکر ہو کر تم لوگ اپنا پروگرام جاری رکھو۔“اس نے کھیڑی پیروں میں پھنساتے ہوئے ایک ایک نظر ان دونوں پر ڈالی اور کمرے سے باہر نکل آیا۔

”کنڈی لگا لو اندر سے۔“ مرشد کے اس حکم پر کرمے نے چپ چاپ عمل کیا اور مرشد کونے میںموجود ہینڈ پمپ کی طرف بڑھ گیا۔ پیروں کے بعد اچھی طرح منہ ہاتھ دھونے کے بعد وہ موٹر سائیکل کی طرف بڑھ گیا۔ جہاں سے فرار ہو کروہ آیا تھا، اس طرف بدستور کوئی افراتفری نہیں تھی۔

کچھ دیر بعدوہ موٹر بائیک پر نہر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس کے ذہن میں ایک ساتھ بہت کچھ پک رہا تھا۔ اپنے زندہ و مردہ ساتھی حجاب ،اماں اور اماں کے ساتھ چوہدری اکبر اور اس کا خبیث پتر چوہدری فرزند علی فرزند کے وہ تلخ ترین اور آتشی جملے جو اس نے اس کی عزیز از جان اماں کے متعلق کہے تھے اس کا ہر ہر جملہ مرشد کے دل و دماغ میں زہریلے نشتر کی طرح گڑھ کر رہ گیا تھا۔ اس کے اندر کوئی انتہائی پختہ لہجے میں باربار بول رہا تھا۔

”چوہدریو! اب تو میری تمہاری دہری دشمنی ہو گئی بلا واسطہ بھی اور بلواسطہ بھی اور یہ دشمنی تمہیں بہت بھاری پڑنے والی ہے۔

٭ ٭ ٭

عشا کے بعد کا وقت تھا۔ مرشد ڈسکہ شہر میں شاد پورہ کے ایک دو منزلہ مکان میں تنہا موجود تھا اور برآمدے میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا۔ یہ مکان اس کے پرانے یار خضری خنجر کے قبضے میں تھا مرشد اس سے پہلے صرف دوبار یہاں آیا تھا اور آج تین سال بعد اس کی اور خنجر کی پھر ملاقات ہوئی تھی۔

 مرشد نے مختصراًاسے اب تک کے حالات و واقعات کے بارے میں بتا دیا تھا۔ جواباًاسے خنجر سے کچھ خاص خبریں سننے کو ملیں۔ خنجر کی معلومات کے مطابق تھانہ ٹبی میں مرشد اور اس کے عزیز ساتھیوں کے ساتھ لاقانونیت کا جو سفاک اور بے رحمانہ کھیل کھیلا گیا تھا، اس کے حوالے سے یہ خبر گردش میں تھی کہ چار پانچ روز پہلے مرشد نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر، اجو گھوڑے سے اپنی دیرینہ دشمنی چکانے کی غرض سے مسلح ہو کر تھانے پر ہلہ بولا اور اجو گھوڑے کو حوالات کے اندر ہی گولیوں سے چھلنی کر ڈالا۔ اس دوران پولیس کا مرشد اور اس کے ساتھیوں سے ٹاکرا ہوا، جس کے نتیجے میں ایک دو پولیس والے شہید اور متعدد زخمی ہوئے جبکہ مرشد کے دو تین ساتھی اس خونی معرکے میں مارے گئے اور مرشد اپنے باقی ساتھیوں کے ساتھ بچ کر فرار ہو گیا۔ پولیس اسے اور اس کے بچ جانے والے ساتھیوں کو اشتہاری قرار دے کر جگہ جگہ چھاپے مار رہی تھی۔ اس سے د وستی یا تعلق رکھنے والے کئی افراد کو اب تک گرفتار بھی کیا جا چکا تھا، یعنی مرشد کے حوالے سے لاہور اور خصوصاًبازار حسن میں خاصی اٹھاپٹخ جاری تھی۔پولیس اس شبہ کا بھی اظہار کر رہی تھی کہ جس رات تھانہ ٹبی میں یہ سانحہ پیش آیا اسی روز سہ پہرکے قریب گوجرانوالہ روڈ پر جن نامعلوم افراد نے ڈپٹی اعوان پر حملہ کر کے انہیں اغوا کیا،وہ مرشد اور اس کے ساتھی ہی ہیں۔ اس سب کے علاوہ ایک اور انتہائی خاص اور حیران کن اطلاع اس کے لیے یہ تھی کہ نندی پور والے سرکار صلاح الدین کی صاحبزادی حجاب سرکار کی سگی خالہ اور ماموں مرید حسین کے مکانات اسی گلی میں تھے خنجر کے اس دومنزلہ مکان کے بالکل سامنے والے دونوں مکان انہی کے تھے۔ یعنی مرشد حادثاتی طور پر حجاب سرکار کے ماموں اور خالہ کے پڑوس میں آ پہنچا تھا۔

اب تک کے مکمل حال احوال کے بعد خنجر مغرب کے قریب باہر سے تالہ لگا کر کہیں چلا گیا۔ نماز مغرب کے بعد مرشد اپنے آئندہ کے لائحہ عمل پر سوچ بچار کرتا رہا تھا۔ اب عشاءکی نماز ادا کر چکنے کے بعد وہ وہیں جائے نماز پر بیٹھ رہا۔ فی الوقت اس کے دل و دماغ پر بس ایک ہی خیال‘ ایک ہی پریشانی مسلط تھی اور وہ تھی حجاب سرکار کی تلاش ان کی خیر و عافیت کی خبر۔ وہ سرجھکائے بیٹھا خدا کے حضور یوں سراپا دعا تھا کہ اسے اندازہ ہی نہ ہو سکا کہ خنجر واپس آ کر صحن میں پڑی ایک چارپائی پر بیٹھا اسے تکے جا رہا ہے۔ اس کا استغراق اس وقت ختم ہوا جب بیرونی دروازے پر دستک ہوئی۔وہ جائے نماز لپیٹتا ہوا اٹھ کر کھڑا ہوا تو خنجر نے آگے بڑھ کر دو تین شاپر اسے تھمائے، جن میں کھانے پینے کا سامان تھا۔

” یہ لے کر اوپر چلے جاﺅ،میں آتا ہوں۔“اس کے بعد مرشد اوپری منزل کے کمرے میں آ بیٹھا۔ پانچ منٹ بعد ہی خنجر بھی پہنچ آیا۔ اس نے چند برتن اٹھا رکھے تھے۔

”کون تھا؟“ مرشد نے سوال کیا۔

” تھا ایک جگر،واپس ٹور دیا ہے کہ آج میرے پاس ٹیم نہیں۔“ وہ مرشد کے سامنے پلنگ پر بیٹھتے ہوئے بولااور پلیٹیں درمیان میں رکھ کر شاپروں میں سے کھانا ان میں منتقل کرنے لگا۔

” لفنٹروںکا آنا جاناتو لگا ہی رہتا ہو گا ؟“

” ظاہر ہے، لیکن صرف لفنٹر پارٹی ہی نہیں، بڑے بڑے کام کے بندے بھی خنجر کے ڈیرے پر حاضری دینے آتے ہیں۔ ابھی بھی دس بجے کا ٹیم دیا

ہوا ہے میں نے دو چار بندوں کو۔تم یہاںاس کمرے میں آرام سے رہو۔ ادھر کمرے کے ساتھ ہی باتھ روم وغیرہ ہے۔ کوئی پریشانی نہیں ہو گی یہاں تمہیں۔“ مرشد نے ایک نظر کمرے پر دوڑائی‘ ایک پلنگ‘ دو کرسیاں‘ ایک تپائی اور ایک ٹوٹی پھوٹی سی دیوار گیر لکڑی کی الماری اور بس۔ کمرے کی کل متاع یہی کچھ تھا۔

” میں یہاں چھاونی ڈالنے نہیں آیا۔ مجھے بہت سی ذمہ داریاں نبھانی ہیں اور بہت سے قرضے چکانے ہیں۔“

”تو پھرکیا پروگرام ہے اب آگے کا۔“ خنجر نے سالن کی پلیٹ اس کی طرف سرکاتے ہوئے اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔

”مجھے سرکار کو تلاش کرنا ہے‘ جلد از جلد، ہر صورت۔“مرشد کھانے کی طرف متوجہ ہوا۔ چھوٹا گوشت تھا۔گرما گرم تندور ی روٹیاں اور پینے کے لیے کولڈ ڈرنکس۔

”کیسے ؟“ خنجر نے ایک نوالہ منہ میں ڈالا۔اس کی نظریں بدستور مرشد کے چہرے پر جمی تھیں۔ اس کی دائیں آنکھ پر ابھی تک ہلکا سا ورم موجود تھا۔ آدھی آنکھ پر سیاہی مائل نیل تھا اور گال کا زخم بلب کی روشنی میں جیسے دمک رہا تھا۔ مونچھیں بے ترتیب ہو رہی تھیں اور چند روز کی بڑھی ہوئی شیو اسے مزید خطرناک روپ دے رہی تھی۔

”میں تو کچھ بھی نہیں جانتا کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ دو بندے ہیں جو کچھ نہ کچھ جانتے ہیں۔ کم از کم اتنا تو جانتے ہیں کہانہیں اور ڈپٹی اعوان کو اغوا کرنے والے کون لوگ ہیں؟ان کا پتہ چل جائے تو سرکار کی تلاش آسان ہو جائے گی۔ کم از کم ہمیں لائن آف ایکشن مل جائے گی۔“

”کون دو لوگ؟“

”رانا سرفراز اور چوہدری فرزندوہ آپس میں کسی شخص کا ذکر کر رہے تھے۔ دونوں ہی پریشان تھے۔ پتہ نہیں کیوں میرا دل کہتا ہے کہ جس شخص کے لیے وہ دونوں حرامی پریشان تھے۔ سرکار اور ڈپٹی کے اغوا کے پیچھے اسی شخص کا ہاتھ ہے!“

” یعنی تم رانا یا چوہدری پر ہاتھ ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہو؟“ خنجر کے چہرے پر تشویش کے آثار ابھر آئے۔

”اس کے علاوہ اور کوئی راستہ‘ کوئی چارہ نہیں۔“مرشد نے نوالہ چباتے ہوئے کہا۔کچھ دیر کی خاموشی کے بعد خنجر کے ہونٹوں کو جنبش ہوئی۔

”میرا مشورہ تو یہ ہے کہ فی الحال چند دن یہا ں چپ چاپ گزار لو۔ پولیس بھی پورے زور شور سے تمہاری تلاش میں ہے اور یقینا رانا اور چوہدری کے پالتو غنڈے بھی تمہاری بو سونگھتے پھر رہے ہوں گے۔“

”نہیںپہلے ہی اتنے دن گزر چکے ہیں۔ نا جانے سرکار کیسی مصیبت میں ہوں گی۔ مزید دیر نہیں ہونی چاہیئے۔“ مرشد کے حتمی انداز اور لہجے کی عجیب بے قراری پر خنجر نے ایک بار پھر بغور اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک کرب ہلکورے لے رہا تھا لیکن خنجر نے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا۔ رائفل تو مرشد نے آتے ہوئے نہر میں پھینک دی تھی‘ البتہ اس اجنبی اور پراسرار خاتون سے تحفتاً ملا ہوا پسٹل اس کی ڈب میں موجود تھا۔ اس نے وہ نکال کر خنجر کے سامنے ڈال دیا۔

” یا تو اس کے راونڈز کا بندوبست کرو یا پھر پسٹل ہی اور کر کے دو۔ راﺅنڈزیادہ تعداد میں ہوںایک عدد چاقو یا خنجر بھی چاہیے ہو گا مجھے۔“

خنجر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔

”چاقو،خنجر کی فکر چھوڑ دو۔ خنجر تمہارے پا س ہے اور ہر گھڑی رہے گا۔“

” میں مذاق نہیں کر رہا۔ مجھے سچ میں یہ دونوں چیزیں درکار ہیں۔“

”تو سمجھو انتظام ہو گیا۔ کوئی بڑا پرزہ کہو گے تو وہ بھی ہو جائے گا۔ یہیںاسی مکان میں کچھ سامان پڑا ہے میرے پاس۔“

”بس پھر کھانا کھا لو اور یہ دونوں چیزیں کر دو اور موٹر سائیکل کی ٹینکی بھی فل کرا دو۔“

”ٹھیک ہے۔“ خنجر نے مختصراً کہا اور اس کے بعد انہوں نے کھانا تقریباً خاموشی سے کھایا۔ برتن سمیٹ کر خنجر کمرے سے باہر نکل گیا۔ اس کی واپسی تقریباً پندرہ بیس منٹ بعد ہوئی۔ واپس آتے ہی اس نے ایک پسٹل مرشد کے سامنے رکھا اور ایک کینویس کی تھیلی‘ جس میں پسٹل کے فاضل راونڈز تھے اور ساتھ چرمی کور سمیت ایک خنجر تھا۔ یہ چیزیں مرشد کے سامنے پلنگ پر ڈالنے کے بعدوہ کرسی گھسیٹ کر مرشد کے سامنے بیٹھ گیا۔

” مزید کچھ؟“

”موٹر سائیکل کی ٹینکی پٹرول ؟“

”رات گیار بجے آگے کی سناﺅ؟“

”ساڑھے گیارہ بجے میں یہاں سے نکل جاﺅں گا۔“

”کہاں نکل جاﺅ گے؟“

” نندی پور یاشیخو پورہ۔“

”یعنی چوہدری سے ٹکر لینے یا پھر رانے سے متھا مارنے۔“

”ظاہر ہے“ چند لمحے کچھ سوچتے رہنے کے بعد خنجر ایک گہری سانس لیتے ہوئے گویا ہوا۔ ”میں سمجھ چکا ہوں کہ تم پختہ ارادہ کر چکے ہ، اب باز نہیں آﺅ گے، لیکن جگر! تمہارے فرار کے بعد وہ لوگ پوری طرح ہشیار ہوں گے۔ ممکن ہے انہوں نے باقاعدہ تمہارے لیے کوئی جال بچھا رکھا ہو اور تم جاتے ہی دھر لیے جاﺅ۔“

” جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ مجھے ہر صورت یہ معلوم کرنا ہے کہ سرکار اور ڈپٹی کو اغوا کرنے والے کون لوگ ہیں۔ اس سب کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔“ مرشد نے خنجر کی دھار چیک کرتے ہوئے مضبوط لہجے میں کہا۔

 ”میں کچھ اور کہنا چاہ رہا تھا۔“خنجر کے جملے پر مرشد نے اس کی طرف دیکھا۔

” تو کہتے کیوں نہیں؟“

” اگر تم تھوڑا تحمل رکھو اور سمجھداری سے کام لو‘ تو تین دن بعد رانا سرفراز تمہیں یہیں مل جائے گا۔“

” کیا مطلب؟“ مرشد اس کی بات پر چونک پڑا تھا۔ خنجر نے جیب سے ایمبیسی کی ڈبیا نکالی اور ایک سگریٹ سلگاتے ہوئے بولا۔

” اج سوموار کی رات ہے اور رانا ہر جمعرات کی رات یہیں ہوتا ہے،ڈسکہ میں اس کے ساتھ اس کا ایک خاص باڈی گارڈ ہوتا ہے۔ جمشید نام ہے اس کا۔وہ رانا کا باڈی گارڈ بھی ہے۔ ڈرائیور بھی اور سالا بھی۔“

”سالا“

ہاں! وہ ڈسکہ کا رہائشی ہے۔ کسی دور میں ملک عنایت کے ڈیرے پر ہمارااکٹھے اٹھنا بیٹھناتھا۔ ملک عنایت تو یاد ہو گا تمہیں؟“

”ہاں‘ بالکل یاد ہے۔ اچھی طرح۔“ 

ملک عنایت ،لالہ رستم کا تعلق دار تھا۔ آج سے تقریباً چھ برس پہلے لالہ رستم کی طرف سے‘ مرشد نے لالا کے کچھ بندوں کے ساتھ مل کر‘ ملک کی آٹھ

ایکڑ زمین کا ناجائز قبضہ چھڑایا تھا۔ اس معرکہ میں خضری خنجر بھی مرشد کے ساتھ لڑا تھا اور اسی دوران ان دونوں کی یاری لگی تھی۔“ خنجر بات جاری رکھتے ہوئے بولا۔

”جمشید کا ننھیال شیخو پورہ میں رہتا ہے۔یہ وہاں ایک قتل اور ڈکیتی کی واردات میں پکڑا گیا تو اس کا ٹبر رانا سرفراز کی چوکھٹ پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اسی دوران رانا کی نظر کہیں اس کی بڑی بہن پر پڑی اور وہ دل و جان سے اس پر مر مٹا۔ اس نے جمشید کے گلے سے پھانسی کا پھندا نکلوانے کی حامی بھر لی لیکن ساتھ ہی یہ شرط رکھ دی کہ جمشید کی بڑی بہن عظمیٰ کے ساتھ اس کا نکاح پڑھا دیا جائے اور یہ بھی کہ یہ نکاح خفیہ رہے،اس کی تشہیر نہ کی جائے۔ تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ اس طرح اس نے جمشید کی بہن کو شرعی رکھیل کی حیثیت سے رکھا ہوا ہے۔ ہر جمعرات کی رات‘یہا ں اس کے ساتھ گزارتا ہے اور جمعہ کی شام کو چپ چاپ رخصت ہو جاتا ہے۔ جمشید ایسا عقل کا اندھا ہے کہ رانا کا بے دام غلام بن کر رہ گیا ہے۔وہ خود کو رانے کا دہرا احسان مند مانتا ہے۔ دو سال سے وہ رانے کا زاتی محافظ ہے اور تب سے‘یہاں والے دوستوں سے دور ہو گیا ہے۔یوں جیسے کسی کو جانتا پہچانتا ہی نہ ہو۔“ مرشد کی پیشانی پر سوچ کی لکیریں ابھرتی دیکھ کر خنجر مزید بولا۔

” دیکھو مرشد !مرضی تو تمہاری ہی چلنی ہے‘لیکن اگر میری مانو تو جمعرات تک کا انتظار کر لو۔ شکار خود چل کر یہاں پہنچ جائے گااور اگر نہیں‘ تو پھر یوں کرتے ہیں کہ دونوں اکٹھے نکلتے ہیں۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ لالہ رستم تک اطلاع پہنچا دو۔ ادھر سے ایک دو ساتھی کر لیں۔ ساون کو بھی بلا لیتے ہیں۔ رانا یا چوہدری جس طرف بھی چلنا ہے پوری تیاری سے چلتے ہیں اور اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دیتے ہیں۔“

” نہیں۔“ مرشد نے فوراً ہی نفی میں سر ہلایا۔” ان سب پر پولیس کی نظر ہو گی۔ نہ میں ادھر کا رخ کرنا چاہتا ہوں اور نہ کوئی رابطہ۔ پہلے ہی میرے تین سجن اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ اب میں مزید اپنے کسی یار سجن کو کسی تکلیف یا مصیبت میں نہیں ڈالنا چاہتا۔“

” ٹھیک ہے تمہاری مرضی۔ جیسے تم مناسب سمجھو لیکن خنجر کے حوالے سے ایسا کچھ مت کہنا۔میں تمہارے ساتھ ہوں‘ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔“

” جمشید کا گھر یہاں‘ کہاں ہے؟ میرا مطلب ہے کہ رانا کس جگہ آئے گا؟“

”وہ جمشید کے گھر نہیں آئے گا۔ اس نے یہاں مغل پورہ میں ایک بنگلہ لے کر دیا ہوا ہے اپنی محبوبہ کو جمشید اسے ادھر چھوڑ کر اپنے گھر‘ محلہ راج پوتاں چلا جاتا ہے۔ اگلے روز وہ اپنی باجی کے گھر مغل پورہ آتا ہے اور شام کو رانا کو لے کر کر شیخوپورہ نکل جاتا ہے۔ اس دوران رانا کو بڑی آسانی سے چھاپا جا سکتا ہے۔“

”اگر ایسا ہے تو پھر‘ میرا خیال ہے کہ جمعرات تک کا انتظار کر لینا بہتر ہو گا۔“

”بہت ہی بہتر ہو گا۔“ خنجر نے فوراً س کی تائید کی۔ اس کے بعد کچھ دیر مزید ان کے درمیان اس حوالے سے بات چیت ہوئی۔پھر خنجر تو اٹھ کر نیچے چلا گیا اور مرشد قمیص اتار کر پلنگ پر دراز ہو گیا۔ اس کے پورے وجود پر سرخ اور نیلی لائنیں پڑی ہوئی تھیں۔جن میںایک جلن مسلسل ہلکورے لیتی آ رہی تھی۔ دبلے پتلے خنجر نے مغرب سے پہلے مرہم پٹی کا انتظام بھی کیا تھا، لیکن مرشد نے مرہم لگوانے سے صاف اور دو ٹوک انکار کر دیا تھا۔ اگلے روز عصر کے بعد کی بات ہے کہ خنجر دیسی شراب کی بوتل لے کر آ گیا۔ اوپری کمرے میں ہی بیٹھ کر انہوں نے پینا شروع کی تھی۔ دونوں آمنے سامنے کرسیوں پر بیٹھے تھے اور درمیان میں تپائی پر شراب نوشی کے لوازمات سجے ہوئے تھے۔ مرشد کے دائیں ہاتھ ایک کھڑکی تھی جسے اس نے نے تازہ ہوا کی آمد رفت کی غرض سے تھوڑا سا کھول دیا تھا۔پینے سے پہلے تک اسے اپنے یار دوست‘ اپنی بیٹھک اور اماں کی یاد ستاتی رہی تھی۔ اسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ اماں اس کی سلامتی اور خیر و عافیت کے حوالے سے سخت پریشانی کا شکار ہو گی۔ پھر جوں جوں وہ پیتا گیا‘ نشہ دماغ کو چڑھتا گیا۔

اس کا ذہنی انتشار ختم ہوتا گیا۔ تمام سوچیں اور خیالات یوں چھٹتے چلے گئے‘جیسے سورج کے سامنے سے بادل ہٹتے ہیں اور سورج کی روشنی پوری دنیا پر چھا جاتی ہے۔ اس کے اندر بھی اسی طرح ایک انوکھی روشنی سی پھیلتی چلی گئی تھی۔ ایک روشن چہرہ‘ اس طرح نمودار ہوا تھا کہ جیسے بادلوں کی اوٹ سے اچانک سورج نکل کر آنکھوں کو خیرہ کر جاتا ہے۔ وہ روشن اور معصوم چہرہ تھا حجاب سرکار کادو سہمی ہوئی حیران پریشان سحر انگیز سی آنکھیں سرخ انگور سے ہونٹ اورعود و عنبر سی خوشبو بکھیرتی آبشار سی زلفیں۔ایک آنسو جو رخسار پر موتی کی طرح روشنی بکھیرتا ہوا گداز تھوڑی کی طرف پھسل رہا تھا مرشد نے بے اختیار سر کو جھٹکا۔ تصور بہک رہا تھا۔ ادب و احترام کی حدود سے نکل رہا تھا۔ وہ سیدھا ہو بیٹھا۔

”لگتا ہے چڑھنے لگ گئی ہے۔“ اس نے خود کلامی کی۔ خنجر ہنس پڑا۔

” چڑھے نہ تو پھر پینے کا فائدہ۔“

”ٹھیک کہہ رہے ہو جادوئی چیز ہے۔حلق سے اترتی ہے اور دماغ کو چڑھتی ہے۔ کبھی سنبھالا دیتی ہے اور کبھی گرا دیتی ہے۔ کبھی حواس نگل جاتی ہے اورکبھی جاگتی آنکھوں خواب دکھاتی ہے۔“

”شاعری کرنے لگے جگر! لگتا ہے۔ عشق وشق کر بیٹھے۔“ خنجر کے معنی خیز لہجے پر مرشد نے اپنی مخمور نظریں اس کے چہرے پر رکھ دیں۔خنجر بھنووں سے استفسار کرتے ہوئے سوال انداز ہوا۔

”کیا ہے دل میں؟یاروں سے کیا پردے یار لوگ توجان ہی جایا کرتے ہیں کہ اندر کچھ ہے۔“

” ہاں ہے تو سہی کچھ۔“ اس کے ہونٹوں پر ایک مجروح سی مسکراہٹ کسمسائی۔

”مثلاً کیا ہے۔؟پتہ تو لگنا چاہیئے نا!“

”یہ تو خود مجھے بھی نہیں پتا۔“

” یعنی پکی بات ہے کہ اپنے جگر کو عشق سائیں نے دبوچ رکھا ہے۔“

” نہیںمجھے پتا نہیں۔ہاں اتنا پتا ہے کہ میں اپنے اندر کی اس حالت کو کوئی نام نہیں دینا چاہتا۔کوئی سا بھی نہیںیہ عشق و محبت جیسے نام بھی نہیںپتا نہیں کیوں مگر مجھے اپنے جذبات کے لیے کوئی سا نام کوئی سا بھی لفظ منا سب اور موزوں محسوس نہیں ہو تا۔“

خنجر اچھے خاصے نشے میں تھا‘ پھر بھی اس نے مرشد کے جذبات کی شدت اور گہرائی کو بخوبی محسوس کیا۔

”مجھے کل ہی اس سب کا اندازہ ہو گیا تھا۔“اس نے تفہیمی انداز میں سر ہلایا۔”معاملہ سنجیدہ ہے اورمجھے یہ بھی سمجھ آچکا ہے کہ یہ سب کس کی بدولت ہے!“اس نے مرشد کی آنکھوں میں جھانکا ”میرا اندازہ درست ہے نا؟“

مرشد خاموشی سے اسے دیکھے گیا۔چند لمحے بعد خنجر نے ایک بار پھر اپنی بھوﺅں کو جنبش دیتے ہوئے استفسار کیا تو مرشد کے ہونٹوں کو حرکت ہوئی۔

”سرکار۔“چند لمحوں کے لیے کمرے میں صرف خاموشی سانس لیتی رہی اور وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے‘پھر خنجر ایک گہری سانس لیتے ہوئے سامنے موجود بوتل کی طرف متوجہ ہو گیا۔

”جگر گوشے!تم تو گردن گردن دھنس چکے ہوبس اتنا خیال کرنا کہ کہیں ڈوب ہی نہ جانا۔“

”تم جام بناﺅ‘میں ذرا مثانے میں جگہ بنا آﺅں۔“مرشد کا ارادہ واش روم جانے کا تھا۔وہ کھڑا ہوا تو ایک ذرا س کی نظر کھڑکی کے کھلے ہوئے حصے میں سے گزر کر‘باہر گلی کے اس طرف موجود سید مرید حسین کے گھر کے صحن میں پڑی تو وہ ٹھٹک کر رہ گیا۔ نظر بالکل اتفاقیہ طور پر ادھر گئی تھی مگر اس صحن

میں ایک صورت ایسی دکھائی دی کہ جس نے اسے ارادتاً ادھر دیکھنے پر مجبور کر دیا!

مغرب سے پہلے کا وقت تھا۔وہاںاس صحن میں چند لوگ اکٹھے کھڑے تھے۔تین چار عورتیں تھیں۔تین چار مرد تھے۔ان سب میں ایک عورت اور دو مرد بالکل الگ دکھائی دے رہے تھے۔ان کے شاندار اور چمکتے لباس انہیں ایک تو باقی سب میں ممتاز کرتے اور دوسرا یہ بتاتے تھے کہ وہ لوگ مہمان ہیں۔غالباً اس وقت ان کے اور افراد خانہ کے درمیان الوداعی کلمات ہی ادا ہو رہے تھے۔ ایک مرد کے سر پہ سفید بال اور سفید داڑھی اسے ضعیف العمر ثابت کررہی تھی لیکن وہ جوانوں کی طرح سیدھا اور جم کے کھڑا تھا۔ آنکھوں پر سنہرے فریم کا بیش قیمت چشمہ تھا‘جس کے ساتھ نفیس سی زنجیریں جھول رہی تھیں۔ عورت شاید اس کی بیوی رہی ہو مرشدکے ٹھٹکنے اور چونکنے کی وجہ ان کے ساتھ موجود تیسرا فرد تھا وہ ایک خوب صورت اور وجیہہ جوان تھا۔ مرشد نے اسے ایک ہی نظر میں پہچان لیا‘حالانکہ اب سے پہلے اس نے‘اسے صرف ایک ہی بار دیکھا تھا۔کچھ تھوڑے سے وقت کے لیے دوبارہ دھیان سے دیکھنے پر مرشد کو صد فیصد یقین ہو گیا کہ وہ زریون علی ہے فیروزہ کا عاشق۔کچھ عرصہ پہلے سحری کے وقت‘مرشد کی بیٹھک کے قریب‘گلی میں دو بائیک سواروں نے اس پر اور اس کے ساتھیوں پر فائرنگ کی تھی اور فائرنگ سے زریون کا بازو زخمی بھی ہوا۔

”کیا ہوا؟کیا نظر آ گیا؟“اس کی محویت اور چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے خنجر بھی اٹھ کر اس کے برابر کھڑا ہو گیا۔

”سامنے جو خوب صورت سا جوان کھڑا ہے واسکٹ والا‘اس کے متعلق کچھ جانتے ہو؟“مرشد نے زریون سے نظر ہٹائے بغیر سوال کیا۔

”نہیںمیرا خیال ہے کہ شاید کوئی رشتہ دار ہے شاہ جی کا۔یہ اور اس کے ساتھ جو جوان بابا جی کھڑے ہیں ان دونوں کو دو تین بار پہلے بھی ادھر آتے جاتے دیکھ چکا ہوں میں۔کیوںخیریت؟“

”ہاں!اسے ایک بار اپنی گلی میں مل چکا ہوںمیں۔“

مرشد کی نظریں بدستور زریون کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔جہاں بیزاری ہی بیزاری پھیلی ہوئی تھی۔ اسے یاد تھا کہ اس رات نشے کی زیادتی کے باعث زریون کا دماغ ضد پر اڑا ہوا تھا اور اس کے ایک ساتھی نے زچ ہو کر اسے کہا تھا کہ ”یہاں سے چلو بس ورنہ ہم یہاں سے سیدھے جاتے ہیں آغا جی کے پاس اور پھروہ خود ہی آکر لے جائیں گے تمہیں۔“آغا جی کے اس تذکرے کے بعد زریون فوراًنرم پڑ گیا تھا۔ اب اس کے ساتھ کھڑے پ�±روقار اور توانا بزرگ کو دیکھتے ہوئے مرشد سوچ رہا تھا کہ شاید یہی وہ آغاجی ہیں جن کاوہ غائبانہ اور بلاواسطہ ذکر پہلے سن چکا ہے۔

خنجر دوبارہ اپنی جگہ بیٹھ گیا اور مرشد زریون کے بارے میں سوچتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔زریون جس طرح اس وقت حجاب کے ماموں کے گھر میں کھڑا تھا‘اس سے یہی اندازہ ہوتا تھا کہ وہ حجاب کے رشتہ داروں میں سے ہے اور رشتہ میں حجاب کا بھی کچھ نہ کچھ لگتا ہے۔

اگلے روز مرشد نے خود‘خوب دلجمعی سے اپنی داڑھی مونچھوں کی تراش خراش کرکے انہیں تہذیب سکھائی اور ناقدانہ نظروں کے ساتھ اچھے سے اپنے چہرے کا جائزہ لیا۔ گال کا زخم قریب قریب پوری طرح ہی اس کی گھنی چیڑی سیاہ داڑھی میں چھپ کر رہ گیا تھا البتہ آنکھ کے گرد معمولی سا ورم اور نیل کا نشان ابھی واضح تھا۔اپنی وضع قطع سنوار لینے کے بعد وہ خنجر کو ساتھ لے کر باہر نکل کھڑا ہوا۔ اس کا ارادہ تھا کہ فون کرکے اماں کو اپنی خیر خیریت کا بتا کر ان کی تسلی کرا دے۔ اس کے لیے انہیں زیادہ دور بھی نہیں جانا پڑا‘محض پانچ منٹ کی مسافت پر انہیں کال پوائنٹ مل گیا۔ کال ملانے پر دوسری طرف سے نزہت بیگم کی کریہہ آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔

”ہالو“یقینا اس نے منہ میں پان کی پیک اکٹھی کر رکھی تھی۔ مرشد نے بولنے کے لیے منہ کھولا مگر ذہن میں موجود الفاظ زبان پر اترے ہی

نہیںنزہت بیگم بھی کون سا سگی تھی۔دشمنوں ہی کی حمایتی تھی وہ کم ظرف وخودغرض عورت اور اماں کو بلا کر وہ ان سے کہتا بھی کیا ؟

مرشد کو اچانک خیال آیا تھا کہ اگر اماں کے منہ سے پہلا ہی جملہ سرکار کے حوالے سے نکلا تو میں انہیں کیا جواب دوں گااور پوچھنا تو انہوں نے ہر صورت تھا مرشد کے پاس سوائے ندامت اور احساس ہزیمت کے اور کوئی معقول جواب نہیں تھا۔اسے اچانک یوں غیرت نے آلیا تھا کہ ذہن میں موجود الفاظ‘ ذہن ہی میں اٹک کر رہ گئے۔زبان حرکت لیتے ہی ساکت ہو گئی۔اس نے ایک بھی لفظ بولے بغیر رابطہ منقطع کر دیا۔اس کے بعد اسے خیال آیاکہ لالاکے ڈیرے کا نمبر ملائے۔لیکن اس خیال کی بھی اس کے اندر نے فوراً نفی کر دی۔

”چلو خنجر ! ہو گئی بات۔“خنجر اور پی سی او والا‘ دونوں مرشد کی شکل دیکھ کر رہ گئے۔بہر حال خنجرنے ایک کال کے پیسے ادا ِکیے اور پلٹ پڑا۔دونوں بائیک پر آئے تھے۔خنجر بائیک کو کک لگاتے ہوئے بولا۔

"اس کا کیا مطلب تھا؟”

"جب تک میں سرکار کو ڈھونڈ نہیں لیتا‘تب تک نہ تو میں اماں کو اپنی شکل دکھانے کی جرات کر سکتاہوں اور نہ آواز سنانے کی۔“اس کے لہجے میں یاس انگیز سنجیدگی تھی۔وہ بائیک پر بیٹھتے ہوئے پلٹے ہی تھے کہ خنجر قدرے سنسنی خیز لہجے میں بولا۔

"مرشد جگر ! گردن موڑ کر نہیں دیکھنا۔“

"مطلب؟”

"مطلب یہ کہ ایک کھوتے کا کھرمشکوک طریقے سے ہمارے پیچھے آرہا ہے "

””مشکوک طریقے “ سے تمہاری کیا مراد ہے ؟”مرشد کے اعصاب فوراً ہوشیار ہوگئے۔

"ایک چھوٹے قد کا گینڈے جیسا شخص ہے۔پہلے بھی چند بار اسے محلے میں دیکھا ہے میں نے ،لیکن آج یہ ہمارے پیچھے ہے۔آتے ہوئے بھی گلی کی نکڑ سے یہ ہمارے پیچھے پیچھے آیا ہے۔اور یہ اب پھر پیچھے آرہا ہے ……..کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہے ضرور جگر!” اس کے لب و لہجے میں جوش انگیز سنسناہٹ تھی۔

"بے فکر ہو کر دورازے تک چلو ……دیکھ لیتے ہیں "مرشد نے بے پروائی سے کہا۔گھر والی گلی مڑنے تک وہ خود بھی گینڈے کی ایک جھلک دیکھ چکا تھا۔ وہ ایک پھٹیچر سے ویسپا پر سوار تھا۔ سرپر استرا پھراہوا تھا۔اور کنپٹیوں کے بال عین …….. ناک کے نیچے پہنچ کر باہم بغل گیر ہوتے تھے۔اپنے بھاری جثے کی بدولت وہ واقعی گینڈو ں کے خاندا ن ہی کا کوئی فرد معلوم ہو رہا تھا۔

خنجر نے جس وقت بائیک اپنی گلی میں موڑی‘ اس وقت گلی تقریبا سنسان تھی۔بس دو بچے تھے جو کچھ فاصلے پر ایک نالی کنارے بیٹھے‘نالی میںتنکے پھیر پھیر کر کچھ نامعلوم عقدے حل کرنے میں مصروف تھے۔

خنجر نے گلی کے وسط میں پہنچ کر‘اپنے مکان کے سامنے بائیک روکی ہی تھی کہ گلی کی نکڑ پر گینڈے کا ویسپا نمودار ہوا۔ وہ بھی اسی گلی میں مڑ آیا تھا۔

”خنجر ! جلدی سے تالا کھول‘ میں اسے روکنے لگا ہوں۔“ مرشد نے اچانک پوری سنجیدگی سے کہا۔ اس کے لہجے میں حتمی ارادے کی ایسی شدت تھی کہ خنجر کسی معمول کی طرح بائیک سے اتر کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ مرشد نے بائیک سنبھالتے ہوئے‘ اسے یوں پیچھے کر کے سیدھا کیا جیسے مکان کے اندر لیجانے کی تیاری ہو۔اس سے گلی میں اتنا راستہ نہ رہا کہ گینڈا کترا کر نکل جائے۔مجبوراً اسے قریب آکر بریک پر پاﺅں رکھنا پڑا۔خنجر دروازہ کھول چکا تھا۔ مرشد نے اسے مخاطب کیا۔

"لویہ بائیک لے جاﺅ اندر "خنجر نے قریب آکر خاموشی سے بائیک کو ہینڈل سے سنبھال لیا۔گلی میں ہنوز‘وہی دو مصروف بچے موجود تھے۔ مرشد گینڈے کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔

"چل‘ تو بھی چل اندر "گینڈا بری طرح چونکا تھا۔اس سے پہلے کہ وہ مزید ہوشیارہوتا مرشد نے اس کے دائیں کندھے کے پٹھے کو ایک مخصوص تکنیک سے گرفت میں لیا اور ڈب سے پسٹل نکال کر اس کے سینے پر عین دل کی جگہ ٹکا دیا۔

"نیچے اتر آ”

"یہ ……یہ کیا غنڈہ گردی ہے۔کیا چاہتے ہو؟” وہ بری طرح پریشان ہو گیا۔اس کے چہرے پر قدرے تکلیف کے آثار بھی تھے۔کندھے کے پٹھے پر موجود مرشدکی گرفت کسی آہنی شکنجے کی طرح سخت تھی۔اسے لگ رہا تھا کہ اس نے کندھے کوحرکت دی تو پٹھہ پھٹ جائے گا یا ٹوٹ جائے گا۔

"اتر کر اندر چل پڑ۔دو پیگ مار کر دفعہ ہو جا نا‘نہیں تو یہیں نالی میں پڑا رہ جائے گا "۔مرشد کی غراہٹ نے اس کا پتہ پانی کردیا۔

"ٹھیک …….ٹھیک ہے۔میں اترتاہوں "اس نے تکلیف اور پریشانی کے عالم میںکہا اور باقاعدہ ویسپا سے اتر آیا لیکن اگلے ہی پل اس نے مرشد کا پسٹل والا ہاتھ دبوچ لیا اور ناجانے کیسے اس کا پٹھہ بھی مرشد کی گرفت سے پھسل کر نکل گیا۔ویسپا ایک دھماکے کی آواز سے نیچے گرا تھا۔ یہ ایک پرسکون لیکن آبادگلی تھی۔کسی بھی لمحے کوئی دروازہ کھل سکتا تھا۔کسی بھی گھر سے‘کوئی بھی نکل سکتا تھا اورگینڈا تھا تو اس نے مزاحمت کا راستہ چنا تھا۔ وہ تھا بھی مرشد کی توقع سے کچھ زیادہ مضبوط بدن کا مالک …….ممکن تھا کہ یہ معاملہ طول پکڑتا اور گلی میں تماشا لگ جاتا‘بالکل اتفاقیہ طور پر ہی گینڈے کی گرد ن مرشد کے بائیں بازو کی لپیٹ میں آگئی اور اس کی چوڑی پشت مرشد کے سینے سے آلگی۔ مرشد کے لیے اتنا موقع کافی تھا۔اس نے پسٹل فوراََ ڈب میں لگایا اور دائیں ہاتھ سے گینڈے کی موٹی شہ رگ کو دبوچ لیا۔ یہ لالا رستم کی طرف سے اسے ملاہوا ایک خاص داﺅ تھا۔لالا اس داﺅ کو ”ساہ شکنجی۔“ کہتا تھا۔ شکار کی شہہ رگ دبوچ کر اسے فوراََ ٹھنڈا کر دینے کی ایک خاص تکنیک۔ اس میںساراکمال شہہ گ کے ایک طرف انگوٹھا اور دوسری طرف باقی چار انگلیاں جمانے کا ہوتا ہے انگلیوں کا یوں استعمال جیسے حکیم لوگ نبض دیکھتے ہیں۔ شہہ رگ کے دونوں طرف دو باریک رگیں ہوتی ہیں جو دماغ کو خون پہنچاتی ہیں۔ اسے بیدار اورزندہ رکھتی ہیں۔ ان پر انگلی یا انگوٹھا رکھنے پر باقاعدہ ان کے دھڑکنے کا احساس ہوتاہے۔اگر ان رگوں کو دبادیاجائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ دماغ کا ہوش وحواس سے‘ زندگی سے رابطہ ختم گینڈے کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ محض کچھ سیکنڈ میں اس کی مزاحمت یک دم سست پڑی اور پھر اس کے ہاتھ پیر ڈھیلے پڑ گئے۔مرشد اسے اسی طرح جکڑے ہوئے گھسیٹ کر دروا زے سے اندر کھینچ لایا۔ دروازے میں داخل ہوتے وقت اس نے گلی میں دونوں اطراف دیکھا تھا۔ بیس تیس قدم کے فاصلے پر وہی دو بچے موجود تھے۔ ایک ا بھی بھی نالی میںمصروف کار تھا‘ البتہ دوسرا اپنی جگہ کھڑا حیران سا‘مر شد ہی کی طرف دیکھ رہا تھا۔

خنجر دروازے کے قریب ہی تھا۔ مرشد نے تیز لہجے میں اسے مخاطب کیا۔

”باہر سے ویسپا اندر کھینچ لاﺅ۔“ خنجر فوراََ باہر کو لپکا اورمرشد اس گینڈے کو گھسیٹ کر کونے والے کمر ے میںلے گیا۔ یہ کمرہ جانے کب سے استعمال نہیںکیا گیا تھا۔یہاں یاتو ٹوٹا پھوٹا فرنیچر اور کاٹھ کباڑ بھرا ہوا تھا یا پھر دھول مٹی کی دبیز تہیں تھیں۔ دروازے کے علاوہ کسی دیوار میںکوئی کھڑکی یا روشن دان نہیں تھا۔ شاید اسے تعمیر ہی اسٹور روم کی نیت سے کیا گیا تھا۔ اسی کمرے کے برابر سے سنگی سیڑھیاں اوپر‘ دوسری منزل پر جاتی تھیں۔ خنجر کے واپس لوٹنے تک مرشد اسے ایک کرسی پر ڈالنے کے بعد اب ایک مضبوط اور موٹی سوتی رسی سے باندھنے میںمصروف تھا۔

”کوئی گڑ بڑ ؟“ خنجر کے دروازے پر نمودار ہو تے ہی مرشد نے سوال کیا تو خنجر مطمئن سے اندازمیںبولا۔

”نہیں ‘ مکمل سکون ہے۔“

”لگتاہے کہ عارضی ہے آنے والے دنوں میں رہے گا نہیں اب۔“

”آنے والے د ن کس نے دیکھے جگر! بس یہی دن اپناہے۔باقی اسے گھسیٹ تولیاہے لیکن ا س کا کرنا کیاہے ؟“

”تم کیاکہتے ہو ؟ اچار ڈال لیں اس کا۔“ مرشد اسے اچھی طرح کرسی کے ساتھ باندھنے کے بعد سیدھا کھڑاہو گیا۔ خنجر نے انتہائی برا سا منہ بنایا۔

”نہیں یاراتنا گندا اچار کھائے گا کون؟ ویسے بھی میں تو حرام کھاتا نہیں‘ بس پی لیتا ہوں کوئی اور آئیڈیا ؟“

”فی الوقت تو اس کا منہ کسی کپڑے سے اس طرح باندھ دو کہ یہ ایک ذرا بھی آواز نہ نکال پائے۔“پھر اس کا منہ باندھ دینے کے بعد وہ صحن میں چارپائی پر آبیٹھے

”تمہیں پکا یقین ہے ناکہ یہ ہمارے پیچھے تھا ؟“مرشد نے سوال کیا۔

”ایک ہزار ایک فیصد۔“

”تم بتا رہے تھے کہ تم نے پہلے بھی اسے ادھر دیکھا ہے۔“

”ہاں‘ چند ایک بار نظر پڑی ہے گلی میں آتے جاتے۔کبھی گلی کی نکڑ پر اور چند ایک بار ادھر حنیف کے ہوٹل پر بھی دیکھا ہے میں نے اسے‘لیکن کبھی کوئی خاص دھیان نہیں دیا‘مگر آج تو یہ خود خصوصا ہمارے پیچھے پیچھے رہاہے۔“

”تمہاری اس بات سے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ گذ شتہ کئی دن سے تم پر نظر رکھے ہوئے ہے آج کل کس چکر میںہوتم؟“مرشد کی نظریں خنجر کے چہرے پر تھیں۔

”چکر شکر تو چلتے ہی رہتے ہیںکوئی خاص مخول نہیں ہے۔باقی مجھے نہیں لگتا کہ یہ مجھ پر نظر رکھے ہوئے تھا ورنہ تو پہلے ہی میںجان چکا ہوتا نا!“

”اگر یہ آج ہی نظر آیا ہوتا تو پھر میںمان لیتا کہ یہ میرے پیچھے ہے لیکن تم بتا چکے ہو کہ یہ میری آمد سے پہلے سے یہاں موجود ہے۔“ مرشد کے تجزیئے پر خنجر نے کندھے اچکادئیے۔

”میرا خیال ہے کہ یہ ہم اسی سے پوچھ لیں تو بہتر ہوگا۔“ مرشد نے مسکرا تے ہوئے قمیص کے بٹن کھولے اور قمیص اتارکر ایک طرف چارپائی پر ڈال دی۔ ڈب میں پسٹل موجود تھا اور اس کی دائیں ٹانگ پر چرمی کوربھی خنجر سمیت موجودتھا۔

کچھ دیر بعد جب وہ دونوں اٹھ کر اس کمرے میں پہنچے‘ تو گینڈا پوری طرح ہوش و حواس میں آچکا تھا۔ اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی کے آثارتھے۔جنہیں وہ چھپانے کی ناکام کوشش میں تھا۔

”اب بھائی چارے کے اصولوں پر بات چیت کرلیں یاپہلے تمہاری دوچار انگلیاں کاٹیں ؟“ خنجرنے کمرے میں داخل ہوتے ہی خشک لہجے میں کہا۔ گینڈے نے پریشانی سے ان دونو ں کی طرف دیکھا۔مرشد کی طرف دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں سنسنی کے ساتھ قدرے خوف کے سائے بھی لہرا گئے۔اس کے گول مٹول سراور ڈبل روٹی جیسے چہرے پر پسینے کے ڈھیروں ڈھیر قطرے جھلملا رہے تھے۔

”اس کے منہ سے کپڑا کھول دو۔“

مرشد نے شلوارکا پائنچہ اٹھاتے ہوئے خضری خنجر سے کہا اورٹانگ کے ساتھ بندھے چرمی کور سے خنجر کھینچ لیا۔خضری گینڈے کے منہ سے کپڑا کھولنے لگا۔ مرشد نے آگے بڑھ کر خنجر کی نوک گینڈے کی شہ رگ پر رکھی اور قہر بار نظروں سے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے انتہائی سفاک لہجے میں

بولا۔

”تیرا منہ آزاد کر رہے ہیں۔لیکن اگر تیرے منہ سے نکلنے والی آواز کمرے کے دروازے سے باہر تک گئی تو یہ خنجر تیرے حلق سے پار ہو کر گدی میں سے باہر نکلے گا۔سمجھ گیا نا ؟“ گینڈے نے تھوک نگلتے ہوئے آنکھوں سے اثبات میں جواب دیا۔خنجر کی سرد نوک کے شہ رگ کے ساتھ لگتے ہی اس کے چہرے کی رنگت متغیر ہو گئی تھی۔شاید مرشد کی آنکھوں میں اسے ملک الموت کی پرچھائیں نظر آگئی تھی۔

”یہ خنجر ہٹا لو ! میں ‘ میں کوئی پٹھی حرکت نئیں کروں گا۔ رب رب کی سوں کھا کے کہتاہوں۔“ منہ کپڑے کی گرفت سے آزاد ہوتے ہی وہ گھٹے گھٹے لہجے میں ممیایا تھا۔

” نا م کیا ہے تیرا ؟“یہ سوال خنجر نے کیا تھا۔ مرشد نے خنجر کی نوک اس کی شہ رگ سے ہٹا کر اس کے سینے پر ٹکا دی۔

”قاسم قاسم نام ہے میرا۔ لل مگر آپ لوگ اس طرح کیوں پچھ رہے ہو مجھے یوں کیوں پکڑ ا ہے آپ نے؟“ اس نے باری باری مرشد اور خنجر‘ دونوں کی طرف پریشان نظروں سے دیکھا۔

”ہمارا پیچھا کیوں کر رہے تھے تم؟“یہ سوال بھی خنجر نے کیا تھا۔

”نن ،نہیں تو جی! آپ آپ دونوں کو کوئی غلطی لگی ہے۔“مرشدنے خنجر پر ہاتھ کا ایک ذرا دباﺅ بڑھایا تو قاسم گینڈے کے منہ سے سسکاری نکل گئی۔وہ فورا�±�± بولا۔

”مم ، میرا یہ مطلب نئیں تھا۔میں تو کہہ رہا تھا کہمیں میںتو بس ایسے ہی پچھا کر رہا تھا آپ کا۔“ پھر وہ مرشد کی طرف دیکھ کر گھگھیایا۔ ”باوا جی! رب سوہنے کا واسطہ یہ یہ خنجر تو تھوڑا پرے کر لو۔“ اس کے چہرے پر پسینہ اب دھاروں کی صورت بہنے لگا تھا۔تاثرات ایسے تھے کہ وہ ایک مضحکہ خیز چیز نظر آنے لگا تھا۔خود مرشد اور خنجر کو بھی خوب پسینہ آ رہا تھا۔ کمرے میں خاصا حبس تھا۔ مرشد اس کے سینے سے خنجر ہٹاتے ہوئے گہری نظروں سے اسے گھورتا ہوا بولا۔

”کیا تو مجھے جانتا ہے؟“

”نن نئیں‘بس میرا اندازہ ہے کہ آپ کا نام مرشد ہے۔ مرشد باوا لاہور والے۔“ مرشد اور خنجر دونوں ہی اس کے اس اندازے پر چونکے تھے۔

”اس اندازے کی وجہ؟“مرشد نے دوسرا سوال اٹھایا۔

”آپ آپ کی یہ مونچھیں۔“

” او گینڈے کی شکل والے کدو! کوئی جگت سنا رہا مجھے؟ میری مونچھوں کے ملک میں پوسٹر لگے ہوئے ہیں کیا؟ صاف صاف بکواس کر کیا جانتا ہے اور کیوں ہمارا پیچھا کر رہا تھا؟“ مرشد کے ماتھے پر بل پڑ گئے ۔

”میں کج زیادہ نئیں جانتاجی! مجھے تو صرف شک ہوا تھا اور اسی لیے آپ کا پچھاکر رہا تھا۔“

”کس کے کہنے پر ایسا کر رہے تھے؟“ اس بار خنجر نے پوچھا۔

”کہا تو کسی نے بھی نہیں تھا!“

”تو پھر پیچھا کر کیوں رہے تھے؟“

میں نے بتایا تو ہے مجھے شبہ ہوا تھاکہ یہ مرشد باوا ہیں۔“

”تو پھر؟ “

”پھر کیا“ اس نے قدرے تعجب اور پریشانی سے دونوں کی طرف دیکھا۔ ” پھر میں نے آپ کا پچھا شروع کر دیا !“

اس بار مرشد اور خنجر نے بے اختیار ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔گینڈے کے چہرے کے تاثرات اور لب و لہجہ اتنا حقیقی اور صاف تھا کہ اس پر اداکاری یا بناوٹ کا کوئی شائبہ تک نہیں ہو رہا تھا۔ دوسری صورت میںیہ بات پکی تھی کہ اس کی عقل بھی اسی کی طرح خاصی جسیم و حجیم ہے!خنجر نے قدرے جھلاہٹ کے ساتھ اس سے پوچھا۔

”ابے بھوتنی کے بچے! تو ہے کون؟“

”جی! میں نے بتا تو دیا ہےقاسم!“ اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا تو اس بار خنجر ضبط نہیں کر پایا۔ اس نے دو تین تھپڑ گینڈے کی گدی میں جڑ دیے۔

”کسی جناتی ڈڈو (مینڈک) کا بچہ نہ ہو توبکواس ہی کیے جا رہا ہے۔“ خنجر نے ایک اور تھپڑ ٹکایا۔”سیدھی طرح بھونک‘ بک دے کہ تو کون ہے؟ کہاں سے مرا ہے اور یہاں کیا کر رہا ہے۔ورنہ اسی کاٹھ کباڑ کے نیچے دفن کر دیں گے تجھے۔“

گینڈا بولا تو اس کے انداز سے بے چارگی ٹپک رہی تھی۔

” میں قاسم ہوں۔نندی پور سے آیا ہوںاور آپ کے گھر کے سامنے والے شاہ جی کے گھر کی نگرانی کر رہا ہوں۔“اس بار خنجر اور مرشد بری طرح چونک پڑے۔یعنی قاسم گینڈے کا تعلق چوہدری فرزند سے تھا اور وہ یہاں حجاب سرکار کے ماموںسید مرید حسین کے گھر پر نظر رکھے ہوئے تھا!

خنجر نے اس کا کان پکڑ کر مروڑا۔

”اتنی دیر سے دماغ کا دلیہ کیے جا رہا ہے، پہلے یہ بات کیوں نہیں بتائی ہیں؟“

پہلے آپ نے یہ بات پچھی کب ہے!“ گینڈا درد سے کراہا۔ مرشد کے زیرلب ایک خفیف سی مسکراہٹ مچل کر رہ گئی۔اس کا جواب تو معقول تھا۔خنجر طنزیہ انداز میں بولا۔

اچھا جی یعنی ہمارے سوال ہی درست نہیں ہیں؟“

”تو اور کیا۔“ خنجر شاید اسے مزید دو چار رکھ دیتا لیکن اس سے پہلے ہی مرشد نے اشارے سے اسے روک دیا۔

”کیوں نگرانی کر رہے ہو شاہ جی کے گھر کی؟“

”چوہدری فرزند صیب کا حکم ہے۔ان کا خیال ہے کہ نکے شاہ جی کسی بھی وقت یہاں آسکتے ہیں۔“

”تو پھر فرض کرو کہ تم نکے شاہ جی کو یہاں دیکھ لیتے ہو تو کیا کرو گے؟“

” میں سدھا جا کر” ناجی “کو اطلاع دوں گا۔ اگے فیر اس کی ذمہ داری ہے۔“

”کہاں رہتا ہے یہ ناجی!“

”یہیں اسی گھلی کے آخر میںجو مکان ہے‘ اس کی بیٹھک ہمیں ملی ہوئی ہے۔“

”وہاں تمہارے ساتھ اور کتنے لوگ رہ رہے ہیں؟“

”ایک میں‘ ایک ناجی‘ایک عباسا اور ایک غفورا۔ ٹوٹل چار۔“ مرشد بنا تصدیق ِکیے جان گیا تھا کہ ”نکے شاہ جی۔“ سے قاسم کی مراد اسرار احمد ہے۔

”اور مجھ سے کیا چاہتے تھے تم؟“

”کج بھی نئیں۔“ قاسم نے فوراََ اپنا مٹکے جیسا سر دائیں بائیں نفی میں ہلایا۔

”پھر پیچھا کیوں کر رہے تھے؟“

”وہ“اس نے عجیب پریشانی اور بے بسی سے پھرباری باری ان دونوں کی شکلیں دیکھیں۔” وہ تو میں بتا چکا ہوںکہ مجھے شبہ ہوا تھا۔“

خنجر بے ساختہ دانت کچکچا کر رہ گیا۔مرشد بولا۔

”تواب وہ شبہ کیا کہتا ہے؟“

”شبہ یقین نال تو کج بھی نئیں کہتا نا جی!“ وہ ٹٹولتی ہوئی نظروں سے مرشد کو دیکھنے لگا۔”میری اتفاقاََ ہی آپ پر نظر پڑی تھی۔ مضبوط کسرتی جسم‘ گورا چٹا رنگ اور بھاری مغرور مونچھیں۔یعنی ڈاڈھا سوہنا تے تگڑا جوان سارا نقشہ ویسا ہی لگا‘ جیسا مرشد باوا کا سن رکھا ہے۔“خود بخود ہی جیسے قاسم کے لب ولہجے میں ایک ستائش اور رشک کا تاثر آگیا۔ ” اور اور پھر آپ کی اکھ پر یہ چوٹ کا نشان“ قاسم متذبذب سا ہو کرچپ کر گیا۔

”یہ بھی مرشد کی کوئی خاص پہچان ہے کیا؟“

”نئیںوہ مرشد باوا کا سنا تھا کہ چوہدریوں نے اسے کہیں پکڑ کر قید میں رکھا ہوا تھا لیکن دو دن پہلے وہ تین آدمیوں کو پھڑکا کر نکل گیا اور کمال والی گل تو یہ ہے کہ پھڑکنے والے تین بندوں میں سے دو چوہدری فرزند صیب کے خاصم خاص محافظ تھے۔ لالا اور قادرا آپ کی اکھ کی یہ چوٹ دیکھ کر لگا کہ یہ اسی مارا ماری میں لگی ہو گی۔

”اچھا چل فرض کر کہ تیرا شبہ سچا ثابت ہو جاتا اور ہم تجھے پکڑتے بھی نہ تو کیا یہ خبر بھی تو جا کر ناجی کو دیتا؟“

”نئیں“ قاسم نے فوراََ سے پیشتر سر نفی میں ہلایا۔

”کیوں؟“

”یہ بڑے خراب لوگ ہیں بھراہ جی! آپ کو رب سوہنے کا واسطہ ساری باتیں نہ پوچھیں۔ ناجی کو کسی طرح پتا چل گیا تو اس نے میرا چم ادھیڑ کر رکھ دینا ہے۔مجھے رب کی سَوں میں نے سچ سچ ساری باتیں بتائی ہیں۔میری آپ سے کوئی دشمنی ششمنی نئیں ہے۔ مجھے جانے دیں۔“

”یہ تجھے خراب لوگ لگتے ہیں‘تو خود تو کیا ہے؟ خود بھی تو ان کے ساتھ ہی ہے نا!“ خنجر نے ترشی سے کہا۔

”یہ تو بس مجبوری ہے جی! کامے لوگ ہیں۔نوکر ہیں لیکن میں نے سوچ رکھا ہے کہ مرشد باوا یا نکے شاہ جی مجھے کہیں نظر آبھی گئے تو میں نے کسی کو کج نئیں بتانا۔“

”کیوں نہیں بتانا؟“

”بتایا تو ہے کہ یہ بڑے خراب بندے ہیں نکے شاہ جی‘ نکی بی بی اور مرشد باوا کی جان کے دشمن ہیں یہ سب۔وہ لوگ تو بھلے لوگ ہیں۔شاہوں جیسا گھرانہ اور لوگ تو پندرہ پنڈوں میں نئیں ہیںمگرافسوس نہ گھر رہا نہ گھر والے۔سب کج دشمنی کی نذر ہو گیا۔صرف نکے شاہ جی اور نکی بی بی جی باقی ہیں اس گھرانے سے‘ مگر ان کی بھی کسی کو کج خبر نئیں۔بس اڑتی اڑتی سننے کو ملتی ہے کہ لاہور کا کوئی مرشد نامی بدمعاش ہے، بڑاسوہنا اور جی دار جوان ہے اوروہ نکی بی بی جی کا محافظ بنا ہوا ہے۔ان کے اور چوہدریوں کے درمیان دیوار بن کر کھڑا ہو گیا ہے بھراہ جی ! مجھے پانی ہی پلا دو یار! یہاں تو بڑی گرمی ہے ویسے گاﺅں کے بہت سے لوگ مرشد باوا کی زندگی اور کامیابی کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔کوئی غیرتی اور حلالی بدمعاش

ہے وہ۔“

مرشد سمجھ چکا تھا کہ قاسم کوئی جرائم پیشہ شخص نہیں ہے۔وہ ایک عام سا دیہاتی تھا۔بس اپنے آقاﺅں کے حکم کا پابند تھا۔ان کے کہے پر بلا چوں چراں کیے عمل کرنے پر مجبور تھا۔ مرشد کو دکھ ہوا کہ قاسم اور اس جیسے کچھ مزید مجبور اور غریب لوگ ”جسے“ حجاب سرکار اور چوہدریوں کے درمیان کی دیوار سمجھ کر دعائیں دیتے ہیں‘ اسے خود کچھ خبر نہیں کہ ”سرکار“ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔

”بھراہ جی! اب مجھے جانے دو یا تھوڑا پانی ہی پلا دو یار!“ قاسم نے لجاجت سے کہا تو مرشد خنجر سے مخاطب ہوا۔

”خنجر! کھول دو اسے اور پانی شانی پلا کر جانے دو۔“ قاسم نے خوش گوار حیرت سے مرشد کی طرف دیکھا۔ وہ پلٹ کر بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا تھا۔

قاسم کی” نکی بی بی“ کی یاد یکایک ہی کسی پھوڑے کی طرح اس کے سینے میں دکھنے لگی تھی۔اس کی خوش کن اور کھنک دار آواز یک دم ہی اس کی سماعتوں میں گونج اٹھی تھی۔

”مرشد جی مرشد جی“

”وہ آپ مجھے دیکھتے اس طرح ہیں کہ مجھے گھبراہٹ ہونے لگتی ہے۔“

”مم میں کیسے نیچے آﺅں“

”میں کوئی غنڈہ بدمعاش نہیں ہوںجو چھلانگیں مارتی پھروں۔“

”دیکھیں آپ ایک اچھے انسان ہیں۔“

”میں آئندہ ایسی کوئی بات نہیں کہوں گی مرشد جی!پہلی غلطی سمجھ کر معاف کر دیں۔“اس کے دل پر ایک گھونسہ سا پڑا۔ فضا میں موجود حبس یکا یک کئی گنا بڑھ کر اس کے سینے پر چڑھ بیٹھا۔

ایک بے بسی سی بے بسی تھی ……. ایک اضطراب سا اضطراب تھا۔ قاسم اور خنجر کمرے سے باہر آئے تو مرشد نے قاسم کو اپنے ساتھ بٹھا کر پانی پلایا۔

” دیکھو قاسم ! ہم نے تمہیں دشمن سمجھ کر پکڑا تھا۔تمہاری کہانی سننے کے بعد تمہیں دوست سمجھ کر واپس بھیج رہے ہیںاس سب کو یہیں دماغ سے نکال پھینکو،اگرناجی وغیرہ سے کچھ کہا اور انہیں کسی قسم کی کوئی خارش ہوئی تو تمہیں اندازہ ہو جائے گا کہ ہم ایسے چار چھ ناجیوںکو چٹکیوں میں ناچے بنا سکتے ہیں۔ باقی تمہیں کبھی بھی‘ کسی قسم کی مدد کی ضرورت پڑجائے تو دوست سمجھ کر بے دھڑک آجانا”۔

"نئیں بھراجی ! بالکل بھی نئیں۔مجھے کسی سے کج کہنے کی ضرورت ہی نئیں ہے۔ویسے کیا آپ میراشبہ ختم کرسکتے ہو؟“بات کرتے کرتے قاسم ہچکچا گیا۔

"ہاں‘ ناں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا قاسم !بس اپنی نکی بی بی کے لیے دعا کرتے رہناہمیشہ۔”قاسم کچھ بولنا چاہ رہا تھا مگر مرشد کی طرف دیکھتے دیکھتے چپ کر گیا۔شاید اسے احساس ہوا تھا کہ اس کے سوال کا جواب مرشد کے چہرے پر رقم ہے اس کی آنکھوں میں ہلکورے لے رہا ہےوہ چند لمحے بغور مرشد کی شکل دیکھتا رہا پھر ناجانے اس کے دل میں کیا آئی کہ مرشد کا ہاتھ تھام کر اس نے ہونٹوں سے لگایا اور اٹھ کر لڑھکنے والے اندا زمیں چلتاہوا‘ ایک طرف کھڑے اپنے ویسپا کی طرف بڑھ گیا۔خنجر بیرونی دروازے کی طر ف گیا تو مرشد اوپری منزل پر جانے کے لیے

سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔ اسے قاسم کی طرف سے کسی دھوکے بازی کی توقع نہیں تھی لیکن اپنے طور پر چکنا رہنا بہتر ہی تھا۔

وہ رات اور اگلا دن مرشد نے سخت بے چینی اور بے سکونی میں گزارا ۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ فوراً سے پہلے حجاب سرکار کا سراغ لگا کر ان تک جا پہنچے اور اس کے بعد انہیں ان کے پھوپھا کے ہاں بلوچستان پہنچانے کے بعد واپس آکر اپنے ساتھیوں کے خون کا قرض چکائے چوہدری فرزند جس نے اپنی غلیظ زبان سے اس کی اماں کی شان میں گستاخی کی، گھٹیا اور گندی ترین باتیں کہیں ،اسے گردن سے آ دبوچے اور اس کے حلق سے اس کی زبان کھینچ کر اکھاڑ لے۔ ابھی اس کا بس نہیں چل رہا تھا ۔ابھی اسے صرف حجاب سرکار کی فکر تھی۔ ان کی تلاش جیسے سب باتوں سے زیادہ اہم اور زیادہ ضروری تھی۔

شام کے قریب، خنجر بیرونی دروازے پر تالا ڈال کر کہیں چلا گیا اور مرشد اور پروالے کمرے میں کھڑکی کے قریب کرسی پر بیٹھ کر پسٹل کی صفائی کرنے میں مگن ہوگیا، خنجر کی دھار وہ پہلے ہی خوب اچھے سے چمکا چکا تھا۔طے شدہ پروگرام کے مطابق آج رات ایک بجے انہیں یہاں سے مغل پورہ جانا تھا رانا سرفراز کی گردن دبوچنے اور مرشد فیصلہ کرچکا تھا کہ رانا کو کل صبح کا سورج نہیں دیکھنے دے گا۔

کچھ یہ تھا کہ مرشد براہ راست تجربے سے گزرا تھا اور باقی اسے خنجر کی زبانی معلوم ہوگیا تھا تھانہ ٹبی والے خون خرابے کے پیچھے رانا ہی کی عیاری اور کمینگی کار فرما تھی۔ ملنگی گروپ کی پشت پناہی وہ عرصہ دراز سے کر رہا تھا۔ اجو گھوڑا تو اس کا ایک معمولی سا پیادہ تھا، جس کی زندگی پر رانا نے ایسا شاطرانہ داﺅ کھیلا تھا کہ مرشد کے تین یاروں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے اورباقی ساتھی بھی مصیبت میں آگئے تھے۔ خود مرشد بھی مطلوب ترین مجرموں کی فہرست میں شامل ہو چکا تھا۔ رانا نے محض ذاتی مفاد (جو چوہدری سے وابستہ تھا) کی خاطر مرشد کے ساتھ دشمنی کی تھی۔ ظلم ڈھایا تھا اور متوقع طور پر آگے وہ حجاب سرکار کے لیے بھی مشکل اور مصیبت کا باعث بن سکتا تھا۔ مرشد کے نزدیک ایسے شخص کو زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہنا چاہیے تھا ۔دو قتل تو اب وہ کرہی چکا تھا۔ قاتل تو بن ہی چکا تھا

 خنجر کی واپسی رات دس ساڑھے دس کے قریب ہوئی۔ مرشد اس وقت پلنگ پر چت پڑا چھت کی کڑیوں میں لٹکتے جالوں کو تک رہا تھا ۔خنجر کے چہرے پر کچھ ایسے تاثرات تھے کہ مرشد اس کے بولنے سے پہلے ہی سمجھ گیا کہ کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہے۔

”مرشد استاد! تھوڑی گڑ بڑ سی ہے۔“اس کے لہجے میں تشویش آمیز سنسنی تھی۔ اس نے ہاتھ میں موجود شاپرز ایک طرف میز پر رکھے اور کرسی گھیسٹ کر پلنگ کے قریب ہو بیٹھا۔

”گھنٹہ پون گھنٹہ پہلے رانا اپنی ”شرعی رکھیل“ کے ہاں پہنچ آیا ہے لیکن توقع کے بالکل خلاف آج اس کے ساتھ تین چار لوگ اور بھی ہیں اور بالکل ہی توقع کے خلاف ان بندوں میں سے ایک ملنگی ڈاکوہے اور دوسرا اس کا جوڑی وال ہے فوجی!“ مرشد نے فورا اس کی طرف کروٹ بدلی۔ خنجر اپنی خنجر جیسی تیکھی آنکھو ں پر تنی بھویں اچکا کر بولا۔

”کیا تم اندازہ کرسکتے ہو کہ ان کے ساتھ اور اک نیا بندہ کون ہے؟“

”میں کوئی غائب دان یا نجومی نہیں ہوں۔“ مرشد نے کہا۔

”دو گاڑیاں تھیں ۔رانا والی گاڑی ہمیشہ کی طرح جمشید ڈرائیو کر رہا تھا۔ پیچھے ایک جیپ تھی ،ڈرائیور کے علاوہ اس جیپ میں ملنگی اور فوجی سوار تھے اور ان دونوں کے درمیان ایک جوان اور گوری چٹی لڑکی تھی۔ اندازہ یہ ہے کہ لڑکی اپنی مرضی کے خلاف ان کے ساتھ یہاں تک پہنچی ہے ۔شاید اسے مجبور کر کے زبردستی لایا گیا ہو کیونکہ اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔“

مرشد کے لیے یہ اطلاع انتہائی چونکا دینے والی تھی وہ بے اختیار ایک جھٹکے سے سیدھا ہو بیٹھا۔

”لڑکی اس کے بارے میں کیا اندازہ ہے؟ کون ہوسکتی ہے؟“

”کوئی اندازہ نہیں، وہ کوئی بھی ہوسکتی ہے۔“ خنجر نے کندھے اچکائے۔

”کہیں… کہیں وہ سرکار ہی نہ ہوں خنجر!“ مرشد کے لہجے میں یکایک ہی جیسے زمانے بھر کا اضطراب امڈ آیا۔

”میں اس بارے میں یقین سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا ایسا ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی!“ مرشد بے اختیار اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگا ۔اس کے رگ و پے میں ایک عجیب بے قراری پھیل گئی تھی ہلکی ہلکی دکھن کا احساس جگانے والی بے قراری۔

”خنجر ہمیں فوراً وہاں پہنچنا چاہیے۔“

”نہیں ،یہ غلط ہوگا۔ جو پروگرام ہم نے طے کر رکھا ہے وہ درست ہے ۔ہمیں ایک بجے سے پہلے یہاں سے نہیں نکلنا چاہیے۔“

”اگر وہ سرکار ہی ہیں تو پھر ہماری طرف سے تاخیر، ان کے لیے کسی نقصان یا تکلیف کا باعث بھی بن سکتی ہے۔“

”ہماری جلد بازی سارا کھیل چوپٹ بھی کرسکتی ہے اور پھر… یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ حجاب سرکار نہ ہوں کوئی اور ہو۔“ خنجر کے جواب پر مرشد ہونٹ بھینچ کر رہ گیا ۔گو کہ خنجر کا قیاس بھی معقول تھا لیکن پتا نہیں کیوں مرشد کا دل جیسے چیخ چیخ کر کہنے لگا تھا کہ ہو نہ ہو وہ حجاب سرکار ہی ہوں گی۔ چوہدری، رانا اور ملنگی لوگ سب ایک ہی کچھ تو تھے سب ایک ہی مقصد ،ایک ہی مشن پر تو مصروف عمل تھے ملنگی اور فوجی نے کسی نہ کسی طرح سرکار کا سراغ پالیا ہوگا۔ اس کے بعد انہوں نے انتہائی جارحانہ اور سفاکانہ انداز میں انہیں اغوا کیا ہوگا اور یہاں اٹھا لائے ہوں گے۔ اگلے مرحلے میں اب وہ یقینا چوہدریوں کے ساتھ معاملات طے کر کے سرکار کو ان فرعونوں کے حوالے کردیں گے اور اس کے بعد…مرشد ٹہلتے ٹہلتے ٹھٹک گیا ۔کئی بھیانک اندیشے ایک ساتھ اس کے دماغ میں پھنکار اٹھے تھے۔

”خنجر مجھے ابھی کے ابھی رانا کی اس رہائش گاہ تک پہنچنا ہے۔“اس کا لہجہ فیصلہ کن تھا۔ خنجر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔

”مرشد استاد! جذباتی ہو کر فیصلہ مت کرو نقصان اٹھائیں گے۔“

”صرف میں اٹھاﺅں گا، تم صرف مجھے وہ عمارت دکھا دو اس کے بعد میں جانوں اور میرا کام۔“

”اب یہ بات بھی تم غلط کر رہے ہو۔“ خنجر کے لہجے میں اعتراض تھا، شکایت تھی۔

”مجھے ابھی وہاں پہنچنا ہے۔“مرشد نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑتے ہوئے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔ خنجر چند لمحے اس کی صورت دیکھتا رہا پھر ایک گہری سانس لیتے ہوئے کندھے اچکا کر بولا۔

”ٹھیک ہے… تمہاری مرضی… یہ ٹھیک تو نہیں ہے لیکن چلو۔“ اس کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ وہ مجبوراً اتفاق کر رہا ہے ۔اس کے بعد مرشد نے کھانا کھانے میں بھی وقت ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ جس وقت وہ دونوں موٹر بائیک پر وہاں سے مغل پورہ کی طرف روانہ ہوئے اس وقت رات کے گیارہ بجنے میں صرف دس منٹ باقی تھے۔

رات نسبتاً زیادہ گرم تھی۔ فضا میں حبس گھلا ہوا تھا ۔خنجر نے سڑک کی بجائے گلیوں کے راستے کا انتخاب کیا۔ ایک عجلت انگیز سی بے چینی مرشد کے خون میں ہلکورے لے رہی تھی۔ اس کا بس چلتا تو وہ پلک جھپکتے ہی اڑ کر رانا کی اس رہائش گاہ میں سرکار کے روبرو جا پہنچتا مگر یہ اس کے اختیار میں نہیں تھا بہرحال انہیں مطلوبہ علاقے تک پہنچنے میں کوئی بہت زیادہ دیر نہیں لگی۔ رانا کی رہائش گاہ والی گلی میں داخل ہوتے ہی خنجر نے مرشد کو آگاہ

کیا۔

آگے بائیں ہاتھ ترچھے گیٹ والی کوٹھی آئے گی، وہی رانا کی رہائش گاہ ہے۔ اس کے عقبی طرف بھی کوٹھی ہے البتہ بغلی طرف ایک گلی موجود ہے۔“

”بس پھر اسی گلی میں سے ہو کر دوسری طرف نکلو،جائزہ لیتے ہیں۔“ 

یہ گلی خاصی کشادہ تھی اور پر سکون بھی۔ ساری گلی خالی پڑی تھی۔ فاصلے فاصلے پر صرف دو جگہ بلب روشن تھے۔ تقریبا دس گھر چھوڑ کر مرشد کی نظر اس ترچھے گیٹ والی عمارت پر پڑی ۔لوہے کا گیٹ واقعی قدرے ترچھی پوزیشن میں لگوایا گیا تھا شاید ایسا گاڑی کی بہ سہولت آمد و رفت کی غرض سے کیا گیا تھا۔ یہ نئے فیشن کی ایک دو منزلہ کوٹھی تھی جس کی بلند چار دیواری دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا تھا کہ کوٹھی خاصی وسیع اور شاندار ہے۔ رانا نے اپنی حرام کمائی کو یہاں خوب کھلے دل سے خرچ کیا تھا۔

خنجر ڈرائیو کر رہا تھا اور مرشد اس کے عقب میں بیٹھا تھا ۔اس کی تمام تر توجہ کوٹھی ہی پر مرکوز تھی، جس وقت بائیک کوٹھی کے سامنے پہنچی ٹھیک اسی وقت گیٹ کے دونوں پٹ کھلے، گیٹ کھینچ کر کھولنے والا ایک محکوم صورت نو عمر لڑکا تھا ۔مرشد کو اس کی محض ایک جھلک دکھائی دی ساتھ ہی ایک لمحے کے لیے محض ایک لمحے کے لیے اس کی نظر کھلتے ہوئے گیٹ کے اس طرف موجود منظر پر پڑی اور بائیک آگے نکل گئی۔

”سیدھے چلتے رہو۔“ مرشد نے بے اختیار فوراً خنجر کے کندھے کو دباتے ہوئے اس کے کان کے قریب کہا ۔ایک لمحے کا وہ نظارہ اسے چونکا گیا تھا ۔گیٹ کے اس طرف اندر ،ایک جیپ کھڑی تھی۔ کوٹھی کے کسی حصے کی طرف سے آتی ہوئی روشنی میں اس نے ایک شخص کو جیپ کا دروازہ کھول کر ڈرائیونگ سیٹ پر سوار ہوتے دیکھا اور ساتھ ہی جیپ کی عقبی طرف ،محض چند قدم کے فاصلے پر جیپ ہی کی طرف آتے ہوئے ملنگی اور فوجی کو بھی وہ دونوں آپس میں کوئی بات کرتے آرہے تھے اور دونوں ہی ایک دوسرے کی طرف متوجہ تھے۔

”بالکل ناک کی سیدھ ہی میں نا؟“ خنجر نے جیسے تصدیق چاہی تھی۔

”رفتار آہستہ کرلو۔“ مرشد نے عقبی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔خنجر نے فوراََ عمل کیا۔ وہ چند قدم مزید آگے بڑھے ہوں گے کہ عقب میں وہی جیپ گیٹ سے باہر نکل آئی۔ اس کا رخ مخالف سمت میں تھا۔

”روک دو۔“مرشد کی ہدایت پر خنجر نے پاﺅں بریک پر رکھ دیا۔ مرشد کی توجہ تو پہلے ہی عقب میں تھی خنجر بھی موٹربائیک روکتے ہی گردن موڑ کر دیکھنے لگا۔

”یہ تو ملنگی گروپ والی جیب لگ رہی ہے۔“ اس کی خیال آرائی نے مرشد کے اندازے پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ ملنگی اور فوجی اپنا ایک اور مشن پایہ تکمیل تک پہنچا چکنے کے بعد اب اپنی کسی کمین گاہ کی طرف واپس جا رہے تھے ۔ایک بار تو اس کے جی میں شدت سے آئی کہ بائیک فوراً موڑ لی جائے اور جیب کے برابر پہنچتے ہی ملنگی اور فوجی کی کھوپڑیوں کا نشانہ لیتے ہوئے پسٹل کا پورا میگزین خالی کردے مگر ایک خیال نے مضبوط مقناطیس کی طرح اسے اپنی طرف کھینچے رکھا اوروہ تھا حجاب سرکار کا خیال۔وہ جو اس سے بہت بلند، بہت دوراور نا آشنا تھی اور ساتھ ہی بہت قریب، اتنا قریب تھی کہ جیسے سینے کی اتھاہ اور نارسا تہوں میں ازل سے مکین ،ایک مہربان اور ٹھنڈی روشنی جیسے ذات کی شروعات سے اس کی معراج تک کے سب رازوں سے واقف اور آشنا اپنی ہی ذات کادوسرا حصہ اور وہ ہستی اس وقت یہیں تھی ۔اس سے محض چند قدم کے فاصلے پر موجود ایک سنگی چار دیواری کی اس طرف وہ چاہ کر بھی اب یہاں سے اِدھر ا�±دھر نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ اس کے بس کی بات ہی نہیں تھی ۔ بے اختیار وہ جبڑے بھینچ کر رہ گیا۔

ملنگی لوگوں کے ساتھ قرض ادائیگی کا معاملہ اس کی انا اور غیرت کے لیے سوال انگیز تھا، جبکہ حجاب سرکار کا معاملہ اس کی غیرت کے ساتھ ساتھ اس کے اعتقاد و عقیدے اور قلب و ایمان کے لطیف و نازک تاروں سے جڑچکا تھا۔

ملنگی لوگوں کی جیپ گلی کی دوسری نکڑ سے مڑ جانے کے بعد نظروں سے اوجھل ہوگئی تو مرشد خنجر کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا۔

”چلو… بغلی طرف والی گلی سے پچھلی طرف کو نکلو۔“

”لگتا ہے قدرت ہماری طرف داری میں ہے۔“ خنجر نے بائیک اسٹارٹ کرتے ہوئے اس کا ہینڈل گھمایا ،یقینا ملنگی اور فوجی دونوں چلے گئے ہیں۔“

”یہ بات تو ان لوگوں پر صادق آتی ہے۔“

”او خیر شاباش ہے بھئی !تمہارے حوصلوں کو یعنی تم آج ملنگی اور فوجی جیسے بندوں کا بھی نمبر لگانے والے تھے۔“ بائیک رانا کی کوٹھی کی بغلی گلی میں داخل ہوئی ۔یہ بمشکل چار ساڑھے فٹ کی ایک تنگ اور تاریک گلی تھی ۔کوٹھی کی دیوار تقریبا آٹھ دس فٹ بلند تو رہی ہوگی۔ موٹر بائیک عقبی گلی میں پہنچ گئی تو خنجر نے ایک جگہ بریک لگا دی۔ کچھ فاصلے پر موجود ایک بڑے گھر کے دروازے پر دو لوگ کھڑے کچھ بات چیت کر رہے تھے۔ جس جگہ خنجر نے بائیک روکی تھی اس کے برابر والی کوٹھی سے انڈین گانوں کی آواز باہر گلی تک آرہی تھی۔

”کیا پروگرام ہے؟“ مرشد کے بائیک سے اترنے پر خنجر نے سنجیدگی سے پوچھا۔

”میں نے تو رانا کا نرخرہ کاٹنا ہے آج۔ سرکار کو لے کر یہاں سے نکلنا ہے اور پھر انہیں بلوچستان ان کے وارثوں تک پہنچانا ہے، اس کی میں نے انہیں زبان دی تھی، وعدہ کیا تھا میں نے ۔تمہیں میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ تم واپس مکان پر لوٹ جاﺅ۔ میں یہاں کا یہ پھڈا آسانی سے بھگتا لوں گا۔ واپس تمہیں مکان ہی پر آکر ملتا ہوں۔“

”ٹھیک ہے۔ اچھا مشورہ ہے۔“ خنجر نے تفہیمی انداز میں سر ہلایا ”اور یہ آخری بات ہے تمہاری؟“

”سرکار“ مرشد کے چہرے پر چٹانی سنجیدگی تھی اور لہجے میں گہرا استحکام۔

”تو بس پھر ٹھیک ہے۔ اپنے لیے میں آپ فیصلہ کرنے کے قابل ہوں ابھی اورمیں تمہارے ساتھ ہی اندر چل رہا ہوں۔“خنجر کے لہجے کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے سے بھی پرخلوص عزم جھلک رہا تھا ۔مرشد انگلی کی مدد سے پیشانی کا پسینہ صاف کرتے ہوئے بولا۔

”تمہاری مرضی… تو تمہارے مطابق اس وقت اندر چار افراد ہونے چاہیے۔ ایسے ہی ہے نا؟“

”ہاں ہونا تو ایسے ہی چاہیے، بلکہ آج تو ایک فرد اضافی ہے ۔وہ لڑکی جسے یہ لوگ لے کر آئے ہیں۔“

”اس کے علاوہ؟“ مرشد نے سرسری انداز میں گردن گھما کر گلی کا جائزہ لیا۔ خنجر نے انگلیوں پر حساب شروع کیا۔

”ہاتھ بھر کا ملازم چھوکرا جمشیدا، جمشید کی بہن اور بہن کا یار یعنی رانا سرفراز۔ یہ ہوگئے چار۔ انہی چار کو ہونا چاہیے۔“

”چلو پھر دوبارہ گلی میں۔“ مرشد دوبارہ اس کے پیچھے بیٹھ گیا اور خنجر نے بائیک موڑ لی مرشد کوٹھی کے اندر داخل ہونے کے لیے جگہ پہلے ہی منتخب کرچکا تھا بغلی گلی کے وسط میں کوٹھی کے اندر ششم کا ایک درخت موجود تھا جس کی ڈھیر ساری گھنی شاخوں نے دیوار کا کچھ حصہ ڈھانپ رکھا تھا۔ مرشد نے اس جگہ سے دیوار پر چڑھنے کا فیصلہ کیا تھا لہٰذا ٹھیک اسی جگہ اس نے بائیک رکوا لی۔ گلی مکمل طور پر تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اس جگہ کھڑی بائیک کو کچھ فاصلے پر سے دکھائی دینا مشکل تھا ۔مرشد نے بائیک کو دیوار کے ساتھ جوڑ کر کھڑا کیا اور خود بائیک پر چڑھ کھڑا ہوا ۔یوں با آسانی اس کے ہاتھ

دیوار کے سرے تک جا پہنچے۔ اس کے بعد وہ محض ایک لمحے میں دیوار کے اوپر موجود گھنی شاخوں میں پہنچ چکا تھا ۔اس کے بعد خنجر بھی اسی طرح دیوار پر اس کے برابر جا پہنچا۔

درخت کی شاخوں کے بیچ سے کوٹھی کی مختلف لائٹوں کی روشنی دکھائی دے رہی تھی۔ جس جگہ وہ دیوار پر موجود تھے وہاں سے ان کے بائیں ہاتھ کچھ فاصلے پر بیرونی گیٹ موجود تھا ۔گیٹ سے آگے چار دیواری کے کونے میں ایک کمرہ موجود تھا جس کے اندر روشنی تھی۔ پورچ میں دو کاریں کھڑی تھیں۔ عمارت ان کے سامنے قدرے دائیں ہاتھ واقع تھی جس کی دوسری منزل پر صرف دو کمروں میں روشنی تھی جبکہ زیریں حصہ تقریبا تمام کا تمام ہی روشن تھا۔ ان کی سماعت و بصارت کے دائرہ کار میں نہ تو کوئی آواز آرہی تھی اور نہ ہی کوئی حرکت ۔اندر مکمل طور پر سکون اور خاموشی پھیلی ہوئی تھی۔

”میرا خیال ہے کہ وہ گیٹ کے اس طرف جو کمرہ ہے، اس میں ملازم چھوکرا ہوگا اور باقی سارے افراد ادھر کوٹھی کے اندر ہوں گے۔“ خنجر نے دھیمے لہجے میں اپنا خیال ظاہر کیا۔

”اس کو نظر انداز کرو۔ چھوکرے کو کچھ بھی نہیں کہنا ہم نے ۔ اصل ٹارگٹ رانا ہے اور مقصد سرکار کو حفاظت و سلامتی کے ساتھ یہاں سے لے کر نکل جانا۔ اس سب میں زیادہ وقت بھی ضائع نہیں کرنا۔“

”بس پھر اندر تو رانا اور جمشید ہی ہوں گے اور ان دونوں میں سے صرف ایک جمشید ہی کی طرف سے کچھ مزاحمت کی توقع ہے، رانا کی تو ویسے ہی تم پر نظر پڑتے ہی ہاتھوں پیروں سے جان نکل جائے گی ۔ویسے ہمیں رومال یا صافے وغیرہ لے کر آنا چاہیے تھا ،منڈاسوں کے لیے۔“

”درست کہہ رہے ہو۔ ایسا کرو کہ بھاگ کر دو صافے لے ہی آﺅ۔“ مرشد کی آنکھیں اور حسیات مکمل طور پر اندرونی جانب لگی ہوئی تھیں۔وہ عقابی انداز میں روشن کھڑکیوں کا جائزہ لے رہا تھا۔

”نہیں ،اب کیا جانا، اب تو پہنچ آئے ۔جو ہوگی دیکھی جائے گی اب۔“

”تیار ہوجاﺅ پھر ،پہلے میں جاتا ہوں۔ جیسے ہی میں ادھر بغلی حصے کے اندھیرے تک پہنچ جاﺅں تم بھی چلے آنا۔“ مرشد نے اسے ہدایت دی اور درخت کی مضبوط شاخوں کے سہارے درخت کے ایک موٹے اور مضبوط تنے پر جا پہنچا ۔وہاں سے وہ نیچے اترنے کا سوچ رہا تھا کہ کوٹھی کے اندرونی حصے سے ایک جوان نکل کر پورچ میں کھڑی کاروں کی طرف بڑھ گیا۔ خنجر کی تیز سرگوشی مرشد کے کانوں تک پہنچی۔

”یہ جمشید ہے۔“ جمشیدا ایک کار کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ رہا تھا ۔خنجر نے دوبارہ سرگوشیانہ انداز میں کہا۔

”لگتا ہے کہ یہ بھی اپنے گھر جا رہا ہے۔ میدان بالکل ہی صاف ہو رہا ہے جگر!“ خنجر کا اندازہ شاید درست ہی تھا۔ کار اسٹارٹ ہو کر بیرونی دروازے کی طرف بڑھی ساتھ ہی جمشید نے ہارن بجایا تو کونے والے کمرے سے فورا وہی محکوم صورت نو عمر لڑکا نکلا اور دوڑ کر گیٹ تک جا پہنچا۔ اس نے گیٹ کھولا اور جمشید کار کو آگے بڑھاتا ہوا گیٹ سے باہر نکل گیا ۔لڑکے نے گیٹ بند کیا اور دوبارہ اس کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

میدان ایک طرح سے واقعی صاف ہوگیا تھا ۔متوقع طور پر اب اندر صرف دو عورتیں تھیں یا پھر مردود رانا سرفراز خود تھا ۔دو عورتوں میں سے ایک تو بقول خنجر رانا کی شرعی رکھیل عظمیٰ تھی اور دوسری… دوسری ہستی یقینی طور پر حجاب سرکار کی تھی۔ مرشد کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگیں ۔کچھ ہی دیر میں وہ حجاب سرکار کے روبرو ہونے والا تھا۔

درخت سے نیچے اترنے کے بعد اس نے ایک ذرا اِدھر ا�±دھر کا جائزہ لیا پھر دبے لیکن تیز قدموں سے آگے بڑھتا ہوا رہائشی عمارت کی بغلی طرف پہنچ

گیا۔ اس طرف قدرے اندھیرا تھا، صرف ایک کھڑکی تھی جس سے معمولی روشنی باہر تک آرہی تھی۔ مرشد نے دیوار کے ساتھ رک کر خنجر کو درخت سے نیچے اترتے دیکھا پھر چند قدم کے فاصلے پر موجود کھڑکی تک جا پہنچا ۔یہ کچن کی کھڑکی تھی۔ محض چند ہی لمحوں میں خنجر بھی اس کے قریب پہنچ آیا۔

”کیا خیال ہے؟ سیدھے سے منہ اٹھا کر اندر نہ چلے چلیں۔“

”بالکل ٹھیک خیال ہے۔ آجاﺅ۔“مرشد نے فورا اس کی بات سے اتفاق کیا اور پلٹ کر سچ میں سامنے کے رخ چل پڑا ۔یکایک ہی اس نے ہر احتیاط اور ہر اندیشے کو پس پشت ڈال دیا تھا۔

 بغیر کسی دقت یا پریشانی کے وہ دونوں کوٹھی کے کشادہ لاﺅنج تک جا پہنچے۔ ایک کونے سے خوب صورت سنگی زینے اوپر کی منزل پر جاتے تھے ۔ بائیں ہاتھ سامنے اور دائیں ہاتھ الگ الگ چار دروازے دکھائی دے رہے تھے۔ ایک تو کچن کا دروازہ تھا جو پہلے سے کھلا تھا ۔دوسرا ایک دروازہ کمرے کا تھا جس میں کوئی موجود نہیں تھا۔ تیسرا باتھ روم کا تھا اور چوتھا دروازہ ایک مختصر سے کوریڈور میں کھلتا تھا ۔اس کوریڈور میں تین دروازے تھے، ایک بالکل سامنے اور دو دائیں بائیں ۔وہ دونوں چند قدم ہی آگے بڑھے تھے کہ دائیں ہاتھ والے دروازے سے ایک بھاری مردانہ قہقہے کی آواز سنائی دی اور وہ دونوں ٹھٹک گئے۔ دروازے میں معمولی سی جھری تھی۔

”اس طرح نہیں رانا صاحب !اس طرح نہیںمیرے پانچ بندے بے موت مارے گئے ہیں۔ خود میری اپنی زندگی، اپنا کیریئر داﺅ پر لگا ہے۔ اس سارے ڈرامے کا نتیجہ مجھے کچھ بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے، اس لیے اس سب کی قیمت بھی تو پھر ویسی ہی ہونی چاہیے نا!“

اندر رانا سرفراز کے علاوہ بھی کوئی موجود تھا۔ آواز نشے سے بوجھل تھی پھر بھی مرشد نے اس آواز کو با آسانی شناخت کرلیا ۔وہ شناسا آواز تھی لیکن مرشد نے اسے اپنا وہم خیال کیا۔ اس نے دیوار کے ساتھ لگ کر دروازے کی جھری سے اندر جھانکا ،اتفاق سے نظر سیدھی ان صوفوں پر پڑی جہاں دو افراد آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک تو رانا سرفراز ہی تھا جبکہ دوسری شخصیت پر نظر پڑتے ہی مرشد کا دماغ جھنجھنا کر رہ گیا۔ ایک شدید جھٹکا ، ایک کرنٹ تھا جو اس کی آنکھوں کے رستے اس کے پورے وجود میں دوڑ گیا تھا۔ آواز کے بعد اب وہ اپنی آنکھوں سے صاحب آواز کو بھی دیکھ چکا تھا لیکن اسے جیسے اپنی سماعت اور بینائی پر شبہ ہو رہا تھا ۔اسے ،اس شخص کی یوں یہاں موجودگی پر یقین ہی نہیں آرہا تھا!

…٭٭…

میر صاحب تیسرے روز سہ پہر کے وقت وہاں پہنچے ۔نومبر کی لطیف خنکی کے دن تھے ۔حسن آرا کو دوپہر سے پھر ہلکی ہلکی حرارت کی شکایت تھی سو وہ کندھوں پر ایک سیاہ شال اوڑھے چھت پر پڑی ایک کرسی پر بیٹھی مونگ پھلی ٹھنگور رہی تھی اور اداس نظروں سے بادشاہی مسجد کے پر شکوہ اور خاموش میناروں کو تک رہی تھی۔ ابھی کچھ دیر پہلے تک سندس جہاں اور عشرت جہاں بھی یہیں ،اس کے ساتھ ہی موجود تھیں، ادھر وہ اٹھ کر نیچے گئیں اور ادھر میر صاحب اوپر چلے آئے۔ وہ بالکل قریب پہنچ آئے تھے جب حسن آرا کو ان کی آمد کا احساس ہوا۔ اس نے فورا اٹھنے کی کوشش کی تھی لیکن میر صاحب نے آگے بڑھ کر اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ دیے۔

”بیٹھی رہیے حسن آرا! آپ کو زحمت فرمانے کی قطعا بھی کوئی ضرورت نہیں۔ براہ کرم تشریف رکھیے۔“میر صاحب کی اس قربت اور کندھوں پر آ پڑنے والے ان کے مضبوط لیکن مہربان سے لمس نے حسن آرا کے پورے وجود میںسحر انگیز لہریں دوڑا دیں۔ اس کے ذہن میں وہ لازوال اور ہوش ربا لمحات تازہ ہو آئے ،جو گزرے دنوں کی ایک خوش گوار رات کو اس نے میر صاحب کے انہی مضبوط اور مہربان بازوﺅں کے حصار میں بتائے تھے۔دل بے طرح سے دھڑکا ۔وہ شال کو کچھ مزید اچھے سے لپیٹتے ہوئے شکریہ کہہ کر واپس بیٹھ گئی۔

آسمان پر گردش کرتی کالے بادلوں کی ٹولیاں وقفے وقفے سے شاہ خاور کے روبرو ہوتی تھیں اور چاروں طرف بکھرے تمام زندہ مناظر ایک سرمئی سے روپ میں ڈوب کر عجیب افسانوی سا ،ماورائی سا احساس جگانے لگتے تھے۔ میر صاحب دوسری کرسی کو سامنے کی طرف سرکا کر بیٹھتے ہوئے بولے۔

”آپ کی طبیعت کیسی ہے اب؟“

”جی! بہت بہتر ہے ۔آپ کے فاروقی صاحب کل شام پھر ڈاکٹر صاحب کو لے آئے تھے بازو میں سرنج گھونپ گئے اور تھیلا دواﺅں کا بھی دے گئے۔“

میر صاحب نے بغور اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔

”لیکن آپ کے یہ رخسار اور گلابی ہوتی ناک تو کہہ رہی ہے کہ ابھی بھی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔“

”کچھ خاص نہیں ،بس ہلکی سی حرارت ہے۔ دوا لی ہے ہم نے، ٹھیک ہوجائیں گے۔“

چند لمحوں کے لیے چھت پر خاموشی سرسرائی پھر میر صاحب کی گمبھیر آواز حسن آرا کے کانوں میں اتری۔

”آغاجی ملنے آئے تھے آپ سے؟“

حسن آرا نے آہستہ سے ان کی طرف دیکھا۔

”آغا جی کون؟“

”ہمارے بڑے بھائی۔ پرسوں تقریباً اسی وقت آپ سے ملاقات کی ہوگی انہوں نے۔“ میر صاحب کے چہرے اور لہجے میں گہری سنجیدگی تھی۔ حسن آرا کو پرسوں والے مہمان یاد آئے، پہلی ہی نظر پر اس کے دل نے گواہی دی تھی کہ ہو نہ ہو یہ پروقار شخص میر صاحب ہی کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور اب ان لمحوں میر صاحب ہی کی زبانی اس بات کی تصدیق ہو رہی تھی کہ وہ میر صاحب کے بڑے بھائی تھے۔

”ہاں جی! کچھ لمحوں کی ملاقات رہی ان سے۔“

”ہمیں اندازہ ہے وہ کس لیے آئے تھے اور کیا کہہ کر گئے ہوں گے۔“

”آپ نے ہمارے متعلق جو فیصلہ کیا ہے وہ انہیں ناگوار گزرا ہے ۔ہم پر بھی خفا ہو رہے تھے وہ۔“

”پھر… آپ نے کیا جواب دیا انہیں؟“ میر صاحب نے اپنی واسکٹ درست کرتے ہوئے کرسی کی پشت گاہ سے ٹیک لگالی۔

”ہمارے لیے تو آپ کی خواہش بھی حکم کا درجہ رکھتی ہے حضور! اور آپ کے حکم پر سر تسلیم خم کرنا ہمارے نزدیک ایمان کا حصہ ہے لیکن“

”لیکن کیا؟“حسن آرا کی ہچکچاہٹ پر انہوں نے فورا استفسار کیا۔

”وہ دراصل آغا جی بھی تو اپنی جگہ درست ہیں۔ ہم بھی پہلے آپ کے سامنے درخواست گزار چکے ہیں ۔ہماری جگہ تو آپ کے پیروں کی خاک میں بنتی ہے ۔ہم آپ کے پیروں کی دھول ہی سے تو ہیں۔ آپ اس دھول کو اپنی مبارک پیشانی سے لگا کر کیوں ہمیں ہماری نظروں میں گناہ گار کرنا چاہتے ہیں۔“حسن آرا کے لہجے میں جھجک تھی، شرمندگی تھی، یوں جیسے وہ نا چاہتے ہوئے بھی گستاخی کی مرتکب ہو رہی ہو۔

”حسن آرا! یہ آپ کی عاجزانہ فطرت ہے جو آپ کو ایسا سوچنے پر مجبور کرتی ہے، وگرنہ ہم آپ کو گناہ گاہ کہاں کر رہے ہیں۔ بلکہ ہماری خواہش تو یہ ہے کہ ہم آپ کو گناہوں کی اس بستی میں رچنے بسنے سے پہلے ہی یہاں سے باہر نکال لیں اور آپ اچھے سے جانتی ہیں کہ اس طرح اصل میں ہم اپنے ہی گناہ دھونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ رہی بات آغا جی کی تو وہ آپ کی نہیں، ہماری پریشانی ہیں۔“ میر صاحب نے آگے کو ہو کر حسن آرا کی گود میں پڑا مونگ پھلی کا لفافہ اٹھایا اور مٹھی بھر لینے کے بعد لفافہ واپس حسن آرا کی طرف بڑھا دیا۔

”بس کھالیے۔“ حسن آرا نے لفافہ تھام لیا اور قدرے اداس لہجے میں بولی۔

”ہمارے باعث آپ کا اپنے گھر بار، خاندان اور اپنے ہی لوگوں کے ساتھ بگاڑ پڑے گا۔ ایسے میں ہر لمحہ ہم احساس جرم کی گھٹن کا شکار رہیں گے۔ آپ کے اور آپ کے سارے خاندان کے مجرم بن جائیں گے۔“

میر صاحب نے مونگ پھلی کے چند دانے نکال لیے تھے وہ دانے میر صاحب حسن آرا کے ہاتھ پر ڈالتے ہوئے اپنے مخصوص اور دھیمے لہجے میں بولے۔

”آپ خود کو ایسی سوچوں میں مت الجھایا کریں، کہیں کوئی بگاڑ نہیں پڑے گا۔ آغا جی کو ہم اپنا موقف سمجھا چکے ہیں ۔آپ بالکل بے فکر رہیں۔“

”آپ کے والد صاحب بھی تو ہیں ۔آپ نے بتایا تھا کہ وہ الگ مزاج کے مالک ہیں ۔وہ…“

”ہمیں یاد ہے۔“ میر صاحب نے پھونک مار کر ہتھیلی سے مونگ پھلی کے چھلکے اڑائے ۔”ہم نے بتایا تھا کہ ہم ایک روایت پرست خاندان سے تعلق

رکھتے ہیں لیکن ہم نے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم خود بھی روایت پرست ہیں ۔ہم روایات کے معاملے میں اعتدال کے قائل ہیں حسن آرا! ہمارا ماننا ہے کہ روایات کو کم از کم زندہ انسانوں پر ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ بابا سائیں اس وقت ملک سے باہر ہیں ،دو دن بعد ان کی واپسی ہوگی، تب آغا جی خود ہی اس مدعے پر ان سے بات کرلیں گے ۔باقی ہم“ میر صاحب نے بات کرتے کرتے ایک لمحے کو خاموش ہو کر حسن آرا کی طرف دیکھا جس کی نظریں دور ابر آلود افق پر جمی ہوئی تھیں ۔

”باقی ہم اپنی شریک حیات کو بھی آپ کا تعارف دے چکے ہیں۔“ حسن آرا نے فورا ان کی طرف دیکھا تھا۔

”ہمارا تعارف!“

”جی… ہم انہیں سب کچھ صاف صاف بتا چکے ہیں ۔آپ کے بارے میں بھی اور آپ کے ساتھ خود اپنے بارے میں بھی سب کچھ۔“

”پھر انہیں تو بہت برا لگا ہو گا؟“ سوال از خود اس کی زبان سے پھسل پڑا تھا۔

”برا تو شاید نہ لگا ہو لیکن، دکھ تو ہوا ہوگا وہ ایک بہترین عورت ہیں اور اس سے بھی زیادہ بہترین شریک حیات۔ جب آپ کی ملاقات زہرہ خاتون سے ہوگی آپ خود جان جائیں گی ۔ہم نے جس توقع کے تحت ان سے بات کی اس میں زہرہ نے ہمیں مایوس نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے معاملے اور صورت حال کو نہ صرف سمجھا ہے بلکہ ہمیں آپ کے ساتھ نکاح کر لینے کی اجازت بھی دے دی ہے۔“

”وہ بہت صابر، شاکر، متحمل اور عالی ظرف خاتون ہیں۔ ہم ملاقات سے پہلے ہی انہیں جان گئے۔“حسن آرا نے مسکراتے ہوئے ایک نظر مشتاق میر صاحب کے چہرے پر ڈالی۔ اسی وقت سیڑھیوں سے نزہت بیگم نمودار ہوئی، اس کے پیچھے پیچھے سندس جہاں تھی ،جس نے ایک پلیٹ میں شربت کا گلاس اٹھا رکھا تھا۔ وہ تو گلاس میر صاحب کو تھما کر واپس پلٹ گئی جبکہ نزہت بیگم تیسری کرسی پر براجمان ہوگئی۔

”ہم کس دن مولوی صاحب کو لے کر آئیں؟“ میر صاحب نے شربت کا گھونٹ بھرا اور نزہت بیگم کی طرف متوجہ ہوئے۔ نزہت بیگم ایک گہری سانس بھرتے ہوئے بولی۔

”ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے میر صاحب لیکن جو آپ چاہتے ہیں اگر ویسا کچھ ہوا تو یہ کوٹھا ہماری قبر بن جائے گا۔“

”ایسا کچھ نہیں ہوگا، آپ اطمینان رکھیں۔“

”کیسے رکھیں ،کہاں سے رکھیں ہر بات اپنی جگہ میر صاحب! ہم اوقات نہیں رکھتے کسی بھی حوالے سے ،نہ آپ کے مقابل نہ چوہدری کے سامنے اور نہ ہی آپ کے خاندان کے دیگر لوگوں کے سامنے ۔آپ… آپ خدا کے لیے ہمیں ایسی مشکل میں مت ڈالیں۔ ہم غریب لوگ بے موت مارے جائیں گے۔“نزہت بیگم کے لہجے میں بے بسی تھی ،اندیشے تھے۔ وہ حالات و واقعات کی نزاکت اور سنگینی کو بخوبی محسوس کر رہی تھی۔

”چوہدری اکبر کے علاوہ آپ شاید آغا جی ہی کی بات کر رہی ہیں۔ ان سے ہم بات کر چکے ہیں۔ پرسوں شام آپ لوگوں نے انہی کی ایما پر تھانے سے بیان واپس لیا ہے نا! آپ لوگ ایسا نہ کرتے تو ہم چند ہی روز میں چوہدری اکبر کو قانونی طور پر اس طرح پابند کردیتے کہ وہ آئندہ کبھی بھی ادھر کا رخ نہیں کرتا۔ بہرحال، ہم اب کسی اور طریقے سے اسے سمجھالیں گے۔ آپ کو ان میں سے کوئی پریشان نہیں کرے گا۔“

”یہ نہیں کریں گے تو کسی اور کو بھیج دیں گے کوئی اور آجائے گا۔“

 میر صاحب خالی گلاس کرسی کے پائے کے ساتھ رکھتے ہوئے بولے۔

”پھر ایسا کریں کہ آپ سبھی یہ جگہ چھوڑ دیں یا پھر یہ شہر ہی چھوڑ دیں اور… اور اگر آپ چاہیں تو ہم اس ملک سے باہر آپ سب کے رہنے جینے کا

انتظام کر دیتے ہیں۔ بولیں جیسے آپ چاہیں، جیسے کہیں!“وہ فیصلہ کن موڈ میں تھے۔ نزہت بیگم بے اختیار کرسی پر پہلو بدل کر رہ گئی۔ اس کی آنکھوں میں شدید تذبذب کسمسانے لگا تھا۔

”آپ نے تو مشکل اور بڑھا دی ہماری۔“ نزہت بیگم نے جیسے بلند آواز میں خود کلامی کی۔” ہاں بھی مشکل ،ناں بھی مشکل ،ہم کریں تو کریں کیا؟“

”آپ بس ہاں ہی کیجیے۔ مشکلات کو ہم خود ہی سنبھال لیں گے۔“

نزہت بیگم نے خاموش نظروں سے اپنی ہی طرف دیکھتی حسن آرا پر ایک نظر ڈالی پھر میر صاحب پر اور بے چینی سے ہونٹ چبا کر رہ گئی۔ میر صاحب نے اس کی اس الجھن زدہ خاموشی کو مثبت جانا وہ فیصلہ کن انداز میں بولے۔

”آج اتوار کا دن ہے۔ اگلے چار روز نکال دیں ، جمعة المبارک کی شام ہم اسی وقت چار افراد کے ساتھ آئیں گے اور حسن آرا سے نکاح کر کے انہیں اپنے ساتھ لے جائیں گے ،ہمیشہ کے لیے۔ آپ آج کی رات مزید سوچ لیں۔ فون نمبر تو ہمارا آپ کے پاس ہے ہی جو آپ کہیں گی، جو منہ سے نکالیں گی وہ جمعرات کی شام تک پورا کردیا جائے گا۔“ اس لمحے نزہت بیگم کو میر صاحب کی ذات کچھ مزید زیادہ پر رعب محسوس ہوئی۔ اس سے کوئی بھی بات نہ بن پائی، بس بے اختیار تھوک نگل کر رہ گئی۔ بے شک اس کے دماغ میں بہت سے اندیشے کلبلا رہے تھے ۔وہ چوہدری اکبر علی اور آغا جی کے حوالے سے واقعی خائف تھی لیکن میر صاحب کی پیشکش ،ان کی شاہانہ فراخ دلی نے اسے سمرائز کردیا تھا۔ اندر بری طرح للچا اٹھا تھا۔

مغرب کی اذان شروع ہوئی تو میر صاحب نے حسب عادت خاموشی اختیار کرتے ہوئے گردن قدرے خم کرلی۔ ان کی طرف دیکھتی ہوئی حسن آرا نے بھی بے اختیار ان کی تقلید کی۔ اس کا رواں رواں نہال تھا۔ نزہت بیگم نے پہلے حسن آرا کی طرف دیکھا پھر گردن گھما کر سر خم کیے بیٹھے میر ارشد اللہ کو دیکھنے لگی۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ قسمت اور دولت کا دیوتا اس کے سامنے کرسی پر بیٹھا ہے۔ اذان کے بعد میر صاحب کی خواہش پر نزہت بیگم نے نیچے جا کر ان کے لیے مصلہ بھیجا ،میر صاحب نے آگے بڑھ کر چھت کے کونے میں مصلہ بچھایا اور نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ حسن آرا ایک ٹک انہیں دیکھے گئی ۔یوں جیسے جاگتی آنکھوں خواب دیکھا جائے کسی ایسی حقیقت کو دیکھا جائے کہ جسے دیکھتے ہوئے بھی اپنے دیکھے پر یقین نہ آئے۔

میر صاحب تو نماز کے فورا بعد جلد اگلی ملاقات کا کہہ کر روانہ ہوگئے،حسن آرا چپ چاپ وہیں بیٹھی رہی اور اس مصلے کو دیکھتی رہی، جسے میر صاحب شاید کسی عجلت کی بدولت اسی جگہ بچھا چھوڑ گئے تھے۔ اندھیرا پوری طرح پھیل گیا تو حسن آرا خوابیدہ سے انداز میں اٹھی اور جا کر بے خودی کے سے انداز میںمصلے پر کھڑی ہوگئی کچھ دیر پہلے اس جگہ دنیا کا خوب صورت ترین انسان کھڑا تھا۔ حسن آرا کے ہاتھ بے اختیار تکبیر کے لیے اٹھے اور نماز کی نیت سے بندھ گئے ۔بالکل اسی طرح کھڑا تھا وہ خوب صورت انسان وہ عظیم ترین اور مہربان انسان جس کا نام میر ارشد اللہ تھا

اسی رات بارہ بجے کے قریب کوٹھے پر اچانک ایک افراتفری کا ماحول بن گیا۔ محفل اپنے شباب پر چوپٹ ہوگئی۔ سازوں کا اچانک دم گھٹ گیا۔ حسن آرا کو بخار تھا، وہ اپنے کمرے میں لحاف اوڑھے لیٹی ہوئی تھی کہ کچھ نامانوس آوازیں اور آہٹیں سن کر فورا اٹھ کر کمرے کے دروازے تک پہنچ گئی ۔سامنے کا منظر دیکھتے ہی اسے کسی بڑی گڑ بڑ کا احساس ہوا۔چار اونچے لمبے اور مضبوط ڈیل ڈول کے اجنبی افراد نورے کو کالر سے دبوچے اس کمرے کی طرف آرہے تھے۔ نورے کی حالت دگرگوں تھی۔ گریبان پھٹا ہوا تھا اور ناک سے لہو بہہ رہا تھا۔

”حسن آرا تم ہی ہو؟“ قریب پہنچتے ہی ان میں سے ایک نے خشک لہجے میں اس سے دریافت کیا۔

”جج، جی!“ ان چاروں کے تیور انتہائی کرخت دکھائی دے رہے تھے۔

”کوئی دوپٹا چادر اوڑھو اور چلو۔“

”کک… کدھر؟ آپ لوگ ہیں کون؟“ وہ گھبرا گئی۔ نورے کو چھوڑ کر ایک طرف دھکا دے دیا گیا۔

”کوئی سوال نہیں۔“ وہی شخص تنبیہ کے انداز میں انگلی اٹھاتے ہوئے بولا۔”کوئی سوال نہیں، صرف کہے پر عمل کرو۔ ایک منٹ کے اندر کوئی چادر اوڑھ کر خاموشی سے ہمارے ساتھ چل پڑو تو ہماری طرف سے تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔ دوسری صورت میں ہم تمہیں اسی طرح اٹھا کر لے جائیں گے اور کوئی نرمی یا رعایت بھی نہیں کریں گے۔“ انتہائی کھردرا اور دو ٹوک انداز تھا۔ حسن آرا کو فورا اندازہ ہوگیا کہ اگر اس نے ان کے کہے پر عمل نہ کیا تو یہ اپنے کہے پر عمل کر گزریں گے ۔اسے ان کی بات مان لینے میں ہی بہتری محسوس ہوئی ۔یہ الگ بات کہ اس کے دماغ میں ایک بھونچال سا برپا ہوگیا تھا۔

 جس وقت وہ سیاہ شال اچھے سے اوڑھ کر ان چار ڈشکروں کے ساتھ نیچے ہال میں پہنچی تو اسے معلوم ہوا کہ وہاں صرف وہی چار اجنبی نہیں تھے۔ وہ ایک جیسے ڈیل ڈول اور ایک جیسی سنجیدہ اور کرخت صورتوں والے آٹھ افراد تھے۔ ان آٹھ کے علاوہ دو پولیس والے بھی ان کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ استاد مبارک اور ساجے کے علاوہ تمام سازندے ایک طرف قطار میں مرغا بنے کھڑے تھے جبکہ نزہت بیگم، عشرت اور سندس ایک طرف گھٹنے قالین پر ٹیکے بیٹھی تھیں، چاندنیاں، گاﺅ تکیے، پاندان اور پھول گجرے ہال میں سارا کچھ بے ترتیبی سے بکھرا پڑا تھا اور اتنے افراد کی موجودگی کے باوجود وہاں کی گہری خاموشی کسی سنگین خرابی کا اشارہ دے رہی تھی۔ حسن آرا کے وہاں پہنچتے ہی ایک گرانڈیل شخص نے نزہت بیگم کو بازو سے پکڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا۔

”چل بی بی! اٹھ اور آگے لگ۔“نزہت بیگم کے چہرے پر پریشانی تھی ،سراسمیگی تھی۔

”مائی باپ! اتنا تو بتادیں کہ ہمیں لے جا کہاں رہے ہیں؟“نزہت بیگم نے ہاتھ جوڑتے ہوئے بے چارگی سے باری باری سب کی طرف دیکھا۔

”بکواس نہ کر۔ چل، آگے ہو۔“ اس شخص نے اسے جھٹکے سے اٹھا کر کھڑا کیا اور دروازے کی طرف دھکا دیا۔

”ہم غریبوں سے کیا غلطی ہوئی ہے کچھ تو بتا دیں۔“ نزہت بیگم ایک بار پھر منمنائی۔

”اس حرافہ کے سوال ایسے ختم نہیں ہوں گے ،زبان کاٹ کر پھینک پہلے اس کی۔“ یہ وہ تھا جو حسن آرا کو نیچے لے کر آیا تھا۔ لب و لہجے میں ایسی سختی اور بے رحمی تھی کہ حسن آرا نے اپنے وجود میں ایک سرد لہر سی دوڑتی ہوئی محسوس کی۔

”نن… نہیں میں خاموشی سے چل رہی ہوں۔“ نزہت بیگم کا پتا پانی ہوگیا تھا ۔اس کے بعد وہ سب اسے اور حسن آرا کو لے کر سیڑھیوں سے نیچے اتر گئے۔حسن آرا کا دماغ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ ہو نہ ہو ان لوگوں کا تعلق آغا جی سے ہے اور ان دونوں کو انہی کے پاس لے جایا جا رہا ہے۔

بازار پوری طرح زندہ تھا۔ ارد گرد کی تمام آنکھوں نے انہیں فوجیوں جیسے جوانوں کے گھیرے میں ایک بند باڈی کی ویگن میں بیٹھتے دیکھا ۔کئی ایک سرگوشیاں اِدھر ا�±دھر سرسرائیں اور گلی کی نکڑ پر موجود تینوں گاڑیاں اسٹارٹ ہو کر کسی نامعلوم منزل کی طرف دوڑ پڑیں۔

…٭٭…                                                                                    

اس دل چسپ اور سنسنی خیز داستان کو مزید آگے پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے