مرشد (عشق جس کو وراثت میں ملا تھا) قسط نمبر14

قدم قدم ہنگاموں اور حادثوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے عشق کی رودادِ دل گداز

اُس نے نزہت جہاں بیگم کے کوٹھے پر آنکھ کھولی، مسلے مرجھائے گجرے، باسی پھول اور گھنگرو اس کے کھلونے بنے، بدمعاشوں کی دنیا نے اسے مرشد مانا اور پھر…… وہ کسی کا مرید ہو گیا

مرشد

شاہی محلے کا نمازی بدمعاش جس نے سرکار سے عشق کیا اور عشق کی مریدی

Murshid urdu novel by sahir jamil syed
Murshid Urdu Novel

 اگلے روز دوپہر کے وقت میر صاحب کی طرف سے چند لوگ کوٹھے پرپہنچے‘ حسن آرا ان میں سے صرف نفیس طبع قریشی صاحب کوپہچان پائی جن سے وہ پہلے بھی مل چکی تھی۔ وہ لوگ تقریباً پون گھنٹہ نزہت بیگم کے ساتھ مہمان خانے میں بند رہے اور پھر چلے گئے۔ ان کے چلے جانے کے بعد بھی نزہت بیگم کافی دیر تک مہمان خانے میں ہی بیٹھی رہی۔حسن آرا کے ساتھ ساتھ‘ عشرت اورسندس کوبھی حال احوال جاننے کی سخت بے چینی تھی۔ انہوں نے نزہت بیگم سے جاننا بھی چاہا لیکن کسی کوکوئی جواب نہیں ملا۔

نزہت بیگم کایکسر بدل جانے والا رویہ انہیں مزید بے چین کررہاتھا۔ پوچھنے کے باوجود اس نے کسی کو کچھ نہیں بتایااور جاکراپنے کمرے میں بند ہوگئی۔ سب نے واضح طور پر دیکھاتھا کہ وہ انتہائی شدید الجھن اور پریشانی کاشکار ہے۔ مہمان خانے سے رخصت ہونے والے لوگ یقینا اسے کسی بڑی مشکل میں مبتلا کرگئے تھے۔

باقی کاسارا دن… شام… محفل کادورانیہ ‘رات آخر وقت تک‘ مسلسل… نزہت بیگم اسی کیفیت میں رہی۔ پتا نہیں اب اس کے دماغ میںکون سا روگ پک رہاتھا۔ حسن آرا اپنے طو رپر اندازے لگاتی رہی‘ سوچتی رہی اور آخری پہر کچھ دیر کوسوگئی… کچھ دیر بعد اسے نزہت بیگم ہی نے آکراٹھایاتھا۔

”سو رہی ہے تو؟“ اس کے چہرے اور آواز میں گمبھیرتا تھی۔ حسن آرا فوراً اٹھ بیٹھی۔

”ہاں!آنکھ لگ گئی تھی۔کیابات ہے؟“

”پرسوں عصر کے وقت میر صاحب آئیں گے… چار چھ افراد کے ساتھ… عصر کی نماز وہ یہیں پڑھیں گے… نماز کے بعد تمہارا نکاح ہوگا اور ساتھ ہی رخصتی۔“

حسن آرا کے دماغ پر چھائی ساری غنودگی اور کسلمندی ایک ہی پل میں اڑنچھو ہوگئی۔ دل تو دل‘ اس کی سماعت تک دھڑک اٹھی تھی۔ وہ حیرت وبے یقینی سے نزہت بیگم کی طرف دیکھتی ہی رہ گئی اور نزہت بیگم اتنا کہنے کے بعد اسی پھولے پتھرائے سے چہرے کے ساتھ پلٹ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔ اس کے دماغ میں جو کچھ بھی پکتارہاتھا‘ وہ آخر کار تیار ہو کرسامنے آگیاتھا۔ حسن آرا پر بہ یک وقت بے یقینی اور خوش گوار حیرت کے احساس نے حملہ کیاتھا۔ کچھ دیر تک تووہ بالکل سن اور ساکت ہو کر رہ گئی۔ پھریکایک اس کے سینے میں دل نے یوں دیوانہ وار دھمال کی شروعات کی کہ وہ گھبرا ہی گئی کہ کہیں خوشی کی زیادتی سے اسے کچھ ہوہی نہ جائے۔وہ بے اختیار اٹھ کر کمرے سے باہر‘ کھلی چھت پر نکل آئی۔فضا میں وہی خنک دھندلی چاندنی بکھری تھی۔ چاروں طرف ٹھٹھرتی ہوئی خاموشی تھی۔ اس خاموشی میں صرف اس کا دل دھڑک رہاتھا۔ دھڑکنیں کچھ مخصوص آہنگ میں ڈھل کرچندلفظوں کی صورت اس کے اردگرد بکھررہی تھیں۔

”پرسوں عصر کے وقت… نماز…نکاح… رخصتی… میرصاحب!“ بات یقین کیے جانے والی نہیں تھی لیکن تھی یونہی‘ شاید خدا اس پر ایک عظیم احسان کرنے والا تھا۔ ایک انہونی ہونے جارہی تھی۔ بلاشبہ اس اطلاع پر اسے بہت خوشی ملی تھی۔ وہ خوش تھی لیکن اس خوشی کے اندر گہرائی میں کہیں… ایک تشویش اور فکرمندی بھی تھی۔ کچھ موہوم اندیشے بھی تھے۔ یہ ساری تشویش میر صاحب کی ذاتی زندگی سے تعلق رکھتی تھی۔ ان کے گھر‘خاندان اور خاندان کے لوگوں سے تعلق رکھتی تھی۔ اسے فکر تھی کہ کہیں اس سب کی بدولت میر صاحب اور ان کے اپنے لوگوں کے درمیان کوئی بڑی یاشدید نوعیت کی بدمزگی نہ ہو جائے… بدمزہ کردینے والے اس خیال کے ساتھ ہی ایک اور خیال یقین بن کراس کے اندر پھیل جاتاتھا کہ میر

صاحب ہر طرح کے مسائل اور معاملات کوسنبھال لینے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں اور قدرت بھی… وہ یقینا بہ احسن وخوبی سب کچھ سنبھال لیں گے۔

نیند تو اس مژدہ جاں فزا کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے کوسوں دور چلی گئی تھی۔ رات کاباقی حصہ اس نے جاگ کر ہی گزارا۔ دن چڑھے سوئی تو دوپہر کوخالہ مجیدن‘ کستوری‘ گل بانو اور اقبال کی کمرے میں آمد کے بعد جاگی‘ بلکہ جاگی بھی کیا‘ اقبال نے تالیاں پیٹ پیٹ کر جگایاتھا۔ میرارشد اللہ کے ساتھ اس کے نکاح کی خبر ان تک پہنچ چکی تھی۔ مبارک باد دینے آئے تھے وہ سب۔ ان کے بیٹھتے ہی عقبی طر ف والی نیلم اور صفیہ بھی آپہنچیں اور اس کے بعد… چوہدری اکبر‘ میرارشد اور حسن آرا کا قصہ تو کئی روز سے پورے بازار میں گردش کررہاتھا‘ لیکن اس قصے کے اچانک ایسی نہج اختیار کرلینے کی کسی کو بھی توقع نہیں تھی۔ اردگرد والی سبھی ایک کے بعد ایک آتی رہیں۔حسن آرا کواس آمدورفت سے تھوڑی الجھن تو ہوئی لیکن الجھن سے زیادہ خوشی دوبالا ہونے کااحساس حاوی رہا۔

کچھ نے اسے اس غلطی سے باز رہنے کامشورہ دیاتھاتو کچھ اس پر رشک بھی کرتی رہی تھیں چند ایک نے نصیحتوں سے نوازااور چند نے دعائیں واریں۔ بس نزہت بیگم ‘ عشرت اور سندس تھیں جو لاتعلق سی رہیں۔ تینوں کے چہرے گہری سنجیدگی سے ستے ستے دکھائی دیتے تھے لیکن حسن آرا کی کیفیت پر وہ ایک ذرا بھی اثرانداز نہیں ہوپائے۔ وہ مکمل طور پرخوش اور مطمئن تھی۔ پور پور نہال تھی۔ نوازنے والے نے بن مانگے اسے یوں نواز دیاتھا کہ فی الوقت اسے دنیاجہان میں سے اور کوئی چاہت کوئی خواہش نہیں رہی تھی۔خدا نے آسمان اس کے نام لکھ دیاتھا۔ اس جیسی ادنیٰ ‘حقیر پر ایسی عظیم نوازش کرکے اسے معتبر کردیاتھا۔اپنے خالق کی اس عطا سے بڑھ کر اب بھلا وہ اور کیا چاہتی

اس روز اس نے اپنی روح کی تمام تر سچائیوں کے ساتھ شکرانے کے نفل ادا کیے۔ شکرانے کی یہ نماز شاید اس کی زندگی کی پہلی ایسی نماز تھی جس میں وہ اس قدر مستغرق ہوئی کہ اس کارواں رواں عجزونیاز مندی کے عمیق احساس میں ڈوبارہا۔

اگلے روز صبح دس بجے کے قریب قریشی صاحب ایک بار پھرچند افراد کے ساتھ آئے۔ اس بار ان کے ساتھ کافی سارا سامان بھی تھا۔ گتے کے کئی ڈبے‘ بیگز اور رنگ برنگے شاپرز… واپس جاتے ہوئے وہ حسن آرا سے بھی ملے تھے۔

”آپ میر صاحب کے نام کوئی پیغام دینا چاہیں تو؟“

”خداانہیں کسی امتحان سے دوچار نہ کرے۔ ہم ان کے منتظر ہیں۔“

”آپ دعا کیجیے ‘وہ عصر تک پہنچ جائیں گے… دوبارہ ملتے ہیں چند گھنٹوں کے بعد۔“ قریشی صاحب نرمی سے مسکرائے اور چلے گئے۔ آنے والے سامان میں سے صرف دوشاپرز اور ایک بیگ اس کے کمرے میں پہنچایا گیا اور باقی سامان نزہت بیگم نے درست مقام پر منتقل کردیا۔

دوپہر میں صفیہ‘ نیلم اور گل بانو آکربیٹھی ہی تھیں کہ اقبال مزید تین نوعمر خواجہ سراﺅں کے ساتھ آن ٹپکا۔ حسن آرا کے منع کرنے کے باوجود انہوں نے ناچ گانا شروع کردیا۔ خالہ شبانہ اور کستوری بھی آگئیں۔ ڈھولکی صفیہ اور کستوری نے سنبھال لی۔

”حسن آرا! تو تو کچھ مزید حسن آرا ہوگئی ہے… نکھار آگیاتجھ پر۔“

”یوں کہو نکھار پر نور آیاہے۔ خوشی کاایک اپنا نو رہوتاہے۔“

”سچ کہوں حسن آرا! تو آدھے بازار حسن کوویران کرجائے گی۔ یہاں والے تجھے مدتوں یاد کرتے رہیں گے۔“

”اے چل بس کر ‘ صرف دعاکرو سب ‘خدایہ خوشی ہمیشہ اس کے نصیبوں میں رکھے۔“

”آمین… آمین۔“ اس کے کمرے میں خوب رونق رہی۔ نیلم نے اس کے ہاتھوں پرمہندی لگائی‘ نہانے دھونے کے بعد وہ میر صاحب کی طرف

سے بھیجا گیا آتشیں سرخ عروسی جوڑا پہن کر کمرے میں واپس آئی تو وہاں موجود تمام نفوس اس پر نظر پڑتے ہی ایک لمحے کے لیے تو پتھرا کررہ گئے… حسن آرا کا گورا چٹا ‘شفاف رنگ روپ اور اس پربیش قیمت سرخ سوٹ… یہ ملاپ آنکھوں کے لیے خیرہ کن نظارے میں بدل گیاتھا۔ وہ اتنی حسین اور پیاری دکھ رہی تھی کہ سب نے اس کی بلائیں سمیٹنے کی کوشش کی۔

صفیہ اور گل بانو اسے دلہن کے طور پرسجا سنوار رہی تھیں جب عشرت بھی آکر ان کے ساتھ شامل ہوگئی۔ اس کی آنکھوں میں اندرونی پریشانی کی جھلک تھی لیکن چہرے پر حسن آرا کے لیے اپنائیت اورخلوص۔

”میں تیرے لیے دعا کروں گی حسن آرا !تو بھی ہم سب کے لیے دعا کر۔“

”جوخدا کی مرضی عشرت !ہمیں اس کی رضا میں راضی رہنا چاہیے۔“

”یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں … اماں تو بہت ہی پریشان ہے۔“

”نصیبوں میں جو بھی لکھا ہو وہ تو ہوکرہی رہتا ہے۔ توہی بتا کہ یہ سب جوہورہاہے اس میں میری کسی کوشش کاکتنا دخل ہے ؟ میں تو بس خاموشی سے یہ سب تسلیم کررہی ہوں۔ قبول کررہی ہوں‘ اور…خداکاشکر ادا کرتی ہوں… جس نے اب تک سب ٹھیک رکھاہے‘ وہ آگے بھی سب ٹھیک ہی رکھے گا۔“عشرت ایک سانس بھر کے خاموش ہورہی… حسن آرا اس کی اندرونی حالت کونہیں پہنچ سکتی تھی اور وہ حسن آرا کی… اسی وقت سندس اور نزہت پہنچ آئیں۔ ان کے عقب میں نورا‘ استاد مبارک علی‘ جامی اور منگو بھی تھے۔ کھانا لے کرآئے تھے وہ۔ کھانا رکھ کرانہوں نے حسن آرا کے سپرد اپنی نیک تمنائیں کیں اور باہر نکل گئے۔ نزہت اور سندس البتہ رک گئی تھیں۔

”وقت تھوڑا رہ گیا ہے … آدھے پونے گھنٹے تک میر صاحب پہنچ آئیں گے۔“ نزہت بیگم قالین پر بچھے دستر خوان پر بیٹھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں بولی۔

”وہ ہجوم اور شور شرابہ تو پسند نہیں کریں گے … لہٰذاان سے پہلے ہی سب کھانا کھا کر ایک طرف ہوجاﺅ۔“

”اس میں ایسی کیابات ہے… یہاں کون ساپورا محلہ اکٹھا ہے۔گھر‘ خاندان میں چار چھ”جی“ تو ہوتے ہی ہیں۔“ خالہ شبانہ شاید معترض ہوئی تھیں۔گل بانو اور عشرت ‘حسن آرا کو دستر خوان کی طرف لائیں تو سبھی آگے کھسک آئیں۔

”میر صاحب بہت بڑے اور اعلیٰ حسب نسب والے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں شبانہ !سادگی سے چار چھ لوگوں کی موجودگی میں نکاح کریں گے۔ اپنے اعتماد کے چار چھ بندوں کوبھی اپنے ساتھ ہی لے کرآئیں گے اور نکاح کے فوراً بعد چپ چاپ حسن آرا کو لے کرروانہ ہوجائیں گے۔“

”یہ کیا بات ہوئی بھلا …اگرانہیں حسب نسب کی اتنی ہی پریشانی ہے تو پھر اس محلے میں نکاح کاپنگالینے کی کیا ضرورت تھی ؟“ نکاح کاپنگا پرسبھی مسکرادیئے۔

”خالہ! مجھے تو حاتم طائی کا قصہ یاد آگیا۔“ اقبال فوراً تالی بجا کربولا۔

”ایک بار دیکھاہے‘ دوبارہ دیکھنے کی حسرت ہے۔ میر صاحب کے لیے مشکل یہ بن گئی کہ وہ اپنی حسن آرا کودیکھ بیٹھے… حسن آرا کے حسن کاشکار ہو کررہ گئے۔ اب دوبارہ کی بجائے ہمیشہ اسے دیکھتے رہنے کے لیے انہوں نے یہ پنگالیاہے۔“ سبھی کھلکھلا کر ہنسیں۔ حسن آرا کوفتوں والے ڈونگے کے ساتھ مصروف ہوگئی۔ ایک خفیف سی مسکراہٹ تو پرسوں رات سے اس کے زیر لب جیسے چپک کررہ گئی تھی۔ اقبال کی بات پر اس کاچہرہ گلنار ہوگیا۔ دھڑکنیں دل کوگدگداگئیں۔ وہ طوائف نہیں تھی… اس کے جذبات واحساسات طوائفوں والے نہیں‘ لڑکیوں والے تھے۔ وہ اپنی منڈلی میں

سب سے کم سن اور نادان تھی۔ اس کے جذبوں کی لطافتوں کوان میں سے کوئی بھی پوری طرح نہیں سمجھ سکتی تھی اور… اسے اس بات کااندازہ تھا۔

”بڑے ہشیار ہیں یہ میر صاحب… بار بار یہاں آنے میں انہیں زیادہ بدنامی کاڈر ہوگا ،اس لیے انہوں نے سوچا کہ ایک بار نکاح کاپنگا لے کر بار بار کے پنگے سے پکی پکی جان چھڑالو۔“ نیلم چہکی ۔

”وہ تو نکاح کے لیے بھی یوں آرہے ہیں جیسے کوئی گناہ کرنے آرہے ہوں۔ اتنی خاموشی اور ر ازداری ضروری تھی تو نکاح کی بھی کیاضرورت تھی‘ چپ چاپ ویسے ہی لے جاتے حسن آرا کو۔“

”اونہوں… تو کیوںچڑ گئی ہے خالہ! یہاں پہلے کتنے خاندان باراتیں لے کر آئے ہیں ؟ یہ بھی حوصلہ ہے حسن آرا کے میرصاحب کا… چار چھ افراد کے ساتھ نکاح کرنے آرہے ہیں اوریوں صرف حسن آرا کی نہیں…ہم سب کی ہماری ساری قبیل کی عزت افزائی کررہے ہیں وہ۔“

یہ گل بانو تھی… چھیڑ چھاڑ اور باتوں کے ساتھ کھانا بھی کھایاجارہاتھا۔ کوفتے اور نان تو بازاری تھے البتہ نور پلاﺅ میں نزہت بیگم کے ہاتھ کاذائقہ حسن آرا نے صاف محسوس کرلیاتھا۔ اس نے نظر اٹھا کردیکھا تو نزہت بیگم کی نظروں کواپنے ہی چہرے پر مرتکز پایا۔ اس کی آنکھوں میں یاس وحسرت کے ساتھ ساتھ اپنائیت اور فکرمندی کی پرچھائیاں تھیں۔ شاید وہ حسن آراہی کودیکھ رہی تھی یاپھراس کے چہرے… اس کی آنکھوں میں اس کی ماں اور اپنی بہن کودیکھنے کی کوشش کررہی تھی۔

”کیابات ہے نزہت!“ اسی وقت خالہ شبانہ نے نزہت بیگم کو مخاطب کیا… ”تیری نشریات ٹھیک نہیں آرہیں۔تجھے حسن آرا کے نکاح کی خوشی نہیں ہے کیا؟“

”خوشی… تجھے یہ خوشی کی بات لگتی ہے ؟“ نزہت نے تیکھی نظروں سے اسے گھورا ”تو نئی نویلی ہے یابچی چوچی؟“

”ہائے … تو کیا کچھ غلط پوچھ لیامیں نے ؟“

”اٹھکیلیاں کرنے کی عمر نہ رہی اب تیری اور… نہ مزے لینے کی۔“ لڑکیوں کے ہونٹوں سے قہقہہ پھوٹا توخالہ شبانہ جیسے بلبلااٹھی۔

”ہائے… کیاہوگیاہے تجھے؟ یہ کیسی بکواس کیے جارہی ہے تو… کوئی غلط شے تو نہیں کھاپی بیٹھی ؟“

”اے …اے آپا نزہت!“ اقبال نے فوراً نزہت بیگم کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی۔”جو بات آپا شبانہ نے تیرے سے پوچھی ہے وہ میں پوچھ لوں؟“

”کیوں… تیرے دماغ کو کیا کیڑا ہوا ہے ؟“

”نہیں‘ وہ…آپاشبانہ کی عمر نہیں رہی مزے لینے کی‘ میری تو ابھی ہے نا۔ میں تو پوچھ سکتی ہوں۔“ ایک اور اجتماعی کھلکھلاہٹ کمرے میں بکھر گئی۔

”دکھائی دے رہا ہے کہ یہ تکلیف میں ہے۔ اسے بیٹی کے اس جہنم سے دور نکل جانے کی کوئی خوشی نہیں ہے۔“ خالہ شبانہ نے سنجیدگی سے کہا تو نزہت بیگم پھراس کی طرف متوجہ ہوگئی۔

”فضول باتیں نہ سنا شبانہ! آنے والے وقت کی کسے خبر… کون جانے ؟ جس چارپائی پر ٹکنا نہ ہوا اس کی ادوائین میںسر نہیں پھنساتے اور پھر‘ مردوں کاصبر آجاتاہے‘ جیتوں کا نہیں آتا… ساری زندگی خیرخبر کو بھی ترستے مرو۔“ نزہت بیگم کے لہجے میں غصہ تھا‘تپش تھی ‘ بیزاری اور جھنجلاہٹ تھی اور اسی سب کے بیچ میں حسن آرا کے حوالے سے تھوڑی سی محبت آمیز فکرمندی بھی تھی‘ جو بے بسی اور پریشانی کے تاروں میں الجھی ہوئی تھی۔پتانہیں کیوں‘ لیکن ان لمحوں میں حسن آرا کو بے اختیار اس پریشان صورت عورت پر لاڈ آیاتھا۔

”نہ تو خیرخبر کوکیوں ترسیں گے ؟ میرصاحب کیا اسے کسی دوسرے سیارے پرلے جائیں گے… جہاں سے اس کی کوئی خبر نہیں ملے گی ہمیں۔“ خالہ شبانہ بولی تھی۔

”تیرا تو بالکل ہی دماغ چل چکاہے شبانہ… میرا مغز پلپلامت کر… یہ سب کچھ طے شدہ ہے‘ تو ایسے خواہ مخواہ ڈوئی ڈنڈے نہ لے۔“

نزہت بیگم نے سخت بے زاری سے کہا… جس اعصابی جنگ میں وہ مبتلا تھی یہ کچھ اسی کاجی جانتاتھا۔

کھانا وہ سب کھاچکے تھے۔دسترخوان سمیٹاجارہاتھا‘ جس وقت کمرے کے دروازے پرنورانمودارہوا۔

”آگئے… میر صاحب پہنچ گئے ۔پانچ بندے ہیں ان کے ساتھ۔ استاد جی بٹھارہے ہیں انہیں۔“ اس کے تاثرات ایسے تھے جیسے اب سے پہلے تک اسے میرصاحب کے آنے کی قطعاً کوئی توقع نہ تھی۔ اس کے لیے میر صاحب کی آمد جیسے بالکل غیر متوقع تھی۔ حسن آرا کی مسکراہٹ خودبخود گہری ہوگئی۔میرصاحب آگئے تھے… میر صاحب… یہ نام کچھ الگ ہی طرح سماعت کوچھوتاتھا۔ جب بھی یہ نام سنائی دیتاتھا‘ بدن کے سارے تار بج اٹھتے تھے۔ کچھ سحر خیز سی لہریں رگ وپے میں سرائیت کرتی چلی جاتی تھیں۔

عصر کی اذان کچھ دیر پہلے ہوچکی تھی۔طے شدہ باتوں کے مطابق اب میرصاحب کویہاں…حسن آرا کے پاس آناتھا۔ دسترخوان سمیٹنے کے بعد بہ عجلت کمرے کی ترتیب تھوڑی درست کی گئی اور پھر نزہت بیگم سب کوساتھ لے کر کمرے سے چلی گئی۔

حسن آرا نے دوپٹہ ٹھیک سے سر پراوڑھا اور سنگھارمیز کے آئینے کے سامنے جاکھڑی ہوئی۔ ہنستی چمکتی آنکھوں سے کچھ دیر خود کودیکھتی رہی‘ پھرشاید خود ہی سے شرماگئی۔ سرجھکا کر نچلاہونٹ اس نے دانتوں میں دبایا اور مسہری پرٹک گئی۔ مزید کچھ ہی دیر میں میر صاحب اس کے روبرو ہونے والے تھے۔ دل پررقص طاﺅس کی سی کیفیت طاری تھی۔ سانسیں اتھل پتھل ہوجانا چاہتی تھیں‘ اس کے سینے میں جذبوں کاایک سمندر موجزن تھا‘ خوشی تھی کہ سنبھالے جاسکنے سے زیادہ تھی… وہ اپنی خوش بختی پرحیراں تھی‘ نازاں تھی۔ ذہن ودل کی حالت عجیب تھی۔ یقین ہونے کے باوجود جیسے اسے اس سب پر یقین نہیں آرہاتھا۔قطعی غیر متوقع طور پر اس کی زندگی میں یہ انوکھا موڑ آگیاتھا اور کتنی جلدی اور سہولت سے آگیاتھا۔میرصاحب ساری رکاوٹیں عبو ر کرآئے تھے۔ یقینا وہ اپنے گھریلو معاملات بھی سنبھال لینے میں کامیاب رہے تھے اور اب … کچھ دیر بعد زندگی کے ساتھ ساتھ اس کی دنیا بھی بدل رہی تھی۔ ذہن میں فوراً اماں‘ عشرت اور سندس کاخیال ابھرا۔ تبھی اس کا دھیان دروازے کی طرف ہونے والی آہٹ کی طرف سرک گیا۔ دل کی رفتار یک لخت خطرناک حد تک بڑھ گئی۔

دروازے سے میرارشد اللہ اندر داخل ہوئے تھے۔ ہلکے آسمانی رنگ کاشلوار سوٹ اور سیاہ واسکٹ… سرخ وسفید بارعب چہرے پر وہی نرم سنجیدگی اور سکون۔

”السلام علیکم حسن آرا! کیسے مزاج ہیں آپ کے ؟ وہ مسکرائے تھے۔ حسن آرا بھی مسکراتے ہوئے بے اختیار اٹھ کھڑی ہوئی۔

”وعلیکم السلام! مزاج بالکل بخیریت ہیں۔“

”دیکھ لیجیے… ہم پہنچ آئے۔“

”ہمیں یقین تھا۔“

”آپ کایقین کامل تھا۔“

”آپ نے کردیا۔“ دونوں کی مسکراہٹیں گہری ہوگئیں۔ میرصاحب‘ حسن آرا کے سامنے آٹھہرے… دونوں کے چہرے دمک رہے تھے اور

آنکھوںمیں ایک جہان شوق آباد تھا۔

”حسن آرا! آپ مطمئن ہیں نا؟“ حسن آرا نے ان کی آنکھوں کی تاب نہ لاتے ہوئے نظریں جھکالیں۔

”حضور مذاق فرمارہے ہیں یاواقعی یہ سوال ہے ؟“

”آپ اس مذاق کوسوال ہی خیال کرلیجیے۔“ میرصاحب نے متانت سے کہا۔ حسن آرا مسہری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسکرا کر ایک طرف ہٹی۔

”تشریف رکھیے ۔باقی کنیز کے عدم اطمینان کاتو کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا حضور! کنیز تو اپنی خوش بختی کی انتہا کااندازہ کرنے سے بھی قاصر ہے۔“

”ہم آپ کوکنیز نہیں ‘اپنی شریک حیات بنانے آئے ہیں… اپنی نصف بہتر۔“

آپ کے کردار کی اسی عظمت کے ہم معتقد ہیں۔ اسی لیے خود کو آپ کی کنیز شمار کرتے ہیں۔ اگرحضور گستاخی تصور نہ کریں تو ہم بھی کچھ پوچھنے کی جسارت کرلیں؟“ اس کے انداز میں قدرے جھجک تھی۔ میر صاحب مسہری پربیٹھ چکے تھے۔ وہ حسن آرا کوبیٹھنے کااشارہ کرتے ہوئے بولے۔

”جوبھی پوچھنا چاہتی ہیں‘ آرام سے بیٹھ کر پوچھیں۔“

”جی شکریہ۔“ مسہری کے دوسرے کونے پروہ بھی ٹک گئی اوراس پر میر صاحب کی محبت بھری نظریں۔

”آپ کے گھر میں سب کیسے ہیں‘ آغاجی… بابا سائیں اور…باقی سب؟“

”آپ کو پتاہے؟“

”جی… کیامطلب ؟ ہم کچھ سمجھنے نہیں؟“ جواب کی بجائے الٹااس مبہم سے سوال پر اس نے متعجب سی الجھن کے ساتھ میرصاحب کی طرف دیکھا جو پوری طرح نظریں بھر کراسے دیکھ رہے تھے۔

”آپ کو پتا ہے کہ آپ اس وقت کتنی خوبصورت دکھائی دے رہی ہیں۔“ حسن آرا کا سارا خون اس کے چہرے کی طرف امڈا۔ بدن میں ایک ترنم سادوڑ گیاتھا۔

”کوئی اندازہ بھی ہے آپ کو؟“ اس کا لال پڑتے چہرے کے ساتھ جھینپنا میرصاحب کومحظوظ کرگیا ۔”ذرا سابھی اندازہ نہیں ہے آپ کو…“

”آپ ہمیں بہلارہے ہیں ناحضور!“

”ہم صرف آنکھوں دیکھا سچ بیان کررہے ہیں۔“

”اور جوہم نے پوچھا؟“

”گھراورگھروالے دونوں ٹھیک ہیں …سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔“

”ادھر کوئی پریشانی تو نہیں ہے نا؟“ اندرکہیں گہرائی میں ایک موہوم ساکھٹکا تومسلسل موجود رہاتھا‘ وہ اسی حوالے سے یقین واطمینان چاہتی تھی۔

”بالکل بھی نہیں۔“

”اماں بہت پریشان ہے۔ ان لوگوں کے لیے کوئی مسئلہ تو نہیں بنے گا؟“

”کہیں کوئی مسئلہ نہیں بنے گا۔آپ بالکل مطمئن رہیں۔ ہم مکمل بندوبست کرچکے ہیں۔ سارا کچھ طے کرکے آئے ہیں۔“

میرصاحب کے پراعتماد لب ولہجے سے اس کی مکمل طور پرتسلی ہوگئی۔ نہ ہونے کی کوئی وجہ ہی نہیں تھی۔ ایک لمحے کے توقف سے میر صاحب مزید

گویاہوئے۔

”عصر کی نماز تو ہم ادا کرچکے ہیں…شکرانے کی نمازیںاب شروع کرنی ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ نکاح کی رسم سے پہلے شکرانے کے دو دو نفل ہم ایک ساتھ ادا کریں۔“میرصاحب کی خواہش کے احترام میں وہ فوراً ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ تو خود سمجھتی تھی کہ باقی کی ساری زندگی بھی شکرانے کے سجدے ادا کرتی رہے توبھی خدا کی مہربانیوں کاشکریہ ادا نہیں کرپائے گی۔

اس نے ایک سفید دھلی چادر کمرے کے ایک گوشے میں بچھائی اور پھر وہ دونوں نماز کی نیت سے اس پرکھڑے ہوگئے۔ شکرگزاری کی نیت سے اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے۔ دونوں پہلی ملاقات میں ہی پور پور ایک دوسرے پرظاہر ہوگئے تھے… ایک دوسرے کومکمل طور پر قبول کرچکے تھے… اب وہ اپنی اپنی جگہ پوری سچائی اورخلوص کے ساتھ ہمیشہ کے لیے ایک معتبر سماجی رشتے میں بندھنے جارہے تھے۔

نماز کے بعد میرصاحب واپس نیچے چلے گئے‘ ان کے جانے کے چند منٹ بعد ہی سندس اور عشرت آگئیں۔

”چل حسن آرا! نیچے تیراانتظار ہورہاہے۔ نکاح کی رسم ایک ہی جگہ پرادا ہوگی۔“حسن آرا نے دوپٹہ اچھے سے اوڑھ کرپیشانی سے آگے یوں ڈھلکا لیا کہ اس کاآدھا چہرہ ڈھک گیا۔سرخ سوٹ‘ دودھ ملائی سی جلد اوراس پر میرصاحب کابھیجاہوا سنہری زیور… عشرت اور سندس کی نظریں بھی خیرہ ہورہی تھیں۔ بلاشبہ وہ کسی اپسرا سے کم نہیں تھی۔

سیڑھیوں سے اتر کر وہ دونوں اسے صدر دالان کے ساتھ‘ راہداری والے کمرے میں لے آئیں‘ باقی سب بھی یہیں موجود تھے۔ میرصاحب‘ قریشی صاحب‘ تین اور بارعب اجنبی شخصیات اورایک مولوی صاحب… استاد مبارک علی ‘ نورا ‘جامی اور منگوبھی موڑھوں پربیٹھے تھے۔

حسن آراکے اندر داخل ہوتے ہی میرصاحب مسکراتے ہوئے اٹھے تو ان کے ساتھیوں نے ان کی تقلید کی۔ ان کی دیکھا دیکھی استاد مبارک وغیرہ بھی اٹھ کھڑے ہوئے … نزہت بیگم فوراً آگے بڑھی تھی۔

”آﺅ حسن آرا! ادھر… اس صوفے پربیٹھ جاﺅ۔“

میرصاحب تھوڑا دوسری طرف کھسکے اور حسن آرا کو صوفے پر ان کے برابر میں بٹھادیاگیا۔کمرے میں چودہ پندرہ افراد موجود تھے مگرسب خاموش تھے۔ مولوی صاحب ‘میرصاحب‘ اور حسن آرا کے سامنے والی نشست پر موجود تھے اورایک رجسٹر گھٹنوں پررکھے غالباً کوائف لکھنے میں مصروف تھے۔ چند لمحے بعد قریشی صاحب ان سے مخاطب ہوئے۔

”جی قاضی صاحب !ابھی دیر ہے کیا؟“

”نہیں جناب! کوئی دیر نہیں۔ ہوگیا بس۔“ پھر چند لمحوں کے بعد وہ گلا کھنکھارتے ہوئے حسن آرا سے مخاطب ہوئے۔

”جی توبیٹا حسن آرا! آپ کے حق مہر کی مد میں پانچ لاکھ کی رقم سکہ رائج الوقت مقرر کی گئی ہے‘ آپ کو اس پر کوئی اعتراض ہے؟“

”جی !ہے۔“ اس نے گردن جھکائے دھیمے لہجے میں کہاتو سبھی اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔

”کیااعتراص ہے؟“ قاضی صاحب نے چشمہ درست کرتے ہوئے ایک اچٹتی سی نظرمیر صاحب پرڈالی۔

”ایسا کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔“

”نہیں بیٹاجی! ضرورت ہے‘ یہ ضروری ہوتاہے۔“

”جی… پھر ٹھیک ہے۔“ اس کی نظریں گود میں دھرے اپنے حنائی ہاتھوں پرتھیں۔ دھیان‘برابر میں موجود میرصاحب پر… ان کی موجودگی

کااحساس اس کے حواسوں پرغالب تھا… باقی سب کی موجودگی …سارا کچھ جیسے بے معنی تھا‘ عجیب ناقابل بیان کیفیت میں مبتلا تھی وہ۔

نکاح نامہ تیار کرچکنے کے بعد قاضی صاحب نے گواہان وزوجین وغیرہ کے دستخط لیے اور پھر نکاح کاخطبہ پڑھنا شروع کردیا لیکن حسن آرا کادھیان اس طرف نہ جاسکا… اسے یوں محسوس ہو رہاتھاجیسے وہ کہیں دور بیٹھے خطبہ پڑھ رہے ہوں یاجیسے وہ حقیقت میں وہاں موجود ہی نہ ہوں… کوئی بھی نہ ہو… جیسے وہ سب لوگ‘ ماحول‘ منظر اور موجودہ صورت حال سب کچھ محض ایک طویل طلسمی خواب کا حصہ ہو اور بس! ایک ایسا طلسمی خواب جو عموماً کسی پراسرار اورہولناک چیخ پر اچانک بکھرجاتاہے۔وہ یہ سب محسوس کررہی تھی اور ٹھیک ہی محسوس کررہی تھی کیونکہ اچانک ایک درد ناک چیخ اس کے سحرزدہ اعصاب کوجھنجوڑ گئی تھی… آواز باہر راہداری سے بلند ہوئی تھی اور صرف اسی نے نہیں سنی تھی…وہاں موجودسبھی نے سنی تھی اور سبھی بری طرح چونک پڑے تھے۔ اگلے ہی پل کمرے کے دروازے پرایک دھماکا ہوا‘اور ساتھ ہی ایک درد بھری کراہ کمرے میں گونج اٹھی۔ بے اختیار سب کی گردنیں دروازے کی طرف گھوم گئیں۔ قاضی صاحب اس بری طرح گڑبڑائے کہ خطبہ درمیان ہی میں بھول گئے۔

  ٭…٭…٭

تھوڑی سی کوشش کے بعد پہلا نٹ کھل گیا اور ساتھ ہی منشی کااعتماد اور جوش تھوڑا مزید بڑھ گیا۔ تقریباً دس منٹ میں اس نے چھ کے چھ نٹ کھول لیے… ملک نے دروازے کوجھنجوڑا‘ لیکن ابھی قابلے موجود تھے۔ منشی نے ایک اسٹیل کی کیل نماچیز اور ہتھوڑی اٹھالی۔ کیل کی نوک اس نے قابلے پررکھی اور ہتھوڑی سے کیل پرضرب لگائی تووہ قابلے کواندر کی جانب دھکیلتی ہوئی دروازے میں اتر گئی۔ قابلہ اپنی جگہ چھوڑتاہوا اندرونی طرف گر گیا۔ چھ میں سے چار ہی قابلے نکالے گئے تھے کہ کنڈی اپنی جگہ چھوڑتی ہوئی دروازے کے ساتھ لٹک گئی۔ اس کاگرپ والا حصہ شاید نیچے گراتھا۔

دروازہ ذرا سا ہاتھ لگانے سے کھل گیا۔ چند قدم پیچھے برآمدے کی چھت میں لگے بلب کی مدقوق روشنی ناکافی تھی۔ کمرے میں اندھیرا ہی تھا۔ منشی اور مزدور ایک ذرا جھجکے…یوں جیسے انہوں نے اندر کسی لڑکی کی بجائے‘ کسی خطرناک قاتل کوگھستے ہوئے دیکھاتھا۔پہلے دروازے کومزید دھکیلتے ہوئے ملک اندر داخل ہوا۔ اس کے پیچھے مرشد تھا۔ملک نے آگے بڑھ کر دیوار میں نصب سوئچ بورڈ سے ایک بٹن دبایااور اگلے ہی پل کمرہ روشنی سے بھرگیا۔

وہ ایک سادہ سا دفتری کمرہ تھا۔چھپنے کی وہاں کوئی جگہ نہیں تھی۔ اندر گھسنے والی بھی فوراً ہی سب کو دکھائی دے گئی… سامنے ایک ٹیبل اور چند کرسیاں تھیں۔ ٹیبل کی دائیں طرف‘ دیوار کے ساتھ ایک قد آدم لکڑی کی الماری تھی اور اسی الماری کے ساتھ وہ لڑکی‘ دیوار سے پشت جمائے ساکت کھڑی تھی۔ اس کی خو ف زدہ آنکھیں دروازے ہی کی طرف جمی ہوئی تھیں۔ چہرے پرشدید گھبراہٹ اور پریشانی۔ وہ خاصی سراسیمہ دکھائی دے رہی تھی۔

”یہ… یہی ہے جی!“ عقب سے منشی کی آواز بلند ہوئی… شہزاد کولہوں پرہاتھ ٹکاتے ہوئے اس سے مخاطب ہوا۔

”ہاں ری! کون ہے تو…؟“ سوال کے بعد اسے اندازہ ہوا کہ لڑکی نے تواسے درخود اعتنا ہی نہیں جانا۔ لڑکی کی نظریں اس کے چہرے سے اچٹ کراس کے عقب میں جاٹکی تھیں اوراسی لمحے ملک نے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ کسی چہرے پرتاثراتی تغیر کابھونچال دیکھاتھا۔ ایک ہی لمحے میں اس لڑکی کے چہرے اور آنکھوں نے کئی رنگ بدلے … حیرت وبے یقینی… اچنبھا‘ شناسائی‘ پھر یقین واطمینان۔ چہرے کی وحشت اور اس کی آنکھوں میں جما خوف فوراً ہی تحلیل ہوگیا۔ اس کے ہونٹ کپکپائے اور اس کی بھیگی ہوئی لرزیدہ آواز ان سب کی سماعتوں سے ٹکرائی۔

”مرشد جی!“

”سرکار“ مرشد بھی بے ساختہ بڑبڑایاتھا۔ ملک نے پلٹ کر مرشد کی طرف دیکھا‘ ملک سے زیادہ بری طرح خنجر چونکاتھا۔ مرشد کسی پتھر کے مجسمے کی طرح اپنی جگہ ساکت کھڑاتھا۔ حیرت و بے یقینی کے شدید جھٹکے نے کچھ دیر کے لیے جیسے اس کے حواس ہی سلب کرلیے تھے۔ ذہن بالکل خالی ہو کررہ گیاتھا۔ وہ جو اتنے روز سے لمحہ لمحہ ‘ سانس سانس جس کی تلاش میں فکرمندی اور بے چینیوں کے انگاروں پر لوٹتا رہا تھا‘ اب اسے معجزانہ طور پر یوں اچانک اپنے روبرو پاکر مبہوت ہو کررہ گیاتھا۔خود حجاب کے جذبات واحساسات میں برق رفتار تغیر رونما ہواتھا۔ وہ جیسے اچانک پھر نئے سرے سے جی اٹھی تھی۔ مرشد کو بالکل ہی غیر متوقع طو رپر یہاں اپنے سامنے دیکھ کراس کی جان میں جان آگئی تھی۔ وگرنہ کچھ دیر پہلے تک اس کمرے کے حبس زدہ اندھیرے میں کھڑی وہ یہی محسوس کررہی تھی کہ باہر… کمرے کے دروازے پر بھیڑیوں کاایک جھنڈ اکٹھا ہوآیاہے۔ پتا نہیں اب

کیاانجام ہو‘ مگر مرشد کودیکھتے ہی اس کے سارے اندیشے اور سارے خوف جیسے اچانک اپنی موت آپ ہی مرگئے تھے۔ مرشد کی موجودگی کااحساس ایک گہرے اطمینان کی صورت اس نے اپنی ذات کی گہرائیوں تک اترتاہوا محسوس کیاتھا۔

”حجاب۔سس سرکار! آپ … آپ ٹھیک تو ہیں ؟“ مرشد کو جیسے اچانک ہوش آیا۔ وہ تڑپ کر آگے بڑھا۔ اسے سوجھا نہیں کہ کیا کرے‘ کیا پوچھے … وہ بے اختیار‘ اضطراری طور پر حجاب کوکندھوںسے تھامنے والا تھا مگرپھرہچکچا کر رک گیا۔

”اللہ کاشکر ہے کہ اس نے مجھے آپ تک پہنچادیا۔“ حجاب کے ہونٹ ایک بار پھر لرزے… وہ رندھی ہوئی آواز میں بولی تھی۔ اس کی جھلملاتی آنکھیں مرشد کے چہرے پرٹکی تھیں۔

”آپ…آپ ٹھیک ہیں نا؟“ گزرے دنوں کی ساری بے قراری‘ ساری فکرمندی اس کے لہجے میں سمٹ آئی تھی۔

”میں ابھی تک یہیں ہوں… پتانہیں پھوپھا جی کومیری کوئی خبر ہوئی بھی ہے یانہیں۔“ اندر کادکھ پل بھر میں اس کے ہونٹوں تک آپہنچا… آنکھوں کاپانی چھلک کر شفاف رخساروں پر لکیروں کی صورت بہہ نکلا‘ تبھی مرشد کواحساس ہوا ‘بلب کی روشنی میں حجاب کے پورے چہرے پر پسینہ چمک رہاتھا۔ وہ پسینے میں شرابور تھی۔

”آپ آئیے… آئیے میرے ساتھ۔“ اس نے ایک طرف ہٹتے ہوئے بے تابانہ انداز میں کہا۔ خنجر جو حیرت زدہ کھڑاحجاب کی معصوم اور دلنشین صور ت کو تک رہاتھا‘ملک کواشارہ کرتے ہوئے فوراً پیچھے ہٹا ۔وہ لوگ دروازے سے باہر نکل گئے۔ خنجر اور ملک کو بات سمجھ آگئی تھی۔ وہ یہ بھی جان چکے تھے کہ یہ لڑکی کون ہے اور مرشد کے لیے کیااہمیت ‘کیاحیثیت رکھتی ہے

مرشد‘ حجاب کووہاں سے نکال کر بغلی طرف والے کمرے میں لے آیا… اسے ایئرکولر کے سامنے بیڈ پربٹھا کراس نے اسے پانی کاگلاس بھر کر دیاجوحجاب نے ایک ہی سانس میں خالی کردیا… وہاں بیٹھنے کے بعد اس کے حواس بحال ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی تھی۔

”مجھے یقین نہیں آرہا مرشد جی کہ میں سچ میں دوبارہ آپ کی پناہ میں پہنچ چکی ہوں۔“ وہ بولی تو اس کی آواز میں ایک خوش گوار حیرت تھی۔

”مجھے تو اسی دن سے آپ کی تلاش تھی ۔میں بتا نہیں سکتا کہ مجھے کتنی فکر رہی ہے لیکن … آپ اس ٹرک میں کہاں سے سوار ہوئی تھیں؟“ اس نے وہی سوال کیاجوان سب کے ذہنوں میں آیا تھا۔

”میں گاگیوالی میں تھی… جس احاطے سے یہ سٹارٹ ہو کرروانہ ہوا‘ میں اس کے برابر والی گلی میں تھی۔ چوہدری فرزند کے بندوں سے چھپتی پھررہی تھی۔ میں نے احاطے کی دیوار پھلانگی تو بالکل سامنے ہی یہ ٹرک کھڑاتھا‘ کافی فاصلے پر برآمدے کے قریب ایک دوبندے موجود تھے… میں فوراً ٹرک میں سوار ہوگئی۔ اندر تین چار کھل کی بوریاں اور تیل کے دوڈرم رکھے تھے میں ان کے درمیان دبک کربیٹھ گئی۔ کچھ ہی منٹ گزرے ہوں گے کہ یہ اسٹارٹ ہوگیا۔ میں نے سوچاتھا کہ رستے میں کہیں اتر جاﺅں گی لیکن یہ سیدھا یہیں آکررکا۔“

”کمال ہے …“مرشد نے قدرے تعجب سے کہا۔ ”یہ تووہاں سے ہم لے کر آئے ہیں۔میرے ساتھ ایک اور یار تھا میرا… اور آپ ہم سے پہلے سے اس میں موجود تھیں‘ لیکن چوہدری کے بندے آپ تک کیسے پہنچ گئے۔ آپ تو ڈپٹی اعوان کے پاس تھیں۔“ وہ پیچھے ہٹ کرایک صوفے پر ٹک گیا۔

”ہاِں جی! میں انہی کے پاس تھی۔ پرسوں وہ مجھے ادھر… گاگیوالی کے ایک مکان میں لے کرآئے تھے۔ کل شام لاہور چلے گئے۔ وہاں موجود دوبندوں میں سے ایک میرا دشمن ہو رہاتھا۔ وہ دونوں آپس میں لڑپڑے تومیں وہاں سے ڈر کربھاگ نکلی۔ چوہدری اوراس کے کارندے تو کوئی اور

دوبندوں کے پیچھے تھے او روہ دوبندے بھی میرے سامنے ہی سے دوڑ کرگزرے تھے۔“

”توآپ نے اس وقت آواز کیوں نہیں دی ؟“ مرشد نے بے ساختہ سوال اٹھایا۔

”آواز… کسے آواز نہیں دی۔“

”مجھے… ان دو میں سے ایک میں تھا۔“

”اندھیرا بہت تھا‘ کوئی اندازہ نہیں تھا‘ میں تو خود گھبرا کرچھپ گئی تھی۔“مرشد کی طرح اسے بھی اس عجیب اتفاق پرتعجب توہواتھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے لاعلم رہے تھے۔

”گاگیوالی سے پہلے آپ اور ڈپٹی کہاں تھے اور… اس روز گوجرانوالہ کے قریب جو حادثہ پیش آیاوہ سب کیاتھا؟ کیاہواتھا وہاں؟“

مرشد کے استفسار پر حجاب کے ذہن میں وہ خونی لمحات تازہ ہوآئے‘ جو کئی روز پہلے اسے گوجرانوالہ کے قریب اس وقت پیش آئے تھے ،جب پولیس پارٹی پرایک سفاک حملے کے بعد اسے اور ڈپٹی کوا غوا کیا گیاتھا۔ حملہ آوروں نے محض چند سیکنڈز کے اندر اندر ان دونوں کے علاوہ باقی تمام پولیس والوں کوانہی کے خون میں نہلا کررکھ دیاتھا۔

اس نے وہ واقعہ بیان کرنا شروع کیاتومرشد ساتھ ساتھ سوالات کرتا رہا اور حجاب نے اس حملے سے لے کر گاگیوالی تک کی اپنی ساری کہانی بیان کردی۔ اسی دوران منشی خاموشی سے آکر چائے اور بسکٹ وغیرہ ان کے سامنے رکھ گیاتھا۔ خنجر یاملک نے اس طرف آنے سے دانستہ پرہیز کیاتھا۔

مرشد نے ڈپٹی اعوان کے حوالے سے مختلف سوالات کیے۔ حجاب کے جوابات سے اسے معلوم ہوا کہ اس کے رویے‘ اس کے برتاﺅ میں کوئی کمی نہیں تھی۔ وہ ادب وآداب سے پیش آتارہاتھا۔ کچھ پریشان‘ پریشان ضرور لگتاتھا لیکن سوائے س کے اور کوئی پہلو اس کے خلاف شک کے دائرے میں نہیں آتاتھا کہ اب تک وہ حجاب سمیت روپوش کیوں تھا؟

کسی دوسرے کی ایما پر یااپنی منشا سے کوئی کھیل تو وہ کھیل رہاتھا لیکن نظام الدین‘ حجاب‘ مرشد ‘چوہدری یارانا سرفراز میں سے کس کے خلاف کھیل رہاتھا‘ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی کہنا مشکل تھا۔

ایک طرف شاید اس نے چوہدریوں اور رانا کی خواہش پر مرشد اوراس کے ساتھیوں کے ساتھ بدترین چال چلی تھی تو دوسری طرف رانا کے کندھے پربندوق رکھ کر چوہدریوں کونشانہ بنارہاتھا۔ پھراسے ڈپٹی کی وہ باتیں بھی یاد تھیں جو اس نے حجاب سرکار کے پھوپھا کے حوالے سے کی تھیں… اس نے کہاتھا کہ وہ یہ سب کچھ حجاب بی بی کے پھوپھا کی صوابدید پرکررہاہے… اس نے سرکار اور چوہدریوں کے گھرانے کے بیچ کسی پرانی دشمنی کابھی ذکر کیاتھا۔ اس نے خود کو شاہ صاحب کا پرانا احسان مند گناتھااور پھر ابھی تک ان کی بھانجی کوان کے سپرد بھی نہیں کیاتھا۔شاید ان کوڈپٹی نے سرکار کی بازیابی کابتانا تک گوارہ نہیں کیاتھا۔وہ یہ سب سوچ رہاتھااورحجاب اپنی اوراس کی اس ملاقات کے حوالے سے سوچ رہی تھی۔ ان کایوں حادثاتی طو رپر ایک دوسرے تک پہنچ جانا‘ اس کی زندگی کاسب سے زیادہ اطمینان بخش اتفاق تھا۔

گاگیوالی کی فضا جب فائرنگ کی آواز سے گونجی تھی ‘ اس وقت اس نے یہی خیال کیاتھا کہ چوہدری لوگ اور وہ دونوں بندے ایک دوسرے پر گولیاں برسانے لگے ہیں جنہیں وہ بھاگتے ہوئے دیکھ چکی تھی۔ اب ان دونوں کی حقیقت جان کر اسے خیال آرہاتھا کہ شاید جس وقت تنویر اور واجد اس کی تلاش میں باہرنکلے ہوں گے تب ان کے اور چوہدری کے لوگوں کے درمیان رن پڑگیاہوگا ۔اس صورت میں یہ بات یقینی تھی کہ چوہدری ٹولے نے ان دونوں کو چھلنی کرڈالنے سے پہلے دم نہیں لیاہوگا۔اس نے کپ سے چائے کاایک گھونٹ لیااور مرشد سے متفسر ہوئی۔

”مرشد جی! آپ وہاں کیا کررہے تھے ؟ چوہدریوں کے بندے آپ کو کہاں ٹکرا گئے تھے ؟“

”آپ کے گھر میں۔“ اس نے سوچوں سے نکلتے ہوئے حجاب کی طرف دیکھا۔ وہی معصوم اور دل نشین صورت… قلب وجاں میں قرار گھول دینے والی‘ لیکن مقدس… عالی نسب‘ عالی مرتبت۔ اس کی نظریں خودبخود جھک گئیں۔ حجاب اس کے جملے پرچونک پڑی تھی۔

”کیا… میرے گھرمیں؟“

”جی! میں کل شام ایک دوست کے ساتھ نندی پور پہنچاتھا۔ آپ کے گھر کے سامنے والے نذیر جٹ کے گھر… اس کے بھتیجے سے ہماری علیک سلیک تھی۔ مجھے نہیں پتا کیوں مگر… رات گئے میں آپ کے گھر کی دیوار پھلانگ کر آپ کے گھر میں داخل ہوگیاتھا۔ میں…صحن میں تھا کہ دورائفل بردار میرے سرپر آکھڑے ہوئے۔ میرے اندازے کے مطابق وہ پہلے سے آپ کے گھر کی چھت پرموجود تھے۔“مرشد نے اسے یہ دانستہ نہیں بتایا کہ آپ کے گھر میں چوہدری کاایک ڈشکرا قتل بھی ہوا ہے جو گھر کے صحن میں پھڑک پھڑک کرٹھنڈاہوا۔

”آپ نندی پور کیوں گئے تھے؟“ وہ متعجباناانداز میں بولی۔

”میں تو بس آپ کی خیر خبر ڈھونڈتاپھررہاتھا۔“

”آپ میرے گھر گئے … کیسا لگا آپ کو؟“ اس کے تصور میں خودبہ خود روشن ماضی ابھرآیا۔

”اداس… میں صرف صحن میں کچھ دیر رکاتھا۔ گھر میں مکمل طور پراندھیرا تھا۔“ مرشد بدستور سرجھکائے بیٹھاتھا۔ حجاب خاموش نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔ اس نے بھی تو رات گئے خواب میں دیکھاتھا کہ گھرمیں مکمل طور پراندھیرا ہے اور مرشد صحن میں مٹی ہی پرچاروں شانے چت پڑا کراہ رہاہے… وہ کسی اذیت میں تھا۔ اب مرشد کی زبانی اس پرجیسے یہ انکشاف ہورہاتھا کہ اس کاوہ خواب محض خواب نہیں تھا… جس وقت وہ یہ خواب دیکھ رہی تھی‘ ٹھیک اسی وقت مرشد حقیقت میں اس کے گھرکے صحن میں موجود تھا۔ کیسی عجیب بات تھی … کیساعجیب خواب تھا… اس سب کابھلا کیا مطلب ہوا؟ وہ متحیر تھی۔

اس نے مرشد کو یہ بتانا مناسب خیال نہیں کیا کہ اس نے‘ اسے اپنے خواب میں دیکھاتھا۔

بہت دنوں کے بعد اس روز ایسا ہوا کہ مرشد نے فجر کی نماز ادا کی اور دوران نماز اسے کسی قسم کی وحشت کااحساس نہیں ہوا۔ طبیعت آخر تک جمی رہی‘ کسی ادھورے پن کابھی احساس نہیں تھا… حجاب کے مل جانے سے ادھورے پن کااحساس خودبہ خود ختم ہوگیاتھا۔ اس کی پہلی ہی جھلک نے ساری کلفتیں دھو کررکھ دی تھیں۔ جسم وجاں میں بکھرا ہوا کرچی کرچی قرار‘ یکجا ہوآیاتھا۔ زندگی اس پھر سے زندگی محسوس ہونے لگی تھی۔

دن چڑھے بے دار ہونے کے بعد مرشد نے لاہور‘نزہت بیگم کے کوٹھے پر فون کرکے خود بھی تسلی سے اماں کے ساتھ بات چیت کی اور حجاب کی بھی کرائی۔ حجاب نے مرشد سے حسن آرا کے ساتھ ساتھ فیروزہ اور شازیہ کی بھی خیرخیریت پوچھی تھی۔ مرشد نے فون کرنے کاارادہ کرلیا… خود اس نے بھی تو ابھی تک کسی سے کوئی رابطہ نہیں کیاتھا۔ کسی سے بات نہیں کی تھی۔ اماں سے بات چیت کرنے کی شدید ترین خواہش کااس نے گلا گھونٹ رکھاتھا۔ ایک اس بنا پر کہ اماں حجاب سرکار کے متعلق سوال کرے گی اور اس کے پاس ان کے کسی بھی سوال کاکوئی جواب نہیں ہوگا‘ مگرآج… آج جیتا جاگتا اور زبان سے بولتا ہوا جواب اس کے پاس موجود تھا۔

اماں کی تسلی تشفی کے بعد کچھ دیر ساون سے بھی بات کی تھی اس نے… مرشد کی آواز سنتے ہی وہ کھل اٹھاتھا۔ وہ تو مرشد سے ملاقات کے لیے بے تاب تھا لیکن مرشد نے صاف کہہ دیا کہ ابھی مزید کچھ دن تک وہ کسی سے کوئی رابطہ رکھے گانہ ملے گا۔ اس نے اپنے ٹھکانے کے حوالے سے بھی کوئی

اشارہ نہیں دیاتھا۔ ساون سے اسے معلوم ہوا کہ فیروزہ گوجرانوالہ اسپتال میں ہے اور خیریت سے ہے۔ مرشد نے مختصراً اسے اب تک کے واقعات اور افواہوں کی حقیقت سے آگاہ کیااور کچھ تازہ حالات پر بات چیت کرنے کے بعد رابطہ منقطع کردیا۔

ساری باتوں کے بعد اماں کی زبان پراسی بابت سوال تھا کہ حجاب سرکار کو ابھی تک ان کے پھوپھا کے ہاں کیوں نہیں پہنچایا گیا۔ مرشد بھی پہلے سے ذہنی طور پر اس بات پرآمادہ تھا کہ اب ایک ذرا بھی وقت ضائع کیے بغیر بلوچستان کی طرف روانہ ہوجائے۔ سرکار کو بہ حفاظت ان کے اپنوں تک پہنچانے کی اپنی ذمہ داری نبھائے اور پھر واپس آکر چوہدری فرزند اور اپنے دیگر دشمنوں کاسارا حساب کتاب چکتا مارے۔

ملک اور خنجر کے ساتھ مل کر وہ روانگی کاسارا پروگرام بھی ترتیب دے چکاتھا۔ ان کے دشمن اور مرشد کی تلاش میں پولیس کی سرگرمیوں کااصل زور لاہور‘ گوجرانوالہ اور ان کے گردونواح میں ہی تھا۔ ان علاقوںمیں سے صحیح سلامت نکل جانے کے لیے انہیں حقیقی احتیاط کی ضرورت تھی اوراس پریشانی کاحل بھی جیسے خودبہ خود نکل آیا۔اتفاق سے اسی رات ملک کاایک ٹرک فرنیچر لے کر فیصل آباد تک جارہاتھا لہٰذا یہاں سے نکلنے کا مسئلہ تو یوں حل ہوگیا… فیصل آباد سے آگے کا‘ فیصل آباد پہنچ کرسوچاجاتا۔

ملک نے دبی دبی زبان میں مرشد کوسوچ سمجھ لینے کابھی کہااور یہ بھی کہ کم از کم ایک بار لا لارستم سے بات کرلے… لیکن مرشد اپنے فیصلے پرقائم رہا۔ دن میں خنجر کے زخم کی بینڈیج تبدیل کی گئی۔ مرشد نے ملک سے ضرورت کی کچھ چیزیں بھی منگوائیں اور ایک معقول رقم بھی لے لی۔ رات گیارہ بجے وہ بغلی کمرے میں حجاب کے سامنے کھڑاتھا۔

”سرکار! روانہ ہونے کا وقت آگیاہے۔اس سے پہلے میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘ مرشد کا یہ رویہ‘ یہ انداز اس کے لیے قطعی اجنبی تھا۔ اس کی نظر میں مرشد کا یہ انداز خود مرشد سے مطابقت نہیں رکھتاتھا۔

”کیا؟“ وہ مختصراً اتناہی بول پائی۔

”مجھے آپ سے معذرت کرنی ہے۔“

”معذرت… کس بات کی معذرت؟“

”شروع کے دنوں میں جس بدتمیزی سے میں آپ کے ساتھ پیش آتارہا، یاآپ کومخاطب کرتارہا، اس سب کے لیے … میں اپنے اس رویے پربہت شرمندہ ہوں مگر… اس وقت تک مجھے معلو م ہی نہیں تھا کہ آپ کون ہیں۔ کس گھرانے کی فرد ہیں۔“

حجاب جس مرشد سے واقف تھی‘ اس کے سامنے کھڑا مرشد اس سے بالکل مختلف دکھائی دے رہاتھا۔ مختلف اور اجنبی

”آپ ایسی باتیں کیوں کہہ رہے ہیں مرشد جی! آپ… آپ تو میرے محسن ہیں۔ ایسی باتوں سے مجھے شرمسار مت کریں۔“

”نہیں سرکار! آپ کو یاد ہوگا میں نے پہلے روز آپ سے پوچھا تھا کہ آپ میں وہ کیااضافی خصوصیت ہے جوعام لڑکیوں میں نہیں ہوتی… آپ کچھ بتانہیں سکی تھیں اور میں سمجھ نہیں سکاتھا… لیکن آج میں سمجھ چکاہوں،جان چکاہوں، آپ سے بس اتنی درخواست ہے کہ میری طرف سے اپنا دل صاف رکھیے گا۔“

”میر ادل بالکل صاف ہے اور میں ساری زندگی آپ کی اور خالہ حسن آرا کی شکرگزار رہوں گی۔ احسان مند رہوں گی۔“

”تو‘چلیں پھر… آپ کی منزل کی طرف؟“ مرشد نے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ کہااور حجاب اٹھ کھڑی ہوئی۔

ٹرک لوڈ ہوکرآچکاتھا۔ اس میں صوفے اورمیزیں بار کی گئی تھیں لیکن اس انداز میں کہ ٹرک کی سامنے والی دیوار کے ساتھ تقریباً پانچ ضرب سات

فٹ کاایک خلا چھوڑ دیاگیاتھا‘ جس میں کچھ بوریاں بچھا کراس پر قالین کا ایک صاف ستھرا ٹکڑا پھیلا کربیٹھنے کے لیے معقول جگہ بنادی گئی تھی لیکن عین آخری لمحات میں جب مرشد نے اوپر چڑھ کر اس جگہ کاجائزہ لیا تو اس نے روانگی کے طریقہ کار میں تبدیلی کافیصلہ کرلیا۔ سب سے پہلے اس نے حجاب کوٹرک کے اندر اس خلا میں اترنے میں مدد کی۔ اس کے لیے ایک سیڑھی اندر رکھ لی گئی تھی۔ اس کے بعد اس نے خود خنجر کے ساتھ اوپرہیڈ پرچڑھنے کااراد ہ کیاتو ملک چپ نہ رہ سکا۔

”یہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ اس میں خطرے کے امکانات زیادہ ہیں۔“

”تویہ رائفلیں کس لیے ہیں۔ دیکھا جائے گا۔“ مرشد نے اپنے کندھے اور خنجر کے ہاتھ میں موجود رائفل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔پسٹل بھی ان کی ڈبوں میں موجود تھے اور مرشد کی پنڈلی پرخنجر بھی۔ٹرک لے جانے والے دونوں بندوں کے علاوہ منشی بھی وہیں موجود تھا ‘البتہ آج مزدوروں کوملک نے رخصت کردیاتھا۔ ٹرک ڈرائیور‘ جوایک پختہ عمر پٹھان تھا‘ اسے ملک پہلے ہی اعتماد میں لے چکاتھا۔

”اگر تم اس طرح دیکھنے دکھانے میں لگ گئے تو تمہارا مقصد مشکل میں پڑجائے گا… یہاں سے بلوچستان تک کافاصلہ بہت زیادہ ہے اور حالات بہت خراب ۔تم دونوں بھی اندر ہی بیٹھو۔“

”نہیں ملک !ہم اوپر بیٹھیں گے۔“

”آپ کیوں خوامخواہ اپنے لیے مصیبت کاانتظام کرتاہے۔“ پٹھان ڈرائیور نے بلاجھجک مداخلت کی تھی۔ ”جب ملک بتارہاہے کہ آلات(حالات) کھراب ہیں تو آپ بی اندر اس بی بی کا ساتھ بیٹھونا۔“

”اور اگر ہم اوپر ہی بیٹھیں تو اس میں تمہارا کیا نقصان ہے؟“

”لو‘ کرلوبات!“ ڈرائیور نے استہزا سے ملک کی طرف دیکھا۔

”یہ امارانقصان پوچھتاہے… ملک صیب یہ توہمیں بھی مروائے گا یار!“

”تم پر کوئی حرف نہیں آئے گا خان! رستے میں کہیں کوئی مسئلہ بن جائے ‘پولیس سے سامنا ہوجائے تو تم بلاجھجک کہہ دینا کہ ہم اسلحے کے زور پر ٹرک میں سوار ہوگئے تھے۔“ مرشد نے مسکراتے ہوئے کہا۔ خنجر خاموش کھڑا اسے دیکھ سن رہاتھا۔ جس دن سے وہ ساتھ تھے۔ اس دن سے اب تک… آج دن میں پہلی بار اس نے مرشد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دیکھی تھی اور وہ مسکراہٹ وقفے وقفے سے اب تک اس کے ہونٹوں پر جھلملارہی تھی اس کے وجود سے چھلکنے والا اضطراب‘ بوجھل سنجیدگی اور آنکھوں میں پھیلا رہنے والا کرب نجانے کدھر غائب ہوگیاتھا۔ خنجر اس میں نمودار ہونے والی اس تبدیلی کوبخوبی محسوس کررہاتھا۔

”یہ سارا کچھ تو ہم نے پہلے ہی طے کرلیاتھا ‘پھر اب اچانک پروگرام میں اس تبدیلی کی وجہ … بات کیا ہے مرشد؟“ملک نے سنجیدگی سے پوچھا تو مرشد نے مسکراتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

”بات کوئی بھی نہیں ہے ملک! بس مجھے کچھ… ٹھیک نہیں لگا۔“

”بس پھر تم دونوں بھی ٹرک کے اندر بیٹھو۔“

”ہاں نا! ملک صیب ٹھیک بولتا ہے۔ تم لوگ بھی اندر بی بی کا ساتھ بیٹھو۔“

”خان! وہ جگہ صرف ان بی بی جی کے لیے ہے… وہاں صرف وہی بیٹھیں گی۔“مرشد خان کی طرف دیکھ کرسنجیدگی سے بولا توخنجر اور ملک پرجیسے

اچانک منکشف ہوگیا کہ مرشد اوپر ہیڈ پر کیوں سوار ہوناچاہتاہے۔ یقینا اس نے‘ اس مختصر جگہ میں اپنااور خنجر کاحجاب کے ساتھ‘ گھس کر بیٹھنامناسب خیال نہیں کیاتھا

اس کے بعد وہ اور خنجر ٹرک کے ہیڈ پر چڑھ بیٹھے اور اور خان برے برے منہ بناتاہوااپنی سیٹ پر چڑھ بیٹھا۔ٹرک اسٹارٹ ہوکرحرکت میں آیاتوحجاب کے ہونٹوں سے بے اختیار کلمات خیر ادا ہوئے۔ وہ اس خلا میں‘ قالین کے ایک کونے پر ٹرک کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ اسے توقع تھی کہ کم از کم مرشد تو یہاں… اس کے پاس آکربیٹھے گا‘ لیکن اس نے دیکھاتھا کہ وہ اپنے دوست کے ساتھ ٹرک کے اوپر والے حصے میں جابیٹھاتھا۔ اس بات پراسے تھوڑی الجھن اور تشویش تو ہوئی‘ کیونکہ اسے پروگرام کاپتاتھا‘ لیکن اس نے خود کو تسلی دے لی کہ پروگرام میں یہ تبدیلی ان لوگوں نے کچھ سوچ کرہی کی ہوگی اور وہ حالات واقعات کے حوالے سے بلاشبہ بہتر طور پر سوچ سمجھ سکتے تھے۔

وہ مطمئن تھی… سفر کی شروعات ہوچکی تھی۔ اطمینان بخش بات یہ تھی کہ اس سفر میں مرشد اس کے ساتھ تھا۔ وہ جانتی تھی کہ مرشد ایک حوصلہ مند اور زور آور شخص ہونے کے ساتھ ساتھ مزاج او رکردار کابھی کھرابندہ ہے۔ ساتھ تو صرف چند دن کارہاتھا‘ لیکن ان چند دنوں میں وہ جس قسم کے حالات وواقعات سے گزرے تھے ،ان کی بدولت حجاب کو یوں لگتاتھا جیسے ان چند دنوںمیں وہ مرشد کو پوری طرح جان سمجھ چکی ہے… 

وہ بدمعاش تھا لیکن پانچ وقت کی نماز پڑھتا تھا۔خود سر اور اکھڑ مزاج تھا لیکن ماں کے ہرحکم پرسرجھکادیتاتھا… بے باک تھامگر بدتمیز نہیں… شراب پیتاتھا لیکن کردار کاکمزور نہیں تھا حجاب نے اپنے حوالے سے اس کی آنکھ میں کسی میل کا کوئی شائبہ تک پہلے بھی نہیں پایاتھااور اب تووہ ویسے ہی اس کی تعظیم کرنے لگاتھا

وہ دیکھتی رہی تھی… مرشد کی ساری بے باکیاں اور بانکپن ادب و آداب کے بوجھ تلے دب گیاتھا… وہ اس کی طرف نظر بھر کردیکھنے سے بھی جھجکتارہاتھا۔ یہ انداز اس کی شخصیت کے ساتھ عجیب لگتاتھا۔اس کے اس انداز کویاد کرتے ہوئے حجاب کے زیر لب بے ساختہ ایک ننھی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔اعتماد ویقین خودسے ہوتاہے یاپھر نہیں ہوتا اورحجاب کو مرشد پرمکمل اعتماد ہوچکاتھا… وہ مطمئن تھی۔

شہر میں دو تین جگہ انہیں پولیس اہلکار گشت پردکھائی دیئے لیکن ٹرک کی طرف کوئی متوجہ نہیں ہوا البتہ شہر سے باہر نکلتے ہی شیخوپورہ روڈ پر انہیں ایک پولیس ناکے پر روک لیاگیا۔مرشد اور خنجر ہیڈ کے خلا میں یوں بیٹھے ہوئے تھے کہ نیچے سے انہیں دیکھنا ممکن نہیں تھا۔وہ اگر گردن اٹھاتے تواطراف میں دیکھ سکتے تھے اور تھوڑی دیرپہلے … ذرا پیچھے خنجر نے یہ حرکت کی تھی۔

”پولیس ناکاہے… چار پانچ پولیس والے ہیں۔“ اس نے دھیمے لہجے میں مرشد کومطلع کیا۔

”خدا انہیں ہدایت دے بس۔“

”ہاں جی خان صاحب !کدھر سے آرہے ہو اور کدھر کو جارہے ہو؟“ نیچے سے ایک آواز ابھری۔ خان کاجواب ان کی سمجھ میں نہیں آیا… ٹرک کے انجن کی آواز خان کی آواز سے زیادہ تھی۔

”اگر کوئی چیکنگ کے لیے اوپر چڑھ آیا؟“

”دعا کر کہ اتنی خارش نہ ہو کسی کو۔“مرشد کی مسکراہٹ پر خنجر بس اس کی شکل دیکھ کر رہ گیا۔ وہ دونوں جڑ کربیٹھے تھے اور رائفلیں دونوں کی گود میں رکھی تھیں۔ مرشد کے متعلق خنجر کو کوئی خاص اندازہ نہیں تھا البتہ وہ خود ان لمحوں سخت اعصابی تناﺅ میں مبتلا رہالیکن خیریت رہی کہ ہڈ حرام اہل کاروں نے چیکنگ ضروری خیال نہیں کی اور کچھ ہی دیر بعد ٹرک حرکت میں آیا اور ایک بار پھر اپنی منزل کی طرف دوڑ پڑا پھر جیسے جیسے وہ آگے بڑھتاگیا‘ ویرانے

اور سناٹے میں بھی اضافہ ہوتاگیا۔ ٹریفک بہت کم تھی۔ تقریباً بیس پچیس کلومیٹر کاسفر طے کرآنے کے بعد خنجر کو اطمینان کااحساس ہوا… وہ شدید خطرے کے دائرے سے تو آگے نکل ہی آئے تھے۔ مرشد سیدھاہو کربیٹھا تو خنجر نے بھی پوزیشن بدل لی۔ ٹرک رات کی تاریکی کے سینے میں شگاف بناتاہوا سڑک پر دوڑ رہاتھا۔ ہوا کے فرلاٹے ان سے ٹکرارہے تھے۔

”اس مستقل چپ کاکیا مطلب ہے ؟ اب کیا رو گ ہے ؟“ خنجر نے مرشد کی مسلسل خاموشی پرسوال اٹھایاتھا۔

”روگ تو سمجھو سارے دھل گئے خنجرا اب کوئی رو گ نہیں ہے۔“ اس نے خوش دلی سے جواب دیا۔

”پھر کن سوچوں میں گم ہو؟“

”سوچ کوئی نہیں ہے‘ بس انتظار ہے۔“

” کس بات کا؟“

”منزل پر پہنچنے کا‘بلوچستان… سرکار کے پھوپھاجی کے ہاں۔“

”بہت جلدی ہے ؟“ اس نے بغور مرشد کی طرف دیکھا

”ہاں‘ جلدی تو ہے… اماں کاحکم تھا مگر میں ٹال گیا‘ لٹکاگیا تھامعاملے کو پھر… میں نے خود بھی سرکار سے وعدہ کیاتھا… زبان دی تھی انہیں‘ اتنا بہت سارا وقت گزرگیا‘ کافی دیر ہوچکی ہے‘ اب مزید دیر نہ ہو تواچھا… جتنی جلدی میں انہیں وہاں پہنچادوں گااتنی جلدی اپنی نظروں میں اپنی کچھ عزت پاسکوں گا… انہیں وہاں پہنچا کر میں اپنے عہد اور ذمہ داری سے آزاد ہوجاﺅں گا۔ یہ وہاں محفوظ اور مطمئن رہیں گی… خوش رہیں گی‘ تب مجھے بھی کچھ تسلی رہے گی۔“ آخر میں اس کاانداز پرخیال ساہوگیا۔

”اور اس سب کے بعد؟“

”کس سب کے بعد؟“ اس نے گردن خنجر کی طرف پھیری۔

”سرکار کوان کے پھوپھاجی کے پاس پہنچادینے کے بعد۔“

”تب … تب پھر سب سے پہلے اپنی لاڈو اماں‘اپنی باجی امی کے قدموں میں حاضری دوں گا۔“ مرشد کے لہجے میں ایک گہری اپنائیت اور محبت سمٹ آئی۔

”وہ اللہ لوک عورت اپنے بددماغ پتر کے لیے بڑی فکرمند ہوگی۔ دعائیں اور تسبیحات پڑھ پڑھ کر ہواﺅں میں پھونکتی پھرتی ہوگی۔“

”یعنی تم واپسی پر سیدھے اپنے محلے میں جاﺅگے؟ وہاں پولیس کی مسلسل نظر ہوگی۔“

”تو کیاہوا۔“ مرشد نے گردن موڑ کراس کی طرف دیکھا‘ تیز ہوا میں خنجر کے کپڑے او ربال لہرارہے تھے۔ ہوا کے شور کے باعث انہیں بات بھی قدرے اونچی آواز میں کرنی پڑرہی تھی۔ ”کون روکے گاتیرے یار کو؟ سب نے مل کر جو انت مچارکھاہے‘ وہ مچائے رکھنے دو ان کو تم دیکھنا میں سب کے دماغ کیسے درست کرتاہوں۔ پورا پورا حساب دینا پڑے گا سب کنجروں کو۔“ اس کے لب ولہجے میں چھپی آگ کی تپش خنجر نے صاف محسوس کی تھی۔صاف ظاہر تھا کہ سب سے پہلے وہ حجاب کی حفاظت وسلامتی کی فکر سے آزاد ہوجاناچاہتاہے۔ یعنی وہ اس کاایک انتہائی حساس اور کمزور پہلو بن چکی تھی لہٰذا وہ سب سے پہلے اور جلد از جلد اپنے اس پہلو کی طرف سے پوری طرح مطمئن ہوجانا چاہتاتھا تاکہ پھر اس کے بعد وہ کھل کر پوری جوان مردی اور شدت کے ساتھ اپنے دشمنوں سے ٹکر لے سکے… ان کی زیادتیوں کاحساب چکاسکے اوران کی چیرہ دستیوں کولگام ڈال

سکے

شیخوپورہ میں رکے بغیر ٹرک نے فیصل آباد کارخ اختیار کیا اور بغیرکسی پریشانی کے اپناسفر طے کرتارہا۔ اس دوران ایک دفعہ مرشد نے عقبی طرف ٹرک کے اس خلا میں جھانکاتھا‘ جہاں حجاب موجود تھی‘ وہ موجود تھی مگر اندھیرے کے باعث مرشد کودکھائی نہیں دی۔

مرشد نے تسلی تشفی کی غرض سے اسے پکار کرپوچھا بھی تھا کہ کوئی پریشانی تو نہیں اسے سچ میں ہی کوئی پریشانی نہیں تھی۔اسے اس بات کایقین تھا کہ اگر کسی قسم کی کوئی پریشانی بنی بھی تو مرشد اس پریشانی سے نمٹ لے گااور اسے کوئی تکلیف ‘ کوئی نقصان نہیں پہنچنے دے گا۔

جوں جوں سفر کٹ رہاتھا‘ اسے یوں محسوس ہونے لگاتھا جیسے وہ اپنے ماضی سے دور اور مستقبل کے قریب ہوتی جارہی ہے… آنے والے وقت میں کسی روز ہمیشہ کے لیے اس کااسی گھر میں آنا طے تھا‘ جس گھر کی طرف کہ وہ اس وقت سفر کررہی تھی۔ اس کے تصور میں پھوپھو پھوپھا کے چہرے آئے ۔پھوپھو زاد فائزہ اور چھوٹے وقار کی شکل دکھائی دی اور… اور ان چہروں میں ایک اور چہرہ بھی تو تھا… ایک خوبرو اور پروقار چہرہ… سنجیدہ خدوخال اور خفاخفا سی آنکھیں… اس کی دھڑکنیں ایک ذرا پریشان ہوئیں۔ وہ خفاخفا آنکھیں اور سنجیدہ صورت اس کی تھی‘ جس نے آنے والے دنوں میں اس کی زندگی کاساتھی بنناتھا۔ اس کامجازی خدا ہوناتھا۔ اس نے سرجھٹکا‘ سفر ابھی بہت طویل تھا… ویسے بھی فی الوقت توان کی منزل فیصل آباد تھی۔ پروگرام کے مطابق فیصل آباد سے انہیں آگے ملتان روانہ ہوناتھا‘ اور پھر ملتان سے براستہ ڈیرہ غازی خان بلوچستان میں داخل ہوناتھا۔

رات تقریباً تین ساڑھے تین بجے پٹھان ڈرائیور نے انہیں بخیروعافیت فیصل آباد بس اسٹینڈ سے تھوڑے فاصلے پراتار دیا… رات کاآخری پہرتھا‘ خالی اور ویران سڑکوں پر خاموشی ہونک رہی تھی۔ وہ تینوں بس اسٹینڈ کی طرف بڑھے تو ان کے قدموں کی چاپ رات کے اس خوابیدہ سناٹے میں ایک پراسراریت گھولنے لگی۔

حجاب‘ دوپٹہ نما چادر میں خود کواچھی طرح لپیٹے‘ مرشد کے بائیں ہاتھ تھی اور خنجر دائیں ہاتھ… مرشد اورخنجر‘ دونوں کے کندھوں پرایک ایک بیگ تھا اور چھوٹی نالی کی روسی ساختہ رائفلیں ان بیگوں کے اندر… خنجر شلوار قمیص میں تھااور مرشد کے جسم پر ملک والا وہی سفید کرتا اور سفید تہبند تھی۔

اگرملتان کی بجائے یہیں سے کوئٹہ کی گاڑی مل جائے تو؟“ خنجر نے استفسار کیا۔

”اس سے اچھا اور کیاہوگا۔“

”میراخیال ہے کہ پھر ڈائریکٹ کوئٹہ ہی کی ٹرائی کرتے ہیں۔ اگر تھوڑا انتظار کرناپڑے تو بھی کوئی حرج نہیں۔“

”دیکھتے ہیں۔ اگر اڈے پر تیرے سسرالیے نہ ہوئے تو… ورنہ تو کنی کھانی پڑے گی۔“ مرشد کااشارہ پولیس والوں کی طرف تھا۔

”اب کوئی پریشانی نہیں۔ اللہ کے حکم سے اصل بکھیڑے والے علاقے سے تو نکل آئے نا! اللہ نے چاہا تو آگے بھی سب ٹھیک ہی رہے گا۔“

”ویسے مجھے توقع نہیں تھی کہ ہم لوگ اتنے آرام اور آسانی سے نکل آئیں گے… آخر کوڈپٹی بہادر اور کتنے سارے اہلکاروں کامعاملہ تھا۔“

مرشد کی بات حجاب کی سمجھ میں ٹھیک سے نہیں آئی تھی کیونکہ مرشد نے اسے کچھ نہیں بتایاتھا‘ وہ نہیں جانتی تھی کہ ڈپٹی کے اغواسمیت کتنے سارے قتل مرشد کے سرمڑ دیئے گئے ہیں۔ ڈسکہ میں راناسرفراز کے ہاں ہونے والے وقوعے کی بھی اسے کوئی خبر نہیں تھی۔ وہ خاموشی سے چلتی رہی۔

”جہاں تک مجھے سمجھ آتی ہے ان کاسارا دھیان اور زور ڈسکہ اوراس کے سجے کھبے ہوگا… ڈسکہ کوتو یقینا پولیس نے پوری طرح کیموفلاج کررکھاہوگا۔“

”نہیں… انہیں پتا ہے کہ ہم ڈسکہ سے نکل گئے تھے۔ وہ بھی انہی کی موٹر سائیکل پر۔“

”اوہ ہاں! وہ تو مجھے یاد ہی نہیں تھا۔“ اس نے جھٹکادے کربیگ کندھے پر درست کرتے ہوئے کہا۔ ”ویسے ڈپٹی اور رانا کا سکون وآرام تو حرام ہوا پڑاہوگا۔“ ان کاسارا منصوبہ ہی غارت ہو کے رہ گیا۔ ساری کی کرائی کھوہ کھاتے‘ الٹا ہمارے سامنے ان کی پول بھی کھل گئی… ہے کہ نہیں ؟“

پتانہیں وہ کس حوالے سے بات کررہاتھا۔حجاب نے چلتے چلتے سرسری سے انداز میں ایک نظران دونوں کی طرف دیکھا، چہرہ واضح نہیں تھا… سڑک پر کوئی روشنی نہیں تھی۔ خنجر کے متعلق بھی وہ کچھ نہیں جانتی تھی۔ مرشد نے کچھ بتانا ضروری ہی نہیں سمجھاتھا۔

سامنے دیکھ رشتہ دار کھڑا ہے۔“ مرشد کی آواز پرخنجر اور حجاب‘ دونوں نے دیکھا۔ بس اسٹینڈ اب کچھ ہی فاصلے پر تھا۔ وہاں زندگی اور حرکت کے آثار موجود تھے۔ اسٹینڈ کے کونے پر ایک پان سگریٹ کی کھوکھا شاپ تھی‘ جس کے کاﺅنٹر پر سٹوو اور چائے کے برتن بھی موجود تھے۔ اس کھوکے کے سامنے کھڑا واحد شخص ایک پولیس کانسٹیبل تھا… بانس کا ایک درمیانے سائز کا ڈنڈااس کی بغل میں تھا۔ ہاتھوں میں چائے کا کپ اور ایک پرچ تھی‘ جس میں وہ گھونٹ گھونٹ چائے انڈیل کر سڑک رہاتھا۔

”سیانے لوگ کہتے ہیں کہ شیطانوں کویاد نہیں کرنا چاہیے۔“

”سیانے شیطانوں کے سائنس دان ہوتے ہوں گے… سچ کہتے ہیں۔“ مرشد کے جواب میں خنجر نے دھیمے لہجے میں کہا۔بس اڈے پرزیادہ رونق نہیںتھی البتہ چند ایک مسافر ضرور موجود تھے۔ کئی ایک بسیں قطاروں میں موجود تھیں لیکن سو رہی تھیں۔فرنٹ لائن میں بس دو بسیں تھیں جنہیں دیکھ کراندازہ ہوتاتھا کہ یہ سفر پر نکلیں گی۔ ایک بس میں سوئے جاگے سے کچھ مسافر بھی دکھائی دے رہے تھے۔کانسٹیبل اب ان کی طرف متوجہ ہوچکاتھا۔ حجاب نے اپنا چہرہ کچھ مزید دوپٹے میں چھپالیا۔

”توان گاڑیوں کے بارے میں پوچھ گچھ کر میں ان بسوں کی پچھلی طرف رکتاہوں۔“ مرشدنے جیب سے پیسے نکال کر خنجر کوتھماتے ہوئے کہا۔ وہ کانسٹیبل کی نظروں سے ہٹ جانا چاہتاتھا۔

”آئیے سرکار! اس طرف آجائیے۔“ وہ حجاب کواشارہ کرتے ہوئے بائیں ہاتھ کھڑی بس کی طرف بڑھا‘ بس کے ساتھ دو تین مسافر کھڑے سگریٹ پھونک رہے تھے۔ مرشد ان سے کترا کردوسری طرف نکلا تو ایک زبردست قہقہے پرٹھٹک گیا۔ سامنے چند قدم کے فاصلے پر پولیس کی ایک کھٹارا سی جیپ کھڑی تھی۔ قریب ہی لکڑی کی ایک کرسی پر ‘ ایک بھاری بھرکم پولیس والا اپنی شرٹ کے سارے بٹن کھولے ٹانگیں پسارے پھیل کر بیٹھاہواتھا۔ بلند بانگ قہقہہ اسی کے منہ سے اچھلاتھا۔ دو تین سپاہی قریب کھڑے ہنس رہے تھے تو دوبرابر ایک بینچ پربیٹھے تھے۔ ایک نحیف ونزار سامالیشیا کرسی پربکھرے اس گبر سنگھ کے سر کامساج کررہاتھا اور شاید وہ سب اسی غریب پر جگتیں کس رہے تھے۔مرشد فوراً رخ بدل کر دوسری بس کی طرف بڑھ گیا۔ کھوکھے کے پاس کھڑا کانسٹیبل انہیں دیکھتا رہا‘ لیکن اپنی جگہ سے نہیں ہلا اور کھوکھے والے کے ساتھ باتوں میں مصروف رہا۔ خنجر بکنگ آفس کی طرف سرک گیاتھا۔مرشد حجاب کوساتھ لیے دوسری بس کے گرد گھومتا ہوا عقبی طرف نکل گیا۔ ادھر روشنی بھی کم تھی اور تھوڑے فاصلے پر ایک بس کی اوٹ میں پتھر کاایک بینچ بھی موجود تھا۔

”آئیے سرکار! ادھر بیٹھ جائیے۔“ وہ بینچ کے قریب جارکا۔

”ہمیں پولیس والوں سے بھی خطرہ ہے نا؟“ وہ بینچ پربیٹھتے ہوئے متفسر ہوئی تھی۔ مرشد نے مسکراتے ہوئے بیگ کندھے سے اتار کر حجاب کے برابر رکھ دیا۔

”جی نہیں ہمیں بالکل بھی کوئی خطرہ نہیں البتہ… پولیس والوں کوہم سے خطرہ ہے۔“ بے فکری اس کاانداز تھی۔

”ہم خاموشی سے یہاں سے نکل چلتے ہیں۔ کسی اور جگہ سے بس میںسوار ہوجائیں گے۔“ وہ پریشان ہوگئی۔ مرشد کا آخری جملہ گویااس کے اندیشوں کی تائید ہی تھا۔

”خنجر آتاہے توپھر سوچتے ہیں کہ کیا کرنا ہے ۔بہرحال… آپ کسی قسم کی فکر مت کریں۔“ اس نے ایک نظر دائیں بائیں دوڑائی… دور… شیڈ کے کونے پرتار کے ساتھ جھولتے بلب کی مدھم روشنی یہاں تک آرہی تھی۔ دونوں طرف کوئی نہیں تھا۔ بسوں کی دوسری طرف سے پولیس والوں کے ہنسی ٹھٹھول کی آوازیں وقفے وقفے سے بلند ہو رہی تھیں۔

”میں چاہتی ہوں کہ اب کوئی نیا مسئلہ… نئی پریشانی نہ کھڑی ہو۔“ حجاب کی آواز پر مرشد نے چونک کراس کی طرف دیکھا۔ سیاہ دوپٹے کے ہالے میں اس کاچہرہ مدھم ‘ مدقوق روشنی میں بھی پوری طرح روشن دکھائی دے رہاتھا… اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ۔ ہوش وحواس کومبہوت کرتی یہ تاب ناکی شاید اس کی تقدس آمیز معصومیت کا پرتو تھی۔ اس نے مرشد کی طرف دیکھا تووہ گڑبڑاگیا۔ ان خاموش آنکھوں میں وہی سحر کاریاں تھیں ‘جذبے اورارادے تلپٹ کردینے والی… ایک نگاہ میں کسی کی دنیا بدل دینے والی مرشد کی نظریں جیسے ازخود جھک گئیں۔ حجاب بغور اس کی طرف دیکھنے لگی۔ مرشد کے چہرے پرپسینہ چمک رہاتھااور وہ کچھ متذبذب سادکھائی دے رہاتھا۔ پتا نہیں اچانک کس مخمصے میں مبتلا ہوگیاتھا۔ حجاب کے ہونٹوں کوجنبش ہوئی۔

”جتنا کچھ ہوچکاوہی بہت زیادہ ہے … میری وجہ سے اب کوئی اور مصیبت کاشکار نہ ہو۔ آپ کے لیے بھی کتنی پریشانیاں بن چکی ہیں‘ میں… میں تو کہتی ہوں کہ آپ بس مجھے قلعہ سیف اللہ والی گاڑی میں بٹھادیں اور خود کسی محفوظ جگہ چلے جائیں… میں آگے گھر تک پہنچ جاﺅں گی۔“

”مجھے تو بالکل بھی کوئی پریشانی نہیں ہے سرکار! باقی… مصیبتیں تو بس یونہی راستے میں مل جاتی ہیں… ان کی خواہش کون کرتاہے بھلا… جو کچھ ہوچکا وہ بھی بس اللہ کی طرف سے ہی تھا۔ وہ بہتر جانتاہے… جس کے حصے میں جو لکھے…“بات کرتے کرتے اس کادھیان جیسے اچانک اپنے حصے کے لکھے کی طرف چلاگیا… لکھنے والے نے اس کی لوح جاں پر کیسی مختلف حالتیں رقم کردی تھیں۔ آنکھیں بضد ہوتی تھیں کہ اس ماہ کامل پر پتھراجائیں اور ادب کے تقاضے گریباں کوآتے تھے کہ آنکھ کااٹھنابھی گستاخی ٹھہرے گا۔

”آپ اس طرح بات کیوں کررہے ہیں میرے ساتھ؟“

”کس طرح ؟“

”میرانام سرکار نہیںحجاب ہے۔“ اپنے سوال کاجواب تووہ جانتی ہی تھی ۔اب سے پہلے خالہ حسن آرا بھی تو اسے‘ اسی طرح عزت وتکریم دیتی رہی تھی اور اب وہی رنگ… وہی عکس اس کے لاڈلے بیٹے میں دکھائی دے رہاتھا۔ حسن آرا کے انداز سے بھی اسے کوئی تسکین نہیں پہنچی تھی اور اب اس کے بیٹے کے اپنے ساتھ اس برتاﺅ سے بھی اسے بس الجھن ہی ہو رہی تھی۔

”میں نے اپنی جہالتوں کی معافی مانگی تھی آپ سے… وہ میری لاعلمی تھی‘ اپنی حیثیت تو مجھے معلوم ہی تھی لیکن آج میں آپ کامقام ومرتبہ بھی جانتاہوں۔ آپ سرکار ہیں… عالی مقام ہیں۔ میں اپنی سابقہ بدتمیزیوں پرہمیشہ شرمندہ ہوتارہوں گا۔“ مرشد کے لہجے میں گہری سنجیدگی درآئی۔ اس کی گردن بھی قدرے جھک گئی تھی۔ حجاب کچھ بولنا چاہتی تھی لیکن نزدیک آتے قدموں کی چاپ سن کر اپنی جگہ بس کسمسا کررہ گئی۔

آنے والاخنجر تھا… وہ نزدیک پہنچتے ہی بولا۔

”جگر! صرف دو ٹائم ہیں … گھنٹے بعد لاہور کے لیے اور آدھے گھنٹے تک ملتان کے لیے۔“ اس نے بیگ کندھے سے اتار کرنیچے رکھ دیا۔

”پھر… کیا کرکے آئے ہو؟“

”ٹکٹ لے آیاہوں… ملتان کے۔“ اس نے ہاتھ میں موجود ایمبیسی کی ڈبیا کھولی اور سلگانے کے لیے سگریٹ نکال کر ہونٹوں مین دبایاہی تھا کہ مرشد نے سگریٹ کھینچ لیا۔

”ابھی جیب میں رکھو اسے۔“ خنجر نے پہلے حیران ہو کر ناسمجھنے والے انداز میں اس کی طرف دیکھا… سارے راستے اس کے پاس سگریٹ نہیں تھے‘ ابھی وہ ڈبی خرید کرلایاتھا اور مرشد… پھراس کی نظرحجاب کی طرف اٹھی تو جیسے اسے اچانک مرشد کی اس حرکت کی وجہ سمجھ آگئی۔ اس نے ایک چھوٹی سی ٹھنڈی سانس بھری اور ڈبیا چپ کرکے کھیسے میں ڈال لی۔

”بس کون سی ہے ؟“ مرشد نے پوچھا۔

”اس طرف والی‘ جس کے ساتھ سوروں کاجھنڈ بیٹھا ہے۔“

”کیاخیال ہے پھر‘جاکر سوار ہوچلیں بس میں‘ یاابھی یہیں ٹھہراجائے؟“

”وہ خنزیر بالکل سامنے ہی بیٹھے ہیں اگر انہوں نے آواز دے کر بیگ دیکھنے کی خواہش ظاہر کردی تو کام خراب ہوجائے گا ۔باقی سوچ لو… جیسے تم کہو۔“

”چپ کرکے یہاں سے کسی او رطرف نہ نکل چلیں۔“ حجاب پریشان سی اٹھ کھڑی ہوئی۔ مرشد ایک لمحے کے توقف سے گویاہوا۔

”میراخیال ہے کہ فی الحال یہیں رکتے ہیں۔ شاید کچھ دیر تک یہ لوگ ادھر ادھر ہوجائیں‘ نہیں تو پھر جب بس حرکت میں آئے گی تو ہم یہاں سے نکلیں گے اوربس میں سوار ہوجائیں گے۔“

”قدموں کی آہٹ نے ان تینوں ہی کوایک ساتھ چونکایاتھا۔ عقبی طرف سے دوپولیس والے انہی کی طرف چلے آرہے تھے۔

”ہاں بھئی جوانو! کیاکررہے ہوادھر؟“ یہ وہی کانسٹیبل تھاجسے وہ لوگ کھوکھے پر چائے پیتے دیکھ چکے تھے۔ مرشد کاماتھا ٹھنکا۔

”کیامسئلہ ہے تم لوگوں کے ساتھ؟“ دوسرے نے ٹارچ جلا کرباری باری اس کی تیز روشنی ان کے چہروں پرپھینکی اورحجاب کے چہرے پر کچھ دیر ٹھہرائے رکھی۔ حجاب نے دوپٹہ پوری طرح چہرے پرڈال لیاتھا۔ مرشد نے بہ مشکل ضبط کیا ورنہ اس پولیسے کی اس بدتمیزانہ حرکت پر اس کا دل یہی چاہ رہاتھا کہ اسے اٹھائے اور گھما کر کسی دیوار سے دے مارے۔

”نئیں جی !مسئلہ شسلا تو کوئی نئیں جی!“ خنجر نے بشاش انداز میں فوراً جواب دیا۔ وہ دونوں دبے قدموں چل کر‘ اچانک ہی ان کے قریب پہنچ آئے تھے۔ صورت حال پریشان کن تو بن گئی تھی۔

”توپھر یہاں کیا کررہے ہو؟“

”کچھ نئیں جی !وہ بس زنانہ سواری ہمارے ساتھ تھی تو اس لیے ادھر… ایک طرف آگئے۔“

”اچھا… تو ادھرزنانہ سواری کوکیا ہوتاتھا۔ کیالگتی ہے تیری؟“ٹارچ کی روشنی ایک بار پھرحجاب کی طرف لپکی۔ وہ رخ دوسری طرف کر کے کھڑی ہوگئی تھی۔ اس کا دل گھبرانے لگاتھا۔

”میری… میری بھابی ہے جی!“

روشنی مرشد پرآٹھہری۔

”اوریہ؟ یہ بھابی کا کیا لگتا ہے؟“

”یہ میرے بڑے بھائی ہیں۔“

”گونگا ہے؟ کیوں بھئی داڑھی میجر! نام کیا ہے تیرا؟“ وہ بڑے نخرے کے ساتھ مرشد سے مخاطب ہوا۔

”شاہ نواز۔“ اس نے گھمبیر لہجے میں جواب دیا۔

”شاہ نواز… تو شاہ واز باﺅ‘ کہاں سے آرہے ہو اور خیر سے کدھر کوجارہے ہو؟“ انداز میں قدرے شکوک وشبہات تھے۔اس نے یوں سوال وجواب کاسلسلہ شروع کردیاتھا جیسے الف سے یے تک ساری تفتیش کرکے ہی جائے گا۔

”شاہ کوٹ سے آرہے ہیں اور ملتان ایک فوتگی پرجارہے ہیں۔“

”اچھا… کون فوت ہوا ہے ؟“

”میرے والد۔“ مرشد نے پورے اعتماد سے جواب دیا۔ خنجر کااعصابی تناﺅ بڑھتاجارہاتھااوروہ دونوں تھے کہ ٹلتے نظر نہیں آرہے تھے۔ کانسٹیبل نیچے پڑے خنجر والے بیگ کی طرف متوجہ ہوا۔اس نے ڈنڈے سے یوں بیگ کوٹٹولا جیسے اس کے پھٹ جانے کاڈر ہو۔

”اس میں کیا ہے ؟“

”کپڑے وغیرہ ہیں جی!“ خنجر کی دھڑکنیں تیز ہوگئی تھیں۔ دونوں بیگوں میں ہی کپڑے تو تھے لیکن کپڑوں کے اندر رائفلیں بھی تھیں۔

”کیابات ہے۔ اتنی پوچھ تاچھ کیوں ہو رہی ہے؟‘ مرشد کے استفسار پر کانسٹیبل کی توجہ بیگ سے ہٹ کر دوبارہ مرشد کی طرف ہوگئی۔

”کیونکہ یہ ہماری ڈیوٹی ہے۔کام ہے ہمارا۔ کیاسمجھے اٹھاﺅ یہ بیگڑیاں اور چلو ہمارے ساتھ… ادھر… بڑا صاب بلارہاہے تم لوگوں کو… چلو آگے لگو۔“ اس نے ناگواری سے کہتے ہوئے انہیں ڈنڈے سے چلنے کااشارہ کیا۔

”اوجی !آپ تو لگتا ہے ناراض ہوگئے۔ ہم ویسے ہی بیٹھے ہیں۔گرمی بھی ہے نا! گاڑی کاٹیم ہوگاتو بیٹھ جائیں گے بس میں۔“ خنجر نے ہنستے ہوئے کہا تو کانسٹیبل نے فوراً اسے جھڑکا۔

”بوتھابند کر اوئے! دانت کیوں نکال رہاہے ؟میں نے کوئی لطیفہ سنایاہے تجھے… چل بیگ اٹھااور چل ادھر۔“

صورت حال سنگین رخ پر آپہنچی تھی۔ کانسٹیبل انہیں گبرسنگھ کے سامنے پیش کرنا چاہتاتھا… یقینی بات تھی کہ وہاں رسمی طور پر ہی سہی بیگوں کی تلاشی ضرور لی جاتی ۔تب باآسانی اندر موجود رائفلوں کاانہیں پتا چل جاتااور یہ کسی طرح بھی ان کے حق میں بہتر نہیں تھا۔ کانسٹیبل تھا ہی شاید کوئی بدبخت… مرشد نے اتمام حجت کی نیت سے اسے مخاطب کیا۔

”ہم یونہی وقت گزاری کویہاں بیٹھے ہیں۔ ہمارے ساتھ بی بی ہے۔ ایسے خوامخواہ پریشان نہ کرو ہمیں۔ تمہاری مہربانی ہوگی۔“

اس کے لہجے میں چھپی ہوئی غراہٹ اور کسی کوسنائی دی ہویانہیں خنجر کو سنائی دی تھی۔ اس کے اعصاب پوری طرح تن گئے۔ وہ جانتاتھااسے کیاکرناہے۔

”واہ اوئے پریشانی کے پتر! تو کیا کسی کرنل جرنل کی اولاد ہے جوتجھے پریشان نئیں کریں… چل ‘بندے کے پتروں کی طرح اگے لگ نئیں تو ابھی یہیں لمبا ڈال کے تیری ساری پریشانی سلجھادیں گے ہم۔“ کانسٹیبل استہزا سے بولا۔

خنجر صرف مرشد کے ردعمل کامنتظر تھا وگرنہ وہ تو حرکت میں آنے کے لیے خودکو ذہنی طو رپر پوری طرح تیار کرچکاتھا۔ مرشد خاموش کھڑا رہا۔

”اوئے سنا نئیں تونے؟“ کانسٹیبل کالہجہ درشت ترہوگیا۔ اس نے باقاعدہ ہاتھ میں موجود ڈنڈا مرشد کی چھاتی میں چبھویا‘ خنجر کو توقع تھی کہ ابھی کانسٹیبل مرشد کی لات کھا کر اچھل کے گرے گا‘ لیکن خلاف توقع مرشد نے خاموشی سے بینچ پرپڑابیگ اٹھالیا۔

”آجائیں۔“ اس نے مختصراً حجاب سے کہا اور چل پڑا‘ حجاب اور خنجر نے تو اس کی تقلید کرنی تھی۔ وہ بھی چپ چاپ چل پڑے۔ البتہ ان دونوں کے دل ودماغ میں اودھم مچاہواتھا۔خنجر کوپریشانی تھی کہ کہیں پھنس نہ جائیں۔حجاب کوڈر تھا کہ کہیں جھگڑانہ ہوجائے۔ نقصان چاہے کسی کابھی ہوتا‘ اچھا نہ ہوتا۔

وہ بس کے گرد گھوم کر سامنے کے رخ پر آئے تو ان کے ساتھ ساتھ دو پولیس اہلکاروں کودیکھ کر‘ وہاں موجود اکادکا مسافر ان کی طرف متوجہ ہوگئے۔ کھوکھے والا بھی ادھر ہی دیکھ رہاتھا۔ ان سب کی آنکھوں میں تجسس اور سوال کسمسا اٹھے لیکن بولا کوئی کچھ نہیں … ملتان والی بس کے داخلی دروازے کے قریب مرشد رک گیا۔ گبرسنگھ اوراس کے ماتحت‘ سانگے مانگے سامنے ہی موجود تھے۔

”آپ بیٹھیں اندر… ہم دونوں آتے ہیں ابھی۔“ وہ حجاب سے مخاطب ہواتھا۔

”اندر شندر بعدمیں بیٹھنا‘ پہلے صاب کے سامنے حاضری لگواﺅ تینوں۔“کانسٹیبل نے خشک لہجے میں کہا۔

”حاضری ہم لوگ لگوارہے ہیں… آپ چڑھیں بس میں۔“

مرشد نے پہلے کانسٹیبل کوجواب دیا… پھر حجاب سے مخاطب ہوا۔وہ دروازے کی طرف بڑھی تو کانسٹیبل نے ہاتھ میں پکڑا ڈنڈا بس کے ساتھ لگا کرراستہ روک لیا۔

”پہلے ادھر مرو۔“

”دیکھو! ایسے بے وجہ بات مت بڑھاﺅ تم۔“ مرشد نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سرد لہجے میں کہااور ڈنڈا ایک طرف جھٹک دیا۔حجاب نے بس میں سوار ہونے کے لیے پاﺅں دروازے میں رکھاہی تھا کہ کانسٹیبل نے جھپٹ کر اس کی کلائی دبوچ لی۔

”اے چڑیل! تجھے سمجھ نئیں آئی بس یں ی ی…“ اس کا جملہ ابھی مکمل نہیں ہواتھاکہ خود اس کوسمجھ آگئی کہ وہ لاعلمی میں اپنی اوقات سے بڑی جسارت کربیٹھاہے۔

مرشد کاسارا ضبط وتحمل یک دم ہی جواب دے گیاتھا۔ اس نے اچانک انتہائی بپھرے ہوئے انداز میں کانسٹیبل کے چہرے پر ٹکر رسید کی اور ساتھ ہی اس کاوہ ہاتھ تھام لیا… جواس نے حجاب کی کلائی پر ڈالاتھا۔ اگلے ہی لمحے اس نے ایک مخصوص انداز میں کانسٹیبل کی کہنی کے نیچے کھلی ہتھیلی سے ایسی بھرپور ضرب لگائی کہ ہڈی ٹوٹنے کی کڑاک واضح سنائی دی اور کانسٹیبل کرب ناک انداز میں چیختاہوا ڈھیر ہوگیا۔

یہ تباہ کن کارروائی محض ایک ڈیڑھ سیکنڈ کے اندر وقوع پذیر ہوگزری تھی۔ شاید اردگرد موجود کسی شخص کوبھی ٹھیک سے سمجھ ہی نہیں آسکی تھی کہ یکایک یہ ہوا کیاہے؟

حجاب کی کلائی دبوچنے والی اس کی حرکت نے مرشد کے دل ودماغ میں انگارے دہکادیئے تھے۔ وہ قہرآلود نظروں سے زمین پرتڑپتے چیختے اس کانسٹیبل کوگھور رہاتھا اوراس کے برابر کھڑی حجاب فق چہرے اور ششدر نگاہوں سے اسے تک رہی تھی۔ مرشد کی یہ برق رفتاری اسے بھی متحیر کرگئی تھی۔چند لمحوں کے لیے سبھی اپنی اپنی جگہ بت بنے رہے پھراچانک گبرسنگھ اپنی جگہ سے دہاڑتاہوا اچھل کرکھڑاہوا۔ اس نے گالی دیتے ہوئے کچھ

کہاتھا۔ اس کے گرد موجود اہلکار فوراً مرشد اور خنجر کی طرف لپکے‘ تبھی ان کے قریب کھڑے سپاہی کا بھی سکتہ ٹوٹا… اس کامرشد پر جھپٹنے کاارادہ تھا جو خنجر کی لات نے پورا نہیں ہونے دیا… ٹھوکر اس کے سینے پرپڑی اور وہ لڑکھڑا کرپیچھے جاگرا۔

”بس… بس اب حرکت نہیں کرنا۔“

”اپنی جگہ سے ہلنا نئیں۔“

”اوئے… اوئے! ہاتھ اوپر کرواپنے۔“

”ان کی طرف لپکنے والے سپاہی چار قدم کے فاصلے پر ہی ٹھٹک گئے۔ مرشد اور خنجر نے دیکھا‘ ان کی طرف تین بندوقیں اٹھی ہوئی تھیں اور ایک پسٹل… پسٹل گبر سنگھ کے ہاتھ میں تھااوراس کے چہرے پر غضب ناک وحشت چھائی ہوئی تھی۔ وہ سب پوری طرح چوکنے تھے۔ اپنے دوساتھیوں کی حالت دیکھتے ہوئے مرشد اورخنجر کی بے خوفی اور پھرتی پر ان کی آنکھوں میں حیرت وبے یقینی آجمی تھی۔

”ہاتھ… ہاتھ اوپر اٹھالودونوںورنہ ہم گولی مار دیں گے۔“گبر نے ایک بار پھر تیز لہجے میں کہا… اس کی تیکھی نظریں مرشد اور خنجر کی قمیصوں کے نیچے پسٹلز کی موجودگی کااندازہ کرچکی تھیں۔

”تمہارے اہلکار نے بدتمیزی کی تھی… ہمیں جانے دو۔“

”بھونکنا بند کر اور ہاتھ اوپر کرلے۔“ مرشد کی بات پر گبر نے اسے بری طرح جھڑک دیا… مرشد اور خنجر دونوں نے ہاتھ کہنیوں سے اوپر کی طرف اٹھالیے‘ ان کے ایک طرف پولیس کے چار مسلح اہلکار تھے اور دوسری طرف … کچھ فاصلے پر چند مسافر… بس کے اندر موجود مسافر بھی بس کی کھڑکیوں اور شیشوں میں سے جھانک جھانک کر دیکھنے لگے تھے۔ سبھی حیرت وسنسنی کاشکار دکھائی دیتے تھے۔انہیں ابھی کسی بھی بات کاعلم نہیں تھا لیکن جو کچھ وہ دیکھ اور سن رہے تھے‘ وہ ان سبھی کے لیے بہت سنگین اور سنسنی خیز تھا۔

خنجر کی لات کھاکرگرنے والا بھی اسی جگہ دوہرا ہوا کراہ رہاتھا۔ایک تو اس کی صحت نظر لگنے کے قابل نہیں تھی‘ دوسرا شاید ٹھوکر کچھ زیادہ ہی شدید پڑگئی تھی۔ وہ کراہ رہاتھاالبتہ دوسرا اپنے ناکارہ بازو کوکہنی کے قریب سے تھامے انتہائی درد ناک اور اعصاب شکن انداز میں چیخ رہاتھا۔ ان دونوں کی اس حالت کے بعد اب باقی پولیس والوں سے صرف برے سے برے ہی کی توقع کی جاسکتی تھی۔

”اب کوئی کرتب دکھانے کی بے وقوفی مت کرنا، ورنہ متھے میں سوراخ کردوں گا۔“ گبر نے پھنکارتے ہوئے کہا پھر اپنے برابر میں کھڑے سپاہیوں سے تحکمانہ انداز میں بولا۔

”تلاشی لو اوئے ان سوروں کی۔“ اس نے اپنی موٹی موٹی آنکھیں برابر ان دونوں پر جما رکھی تھیں ۔کسی سانپ کی طرح۔ دو سپاہی ایک ذرا ہچکچا کر محتاط انداز میں آگے بڑھے۔ حجاب بس کے ساتھ چپک کر کھڑی ہوگئی تھی۔ اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ جس بات سے وہ گھبرا رہی تھی وہی سب شروع ہوگیا تھا۔

مرشد اور خنجر کو بخوبی اندازہ تھا کہ اگر انہوں نے گرفتاری دے دی ۔یہاں وہ دھر لیے گئے تو ان کی مشکلات میں سنگین ترین اضافہ ہو جائے گا۔ مرشد پہلے ڈپٹی اعوان کی وجہ سے ایک بار حجاب کو گنوا چکا تھا لیکن اب وہ اس حوالے سے ایک رتی برابر بھی کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہیں تھا ۔اس نے ٹھان رکھی تھی کہ وہ از خود حجاب کو اس کے وارثوں کے حوالے کرے گا اور ہر صورت ایسا کر کے رہے گا لہٰذا یہاں خود کو پولیس کے سپرد کردینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

سپاہی پہلے اپنے دو ساتھیوں کا حشر دیکھ چکے تھے پھر بھی شاید وہ ان دونوں کے متعلق درست اندازہ نہیں کرپائے یا پھر اپنے ساتھیوں کے حشر ہی کی وجہ سے وہ قدرے بد حواس ہو رہے تھے۔ انہیں مرشد اور خنجر کی تلاشی کے لیے ان دونوں کے عقب میں آنا چاہیے تھا لیکن وہ دونوں اناڑیوں کی طرح سیدھا ان کے قریب چلے آئے ۔جس طرح کے موقع کی مرشد خواہش کر رہا تھا وہ انہوں نے خود ہی اسے فراہم کردیا ۔دونوں سپاہی چوکنے تو تھے لیکن صرف چوکنا ہونے سے کیا ہوتا ہے؟ جیسے ہی وہ ان کے قریب پہنچے مرشد نے برق رفتاری سے اپنے سامنے والے کی شہہ رگ دبوچی اور ساتھ ہی اسے پوری قوت سے دھکیلتے ہوئے اس کے عقب میں کھڑے گبر سنگھ پر اچھال دیا۔ گبر سنگھ گڑ بڑا کر کچھ بولتا ہوا بے اختیار پیچھے ہٹا تھا بوکھلاہٹ میں اس نے فائر بھی کیا لیکن گولی پتا نہیں کدھر گئی؟ وہ صرف دو قدم ہی پیچھے ہٹا تھا کہ سپاہی توپ سے نکلے گولے کی طرح اس سے جا ٹکرایا، دونوں ہی لڑکھڑا کر گرے تھے پھر اس سے پہلے کہ گبر سنگھ سنبھلتا اور اپنے پسٹل کا رخ مرشد کی طرف کرتا، مرشد نے چھلانگ لگائی اور اس کے اوپرجا پڑا۔ گرتے وقت سب سے پہلے اس نے گبر کے پسٹل والے ہاتھ پر ہی ہاتھ ڈالا تھا۔ اس کا ماتھا گبر کے ہونٹوں سے ٹکرایا، ایک ذرا گبر کے حواس مختل ہوئے تھے کہ مرشد نے ایک بھرپور ٹکر اس کے چہرے پر رسید کردی، بے اختیار اس کے حلق سے ایک کرب ناک کراہ خارج ہوئی۔ پسٹل اس کے ہاتھ سے نکل گیا، ٹھیک اسی وقت مرشد کو اپنے عقب سے فائر کی آواز سنائی دی اور اس کے قریب موجود رائفل بردار سپاہی جو اس تذبذب میں تھا کہ مرشد پر گولی چلائے یا بندوق کو لاٹھی کے طور پر استعمال کرے… کراہتا ہوا لڑکھڑا کر گر پڑا گولی اس کی پنڈلی پھاڑ کر نکل گئی تھی اس پر یہ فائر خنجر نے کیا تھا۔

گبر سنگھ میں کسی سانڈ جیسی طاقت تھی ۔مرشد کی ٹکر نے اس کے ناک سے خون کا نلکا جاری کردیا تھا لیکن وہ پھر بھی موالیوں کے ساتھ مرشد سے گتھم گتھا ہوگیا ۔اس کی آنکھوں سے انگارے چھوٹ رہے تھے اور مرشد کا پورا چہرہ ہی انگارہ بنا ہوا تھا۔ گبر میں طاقت تو تھی مگر مرشد والی پھرتی اور جوش و جذبہ نہیں تھا۔ کسرت اور زور آزمائی معمول نہیں تھا لہٰذا مرشد کی دوسری ٹکر اس کے لیے بھیانک ثابت ہوئی، وہ ذبح ہوئے بکرے کی طرح ڈکرایا تھا۔ مرشد تڑپ کر اس سے الگ ہوتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا، پسٹل اس کی ڈب سے نکل کر نیچے گر گیا تھا ۔اس نے جلدی سے دھوتی کو کسا اور اپنے ساتھ ساتھ گبر سنگھ والا پسٹل بھی اٹھا لیا۔ سب سے پہلے اس نے بے قراری سے خنجر اور حجاب کی طرف دیکھا ،وہ دونوں ٹھیک تھے۔ خنجر کے ہاتھ میں پسٹل تھا۔ اس کا مقابل دوسری بس کے قریب دونوں ہاتھوں سے اپنا سرپکڑے زمین پر پڑا تھا۔

حجاب اسی جگہ کھڑی تھی۔ چہرہ زرد اور آنکھوں میں وحشت، وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے گبر سنگھ کے پیروں کے قریب منہ کے بل گرے پڑے، سپاہی کو تک رہی تھی ۔اس کے برابر زندگی کی حرارت سے گرم خون کی ایک پتلی سی لکیر کسی سانپ کی طرح سرسرا رہی تھی۔ گبر کی بوکھلاہٹ میں چلائی ہوئی گولی ،اس کی پشت پر ٹھیک دل کے مقام پر اندر گھسی تھی۔ اس پر تشنج کی کیفیت طاری تھی، یعنی وہ صرف لمحوں کا مہمان تھا ۔مرشد کا پہلا مضروب بھی اپنی جگہ پڑا کراہ رہا تھا البتہ دوسرا سپاہی اپنی جگہ سے اٹھ کر بھاگ کھڑا ہوا تھا۔

مرشد نے اس سپاہی کی طرف دیکھا جس کی پنڈلی میں خنجر نے گولی اتار دی تھی۔ اس کی بندوق ایک طرف پڑی تھی اور وہ دو تین قدم جیپ کی طرف سرک گیا تھا ۔اس کا چہرہ بالکل ہلدی ہو رہا تھا اور آنکھوں میں دہشت بھری تھی ۔وہ مرشد کی طرف یوں دیکھ رہا تھا جیسے روح قبض کرنے والے فرشتے کو دیکھ رہا ہو۔ دوسری سمت سے تماشا دیکھنے والے مسافر اِدھر ا�±دھر دبک گئے تھے۔ مرشد فوراً حجاب کی طرف بڑھا۔

”چلیں سرکار! جلدی کریں ،اس طرف آئیں۔“ اس نے بیگ اٹھاتے ہوئے کہا اور ان پولیس والوں کی جیپ کی طرف بڑھ گیا، جیپ کے ساتھ ہی ایک تھکی ہاری سی موٹر سائیکل بھی کھڑی تھی۔ مرشد نے بیگ جیپ میں اچھالتے ہوئے اچھل کر ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔ چابی اگنیشن میں

موجود تھی۔حجاب مرشد کے برابر بیٹھ گئی اور خنجر جیپ کے عقبی حصے میں سوار ہوگیا۔ اچھا خاصا کھڑاک ہوگیا تھا۔ یہ چار پولیس اہلکار یہاں زخمی پڑے تھے اور ایک مردہ۔ جو فرار ہوا تھا اس کا رخ یقینا سیدھا پولیس اسٹیشن کی طرف رہا ہوگا۔ کچھ ہی دیر میں ایک ہلچل بے دار ہونے والی تھی۔ انہیں اب جلد از جلد فیصل آباد سے نکلنا تھا اور اس کے لیے فی الوقت یہ پولیس جیپ ہی کا ذریعہ دستیاب تھا۔

جیپ اسٹارٹ کر کے وہ بس کی دوسری طرف سے اڈے کے سامنے کے رخ بڑھے تو بس کی کھڑکیوں میں سے جھانکتی کئی سراسیمہ آنکھیں انہیں دکھائی دیں۔ دوسری طرف ایک بس کی اوٹ میں چند ڈرے گھبرائے مسافر بھی نظر آئے لیکن انہوں نے کسی پر توجہ نہیں دی۔اب سے پہلے مرشد کا بس ایک دو بار ہی اس شہر میں آنا ہوا تھا۔ راستوں کا ٹھیک سے کوئی اندازہ نہیں تھا اسے۔ جس سمت سے وہ اڈے کی طرف آئے تھے مرشد نے جیپ کو اس کی مخالف سمت میں سڑک پر ڈالا اور ایکسیلیٹر پر پاﺅں کا دباﺅ بڑھاتا چلا گیا۔ سمت چاہے کوئی سی بھی تھی فی الحال ضروری یہ تھا کہ موقع واردات سے جتنی دور جایا جاسکے، نکل جائیں۔ مرشد کو یقین تھا کہ جلد ہی پولیس والے ان کی شناخت کے حوالے سے بھی درست اندازے تک پہنچ جائیں گے۔ خنجر کے تیکھے، نوک دار نقوش، مرشد کا رنگ روپ، چھوٹی چھوٹی داڑھی اور بھاری مغرور بد معاش مونچھیں ،ان کے حلیے ان کا تعارف دینے کے لیے کافی تھے۔ 

مرشد کا اندازہ تھا کہ روشنی پھیلنے تک پورے شہر میں وائرلیس اور دور دور تک فون کھڑکنے والے ہیں کہ لاہور ہیرا منڈی کے اشتہاری بد معاش اور متعدد سنگین وارداتوں میں ملوث مجرم، مرشد کو فیصل آباد میں دیکھا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ڈسکہ کے خضری عرف خنجر کے علاوہ ایک لڑکی بھی تھی۔ دوستوں دشمنوں میں سے بہت سے لوگ خود بخود ہی سمجھ جاتے کہ وہ لڑکی کون ہے اور ان لوگوں کا رخ کس طرف کو ہےیقینی طور پر اس خبر نے ڈپٹی، رانا اور چوہدری لوگوں کو وخت ڈال دینا تھا۔ وہ بد باطن لوگ، حجاب کا اپنے وارثوں تک پہنچنا ہر گز بھی گوارا نہیں کرسکتے تھے۔ وارث بھی ایسے جو اثر و رسوخ اور طاقت و اختیار کے حوالے سے اپنا ایک خاص مقام رکھتے تھے۔

دس منٹ کی تیز رفتار ڈرائیونگ کے بعد وہ شہری آبادی کو پیچھے چھوڑ کر ایک مکمل طور پر تاریک اور سنسان روڈ پر نکل آئے ۔ روڈ کی حالت خاصی شکستہ تھی پھر بھی مرشد نے ممکنہ حد تک رفتار تیز رکھی لیکن مزید چند کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد اسے نا چاہتے ہوئے بھی رفتار کم کرنا پڑ گئی۔ اس سے آگے روڈ بالکل ہی نا ہموار تھی، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ روڈ تھی ہی نہیں۔ وہ ایک خاصا نا ہموار، نیم پختہ راستہ تھا جو اس کھٹارا جیپ کی ہیڈ لائٹس کی زرد روشنی میں سامنے کے رخ ،دور تک سیدھا بچھا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ اس کچے پکے راستے کے دونوں طرف جنگلی کیکر کے درختوں اور جھاڑیوں کی اس قدر بہتات تھی کہ گاڑی کو دائیں یا بائیں نہیں موڑا جاسکتا تھا۔

”جگر!ادھر کدھر؟“ خنجر عقبی طرف سے بولا۔ وہ سامنے ہی کی طرف دیکھ رہا تھا۔

”جدھر سینگ، ادھر سر۔“ مرشد نے رفتارتھوڑی مزید کم کر دی۔ جیپ کے ساتھ ساتھ وہ تینوں بھی ہچکولے کھانے لگے تھے۔

”ہم کسی غلط رستے پر ہیں۔“

”بہرحال رخ ہمارا ملتان ہی کی طرف ہے۔“ چند لمحے کی خاموشی کے بعد خنجر کو جیسے خیال آیا۔

”چلو… یہ بھی ٹھیک ہی ہوا۔جی ٹی روڈ کی بجائے یہ رستہ ہمارے لیے محفوظ ثابت ہوگا۔“

مرشد نے بس ہلکی سی ”ہوں“ پر اکتفا کیا ۔اس کے نزدیک جیسے ان باتوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی ۔ اس کا دھیان تو کہیں اور تھا وہ جیپ کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہوتے ہوئے بھی وہاں نہیں تھا۔ وہ تو ان دیکھی فضاﺅں میں محو پرواز تھا ۔وہ سفر اس کے لیے زمین کا سفر تو رہا ہی نہیں تھا

اپنے برابر میں حجاب کی موجودگی کا احساس اس کے باقی تمام احساسات اور خیالات پر حاوی تھا ۔باقی سب کچھ غیراہم اور بے معنی ہو کر رہ گیا تھا۔ کل صبح سے جس لمحے سے حجاب کو اس نے معجزانہ طور پر اپنے روبرو پایاتھا، تب سے اس کے اندر کی دنیا ہی بدلی ہوئی تھی ۔وہی انوکھی اور طلسماتی سرشاری، وہی سحر خیز تال میں ڈھلی دھڑکنیں۔ قلب و جاں میں پھر وہی نہال کردینے والا لطف و قرار اتر آیا تھا جو کہ پہلے بھی چند دن اس پر مہربان رہا تھاوہی پر اسرار کیفیت پھر سے لوٹ آئی تھی۔ اس کے اطراف میں پھیلی، زندگی سے بھرپور دنیا پھر سے ایک طلسماتی دلچسپی میں تبدیل ہو آئی تھی۔

اس کے جذبات و احساسات میں رتی برابر فرق نہیں تھا۔ حجاب کی موجودگی اسی طور اس پر اثر انداز تھی، بس اتنا تھا کہ اس کی بے باکی اور بے تکلفی کی جگہ ایک ادبی جھجک نے لے لی تھی۔اس کے ذہن میں پہلے بھی اس لڑکی کے متعلق کوئی سستا یا بازاری خیال نہیں آیا تھا۔ وہ جانتا سمجھتا تھا کہ وہ دونوں بالکل دو مختلف دنیاﺅں کے لوگ ہیں۔ حجاب تو شروع دن سے اسے اس قدر اجلی معصوم اور زمانے بھر سے ایسی الگ تھلگ محسوس ہوئی تھی کہ وہ اسے اس جہاں کی مخلوق لگی ہی نہیں تھی ۔وہ تو جیسے کسی اور ہی جہان سے تعلق رکھتی تھی اور قدرت کی ستم ظریفی سے بس وقتی طور پر چند روز کے لیے اس کی اس بدنام اور ناپاک بستی میں آ گری تھی۔ وہ بستی ،وہ جگہ اس معصوم روح کے رہنے کی جگہ کہاں تھی۔ اسے وہاں نہیں رہنا تھا اسے واپس اپنی دنیا میں لوٹنا ہی تھا انہیں اپنی اپنی دنیا میں اپنی اپنی زندگی جینی تھی مرشد کو اس بات کا بخوبی ادراک تھا۔ لہٰذا اسے کوئی الجھن نہیں تھی اور اب… اب تو حجاب جیسے اس کے نزدیک ویسے ہی سچ مچ کسی آسمانی قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک مقدس اور عالی مقام ہستی کی سی حیثیت اختیار کرچکی تھی

وہ ایک سید زادی تھی سرور کائنات کی اولاد میں سے تھی۔ اس پر جب یہ حقیقت منکشف ہوئی تھی تب ایک بار تو اس کی بنیادیں تک ہل کر رہ گئی تھیں۔یہ ایک بڑا دھچکا تھا اس کے لیے لیکن اگر اس کے ذہن و دل کے کسی گوشے میں حجاب کے حوالے سے مستقبل کے کسی خواب کا کوئی ہلکا سا عکس بھی رہا تھا تو اس غیر متوقع انکشاف نے وہ بھی مٹا دیا تھا۔ وہ کچھ پریشان رہا تھا اور پریشانی سے زیادہ شرمندگی نے اسے دبوچے رکھا تھا۔ وہ شرمندگی اس کے اندر اب بھی باقی تھی اور وہ اس رویے کی وجہ سے تھی جو حجاب کے متعلق لا علمی کے باعث اس نے روا رکھا تھا۔ اکھڑ… کرخت… بد تہذیبانہ طور پر بے باک اور بد تمیزانہ حد تک بے تکلفی کا

وہ پچیس تیس کلو میٹر کا سفر مزید طے کرچکے تھے۔ صبح کا دھندلکا پھیلنے لگا تھا۔ رستہ ویسا ہی تھا البتہ درختوں جھاڑیوں کی بہتات نہیں رہی تھی۔ اچانک گاڑی نے پہلے چند ہچکیاں لیں اور آخر کار رک گئی۔

”لو جی، پیٹرول ختم۔“ مرشد نے ایک گہری سانس بھری۔

”یعنی بد تمیز پولیسے تقریباً خالی ٹینکی ہی لیے بیٹھے تھے۔“ خنجر اچھل کر نیچے اتر گیا۔ حجاب نے اطراف میں دیکھا۔ دونوں طرف دور دور تک ویرانہ تھا۔ کیکر کے درخت اور جھاڑیاں تھیں۔

”یہ پتا نہیں ہم کس طرف نکل آئے ہیں۔ آبادی کے تو کہیں کوئی آثار ہی نہیں ہیں۔“ خنجر چاروں طرف کا جائزہ لیتے ہوئے بولا۔ مرشد بھی دروازہ کھولتے ہوئے نیچے اتر گیا۔ گو کہ اطراف میں دور دور تک بکھری جھاڑیاں اور کیکر کے چھتری نما درخت، پہلے کی نسبت اب کم تھے پھر بھی اس قدر ضرور تھے کہ حد نگاہ تک دیکھ پانا ممکن نہیں تھا۔ مرشد جیپ کے بونٹ پر چڑھا اور وہاں سے چاروں طرف دیکھنے لگا۔

”بائیں طرف… ادھر شاید کوئی گاﺅں یا بستی ہے۔“

”کوئی سڑک وغیرہ؟“ خنجر بھی بونٹ پر سوار ہوگیا۔

”کچھ اندازہ نہیں البتہ ادھر اگر بستی ہوئی تو کوئی مناسب راستہ بھی مل جائے گا۔“

”نظر تو کچھ نہیں آرہا۔“ خنجر نے پنجوں کے بل کھڑے ہوتے ہوئے بائیں طرف دیکھا ۔اسے واقعی دور دور تک ان جھاڑیوں اور درختوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیا تھا۔

”میرا اندازہ ہے کہ اس طرف کوئی آبادی ہوگی۔“ مرشد نیچے اتر کر حجاب والی سائیڈ پر آگیا۔

”آجائیں، اب ہمیں کچھ سفر پیدل طے کرنا ہوگا۔“ وہ جیپ کا دروازہ کھولتے ہوئے بولا۔ حجاب نیچے اتر آئی۔سامان کے نام پر ان کے پاس دو بیگ تھے۔ دونوں نے ایک ایک بیگ کندھے سے لٹکایا اور پھر تینوں اس نا ہموار راستے سے ہٹ کر بائیں ہاتھ کو آگے بڑھ گئے۔ مرشد اور حجاب برابر چل رہے تھے۔ البتہ خنجر کئی قدم آگے نکل گیا تھا۔ بظاہر اسے جلد از جلد کسی مرکزی راستے یا آبادی تک پہنچ جانے کی فکر تھی لیکن در حقیقت حجاب کی وجہ سے وہ ایک عجیب الجھن آمیز سی جھجک کا شکار تھا اسی لیے اب بھی پندرہ بیس قدم آگے نکل گیا تھا۔

مرشد اگر حجاب کی محبت میں گرفتار ہوا تھا تو یہ بات کم از کم اب، حجاب کو دیکھ لینے کے بعد اس کے نزدیک تعجب خیز نہیں رہی تھی۔ اس کے خیال میںوہ اتنی خوب صورت اور دل کش تو تھی کہ کوئی بھی اس کی محبت میں پاگل ہوسکتا تھا لیکن جس طرح مرشد اس کی تعظیم کرتا تھا، جس ادب و احترام کا مظاہرہ کر رہا تھا، وہ خنجر کو عجیب لگتا تھا۔ ٹھیک ہے کہ وہ سید زادی تھی مگر کوئی ضعیفہ یا بزرگ نہیں تھی ۔ایک نوجوان لڑکی تھی۔ عزت، قدر اپنی جگہ لیکن ادب و احترام میں اب اس درجہ بھی کیا تکلف دراصل وہ،حجاب سے متعلق مرشد کے جذبات و احساسات کو ٹھیک سے سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ آیا مرشد کو واقعی میں حجاب سے محبت ہے یا یہ محبت محض احترام ہی کی کوئی انتہائی شکل ہے!

مرشد اور حجاب جھاڑیوں سے دامن بچائے برابر چل رہے تھے۔ ان کے پیروں تلے کلر زدہ زمین تھی۔ جیسے دور تک نمک کی مہین چادر بچی ہو۔ اس میں جا بجا ہری جھاڑیاں، صبح کی نرم سفیدی اور اوپر سر پر نیلا آسمان مجموعی اعتبار سے وہ ایک خوب صورت منظر تھا ۔اس خوب صورت منظر کی حقیقی اثر آفرینی کو ان تینوں میں سے صرف مرشد ہی صحیح معنوں میں محسوس کر رہا تھا۔ اس منظر کو حجاب کی موجودگی نے کچھ مزید دلکشی ،مزید زندگی دے دی تھی۔ وہ قدم بہ قدم آگے بڑھ رہی تھی اور یہ زمین، یہ آسمان، یہ پورا منظر جیسے اس کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ گویا وقت اس کے ہم رکاب تھا۔ لمحہ لمحہ اس کا اسیر تھا۔ مرشد بھی اس سحر خیز بہاﺅ میں مست و شادماں آگے بڑھتا رہا۔

”اگر آگے ہمیں پھر پولیس والے مل گئے تو کیا کریں گے؟“ حجاب کی آواز پر چونک کر اس کا دھیان محسوسات کے بھنور سے ابھرا تو اس نے ایک نظر حجاب کی طرف دیکھا۔ اس کا گورا چہرہ کالی چادرکے حصار میں چمک رہا تھا۔ شاید وہ مسلسل خاموشی سے بے چین ہو کر بولی تھی۔

”موقع کی مناسبت سے جو بہتر ہوگا وہی کریں گے۔“

”کوئی ایسا راستہ نہیں ہوسکتا کہ جس پر سفر کرتے ہوئے پولیس سے یا اور کسی دشمن سے ہمارا سامنا نہ ہو؟“

”اس بار ے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا، بہرحال ہمیں ذہنی طور پر ہر طرح کی صورت حال کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔مصیبت تو کبھی بھی اور کہیں بھی پاﺅں پکڑ سکتی ہے۔“

”ان کا ایک سپاہی مارا گیا ہے، اس کا گھر ہوگا، کنبہ ہوگا ۔کیا گزرے گی ان سب پر ؟شاید اس کے بیوی بچے بھی ہوں۔“ حجاب کے لہجے میں گہرا تاسف تھا ۔وہ اس سپاہی کے ورثا کے دکھ کا بخوبی اندازہ کرسکتی تھی۔

”وہ اپنے ہی افسر کی گولی کا نشانہ بنا تھا۔ آپ اس کا مت سوچیں ۔اپنی آگے کی زندگی کے متعلق سوچیں ۔ایک نئی جگہ ،نئے سرے سے، ایک نئی زندگی نئی مگر خوب صورت اور خوش حال زندگی۔ ان کی آہٹ پا کر ایک جھاڑی پر سے چند چڑیاں شور مچاتی ہوئی اڑیں اور فضا میں کہیں ڈوب

گئیں۔چند قدم کی خاموشی کے بعد ایک خیال آنے پر حجاب دوبارہ متفسر ہوئی۔

”وہاں… اڈے کے قریب اترنے کے بعد آپ لوگ آپس میں کیا بات کر رہے تھے؟ ڈسکہ… ڈپٹی صاحب اور رانا کے منصوبے وغیرہ کے بارے میں؟“

”ڈسکہ میں بھی ہمارا پولیس والوں سے جھگڑا ہوا تھا۔ آپ کی تلاش میں تھے ۔ڈپٹی کی دیانتداری پر مجھے شبہ ہے۔ وہ اور رانا سرفراز ایک ہی ہیں۔ جہاں تک میرے علم میں آیا ہے ڈپٹی، چوہدری لوگوں کے ساتھ آپ کا سودا کرنے کی کوششوں میں مصروف تھا۔“

حجاب چونک پڑی ۔اس کا دھیان فوراً اپنے شہبات کی طرف چلا گیا۔ ڈپٹی کی پناہ میں ہوتے ہوئے اب آخری دنوں میں اس کے ذہن میں بار بار یہ خیال آنے لگا تھا کہ شاید ڈپٹی اعوان اسے اس کے پھوپھا سے ملانا ہی نہیں چاہتا اور اب مرشد نے جیسے اس بابت انکشاف کر ڈالا تھا۔ وہ خود کلامی والے انداز میں بولی۔

”کسی کسی وقت مجھے بھی ڈپٹی صاحب کے ارادوں پر شبہ ہوتا تھا مگر میرے ساتھ ان کا رویہ تو اچھا ہی تھا ٹھیک تھا۔“

”وہ ایک شاطر آدمی ہے۔ باقی سب کے ساتھ ساتھ اس نے اپنے محکمے والوں کو بھی گھن چکر بنا رکھا ہے۔“

حجاب اس خیال پر ہی جھرجھری لے کر رہ گئی کہ اگر ڈپٹی اعوان سچ میں سودا کرنے کے بعد اسے چوہدری فرزند کے حوالے کردیتا تو کیا ہوتا؟ خدا نے اسے کس طرح بچا لیا تھا، نا صرف بچا لیا تھا بلکہ حالات و واقعات کے تھپیڑوں سے تحفظ کی غرض سے وہی مضبوط ڈھال بھی اسے لوٹا دی تھی۔ جس کا نام مرشد تھا۔

سورج کی پہلی کرن کے ساتھ انہیں ایک بستی کے آثار دکھائی دیے۔ انہی جنگلی کیکروں اور جھاڑیوں کے بیچ یہ ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ بغیر صحنوں کے کچے کوٹھے اور جھونپڑے جو بے ترتیبی سے یونہی اِدھر ا�±دھر بکھرے ہوئے تھے ۔اسی بے ترتیبی کے باعث اس بستی میں کسی گلی کا بھی کوئی وجود نہیں تھا۔ ایک کیکر کے نیچے تین گدھے کھڑے تھے۔ تھوڑے فاصلے پر خالی ریڑھے، مرغیاں، دو تین لوس طبیعت کتے ،کچھ میلے کچیلے بچے اور کالے کالے مرد و زن، کچھ جاگے کچھ سوئے سوئے پوری بستی ایک کسلمندی کی لپیٹ میں تھی ابھی۔ یہ سارا نظارا انہیں فاصلے ہی سے دکھائی دے گیا تھا۔

”یہ شاید کوئی اوڈوں کی بستی ہے۔“ ان کے قریب پہنچتے ہی خنجر نے خیال ظاہر کیا۔

”ان سے سیدھا رستہ مل جائے گا ہمیں… یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ ہم ہیں کس جگہ پر۔“

”مجھے پیاس لگی ہے۔“ حجاب مرشد سے مخاطب ہوئی۔

”آئیں… پانی بھی پیتے ہیں۔“ مرشد آگے بڑھ گیا ۔تین اجنبی افراد کو آتے دیکھ کر سب سے پہلے ایک کان کٹے کتے نے اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔ اپنی جگہ سے ہلنے جلنے کا اس نے ذرا بھر بھی تکلف نہیں کیا تھا بس منہ اوپر کو اٹھایا اور بھوﺅں بھوﺅں شروع کردی، ایک روتے ہوئے بچے کی آواز فوراً بند ہوگئی۔ ایک جھلنگا سی چارپائی پر بیٹھی ہوئی عورت جو اپنے جھاڑ جھنکار بالوں کو کھجاتے ہوئے کسی نامعلوم ذات کو گالیاں دینے میں مگن تھی ان کی طرف متوجہ ہوگئی ۔چند ایک اور نظریں بھی ان کی طرف اٹھی تھیں۔

بستی کے شروع میں ہی ایک لنڈا بچا سا کچا کمرہ تھا ،جس کے سامنے ایک خالی چارپائی بچھی تھی۔ اس پر سونے والا فرد شاید لمحہ بھر پہلے ہی اٹھ کر اِدھر ا�±دھر ہوا تھا۔ کمرے کی بغلی دیوار کی اوٹ میں بھی ایک چارپائی تھی جس پر ایک مریل سا بوڑھا بیٹھا تھا۔ مرشد اسی کی طرف بڑھ گیا۔

بوڑھے کے جسم پر صدیوں پرانے کپڑے کی ایک دھوتی تھی، جسے دھلے ہوئے بھی شاید زمانے گزر چکے تھے ۔وہ چارپائی پر اکڑوں بیٹھا ایک عجیبکام میں مصروف تھا!

٭ ٭ ٭                                                                            

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے