آپ بیوی کو زدوکوب کر سکتے ہیں

وہ کیسے روشن اور شاندار دن تھے جب خاص طور پر دیہات میں خاوند گھر لوٹتا تھا تو سب سے پہلے خواہ مخواہ بیوی کو زدوکوب کرتا تھا اور پھر پوچھتا تھا کہ بھلی لوک آج رات کے کھانے کے لیے کیا پکایا ہے ؟

مستنصر حسین تارڑ


کل مجھے زندگی کی ایک بہت بڑی خوشی ملی۔ ایک عرصے کے بعد میں بے پایاں مسرت سے سرشار ہوا۔ مجھے گمان تک نہ تھا کہ میری بے کیف زندگی میں اتنی بڑی خوشی بھی آئے گی۔ میں سر اٹھا کر چل سکوں گا۔ معزز ہو جاؤں گا۔  

میری اس خوشی کا سرچشمہ وہ مسرت انگیز خبر تھی کہ دنیا کی ایک عدالت کے قابل تعظیم حجج صاحب نے فیصلہ دیا ہے کہ خاوند کو قانونی طور پر یہ حق حاصل ہے کہ اگر بیوی اس کا کہا نہ مانے تو وہ اسے بے دریغ زد و کوب کر سکتا ہے۔ اگرچہ یہ فیصلہ بیس  برس پہلے آ جانا چاہیے تھا۔  جن دنوں ہماری نئی نئی شادی ہوئی تھی لیکن دیر آید درست آید۔

میں نے اتنے برس بیگم کے سامنے سرنگوں ہو کر گزارے تھے۔ اس کی ڈانٹ ڈپٹ سنی تھی اور میرے گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن ایسا آئے گا جب مجھے قانونی طور پر اپنی بیگم کو پھینٹی لگانے کا حق مل جائے گا۔

ان دنوں عورتوں کے حقوق کا بڑا چرچا ہے کہ ان پر بہت ظلم ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف اعداد و شمار پیش کئے جاتے ہیں اور بڑھا چڑھا کر پیش کئے جاتے ہیں تا کہ اعداد و شمار اکٹھے کرنے والی این جی اوز اُن کے سہارے غیر ملکی امداد حاصل کر سکیں ۔ میرا ہمیشہ سے یہ سٹینڈ رہا ہے کہ مردوں پر ہونے والے مظالم کے اعداد و شمار بھی اکٹھے کئے جائیں تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ لیکن میری کوئی سنتا ہی نہیں۔

میں نے ایک بار انجمنِ مظلوم خاوندان کا ڈول ڈالا تھا۔ اور جس خاوند سے بھی ممبر شپ کے لیے رابطہ کیا تھا۔ اس نے یہی کہا  کہ میں اپنی بیوی سے پوچھ کر بتاؤں گا اور ان میں سے کسی نے بھی دوبارہ کبھی مجھ سے رابطہ نہیں کیا۔ پتا نہیں ان پر کیا گزری؟

 وہ کیسے روشن اور شاندار دن تھے جب خاص طور پر دیہات میں خاوند گھر لوٹتا تھا تو سب سے پہلے خواہ مخواہ بیوی کو زدوکوب کرتا تھا اور پھر پوچھتا تھا کہ بھلی لوک آج رات کے کھانے کے لیے کیا پکایا ہے۔؟ اور میں گواہ ہوں کہ ایسی شادیاں کم از کم آج کی نسبت زیادہ کامیاب اور کامران ہوتی تھیں۔

بلکہ جس روز خاوند محبت کے اس اظہار کو بھول جاتا تھا۔ یا کام کاج سے اتنا تھکا ہوا گھر لوٹتا تھا کہ اس میں بیگم کوز دوکوب کرنے کی ہمت نہ ہوتی تھی تو بیوی کا بدن ٹوٹنے لگتا تھا کہ ہاہائے آج میرے سرتاج بوٹے خان کو پتا نہیں کیا ہوا ہے۔ کہیں مجھ سے ناراض تو نہیں۔ بلکہ ایک پرانے لوک گیت میں تو اس خواہش کا اظہار ملتا ہے کہ کب وہ میرا محبوب،  میرا  گھر والا آئے گا اور مجھے پیار سے پھینٹی لگائے گا۔

لیکن یہ سنہری دن تمام ہوئے اور خاوندوں کے حقوق چھن گئے ، تعلیم زیادہ ہوگئی۔  خواتین کی انجمنیں بن گئیں۔ پھینٹی کے بجائے لاڈ پیار کے دوسرے فضول طریقے رائج ہونے لگے کہ بیگم تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تو میں برتن صاف کر دیتا ہوں۔  گھر میں جھاڑو دے دیتا ہوں پھر تمہیں آؤٹنگ پر لے جاؤں گا اور برگر کھلاؤں گا۔  

اس قسم کے ناروا سلوک سے بیویاں بالکل چوڑ ہو گئیں اور اب یہ حالت ہے کہ مدتوں بعد کوئی ایسی خوشگوار خبر آتی ہے کہ خاوند نے بیوی کی پٹائی کی اور اس میں کہیں یہ درج نہیں ہوتا کہ اس سے پہلے بیوی نے خاوند کو زد و کوب کیا تھا جس کے نتیجے میں خاوند غریب نے صرف اپنے دفاع کی خاطر اسے صرف ایک جھانپڑ رسید کردیا۔ اب اسے نہیں تو بے انصافی کسے کہتے ہیں؟

اس سلسلے میں، میں ایک درخشاں مثال پیش کروں گا اور میں آپ سے قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ مثال سو فیصد سچ پر مبنی ہے۔ محض کالم کو چٹپٹا بنانے کے لیے خود سے نہیں گھڑی۔  

پچھلے دنوں لاہور سے باہر جانے کا اتفاق ہوا تو ایک میاں بیوی مجھ سے ملنے آئے کہ وہ میرے پڑھنے والوں میں سے تھے اور میں ان کی خوشگوار ازدواجی زندگی سے بے حد متاثر ہوا۔ بیگم جس پیار اور اُلفت سے اپنے خاوند کو دیکھتی تھیں۔ اس سے انسان حسد میں مبتلا ہو جاتا تھا اور ادھر خاوند بھی جیسے بیگم کی بلائیں لیتا تھا۔ اس کی تفصیل بیان نہیں کی جاسکتی۔

کھانے کے دوران وہ اپنے ہاتھوں سے ایک دوسرے کو کھلاتے رہے۔ جب وہ رُخصت ہو گئے تو میرے میزبان نے میری حیرت کو بھانپتے ہوئے کہا۔ "تارڑ صاحب میرے تمام جاننے والوں کی نسبت اس جوڑے کی زندگی مثالی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ کیوں۔ ؟” ظاہر ہے میں نے پوچھا کہ "فرمائیں کیوں؟ "تو وہ کہنے لگے۔ ”ہماری بھابی ہر ہفتے ہمارے دوست کی باقاعدگی سے ٹھکائی کرتی ہیں۔“

” نہیں” میں نے ہلتے ہوئے بے یقینی سے کہا۔

 "میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ ایسا ہوتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات کہیں نہ کہیں پٹی باندھے آتے ہیں اور بڑے فخر سے اعلان کرتے ہیں کہ دراصل آج بیگم کا دن تھا۔ اور یقین کیجئے تارڑ صاحب کہ نہایت خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ بلکہ میرے یہ دوست اس بات پر نازاں رہتے ہیں کہ بیگم نے کبھی بھی بچوں کے سامنے ٹھکائی نہیں کی۔  ہمیشہ انہیں کہتی ہیں کہ بچو تم ذرا باہر جا کر کھیلو میں نے تمہارے ابو سے کوئی پرائیویٹ بات کرنی ہے۔  اتنا خیال رکھتی ہیں۔”

ویسے میں نے تو اللہ کا شکر ادا کیا کہ میری بیگم چاہے کتنی بھی ظالم رہی ہوں انہوں نے کبھی بھی مجھے زدو کوب نہیں کیا۔ ہم اللہ تعالیٰ کی کن کن نعمتوں کا شکر ادا کریں۔ کہا تو یہ جاتا ہے کہ ہر بڑے شخص کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ لیکن کہا یہ جانا چاہیے کہ ہر بڑے شخص کے پیچھے ایک عورت کا جھانپڑ ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ کم از کم ادب میں وہی لوگ کامیاب اور کامران ٹھہرے ہیں جن کی گھریلو زندگی نہایت تلخ تھی۔  

بیوی جھگڑالو تھی اور ہمہ وقت ڈانٹ ڈپٹ کرتی رہتی تھی۔ بلکہ اکثر اوقات نادر مسودے بھی چولہے میں ڈال دیتی تھی۔  اس کی واضح مثال ہماری چچی جان ہیں۔ چچا غالب کی بیگم،  جن کے جور و ستم کا تذکرہ وہ اکثر اپنے خطوط میں کرتے ہیں۔  لیوٹالسٹائی کی بیگم اتنی خوفناک تھیں کہ انہیں گھر سے نکال دیا اور بے چارے کاؤنٹ ٹالسٹائی کسی ریلوے سٹیشن کی بنچ پر بیٹھے بیٹھے اللہ کو پیارے ہو گئے۔

 میرا ادبی تجربہ بھی کچھ اسی قسم کا ہے اور اس نظریے کی روشنی میں جب اکثر بڑے شاعروں اور ادیبوں کی بیگمات کا جائزہ لیتا ہوں تو ان میں جور و ستم کو بدرجہ اتم پاتا ہوں۔ میں بوجوہ ان کے نام نہیں لے سکتا۔ کبھی خود نوشت لکھنے کا اتفاق ہوا تو تفصیل سے بیان کروں گا۔ ایک بڑے شاعر جب کبھی اپنے گھر مدعو کرتے ہیں تو بیگم کے سامنے ان کی گھگھی بندھی ہوتی ہے۔ ایک اور بڑے نثر نگار کو میں نے بیوی کی موجودگی میں کبھی بھی بولتے نہیں دیکھا۔ سر جھکا کر بیٹھے رہتے ہیں۔

ادیبوں اور شاعروں کو جو دیر تک گھر سے باہر رہنے کی عادت ہوتی ہے تو اس کا باعث یہی نیک بیویاں ہوتی ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ اگر گھریلو زندگی بے حد خوشگوار ہو … بیوی آپ پر نچھاور ہوتی رہے تو کون کمبخت ایسے التفات چھوڑ کر اپنی سٹڈی میں قید ہوکر بیٹھا رہے؟  نا آسودگی نہ ہو تو شعر نازل ہوہی نہیں سکتا۔ گھر سے جھاڑ نہ پڑی ہو تو افسانہ ذہن میں آہی نہیں سکتا۔ چنانچہ کسی حد تک ادیبوں اور شاعروں کو اپنی اس قسم کی بیویوں کا شکر گزار ہونا چاہیے…

ہماری ٹریجڈی یہ ہے کہ بیگم کے ظلم و ستم کے باوجود ہم غالب اور ٹالسٹائی نہیں بن سکے۔ چنانچہ ان روح فرسا حالات میں جب میں نے یہ خبر پڑھی کہ دنیا کی ایک عدالت نے خاوندوں کو قانونی طور پر اختیار دے دیا ہے کہ وہ حسب منشا اپنی بیویوں کو زد و کوب کر سکتے ہیں تو خوشی سے دل باغ باغ ہو گیا۔ اور میں نے اپنی بیگم کو بلایا۔ یہ قانونی حق استعمال کرنے کے لیے نہیں بلکہ یونہی اس کی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے تاکہ وہ جان جائے کہ میں قانونی طور پر اب کیا کر سکتا ہوں اور نہیں کرتا تو یہ میری مہربانی ہے۔

 بیگم نے یہ خبر سن کر کچھ کہا نہیں صرف بڑے بیٹے کو آواز دی کہ "بیٹا ذرا آؤ اور دیکھو کہ تمہارے ابو کیا کہہ رہے ہیں۔”  وہ آیا تو کہنے لگی۔” اب سناؤ یہ خبر۔” آپ جانتے ہیں کہ اولا د جوان ہو جائے تو والدہ ہیروئن ہو جاتی ہے اور والد ولن … میرا دماغ خراب تھا جو میں بیٹے کو یہ خبر سناتا اور پھر وہ دونوں مل کر مجھے پھینٹی لگا دیتے۔ اس لیے میں نے کھسیانی ہنسی ہنتے ہوئے بیٹے کو پیار کیا اور کہا، ” بیٹے! تم جاؤ اپنا کام کرو۔ امی تو یونہی مذاق کر رہی تھیں۔” یوں بھی دبئی کی عدالتوں کے فیصلے شاید پاکستان میں لاگو نہیں ہوتے۔ کاش!

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے