بہروپ (مکمل ناول)

ایک ایسے کمینہ خصلت انسان کی کہانی جو محلے بھر کی عزتوں کے لیے ایک مستقل خطرہ تھا۔_________________________________ مُچھل کے والدین کا خیال آ جانے پر اماں ہمیشہ حیرت سے یہ بات سوچا  کرتی تھیں کہ ٹھیک ہے، ماحول اور دوست اچھے نہیں ملے۔ لیکن دودھ اور خون کی بھی تو اپنی ایک تاثیر ہوتی ہے۔ وہ مچھل میں کبھی کہیں محسوس کیوں نہیں ہوئی۔…… اخلاق ، تہذیب یا شرافت نام کی کوئی چیز تو جیسے اسے چھو کر بھی نہیں گزری تھی۔

بہروپ (مکمل ناول)

تحریر: ساحر جمیل سید


"…. ککڑوں، کڑوووں”

"علی…… حیدر……” حسبِ روایت بانگِ مرغ کے ساتھ ہی ”مچھل“ نے اپنی پاٹ دار آواز میں فلک شگاف نعرہ بلند کیا اور اماں کے ہاتھ سے چاولوں کی پلیٹ چھوٹ کر ان کے سامنے دری پر آ رہی۔

"ہائے ہائے!  خدا انہیں غارت کرے۔ جینا حرام کر کے رکھا ہوا ہے ان دونوں نے تو۔“  اماں نے بھنائے ہوۓ انداز میں کہا تو ہما اور اسد دانت نکال کر ہنسنے لگے۔

"اماں! اب تک تو آپ کو بھی اس سب کا عادی ہوجانا چاہیے تھا۔“ حنا نے پہلے تو ہما اور اسد کو گھورا۔ پھر اماں کی طرف متوجہ ہوئی جو دری پر گر پڑنے والی پلیٹ اٹھا رہی تھیں۔ "بس اب اسے پڑا رہنے دیں۔ کھانا کھانے کے بعد اٹھالیں گے۔ ٹھہریں….. میں آپ کے لیے اور لے آتی ہوں۔”

حنا نے جلدی سے کہا اور ہاتھ میں پکڑی پلیٹ نیچے رکھتے ہوۓ اٹھ کر کچن کی طرف بڑھ گئی۔

"کیسے عادی ہو جاؤں بیٹا! ان دونوں کے حلق میں تو جانے کون سی ڈانگ پھری ہوئی ہے ۔ کیسی ٹرین کے انجن جیسی آوازیں ہیں۔“ اماں نے جیسے خود کلامی کی۔

"اماں! مجھے تو یوں لگتا ہے کہ مچھل کے ساتھ رہ رہ کر اس کا رستم (مچھل نے اپنے مرغے کا نام رستم رکھا ہوا تھا ) بھی پاگل ہو چکا ہے۔ جو وقت بے وقت اذانیں دیتا رہتا ہے۔” ہما نے مسکراتے ہوۓ کہا تو اماں نے دبے دبےسے لہجے میں فوراً اسے جھڑکا۔

"بس بس, چپ کر کے کھانا کھاؤ تم۔”

 وہ سب اس وقت برآمدے میں بیٹھے دوپہر کا کھانا  کھا رہے تھے۔ ان کے اور رانا مچھل کے گھر کی مشترکہ دیوار چار قدم ہی دور تھی اور مچھل کے نعرے نے بتا دیا تھا کہ وہ اس طرف دیوار کے ساتھ ہی چار پائی ڈالے بیٹھا ہے۔ اسی لیے اماں نے فورا ہی ہما کو جھڑک کر چپ کرا دیا تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کی آوازیں مچھل جیسے کمینے بندے کے کانوں تک پہنچیں اور محلے میں ان کی رسوائی کا باعث بنیں۔

"ککڑوں کڑوووں……”

"علی ……حیدر!” بانگ مرغ کے ساتھ ہی مچھل نے ایک بار پھر نعرہ بلند کیا تھا۔ لیکن اس بار اماں بس زیرِ لب کچھ بڑ بڑا کر رہ گئیں۔

 دن ہو یا رات ، شام ہو یا سحر، مرغ کی ہر بانگ کے جواب میں "علی حیدر“  کا نعرہ بلند کرتے رہنے کی تو جیسے اس نے قسم اٹھا رکھی تھی۔ ادھر مرغ بولا نہیں کہ چار کوس تک اس کے نعرے کی چنگھاڑ جا گونجتی۔ چند ماہ پہلے جب وہ مرغا لا یا تھا۔ اس وقت شروع شروع میں تو اس کی چنگھاڑ سے خود مرغا بھی بانگ دیتے دیتے گڑبڑا کر چپ ہو جاتا تھا لیکن پھر چند ہی روز میں جیسے وہ عادی ہو گیا۔

بس ایک اماں تھیں جو تا حال عادی نہیں ہو سکی تھیں۔ وہ اس کی یہ چنگھاڑ سن کر سوتے میں سے بھی بڑبڑا کر اٹھ بیٹھتی تھیں۔

"یہ لیں اماں! سنبھالیں۔”حنا نے پلیٹ لاکر اماں کو تھمائی اور واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔ کھانا سب نے خاموشی سے کھایا۔ اس کے بعد اسد تو باہر نکل گیا۔ ہما برتن سمیٹ کر کچن میں لے گئی۔ حنا اسکول سے بچوں کی کچھ کاپیاں  لے کر آئی ہوئی تھی۔ وہ کاپیاں چیک کرنے بیٹھ گئی اور اماں اپنی سلائی مشین کے سامنے جابیٹھیں۔

اچانک باہر مچھل کے دروازے پر پہلے تو کسی نے دستک دی پھر کسی کی آواز بلند ہوئی۔

 اوئے رانے”…..”     

"کون ہے بے؟” مچھل نے پکار کر پوچھا تھا۔ اماں اپنے کام میں مصروف ہوگئیں۔

"اوئے میں ہوں، جگنو ۔ گھر پہ ہی ہے تو۔“

"نہیں! تیری ماں کی برات میں گیا ہوا ہوں۔ "

اس نے ایک واہیات گالی بکی۔” جب میں نے پوچھا ہے کہ کون ہے ؟ تو پھر تیرے اس سوال کا کیا مطلب ہوا بھلا؟”

 آنے والا غالبا اندر آ گیا تھا۔ جواباَ وہ بھی گالی دیتےہوۓ بولا۔

"تو بڑا …… ( نا قابل اشاعت)….. بندہ ہے۔ خود نواب بنا رہتا ہے اور دوسرے چاہے جتنا خوار ہوتے پھریں تجھے پروا نہیں۔ اوپر سے جب منہ کھولتا ہے گند ہی بکتا ہے۔ دوسرے کو عزت سے بلانے کی تو ذرا تمیز نہیں ہے تجھے۔”

"اوئے ! بس کر ( نا قابل اشاعت) بڑا آیا تو عزت تمیز والا! بیر کی….. کا تجھے پتا نہیں ہے اور مجھے سمجھاوے گا تو۔”

"مر گئے تجھے سمجھانے والے۔”  شاید اس کا اشارہ مچھل کے والدین کی طرف تھا۔ "یہ لے سنبھال”۔ اس نے جیسے کوئی چیز مچھل کی طرف بڑھائی تھی۔

"ہاں! یہ ہوئی نا بات….. "مچھل کی آواز میں یکدم ہی مسرت اور شیرینی آ گھلی۔ "یہ کام کیا ہے نا تو نے عزت کروانے والا۔ چل میری جان! اب اندر سے جگ گلاس بھی اٹھالا۔” وہ دونوں آپس میں بک بک کر رہے تھے اور ان کی اس بے ہودہ اور شرمناک گفتگو پر، اماں مشین چلاتے ہوۓ دل ہی دل میں تو بہ تو بہ کر رہی تھیں اور انہیں لعنت ملامت بھی۔ ساتھ ہی وہ کبھی کبھی ترچھی نظر سے ایک ذرا حنا کی طرف بھی دیکھ لیتیں جو ایک طرف لاتعلق اور انجان سی بیٹھی پوری توجہ سے کاپیاں چیک کرنے میں مصروف تھی۔

ہمیشہ کی طرح اسے تو جیسے کچھ سنائی ہی نہیں دے رہا تھا۔ لیکن اماں جانتی تھیں کہ حقیقت میں ایسا ہے نہیں….. صبح سے شام تک اور شام سے رات گئے تک مچھل کے گھر میں یہی کچھ تو جاری رہتا تھا۔ دو لفنگے آ رہے ہیں تو دو جا رہے ہیں۔ کبھی چرس کی محفل جمی ہے تو کبھی شراب پی کر ہلڑ بازی ہو رہی ہے۔ تاش اور مرغوں کی لڑائیوں پر جوا بھی کھیلا جاتا تھا۔ کبھی کبھار وہ لوگ آپس میں جھگڑ پڑتے لیکن

پھر سبھی کمینے اکھٹے ہو بیٹھتے تھے۔

ان کی گفتگو بھی ہمیشہ ایسی ہی غلیظ اور شرمناک ہوا کرتی۔ ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہوۓ گالیوں کا انتخاب وہ ہمیشہ یوں کرتے تھے جیسے سامنے والے کو کسی معتبر یا محترم لقب سے نواز رہے ہوں۔ ظاہر ہے کہ جیسا مزاج مچھل کا اپنا تھا ویسے ہی اس کے پاس آنے جانے والے اس کے یار تھے۔ آوارہ اور بدمعاش !

کافی عرصہ پہلے جب مچھل کے والدین یکے بعد دیگرے اللہ کو پیارے ہو گئے اور وہ رانا منصور نواز سے مچھل بننے کے لیے پر پرزے نکالنے لگا تو اردگرد کے ایک دو افراد نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اپنے باپ دادا کی عزت و وقار کا کچھ خیال کرو۔ تمہاری حرکتوں سے وہ لوگ اب مرنے کے بعد رسوا ہوں تو یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔

بات کرنے والے کا مقصد تو یقینا اچھا ہی رہا ہوگا۔ لیکن اس بے چارے کے اپنے ساتھ اچھا نہیں ہوا۔ مچھل نے اسے بری طرح دھنک کر رکھ دیا تھا۔ پھر آئندہ دنوں میں تو جیسے اس نے ضد پکڑ لی۔ وہ روز اپنی بیٹھک کے باہر تھڑے پر بیٹھ کر کھلم کھلا شراب پینے لگا۔ آئے روز گلی میں شور شرابا ، ہنگامہ، گالم گلوچ … ایک دو بار تو اسے پولیس والے بھی اٹھا کر لے گئے۔ لیکن چند دن بعد ہی وہ عذاب کی صورت پھر واپس آن موجود ہوتا اور اس کا مزاج بھی پہلے کی نسبت کچھ مزید بے باک اور نڈر محسوس ہوا کرتا۔

شہر کے آوارہ اور لفنگے لوگ اس کے پاس گھر آنے جانے لگے۔ چند ایک بار پھر محلے میں اس کا جھگڑا ہوا اور اس نے دو بار اپنے مختلف حریفوں کو چھریوں سے شدید زخمی کیا۔ چند ایک ماہ جیل بھی کاٹی۔ مونچھیں یوں بڑھالیں گویا کوئی ہتھیار ہو کہ آئندہ جھگڑا ہوا تو اپنے حریفوں کو انہی مونچھوں سے پھانسی دے ڈالے گا۔

لڑائی جھگڑے، پولیس تھانہ ، جیل سب ہو گزرا اورمنصور نواز الٹا مچھل ہوگیا تو محلے والوں کو بھی اس بات کی سمجھ آ گئی کہ اس بندے کے ہمیشہ یہی لچھن رہیں گے۔ اس سے کسی اچھائی کی توقع کرنا حماقت ہی ہوگی۔ یوں مچھل محلے بھر کی ناپسندیدہ شخصیت بن گیا۔ اردگرد والوں نے اسے نظر انداز کرنا اور اس سے کترانا شروع کر دیا۔

 اب مچھل محلے میں ایک بدمعاش کی حیثیت اور شناخت رکھتا تھا۔

اس کے علاوہ محلے میں سبھی عام لوگ تھے۔ مچھل کا تو آگے پیچھے کوئی تھا نہیں۔ چھڑا چھانٹ ….. نہ کوئی ذمہ داری نہ مجبوری کمزوری۔ جبکہ اردگرد والے ایسے تمام سماجی معاملات کے ساتھ جڑے ہوئے تھے پھر بھلا کون مچھل جیسے ڈھیٹ اور ٹیڑ ھے آدمی پرمعترض ہو کر اپنے اور اپنے پورے گھرانے کے لیے کسی قسم کی پریشانی کا باعث بننا پسند کرتا؟

سب کچھ دیکھتے سنتے ہوۓ بھی ان سنی کر کے انجان بنے رہنا اردگرد کے لوگوں کی مجبوری تھی اور ان سبھی کی نظر میں اس سارے مسئلے کا واحد بہترین حل بھی یہی تھا۔ لیکن اماں کی پریشانی صرف اتنی سی نہیں تھی۔

مچھل کے اس ہر وقت کے کنجر خانے کو نظر انداز تو وہ بھی کرتی آ رہی تھیں لیکن یہی تمام بے ہودہ اور شرمناک باتیں حنا اور ہما کے کانوں میں بھی اتر رہی تھیں۔ اس تلخ اور اذیت ناک پہلو کو وہ نظر انداز نہیں کرسکتی تھیں۔ اسی باعث ان سنی کر نے کے باوجود مچھل کے گھر سے بلند ہونے والی  ہر آواز اماں کی سماعتوں سے کسی کوڑے کی طرح آ کر ٹکراتی اور ان کی روح تک کانپ اٹھتی۔

ان کے بس میں اور تو کچھ تھا نہیں۔ حنا اور ہما کو وہ ہر وقت روکتی ٹوکتی اور سمجھاتی رہتیں کہ ”ادھر نہیں بیٹھو، اونچا ہنسو نہیں، دھیمی آواز میں بات کیا کرو، صحن میں فضول جانے سے گریز کرو، برآمدے میں بیٹھو، اندر کمرے میں جاؤ۔” وغیرہ وغیرہ۔

 حنا تو سمجھدار ہو گئی تھی۔ گریجویشن کر نے کے بعد ایک قریبی اسکول میں ٹیچنگ کر رہی تھی۔ البتہ ہما کبھی کبھی ان کی اس روک ٹوک پر چڑ جاتی تھی۔ وہ ابھی ایف اے کر رہی تھی۔ عمر ایسی ہی تھی کہ طبیعت میں شوخی اور شرارت کا خاصا عمل دخل تھا۔ اسد آٹھویں جماعت میں پڑھ رہا تھا۔ وہ لڑکا تھا سو اس کی اماں کو اتنی فکر بھی نہیں تھی۔ ہاں حنا اور ہما کا سوچ سوچ کر وہ اندر ہی اندر کڑھتی رہتیں اور مچھل کی ہمسائیگی کا خیال انہیں ہولاۓ رکھتا۔

حنا کو دیکھتیں تو ان کا دل جیسے مٹھی میں آ جاتا۔

اس کی شادی کی عمر ہو چکی تھی مگر فی الحال اسے رخصت کرنا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ وہ دکھ اور حسرت سے سوچا کرتیں کہ اگر آج ان کا باپ زندہ ہوتا تو یقینا حنا اب تک اپنے گھر کی ہو چکی ہوتی اور ہما کے لیے بھی انہیں اس قدر فکر مندی اور پریشانی کا سامنا کبھی نہ کرنا پڑتا۔ لیکن ….. وہ بھلا آدمی تو کئی سال پہلے ہی انہیں تنہا چھوڑ کر اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گیا تھا۔

ابھی یہ مقامِ شکر تھا کہ گھر بار اپنا تھا۔ پیچ بازار میں دو دکانیں بھی تھیں جن کا کرایہ آجایا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ اماں سلائی کڑھائی کا کام بھی جانتی تھیں۔ سو دوسروں کی محتاجی کی نوبت نہیں آئی تھی۔ خود وہ ان پڑھ تھیں لیکن حنا ہما اور اسد کی تعلیم کو تو جیسے انہوں نے زندگی کا واحد مقصد بنا کر یہ ماہ و سال گزارے تھے۔

شوہر کی موت کے بعد بڑی ہمت اور حوصلے سے تینوں بچوں کو پروان چڑھایا تھا لیکن اب …… اب انہیں محسوس ہونے لگا تھا کہ ان کی ہمت اور حوصلہ کم  پڑتا جارہا ہے۔ مچھل کا خیال ایک خوف بن کر اندر ہی اندر انہیں ہلکان کیے رکھتا تھا۔ اس کا خیال، اس کی موجودگی اماں کے لیے ایک مستقل اذیت اور ہولناک پریشانی کا باعث بن چکی تھی۔

حنا، ہما کے قد بت کو دیکھ دیکھ کر وہ خدا کے حضور عزت پردے کی زندگی کے ساتھ ساتھ عزت و آبرو کی موت کے لیے دعائیں کرتے نہ تھکتی تھیں۔ پھر بھی اندر اطمینان سے خالی رہتا۔ طرح طرح کے اندیشے، واہمے ان کی جان کھاتے رہتے اور ہر وقت دل کو عجیب سا دھڑکا لگا رہتا۔ راتوں کو معمولی معمولی آہٹ پر بھی وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا کرتیں اور خوف و گھبراہٹ سے باہر صحن میں …… اپنی اور مچھل کی مشترکہ دیوار کی سمت گھورتی رہتیں۔

ایسے میں اکثر وہ یہ دعا کیا کرتی تھیں ۔ ”خدا کرے کہ اس مچھل کو کسی کی آئی آجاۓ ۔ اتنے بہت سے لوگوں کے ساتھ مخالفت ہے۔ کاش کوئی شیر جوان آ کر اسے سوتے ہی میں ٹھنڈا کر جائے۔ ہمیشہ کی نیند سلا جاۓ۔”

انہیں یقین تھا کہ مچھل جیسے غلیظ اور کمینہ خصلت بندے کے نہ رہنے سے محلے کی عزتیں ایک مستقل خطرے سے محفوظ ہو جائیں گی۔

📖

اتوار کا دن تھا

سبھی اطمینان اور تسلی سے نیند پوری کر کے اٹھے تھے۔ پھر اماں صحن میں جھاڑو لگانے میں مصروف ہوگئیں۔ حنا ناشتا بنانے کی غرض سے کچن میں جاگھسی اور اسد دہی لینے باہر چلا گیا۔

"آپی! آپ سے ایک بات پوچھوں؟ اگر سچ سچ بتائیں تو۔” ہما نے کچن میں داخل ہوتے ہوئے حنا کو مخاطب کیا۔  وہ باتھ روم سے سیدھی کچن میں آگئی تھی۔ ہاتھ منہ بھی  خشک نہیں کیے تھے اس نے۔

"کون سی بات؟” حنا آٹا گوندھنے میں مصروف تھی۔

"آپ نے کبھی کسی کے لیے اپنے دل میں محبت محسوس کی ہے….. میرا مطلب ہے وہ محبت جو لڑکے لڑکی کے درمیان ہوتی ہے!”حنا نے ٹھٹک کر اس کی طرف دیکھا۔

 "تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا! یہ صبح صبح کیا بکواس کر رہی ہو؟”

"اس میں بکواس کی بھلا کیا بات ہے!” ہما متعجب ہوئی ۔”میں نے ایک سوال کیا ہے۔ آپ جواب دیں مجھے۔” 

"ایسے فضول سوالوں کے جواب نہیں ہوا کرتے۔” حنا دوبارہ آٹا گوندھنے میں لگ گئی۔

 "جب سوال ہوتا ہے تو پھر اس کا جواب بھی ہوتا ہے۔” وہ لپک کر حنا کے قریب آ بیٹھی۔ "بتاؤ نا آپی! میں کسی کو نہیں بتاؤں گی۔ قسم سے۔”

"کیوں بلا وجہ بک بک کیے جارہی ہو۔ تھپڑ کھانا چاہتی ہو کیا ؟” حنا کو جیسے غصہ آگیا تھا۔ اس نے ہما کو جھڑکا مگر آواز دھیمی ہی رکھی کہ کہیں صحن میں جھاڑو لگاتی اماں کے کان تک نہ پہنچ جاۓ۔ "یہ جو تمہارے دماغ میں اس طرح کا فتور بھرا ہوا ہے نا! اس گند کو نکال پھینکو تو تمہارے لیے بہتر ہوگا اور مجھے پتا ہے یہ سارا خناس تمہارے دماغ میں وہ علینہ اور فریال ہی بھرتی رہتی ہیں۔ کتنی بار منع کیا ہے کہ ان سے دوستی ختم کر دو۔ وہ اچھی لڑکیاں نہیں ہیں مگر یہ بات تمہاری سمجھ میں ہی نہیں آتی۔”

"کمال ہے آپی! آپ تو بلا وجہ ہی ، شیطان کی دم پر دھا گا لپیٹنے لگ گئی ہیں۔ میں نے تو ایک خواب کی وجہ سے یہ سوال پوچھا تھا۔ میں نے رات خواب میں ایک لڑکے کو دیکھا….”

"جاکر اماں کو سناؤ اپنا یہ خواب۔” حنا نے تیز لہجے میں اس کی بات کاٹی۔” وہ تمہیں فورا اس کی مکمل تعبیر سمجھا دیں گی۔”

"توبہ ہے۔” ہما چڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ "آپی! آپ کو بے شک برا لگے لیکن سچ یہی ہے کہ آپ کو اب کسی سائیکاٹرسٹ کی ضرورت ہے۔ ہر وقت جلتی کڑھتی رہتی ہیں۔ بندہ کسی وقت تو سیدھے منہ بات کر لیتا ہے۔”

 وہ پاؤں پٹختی ہوئی کچن سے باہر چلی گئی اور حنا  خالی دروازے کو گھورنے گی۔ ہما کے الفاظ پتھروں کی طرح اس کی روح پر برسے تھے۔

 یوں تو بہن بھائیوں میں اکثر تلخ کلامی ہو جایا کرتی تھی مگر آج ….. آج تو ہما اس کی ذات کی ایک خامی کی نشاندہی کر گئی تھی۔ ایک خرابی ، ایک بیماری کی اصلاح اور علاج کا مشورہ دے کر گئی تھی۔ اس مشورے کی صورت اپنے متعلق ہما کے خیالات جان کر حنا کو دکھ بھی ہوا تھا اور حیرت بھی۔

حالات و ماحول کی تلخیوں اور بدصورتیوں کو نظر انداز کرتے کرتے کب اس نے خود کو بھی نظر انداز کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس کا خود ا سے بھی ٹھیک سے اندازہ نہیں تھا۔ اب اسے احساس ہورہا تھا کہ اسے تو مسکراۓ ہوۓ بھی شاید مہینوں ہی گزر گئے تھے۔ اماں کی ہر وقت کی روک ٹوک اور نصیحتوں نے اسے ایک خول میں سمٹ جانے پر مجبور کر دیا تھا۔

اماں کی فکرمندی، پریشانی اور اندیشوں کی نوعیت کو چونکہ وہ بخوبی سمجھتی تھی اس لیے خود بھی اپنے اندر عدم تحفظ کا ایک بے شکل مگر مہلک خوف پالتی آئی تھی۔ وہ آٹا گوندھنے کے ساتھ ساتھ بے اختیار سوچے گئی۔ آٹا گوندھنے کے بعد اس نے ہاتھ دھوۓ اور چولہے کے پاس آن کھڑی ہوئی۔ باقی باتوں سمیت دیگر تمام سوچوں کو بھی اس نے ہمیشہ کی طرح سر جھٹکتے ہوئے نظر انداز کر دیا تھا۔

"باہر نکل اوئے مچھل!”

اچانک باہر گلی سے ایک بھاری آواز بلند ہوئی اور ساتھ ہی کسی نے بری طرح مچھل کا دروازہ پیٹ ڈالا۔

”کون کتے کا بچہ ہے؟” اندر سے مچھل کی چنگھاڑ ابھری تھی۔

”باہر نکل ….. "کسی نے شدید غصے میں مچھل کو گالی دیتے ہوۓ للکارا۔

حنا کا کلیجا دھک سے رہ گیا۔ مچھل کے دروازے پر اس انداز میں آنے کی جرات بھلا کون کرسکتا تھا…. یقینا کوئی انجان آدمی تھا جو ٹھیک سے مچھل کو جانتا نہیں تھا یا پھر  سچ میں کوئی غیرت مند اور بہادر جوان۔ بہر حال دونوں صورتوں میں اچھے خاصے ہنگامے کے امکان پیدا ہو گئے تھے۔

"بچے کو مار کر خود کو جوان اور بدمعاش سمجھتا ہے تو….. باہر نکل …… آج تیری ساری بدمعاشی تیری ناک کے رستے نہ نکال دی تو کہنا۔ کنڈی کھول دروازے کی۔”

باہر جو کوئی بھی تھا  شدید غصے میں تھا۔ اسی لمحے  حنا کو اپنے صحن میں کچھ سرگوشیاں سی محسوس ہوئیں تو وہ فورا کچن سے باہرنکل آئی۔ خالہ عذرا اور اسد بیرونی دروازے کی طرف سے اندر آرہے تھے۔ اسد کے ہاتھ میں دہی کی تھیلی تھی۔ یقیناً وہ دونوں ایک ساتھ ہی اندر داخل ہوئے تھے۔ اماں بھی جھاڑو ہاتھ میں پکڑے برآمدے کی طرف آ گئیں۔سبھی کے چہروں پر ایک سنسنی کا تاثر تھا۔

"قصائیوں کے چھوکرے ہیں۔”  خالہ تیز اور سرسراتے ہوۓ لہجے میں اماں سے سرگوشیانہ انداز میں بات کر رہی تھیں۔ ”میرے ساتھ ہی اس گلی میں داخل ہوئے ہیں۔ آج کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے پہلے مچھل نے ہوٹل پر ناشتا کرتے ہوۓ ان کے کسی لڑکے کو اتنی بری طرح مارا پیٹا کہ وہ بے چارہ اس وقت اسپتال کی ایمرجنسی میں پڑا ہے۔” 

وہ سب برآمدے  ہی  میں کھڑے ہو گئے۔ اندر کمرے سے ہما بھی نکل آئی۔ مچھل کی طرف سے دوبارہ کوئی آواز بلند نہیں ہوئی تھی۔

"چار پانچ ہیں اور سبھی کے پاس چھریاں ہیں۔ بڑا فساد ہوگا۔ مجھے تو لگتا ہے کہ آج سچ میں مچھل کی آئی ہوئی ہے۔” صورت حال کی سنگینی کے خیال ہی نے جیسے خالہ عذرا کو ایک گھبراہٹ میں مبتلا کر رکھا تھا۔

"خدا کرے عذرا۔ "اماں نے فورا ہی جھاڑو پھینک کر دعا کے سے انداز میں اپنا دوپٹا پھیلایا۔ ”خدا کرے کہ  یہ مردود  مارا جاۓ۔ یقینا ایسے خبیث اور شیطان کوقتل کرنے والا نیکی کا کام کرے گا۔”

 "کہاں چھپ کے بیٹھ گیا ہے اب کنجر کی اولاد۔ باہر نکل ہیجڑے کہیں کے۔”  گلی سے ایک بار پھر بہ آواز بلند مچھل کو للکارا گیا تھا۔ یقینا یہ للکار اردگرد کے کئی گھروں میں گونجی ہوگی۔

"یہیں رک کسی ….. کی اولاد! آ رہا ہوں میں۔“ جوابا مچھل اندر کہیں کمرے میں سے دہاڑا تھا۔ شاید وہ بھی اپنے لیے کوئی ہتھیار اٹھارہا تھا۔

"ہائے ہائے ! میرا تو دل گھبرانے لگا ہے۔ اسد پتر! پانی پلا مجھے!”  خالہ عذرا برآمدے میں بچھی دری پر بیٹھ گئیں۔

"میں لاتی ہوں۔” ہما لپک کر کچن کی طرف بڑھ گئی۔

ککڑوں …… کڑوں مچھل کے مرغ نے جیسے اعلانِ جنگ کیا تھا۔”علی…..حیدر…..”  جواب میں مچھل کا فلک شگاف نعرہ بیرونی دروازے کی طرف بھاگتا ہوا محسوس ہوا۔ پھر مچھل کی پاٹ دار لکار بلند ہوئی۔

"اوئے! ….. (موٹی اور غلیظ گالی )بچو اب…..” وہ باہر گلی میں نکل گیا تھا۔

"تیری ماں …….”  وہ سب آپس میں بھڑ گئے تھے ۔ گالیاں، دھمکیاں ، دہاڑیں۔ یکا یک ہی گلی میں ایک شور قیامت بر پا ہو گیا۔ وہ چار تھے۔ مچھل اکیلا تھا۔ اس کے باوجود اس کی گرجدار آواز سے ایک ذرا اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ وہ کسی قسم کے خوف یا گھبراہٹ کا شکار ہے۔ بلکہ الٹا اس کی بلند آہنگ للکاروں سے ایک جوش اور ولولہ چھلکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔

ہما نے پانی کا گلاس لا کر خالہ عذرا کو تھمایا تو انہوں نے ایک ہی سانس میں گلاس خالی کر دیا۔ وہ تو گھبرائی ہوئی تھیں ہی۔ باقی سب بھی اپنی اپنی جگہ جیسے سن سے بیٹھے ہوئے تھے۔ سبھی کی دھڑکنیں اوپر نیچے تھیں۔

گلی میں ایسا ہنگامہ برپا تھا جیسے قیامت نازل ہو چکی ہو۔

یوں لگتا تھا کہ ایک ساتھ کئی بھینسے پاگل ہو کر آپس میں لڑ پڑے ہیں۔ فضا میں ایک عجیب وحشت اور ہولناکی اتر آئی تھی۔ یہ سب تو اکثر ہوتا رہتا تھا۔ سبھی جانتے تھے۔ آۓ دن مچھل نے کسی نہ کسی سے سینگ پھنسا رکھے ہوتے تھے۔ پھر آج اگر یہ سب ہو رہا تھا تو یہ کسی کے لیے کوئی نئی بات تو تھی نہیں۔

ہاں البتہ ہنگامے کی شدت اور صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اردگرد کے سبھی گھرانوں کو ہو گیا تھا اور سبھی نے یہی بہتر خیال کیا تھا کہ باہر نکلنا تو دور کی بات، جھانکنے کی بھی کوشش نہ کی جائے۔ لہذا سب اپنے اپنے گھروں میں دبکے رہے اور گلی میں مچھل اور قسائیوں کے درمیان گھمسان کا رن پڑا رہا۔

 تقریبا پندرہ منٹ تک یہ خونی معرکہ جاری رہا پھر شاید مچھل کے ایک دو دوست پہنچ گئے۔ آوازیں پھر سے تیز ہوگئیں۔ رکنے اور جھگڑا ختم کر دیے جانے کا کہا جانے لگا۔ ساتھ ہی دھمکیوں اور گالیوں کی آواز یں بھی آتی رہیں۔ آنے والے افراد ان کے بیچ پڑ گئے۔ کچھ دیر تک شور شرابا ، تو تکار ہوتی رہی پھر جیسے معاملہ بن گیا۔ پہلے آوازیں تھوڑا دور ہوئیں پھر شاید دونوں فریقین ہی اسپتال کی طرف منہ کر گئے۔

"لگتا ہے سبھی چلے گئے ہیں۔” خالہ باہر کی طرف کان لگاتے ہوۓ بیرونی دروازے کی طرف چل پڑیں۔ جبکہ وہ تینوں بہن بھائی اپنی اپنی جگہ گم  صم سے بیٹھے رہے۔ اماں نے تھوڑا سا دروازہ کھول کر جھانکا۔ گلی میں سناٹا  پھیلا ہوا تھا۔ بس ایک دو دروازوں میں سے ان ہی کی طرح جھانک کر گلی کا جائزہ لیا جارہا تھا۔

"ارے خدیجہ ……. یہ گلی کا فرش تو دیکھ!”  خالہ کی لرزیدہ آواز پر اماں نے دھیان دیا تو ان کا کلیجا کانپ اٹھا۔ گلی کے فرش پر جا بجا موجود خون کے بڑے بڑے دھبے وہاں ہونے والے خونی معرکے کی شدت کا واضح  پتا دیتے تھے۔

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے